Social Outlet

  • Home
  • Social Outlet

Social Outlet For fun and social servicesمعاشرتی اصلاح بذریعہ قلم
(2)

02/04/2023

اگر آپ کا روزہ آپ کو کسی بھوکے کو کھانا کھلانے پر مجبور نہ کرے تو یہ روزہ کیسے ہو سکتا ہے؟

02/04/2023

‏سحری میں زیادہ پانی پینا آپ کے معدے میں سٹور نہیں ہو گا
یہ خاصیت صرف اونٹ میں ہوتی ہے لہذا پیٹ کو تربیلا ڈیم نہ بنائیں
🙏

06/04/2022

بہت پیاری حدیث ھے،
براے مہربانی پورا پڑھیں

*نبی پاک صلی اللّه علیہ وسلم* نے فرمایا

جب تم کچھ بھول جاو تو مجھ پر درود بھیجو ،
انشا اللّه یاد آ جاے گا

یہ بہت قیمتی حدیث ھے
سب کو بتاؤ اپنے دل میں مت رکھو.

سوال: نماز میں دو سجدے کیوں ھوتے ھیں ؟

*جواب*: جب اللّه نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا

لیکن ابلیس نے نہیں کیا
تو اسکو مردود قرار دے کر جنت سے نکال دیا.
ابلیس کی یہ حالت دیکھ کر فرشتوں نے سجدہ_شکر ادا کیا اور کہا
*اے اللّه تیرا شکر ھے تو نے ھمیں اپنا حکم بجا لانے اور اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائی*

وہ دو سجدے آج تک نماز میں ادا کئے جا رھے ھیں.

*1: سجدہ_حکم*
*2: سجدہ_شکر*

ایک صحابی نے *حضور_پاک صلی اللّه علیہ وصلم* سے پوچھا
ھمیں کیسے پتہ چلے گا
کہ ھماری نماز قبول ھو گئی ؟

*آپ صلی اللّه علیہ وصلم* نے فرمایا :-

*جب تمہارا دل اگلی نماز پڑھنے کا کرے تو سمجھنا کہ تمھاری نماز قبول ھو گئی*

*سبحان اللّه*

کچھ لوگ ایسے میسج کو فارورڈ نہیں کرتے
تو *اللّه تعالی* نے فرمایا ھے.

*اگر تم مجھ کو رد کرو گے تو میں تمہیں اپنی نظر میں رد کر دونگا*

جب شیطان مردود نے کہا
کہ
اے رب ،
تیری عزت کی قسم ،
میں تیرے بندوں کو ھمیشہ بہکاتا رھوں گا
جب تک انکی روحیں انکے جسموں میں رهینگی

*اللّه رب العزت* نے ارشاد فرمایا :-

*مجھے قسم ھے اپنی عزت و جلال کی اور اپنے اعلی مقام کی*
*جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رهینگے، میں انکو بخشتا رھوں گا.*

*✨سبحان اللّه✨*

ھمارے *پیارے نبی صلی اللّه علیہ وصلم* کی کچھ پیاری عادات

*1:چلتے وقت نگاہ نیچی رکھتے*

*2: سلام ھمیشہ پہلے کرتے*

*3: مہمان نوازی خود کرتے*

*4: نفل نماز چھپ کر پڑھتے*

*5: فرض عبادت سب کے سامنے کرتے*

*6: بیمار کی مزاج پرسی کرتے*

*7: جب کھڑے ھوے غصہ آیا تو لیٹ جاتے*

*8: مسواک کرتے*

*9: عشاء سے پہلے کبھی نہ سوتے*

*10: کبھی کھل کر نہ ھنستے، صرف مسکراتے*

*اللّه پاک* یہ میسج اگے بھیجنے والے کی ھر جائز تمنا پوری کرے
*آمین*

جب *حضور صلی اللّه علیہ وصلم* کے وصال کا وقت قریب آیا تو *آپ صلی اللّه علیہ وصلم* نے *جبریل علیہ السلام* سے پوچھا کہ
*کیا میری امت کو بھی موت کی اتنی تکلیف برداشت کرنی پڑیگی*

تو فرشتے نے کہا
*جی*
تو *آپ صلی اللّه علیہ وصلم* کی آنکھ مبارک سے آنسو جاری ھو گیۓ

تو *اللّه تعالی* نے فرمایا :-

*اے محمد صلی اللّه علیہ وصلم آپکی امت اگر ھر نماز کے فورا بعد آیت الکرسی پڑھےگی تو موت کے وقت اسکا ایک پاؤں دنیا میں ھو گا اور ایک جنت میں*

*✨سبحان اللّه✨*

جو شخص سوتے وقت 21 بار *بسمہ اللّه* پڑھتا ھے.

*اللّه تعالی فرشتوں سے فرماتا ھے کہ اسکی ھر سانس کے بدلے نیکی لکھو*

*✨سبحان اللّه✨*

04/04/2022

افطاری: -رمضان کا مہینہ تھا افطاری کو تھوڑا سا وقت باقی تھا آج گھر میں بہت گرما گرمی تھی کیونکہ آج افطاری کی تیاری زبردست تھی بازار سے کباب اور پکوڑے منگوائے گئے تھے گھر میں ایک چکن کڑاھی بنائی گئی تھی کوفتے الگ بنے تھے ۔چٹنی، ساگ اور سلاد وغیرہ تو روز ہوتے ہیں ۔شگفتہ اور شھلا افطاری کی تیاری میں مصروف تھیں ۔شھلا کی شادی کے کچھ دن ہوئےتھے اسلئے سسرال کے طور طریقوں سے بےخبر تھی ۔شگفتہ سے بولی بہن! آج مزے کی افطاری ہوگی ۔میری منہ میں تو ابھی سے پانی آرہا ہے ۔شگفتہ خاموش رہی۔ ابھی دسترخوان پر کھانا چنا گیا ۔بڑی بی بی نے کباب، چکن اور کوفتو کے تین تین پلیٹ بنانے جبکہ ساگ و سلاد وغیرہ کے چار چار ۔دسترخوان پر بڑی بی بی اس کے میاں، تین بیٹے، دو بیٹیاں اور شھلا اور شگفتہ جو دسترخوان کے ایک کنارے بیٹیں تھی ۔بڑی بی بی نے کباب ،کوفتو اور چکن کا ایک ایک پلیٹ اپنے اور اپنے میاں اور بیٹے بیٹیوں کے سامنے رکھا ۔شھلا اور شگفتہ کے سامنے صرف ساگ وسلاد وغیرہ رکھا گیا ۔جب اذان کی آواز سنائی دی تو سب کھانے پر بھوکے بھیڑیو کی طرح ٹوٹ پڑے ۔شھلا اور شگفتہ کے ہاتھ صرف ساگ اور سلاد وغیرہ تک پہنچ سکتے تھے کھانا کھا یا گیا تو بڑی بی بی نے اپنی ایک بیٹی سے کہا "تنویر یہ بچ جانے والے کباب اور چکن کو ان کوفتو کے پلیٹ میں ڈال کر فریج میں رکھ دو کیونکہ یہ مجھے سحری میں کھانا ہے ۔شھلا اور شگفتہ ۔دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور صرف آنکھوں آنکھوں میں بڑی بی بی کی فرعونیت کا حال ایک دوسرے کو بتایا ۔کھانا کھانے کے بعد دونوں برتن دھونے لگیں تو بڑے میاں نے گرجدار آواز میں کہا کہ اللہ ان لوگوں کا بیڑا غرق کرے نا حق گل زمان کے رشتے کے لیے خوار وذلیل کیا ہمارے گھر میں کیا نہیں پکتا ۔شھلا نے شگفتہ کے کان میں سرگوشی کی کہ کاش ہمارے والدین کو تمھاری یہ حالت معلوم ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔
پیارے دوستو! افطاری کے وقت
دوسروں کا خیال رکھنا خاص طور پر گھر کا مہمان ہو یا نئی نویلی دلہن ہو یا گھر کے ملازمین
ہو۔اکثر یہ لوگ شرم کی وجہ سے
کسی چیز کی ڈیمانڈ نہیں کرسکتے آپ کو ان کا خیال رکھنا ہوگا۔شکریہ۔

