Altaf.Ur.Rehman wattoo

  • Home
  • Altaf.Ur.Rehman wattoo

Altaf.Ur.Rehman wattoo Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Altaf.Ur.Rehman wattoo, Digital creator, .

26/09/2023
24/09/2023

*اللہ کے نبی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے* ایک صحابی آئے سعد الاسود اور کہا یا رسول اللہ میری شادی کروا دیں میں بہت کالا بھی ہوں اور بد صورت بھی ہوں تو مجھے اپنی لڑکی ہی کوئی نہیں دیتا۔ آپ نے کہا اچھا اور پھر پوچھا کیا عمربن وہب بیٹھے ہیں؟ بتایا گیا نہیں تو فرمایا عمر بن وہب کے پاس جاؤ اور کہو کہ مجھے اللہ کے نبی نے بھیجا ہے اور مجھے اپنی بیٹی نکاح میں دے دو۔ عمر بن وہب کافی خوبصورت بھی تھے اور بہت مالدار بھی تھے۔ یہ اٹھے اور جاکر ان کے دروازے پر دستک دی اور کہا اللہ کے رسول کا قاصد آیا ہے باہر آؤ۔ باہر آئے تو دیکھا سعدالاسود تھے۔ پوچھا کس لئے آئے ہو جواب دیا اللہ کے نبی نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ اپنی بیٹی میرے نکاح میں دے دو۔ عمر بن وہب نے کہا جاجا تجھے دوں گا اپنی بیٹی، تم غریب کو دونگا اپنی بیٹی ۔ سعد الاسود اسی قدموں کے ساتھ واپس آگئے لیکن عمر بن وہب کی بیٹی نے ساری بات سن لی۔ بیٹی نے عمر بن وہب سے کہا ابا جان آپ نے میرے نبی کی بات کو ٹھکرایا ہے جاؤ جا کر ہاں کر دو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تباہ و برباد ہو جائیں۔ آپ نے میری خاطر انکار کیا ہے نہ کہ میری بیٹی گزارا کیسے کرے گی آپ جاکر ہاں کر دیں میرے نبی کا حکم ہے میں گزارا کر لوں گی۔ عمر بن وہب مجلس میں آئے تو سعد الاسود پہلے مجلس میں آئے بیٹھے تھے۔ اللہ کے نبی نے عمر بن وہب کو دیکھا تو کہا عمر بن وہب آپ نے تو ہماری بات ہی ٹھکرا دی۔ کہا یا رسول اللہ میں نے نہیں ٹھکرائی میں حاضر ہوں یا رسول اللہ آپ میری بیٹی کا سعد الاسود کے ساتھ نکاح پڑھیں۔ 400 درہم حق مہر طے ہوا آپ نے فرمایا سعد اپنی بیوی کو لے جاؤ۔ کہا یارسول اللہ پیسے کہاں سے لاؤں میرے پاس تو حق مہر ادا کرنے کے پیسے ہی نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا تم عبدالرحمن بن عوف کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اللہ کے نبی نے مجھے بھیجا ہے اور وہ تمہارا کام کر دیں گے (عبد الرحمن بن عوف وہ صحابی تھے جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی اور وہ اتنے امیر تھے کہ ان کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں اگر آج کے دور میں ہوتے تو اتنا پیسہ تھا ان کے پاس کہ پورا یورپ خرید سکتے تھے لیکن ایماندار تاجر تھے اور اللہ کے نبی نے ان کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی)۔ سعد ان کے پاس گئے اللہ کے نبی کا پیغام دیا تو انہوں نے رقم کا بندوبست کر دیا اور چار سو درہم سے زیادہ پیسے جمع ہوگئے۔ سعد نے سوچا 400 درہم تو بیوی کو حق مہر دوں گا باقی میں بیوی کے لئے کچھ تحائف لیے لیتا ہوں اور بازار چلے گئے۔ بازار میں داخل ہوئے تو اتنے میں اعلان ہوا کہ مدینے پر کچھ بدوؤ نے حملہ کر دیا ہے۔ جیسے ان کے کان میں آواز پڑی کہ مسلمانوں آؤ دفاع کرنے کے لئے تو بیوی کے تحائف کا خیال ترک کیا، ایک گھوڑا اور تلوار خریدی اور لشکر میں گھس گئے۔ لڑتے لڑتے ان کا گھوڑا زخمی ہو کر نیچے گرا اور بدوؤ نے ان پر حملہ کردیا تو اچانک دور سے اللہ کے نبی کی سعد پر نظر پڑی تو لپکے سعد تم یہاں کیا کر رہے ہو تمہیں تو میں نے تمہاری بیوی کے پاس بھیجا تھا تب تک سعد الاسود شہید ہوچکے تھے۔ اللہ کے نبی سعد کی طرف لپکے سعد کے سر کو اپنی جھولی مبارک میں رکھ لیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل کے سعد کے چہرے پر پڑ رہے تھے اور اللہ کے نبی پیار سے کہنے لگے سعد تو کتنا پیارا ہے، تو کتنا خوبصورت ہے، تو کتنا خوشبودار ہے۔ پھر آپ مسکرائے اور فرمایا رب کعبہ کی قسم سعد حوض کوثر پر پہنچ گیا ہے۔ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ ابھی آپ رو رہے تھے اور پھر آپ اچانک مسکرا پڑے یہ سمجھ نہیں آیا۔ اللہ کے نبی نے فرمایا میں رو سعد کی جدائی میں رہا تھا اور مسکرایا اس لیے کہ مجھے سعد کے جنت میں عالی شان محلات نظر آئے۔
References:
بحوالہ اسد الغابہ فی فضائل صحابہ امام اعز الدین ابن الاثیر رحمۃ للہ علیہ
اور
ابن الاثیر (اسد الغابہ:1/668)
أَخرجه أَبوموسى.(2/418)

