A.NEWS

A.NEWS Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from A.NEWS, Media/News Company, .

06/03/2022

‏کرکٹ میچ سیکورٹی ڈیوٹی پر تعینات فورس کو کھانے کی فراہمی کا معاملہ، 4500 سے زائد افسران و اہلکار سیکورٹی و ٹریفک ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں، میچز کے دوران کھانے کے سابقہ مینیو کو مدنظر رکھتے ہوئے ناشتہ میں انڈا پراٹھہ اور دوپہر کےکھانے میں کباب پلاؤ بمعہ رائیتہ فراہم کیاجا رہا ہے،

‏پنجاب کانسٹیبلری، ایلیٹ اور ٹریفک پولیس کے فوکل پرسنز مقرر کر کے ان کے نام اور نمبر بھی کنٹرول پر دئیے گئے ہیں تاکہ سب کو کھانے کی فراہمی کویقینی بنایا جا سکے، کھانے کی فراہمی پر متعینہ افراد پوائنٹ ٹو پوائنٹ کھانا فراہم کرتےہیں اور بعد ازاں گاڑیاں مزیدکھانےکے ساتھ موجودرہتی ہیں

‏تاکہ اگر کسی وجہ سے کوئی رہ جائے تو اس تک کھانا پہنچایا جا سکے۔ سی پی او عمر سعید ملک کی ہدایات کے مطابق ڈیوٹی پر مامور ہر افسر و اہلکار کو ڈیوٹی لسٹوں کے مطابق کھانا فراہم کیا جا رہا ہے، تاہم سی پی او نے کھانے کی فراہمی کے پراسس کو مزید موثر بنانے کے بھی احکامات دئیے ہیں۔

‏مسجد الحرم اور مسجد نبوی میں سماجی فاصلہ کی پالیسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں داخلے کے لیے کرونا ٹیسٹ اور قرنط...
06/03/2022

‏مسجد الحرم اور مسجد نبوی میں سماجی فاصلہ کی پالیسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب میں داخلے کے لیے کرونا ٹیسٹ اور قرنطینہ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے کرونا وبا کے باعث عائد شدہ پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا

‏آر پی او راولپنڈی ریجن اشفاق احمد خان کاپاک آسٹریلیاٹیسٹ میچ کےدوسرےرو زسیکورٹی کاجائزہ،سٹیڈیم کے اطراف لگی سیکورٹی پرم...
05/03/2022

‏آر پی او راولپنڈی ریجن اشفاق احمد خان کاپاک آسٹریلیاٹیسٹ میچ کےدوسرےرو زسیکورٹی کاجائزہ،سٹیڈیم کے اطراف لگی سیکورٹی پرمامورافسران و اہلکاروں کوچیک کیا،کرکٹ میچ کےدوران سیکورٹی کو مزید بہتر بنانےکی ہدایات،کرکٹ ٹیموں،آفیشلزسمیت شائقین کی سیکورٹی کوبھی فول پروف بنایاجارہاہے،آر پی او

‏اربابِ اختیار سے مدد کی اپیلچولستانی فنکار سرندہ نواز آھڑ خان کا بارہ سالہ بیٹا شیر علی شدید علالت کے باعث چلڈرن ھسپتال...
05/03/2022

‏اربابِ اختیار سے مدد کی اپیل
چولستانی فنکار سرندہ نواز آھڑ خان کا بارہ سالہ بیٹا شیر علی شدید علالت کے باعث چلڈرن ھسپتال لاہور ایمرجنسی میں ھے۔۔۔۔۔
اربابِ اختیار سے بچے کے علاج پر خصوصی توجہ کی استدعا ھے
03023363123
‎ ‎ ‎ ‎

05/03/2022

‏آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کے ویژن کے مطابق شہداء پولیس کی فیملیز کی سرکاری اعزاز کے ساتھ کرکٹ سٹیڈیم آمد، سی پی او عمر سعیدملک نے فیملیز اوربچوں کا استقبال کیا، شائقین فیملیز کے اعزاز میں کھڑے ہو گئے تالیاں بجا کر استقبال کیا، پنجاب پولیس اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان سے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی ہے ۔وزیراعظم کا کہنا ہےکہ ارکان فکر نہ کریں م...
05/03/2022

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان سے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی ہے ۔وزیراعظم کا کہنا ہےکہ ارکان فکر نہ کریں میں کہیں نہیں جارہا۔ سب ٹھیک ہے۔

نجی tv کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والوں میں ارکان قومی اسمبلی ریاض فتیانہ ،نصراللہ دریشک اور ارکان شامل ہیں۔ ملاقات کے دوران تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی گئی ۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تحریک عدم اعتماد پر ہمارا ہوم ورک مکمل ہے اور نمبر پورے ہیں۔ تمام اتحادی ہمارے ساتھ ہیں اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے کا شوق پورا کرلے۔

پشاور میں کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں زور دار دھماکہ ہوا، دھماکے میں متعدد افراد زخمی ہوئے جن کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں...
04/03/2022

پشاور میں کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں زور دار دھماکہ ہوا، دھماکے میں متعدد افراد زخمی ہوئے جن کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ تفصیلات کےمطابق پشاور کے علاقہ کوچہ رسالدار دھماکے سے گونج اٹھا، کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں زور دار دھماکے کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے، دھماکے کی اطلاع ملتے ہیں ریسکیو ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہے، امدادی کارروائیاں شروع کردیں گئیں ، دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ دھماکے میں 11 افراد زخمی جبکہ جانی نقصان کی تاحال کوئی اطلاع نہیں۔

‏تحریک عدم اعتماد، وزیراعظم نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو فوری طلب کرلیااسلام آباد: اپوزیشن کی طرف سے تحر...
04/03/2022

‏تحریک عدم اعتماد، وزیراعظم نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو فوری طلب کرلیا

اسلام آباد: اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو اسلام آباد طلب کرلیا ہے۔ نجی چینل کے مطابق وزیر اعظم عمران خان وزیر اعلیٰ محمود خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ ون آن ون ملاقات کریں گے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اسلام آباد پہنچ گئی ہے۔ وزیراعظم اور دونوں وزرائے اعلیٰ کی ملاقاتوں میں سیاسی صورتحال اور اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔

اسرائیل کو مضبوط اتحادی کی طرح تصور کرتے ہیں: محمد بن سلمان.سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اگرمسئلہ فلسطین حل ...
04/03/2022

اسرائیل کو مضبوط اتحادی کی طرح تصور کرتے ہیں: محمد بن سلمان.
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اگرمسئلہ فلسطین حل ہوجائے تو اسرائیل ہمارا ممکنہ اتحادی بن سکتا ہے۔

امریکی جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم اسرائیل کو دشمن کی حیثیت سے نہیں دیکھتے، اسے بطور دشمن دیکھنے کے بجائے ایک مضبوط اتحادی کی طرح تصور کرتے ہیں کیونکہ ہم مل کر مشترکہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس قبل اسےفلسطین کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں نےہمارےمذہب کوہائی جیک کیا اور اپنے مفادات کےلیے تبدیل کیا، اس سے سنی اور شیعہ دونوں میں دہشتگرد گروہوں کی تخلیق ہوئی لیکن ہم اسلام کی اصل تعلیمات کی طرف لوٹ رہے ہیں

‏جمعة المبارکآذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف کا دورہ لاہورآج صبح اپنی اہلیہ کے ساتھ لاہور کی تاریخی اور قدیم بادشاہی مسجد...
04/03/2022

‏جمعة المبارک
آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف کا دورہ لاہور
آج صبح اپنی اہلیہ کے ساتھ لاہور کی تاریخی اور قدیم بادشاہی مسجد کا دورہ کیا
‎ ‎ ‎ ‎

‏ریاست جارجیا نے یورپین یونین کی رکنیت کے لئے درخواست جمع کروا دیسابق سوویت یونین کی ریاست جارجیا کے وزیراعظم نے کہا یور...
04/03/2022

‏ریاست جارجیا نے یورپین یونین کی رکنیت کے لئے درخواست جمع کروا دی
سابق سوویت یونین کی ریاست جارجیا کے وزیراعظم نے کہا یورپین یونین کا رکن بننے کے بعد دنیا کے ساتھ جارجیا کے ایک نئے دور میں داخل ہو گا، اس سے پہلے یوکرین نے بھی یورپی بلاک کا حصہ بننے کی درخواست دی ہوئی ہے

04/03/2022

نو کال ۔ PTI رکن اسمبلی کا اہم بیان ۔ نور عالم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

‏روس کا یوکرین کے شہر چرنی ہیو پر میزائلوں اور بموں سے حملہروسی فوج نے بلند و بالا رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا، حملے م...
04/03/2022

‏روس کا یوکرین کے شہر چرنی ہیو پر میزائلوں اور بموں سے حملہ
روسی فوج نے بلند و بالا رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا، حملے میں 33 معصوم شہری جاں بحق ہو گئے، مقامی شہریوں کے مطابق روسی فوج اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں پر بھی بمباری کر رہی ہے
‎ ‎