29/03/2022

استاد۔۔۔۔۔
جہاں کوئی اُستاد نہ بننا چاھے، وہاں بظاہر پڑھے لکھے لیکن حقیقتاً جاہل راج کرتے ھیں.
”ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچّوں نے کہا ڈاکٹر ، انجنیئر ، آرمی آفیسر ، پائلٹ ، وغیرہ وغیرہ۔
وہ کچھ خاموش ہو گئے.
پھر لنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے۔ میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ھے اور یہ بہت خطرناک ھے...
ایوب خان صرف مسکرا دیے۔ کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ھے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ھے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔
اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا:۔ ’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔
یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:۔
ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ھے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ھے…؟‘‘
یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ:۔
’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ھے‘‘
یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن ؒ کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:۔
’’میرے استاد مولوی میر حسن ؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘
اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسنؒ کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتے۔لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔
الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شے سے بُلند ھےہے۔
کانپتے ہاتھوں سے یہ الفاظ ان اساتذہ کے نام۔۔ جنہوں نے مجھے انسان بنایا۔
میرے استاد
میرے معلم
میرے مربی
میرے مدرس........

💕تمام اساتذہ اکرام کے نام 😊 copied

27/03/2022

غلام میڈیا تحریک انصاف کے کارکنوں کے پیچھے ریسٹورانٹ جاکر ان کے آرڈر
بتاتے رہے ہیں۔شاید نوالے بھی گن رہے ہو۔دنیا کی تاریخ میں پہلی بار شاید ایسا ہورہا ہے۔

23/03/2022

‏*ہمدردی کے دو بول*

ایک دفعہ لاہور میں کچھ دوست ایک ریسٹورنٹ پر لے گئے.
ویٹر آرڈر لینے آیا
تو دوستوں نے میری طرف اشارہ کیاکہ مہمان جو کہے لے آؤ
ویٹر نے خوشدلی سے پوچھا
کیا لاؤں ؟
میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا کر کہا:
”ایک کلو مٹن کڑاہی ہلکی کالی مرچ میں, روغنی نان اور
⬇️‏خاص طور پر ہمدردی کے دو بول“

کچھ دیر ہم باتوں میں مگن رہے اتنے میں ویٹر ہمارا آرڈر لیکر آ گیا۔
تازہ لگے نان اور کالی مرچ کی کڑاہی کی بھینی بھینی خوشبو نے بھوک اور بھی بڑھا دی تھی,
کھانے پر ٹوٹنے ہی والے تھے
کہ ویٹر کی آواز نے سکوت توڑا
”اور کیا کہا تھا آپ نے“ ؟
⬇️‏میں دانت نکالتے ہوئے :
”اور ہاں-ہمدردی کے دو بول“

ویٹر نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور اپنا منہ میرے کان کے پاس کر کے بولا:
”نا کھائیں ....... کھوتا ہے“
منقول(copied)

17/03/2022

یتیم کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا:-مجھے اپنے ماں باپ کی شکلیں یاد نہیں۔مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میرے ماں باپ ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تھے ۔میں خالہ جان کے گھر رہتا تھا ان کی مالی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے پھر بھی آن کے خیال میں میری ماں کے حصہ جائیداد میں وہ کچھ لینے کے خاطر مجھے بہت معمولی قسم کے جوتے کپڑے اور سوکھی روٹی کہلارہے تھے۔جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو میں ان کے گھر مذید ناانصافیاں برداشت نہ کرسکا اور میں لاھور اگیا۔میں کھبی کھبی سوچتا تھا کہ خالہ جان کے سوا ہمارا کوئی رشتہ دار کیوں نہیں۔بحرحال لاہور میں ایک شخص مجھ پر مہربان ہوا اور مجھے کالج میں داخلہ دلوایا آور ہرقسم کی امداد کا وعدہ کرکے۔مجھے پڑھنے پر امادہ کیا۔اور یہاں تک کہ میں نے ایم بی بی ایس کیا۔ہمارے علاقے میں اپنے پرائے مل کر۔مجھے مردہ قرار دے چکے تھے۔اسکے بعد مجھے دوبئی میں ایک پرکشش تنخواہ پر جاب کا موقع ملا۔دوبئی جانے سے پہلے میں نے سوچا کہ گاؤں کا ایک چکر لگاؤں۔میرے محسن نے مجھے مشورہ دیا کہ گاؤں میں کسی کو اپنی تعلیم کا ذکر نہ کر آور یہ کہ چچا سے جائیداد کا کوئی مطالبہ بھی نہ کر۔جب میں خالہ جان کے گھر آیا تو لوگ مجھے پہچاننے سے قاصر تھے۔پھر بھی میرے درجن بھر رشتہ دار نکلے یہ تمھاری پھوپھی یہ تمہارا مامو،بہت سے عجیب لوگوں سے میرا تعارف ہوا۔باتوں باتوں میں کسی نے مجھے بتایا کہ تیرے چچا اور خالو نے تیری جائیداد آپس میں بانٹ لیا ہے۔میں نے کہا میری کوئی جائیداد نہیں اور سیدھا واپس آیا۔اسکے بعد دوبئی چلا جہاں میں نے خوب پیسہ کمایا اور ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کی۔دس سال بعد میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ واپس آیا اؤر لاہور میں ایک ہاسپٹل بنایا
جہاں ایک درجن سے زائد ڈاکٹرز اور بہت سے لڑکے اور لڑکیاں بطور نرس وغیرہ میرے ساتھ روزگار پر ہیں۔
میرا سسر سپریم کورٹ میں ایک مانا ہوا وکیل ہے ۔میرے نہ چاہنے کے باوجود میری بیوی نے میرے چچا اور خالو کے خلاف جائیداد چھڑوانے کے لیے کیس چلایا۔کیس تو بآسانی ہم نے جیت لیا مگر عدالت نے تیس سال جائیداد کی آمدن جس کا اندازہ ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے لگایا گیا مجھے دلوانے کے حق میں فیصلہ صادر کیا ہےایک دن لاہور میں میری حویلی کے صحن میں گاؤں سے بہت سارے لوگ آئے تھے تاکہ میں چچا اور خالو کو ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے معاف کرو۔میں نے معافی کا سوچا لیکن میرے گھر والوں کا موقف تھا کہ ان کو معاف کرنا دوسرے یتیموں کے مال کو ہڑپ کرنے کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔پس ایک کروڑ چالیس لاکھ کے عوض چچا اور خالو کو اپنی اپنی جائیداد کے کاغذات
میرے نام کرنے پڑے۔میں نے وہ تمام جائیداد فروخت کی اور اس کی قیمت پر ایک یتیم خانہ بنایا۔میں نے آس یتیم خانے کی آمدن کے لیے لاہور میں بہت سارے مارکیٹس اور
دوکانیں خریدلی۔اج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سو سے زیادہ یتیم بچے یتیم خانے میں رہتے ہیں۔میری بیوی خود یتیموں کے دیکھ بھال کرتی ہے اور ان کی تعلیم اور صحت کا خیال رکھتی ہے۔کل میں نے اپنے اس چچا اور خالو کو ایک بازار میں بھیک مانگتے دیکھا۔بے اختیار میرے
منہ سے نکلا
تعز من تشاء وتذل من تشاء.
سردرازخان سوشل آؤٹ لٹ

