یادوں میں لازوال ہوتے ہیں
لمحے کچھ بے مثال ہوتے ہیں
جو کریں اوروں کے دکھوں کا علاج
لوگ وہ باکمال ہوتے ہیں
راہِ حق پر ڈٹے رہیں جو وہی
عاشقانِ بلال ہوتے ہیں
جو پریشاں نہ ہوں غموں سے کبھی
ایسے بھی کچھ رِجال ہوتے ہیں
اپنے کردار سے دو اُن کا جواب
تم سے جتنے سوال ہوتے ہیں
فرقتیں لگتی ہیں طویل بہت
مختصر سے وصال ہوتے ہیں
ہم اِسی شوق میں ہوئے بے حال
رابطے کب بحال ہوتے ہیں
سارے خوابوں کی ڈھونڈ نہ تعبیر
کچھ تو بکھرے خیال ہوتے ہیں
جرم ہم سے جو ہو گئے ثاقب
وہ بھی وجہِ وبال ہوتے ہیں
15/04/2023
لمحے قیمتی سرمایہ
انہیں لمحوں سے دن ہفتے مہینے سال بنتے ہیں
یہی گزریں تو ماضی ، جاری ہوں تو حال بنتے ہیں
سبق ماضے سے لے کر گر سنوارا جاٸے حال اپنا
تو آنے والے لمحے روشن استقبال بنتے ہیں
یہ لمحے قیمتی سرمایہ ہیں اِس زندگانی کا
اِنہیں ضائع جو کرتے ہیں وہی کنگال بنتے ہیں
گزاریں لمحہ لمحہ جو خدا کی ہی اِطاعت میں
ولی اور غوث ہوتے ہیں تو قطب اَبدال بنتے ہیں
کرے سودا وطن کا سامراجی قوتوں سے جو
وہی خود غرض حاکم وجہِ استحصال بنتے ہیں
جو اپنی جرأتوں سے موڑ دیں تاریخ کا دھارا
وفادار ایسے اہلِ عزم و اِستقلال بنتے ہیں
جنہوں نے دیکھے ہوں خود ، زندگی میں کرب کے لمحے
وہی اوروں کے اَشکوں کے لیے رومال بنتے ہیں
کہے ٹِک ٹِک گھڑی کی سانسیں تیری ہو رہی ہیں کم
یہی پیغام دینے کے لیے گھڑیال بنتے ہیں
فقط تخمینوں سے کچھ نہ ملے گا ہے عمل لازم
وگرنہ زاٸچے جدول نٸے ہر سال بنتے ہیں
بلا ناغہ کیے جاٸیں اگرچہ ہوں وہ کم ثاقب
خدا کے ہاں پسندیدہ وہی اَفعال بنتے ہیں
ثاقب افضل رضوی
29/03/2023
غزل
تری رونق تری زِینت ترا سِنگار ہے دَلدَل
اَری دُنیا ترا دِلکش سا سبزہ زار ہے دَلدَل
وہ کثرت مال کی ہو یا تفاخر منصبوں پر ہو
جہانِ فانی کا ہر ایک کاروبار ہے دَلدَل
کہا اُس نے نِبھانا ساتھ تم میرا تو میں بولا
یہاں اِنکار ہے دَلدَل یہاں اِقرار ہے دَلدَل
مُہِم یہ عشق کی آساں نہیں اِتنی اے دیوانے
اگر اِس پار ہے دَلدَل تو پھر اُس پار ہے دَلدَل
وہ ہے میرا میں ہوں اُس کا خیالی ہیں پلاٶ سب
یہاں عشقِ حقیقی کے سِوا ہر پیار ہے دَلدَل
اُسے چاہو جسے چاہے خُدا تو بات بَن جاٸے
جسے ناچاہتا ہو رَبّ وہی دِلدار ہے دَلدَل
کرو ثاقب شعور اپنے کےتابع لاشعور اپنا
وگرنہ یہ مُسلسَل آمدِ اَفکار ہے دَلدَل
23/03/2023
🌹 *ماہِ صیام*🌹
⬅️ ہو مبارک مومنو! پھر آگیا ماہِ صیام
رحمتِ باری سے ہوں سیراب جس میں خاص و عام
⬅️ فضلِ رب سے مسجدوں میں رونقیں بڑھنے لگیں
اہلِ ایماں اس میں ہیں محوِ عبادت صبح و شام
⬅️خوب ہے روزوں نمازوں اور زکوٰۃ مال سے
ظاہری اور باطنی پاکیزگی کا انتظام