24/09/2023

*🪩👈بـصـارت اور بـصــیرت*👉🪩
*انتہائی خوبصورت "فن پارا"*

ایک سچی کہانی ایک ایسے شخص کی جس نے ایک نماز پڑھنے والے شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد ہمیں معلوم ہو کہ نہ ہی جنت و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کوئی سزا اور جزا ہے، پھر تم کیا کروگے ؟
اس کا جو جواب ملا وہ بہت ہی حیران کن اور تعجب خیز تھا۔
لیجئے اردو ترجمے کے بعد پوری کہانی آپ کے پیش خدمت ہے۔

سنہ 2007 کی بات ہے لندن کے ایک عربی ریسٹورینٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کےلئے داخل ہوئے۔

ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے تھوڑی دیر میں ویٹر آڈر لینے کے لئے آگیا۔ میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لئے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا۔
اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے آپ نے تو بڑی تاخیر کردی، کہاں تھے؟
میں نے کہا: میں معذرت خواہ ہوں در اصل میں نماز پڑھ رہا تھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں۔
میں نے بھی مسکراتے ہوئےپوچھا قدامت پسند ؟وہ کیوں؟
کیا اللہ تعالی صرف عربی ممالک میں ہی ہے، لندن میں نہیں ہے؟

اس نے کہا: "ڈاکٹرصاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کیلئے معروف ہیں اسی کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے۔"

میں نے کہا: جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی لیکن میری ایک شرط ہے۔

اس نے کہا: جی فرمائیں
میں نے کہا: اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد آپ کو ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا، ٹھیک ہے؟

اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اور میں وعدہ کرتا ہوں۔

تو ٹھیک ہے پوچھئے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟
میں نے کہا۔

اس نے پوچھا: آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں؟
میں نے کہا سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑی اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا.
اس نے کہا ٹھیک ہے .. مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کو ئی جزا وسزا ہے پھر آپ کیا کریں گے؟

میں نے کہا: تم سے کئے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا۔

فرض کریں نہ ہی جنت و جہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا و سزا ہوگی تو میں پھر بھی یہ عمل کروں گا اس لئے کہ در اصل میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :"الہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ میں نے اس لئے تیری عبادت کی ہے کیونکہ تو عبادت کے لائق ہے۔

اس نے کہا: اور آپ کی وہ نمازیں جس کو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں پھر آپکو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نمازی دونوں برابر ہیں جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر کیا کریں گے؟

میں نے کہا: مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا کیونکہ کہ ان نمازوں کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش سمجھوں گا۔

اس نے کہا: اور روزہ خصوصاً لندن میں کیونکہ یہاں روزے کا وقفہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے؟

میں نے کہا: میں اسے روحانی ورزش سمجھوں گا چنانچہ وہ میری روح اور نفس کے لئے اعلی طرز کی ورزش ہے اسی طرح اس کے اندر صحت سے جڑے بہت سارے فوائد بھی ہیں جس کا فائدہ میری زندگی ہی میں مجھے مل چکا ہے اور کئی بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کا بھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھانا پینا بند کرنا جسم کیلئے بہت مفید اور نفع بخش ہے۔

اس نے کہا: آپ نے کبھی شراب پی ہے؟
میں نے کہا :میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا۔
اس نے تعجب سے کہا: کبھی نہیں؟
میں نے کہا کبھی نہیں
اس نے کہا: اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

میں نے کہا: شراب کے اندر نفع سے زیادہ نقصان ہے اور میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور اپنے نفس کو اس سے دور رکھا ہے چنانچہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور کتنے ہی ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھربار مال واسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے،
اسی طرح غیر اسلامی اداروں کےعالمی رپوٹ کو دیکھنے سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگاتار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے۔

اس نے کہا :حج وعمرہ کا سفر، جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالی ہی موجود نہیں ہے؟

میں نے کہا: میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوبصورت تفریحی سفرسے تعبیر کرونگا جس کے اندر میں نے حد درجے کی فرحت وشادمانی محسوس کی اور اپنی روح کو آلائشوں سے پاک و صاف کیا جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لئے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولات زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکو۔

وہ میرےچہرے کو کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا: آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا۔
میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں۔

میں نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی؟
اس نے کہا: یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے۔
میں نے کہا: ہرگز نہیں بلکہ اس کے بلکل برعکس... میں بہت دکھی ہوں۔

اس نے تعجب سے کہا: دکھی؟ وہ کیوں؟
میں نے کہا: اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے۔
اس نے کہا: فرمائیں
میں نےکہا: تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان۔
اس نےکہا: وہ کیا؟
میں نے کہا: میں نے تمہارے سامنے واضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضہ کے واقع ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے ...