15/03/2022

پاکستانی سیاستدانوں کے شرمناک رویے:-پیارے دوستو ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے ملک جتنا خوبصورت اور قدرتی وسائل سے مالا مال دیا ہے اتنا ہی سیاستدان بہت ڈیٹ،نالایق،کرپٹ،بےشرم حرام خور،کمیشن خور،ضمیرفروش اور
عزت کی قیمت پر کرسی کے بیچھے بھاگنے والے اور سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے والے دیے ہیں۔اج کل ملک میں جو سیاست ہورہی ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانا،ایک دوسرے پر الزامات لگانا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچا۔ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنا اور بس۔تحریک عدم اعتماد
عمران خان صاحب قوم کو ایسا دکھاتا ہے جیسا کہ اپوزیشن نے ایک خونخوار بھیڑیے کو کھلا چھوڑ دیا ہے جو سارے عوام کو
چیر پھاڑ کر خون پینے والا ہے یا
کوئی قیامت صغریٰ آنی والی ہے۔
ارے نالائق خان سب لوگ جانتے ہیں کہ جمہوری ملک میں عدم اعتماد اپوزیشن کا آئینی حق ہے۔
آگر آپ سے اپنے ممبرز یا اتحادی ناراض ہے تو آپ کو حکومت کا حق بھی حاصل نہیں۔عوام کو کیا فرق پڑیگا آپ کی جگہ جو وزیراعظم آیگا شاید آپ سے ملک وقوم کے لیے اچھا ہو۔اپکے وزراء
سے شاید نئے وزیر اچھے ہو اور اگر اچھے نہ بھی ہو تو آپ اور اپکی ٹیم نے عوام کو کیا دیا۔ہر سفید پوش کو رزق حلال کمانے کے لالے پڑ گئے ہیں روزانہ کی بنیاد پر ہر چیز مہنگی ہورہی ہے۔میرٹ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتا۔رشوت کا بازار گرم ہے۔سٹیٹ بینک کو ائی ایم ایف کے حوالے کیا۔ تمام سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہیں پچھلے ستر سال کے برابر قرضے لیکر ملک کا بچہ بچہ لاکھوں کا مقروض بنایا۔اتنے نالائق حکمران پاکستانی قوم نے اس سے پہلے کھبی نہیں دیکھے تھے جو عوام کو مہنگائی کے فوائد گن رہے ہو
دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کو دیکھو کہ صرف عمران خان کی برائیاں انہیں نظر آتی ہیں۔اس سے پہلے ستر سال ان ہی لوگوں نے پاکستان پر حکمرانی کی بینک بیلنس بناکر یورپ کے بینکوں کو
پہنچایا۔ہر قسم کے کرپشن اور بدعنوانیوں میں شامل تھے۔بس آج یہ لوگ اچھے بن گئےہیں مجھے یاد ہے کہ ان کے دور میں ایک ڈپٹی سیکریٹری خزانہ نے اتنے روپے چوری کیے تھے کہ مشینیں گن گن کر تھک گئے۔یہ وہی لوگ ہیں
جن کی کارستانیوں سے تنگ آکر عوام نے عمران خان جیسے ناہنجاڑ
آدمی پر بھروسہ کیا۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔"آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔پیارے دوستو ! دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوریت چل رہی ہے مگر ہم نے کسی ملک میں اس طرح کی سیاست نہیں دیکھی۔
ہمارا ہمسایہ بھارت میں حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر کھبی فوج نے حکومت گرائی نہ مارشل لاء لگایا۔اور ہمارے والے ببانگِ دہل
کہتے ہیں کہ فوج میرے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس جنت نظیر ملک کو نیک اور اہل حکمران عطا فرمائے اور ان تمام جھوٹوں سے نجات دلائے۔اور ہم پر اپنا رحم
کریں آمین۔سردرازخان ایس ایس ٹی باغ میدان۔