‏یوکرین میں یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی پاور پلانٹ پر روس کی بمباریپلانٹ میں آگ بھڑک اٹھی، یوکرینی وزیر خارجہ نے کہا اگر تاب...
04/03/2022

‏یوکرین میں یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی پاور پلانٹ پر روس کی بمباری
پلانٹ میں آگ بھڑک اٹھی، یوکرینی وزیر خارجہ نے کہا اگر تابکاری مواد کا اخراج شروع ہو گیا تو بہت بڑی تباہی آ جائے گی کیونکہ یہ پلانٹ چرنوبل سے 10 گنا بڑا ہے، پاور پلانٹ پر روسی حملے سے یورپ میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں

‏ترکی پاکستان آذربائیجان جوائنٹ انٹر پارلیمنٹری فرینڈشپ گروپ کا قیام تینوں ملکوں کی پارلیمان کا مشترکہ جوائنٹ گروپ ترکی ...
04/03/2022

‏ترکی پاکستان آذربائیجان جوائنٹ انٹر پارلیمنٹری فرینڈشپ گروپ کا قیام
تینوں ملکوں کی پارلیمان کا مشترکہ جوائنٹ گروپ ترکی میں قائم ہوا، اس سے پہلے پاکستان اور ترکی کے درمیان انٹر پارلیمنٹری فرینڈشپ گروپ قائم تھا جس کے چیئرمین ترک پارلیمنٹ کے رکن علی شاہین ہیں
‎ ‎

کیا وزارت انسانی حقوق ہم جنس پرستی کی حمایت کررہی ہے؟ وفاقی شرعی عدالت۔۔وفاقی شریعہ کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور مکانزئی ک...
04/03/2022

کیا وزارت انسانی حقوق ہم جنس پرستی کی حمایت کررہی ہے؟ وفاقی شرعی عدالت۔۔

وفاقی شریعہ کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور مکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی شریعت بینچ نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون کے خلاف پٹیشن پر سماعت کی۔

عدالت نے دوران سماعت استفسار کیا ہے کہ کیا وزارت انسانی حقوق پاکستان میں ہم جنس پرستی اور ایل جی بی ٹی رائٹس کو سپورٹ کررہی ہے؟ وزارت انسانی حقوق کے جواب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے عدالت نے ڈی جی وزارت انسانی حقوق کو کل طلب کرلیا۔

چیف جسٹس وفاقی شریعت عدالت نے وزارت انسانی حقوق کے قانونی مشیر سے استفسار کیا کہ کیا وزارت ہم جنس پرستی کی حمایت کررہی ہے؟ وزارت انسانی حقوق نے اپنے جواب میں یوگیاکارٹا کا ذکر کیا ہے، پتہ ہے یوگیاکارٹا کیا ہے؟

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ یوگیاکارٹا ایک اصول ہے جس کا مقصد دنیا بھر سے ایک ہی جنس کے افراد میں شادیوں کے خلاف موجود قوانین کو ختم کرنا ہے، حکومتی جواب میں ایل جی بی ٹی حقوق کی بات بھی کی گئی ہے، کس نے لکھا ہے یہ جواب؟ جانتے ہو ایل جی بی ٹی کے حقوق کا مطلب کیا ہے؟

شرعی عدالت نے مزید کہا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا قانون مجریہ 2018 ٹرانس جینڈرز کے تحفظ کیلئے بنا ہے، لیکن حکومت کے جواب سے تو لگتا ہے کہ وہ اس تحفظ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ لگتا ہے وزارت ایل جی بی ٹی رائٹس کو سپورٹ کرتی ہے۔

جسٹس انور نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل وزارت انسانی حقوق پیش ہو کر وضاحت دیں ورنہ سیکرٹری اور وزیر انسانی حقوق کو طلب کریں گے، حکومتی جواب ایسا نہیں ہوتا کہ انٹرنیٹ سے کاپی کیا اور پیسٹ کر کے عدالت میں پیش کر دیا، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

کوئی طاقت وژن 2030 کو ناکام نہیں بنا سکتی: ولی عہدسعودی ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ بہت سے لوگ...
04/03/2022

کوئی طاقت وژن 2030 کو ناکام نہیں بنا سکتی: ولی عہد

سعودی ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ بہت سے لوگ سعودی عرب کے وژن 2030 کو ناکام ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’میں بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت وژن 2030 کو ناکام نہیں کر سکتی‘۔

سبق ویب سائٹ کے مطابق امریکی میگزین اٹلانٹک کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ’وژن 2030 کو ناکام کرنے کی کوشش کرنے والے زیادہ سے زیادہ اس کی رفتار کو پانچ فیصد سے کم کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم دبئی یا امریکہ کی طرح نہیں بننا چاہتے بلکہ ہمارے ملک کی اپنی شناخت ہے، ہماری اپنی معاشی اور ثقافتی بنیادیں ہیں جن کی بنا پر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں۔‘
ولی عہد نے کہا ہے کہ ’ہم کسی اور جگہ قائم منصوبوں کی نقل نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم اپنے منصوبوں میں دنیا کو کوئی نئی چیز دینا چاہتے ہیں‘۔
’ہمارے منصوبوں میں سعودی عرب کا رنگ ہے اور یہ منفرد نوعیت کے منصوبے ہیں۔ مثال کے طور ہر العلا منصوبے کو لے لیں، یہ مقام صرف سعودی عرب میں ہے، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں۔‘
شہزادہ سلمان کا کہنا تھا کہ آاسی طرح درعیہ منصوبے کو دیکھیں، یہ دنیا کا سب سے بڑا ثقافتی منصوبہ ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ اسی طرح جدہ کے تاریخی علاقے کو دیکھیں تو یہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے جس پر حجاز کا رنگ غالب ہے۔‘
’یہی حال نیوم منصوبے کا ہے جو اپنی نوعیت کا بہت منفرد منصوبہ ہے اور اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ہے‘۔

