13/04/2024
بھاولنگر واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے
بھاولنگر میں پولیس اور فوج کا آپس میں صلح ہوچکی ہے، اب آتے ہیں کہ اصل حقائق کی جانب جس کی وجہ سے مُلک کے دو بڑے ادارے یعنی بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے لڑپڑا-
اصل حقائق :
بھاولنگر کے تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان پہلے پولیس میں سپاہی تھا - گیارہ سال کی نوکری کے بعد ایک امتحان پاس کرکے اے ایس آئی ہوگیا بعد میں ترقی پا کر سب انسپیکٹر ہوگیا !!! اب تک ان کو پولیس میں 24 سال ہوگئے ہیں، کافی تجربہ کار پولیس افسر ہیں کافی تھانوں میں ایس ایچ او رہ چُکے ہیں-
ایس ایچ او رضوان کے پاس ایک سپاہی علی نام کا ہے، علی اور رضوان پولیس میں کانسٹیبل ایک ساتھ بھرتی ہوئے تھے بطور کانسٹیبل گیارہ سال تک ایک ساتھ کام کیا تھا !!!! اسی وجہ سے جہاں بھی کوئی اطلاع یا ریڈ ہوتا ایس ایچ او رضوان، کانسٹیبل علی کو اپنے ساتھ رکھتا تھا
کانسٹیبل علی نے ایک ملزم سے ایک پسٹل برآمد کیا اور ایس ایچ او رضوان نے ملزم سے چالیس ہزار لے کر اُس کو چھوڑ دیا ملزم نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ اُس نے یہ پسٹل عمران نامی بندے سے خریدا ہے!!!!
کانسٹیبل علی، عمران کو گرفتار کرکے لاتا ہے اور پوچھ گچھ کے دوران عمران بتاتا ہے کہ اُس نے پسٹل رفاقت نامی شخص سے خریدا ہے!!! ملزم عمران کو بھی ایس ایچ او رضوان چالیس ہزار کی ڈیل کے بعد چھوڑ دیتا ہے !!! اب رفاقت کی گرفتاری اور “ رہائی” کی باری تھی
ایس ایچ او رضوان اور کانسٹیبل علی، رفاقت کو گرفتار کرنے چلے جاتے ہیں !!! رفاقت گھر پر نہیں تھا!!! رفاقت کے بھائی انور سے ایس ایچ او نے ایک لاکھ روپیہ مانگا کہ یا تو رفاقت کو پیش کرو یا ایک لاکھ دو !!!! انور نے حامی بھرلی کہ دوسرے دن وہ ایک لاکھ کا بندوبست کرکے ایس ایچ او رضوان کو تھانہ پر دے آئے گا
دوسرے دن انور سے ایک لاکھ کا بندوبست نہیں ہوسکا اس پر ایس ایچ او صاحب بُہت ناراض ہوئے اور انور اور رفاقت کو گرفتار کرنے اُن کے گھر پر چلے گئے!!! انور کا ایک بھائی پاک فوج میں کمانڈو ہے وہ بھی اُس وقت گھر پر موجود تھا!!! گھر پر ایس ایچ او اور انور والوں کی تقرار ہوگئی!!!