14/03/2022

بیٹا اور بیٹی:-بسم آللہ الرحمن الرحیم۔عظیم خان بینچ پر پریشان بیٹھاتھا وہ بار
بار ایک دروازے کی طرف دیکھتا تھآ۔اخر ایک معمر خاتون باہر ائی۔مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا اور ایک بیٹی دی۔اس خاتون نے
عظیم خان کو مخاطب کیا۔عظیم خان بہت
خوش ہوا ۔کچھ دیر بعد اس کی ماں اور بیوی
باہر آئیں ماں نے بھی بیٹے کو مبارکباد دی کہ
بیٹا مبارک ہو بیٹا آور بیٹی۔
عظیم خان نے بچوں کا عقیقہ کیا۔بیٹے کے لیے
دو اور بیٹی کےلیے ایک دنبہ زبح کیا
ہمسائیوں آور رشتہ دار خواتیں مبارکبادی کیلیے ائیں ہر ایک بولتی بیٹا اور بیٹی مبارک ہو کسی نے ایسا نہیں کہا کہ بیٹی اور بیٹا مبارک ہو۔اگر ان بچوں کے نام پیسے دیتے تو لڑکی کو لڑکے کے نصف دیتے تھے۔
جب بچوں پر نام رکھنے کا مشورہ شروع ہوا
تو پہلے لڑکے کے لئے نام تجویز ہوا بعد میں لڑکی کے لیے۔لڑکےکا نام دولت خان اور لڑکی کانام بس بی بی تجویز ہوا۔ یہ اسلیئے کہ لڑکے کے نام سے دولت کا لفظ جوڑ کر برکت کی نشانی سمجھی گئی جبکہ لڑکی کا نام ایسا ہو کہ مزید پیدا نہ ہوجائے
دونوں بچوں کو جھولے میں سلا دیتے مگر
صحیح سمت میں دولت خان جبکہ الٹی سمت میں بس بی بی۔
جب دونوں روتے تو پہلے دولتِ کو دلاسہ ملتا
بعد میں بس بی بی کو ۔ماں پہلے دولتِ خان کو
دودھ پلاتی اور بعد میں بس بی بی کو۔
جب بچے ذرا بڑے ہوئے اور باتیں سمجھ آنا شروع ہوئیں۔توبس بی بی کو اندازہ ہوا کہ ان کی حیثیت ثانوی ہے۔جب ذبح کر کے نہاری پکتی
تو دولتِ خان کو بس بی بی کا دوچند دیا جاتا
اگر بیمار ہو تے تو دولتِ خان کا علاج فوراً کیا جاتا تھا اور بس بی بی کے علاج میں اکثر عظیم خان ٹال مٹول کرتا۔
اگر عید پر عیدی دی جاتی تو دولتِ خان کو بس بی بی کے دوچند ملتے۔
ان حالات میں بس بی بی نے پرورشِ پائی۔اس کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوئی کہ لڑکی لڑکے
کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
یہ ہیں ہماری روایات کہ زندگی کے ہر موڑ پر
بیٹی کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔یہی تو وجہ ہے کہ ہماری بہنیں اپنا حق بھی نہیں مانگ سکتیں اور ۔احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔مگر اگروالد یا والدہ کو معمولی تکلیف یا پریشانی لاحق ہوتو بیٹا کوئی پرواہ نہیں کرتا
اور بیٹی کا دل ماں باپ کے دل کے ہر دھڑکن
کے ساتھ دھڑکتا ہے۔اگر ماں باپ مر جائے تو
بیٹی کا غم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ایک سچا واقعہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کی ماں بیمار تھی۔ڈاکٹر کی تعلیم و تربیت میں ماں نے فاقے
تک برداشت کیے تھے۔مگر جب ماں ڈاکٹر سے
فریاد کرتی تو ڈاکٹر صاحب ماں کی تکلیف کو
عورتوں کا مکر سمجھ کر کوئی خاص علاج نہ کرتا۔اخر ایک دن ماں کی تکلیف میں بہت شدت ائی۔گھر والوں نے ڈاکٹر صاحب سے التجاء کی کہ ازراہِ کرم ماں جی کو بہت تکلیف
ہے۔اپ زرہ معائنہ کریں۔ڈاکٹر نے جواب دیا کہ
ماں کو کوئی تکلیف نہیں یہ اس کا مکر ہے
اپنی ماں کا معائنہ نہیں کیا چند گھنٹے بعد ماں
فوت ہوئی۔

ایسے بیٹوں کے لیے ماں باپ ہر جائز اور ناجائز
طریقوں سے کماتے ہیں۔اوربیٹیوں کو محروم
رکھتے ہیں۔اور مرنے
کے بعد بیٹیاں ہی ماں باپ کو دعائیں دیتی ہیں۔
آئیے کہ اپنی بیٹیوں سے پیار کرے ان کی بہترین تربیت کریں اور ان کیلئے مرنے کے بعد
وراثت میں شرعی حصہ دینے کی وصیت آور
تاکید کرے کیونکہ آج کے معاشرے میں خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کارواج نہیں۔اوربھائیوں کو بھی چاہیئے کہ بہنوں کو پورا
حق بخوشی ادا کرے تاکہ روز قیامت بہن کے حق کی وجہ سے جہنم کے ایندھن نہ بنے
پوسٹ پڑھنے کا بہت بہت شکریہ اور بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کی درخواست۔
سردراز خان ایس ایس ٹی باغ میدان۔

10/03/2022

بسم اللہ الرحمن الرحیم:-کہانی سسکیاں :آج کشمالہ بہت خوش تھی ۔ظھر جلدی جلدی پڑھی حالانکہ وہ آرام سے نمازپڑھنے کی عادی تھی ۔کشمالہ ایک پچاس سالہ بیوہ تھی ۔دراز قد، پر نور چہرہ ،خوش اخلاق اور نیک سیرت خاتون تھی ۔قرب و جوار کے سب لوگ اس کی عزت کرتے تھے ۔جب بات کرتی گویا شکر کی ملاوٹ کی ہے ۔
آج اس کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ آج اس نے اپنے بھائی گل اکبر کو dinner پر دعوت دی تھی ایک بہن کے لیے
بھائی کا اس کے گھر آنے کی خوشی صرف اللہ ہی جانتا ہے
اس کا بھائی سعودی عرب میں پچھلے پانچ سال سے مقیم تھا
خوب دولت کمانے کے بعد آیا تھا ۔مگر بھائی اور بہن کے عادات و اطوار میں زمین و آسمان کا فرق تھا ۔وہ ایک بخیل، بداخلاق اور انتہائی بےپروا شخض تھا ۔اس کی بیوی نے اختر اور اصغر کو نہلا دھلا کر باپ کے ساتھ دعوت جانے کےلئے تیار کیا تھا۔پھر خود شوہر کے پاس آکر
سمجھا یا کہ بہن کی دعوت ٹکرانا نہیں چاہیے، بہنوں کو بھائی بہت عزیز ہوتے ہیں ۔دعوت ٹکرانے سے اس کا دل پھٹ جائے گا ۔لیکن گل اکبر نے بغیر کسی وجہ دعوت سے انکار کی قسم کھائی تھی ۔گھر کے تمام لوگوں نے منت سماجت کی مگر اس نے نہیں مانا ۔ادھر شمالہ انتظار کر کر کے تھک گئی تھی ۔ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ اس کی بیقراری میں اضافہ ہوتا تھا ۔پھر اپنے دل کو خود تسلی دیتی کہ بھائی ایسا نہیں کر سکتا ہے شاید کسی کام کی وجہ سے لیٹ ہوا ہو ۔
کشمالہ کی مالی حالت کمزور تھی ۔لیکن کسی سے قرض لے کر انواع و اقسام کے کھانے بنائے تھے ۔اب سورج ڈھلنے کے قریب تھا ۔کشمالہ گھر کے دیوار کے ساتھ کھڑی تھی ۔اس کے آنکھوں سے گرم گرم آنسو اس کے مایوس چہرے سے گزر کر
گریبان پر گرتے تھے ۔
اب اندھیرا چھا نے والا تھا وہ اب بھی منتظر تھی ۔اس کی بہو آئی اور کہا اماں جان ماموں جان کو نہیں آنا ہے ۔آئیے
میرے ساتھ ۔جب بہو نے شمالہ کا ہاتھ پکڑا تو اس کے آنسو سسکیوں میں بدل گئے اور سسکیاں تیز ہوئیں اس کے منہ سے بے اختیا ایک چیخ نکلی وہ اپنا توازن کھو بیٹھی ۔
زمین پر گر کر بے ہوش ہوگئی ۔جب دوسرے دن اس کی انکھ کھلی تو اس کے سامنے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال کے
ایک ڈاکٹر اور ایک نرس کھڑی تھی ۔

