PBC

PBC This is a district news page from Faisalabad. We have provided you with serious content. media news/company

18/05/2023
14/05/2023

‏آج کی دو خبریں

زلزلے تباہی کے باوجود ترکیہ میں ووٹنگ جاری لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے

دوسری خبر

سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود آج پنجاب میں الیکشن نہیں ہوا لوگوں کو انکا حق رائے دہی استعمال نہیں کرنے دیا جارہا

نکل بھوسڑی کے
05/05/2023

نکل بھوسڑی کے

‏- پولیو کے قطرے کے لئے پیسے بِل گیٹس فاؤنڈیشن دے گی - ٹی بی کے خاتمے کے لئے رقم گلوبل فنڈ سے لیں گے - تعلیم کے لئے فنڈ ...
02/04/2023

‏- پولیو کے قطرے کے لئے پیسے بِل گیٹس فاؤنڈیشن دے گی
- ٹی بی کے خاتمے کے لئے رقم گلوبل فنڈ سے لیں گے
- تعلیم کے لئے فنڈ USAID زندہ باد
- کچرا چین اور تُرکی کی کمپنیاں صاف کروائیں گی
- دھماکے کے بعد نعشیں ایدھی والے اُٹھائیں گے
- ملکی خزانہ لُوٹنے کے لئے IMF فنڈ آوے ہی آوے

باقی ملک ہم مل بانٹ کر چلائیں گے ۔
آج کے “ اتّحادی جماعتوں کے اہم نُکات

عمران ریاض کو گرفتار کرنے کی FIR. سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کے خلاف تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا
02/02/2023

عمران ریاض کو گرفتار کرنے کی FIR. سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کے خلاف تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا

07/01/2023

‏شہید ارشد شریف کے گولڈن ورڈز
ہم صرف آپکو آئینہ دکھاتے ہیں ، اگر اس آئینہ میں آپکو اپنی شکل گھٹیا نظر آ رہی ہے تو
آئینہ نہ توڑیں اپنے کرتوت ٹھیک کریں۔۔۔

17/12/2022

1980 میں پی ائی اے منافع میں تھی روزویلٹ جیسے ہوٹل خرید کر اثاثے بناتی تھی 2007 کے بعد سب سے ناکارہ ایئر لائن بن گئی ۔۔۔

وجہ ؟

زرعی مُلک میں ٹریکٹر کی ڈیمانڈ ختم ہوگئ ہے اس لئے ہفتے میں تین دن کمپنی بند رہے گی۔جو ریاست بچانے آئے تھے وہ صنعت و زراع...
16/12/2022

زرعی مُلک میں ٹریکٹر کی ڈیمانڈ ختم ہوگئ ہے اس لئے ہفتے میں تین دن کمپنی بند رہے گی۔

جو ریاست بچانے آئے تھے وہ صنعت و زراعت قربان کر چلے

واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی یہ عمارت ہے ! اس کی خوبصورتی اور آرائش کے لئے 70 لاکھ ڈالر قرض لیا گیا تھا۔اور پھر آج ...
13/12/2022

واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی یہ عمارت ہے !
اس کی خوبصورتی اور آرائش کے لئے 70 لاکھ ڈالر قرض لیا گیا تھا۔

اور پھر آج اسکو 68 لاکھ ڈالر میں بیچا جا رہا ہے !!

امریکا میں رئیل اسٹیٹ سے منسلک ایک بندہ بتا رہا ہے کہ
‏میں اس عمارت کو اس سے دوگنی قیمت پر خریدنے کو تیار ہوں ...
یعنی اسکی مارکیٹ ویلیو بہت زیادہ بنتی ہے جتنے میں اسکو بیچا جا رہا ہے !!

مجھے سو فیصد یقین ہے کہ .. یہ کسی ایسے عرب ملک میں کسی ایسے بزنس مین یا کمپنی کو دی جا رہی ہے جس میں شریف خاندان کے شئیرز ہونگے یعنی الفاظ دیگر یہ شریف خاندان کو جاۓ گی !!

یہ عمارت 6.8 ملین ڈالر میں کیوں دے رہے ہیں جس کی قیمت کم از کم 15 سے 20 ملین ڈالر ہوگی !!