ولی عہد نے کہا ہے کہ ’میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب میں جتنے بھی منصوبے ہیں وہ کسی دوسرے منصوبے کی نقل نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہیں‘۔
’سعودی انویسٹمنٹ فنڈ میں ہماری پاس پیسہ ہے اور حکومت کا اپنا بجٹ ہے، ہم اپنے وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے دنیا کو منفرد منصوبے دے رہے ہیں‘۔
ولی عہد نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا نہیں جیسے منسوخ کر دیا ہو یا اس پر کام نہیں ہوا، کوئی مثال ہے، نہیں ہے‘۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اٹلانٹک کو انٹرویو:
دی اٹلانٹنک: میں 2019 سے یہاں آرہا ہوں۔ ہر مرتبہ سعودی عرب کو پہلے کے مقابلے میں مزید مختلف، مزید ترقی یافتہ پایا ہے۔ 2030 قریب ہے، اور یہ تھوڑا بہت دبئی جیسا ہے، یہاں تک کہ امریکہ جیسا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا سعودی عرب کم سعودی اور دنیا کے دیگر ممالک جیسا زیادہ ہوجائے گا؟
ولی عہد: ہم دبئی کی طرح یا امریکہ کی طرح بننے کی کوشش نہیں کررہے۔ہمارے پاس جو کچھ ہے ہم اس کی بنیاد پر ارتقا کررہے ہیں، اپنے معاشی اثاثوں اور سعودی عوام کی افرادی قوت کو بروئے کار لا کر ہم کچھ اس طرح ارتقا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہم اس دنیا میں کچھ نیا شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے منصوبے منفرد ہیں جو سعودی عربی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ العلا کو دیکھیں تو یہ صرف سعودی ہے۔ ایسا کوئی اور ماڈل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ درعیہ کے منصوبے کے دیکھیں، جو دنیا کے بڑے ثقافتی منصوبوں میں سے ایک ہے، بالکل منفرد ہے۔ یہ نجدی تھیم پر مشتمل ایک ثقافتی ورثے کا منصوبہ ہے۔ اگر آپ مثال کے طور پر جدہ کے قدیم شہر کو دیکھیں اور اس کے گرد ہونے والی تعمیرات، یہ حجازی روایت ہے۔ جو منفرد ہے۔ یہ سعودی عرب ہے۔ اور اگر آپ، مثال کے طور پر، نیوم کے اہم شہر دی لائن کو دیکھیں، تو یہ منفرد ہے۔ یہ سعودی عرب کی تخلیق ہے۔ یہ کسی کی نقل نہیں ہے۔ یہ پنپ رہا ہے اور وہ تخلیق کررہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اور اگر آپ دیکھیں، مثال کے طور پر، قدیم ریاض کو جو تفریح، ثقافت، کھیلوں کے دنیا کے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے، اس کا رقبہ 300 مربع کلومیٹر ہے، جو کئی چھوٹے ممالک سے بڑا ہے۔ اور یہاں بڑے تھیم پارکس، ثقافت اور کھیل، ریئل اسٹیٹ، اور ان تمام کو اس طرح ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے جو اس سے پہلے اورلینڈو میں بھی کبھی نہیں کیا گیا یا مثال کے طور پر دنیا میں کہیں نہیں کیا گیا۔ چنانچہ ہم نقل نہیں کررہے، ہم جدت لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے سرمائے کو استعمال میں لانے کی کوشش کررہے ہیں، وہ سرمایہ جو ہمارے حکومتی بجٹ میں ہے، ایسے طریقے سے استعمال کررہے ہیں جن کی بنیادی ہماری ثقافت پر ہے یا سعودی جدت جس کی بنیادی ہے۔
دی اٹلانٹک: لیکن
ولی عہد: صرف ایک مثال دیں! یہ منصوبہ کس کی نقل ہے؟ کسی کی نہیں۔
دی اٹلانٹک: کیا آپ اس نکتے تک سعودی عرب کو ماڈرنائز کر سکتے ہیں کہ سعودی عرب کا اسلامی کردار کمزور ہوجائے؟
دنیا کا ہر ملک کسی نظریے یا عقائد کی بنیاد پر قائم کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر امریکہ کی بنیاد اس نظریات اور عقائد پر ہے: جمہوریت، آزادی، آزاد معیشت وغیرہ وغیرہ۔ اور عوام اس کی بنیاد پر متحد ہیں۔ لیکن تمام جمہوریتیں اچھی ہیں؟ کیا وہ تمام اچھے طریقے سے کام کررہی ہیں؟ بالکل نہیں۔
ہمارا ملک ان نظریات اور عقائد کی بنیادی پر قائم ہوا جن کی بنیاد اسلام پر ہے، ہماری قبائلی ثقافت، عرب ثقافت اور سعودی ثقافت کی منفرد صفات پر۔ یہ ہماری روح ہے۔ اگر ہم نے ان سے چھٹکارا حاصل کرلیا تو ہمارا ملک ٹوٹ سکتا ہے۔
ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ ہم کس طرح سعودی عرب کو ترقی اور جدت کے صحیح راستے پر ڈال سکتے ہیں، غلط راستے پر نہیں؟ اسی سوال کا سامنا امریکہ کو ہے: ہم کیسے جمہوریت، اور آزاد منڈی، اور آزادی کو صحیح راستے پر ڈالیں؟ کیونکہ یہ غلط راستے پر جاسکتا ہے۔ ہم اپنے عقائد کی نفی نہیں کررہے، کیونکہ یہ ہماری روح ہے۔ حرمین شریفین سعودی عرب میں ہے اور انہیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہم پر ہمیشہ کے لیے حرمین شریفین کی ذمہ داری ہے اور ہم اپنے ملک کو سعودی عوام کے لیے، مذہب کے لیے، اور اپنے امن اور بقائے باہمی کے عقیدے پر یقین رکھنے والی دنیا کے لیے اور دنیا بھر میں اپنا حصہ شامل کرنے کی ضرورت کے لیے۔
دی اٹلانٹک: لیکن میرے خیال میں آپ اس امر سے بھی اتفاق کریں گے کہ جس طرح اعتدال پسند اسلام کی اس وقت ترویج کی جارہی ہے، یہ اس سے بہت مختلف ہے جو ہم نے 1983 میں آپ جیسے کسی شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران دیکھا تھا۔
ولی عہد: میں ’اعتدال پسند اسلام‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کروں گا کیونکہ اس اصطلاح سے شدت پسند اور دہشت گرد خوش ہوسکتے ہیں۔
دی اٹلانٹک: وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے عزتی ہے۔
ولی عہد: یہ ان کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ ہم یہ اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔ اگر ہم ’اعتدال پسند اسلام‘ کہتے ہیں تو اس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک اسلام کو تبدیل کررہے ہیں، جو کہ سچ نہیں ہے۔
ہم اسلام کی اصل تعلیمات کی طرف لوٹ رہے ہیں، جیسے پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین نے زندگی گزاری، جو کُھلے اور پُرامن معاشرے تھے۔ ان کی حکمرانی میں مسیحی اور یہودی بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں تمام ثقافتوں اور مذاہب کی تعظیم کی تعلیم دی۔ پیغبر اسلام اور چاروں خلفا کی تعلیمات مکمل ہیں۔ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جارہے ہیں، جو اصل چیز ہے۔ ہوا یہ کہ شدت پسندوں نے ہائی جیک کرلیا اور ہمارے مذہب کو اپنے مفادات کے لیے تبدیل کرلیا۔
وہ لوگوں کو اپنی نظر سے اسلام کو دکھانا چاہتے ہیں۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ ان سے کوئی بحث نہیں کررہا، اور ان کے خلاف کوئی بھی سنجیدگی سے برسرپیکار نہیں ہے۔ چنانچہ انہیں اپنے یہ تمام شدت پسندانہ نظریات پھیلانے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ دنوں میں شدید قسم کے دہشت گرد گروہوں کی تخلیق ہوئی۔
دی اٹلانٹک: یہاں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے افراد نے کہا کہ یہ شدت پسندی 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں الاخوان سے متاثر ہونے کا نتیجہ تھی۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اس پر سعودی اثرورسوخ تھا، سعودی قدامت پسندی ایک حقیقت ہے۔
دی اٹلانٹک: وہابیت
دی اٹلانٹک: اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم الاخوان کے اثر سے چھٹکارا حاصل کررہے ہیں، یہ ایک بات ہے۔ لیکن آپ شدت پسندی کے سعودی حصے پر کیسے قابو پا رہے ہیں؟
ولی عہد: الاخوان المسلمین نے یہ تمام شدت پسندی پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ پل تھا جس سے دوسروں کو شدت پسندی کی طرف پہنچایا گیا۔ جب آپ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ شدت پسند دکھائی نہیں دیتے، لیکن وہ آپ کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اسامہ بن لادن، الاخوان کے رکن تھے، داعش کے سربراہ الظواهری الاخوان کے رکن رہے۔ چنانچہ الاخوان المسلمین ایک راستہ ہے۔ ماضی کی کئی دہائیوں میں شدت پسند گروہوں کی تخلیق میں یہ ایک اہم عنصر رہا ہے۔ لیکن محض الاخوان المسلمین نہیں۔ اس میں بہت سے عناصر اور بہت سے واقعات شامل ہیں، نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکہ میں بھی۔ مثال کے طور پر عراق پر حملہ، اس سے شدت پسندوں کو اپنا پیغام پھیلانے اور حامی بنانے کا موقع ملا۔ یہ بھی سچ ہے کہ سعودی عرب میں بھی کچھ شدت پسندوں نے، الاخوان المسلمین کے شدت پسند نہیں، اس میدان میں اپنا کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر 1979 میں ایران کے انقلاب کے بعد، اور مکہ میں مسجد الحرام کا محاصرہ کیا۔