10/03/2022

چچا ساغر نے ایک من تول کر دکھایا:-میرا کیا کہے گا۔اناج خریدنی تھی تو چچا ساغر سے مانگا۔چچا نے اتوار کے دن اناج تول کر دینے کا وعدہ کیا۔میں ںسویرے پہنچا مجھے معلوم تھا کہ شکی مزاج چچا اناج تول کر دینے میں ضرور دیر لگائے گا۔چچا نے دوکاندار سے ترازو اور باٹ منگوائے۔ابھی تولنا شروع کیا اور تھوڑی دیر میں پانچ تک پہنچے کہ ایک مرغی آئی کڑت کڑت کرکے دانہ لینے کی کوشش کی چچا کو غصہ آیا۔مرغی کو برا بھلا کہنے لگا۔میں نے دلاسہ دیا کہ خیر چچا کوئی بات نہیں
وہ مجھ پر بھی چلائے کہ وہ حساب بھول گئے میں نے کہا چچا پانچ تک گنے تھے،تمھارے پاس کیا ثبوت آگر چھ تول چکا ہو تو نقصان کون بھریگا۔میں خاموش ہوا چچا نے دوبارہ تولنے کا ارادہ کیا جب تین تک پہنچے تو ترازو کےپلڑے کی رسی ٹوٹ گئی۔چچا غصہ سے آگ بگولہ ہوگئے۔دوکاندار کو برا بھلا کہنے لگا۔خیر رسی کو گرہ لگانے کا مسئلہ آیا۔پڑوس میں آغا جی گرا لگا سکتا تھا۔میں نے کہا چچا گرہ میں لگاونگا بولے کہ نہیں تمھارا تجربہ گرہ لگانے میں نہیں۔ترازو کو لیکر آغا جی کے گھر چلا اغاجی گھر پر نہیں تھے ایک گھنٹہ انتظار کے بعد آغا جی تشریف لائے چچا نے ان سے گرہ لگانے کی درخواست کی گرہ لگا اور چچا واپس آیا۔لیکن حساب کو پھر ایک سے شروع کیا جب چار پر پہنچے تو رمشا نے زور سے آواز دی کہ بابا چائے کب پینی ہے چچا ساغر نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اگلا ہندسہ پانچ کے بجائے سات بولا میں نے کہا کہ چچا پہلے چار تول ہوچکے ہیں وہ بولا نہیں،میں تھوڑا سا پریشان ہوا تو چچا نے کہا کہ دوبارہ ایک سے شروع کرتے ہیں۔لہذا پھر ایک سے شروع ہوا۔جب سات پر پہنچے تو چچی نے کہا"چنو کے ابو چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔چچا نے کہا کہ میں بھول گیا کہ چھ تک تول چکا ہو یا سات تک۔ہم نے بولا سات تک وہ نہیں میرے کانوں میں چھ کی آواز گونج رہی ہے۔خیر پھر ایک سے شروع ہوا جب نو پر پہنچے تو تولے ہوئے اناج کا جائزہ لیا بولے کہے حساب میں غلطی تو نہیں ہم نے کہا بلکل نہیں بولے اگر ہوئی ہو تو پھر نقصان کون بھریگا۔اتنے میں چچی آئی
اور دھاگہ ساتھ لائی چچا ساغر سے کہا کہ جب ایک تول ہوجائے تو دھاگے کو ایک گرہ لگانا اسی طرح غلطی کا امکان بلکل نہیں رہیگا۔چچا کو مشورہ پسند آیا اور دھاگے کو ایک ستون سے لٹکایا۔تول کر گرہ دینے لگے۔اتنے میں ہمارا دھیان کہیں آور تھا کہ منی دھاگہ توڑ کر بھاگا۔تمام محنت ضائع دوسرا دھاگہ منگوایا اور چچی سے کہا کہ اس دفعہ دھاگے کی حفاظت وہ خود کریگی۔چچاتولنے لگا اور چچی گرے لگاتی رہی جب دس گرے لگے تو چچی نے چچا ساغر کو مزید تولنے سے منع کیا۔چچا نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور غرور سے کہا اتنا کام نہیں تھا مگر
چنو کی امی۔۔؟۔
Just for fun