اہل محلہ بھی جمع ہوگئے اُن لوگوں نے ایس ایچ او اور کانسٹیبل علی کو پکڑ کر بٹھا لیا کہ ایک لاکھ روپیہ کس چیز کا لینے آئے ہو !!!! ایس ایچ او رضوان نے 15 پر فون کرلیا !!! 15 سے Elite force کی تین چار گاڑیاں انور کے گھر پہنچیں اور Elite force کے جوانوں نے سب بندوں کو مار مار کر گاڑیوں میں ڈالا اسی دوران انور کے بزرگ والدہ اور بھابی کو بھی مارا گیا
تھانے آکر ایس ایچ رضوان نے سب کی اچھی طرح سے دُھلائی کی یہاں تک کہ انور ورک اور دوسرے گرفتار شُدہ افراد کو پیچھے سے پیٹرول بھی ڈالا گیا اور سب کے خلاف کار سرکار میں مُداخلت کا پرچہ دے دیا گیا !!! پرچے میں عورتوں کے نام بھی ڈال دیئے گئے
ڈی پی او صاحب کو بتایاگیا کہ ڈکیتوں کا ایک گروپ پکڑا گیا ہے، ڈی پی او صاحب نے ایس ایچ او رضوان کو کہا کہ ان کو تُن کے رکھو !!!! ڈی پی او صاحب کے ایسے ایس ایچ او “ کمائو پتر “ ہوتے ہیں اور اُن کو ڈی پی او صاحب کی غیر مشروط حمایت حاصل ہوتی ہے
پولیس کے بے پناھ تشدد کی وجہ سے انور اور دیگر ساتھیوں جس میں فوج کے حاضر سروس جوان بھی تھے اُن کی حالت خراب ہوگئی!!! دوسرے دن انور کے رشتیداروں نے ایس ایچ او رضوان سے رابطہ کیا !!! رضوان نے مُبینہ طور پر اُن سے پانچ لاکھ روپیہ کا مطالبا کیا !!!! تھانے سے مایوس ہوکر انور کے رشتداروں نے ہائیکورٹ میں پٹیشن داخل کردی: ہائیکورٹ نے ایس ایچ او کو نوٹس کردیا کہ ملزمان کو ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے !!!!
ایس ایچ او رضوان نے ڈی پی او کو بتایا کہ عدالت کا ریڈ نہ ہوجائے اور ڈی پی او کی رضامندی سے ملزمان کو تخت محل تھانہ میں منتقل کردیا گیا !!!!
تھانہ تخت محل کے ایس ایچ او نے جب دیکھا کہ ملزمان کی حالت خراب ہے اور سارے لوگ پولیس کے تشدد کی وجہ سے زخمی ہیں تو ایس ایچ او تخت محل نے ملزمان کو سول ہسپتال بھاولنگر میں چھوڑ کر چلا گیا:
جیساکہ پولیس تشدد کی وجہ سے زخمیوں میں فوج کے جوان بھی تھے انھوں نے ہسپتال سے اپنے یونٹ کمانڈر سے فون پر رابطہ کیا اور یونٹ کمانڈر سول ہسپتال پہنچ گیا اور اُس کو ساری صورت حال کا وہاں پتہ چلا اور اُس نے اپنے سینئر کمانڈ کو ساری صورت حال کا بتایا !!!!
فوج کے سینئر افسران نے ہسپتال میں زخمیوں سے معلومات لیں اور انور کی والدہ، والد اور بہن کو Elite کے جوانوں زردکوب کیا تھا اور اُن کو لاتین ماری گئی تھیں اُن سے بھی پوچھ گچھ کی گئی اور بعد میں فیصلہ کیا گیا کہ ان کا بھی وہی حشر کیا جائے جس طرح پولیس نے کیا ہے !!!!!
اُس کے بعد فوج کا کیا ردعمل آیا اُس کے متعلق کچھ لکھنے کی اسلیئے ضرورت نہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر سب کچھ دیکھ چُکے ہیں:!!!!
ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے !!!! اب یہ فیصلہ قارئین نے کرنا ہے کہ قصور وار کون ہے !!!! ایسے واقعات ایسے اضلاع میں ہوتے ہیں جہاں کے ڈی پی او یا ایس ایس پی صآحبان سائلوں سے دور بھاگتے ہیںُ- تھانے کا ایس ایچ او یہ سب کچھ کررہا ہے اور اُس کو روکنے ٹوکنے اور لگام دینے والا ڈی پی او آگر اُس کے ساتھ کھڑا ہو تو اس قسم کا ردعمل آنا قدرتی بات ہے!!!!
Copied from from Facebook wall