11/12/2022

ملک کے گیس سیکٹر کا سالانہ نقصان ایک ہزار ارب روپے اور بجلی کے شعبہ کا 500 ارب روپے ہے۔ پی ایس او کا گردشی قرض ایک ہزار ارب روپے ہے۔ پی آئی اے کا سالانہ خسارہ اس سال 67 ارب روپے ہے۔ پاکستان پر بیرونی قرض 135 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔

07/12/2022

پی آئی اے لندن ہیتھروایئرپورٹ پر لینڈنگ اسپاٹس سے بھی محروم ہوگئی۔ PIAکو برطانیہ اور یورپ میں پابندیوں کا سامنا ہے۔PIAنے چھ ماہ کے لیئے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اپنی چھ اسپاٹ ترکش ایئر لائن اور ایک کویت ایئرلائن کو دی تھ. ہیتھرو ایئرپورٹ حکام نے PIA کی اسپاٹس کو منسوخ کر دیا ہے

اداکارہ شبنم ریپ کیس ۔ 1978*************************فاروق بندیال( جسٹس عمر عطا بندیال فاروق بندیال کا کزن) جن کا تعلق خو...
05/12/2022

اداکارہ شبنم ریپ کیس ۔ 1978

*************************

فاروق بندیال( جسٹس عمر عطا بندیال فاروق بندیال کا کزن) جن کا تعلق خوشاب کی بااثر زمین دار فیملی سے ہے، کا نام 1978 ء میں اداکارہ شبنم گینگ ریپ کیس کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے سامنے آیا تھا۔
یہ کیس اس زمانے میں شبنم ڈکیتی کیس کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ فاروق بندیال اور اس کے دوستوں نے 12 مئی 1978ء کو گلبرگ لاہور میں اداکارہ شبنم کے گھر واردات کی اور ان کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ کر ان کے سامنے یہ نوجوان رات بھر شیطانی کھیل کھیلتے رہے، ملزمان بعد ازاں نقدی اور زیورات لے کر فرار ہو گئے۔تمام ملزمان اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ فاروق بندیال خوشاب کی تگڑی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتا تھا‘یہ گاؤں بندیال کا رہنے والا تھا‘ اس کے ماموں ایف کے بندیال(عطا بندیال کا باپ) اس وقت چیف سیکرٹری تھے۔ واردات کے پانچ روز بعد 17 مئی 1978 ء کو لاہور پولیس نے ان ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
اس زمانے میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء نافذ تھا اور فاروق بندیال کے ماموں ایس کے بندیال صوبائی سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔ فاروق اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی گئی مگر عوامی احتجاج اور فلم انڈسٹری کی ہڑتال کے بعد حکومت ان کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہو گئی۔ 24 اکتوبر 1979 ء کو فوجی عدالت نے فاروق بندیال اور اس کے پانچ ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی تاہم بعد ازاں اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈلوا کر ان کی سزا معاف کر دی گئی۔ فاروق بندیال کو کوٹ لکھپت جیل میں بی کلاس دی گئی تھی۔ جیل میں ‌موجود سیاسی قیدیوں کے مطابق وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ عام قیدیوں کو بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ ہم نے اداکارہ شبنم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کی سفارش پر ان کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی اور شبنم انہیں معاف کرنے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے اور خاوند کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔ یہ تو وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگوں کو معلوم ہے اور ان میں سے کچھ باتیں اس زمانے کے اخبارات میں شائع بھی ہوئیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی کہانیاں اور واقعات ہیں جو آج کی نسل کو معلوم ہی اس مقدمے کی روداد چالیس برس قبل کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتی تھی۔ وہ اداکار شبنم کے عروج کا زمانہ تھا۔ فوجی عدالت میں سماعت کے موقع پر صحافیوں اور وکلاء کی بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی تھی۔ اداکارہ شبنم نے 25 نومبر 1978 ء کو فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا اس مقدمے کی روداد چالیس برس قبل کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتی تھی۔ وہ اداکار شبنم کے عروج کا زمانہ تھا۔ فوجی عدالت میں سماعت کے موقع پر صحافیوں اور وکلاء کی بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی تھی۔ اداکارہ شبنم نے 25 نومبر 1978 ء کو فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا اور فاروق بندیال اور دیگر ملزمان کی شناخت کی۔ یہ سارا احوال روزنامہ امروز اور دیگر اخبارات میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوا۔ ادکارہ شبنم کے وکیل نام ور ماہر قانون ایس ایم ظفر تھے جب کہ فاروق بندیال کی جانب سےبھی وکیل صفائی کے طور پر اس زمانے کے چوٹی کے وکیل عاشق حسین بٹالوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عاشق حسین بٹالوی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ اسی زمانے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل استغاثہ تھے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔
اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرانے سے قبل بائیبل پر حلف دیا، عدالت نے ان سے پوچھا کہ وہ کس زبان میں بیان ریکارڈ کرائیں گی تو شبنم نے کہا میں قومی زبان اردو میں ہی بیان دوں گی، اخبارات کے مطابق شبنم نے بتایا کہ ملزمان میرے بیٹے رونی کے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے اور میں بیٹے کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میرے مشہور مقدمے میں اس کیس کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے خصوصی فوجی عدالت میں‌اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن شبنم نے بہت حوصلے کے ساتھ ملزمان کی نشاندہی کی اور جرح کا بھی سامنا کیا۔
ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے جو عدالت میں موجود تھے۔ جب شبنم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان ملزمان کو پہچانتی ہیں تو انہوں نے کہا میں انہیں کیوں نہ پہچانوں گی جنہوں نے میرا سکون برباد کر دیا۔عدالت میں بیان دیتے ہوئے اداکارہ شبنم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ واردات کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسی ہی واردات ہوئی تھی۔ زمرد کا گھر بھی شبنم کے گھر کے قریب ہی تھا ،اور اس میں ‌بھی یہی لوگ ملوث تھے، اداکارہ زمرد خوفزدہ ہو کر خاموش ہو گئی تھیں‌ لیکن شبنم نے مقدمے کی پیروی کی اور تمام دھمکیوں اور دباؤ کا بھی سامنا کیا۔
سینئر صحافی جمیل چشتی اس زمانے میں عباس اطہر کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ آزاد کے لئے کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں پہلا صحافی تھا جو واردات کے بعد شبنم کے گھر پہنچا۔ گھر میں سامان بکھرا پڑا تھا اور شبنم کی حالت غیر تھی۔ روبن گھوش کا مکمل کا کرتا پھٹا ہوا تھا۔ شبنم اپنے بیٹے کو گود میں لئے رو رہی تھیں اور وہ بار بار بے ہوش ہو جاتی تھیں‌۔ شبنم کے بیڈ روم میں پرفیوم کی بے پناہ خوشبو تھی جو ملزمان شبنم پر انڈیلتے رہے تھے۔ جمیل چشتی کے بقول ان کی موجودگی میں ہی اداکار محمد علی بھی شبنم کے گھر پہنچے اور انہوں نے انتظامیہ اور پولیس سے رابطے کئے۔ جمیل چشتی کے بقول ایک ملزم جمشید اکبر ساہی کا تعلق پولیس سے تھا، اس لئے ملزمان پولیس کی نقل و حرکت سے بھی واقف تھے۔ اس زمانے میں پولیس صبح ساڑھے چار بجے تک گشت کیا کرتی تھی۔ ملزمان نے واردات کے بعد ساڑھے چار بجنے کا انتظار کیا اور پولیس گشت ختم ہونے کے بعد اطمینان سے فرار ہو گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں ملزمان کی گرفتاری بھی اسی جمشید ساہی کی وجہ سے عمل میں آئی۔ واردات کے دوران جو زیورات لوٹے گئے ان میں اداکارہ شبنم کا ایک قیمتی ہار بھی تھا۔ ساہی واردات کے تیسرے روز وہی ہار ایک طوائف کو دینے کے لئے بازار حسن گیا اور وہاں پہلے سے موجود مخبروں کی نشاندہی پر دھر لیا گیا۔
ملزمان کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنا دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان کے لواحقین نے شبنم پر بھر پور دباؤ ڈالا۔ بندیال فیملی، ججز،چیف سیکریٹری اور دیگر اسٹیبلشمنٹ کا پریشر بہت زیادہ ہوا تو ضیاء الحق نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے۔ اداکارہ شبنم کا گھرانہ اس وقت سخت ترین اذیت سے گزر رہا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیج دیا۔ اب وہ صرف مجرموں کو سزا دلوانا چاہتی تھی۔ آخر شبنم کوانہیں معاف کر نا پڑا۔ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جس پر صدر مملکت سے اپیل کی تھی۔ شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کروائے گئے اور سزائے موت کو معمولی سزا دس سال قید میں بدل دیا گیا۔ لیکن دو سال بعد رہا ہوگئے