09/03/2022

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔کہانی :-سوکن :-ہمارے معاشرے میں سوکن کے رشتے کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر کھبی کبھار ایسے رشتے بھی خوشیاں دیتی ہیں ۔کہتے ہیں کہ کسی گاوں میں گل ملا
اور سیدملا دو بھائی رہتے تھے دونوں شادی شدہ تھے مگر اللہ تعالی کی مرضی یہ تھی کہ گل ملا کی اولاد نہ تھی اور سید ملا کی پانچ بیٹیاں تھیں اور سب سے چھوٹا ایک لڑکا بشیر تھا ۔بشیر بہت پیارا بچہ تھا سب بشیر سے بہت پیار کرتے تھے ۔
کچھ عرصہ بعد دونوں بھائی ایک دوسرے سے علیحدہ ۔
ہوئے اور گھر میں دیوار کھڑی کی ۔گل ملا کی بیوی ہر وقت
شوہر سے کہتی کہ میری قسمت میں اولاد نہیں ہے اپنے لیئے
دوسری شادی کرے مگر اس کا موقف تھا کہ اگر اللہ کو
منظور ہوا تو تمہاری بطن سے بھی دے سکتا ہے ۔اسی طرح دوسری شادی سے انکاری تھے۔
وقت گزرتا گیا اور سید ملا کا بیٹا بشیر ابھی پورا بالغ بھی نہیں تھا کہ ماں نے
بیٹے کے لیے منگنی کا ارادہ کیا
کچھ دنوں کے بعد منگنی کی تاریخ طے ہوئی ۔سب رشتہ دار
خوشی کے اس موقع پر مدعو کیے گئے مگر بشیر کی ماں نے
اپنی دیورا نی کو دعوت نہیں دی کیونکہ ان دونوں کے مابین اکثر تعلقات ناساز ہوتے تھے ۔اس بیچاری نے نئے کپڑے سلواے تھے ۔زیورات کو سنار سے صاف کیے تھے ۔کافی تیار بیٹی تھی ۔جب سب رشتہ دار منگنی کی تقریب پر چلے گئے مگر وہ بیچاری گھر میں اکیلی رہ گئی اور سوچوں میں گم ہوگئی کہ مجھے اس لیے چھوڑا کہ میری اولاد نہیں ۔اور واقعی بات بھی ایسی ہی تھی آج اسے ایک فیصلہ کر نا تھا
ایک سخت فیصلہ اور آخر کر ہی لیا اس نے اپنی نقاب پہنی
اور گھر سے سیدھی بی بی جان خالہ کے گھر پہنچی ۔بی بی جان ایک بوڑھی بیوہ تھی اور رشتے ناطے جوڑنے کی ماہر تھی ۔اس نے بی جان سے کہا کہ خوشبو(کپڑے کا نام ہے )
کا بہترین جوڑا تمھارے لیے خریدوںگی اگر میرا کام کیا
بی جان نے کہا کہ یہ تو میرےبائیں ہاتھ کا کام ہے
قریبی گاؤں میں ایک لڑکی تھی تھوڑی سی ماند خوبصورتی کی وجہ رہ گئ تھی بی جان نے اتنی تعریفیں
کیں کہ لڑکی کی ماں آسانی سے مان گئی ۔اور آخر کار گل ملا
خان کی شادی ہوئی ۔اللہ تعالی نے پانچ چھ سالوں میں گل ملا کو چار پھول جیسے بیٹے دیےدوسری طرف اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ قریبی علاقے میں زمین کے تنازعہ پر دو گروہوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں تین راہگیر شدید زخمی ہو گئے تھے ۔ان میں بشیر بھی شامل تھا اور زخموں کا تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا ۔بشیر کے ماں اور بہنوں نے چیخوں سے زمین و آسمان ملایا مگر رونے سے مردے کب زندہ ہوتےہیں ۔وقت کا پہیہ رواں دواں
تھا سید ملا کی بیٹیاں بیاہ ہوئیں اور سیدملا اور اس کی بیوی اکیلے رہ گئی ۔گل ملا کے بیٹے جوان ہوئے اور کچھ عرصہ بعد سید ملا نے دوسری شادی کی خواہش ظاہر کی مگر بیوی نے سختی سے منع کیا۔
سید ملا وفات ہوا اور اس کی بیوی بلکل اکیلی رہ گئ
اس کا گھر اجھڑ گیا ۔گل ملا کے بیٹوں کی شادیاں ہوئیں
ان کے پوتے پوتیاں پیدا ہو ئے اس کے گھر میں سوکن
کی اولاد کی وجہ سے رونقیں تھیں جبکہ سید ملا کی بیوی
نے ایک بلی پالی تھی اس کے ساتھ مشغول رہنے کی کوشش
کرتی۔جب وہ مرگئ تو تین دن بعد لوگوں کو پتہ چلا ۔یہ
اس لیے کہ وہ
سوکن بر داشت نہ کر سکتی تھی ۔سیدملا
کا تمام جائید اد گل ملا کے بیٹوں نے تقسیم کی ۔اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہا ۔ع نیرنگی سیاست دوران تو دیکھئے ۔ ۔منزل انہیں ملی جو ہم سفر نہ تھے۔شکریہ

07/03/2022

پارٹی وڈیرے:-اساتذہ خالی پیریڈز میں آج کل سیاست ہی چھیڑتے ہیں۔اج ایک ساتھی نے تبصرہ کیا کہ بھائی جماعت اسلامی اچھی جماعت ہے ہم سب جماعت اسلامی کو ہی سپورٹ کرتے ہیں مگر جب جیت جائے تو علاقے کے پانچ چھ بندے ہی روز اول سے فائیدہ اٹھاتے ہیں۔دوسرے ووٹرز یا سپورٹرز کا کوئی نہیں پوچھتا۔کسی نے کہا کہ بھائی واضح الفاظ میں بیان کریں کیا مطلب ہے تمھارا۔بولے فلان مرضی کا سکول
لیتا ہے۔فلان بہت جونیر اور ناہل ہونےکے باوجود asdeoفلان کے تمام بیٹے کلاس فور کے حقدار۔فلان کے لیے ایک کروڑ کا ڈنگہ۔
فلاں فلاں کے گھر کے سامنے لاکھوں کے کنویں چند کو سڑک پختہ کرنے کے ٹیکے جس میں پچاس فی صد منافع لیکر مہنگے گاڑیاں خریدے۔
دوسرے ساتھی نے کہا کہ دوسرے پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔پی ٹی آئی سے بھی چند لوگ فائیدہ
اٹھاتے ہیں۔باقی ووٹرز کو گھاس بھی نہیں ڈالا جاتا ہے۔
میں نے سوچا کہ میرا گھر لب سڑک ہے،میرے گھر کے قریب پرائمری سکول آور ہسپتال بھی ہے
میں اہلیت کی بنیاد پر بھرتی ہوکر
الحمد للہ اچھی خاصی تنخواہ لے رہا ہوں۔میرے بیٹے نے کمیشن پاس کرکے قریبی بڑے ہسپتال میں ایم او ہے۔اسی طرح آج تک جماعت اسلامی یا کسی اور پارٹی سے ایک روپیہ کا فائیدہ نہیں لے چکا ہوں۔میں کیوں ووٹ دیکر ان کے کرپشن میں حصہ ڈالو۔اچھا ہے
کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا۔
جماعت اسلامی کا ایک رکن اس محفل میں بیٹھا تھا۔انہوں نے کہا کہ تم سب نے حقیقت بیان کی میں بھی آس دفعہ دیکھتا ہو کہ اگر جماعت کے منتخب نمائندے نے
عام کارکن کو اہمیت نہیں دی تو میں جماعت اسلامی کے رکنیت سے استعفیٰ دونگا۔
جماعت اسلامی کے میرے نامزد امیدوارو!گزشتہ انتخابات میں تمھاری ہار ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جنہوں نے پارٹی کو اپنا جاگیر سمجھا آگر اس دفعہ بھی آپ نہیں سمجھے
ع۔۔۔۔۔۔نہ سمجھوںگے تو مٹ جاونگے جماعت والوں۔
تمھاری داستان تک بھی نہ ہوگی
آئیندہ نسلوں کے داستانوں میں۔
اس لیے آج اپنے ووٹرز کے تحفظات دور کریں۔اور دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی چھوڑنا ہوگا۔ورنہ آپ تو ایم پی اے کی سیٹ کے لیے بہت پراعتماد تھے
پھر ایک ناہنجاڑ نے میدان مار لیا
یہ ان پارٹی وڈیروں کے اعمال تھے کہ سراج الحق جیسے ہیرے کو
بشیر خان جیسے نااہل اور انپڑھ
نےئشکت دی۔میری باتیں کڑوی ضرور ہوگی مگر سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔وسلام ۔کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