وہابیت کے بارے میں، میں کہنا چاہوں گا کہ محمد ابن عبدالوہاب پیغامبر نہیں تھے، وہ فرشتہ نہیں تھے۔ وہ بہت سے دیگر عالموں کی طرح تھے جو پہلی سعودی ریاست کے دوران یہاں رہے، بہت سے سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے ساتھ۔ مسئلہ یہ ہے کہ داعش کسی زندہ سعودی مذہبی شخصیت کی مثال پیش نہیں کرتی، جب ان کا انتقال ہوجاتا ہے وہ ان کے الفاظ کو توڑ موڑ کر سیاق و سبق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔
ابن عبدالوہاب سعودی عرب نہیں ہے۔ سعودی عرب میں سنی اور شیعہ ہیں، اور سنیوں میں چار مکاتب فکر ہیں، اور اہل تشیع کے بھی مختلف مکاتب فکر ہیں، اور ان کو کئی مذہبی بورڈز کی نمائندگی دی گئی ہے۔ آج، سعودی عرب میں کوئی بھی اپنے مکاتب فکر کے نظریات کی ترویج ایسے نہیں کرسکتا کہ مذہب کو دیکھنے کا صرف نظریہ ہو۔ شاید ایسا تاریخ کے کچھ حصوں میں ہوا ان واقعات کی وجہ سے جن کا میں نے ذکر کیا، بالخصوص 80، اور 90 اور 2000 کے ابتدائی برسوں میں لیکن آج ہم صحیح راستے پر واپس آچکے ہیں جیسا میں نے کہا۔ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جارہے ہیں، خالص اسلام کی طرف، اس بات یقینی کو بناتے ہوئے کہ سعودی عرب کی روح، جس کی بنیاد اسلام، ہماری ثقافت خواہ قبائلی ہو یا شہری، عوام کی خدمت ہے، قوم کی خدمت، مذہب کی خدمت، ساری دنیا کی خدمت، اور معاشی ترقی ہے۔ اور گذشتہ پانچ برسوں میں ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ آج، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم یہ کرسکتے ہیں۔ شاید اگر آپ 2016 میں انٹرویو کرتے تو آپ کہتے کہ میں قیاس آرائی کررہا ہوں، اور یہ سعودی عرب کے ولی عہد کا تجزیہ ہے۔ لیکن ہم نے کیا۔ آپ اپنی آنکھوں سے سعودی عرب میں دیکھ سکتے ہیں۔ آئیں اور دیکھیں، اور سعودی عرب کی چھ یا سات سال پہلے کی ویڈیوز دیکھیں۔ ہم نے بہت کچھ کیا ہے، اور ابھی بھی کچھ کام ہونا باقی ہیں۔ اور ہم انہیں یقینی بنائیں گے۔
دی اٹلانٹک: واشنگٹن میں جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی، ہم نے سرپرستی کے قوانین اور تبدیلی کی رفتار کے بارے میں بات کی تھی، اور آپ نے مجھے اپنے فون پر ایک شادی میں کچھ مردوں کی اپنے ہتھیاروں سے فائرنگ کی ویڈیو دکھائی تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو؟
ولی عہد: مجھے یاد ہے۔
دی اٹلانٹک: اور آپ نے کہا تھا ’دیکھیں، مجھے درست رفتار سے جانا ہوگا۔ میں زیادہ تیز نہیں جاسکتا، کیونکہ افراد ایک مخصوص رفتار چاہتے ہیں۔‘ تین سال بعد اب میرا سوال ہے کہ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اب تیزی سے جارہے ہیں؟ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو قبائلی اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے؟
ولی عہد: میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کو ویڈیو اس لیے دکھائی تھی کہ آپ نے سعودی عرب میں جمہوریت کے بارے میں پوچھا تھا۔
دی اٹلانٹک: جی ہاں۔
ولی عہد: سعودی عرب میں بادشاہت ہے، جس کی بنیاد اور قیام اس ماڈل پر ہے۔ اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بادشاہت کے نیچے قبائلی اور شہری بادشاہی نظام کا ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے جیسا کہ قبائلی سردار اور شہری رہنما۔ چنانچہ ہم ایک مثال دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ نیم قبائلی بادشاہت سعودی عرب میں کیسے دکھائی دیتی ہے۔
دی اٹلانٹک: آپ کہہ رہے کہ آپ زیادہ تیز نہیں جاسکتے۔
ولی عہد: نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں سعودی عرب کو بادشاہت سے کسی اور نظام میں تبدیل نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کی بنیاد 300 سال سے بادشاہت پر ہے اور یہ ایک پیچیدہ بادشاہی ڈھانچہ ہے، ہزاروں قبائلی اور شہری ںظام اس کا حصہ ہیں کہ ماضی میں لوگ کیسے رہے اور یہ آج کے سعودی عرب کا حصہ ہے اور یہ بادشاہت کا تسلسل ہے۔ سعودی شاہی خاندان میں السعود گھرانے میں پانچ ہزار سے زائد شاہی افراد ہیں۔ ان میں سے ہیت بیعت نے مجھے منتخب کیا تاکہ میں بادشاہت کے مفادات کی حفاظت کرسکوں جو ہزاروں قبائلی اور نیم قبائلی رہنماؤں پر مشتمل اس پیچیدہ ڈھانچے کو چلاتا ہے۔ اس نظام میں تبدیلی السعود کے ساتھ بے وفائی ہوگی، سعودی عرب میں ہزاروں قبائلی اور نیم قبائلیوں کے ساتھ بے وفائی ہوگی۔ لیکن وہ تمام رہنما سعودی عرب میں تبدیلی کے لیے مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ میرا نہیں خیال وہ لوگ تبدیلی کے عمل کو سست کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے مزید کام کرنے میں مدد کی۔
دی اٹلانٹک: آپ نے مجھے گذشتہ بار بھی بتایا تھا کہ آپ کیسے سعودی عوام کو سن رہے تھے، ان کی پسند کے بارے میں جان رہے تھے، تبدیلی میں ان کی کیا دلچسپی تھی۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ ابھی آپ منزل پر نہیں پہنچے۔ آپ جو کچھ کرنا چاہتے تھے اتنا کچھ ابھی نہیں ہوا۔ کتنے قریب ہیں؟ اور جو کچھ آپ نے سوچا تھا اس سے آخری منزل کتنی مختلف ہے؟
ولی عہد: اگر میں آپ کو کہوں کہ میں نے آخری حد دیکھ لی ہے، اس کا مطلب ہوگا کہ میں ایک بہت برا رہنما ہوں۔ آخری حد دور ہوتی ہے۔ آپ بھاگتے جاتے ہیں، اور تیز بھاگتے ہیں۔ اور مزید حدیں بناتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ ہمارا عزم دوسروں سے تیز تر ہونا ہے اور دوسروں سے زیادہ حاصل کرنا ہے۔
دی اٹلانٹک: لیکن کوئی حد؟ کیا میں یہاں وہ کام کرسکوں گا جو میں امریکہ میں قانونی طور پر کرسکتا ہوں؟ یا کوئی حد ہوگی کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے؟
ولی عہد: معاشرتی طور پر
دی اٹلانٹک: جی، مثال کے طور پر؟
ولی عہد: اسلام میں مسلمانوں کے لیے کچھ اشیا ممنوع ہیں اور خدا نے اس کے لیے سزا کا تعین کیا ہے، اور کچھ دوسری چیزیں ہیں جن کے لیے خدا نے سزا کا تعین نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا فیصلہ افراد اور خدا کے درمیان ہے۔
لیکن اگر آپ غیر ملکی ہیں، اسلامی تعلیمات کا اطلاق آپ پر نہیں ہوتا۔ چنانچہ آپ ایک غیر ملکی ہیں جو سعودی میں رہ رہے ہیں یا سفر کررہے ہیں، آپ کو حق ہے کہ آپ اپنے عقائد کے مطابق جو کچھ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں جب تک کہ وہ ملکی قوانین کی حدود میں ہے۔
پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہ معاشرتی قوانین کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں کرتے تھے، اس سے قطع نظر کہ وہ مقامی شہری ہیں یا ان کے ملک میں سفر کررہے ہیں۔
دی اٹلانٹک: جس روانی سے آپ اسلامی قوانین کے بارے میں بولتے ہیں وہ سعودی حکمرانوں میں بہت ہی نایاب ہے۔ جو پوزیشن آپ لے رہے ہیں وہ بہت ہی جدید پوزیشن ہے، تاہم یہ اسلامی سکالرز میں عام نہیں ہے۔ تو کیا ہم یہ امید رکھیں کہ مستقبل میں سعودی حکمران اسلامی قوانین کے سوالات میں بذات خود دلچسپی لیں؟ ماضی میں مذہبی سکالرز ہی اس معاملے کو کنٹرول کرتے رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد: اسلامی قانون میں اسلامی اسٹیبلشمنٹ کا سربراہ ولی الامر یعنی حکمران ہوتا ہے۔ تو حتمی فیصلہ مفتی کا نہیں ہوتا بلکہ حتمی فتویٰ بادشاہ کا ہوتا ہے۔ تو مفتی اور فتویٰ بورڈ بادشاہ کے مشیر ہوتے ہیں جو کہ انہیں مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن اسلامی تعلیمات میں حکمران حتمی فتویٰ دیتا ہے اور اس کی بیعت کی جاتی ہے، تو حتمی فیصلہ سعودی عرب کے بادشاہ کا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ رائے دے سکتے ہیں، آپ کو رائے دینی چاہیے، آپ کو فقہ اسلامی، پیغمبر اسلام اور خلفا کے دور کے نظائر کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو قرآن اور حدیث کو دیکھنا پڑتا ہے یہاں تک کہ آپ اپنی بات کو واضح کرتے ہیں۔