لیکن میرا وہ ایک آسان سوال یہ ہے کہ تمہارا اس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضہ کےبرعکس ظاہر ہوئے یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالی بھی موجود ہے، جنت و جہنم بھی ہے، سزا و جزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کئے گئے سارے مشاہد و مناظر بھی ہیں پھر اسوقت تم کیا کرو گے؟

وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا... اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا۔
میں نے اس سے کہا: مجھے ابھی جواب نہیں چاہئے کھانا حاضر ہے ہم کھانا کھائیں گے اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائیگا تو براہ مہربانی مجھے خبر کردینا۔
ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے بھی اس وقت اس کو جواب کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی... ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے۔

ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورینٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا۔
ریسٹورینٹ میں ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا کہ اچانک اس نے میرے کندھے پر اپنا سر رکھا اور مجھے اپنی بازوؤں میں پکڑ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔
میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا کیا بات ہے تم کیوں رو رہے ہو؟
اس نے کہا: میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے لئے آیا ہوں
بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں۔ آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن و دماغ میں بلا توقف گونجتی ہی رہی اور میں نیند کی لذت سے محروم ہوتا رہا۔
آپ نے میرے دل ودماغ اور جسم میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا اور وہ میرے اندر اثر کر گیا۔
مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کر رہی ہے ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کر رہا ہوں۔
میں نے کہا: ہوسکتا ہے جب تمہاری بصارت نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا ہو تب ان جملوں نے تمہاری بصیرت کو بیدار کردیا ہو۔

اس نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے... یقیناً جب میری بصارت نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو ان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کر دیا۔
میرے پیارے بھائی تہہ دل سے آپ کا شکریہ، آپ کی بدولت میں گناہوں اور گمراہی والی زندگی سے بچ گیا۔
(عربی سے ترجمہ)
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼
❤️ ✍🏻ㅤ 📩 📤
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ

16/09/2023

صحابہ کرامؓ بیٹھے ھوٸے تھے نبی پاکﷺ نے فرمایا جنتی عورت کونسی ھے کسی نے کہا جو نمازیں ذیادہ پڑھتی ھو کسی نے کہا جو ذکرواذکار کثرت سے کرے محتلف قسم کے جواب ارہے تھے حضرت علی ؓ اٹھے اور گھر کی طرف دوڑے کہنے لگے فاطمہ فاطمہؓ نبی ﷺ پوچھ رہے ھے کہ جنتی عورت کونسی ھے آپ بتاو فاطمہؓ نے فرمایا جنتی عورت وہ ھے جس پر کسی غیر محرم کی نظر نا پڑی ھو اور اسکی نظر غیر محرم پر نا پڑی حضرت علیؓ واپس دوڑے یارسول اللہ میں بتاو فرمایا بتاو کہنے لگے جنتی عورت وہ ھے جسکی نظر غیرمحرم پر نا پڑی ھو۔۔۔!
فاطمہؓ بیٹھی ھے نبیﷺ نے فرمایا فاطمہ دیکھو چاند نکل آیا ھے,کہنے لگی ھاں اباجان نکلا ھے
دوبارہ فرمایا فاطمہ دیکھو چاند نکلا ھے
دوسری بار جواب دیا ھاں ابا جان نکلا ھے
نبیﷺ نے فرمایا فاطمہ آپ چاند کی طرف کیوں نہیں دیکھ رہی ھو تو کہنے لگی ابا جان مہینے کی پہلی دوسری اورتیسری چاند کو مرد دیکھتے ھے میں اس لٸے نہیں دیکھ رہی کہ کہیں میری نظر چاند میں کسی مرد کے ساتھ نا آجاٸے۔۔۔!
الله أكبر
رسول اللہﷺ ایک دفعہ فاطمہؓ کے گھر آٸے فرمایا فاطمہ چلو گھر چلیں فاطمہؓ نے کہا یارسول اللہ میں نہیں جا سکتی علیؓ گھر پر نہیں ھے رسول اللہﷺ نے فرمایا آپ میری بیٹی ھو میں اپکو لے جانے آیا ھو کہنےلگی آبا جان آپ نے فرمایا ھے کہ بیوی حاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نا نکلے اتنے میں حضرت علیؓ آٸے نبیﷺ نے فرمایا علیؓ آپ بھی آجاو رسول اللہﷺ آگے فاطمہؓ پیچھے اور علیؓ اسکے پیچھے چل پڑے۔۔۔!
حضرت علیؓ بولے یارسول اللہ فاطمہ سے ایک بات پوچھو میں اسکا حاوند ھو یہ مجھ سے آگے جارہی ھے
رسول اللہﷺ نے فرمایا فاطمہ علی کو جواب دو
تو کہنے لگی میں اپکے پیچھے اس لٸے جارہی ھو کہ اپکے قدموں پہ میرے قدم آٸے اور میرے قدموں پہ علی کے قدم آجاٸے اور میرے قدم مٹ جاٸے ایسا نا ھو پیچھے آنے والے لوگ کہے کہ فاطمہ کےطقدم ایسے تھے۔۔۔!
الله أكبر
اسے کہتے ھے حیا
اور آج کی فاطمہ ننگے سر تنگ کپڑے پہن کر بازار میں اکیلے نکل جاتی ھے غیر محرم سے باتیں کرتی ھے اور گناہ کو گناہ بھی نہیں سمجھتی۔۔۔!
اسلامی واقعات