شبنم کیس میں ادکارہ شبنم دبائو میں آچکی تھیں اور مجرموں کو سزا نہیں دلوانا چاہتی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ اس طرح مجرموں کے خاندان اس کے دشمن بن جائیں گے۔ صحافی آج تک شاہ صاحب سے پوچھتے ہیں ”آپ شبنم کے وکیل تھے‘ آپ کی جرح
پر ملزموں کو سزائے موت ہوئی تھی پھر آپ نے ملزموں کےلئے اپیل کیوں کی؟“ میں نے بھی شاہ صاحب سے یہ سوال کیا‘ ایس ایم ظفر نے دو وجوہات بتائیں‘ ان کا کہنا تھا” میں سزائے موت کے خلاف ہوں‘ میں نہیں چاہتا تھا میری وجہ سے کوئی شخص پھانسی چڑھ جائے‘دوسری وجہ شبنم تھی‘ شبنم بھی نہیں چاہتی تھی ملزموں کو پھانسی ہو‘ وہ کہتی تھی اس سے ان کے خاندانوں کے ساتھ دشمنی ہو جائے گی اور ہم یہ نہیں چاہتے چنانچہ میں نے جنرل ضیاءالحق کو خط تحریر کر دیا“ یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے شبنم سے لے کر ایس ایم ظفر کے خط اور جنرل ضیاءالحق کی منظوری تک فاروق بندیال کے ماموں ایف کے بندیال نے اہم کردار ادا کیا ‘ یہ بااثر ترین بیوروکریٹ تھے‘ جنرل ضیاءالحق انہیں ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ درخواست فوراً منظور ہو گئی ورنہ ایس ایم ظفر نے کتنے فیصلوں کے بعد ملزموں کی معافی کےلئے درخواستیں کیں اور کتنی درخواستیں منظور ہوئیں؟ یہ بہرحال ملزم کے ماموں کا ڈنڈا تھا چنانچہ شبنم کو پورا انصاف نہ مل سکا‘ ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی‘ جیل میں بھی انہیں رعایتیں ملیں اور یہ دو برس میں رہا ہو کر گھر واپس آ گئے اور خاندان نے ڈھول بجا کر ان کا استقبال کیا۔یہ کیس شبنم کا کیریئر‘ توانائی اور جذبہ تینوں کو نگل گیا‘ یہ فلم انڈسٹری سے پسپا ہوئی‘تنہائی کا شکار ہوئی اور آخر میں والدین کے پاس بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کر لیا‘ ایف کے بندیال اس وقت بھی موجود تھے چنانچہ حکومت نے شبنم کو بنگلہ دیش جانے کی اجازت نہ دی‘ شبنم دو سال وزارت خارجہ کے این او سی کے لئے ماری ماری پھرتی رہی یہاں تک کہ اس نے حکومت کو لکھ کر دے دیا ”میرے والدین بیمار ہیں‘ مجھے ایک بار ان سے ملاقات کی اجازت دے دی جائے‘ میں وعدہ کرتی ہوں‘ میں واپس آؤں گی“ یہ درخواست
اوپر تک گئی اور شبنم کو صدر کی ہدایت پر بنگلہ دیش جانے کی اجازت دی گئی‘یہ ڈھاکہ گئی اور پھر اپریل 2012ءمیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کےلئے پاکستان آئی‘ شبنم کا بیٹا رونی ڈکیتی کی واردات کے بعد امریکا شفٹ ہو گیا‘ یہ کبھی دوبارہ پاکستان نہیں آیا‘ روبن گھوش13فروری 2016ءکوانتقال کر گئے یوں اس کیس کے بعد شبنم ماضی کا قصہ بنتی چلی گئی۔

04/12/2022

پاکستان کے ذمہ۔مجموعی طور پر 135 ارب ڈالر کا قرض ہے۔ اس میں سے 10 ارب ڈالر کے بانڈز ہیں اور 10 ارب ڈالرز کمرشل بنکوں کے قرضے ہیں۔ 27 ارب ڈالر کا چین کا قرض ہے۔ 60 ارب ڈالر عالمی اداروں سے حاصل کردہ ادھار ہے۔ باقی اور ملکوں کے قرضے ہیں۔

‏قومی اسمبلی کی 342 سیٹوں کی تفصیلات!!
27/11/2022

‏قومی اسمبلی کی 342 سیٹوں کی تفصیلات!!

‏4 ماہ میں سعودی عرب سے 40 کروڑ ڈالر کا ادھار تیل حاصل کیا گیا۔۔۔!!!
23/11/2022

‏4 ماہ میں سعودی عرب سے 40 کروڑ ڈالر کا ادھار تیل حاصل کیا گیا۔۔۔!!!

مسلم ملک قطر نے فٹبال ورلڈکپ کی افتتاحی تقریب میں واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان کی حکومت کے سربراہ کو مدعو نہیں کیا؟
21/11/2022

مسلم ملک قطر نے فٹبال ورلڈکپ کی افتتاحی تقریب میں واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان کی حکومت کے سربراہ کو مدعو نہیں کیا؟

20/11/2022

سات ماہ میں شہباز شریف حکومت میں زر مبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے کم ہو کر 8ارب ڈالر رہ گئے۔ کیا زبردست کامیابی ہے!