07/03/2022

جمعہ گل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر
‏میں جب تین سال کا تھا تو ٹھٹھرتی سردی میں ایک دن دادا نے سکول میں داخل کروا دیا اور میری عمر پانچ سال لکھوا دی ۔ کہ سرکاری سکول میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا ۔ جب کہ میرا یار جمعہ گُل اپنی اماں کی گود میں بیٹھ کر چائے پراٹھے ٹھونستا رہا ۔
‏میں ٹاٹ پر بیٹھ کر صبح سے دوپہر تک الف سے انار اور ب سے بکری کے راگ الاپتا رہا اور جُمعہ گُل گلے میں غلیل ڈال کر گاؤں کے درختوں میں پرندے مارتا رہا ۔ ہم سارا سارا دن اُستاد رحیم گل کی سوٹیاں اپنی پشت پر کھاتے رہے ، تاکہ کل کو مُعاشرے میں ایک مقام بنا سکیں ۔
اور جمعہ گل اپنے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر گاؤں کے میلے لوٹتا رہا
ہم سکول سے چُھٹی ہونے کے بعد گندم کی کٹائیوں میں اماں کا ہاتھ بٹاتے رہے اور جمعہ گُل کھیت کی منڈیر پر بیٹھ کر جوانی کے گیت گاتا رہا
ہم جب آنسو بھری آنکھوں سے جُمعہ گل کی طرف دیکھتے تو دل کا حال جان کر اماں بولتیں ‏بیٹا تم ایک دن بڑا افسر بنے گا اور جُمعہ گل جیسے لوگ تیرے نوکر بنیں گے
سکول سے کالج ، کالج سے یونیورسٹی ہماری قسمت میں صرف کتابوں کا ڈھیر چاٹنا رہ گیا ۔ جب کہ جمعہ گل گاؤں کا لچا لفنگا بن کر جوانی کے مزے لُوٹتا رہا۔ اِدھر ہم نے پی ایچ ڈی تھیسز جمع کروا کر گویا ‏علامہ بننے کی ٹھان لی تو اُدھر گاؤں میں جمعہ گل نے بغل سے پستول کا ہولسٹر ہٹا کر کندھے پر کلاشنکوف رکھنی شروع کر دی ۔ پھر ہم نے پیچھے کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا ۔ کہاں کا جمعہ گل اور کہاں میں ہم بقول اماں کے واقعی افسر بن گئے اور گاؤں سے اپنا ناطہ ٹوٹ گیا ۔
‏اپنی افسری شہری بیوی اور بچوں میں ایسا کھو گئے کہ یاد بھی نہیں رہتا تھا کہ جمعہ گل کیا کر رہا ہو گا۔ اماں کی باقی ساری باتیں بالکل سچ ثابت ہو چُکی تھیں بس کبھی کبھار اُن کی یہ بات دل کے دروازے پر دستک دے کر بےچین کر دیتی کہ جمعہ گل تمہارا نوکر بنے گا
شائد اماں کی بات سے زیادہ یہ خود کی ایک خواہش تھی جو شعور سے لاشعور تک کا فاصلہ پاٹتے ہوئے تحت الشعور میں پنجے گاڑ بیٹھی تھی اور پھر میں کیمبرج میں پڑھتے اپنے بچوں کو ہر وقت یہی راگ سنانے لگتا کہ بیٹا میری طرح بنو جمعہ گل مت بنو میرے بچے مجھ سے پوچھتے کہ پاپا ہو اِز جمعہ گل؟
‏اور میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ میرا نوکر برسوں بعد گاؤں جانا ہوا ۔ بیوی بچے ساتھ تھے ۔ گاؤں بھی پھیل کر جیسے چھوٹا سا شہر بن گیا ہو ۔ کافی لوگ اب اجنبی تھے میرے لیے ۔ ایک دن پیغام آیا کہ جُمعہ گُل نامی بندے نے اہلِ خانہ سمیت دعوت پر بُلایا ہے ۔
میرے اندر ایک کمینی سی خوشی در آئی کہ جمعہ گل کو دکھاؤں گا کہ پڑھائی لکھائی اور استاد رحیم داد کی سوٹیوں نے مجھے کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ۔ اور وہ سدا کا لچا لفنگا آج بھی دو وقت کی روٹی کے لئے مر رہا ہے ۔ بیگم کو تاکید کی کہ پانچ ہزار اس کی بیوی کو تھما دینا ۔
‏رات کو اپنی 4000 سی سی گاڑی میں بیٹھ کر جمعہ گل کے گھر پہنچا تو سناٹے میں آ گیا شہر میں تین سو گز کے بنگلے والا افسر چار ہزار گز وسیع بنگلے کو دیکھ کر حیرت سے دانتوں میں انگلی دبائے رہ گیا جس پر "جمعہ گل پیلس" کی نیم پلیٹ اُس کا منہ چِڑا رہی تھی بنگلے کے اندر چار وی ایٹ لینڈ کروزرز ایک شان سے کھڑی تھیں ۔ واسکٹ پہنے جمعہ گل گرمجوشی سے آگے بڑھ کر میرے گلے لگ گیا ۔ کہ ڈاکٹر صاب بڑے آدمی بن گئے ، بھول گئے ہم جیسے غریب اور اٙن پڑھوں کو..
میری بیوی اور بچے منہ کھولے حیرانگی سے بنگلے کو دیکھ رہے تھے ۔ اور جمعہ گُل بتا رہا تھا ‏کہ اماں کی دعاؤں سے وہ آج سیاست دان بن گیا ہے ۔ جب بھی عدم اعتماد کی ہوا چلتی ہے وہ چالیس پچاس کروڑ بنا لیتا ہے ۔ اچانک میرے بیٹے نے انگریزی میں مُجھ سے پُوچھا کہ بابا یہ وہی جُمعہ گُل ہے جو آپ کا نوکر بن رہا تھا؟
‏میری خاموشی پر چھوٹے والے بیٹے نے انگریزی میں کہا ۔ ۔ ۔

