27/03/2024
تحریر منجانب عزت نما سپیکر نیشنل یوتھ اسمبلی گلگت بلتستان ۔
*سنا تھا بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں*
جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا ہے ایسا سننے میں آتا تھا ،یہ کہاوت بہت پرانی ہے اور سننے میں بہت اچھی بھی لگتی ہے اور ہمارے اکابرین میں سے بہت سارے ایسے بھی تھے جن کے بارے میں تاریخ اپنا فیصلہ بہت روشن انداز میں بار بار سناتی ہے، اس کے برعکس یہ بھی سنا تھا کہ ہم سے پہلے بیٹی کی معاشرے میں کیا حیثیت ہوا کرتی تھی ۔
ہم سب یہ پڑھتے پڑھتے بڑے ہوئے ہیں کہ کسی ہاتم تائی جو کہ انتہائی سخت دشمن اسلام تھا کی بیٹی کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کہ کر پکارا تھا اور عزت سے نوزا تھا، ہم نے سنا اور دنیا کو بتایا کہ کوئی تھا جس نے ایک مظلوم لڑکی کی فریاد پر پوری سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی
مگر پھر کیا ہوا کہ آج ہمارے اپنے ہی گھر میں حوا کی بیٹیوں کی عزت آبرو جان سب کچھ اتنا غیر محفوظ ہوگیا؟
ایک معصوم لڑکی کو دن دہاڑے سکول سے اغوا کر کے لے جایا جاتا ہے اور اس واقع پر کوئی ادارہ، کوئی لیڈر کوئی سیات دان کوئی جج کوئی قانون دان کوئی مزہبی رہنما کان تک نہیں دھرتا، پورے دو ماہ سے زیادہ لاپتہ رہنے کے باوجود کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں ہوتی اور اسی دوران بالکل اسی طرح کا ایک اور واقع دوبارہ پیش آجاتا ہے، ان لڑکیوں کے والدین در بدر ٹھوکریں کھانے کے باوجود کوئی انصاف حاصل نہیں کر پاتے اور پھر اچانک ان میں سے ایک لڑکی کا ویڈیو منظر عام پر آتا ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے جانے اور نکاح کرنے کا بتاتی ہے تو پورے کا پورا میڈیا اور پورے عوام اس کی کردار کشی کرنے لگتے ہیں اور اس کے والدین کی عزت کو تار تار کر کے مزید زخموں پر نمک چھڑکنے لگتے ہیں، پھر اچانک ان میں سے دوسری لڑکی کی لاش دریا کے کنارے ڈے ملتی ہے اور سب مشینری اس کو پوری طاقت کے ساتھ خود کشی ثابت کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے
سوال صرف اتنا سا ہے کہ اگر مرضی سے نکاح کرنے پر قانوناً ممانعت نہیں اور قانون اس کی حفاظت بھی کرتا ہے تو دو ماہ پہلے ایسا بیان کیوں نہیں آیا اور کیا دوسری لڑکی کی لاش اس لیے تو نہیں ملی کہ اس نے ایسا بیان دینے کی حامی نہیں بھری؟
ان لڑکیوں کے والدین کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا لیکن اگر ان کی جگہ کسی جج، کسی سیاست دان ،کسی سرکاری افسر یا کسی مذہبی رہنما کی کوئی بیٹی ہوتی تو کیا پھر بھی اداروں کی حرکت ایسی ہی ہوتی اور عوام کی سوچ یہی ہوتی؟ یا اس میں کوئی بدلاؤ آتا، اور سب صورتحال میں جہاں ایک لڑکی ابھی تک اغوا اور دوسری جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے کیا قانون کی نظر میں یا معاشرے کے ان تمام کرداروں کی نظر میں ان لوگوں کی بھی کوئی سزا ہے جن لوگوں نے ان دونوں لڑکیوں کو اتنا عرصہ تک غائب کیا اور ابھی بھی ان میں سے ایک لڑکی غائب ہے؟ کیا ان لوگوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ کیا ان سے کوئی باز پرس کی جا سکتی ہے ؟ یا وہ اس قدر پورے نظام سے زیادہ طاقتور ہیں کہ ان سے کچھ پوچھا تک نہیں جا سکتا؟
اگر اس سب سے معاشرے کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تو اعلان کر دینا مناسب نہیں ہو گا کہ غریب کے بیٹی پیدا کرنے پر پابندی ہے؟ اور اگر وہ یہ غلطی کرے گا تو اس کی حفاظت کی ذمہ دار ہر گز ریاست یا کوئی معاشرے کا عنصر نہیں ہوگا؟
ان سب سوالوں کے ساتھ آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ ان کی جگہ کل کو آپ کی بیٹی بھی ہو سکتی ہے.