11/09/2023

⚔️دلیر ترین جاسوس⚔️

👤کیا آپ نے تاریخ کے اس سے دلیر ترین جاسوس کے بارے میں سن رکھا ہے؟

🎖️سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکر فارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں...!!
یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا.
جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے. انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا. مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکر سعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے.
جبکہ ہمارا یہ بطل اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتا چلاگیا!! انھوں نے لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اور اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا اورا س میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچا جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے!! .پھروہاں سے لشکر کے قلب سے گذرتا ہوا یک سفید خیمے کے سامنے جاپہنچا ، جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا، اس نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالاررستم کا خیمہ ہے!! چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی ، رات کا کافی حصہ چھا جانے پر یہ خیمہ کی جانب گئے ، اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا ، جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور خیمہ میں موجود افراد پر گر پڑا ، گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑے اس سے ان کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا!! گھوڑا لے کر جب فرار ہوئے تو گھڑسوار دستے نے ان کا پیچھا کیا.
جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتے اور جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کر لیتے تاکہ وہ ان کے ساتھ آملیں ، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کرسعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے حکم کے مطابق لے جائے!!
چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کر سکا .. انھوں نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کرلیا...! یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا!! قیدی کو پکڑا ، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا ، اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے معسکر جا پہنچے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا. فارسی کہنے لگا: مجھے جان کی امان دو میں تم سے سچ بولوں گا. سعدرضی اللہ عنہ کہنے لگے: تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا.. پھرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ ..فارسی انتہائی دہشناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا :اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتاہوں !!!! کہنے لگا :
"یہ آدمی، ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا ، میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں ، اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا ، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا ، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا ، گھڑ سوار دستے نے اس کا پیچھا کیا ، جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے ، ان میں سے ایک مارا گیا ۔جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے ، پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا ، اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے۔ میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا اوران دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا ، میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا۔اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا!!!"
پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عظیم بطل کون تھے؟ جنہوں نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا ، ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا کر واپس آگئے۔ یہ طلیحہ بن خویلد الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔سبخان اللہ

29/04/2023

..... سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی
چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو
پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،،
چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں. سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا.
چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : "پھر اللہ کہاں ہے".. ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے. اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے(الراوي : زيد بن أسلم)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوزخ کی آگ سے محفوظ فرماۓ (آمین)

11/04/2023

*قابلِ غور*

*آپ عشاء کی سترہ رکعتیں پڑھتے تھے پھر علم حاصل کیا تو نو رکعتیں پڑھنے لگ گئے،

آپ سادہ سے بندے تھے، سالوں سے عصر کی آٹھ رکعیتں پڑھتے تھے۔۔ کچھ پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگ گئے تو انہوں نے بتایا کہ عصر کی چار رکعتیں تو سنت ہیں چار فرض ہیں۔ آپ کو پتہ چلا کہ سنت ہیں آپ نے پڑھنا چھوڑ دیں

*آپ زندگی بھر رمضان کی قدر کرتے تھے، دن روزوں سے گزارتے اور آپ کی راتیں تراویح سے مزین ہوتی تھیں، پھر کسی دن کسی عالم سے سن لیا کہ تراویح تو ایک زائد عبادت ہے۔ تیس سال پڑھنے کے بعد غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ بیٹھے

تو یاد رکھئے یہ نفع بخش علم نہیں نقصان دہ علم ہے۔ یہ خدا کی بندگی نہیں بندگی سے فرار ہے جس کو آپ علم سمجھتے ہیں۔*

*آج کل کا مسئلہ جہالت نہیں بلکہ بڑا مسئلہ علم ہے۔ آج کی جہالت پتہ نہ ہونے سے نہیں بلکہ دور جدید کی جہالت پتہ ہونا ہے۔ لوگ اس وجہ سے گمراہ نہیں ہورہے کہ انہیں پتہ نہیں بلکہ اس وجہ سے گمراہ ہورہے ہیں کہ انہیں پتہ ہے۔

اور ایسا علم جو خدا کو بندے سے دور کردے تو وہ مفید علم نہیں بلکہ مضر ہے۔ خدائے تعالیٰ ایسے علم سے بچائے جو خود خدا سے دور کردے۔*