اس کے بعد آپ کو اس بات کو یقینی بنانا پڑتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تیار ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں، اس کے بعد ہی بادشاہ کوئی فیصلہ کرتا ہے۔
لیکن اگر آپ بحیثیت بادشاہ اپنے اخیتارات کو استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں اور اس پورے پراسیس سے نہیں گزرتے ہیں، تو ایسی صورت میں سڑکوں پر مسائل پیدا ہوں گے اور یہ لوگوں کے لیے بھی ایک جھٹکا ہوگا۔
دی اٹلانٹک: میں نے سنا ہے کہ آپ حدیث متواتر کی اہمیت پر بات کرتے ہیں اور اسلامی قانون پر اس حد تک گفتگو ہم نے عموماً کسی ولی عہد یا بادشاہ سے کبھی نہیں سنی ہے۔
سعودی ولی عہد: یہی اسلامی دنیا میں پرامن مسلمانوں اور شدت پسندوں کے درمیان تقسیم کا بنیادی ماخذ ہے۔ احادیث کی تعداد دسیوں ہزاروں میں ہیں اور ان میں سے غالب اکثریت مستند نہیں اور انہی کو متعدد افراد جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر القاعدہ اور داعش کے پیروکار ایسی احادیث کو اپنے نظریات کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو بہت ہی ضعیف ہوتے ہیں اور ان کا حدیث ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔
تو یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے کہ اللہ اور قران ہمیں پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی پاسداری کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور پیغمبر اسلام کے زمانے میں لوگ قرآن اور رسول کی تعلیمات (احادیث) کو لکھ لیتے تھے تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ ان کی تعلیمات کو (احادیث) نہ لکھا جائے تاکہ بنیادی ماخذ قرآن ہی رہے۔ تو ہمیں احادیث کے حوالے سے بہت ہی محتاط ہونا پڑے گا۔
احادیث کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلی کیٹیگری حدیث متواتر کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے پیغمبر اسلام سے سنا اور ان سے اسے چند لوگوں نے سنا اور ان چند لوگوں سے مزید چند لوگوں نے سنا جس کے بعد اس کو احاطہ تحریر میں لایا گیا۔ یہ احادیث بہت ہی مستند ہیں اور ہمیں ان پر عمل کرنا چاہیے اور یہ احادیث تعداد میں بہت ہی کم ہیں جن کی تعداد 100 کے قریب ہے۔
دوسری کیٹیگری ان احادیث کی ہے جو کہ ’خبر واحد‘ کہلاتی ہیں۔ کسی ایک فرد نے حدیث پیغمبر اسلام سے سنی اور ان سے بھی فرد واحد نے سنی اور یہ سلسلہ آگے چل کر تحریر کرنے والے تک پہنچتا ہے۔ یا چند لوگوں نے اس حدیث کو پیغمبر اسلام سے سنا اور ان سے کسی واحد فرد نے سنا۔ تو اگر حدیث کے راویوں میں سے ایک فرد واحد ہے تو ایسی احادیث ’خبر واحد‘ کہلاتی ہیں۔
ایسی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ آیا یہ قرآن کی تعلیمات کے خلاف تو نہیں یا یہ حدیث متواتر میں بیان کی گئی تعلیمات کے خلاف تو نہیں اور آیا یہ لوگوں کے مفادات کے خلاف تو نہیں اور ان بنیادوں پر آپ ان کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔
حدیث کی تیسری کیٹیگری ’خبر‘ ہے۔ کسی نے اسے پیغمبر اسلام سے سنا اور اس کے راویوں میں سے بعض نامعلوم ہوں۔ اور یہی وہی لاکھوں احادیث ہیں جنہیں آپ کو ہر صورت استعمال نہیں کرنا چاہیے ماسوائے ایک استثنیٰ کے۔ اگر آپ کے پاس تو آپشنز ہوں اور دونوں اچھی ہوں اور یہ عوام کے مفاد میں ہوں۔
تو یہی وہ چیز ہے جس کی ہم نشاندہی کرنے اور شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مسلم دنیا کو احادیث کے استعمال کے حوالے سے تعلیم دی جاسکے۔
اور میرا خیال ہے کہ اس سے بہت زیادہ فرق پڑے گا۔ اس میں وقت لگے گا۔ گوکہ ہم آخری مراحل میں ہیں اور ہم اس کو آج کے بعد سے دو سال کے اندر کرسکتے ہیں۔
یہ احادیث کو صحیح طور پر تدوین کرنے کا طریقہ ہے، کیونکہ جب لوگ مختلف کتب پڑھتے ہیں تو ان کا علم، دماغ یا مائنڈ سیٹ اتنا نہیں ہوتا کہ وہ صحیح اور ضعیف احادیث میں فرق کرسکیں۔ ہم صرف یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ مستند حدیث ہے۔
دی اٹلانٹک: پھر میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ اتنی روانی اور علم کے ساتھ اس پر بول سکتے ہیں تو آپ کو مفتی کی ضرورت کیوں ہے؟ آپ اسے خود سے کرسکتے ہیں۔
ولی عہد: کیونکہ مفتی کا کام لوگوں کے روزمرہ کے معمولات اور دلچسپوں کے حوالے سے سوالات کا جواب دینا ہے۔ مثلاً اگر کوئی رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں کھاتا ہے اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ اب سے کیا کرنا چاہیے۔
کیا اس نے گناہ کیا یا نہیں اور پھر وہ مشورے کے لیے کسی سے رابطہ کرتا ہے۔ تو اس پورے پراسیس کو ریگولیٹ کرنا ہے کیونکہ ہر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں جانتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ اس کے لیے آپ کے پاس حکومت کے سرٹیفکیٹس ہونے چاہییں۔ تو افتا بورڈ اور اس شعبے میں کام کرنے والے تمام لوگوں کا مقصد لوگوں کو ان کی ضروریات کے حوالے سے سوالات کے جوابات دینا ہے۔
دی اٹلانٹک: کیا میں آپ ہی کے بیان کردہ ایک واقعے کے بارے میں بات کرسکتا ہوں؟ آپ ہی نے پیغمبر اسلام کی برداشت کا واقعہ سنایا تھا کہ لوگوں کے گناہوں پر ان کا محاسبہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ لیکن سعودی عرب موت کی سزا تواتر سے استعمال کرتا ہے اور اس پر اسے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور سعودی عرب میں ہاتھ کاٹنے اور دیگر اسلامی سزائیں دی جاتی ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو گناہوں پر دی جانے والی ان جسمانی سزاؤں کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟
ولی عہد: سزائے موت تو ہم نے مکمل ختم کی ہے سوائے ایک کیٹیگری کے جس کا قرآن میں ذکر ہے اور ہم اس کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے اور چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے کیونکہ یہ قرآن میں ہے۔
اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو عدالت جانے کے بعد مقتول کے خاندان کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ سزائے موت کا نفاذ کرے یا اسے معاف کرے۔ یا اگر کوئی بہت سارے افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے تو اسے سزائے موت دی جاتی ہے اور یہ قرآن کی تعلمیات ہیں۔ میں اسے پسند کروں یہ نہ کروں میں اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔
دی اٹلانٹک: لیکن آپ زیادہ سے زیادہ افراد کو معاف کرنے کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں؟
ولی عہد: ہم ایسا کررہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو ہم آپ کو گورنریٹس لے جاسکتے ہیں اور اگر آپ ہیڈکوارٹرز جائیں گے تو وہاں ایک پورا محکمہ اس ایشو پر کام کرتا ہے۔ اگر کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تو اس پر فوری عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس پر عمل درآمد چھ ماہ یا ایک سال بعد ہوتا ہے تاکہ مقتول کے خاندان کو سوچ بچار کرنے اور ٹھنڈے دماع سے سوچنے کا وقت مل جائے۔ اور اس طرح بڑی تعداد میں موت کی سزائیں اس طرح کے تصفیوں کے نتیجے میں منسوخ کردی جاتی ہیں۔
تو ہم اس حوالے سے اپنی ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں۔ کوڑوں کی سزائیں پورے سعودی عرب میں منسوخ کی جارہی ہیں۔ ان کو 100 فیصد منسوخ کیا گیا ہے۔ واحد ایشو اس وقت ہم جس پر کام کررہے ہیں وہ ہے کہ پورے ملک میں کسی کو بھی بغیر قانونی عمل کے سزا نہ دی جائے۔ تو اس وقت کچھ سزائیں ایسی ہیں جو جج کی صوابدید پر ہیں اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ کوئی بھی سزا ایسی نہ ہو جو قانون کے بغیر ہو اور ہم اس پر بات کررہے ہیں اور آئندہ دو سے تین سال میں اس کو مکمل روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دی اٹلانٹک: اس سے متعلقہ ایک ایشو ہے، سی آئی اے کا کہنا ہے کہ ان کی رائے اور تحقیق کے مطابق آپ نے صحافی جمال خاشقجی کو قتل یا گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ سی آئی اے کی تفتیش کے ان نتائج پر آپ کا جواب کیا ہے؟