⬅️ روز و شب ہوتے ہیں عاصی نار سے اِس میں بَری
ہوتی ہیں یہ بخششیں از اِبتدا تا اختتام
⬅️ اِس مہینے شیطاں تو ہیں قید میں جکڑے گئے
کاش اِس میں کر سکیں ہم نفسِ اَمَّارہ بھی رام
⬅️ ہو زباں یا کان آنکھیں روزہ سب اعضا کا ہے
جھوٹ چغلی گانے باجے چھوڑیں ہم سب اُلٹے کام
⬅️ ہوں نمازیں باجماعت ہو تلاوت شوق سے
ہم شِعار اپنا بنائيں سُنَّتِ خیرُ الاَنام
⬅️ پائیں آقا کے مُحِبّ مدحِ نبی سے بھی سُرور
بھیجیں خوب اُن پر درود اور بھیجیں خوب اُن پر سلام
⬅️ اہلِ ثروت بھی کرائیں سحریاں اِفطاریاں
مولا! ہوں تیری رِضا ہی کے لیے سب اہتمام
⬅️جس مہینے کی کریں توصیف قرآن و حدیث
شان اُس کی کیا بتائے گا یہ ثاقب کا کلام
🖊️ کلام: شاعر نظامیہ مولانا محمد ثاقب افضل رضوی
مجلس علماء نظامیہ پاکستان
19/03/2023
غزل
وفاداروں کو اپنوں کی جفائیں مار دیتی ہیں
تو غداروں کو غیروں کی عطائی مار دیتی ہیں
جہاں حاکم ہی مل جائیں جرائم پیشہ لوگوں سے
وہاں پر بے قصوروں کو سزائیں مار دیتی ہیں
کوئی ظالم کسی مظلوم کو کمزور نہ سمجھے
خدا سے کی گئی اس کی دعائیں مار دیتی ہیں
نہیں آتا کسی لیڈر کی باتوں پر یقیں اب تو
بھروسے کو کرپشن کی فضائیں مار دیتی ہیں
ضرورت زہر کی کیا ہے یہاں تو مہنگی اور گھٹیا
دوائیں مار دیتی ہیں غزائیں مار دیتی ہیں
جواں جذبوں کے حامل اور اونچا اڑتے ہیں لیکن
تھکے ماندے پرندوں کو ہوائیں مار دیتی ہیں
تواضع والے ہی پائیں جہاں میں رفعتیں رب سے
تکبر والوں کو ان کی انائیں مار دیتی ہیں
شریعت میں ہے پردہ اس لیے بھی لازمی کیوں کے
کوئی خود تو نہیں مرتا ادائیں مار دیتی ہیں
جہاں میں ہیں بہت سے موت کے اسباب اے ثاقب
بلائیں مار دیتی ہیں وبائیں مار دیتی ہیں
ثاقب افضل رضوی
03/03/2023
غزل
بڑھاپے میں بھی غفلت کی جوانی پر بہت رویا
میں عصیاں سے بھری اس زندگانی پر بہت رویا
گناہوں پر ہمیشہ ہی کہا هل من مّزید اِس نے
ہوس میں نفس کی ایسی گِرانی پر بہت رویا
جو چاہا وہ نہ پایا کیوں جو پایا تھا وہ کھویا کیوں
ادھوری سی محبت کی کہانی پر بہت رویا
تبسم تھا سر محفل غمِ جاناں چھپانے کو
مگر تنہائی میں سوزِ نِہانی پر بہت رویا
ہنر میرے جو گنواتے رہے عیبوں کے کھاتے میں
میں اُن احباب کی ریشہ دوانی پر بہت رویا
مرے خالص عمل کو بھی جو سمجھے غرض کی خاطر
میں ایسے دوستوں کی بد گمانی پر بہت رویا
حقائق کو چھپائیں جو حسیں لفظوں کے پردوں میں
میں اُن مکاروں کی جادو بیانی پر بہت رویا
سراپا جرم ہوں ثاقب کرم پھر بھی ہوا مجھ پر
میں ربِّ لَم یَزَل کی مہربانی پر بہت رویا
Be the first to know and let us send you an email when DANA e SUBUL posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.