*آمین یارب العالمین.*
الطاف الرحمن وٹو پاکپتن شریف
*Copied and Pasted*

07/04/2023

#سولھواں روزہ اور _جمعہ_مبارک
*‏محبت رسول ﷺ کا ایک انوکھا واقعہ*

درختوں میں سب سے خوش نصیب درخت ’’حنانہ‘‘ ہے، جس کا ذکر بخاری شریف میں اجمالاً اور دیگر کئی کتب احادیث میں تفصیلاً مذکور ہے۔ رسول اکرمﷺ کے لیے ایک صحابی نے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبویﷺ میں رکھ دیا۔ آپﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے تو خشک درخت کا بنا ہوا وہ ستون جس سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے، بلک بلک کر رونے لگا
اس کے نالہ وشیون میں اتنا درد تھا کہ مجلس میں موجود تمام صحابہ کرامؓ آبدیدہ ہو گئے۔ آنحضرتﷺ نے جب ستون کی بے قراری ملاحظہ فرمائی تو خطبہ موخر فرما کر اس ستون کے پاس آئے اور‏اسے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’یہ میری جدائی میں گریہ کناں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں اسے سینے سے لپٹا کر دلاسا نہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح میری جدائی کے غم میں روتا رہتا۔
حضور اکرمﷺ نے پھر لکڑی کے اس تنے سے پوچھا ’’کیا تو‏پسند کرتا ہے کہ میں تجھے واپس اسی باغ میں اگا دوں جہاں سے تجھے کاٹا گیا ہے۔ وہاں تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ قیامت تک مشرق و مغرب سے آنے والے اللہ کے دوست حجاج کرام تیرا پھل کھائیں؟
اس نے عرض کیا ’’اے پیکرِ رحمتؐ میں تو آپﷺ کے لمحاتی جدائی برداشت نہ کر سکا، قیامت تک کی‏تنہائی کیسے برداشت کروں گا؟‘‘
آپﷺ نے پوچھا ’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے جنت میں سرسبزو شاداب درخت بنا کر اگادوں اور تو جنت کی بہاروں کے مزے لوٹے؟‘‘
ستون حنانہ نے یہ انعام قبول کر لیا۔ چنانچہ اسے منبر اقدس کے قریب زمین میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد حضور اکرمﷺ نے فرمایا‏اس نے دارِفنا پر دارِبقا کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (بخاری شریف، کتاب الجمعہ، سنن دارمی)۔
اس درخت کی یادگار کے طور پر اسی مقام پر ایک ستون استوانہ حنانہ کے نام سے مسجد نبویؐ میں آج بھی موجود ہے۔
منقول ہے کہ جب حضرت حسن بصریؒ یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے ’’اے اللہ کے بندو! لکڑی‏ہجرِ رسولﷺ میں روتی اور آپﷺ کے دیدار کا اشتیاق رکھتی ہے۔ انسان تو اس سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ فِراقِ رسولﷺ میں بے قرار رہے

ائیے شوق و محبت سے ایک مرتبہ درود پاک پڑھ لیں
صلو علی الحبیب
صلی اللہ تعالیٰ علی محمد
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
حافظ الطاف الرحمن وٹو
پاکپتن شریف

04/04/2023

💕بصرہ کے قریب ایک انتہائی گنہگار آدمی رہتا تھا💕
جب وہ مر گیا تو اس کے جنازے کو اُٹھانا تو بہت دور کی بات ہے کسی نے ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ کِیا۔ایسی حالت میں اس کی بیوی نے کرائے کے مزدور لیے وہ جنازہ اُٹھوا کر قبرستان لے گئی۔قبرستان کے قریب پہاڑوں میں ایک زاہد رہتا تھا جس کی عبادت کا بہت شہرہ تھا۔جنازہ رکھنے سے پہلے وہ جنازہ پڑھنے کا منتظر تھا۔جب اس زاہد کے جنازہ پڑھانے کی خبر پہنچی تو لوگ جوق درجوق جمع ہونا شروع ہو گئے انہوں نے اس زاہد کی اقتداء میں نمازِ جنازہ پڑھی۔
لوگوں کو زاہد کے اِس فعل پر سخت حیرانی ہوئی۔انہوں نے نمازِ جنازہ کے بارے اس سے سوال کِیا تو اس نے بتایا کہ مجھے خواب میں یہ حکم ملا،فلاں جگہ جاؤ وہاں جنازہ آرہا ہے اس کے ساتھ صرف ایک عورت ہے جس کا جنازہ ہے وہ مغفور ہے۔اِس جملے پر لوگوں کی حیرانی میں مزید اضافہ ہُوا۔عورت سے اس کے حالات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ درست ہے کہ یہ شرابی تھا اورشراب خانے میں ساری عمر گزاری مگر اس میں ایک صفت تھی کہ صبح جب یہ مدہوش نہ ہوتا تو با وضو نمازِ فجر ادا کرتا تھا۔دوسرا اس کے گھر میں یتیم بچے رہتے تھے جن سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتا تھا۔تیسرا رات کو جب ہوش آتا تو خوب رو کر اللّہ کے حضور التجا کرتا یا اللّہ مجھ خبیث سے جہنم کے کون سے کونے کو پُر کرے گا۔جب یہ راز کُھل گیا تو زاہد روانہ ہو گیا۔
حوالہ
مُکاشِفۃُ القلُوب = صفحہ 628
مصنف = حضرت امام غزالی رحمتہ اللّہ علیہ