ولی عہد: پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کا بھی اس طرح سے ناحق قتل بہت تکلیف دہ ہے۔ اور اگر کوئی پھانسی کا مستحق ہے بھی تو اسے قانونی عمل کے بعد سزا دی جائے اور اس کو اپنے دفاع کا پورا حق دیا جانا چاہیے۔ تو جو کچھ ہوا وہ بہت تکلیف دہ ہے اور ہماری خواہش ہے کہ کسی سعودی شہری یا دنیا بھر میں کسی کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو اور یہ سسٹم کی بہت بڑی ناکامی تھا اور ہم نے نظام کی خامیوں کو دور کرنے اور اس طرح کا واقعہ آئندہ نہ ہو اس کی اپنی بھرپور کوشش کی ہے۔ اور ہم اس میں ملوث لوگوں کی تفتیش کرکے ان کو عدالتوں میں لے گئے اور پھر عدالتوں نے ان کو مختلف سزائیں دی اور اس وقت وہ اپنی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ اور اسی طرح اس وقت بھی ہوا تھا جب امریکیوں نے عراق یا افغانستان یا گوانتاناموبے میں غلطیاں کیں۔ آپ نے ایک درست قدم اٹھایا اور ہم نے بھی وہی قدم اٹھایا۔
دی اٹلانٹک: لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا؟
ولی عہد: ظاہر ہے کہ میں یہ کیوں کروں گا؟
دی اٹلانٹک: ہم نے اس حوالے سے پہلے بھی گفتگو کی ہے اور آپ نے اس پورے واقعے اور تنازعے کے بارے میں ایسا کچھ کہا تھا کہ اس سے آپ کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی۔
ولی عہد: بالکل، اس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ احساسات کے تناظر میں اس سے نہ صرف مجھے بلکہ پورے سعودی عرب کو تکلیف ہوئی۔
دی اٹلانٹک: احساسات کے تناظر میں؟
ولی عہد: ہم پر الزام لگایا گیا۔ میں لوگوں خصوصاً صحافیوں کے غصے کو سمجھ سکتا ہوں اور میں ان کے احساسات کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن ہمارے بھی احساسات ہیں، دکھ ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا گیا۔ میں خود سمجھتا ہوں کہ میرے حوالے سے انسانی حقوق کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کے آرٹیکل 11 کے مطابق ہر کوئی معصوم ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ مجھے یہ حق نہیں دیا گیا۔ تو آپ مجھ سے انسانی حقوق پر بات کیسے کرسکتے ہیں جب آپ مجھے آرٹیکل 11 میں موجود میرا حق نہیں دے رہے ہیں۔ تو یہ کربناک احساسات ہیں کہ ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا گیا۔ تاہم دوسری جانب ہمیں دوسروں کے جذبات کا احساس ہے۔
لیکن میرے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس سال دنیا بھر میں 70 صحافی مارے گئے تھے۔ کیا آپ ان کے نام مجھے بتا سکتے ہیں۔ نہیں؟ آپ کا بہت شکریہ۔ کیا ساتھی صحافی کے لیے یہ حقیقی احساسات ہیں۔ مجھے ان 70 صحافیوں کے نام بتائیں جو رواں سال مارے گئے تھے۔
دی اٹلانٹک: تو آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ اس کیس کو بہت زیادہ توجہ ملی؟
ولی عہد: کیونکہ بہت سارے لوگ جو چاہتے ہیں کہ ہمارا آج منصوبہ 2030 ویژن ناکام ہو۔ لیکن وہ اس کو چُھو بھی نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ اس کی رفتار صرف 5 فیصد کم کرسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ یہ کچھ نہیں کرسکتے۔
کچھ ایسے گروپس ہیں لیکن میں کسی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ تاہم کوئی بھی جس کے پاس علم ہو وہ مغرب اور مشرق وسطیٰ میں موجود ایسے گروپوں کے باہمی لنک کو سمجھ سکتا ہے جن کا مفاد ہماری ناکامی میں ہے۔
دی اٹلانٹک: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خاشقجی آپ کے منصوبوں کے خلاف اخوان المسلمین کے دلائل کو استعمال کررہے تھے؟
ولی عہد: میں نے اپنی پوری زندگی میں خاشقجی کا کوئی ایک آرٹیکل بھی مکمل نہیں پڑھا، نہ کسی سعودی اخبار میں اور نہ امریکی اخبار میں۔ جو کچھ میں نے پڑھا وہ میری روزانہ کی بریف اور جو کچھ اہم مقامی، علاقائی اور عالمی میڈیا میں چھپتا ہے وہ۔
دی اٹلانٹک: تو انہوں نے کبھی آپ کو پریشان نہیں کیا؟
ولی عہد: میں نے کبھی بھی ان کا پورا کالم نہیں پڑھا۔
دی اٹلانٹک: کیا آپ کو یقین ہے کہ ایسا کچھ دوبارہ نہیں ہوگا؟
ولی عہد: میں اپنی پوری کوشش کررہا ہوں کہ یہاں ایسی گورننس اور ضوابط ہوں کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ یہ میری کمٹمنٹ ہے، لیکن۔۔۔۔
دی اٹلانٹک: مثلاً اگر کسی دوسرے سکواڈ کا پتا چلے تو کیا آپ کو ملک پر اپنے کنٹرول کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے؟
ولی عہد: امید ہے کہ ایسا نہیں ہے اور میں اس کو یقینی بنانے کی اپنی ہر ممکن کوشش کررہا ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں بہت نقصان ہوا ہے اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ ہو۔ وہ بہت بڑی غلطی تھی اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ دوباہ ایسا ہو۔
دی اٹلانٹک: میں خاشقجی سے صرف ایک بار ملا ہوں وہ بھی ان کے قتل سے چند ہفتے قبل۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ کیا آپ آل سعود کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا، ’نہیں میرا خیال ہے آل سعود کو سعودی عرب پر ہمیشہ کے لیے حکمرانی کرنی چاہیے۔‘
جب ان کا قتل ہوا تو یہ مجھے یاد آیا اور میں نے سوچا کہ اگر ایسا شخص جو چاہتا ہو کہ آل سعود ہمیشہ کے لیے سعودی عرب پر حکمرانی کریں، اگر ان کو دشمن تصور کیا جاتا ہے تو ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جن کو دشمن سمجھا جاتا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں خوف کا ماحول ہے۔
ولی عہد: نہیں، میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ اگر کسی صورت میں ایسا ہوتا بھی تو خاشقجی اس فہرست کے ٹاپ ہزار افراد میں بھی نہ ہوتے۔ اگر ہم بحث کے لیے فرض کریں کہ ہم ایسا کوئی آپریشن کررہے ہیں تو یہ پروفیشل ہوتا اور ٹاپ لسٹ کی کوئی شخصیت ہوتی۔
تو سوال یہ ہے کہ خاشقجی کیوں قتل ہوئے؟ یہ بہت بڑی غلطی تھی اور ہم اس طرح کے آپریشن پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم قانون سے ہٹ کر کسی آپریشن پر یقین نہیں رکھتے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے یا کوئی سعودی عرب کے لیے خطرہ ہے، یا سعودی عرب میں کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے یا باقی ماندہ دنیا کے لیے خطرہ ہے تو ہم اس کے خلاف سعودی قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ اور یہی طریقہ کار ہے جس کو ہم نے ماضی میں فالو کیا اور یہ پراسیس ہم مستقبل میں بھی فالو کریں گے۔
دی اٹلانٹک: دوسرے قتل کے علاوہ خاشقجی کے قتل نے سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خراب کیا۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ جو بائیڈن آپ سے متعلق جانیں جو وہ نہیں جانتے؟ صرف
دی اٹلانٹک: جی؟
ولی عہد: مجھے کوئی پروا نہیں۔
دی اٹلانٹک: کیا مطلب؟
ولی عہد: یہ ان پر ہے کہ وہ امریکہ کے مفادات کے بارے میں سوچیں۔
دی اٹلانٹک: سعودی عرب میں امریکہ کے مفادات کیا ہیں؟
ولی عہد: میں امریکی شہری نہیں۔ لہذا مجھے نہیں معلوم کہ آیا کہ مجھے امریکی مفادات کے حوالے سے گفتگو کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے کچھ بنیادی مفادات ہوتے ہیں۔ یہ اقتصادی، سیاسی اور امن و امان سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے۔
میں اپنے ملک کی معیشت کے پہیے کو کس طرح متحرک کرسکتا ہوں ، کس طرح ملکی امن وامان کو مضبوط بناسکتا ہوں؟ کس طرح ریاست کے اقتصادی و سیاسی تعلقات مستحکم کرسکتا ہوں؟ مجھے اس بات کا اطمینان حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے کہ میری ریاست محفوظ ہے۔ میری ریاست ترقی کررہی ہے۔ ریاست کے پاس سرمایہ کاری اور کاروبار کے مزید مواقع کیا ہیں؟ اس تناظر میں میرا خیال ہے کہ یہی امریکہ کے مفادات ہوں گے جن کا تذکرہ میں نے ابھی کیا ہے۔