"پاپا ! میں بھی جُمعہ گُل بنوں گا ۔ ۔“

01/03/2022

عجیب دنیا ہیں 😏
شادی شدہ طلاق کی چکر میں ہیں
غیر شادی شدہ شادی کی خیالوں میں ہیں
بچوں کو بڑا ہونے کی جلدی ہیں
اور بڑوں کو دوبارہ بچپن میں لوٹنے کی آرزو ہے
نوکری کرنے والے کام سے پریشان ہیں
اور بیکار لوگوں کی لبوں پر کام ملنے کی دعائیں ہیں
غریبوں کو امیر بننے کی حسرت ہے
اور امیروں کو ایک لمحہ سکون کی تمنا
مشہور لوگ چھپنے کے لیے ٹکانے کے تلاش میں ہیں
اور عام لوگ مشہور بننے کے خیالوں میں ہیں
کسی کو معلوم نہیں ہے کہ خوشحالی اور سکون کا فارمولا کیا ہے
میں آپ کو بتاتا ہوں
یاد رکھیں جو نعمتیں خدا نے تم کو دی ہیں
جو تم کو ملی ہیں اس کی قدر جانیں
اسی سے لطف اور مزے اٹھائیں
ورنہ یہ خواہشوں کی گاڑی کبھی بھی نہیں رکتی.....کاپی

26/02/2022

رقص بسمل...............!
میں گنہگارہوں:-جب میں نےپہلی بار اس کو دیکھا تو وہ بہت مظبوط اور طاقتور دکھائی دیتاتھا۔پھر اس کی ریڑھ کی ہڈی کےکسی مہرے میں فرق ایا ۔اسکےپاس علاج کےلیے پیسے نہیں تھے لٰہذا اس کی دونوں ٹانگوں میں فرق ایا اگرچہ وہ دو مظبوط سہاروں کی مدد سے آہستہ آہستہ چلتا تھا مگر کام کاج کے قابل نہ تھے وہ پہلے سے بہت غریب تھا اور اب تو مسکینی کی حالت سے گر کر فقیر بنا تھا۔یہ اج سے کم وبیش پچیس سال پہلے کی بات ہے رمضان
کا مہینہ سردی کے موسم میں تھا اور میں عصرکےوقت کمبڑ بازار میں تھا ۔رمضان جب سردی کے موسم میں ہو تو شام کے وقت گرم گرم کباب ہر کسی کی خو اہش ہوتی ہے ہمارے بازار میں رحمان کباب والا کا کباب بہت مشہورِ اور معیاری ہے میں رحمان کباب والے کے دوکان کے سامنے گزر رہا تھا کہ وہ کباب کی دیو قامت کڑاہی کے سامنے کھڑا تھا کچھ دیر کے بعد میں واپس آیا تو وہ وہاں اب بھی کھڑے تھے ۔تمہارا کام نہیں ہوا میں نے جلدی میں ان سے پوچھا ۔اس زمانے میں کباب کی قیمت چالیس روپے فی کلو تھی ۔نہیں دراصل میرے ساتھ پیسے نہیں اور دل چاہتا ہے کہ کباب ۔۔۔۔۔۔۔وہ مذید کچھ نہ کہ سکا ۔پتہ نہیں اس وقت میرے ذہن میں کیا ایا کہ میں چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد نہ کرسکا ۔چونکہ وقت کم تھا اسلیے میں نے بھی گھر کی راہ لی جب شام ہوئی اور ہم افطاری کے لئے بیٹھ گئے تو مجھے یاد آ یا کہ اسکو کوئی کباب دلواچکا ہوگا یا ویسے گھر لوٹ آیا ہوگا مجھے اپنے ایمان پر شک ہوا اور اپنے دل میں بہت شرمندگی محسوس کی آخر میرا کیا بگڑ جاتا اگر اس کو ایک کلو کباب دلواتا ۔اسکے بعد متعدد بار میں نے اس کی مالی معاونت کی لیکن پھر بھی میں اپنی پہلی غلطی کا کفارہ ادا کرنے سے اپنے اپ کو مبرا نہیں سمجھتا ہوں ۔اسلیے سب دوستوں سےمعروض ہو کہ نیکی کا موقع پاتے ہی ضائع نہ کرنا پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کونسے عمل کو قبول فرماکر بخشش نصیب ہوجائے ۔پوسٹ پڑھنے کے لئے شکریہ
(سردراز خان اف میدان )

26/02/2022

کیا میں فائیلر ہوں ؟؟؟؟؟؟میں پاکستانی شہری اور ایک سول سرونٹ ہوں۔حکومت مجھے جو ماہانہ تنخواہ دیتی ہے اس سے اپنی مرضی کے مطابق ٹیکس کٹوتی کرتی ہے۔
باقی رقم میں سے میں نے اپنی ضرورت کے لئے ایک چھوٹی سی گاڑی خریدی ہے۔اس گاڑی پر میں ٹیکس دیتا ہوں۔
میں جب گاڑی میں پٹرول ڈالتا ہوں تو ہر لٹر کے عوض ٹیکس دیتا ہوں۔میں جب کوئی ٹول پلازہ پار کرتا ہوں تو ٹیکس دیتا ہوں۔میں ہر مہینہ گاڑی کے ٹوکن کی مد میں ٹیکس دیتا ہوں۔میں جب انجن آئیل تبدیل کر تاہوں تو نئے آئیل کی قیمت کے ساتھ ٹیکس دیتا ہوں۔اسی طرح ٹائرز اور سپیر پارٹس پر ٹیکس دیتا ہوں۔میں جو
اینڈرائڈ سمارٹ فون استعمال کرتا ہوں اس پر ٹیکس دیتا ہوں۔میں جب موبائل فون کو لوڈ کرتا ہو تو
لوڈ کا تقریباً تیسرا حصہ بطور ٹیکس دیتا ہوں۔میں جب شناختی کارڈ بناتا ہوں تو اس پر بھی ٹیکس دیتا ہوں۔اسی طرح پاسپورٹ بنانا ہو،فارم ب بنانا ہو بچہ رجسٹر کرانا ہو۔یا ۔نکاح کرنا ہو تو میں حکومت کو ٹیکس دیتا ہوں۔میرے گھر میں ٹی وی نہیں مگر میں اسکے باوجود ٹی وی پر ٹیکس دیتا ہوں۔میرے گھر میں بجلی کی فٹنگ ہوچکی ہے بجلی تو اکثر غائب رہتی ہے مگر میں باقاعدہ بجلی پر ٹیکس دیتا ہوں۔
میرے گھر میں جنتنا سامان ہے حتیٰ کہ میرے بدن پر جو کپڑا ہے اس کا میں ٹیکس دیتا ہوں۔یہاں تک کہ میں جو پبلک واشروم استعمال کرتا ہوں اس پر بھی ٹیکس دیتا ہوں۔لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ
کہ میں ٹیکس کے معاملے میں فائلر ہوں یا کہ نان فائلر۔یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
۔

Address


Telephone

+923078063961

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Social Outlet posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Social Outlet:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share