03/04/2023

”تانبے کے چشمے“
حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ عظیم الشان عمارتوں اور پرشوکت قلعوں کی تعمیر کے بہت شائق تھے اس لئے ضرورت تھی کہ گارے اور چونے کے بجاۓ پگھلی ہوئی دھات گارے کی جگہ استعمال کی جاۓ لیکن اس قدر کثیر مقدار میں یہ کیسے میسر آۓ یہ سوال تھا جس کا حل حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس مشکل کو اس طرح حل کر دیا کہ ان کو پگھلے ہوۓ تانبے کے چشمے عطا فرماۓ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالی حسب ضرورت حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کو پگھلا دیتا تھا اور یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ایک خاص نشان اور ان کا معجزہ تھا آپ سے پہلے کوئی شخص دھات کو پگھلانا نہیں جانتا تھا۔ (تذكرة الانبیاء،ص ۳۷۷، ۲۲، سبا :۱۲)

03/01/2023

حکایات مولانا رومی.
ایک دُور اندیش بادشاہ اپنے حُسنِ صورت و حسنِ سیرت سے آراستہ بیٹے کا رشتہ کسی زاہد و پرہیزگار صالح خاندان میں کرنا چاہتا تھا۔ باد شاہ نے جب یہ بات شہزادے کی ماں سے کی تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ آپ صالحیت اور تقویٰ و زُہد تو دیکھ رہے ہیں، لیکن آپ کے مقابلے میں بااعتبار عزت و مال کے وہ خاندان کمتر ہے۔ بادشاہ نے جواب دیا:
گفت رو ہر کہ غم دیں برگزید
باقی غمہا خدا ازوے بُرید
’’دُور ہو بے وقوف! جو شخص دین کا غم اختیار کرتا ہے خدا اس کے تمام دیناوی غموں کو دُور کردیتا ہے۔‘‘
بالآخر بادشاہ اپنی زوجہ پر اپنی رائے کو غالب رکھنے میں کامیاب ہو گیا اور شہزادے کی شادی وہیں صالح خاندان میں کردی۔
شادی کو ہوئے کافی عرصہ گزر گیا۔ شہزادے کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بادشاہ کو فکر لاحق ہوگئی کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ شہزادے کی بیوی بہت خُوبرو اور حسین وجمیل بھی ہے۔ لیکن اولاد کیوں نہیں ہو رہی۔ بادشاہ نے اپنے مخصوص مشیروں اور علماء کو جمع کیا اور خیفہ طور پر اس مسئلے کے بارے میں مشاورت کی۔
تحقیق سے ملعوم ہوا کہ اس شہزادے پر ایک بوڑھی عورت نے جادو کر دیا ہے۔ جس سے یہ اپنی حسین اور رشکِ قمر بیوی سے نفرت کرتا ہے۔ بیوی کے بجائے اس جادوگرنی بوڑھی عورت کے پاس جاتا ہے۔ بسبب جادو کے وہ اس عشق میں عرصہ داز سے گرفتار ہے۔
بادشاہ کو اس بات سے بے حد غم اور صدمہ ہوا۔ اس نے بہت صدقہ و خیرات کیا اور سر سجدے میں رکھ کر خُوب رویا، جب سر سجدے سے اُٹھایا تو ایک ’’مرد‘‘ غیب سے نمودار ہوا اور کہنے لگا: ’’آپ ابھی میرے ساتھ قبرستان چلیں۔‘‘
بادشاہ اس کے ساتھ قبرستان گیا۔ انہوں نے ایک پُرانی قبر کھودی، اس میں ایک بال نکلا، جس میں جادو کے ذریعے سے سو گرہیں لگائی گئی تھیں۔
اس مردِ غیبی نے ایک ایک گرہ کو دم کر کے کھولنا شروع کیا۔ ادھر شہزادہ صحت یاب ہوتا گیا۔ آخری گرہ کھلتے ہی شہزادہ اس خبیث بوڑھی جادوگرنی کے عشق سے نجات پا گیا اور اس کی آنکھوں کی نظر بندی بھی جاتی رہی، جس سے اسے اپنی حسین بیوی خراب اور بُری، مگر وہ خبیث بوڑھی عورت خوبصورت معلوم ہوتی تھی۔ پھر جب وہ شہزادہ اس بوڑھی عورت کے پاس گیا تو اسے دیکھ کر اس کو نفرت و کراہت شدیدہ محسوس ہوئی اور وہ اپنی عقل پر حیرت کر رہا تھا۔ جب اس نے اپنی بیوی کو دیکھا، اس کا حسین چہرہ مثلِ چاند دیکھ کر بے ہوش ہوگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خدا کا شکرادا کیا، جس نے مجھے اس سحر انگیزی سے نجات دی۔
درس حیات:
٭ انسان اس شہزادے کی مثل ہے اور یہ دنیا اس مکار بوڑھی جادوگرنی عورت کی مثل ہے۔ جس نے عاشقانِ دنیا پر جادو کر رکھا ہے، جس سے وہ اس دنیا کے فانی رنگ و بُو کے عشق میں مبتلا ہو کر آخرت، خدا اور اس کے رسولؐ کے انوار و تجلیات کو بھول چکے ہیں۔