سعودی عرب جی 20 کا رکن ملک ہے ،آپ 5 برس قبل ہماری رینکنگ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت گروپ 20 میں ہم 20 ویں درجے کے قریب تھے۔ آج ہم جی ٹوئنٹی میں شامل ممالک کے درمیان 17 ویں درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم 2030 تک 15 ویں درجے سے آگے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ مثلاً 2021 میں ہمارا ہدف مجموعی قومی پیداوار میں 5.9 فیصد جی ڈی پی گروتھ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 2021 میں 5.6 فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس نتیجے نے ہمیں بلاشبہ دنیا کے تیز رفتار شرح نمو حاصل کرنے والے ممالک کی صف میں شامل کردیا۔ آئندہ برس شرح نمو 7 فیصد کے لگ بھگ ہوگی۔
سعودی عرب کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ یہ جی 20 ممالک کا حصہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں تیزی سے آگے بڑھنے والا ملک ہے۔ یہ پہلو ہمیں یہ سوال کرنے کی تحریک دیتا ہے کہ بین الاقوامی امکانات کہاں پوشیدہ ہیں؟ یہ سعودی عرب میں ہے۔ اگر آپ انہیں ضائع کرنا چاہتے ہیں تو مشرق وسطی ٰمیں کئی ایسی شخصیات ہیں جو اس سے بے حد خوش ہوں گی مگر اسی کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ روکنا چاہتے ہیں۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔
دی اٹلانٹک: آپ کی مراد کن لوگوں سے ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ انہیں روکنا چاہتے ہیں؟
ولی عہد: آپ میری بات جیسی ہے اسے ویسے ہی قبول کرلیں۔
دی اٹلانٹک: ہمیں اس مسئلے پر بات کرنے دیں؟ کیا آپ چین سے اس انداز میں مطمئن ہیں جس سے ماضی میں نہیں تھے؟
ولی عہد: امریکہ کے ساتھ ہمارا طویل تاریخی تعلق ہے۔ سعودی عرب میں ہمارا ہدف امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بنائے رکھنا اور انہیں مضبوط کرنا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے سیاسی، اقتصادی، امن و امان، دفاعی اور تجارتی مفادات ہیں۔ ہمارے کئی طرح کے مفادات ہیں۔ ہمارے یہاں ان مفادات کو مضبوط بنانے کا بڑا موقع ہے۔ متعدد شعبوں میں مفادات کو کم کرنے کا بھی موقع ہے۔ اگر آپ اس حوالے سے سعودی عرب کا موقف جاننا چاہتے ہیں تو ہم امریکہ کے ساتھ تمام شعبوں میں مفادات کا استحکام چاہتے ہیں۔
کسی کو بھی ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں۔ یہ صرف ہم سعودیوں کا ہی حق ہے۔ کوئی بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سماجی امور میں آپ کا خاص نکتہ نظر ہے ، اگرآپ کا نکتہ نظر مضبوط ہے تو آپ ہم پر دباؤ ڈالنے بغیرہی منوا سکتے ہیں۔
آپ مجھے ایک مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔ ہم نے 60 یا 70 برس قبل غلامی کا نظام خود پر دباؤ سے متاثر ہوکر منسوخ نہیں کیا بلکہ یہ کام ہم نے اس لیے کیا کیونکہ اس حوالے سے بیرونی دنیا کا ہم نے اچھا اثر قبول کیا۔ سعودیوں نے بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ کی کمپنیاں ہمارے یہاں آئیں۔ ان کمپنیوں نے سعودی عرب میں کام کیا۔ ان کمپنیوں کا اثر اچھا پڑا۔ اسی لیے ہم نے طے کیا کہ غلامی غلط رواج ہے اسے جاری نہیں رکھا جاسکتا بالاخر ہم نے غلامی کا رواج ختم کردیا۔
تاریخ میں کبھی بھی دباؤ کا اچھا اثر برآمد نہیں ہوا۔ آئندہ بھی کبھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ اگر آپ کے پاس کوئی درست سوچ یا مناسب طریقہ فکر یا کوئی صحیح طریقہ کار ہے تو آپ اپنا طریقہ کار جاری رکھیں۔ اگر آپ کا طریقہ کار درست ہوگا تو لوگ آپ کے پیچھے چلیں گے اور اگر غلط ہوگا تو لوگ اپنی سوچ وفکر پر عمل پیرا رہیں گےاور آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی۔ مثلا ہم اپنے یہاں سعودی عرب میں آپ کی امریکی ثقافت کو مانتے ہیں۔ آپ کے سوچنے کے طریقہ کار کو قبول کرتے ہیں۔ آپ کے یہاں کی ہر بات کو آپ کے لیے تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق آپ سے ہے۔ ہم آرزو کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی طریقہ کار اپنایا جائے۔ ہم آپ کی بہت ساری باتوں سے جنہیں آپ درست سمجھتے ہوں اختلاف کرتے ہیں لیکن ہم آپ کی آرا کا احترام کرتے ہیں۔ ہم خود کو اس بات کا حق نہیں دیتے کہ اس حوالے سے امریکہ میں آپ کو کسی قسم کی لیکچردیں۔ اس سے قطع نظر کہ ہم آپ کے ساتھ متفق ہیں یا نہیں۔ یہی اصول ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب میں ہم اس سماجی معیار تک رسائی حاصل کرچکے ہیں جس کے ہم آرزو مند ہیں۔ اس کے باوجود ہم بحیثیت سعودی ایسی تبدیلیاں اپنا رہے ہیں جن کی بابت ہم مملکت میں پراعتماد ہیں اور ان تبدیلیوں کو اپنی ثقافت اور نظریات کی بنا پر درست سمجھتے ہیں۔
دی اٹلانٹک: کیا چین کے مسئلے پر آپ دوبارہ گفتگو کرسکتے ہیں؟
ولی عہد: سعودی عرب دنیا بھر کے تیز رفتار ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ عنقریب یہ دنیا میں سب سے شرح نمو حاصل کرنے والا ملک بن جائے گا۔ ہمارے یہاں دنیا کے دس بڑے ریاستی فنڈز میں سے دو ہیں۔ مملکت دنیا بھر میں سب سے زیادہ محفوظ غیرملکی اثاثے رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ سعودی عرب تین آبناؤں آبنائے سوئس، آبنائے باب المندب اور آبنائے حرمزکے درمیان واقع ہے۔ یہ بحر احمر اور خلیج عرب کے ساحل پر آباد ہے۔ یہاں سے 27 فیصد عالمی تجارتی سامان گزرتا ہے۔ سعودی عرب امریکہ میں 800 ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے ہوئے ہے۔ چین میں اب تک ہماری سرمایہ کاری سو ارب ڈالر سے کم ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہاں ہماری سرمایہ کاری بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امریکی کمپنیاں سعودی عرب پر بڑی توجہ مرتکز رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں3 لاکھ سے زیادہ امریکی کام کررہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے پاس دونوں ملکوں کی شہریت ہیں اور وہ مملکت میں مقیم ہیں۔ ہر روز ایسے امریکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ مفادات ڈھکے چھپے نہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ سعودی عرب کو جتنا چاہیں جیت سکتے ہیں اور کھونا چاہیں تو کھو سکتے ہیں۔
دی اٹلانٹک: اگر یہ مان لیں کہ امریکہ داخلی امور میں سعودی عرب پر اثر انداز نہیں ہوسکتا؟
ولی عہد: درحقیقت اگر آپ کسی ایسے معاملے میں ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے جسے ہم مانتے ہی ہیں تو دباؤ ڈال کر آپ اس کے نفاذ میں مشکل پیدا کردیں گے۔
دی اٹلانٹک: امریکہ اپنے اتحادیوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ آیا اس کے اتحادی کہاں تک قابل بھروسہ ہیں ۔ یہ بات امریکی مفادات یا اس کی آئیڈیالوجی جیسی پالیسیاں اپنانے کے تناظر میں دیکھی جاتی ہے۔ اگر ہم تیز رفتار معاشی شرح نمو دیکھ رہے ہوں اور اس کے ساتھ سیاسی آزادی نہ آرہی ہو یا اس کے ساتھ سیاسی آزادی کے برعکس صورتحال رونما ہورہی ہو تو ہماری رائے یہ ہوگی کہ یہ اتحادی بڑی حد تک چین جیسا ہے اور روس سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔ کیا ایسے عالم میں ہمارا غیرمطمئن ہونے کا حق بنتا ہے یا نہیں؟
ولی عہد: نہیں ہرگز نہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کو لے لیجئے۔ کیا یہاں سماجی فروغ پیچھے کی طرف جارہا ہے یا آگے کی جانب؟ آپ صرف گذشتہ 5 سالوں میں جو کچھ ہوا اسے دیکھیے جو آج ہورہا ہے اسے بھی دیکھیں اور جو آئندہ برس ہوگا اس پر نظر ڈالیں۔ یہ بلاشبہ پیشرفت کا ہی پتہ دے رہا ہے۔ اس کے لیے کسی ماہر کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف انٹرنیٹ پر ریسرچ کرلیں یا سعودی عرب کا مختصر سا چکر لگالیں آپ یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ لوگوں سے بات کیجئے۔ سعودی عرب میں آباد 33 ملین لوگوں میں سے 20 ملین سعودی ہیں۔ وہ آپ کو یہی بتائیں گے۔ سماجی تبدیلی کے حوالے سے ہم صحیح راستے پرگامزن ہیں۔ بہرالحال یہ بات درست ہے کہ حتمی مرحلہ سو فیصد آپ کے سماجی معیار کے مطابق نظر نہیں آئے گا۔ ہمیں یہ کہنے دیں کہ 70 سے 80 فیصد تک سماجی عمل آپ کے معیار پر ہوگا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج ہم جہاں ہیں وہ پچاس فیصد ہے۔ 20 تا 30 فیصد تک رسائی ہمیں حاصل کرنا ہے۔ ہم سو فیصد ویسے نہیں ہوسکتے۔ ہمارے یہاں سعودی عرب میں بعض عقائد ایسے ہیں جو ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ ان کا تعلق صرف مجھ سے نہیں بلکہ سعودی عوام سے ہے۔ میرا فرض ہے کہ سعودیوں کے عقائد کا احترام کروں۔ سعودی شہری کی حیثیت سے اپنے عقائد کے دفاع کے لیے جدوجہد کرتا رہوں۔