28/12/2022

🌹🌹➖🌟 🌟➖🌹🌹
*دمکـتے چمکـتے سـتـارے صحـابـہؓ*
🌹🌹➖🌟 🌟➖🌹🌹

*سیدنا امیر حمزہ ؓ کا اسلام لانا*

قریش مکہ عداوت نبوی ﷺ میں دیوانے ہو رہے تھے‘ ایک روز رسول اللہ ﷺ کوہ صفا پر یا اس کے دامن میں بیٹھے تھے‘
کہ ابوجہل اس طرف کو آ نکلا اس نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اول تو بہت سخت و سست اور ناپسندیدہ الفاظ کہے‘ آپ ﷺ نے جب اس کی بیہودہ سرائی کا کوئی جواب نہ دیا
تو اس نے ایک پتھر اٹھا کر مارا جس سے آپ ﷺ زخمی ہوئے اور خون بہنے لگا‘
آپ ﷺ خاموش اپنے گھر چلے آئے‘ ابوجہل صحن کعبہ میں جہاں لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے آ بیٹھا۔

سیدنا امیر حمزہ ؓ بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے ان کو رسول اللہ ﷺ سے بہت محبت تھی مگروہ ابھی تک شرک پر قائم اور مشرکوں کے شریک حال تھے ان کی عادت تھی کہ تیر کمان لے کر صبح جنگل کی طرف نکل جاتے‘ دن بھر شکار مارتے اور شکار کی تلاش میں مصروف رہتے‘ شام کو واپس آ کر اول خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر اپنے گھر جاتے‘ وہ حسب معمول جب شکار سے واپس آئے تو اول راستے ہی میں ابوجہل کی لونڈی ملی‘ اس نے ابوجہل کا رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینا اور پتھر مارنا اور آپ ﷺ کا صبر و شکر کے ساتھ خاموش رہنا سب بیان کر دیا۔
سیدنا حمزہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہونے کے علاوہ رضاعی بھائی بھی تھے خون اور دودھ کے جوش نے ان کو از خود رفتہ کر دیا وہ اول خانہ کعبہ میں گئے وہاں طواف سے فارغ ہو کر سیدھے اس مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جہاں ابوجہل بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ سیدنا حمزہ ؓ بہت بڑے پہلوان‘ جنگ جو اور عرب کے مشہور بہادروں میں شمار ہوتے تھے‘ انہوں نے جاتے ہی ابوجہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا‘ پھر کہا کہ میں بھی محمد ﷺ کے دین پر ہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے‘ اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو اب میرے سامنے بول ‘ ابوجہل کے ساتھیوں کو غصہ آیا اور وہ اس کی حمایت میں اٹھے‘ مگر ابوجہل سیدنا حمزہ ؓ کی بہادری سے اس قدر متاثر اور مرعوب تھا کہ اس نے خود ہی اپنے حمائیتیوں کو بھی یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی مجھ ہی سے زیادتی ہو گئی تھی‘ ۱ ا گر حمزہ ؓ مجھ سے اپنے بھتیجے کا انتقام نہ لیتے تو بے حمیت شمار ہوتے‘ غالباً ابوجہل کو سیدنا امیر حمزہ ؓ کا کلام سن کر یہ اندیشہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ اس طیش و غضب کی وجہ سے ضد میں آ کر مسلمان ہی نہ ہو جائیں ‘ اور اسی لیے اس نے ایسی بات سیدنا حمزہ ؓ کو سنانے کے لیے کہی کہ بات یہیں ختم ہو کر رہ جائے اور حمزہ ؓ اسلام کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں ۔
سیدنا حمزہ ؓ ابوجہل کی مزاج پرسی کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ’’بھتیجے تم یہ سن کر خوش ہو گے کہ میں نے ابوجہل سے تمہارا بدلہ لے لیا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چچا! میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا ہاں اگر آپ مسلمان ہو جائیں تو مجھ کو بڑی خوشی حاصل ہو۔‘‘ یہ سن کر سیدنا امیر حمزہ ؓ نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا‘ سیدنا امیر حمزہ ؓ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کی آفت رسیدہ جمعیت کو بڑی قوت اور امداد حاصل ہوئی۔
یہ نبوت کے چھٹے سال کا واقعہ ہے‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ دار ارقم میں تھے‘ قریش مکہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں بہت ہی گستاخ اور بے باک ہو گئے تھے‘ اب سیدنا حمزہ ؓ کے مسلمان ہونے نے ان کو کسی قدر محتاط اور مؤدب بنا دیا اور لوگ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے میں کچھ تامل کرنے لگے۔

*📖 کتاب: تاریخِ اسلام*
*📚 جلد اول*
*✍️ مصنف: حضرت مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی رحمہ اللہ*
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

28/12/2022

28 رجب 1342ھ کی رات وہ ’’شب سیاہ‘‘ تھی جس کے بعد مسلم امہ نے کوئی صبح نہ دیکھی۔ مصطفی کمال نے استنبول کے گورنر کو حکم دیا کہ ’’صبح طلوع ہونے سے پہلے خلیفہ عبد المجید ترکی چھوڑ چکے ہوں‘‘ اس حکم پر فوج اور پولیس کی مدد سے عمل در آمد کیا گیا اور خلیفہ کو مجبور کر دیا گیا کہ سوئٹزر لینڈ جلاوطن ہو جائیں۔

28 رجب 1342ھ مطابق 3 مارچ 1924 ء کو صبح یہ اعلان کیا گیا کہ’’ عظیم قومی اسمبلی نے خلافت کے خاتمہ اور مذہب کے دنیا سے علیحدگی کے قانون کی منظوری دے دی، برطانوی سیکرٹری خارجہ لارڈ کرزن نے کہا ’’ترکی تباہ کر دیا گیا ہے اب وہ کبھی بھی اپنی عظمت رفتہ بحال نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے اس کی روحانی طاقت کو تباہ کر دیا ہے یعنی خلافت اور اسلام‘‘۔

خلافت کے خاتمہ کے بعد امت کی حالت ایسی ہوگئی جسے پرورش طلب بچہ اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو جائے اور خود غرض دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے تنہا رہ جائے۔ خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی استعماری کفار بھوکے بھیڑیوں اور گدھوں کی طرح اس امت پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے اس امت کا خون چوسنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اسلامی شریعت کو معطل کر دیا گیا۔ سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ریاست کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا دے کر تقسیم کر دیا گیا۔ اسلام کی عادلانہ معیشت کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے بدل دیا گیا اور مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی اسلامی حکومت کے بجائے سیکولرکردار حکومتی ڈھانچے کے ذریعہ کی جانے لگی ۔

مسلمان خلیفہ سے کتنی عقیدت و محبت رکھتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ خلیفہ مستعصم باللہ کی شہادت پر شیخ سعدیؒ نے ایک دلدوز مرثیہ کہا باوجودیکہ آپ مرکز خلافت سے بہت دور شیراز میں رہتے تھے۔ اس نوحے کے یہ اشعار بہت مشہورہیں:

ترجمہ:’’ اگر امیر المؤمنین مستعصم کے زوال پر آسمان،سے خون کی بارش ہو تو بجا ہوگا۔ اے محمدؐ اگر، قیامت زمین پر ہونی تھی تو آکر دیکھئے کہ،مخلوق خدا پر قیامت گزر گئی ہے۔‘‘

اسلام دشمن طاقتیں خلافت کو منہدم کرنا کیوں ضروری سمجھتی تھیں اس کا پتہ ایک واقعہ سے چلتا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے ساتھ تحریک آزادی کے سلسلہ میں مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے۔ وہاں ایک انگریز افسر تھا جس کا کسی جرم میں کورٹ مارشل ہوا تھا اور وہ بھی وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے اس سے پوچھا کہ خلافت عثمانیہ، مسلمانوں کی ایک کمزور سی خلافت ہے۔ کیا وجہ ہے کہ برطانیہ، فرانس اور اٹلی اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم مسلمان اس نام کی خلافت سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن سارا یورپ اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تمہیں خلافت ترکیہ سے خطرہ کیا ہے؟

اس نے کہا مولانا آپ کا سوال اس قدر سادہ نہیں جس سادگی سے آپ پوچھ رہے ہیں یاد رکھیئے! خلافت عثمانیہ ایک کمزور سی خلافت ہے مگر قسطنطنیہ میں بیٹھا ہوا ’’خلیفہ‘‘ آج بھی کسی غیر مسلم ملک کے خلاف اعلان جنگ کر دے تو مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک مسلمان نوجوانوں کی بھرتی شروع ہو جائے گی۔ سارا یورپ ان دو لفظوں ’’خلافت اور جہاد‘‘ سے کانپتا ہے یورپ کے تمام ممالک متحد ہو کر ان دولفظوں کی قوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے یہ کر دکھایا۔

خلیفہ عبد المجید ثانی کی معزولی اور سقوط خلافت کا اقدام امت مسلمہ کے لیئے بیسویں صدی کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوگیا مقاماتِ مقدسہ اغیار کے قبضہ میں چلے گئے۔ عالمِ عرب میں اسرائیل نے جنم لیا، پاکستان دو لخت ہوا افغانستان میں آتش فشاں پھٹا، بابری مسجد نے چیخ و پکار کی، وادئ کشمیر مسلمانوں کا مقتل بن گئی عراق کا عرق نکال دیا ، لبنان خون میں نہا گیا، شام اور برما کے مظلوم مسلمانوںکے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ،مسلمان یتیم اور لاوارث ہوگئے۔

ضروری ہے ہمارے خواص و عوام نظام حیات اور طرز حکومت لینے کے لیئے اقوام مغرب کی طرف حریصانہ نظروں سے دیکھنے کے بجائے اپنا رشتہ تابناک ماضی سے جوڑ لیں اور شاہراہ خلافت پر گامزن ہوکر ایک حقیقت شناس مرد قلندر کے اس کہے کو سچا کر دکھائیں کہ:

؎ اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
منقول

Address


Telephone

+923067252145

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Altaf.Ur.Rehman wattoo posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share