دی اٹلانٹک: بعض اوقات اس بات پرتعجب ہوتا ہے کہ خواتین کے مسائل سے متعلق امریکی، سعودی عرب کی کاوشوں کو خاطر خواہ طریقے سے تسلیم نہیں کرتے؟
ولی عہد: ہم خواتین کے حوالے سے جو کچھ کررہے ہیں وہ اس لیے نہیں کہ ہمارے سر اس کا سہرا باندھا جائے۔ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ، ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ عوام کی خاطر کررہے ہیں۔ اگر آپ حضرات صحیح نکتہ نظر سے معاملے کو دیکھیں گے تو آپ کا شکریہ لیکن اگر آپ اس سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تو یہ آپ کا معاملہ ہے۔
دی اٹلانٹک: کیا مستقبل میں سعودی عرب میں آئینی شاہی نظام برپا ہوسکتا ہے؟
ولی عہد: نہیں، یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ آئینی شاہی نظام کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہوگا۔ سعودی ریاست کا قیام مکمل شاہی نظام پر قائم ہے۔ اس کے تحت ہزاروں قوانین آتے ہیں۔ قبائل کے شیوخ، تحصیلوں اور بستیوں کے سربراہ ہیں۔ سعودی شاہی خاندان ہے جس کا میں نمائندہ ہوں۔ سعودی عوام ہیں جن کا میں ترجمان ہوں۔ یہ ہزاروں قوانین مملکت سعودی عرب کے فرمانروا کو اپنا قائد مانتے ہیں۔ وہی ان کے مفادات کا پاسبان ہے۔ اس کے ماننے والے تقریباً 20 ملین سعودی شہریوں میں سے 13 تا 14 ملین سعودی ہیں لہذا میں 14 ملین سعودی شہریوں کے خلاف نہیں جاسکتا۔
دی اٹلانٹک: کیا کبھی آپ کو جمہوریت کے نظریات یا کسی بھی شکل میں آئینی شاہی نظام میں کوئی کشش نظر آئی؟
ولی عہد: جی ہاں یقیناً بہت سارے پرکشش افکار ہیں۔ جمہوریت پرکشش ہے۔ آئینی شاہی نظام پرکشش ہے لیکن سارا معاملہ، مقام، طریقہ کار اور پس منظر پر منحصر ہے۔ امریکہ میں جمہوریت کا نظام شاندار ہے۔ اس سے دنیا کی سب سے بڑی قومی پیداوار والی ریاست معرض وجود میں آئی۔ اس سے پوری دنیا میں متعدد بڑے کام انجام پائے۔ لیکن یہ اس صورتحال کے تناظر میں قائم ہوئی اور ڈیزائن کی گئی جب اہل امریکہ نے برطانوی حکمرانوں کو اپنے یہاں سے نکالا اور متحدہ ریاست استوار ہوئی۔ یہیں سے آپ لوگوں نے ترقی کا سفر شروع کیا۔ اگر بطور مثال 100 برس قبل والے امریکہ کو دیکھیں گے تو آپ کو وہاں انتہائی بے ہودہ سماجی نظریات نظر آئیں گے۔ یہاں سعودی عرب میں بھی ہمارا معاملہ ایسا ہی ہے۔ بہت سارے سماجی خیالات بے ہودہ نظر آرہے ہیں اور ہمارا ملک تبدیلی لاکر ترقی کررہا ہے۔
یہ درست ہے کہ سعودی عرب مکمل شاہی ریاست ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بادشاہ اگلے دن بیدار ہوکر وہ سب کچھ کرلے جو اسے اچھا لگے۔ ہمارے یہاں ریاستی امور کو چلانے کے لیے شرعی طریقہ ہے۔ یہ بنیادی بات ہے۔ ہمارے یہاں اقتدار کا بنیادی نظام ہے۔ جس میں یہ بات صاف الفاظ میں تحریر ہے کہ مملکت میں تین ریاستی ادارے ہیں پہلا انتظامیہ جس کے قائد منسٹرز کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے بادشاہ ہیں۔ جہاں تک دوسرے دو ریاستی اداروں (عدلیہ اور مقننہ) کا تعلق ہے تو بادشاہ ان کا قائد نہیں ہوتا۔ البتہ دونوں کی تقرری کا اختیار بادشاہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی کے حوالے سے ایک مثال پیش کروں گا۔ ہم نے 2015 میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا چاہی لیکن ہم یہ کام 2017 سے قبل نہیں کرسکے۔ اس سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوجائے گی کہ ہم یہاں مقررہ قوانین کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ہم اقتدار کے بنیادی نظام کے مطابق کام کرتے ہیں اور عوام ہمارے مدنظر ہوتے ہیں۔ تاہم اگر ہم ریاستی امور اندھا دھند طریقے سے خیمہ کلچر کے مطابق چلانے لگیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ ساری معیشت زمیں بوس ہوجائے گی اور کوئی بھی سعودی عرب میں سرمایہ نہیں لگائے گا۔ سعودی عوام ہم پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ ہم اندھا دھند طریقے سے ریاستی امور نہیں چلا سکتے۔ یہ طریقہ کار قذافی کا تھا۔ سعودی شاہی خاندان حکمراں خاندان کی حیثیت سے 600 برس قبل آیا۔ انہوں نے 300 برس قبل سعودی ریاست قائم کی۔ پھر 7 برس تک یہ ریاست صفحہ ہستی سے غائب ہوگئی۔اس کے بعد دوبارہ قائم ہوئی۔ پھر 10 برس تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔ ایک بار پھر بحال ہوئی۔ ہم نے اس منظر نامے سے بہت سارے سبق سیکھے۔ خود کو بہتر کیا۔ نظام حکومت کو جدید بنایا۔ نئی نسل جو بھی آتی ہے وہ مذکورہ3 ریاستی اداروں کی بنیاد پر چلتی ہے۔
جب کوئی نیا بادشاہ آتا ہے تو نیا ولی عہد آتا ہے۔ یہ دونوں ریاستی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ یہی ادارے سعودی عرب کی طاقت ہیں۔
اسی پہلو نے سعودی عرب کو جی 20 میں شامل کرایا۔ مملکت پیٹرول کے 12 فیصد محفوظ ذخائر کی مالک ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ثابت شدہ تیل ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ مملکت کے پاس دنیا کے بڑے ریاستی فنڈز میں سے ہیں۔ یہ ایسا پہلو ہے کہ ہر آنے والی نسل اس کی بنیاد پر تعمیر و ترقی اور مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کرے گی۔ جیسا کہ امریکیوں نے گذشتہ 300 برس کے دوران کیا۔
دی اٹلانٹک: میں نے بعض سعودیوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نسل کے ساتھ شاہی خاندان کے افراد بڑھ جاتے ہیں۔ آخر میں ہوسکتا ہے کہ وہ حد سے زیادہ ہوجائیں۔ ایسا ہوگا تو شاہی خاندان کے بعض افراد کو خاندان سے نسبت کا اعزاز ہوسکتا ہے کہ نہ ملے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ ممکن ہے؟
ولی عہد: جائیے اور ان سے بات کیجیے۔
دی اٹلانٹک: مجھے پتا ہے کہ وہ کیا کہیں گے؟
ولی عہد: ہمارے یہاں سعودی عرب میں شاہی خون کا کوئی تصور نہیں۔ شاہی خاندان کی حیثیت سے ہمارا طریقہ کار عوام کی خدمت اور ان کے اتحاد کا تحفظ ہے۔ ہم عوام کا حصہ ہیں۔ مثال دینا چاہوں گا کہ میری والدہ شاہی خاندان کی نہیں ہیں۔ ان کا تعلق یام قبائل کی ایک شاخ العجمان سے ہے۔ ان کی تعداد سعودی عرب میں 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اگر آپ شاہی خاندان پر نظر ڈالیں گے تو دیکھیں گے کہ ہماری شادیاں عام لوگوں میں ہوتی ہیں۔ ہم ان کا حصہ ہیں۔ ہماری نشوونما ان ہی کے درمیان ہوتی ہے۔ ہم جزیرہ نمائے عرب کا حصہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم بنو حنیفہ کی حیثیت سے کچھ علاقوں کے حکمراں تھے۔ اسلام سے قبل بھی ہمارا راج تھا۔ ہم نے الدرعیہ ریاست ایسے وقت میں قائم کی جس کی تاریخ نامعلوم ہے۔ اس کے بعد دوسری الدرعیہ ریاست 600 برس قبل قائم کی گئی۔ 300 برس قبل سعودی ریاست قائم کی گئی۔ اس تناظر میں ہم عوام کا حصہ ہیں۔ شاہی خاندان کے کسی بھی فرد کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں جسے وہ عوام کے خلاف استعمال کرسکتا ہو۔ اگر شاہی خاندان کے کسی فرد نے کوئی شرعی حد والا کام کیا تو مملکت کے کسی بھی فرد کی طرح اسے مقررہ سزا دی جائے گی اور اگر اس نے کوئی جرم کیا تو اسے اس پر مقرر سزا ملے گی۔ سعودی عرب کے کسی بھی شہری کی طرح اسے بھی قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔ جہاں تک شاہی خاندان سے اس کی نسبت کا تعلق ہے تو یہ قابل احترام اعزاز ہے۔
دی اٹلانٹک:

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when A.NEWS posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to A.NEWS:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share