20/11/2022

‏قوم چاہتی ہے جنرل الیکشن ہو مگر اس ملک میں " جنرلوں" کا الیکشن ہو رہا ہے.

انور مقصود

‏زندہ باد”28 دن کے کھیل کیلئے ہم قطری اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتے۔ قطر تمام اقوام عالم کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہتا...
20/11/2022

‏زندہ باد
”28 دن کے کھیل کیلئے ہم قطری اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتے۔ قطر تمام اقوام عالم کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہتا ہے مگر ہم عالمی فٹبال کپ میں ہم جنس پرستوں کے پرچم لہرانے ، شائقین کو غیرمناسب لباس پہننے اور سر عام شراب نوشی کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے کیونکہ یہ تمام
چیزیں ہمارے مذہب اسلام اور ہمارے ملکی قوانین کے منافی ہیں“
یہ پیغام قطر میں منعقد ہونے والے عالمی فٹبال کپ 2022 کے سیکیورٹی ہیڈ عبداللہ نصری نے ساری دنیا کو دیا ہے۔

18/10/2022

"ڈبل شاہ“

ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر بی ایس سی اور بی ایڈ کیا،

وزیر آباد کے قریب نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا۔ غربت زیادہ تھی اور خواب اونچے، وہ نوکری سے اکتا گیا۔ اس نے چھٹی لی اور 2004ء میں دوبئی چلا گیا۔ وہ چھ ماہ دوبئی رہا۔ چھ ماہ بعد وزیر آباد واپس آگیا۔
وزیر آباد میں اس نے ایک عجیب کام شروع کیا۔اس نے ہمسایوں سے ر سے رقم مانگی۔ اور یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے واپس کر دی۔ ایک ہمسایہ اس کا پہلا گاہک بنا یہ ہمسایہ جاوید ماربل کے نام سے ماربل کا کاروبار کرتا تھا۔ ہمسائے نے رقم دی اور ٹھیک پندرہ دن بعد دوگنی رقم واپس لے لی۔

محلے کے دو لوگ اگلے گاہک بنے یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آۓ۔اور پھر یہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی لائین لگ گئی۔

لوگ زیورات بھیجتے، گاڑی، دکان، مکان اور زمین فروخت کرتے، اور رقم اس کے حوالے کر دیتے۔ وہ یہ رقم دوگنی کر کے واپس کر دیتا۔
اور رقم اس کے حوالے کر دیتے۔ وہ یہ رقم دوگنی کر کے واپس کر دیتا۔ یہ کاروبار شروع میں صرف نظام آباد تک محدود تھا۔ لیکن پھر یہ وزیر آباد' سیالکوٹ اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ معمولی سکول ماسٹر ارب پتی ہو گیا۔ یہ کاروبار 18 ماہ جاری رہا۔ اس شخص نے ان 18 مہینوں میں 43 ہزار لوگوں سے 7 ارب روپے جمع کر لئے. جب کاروبار پھیل گیا تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔

رشتے دار سمبڑیال سیالکوٹ - گجرات اور گوجرانوالہ سے رقم جمع کرتے تھے۔ پانچ فیصد اپنے پاس رکھتے تھے، اور باقی رقم اسے دے دیتے۔ وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا۔ یہ مدت بعدازاں ایک مہینہ ہوئی۔ پھر دو مہینے اور آخر میں 70 دن ہو گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔

پھر اس کے برے دن شروع ہوگئے۔ وہ خفیہ اداروں کی نظر میں آ گیا۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو پتہ چلا وہ *"پونزی * "پونزی سلیم "* چلا رہا ہے۔
پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ۔ میں رقم دینے والا گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے۔ وغ کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہے۔ لیکن آخری گاہک سارے سرمائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مجھے چند برس قبل امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انٹرویو کرنے والے نے ان سے سوال کیا: "آپ کو اگر اپنی عملی زندگی دوبارہ شروع کرنی پڑے تو آپ کون سا کاروبار کریں گے “؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا: میں نیٹ ورکنگ کا کاروبار کروں گا۔”

میرے لئے یہ کاروبار نیا تھا۔ میں نے تحقیق پتہ چلا نیٹ ورکنگ بھی پونزی جیسا کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں بھی گاہک کو رقم دگنی کرنے کا لالچ دے کر سرمایہ اکٹھا کیا

جاتا ہے۔ یہ سرمایہ بعد ازاں میگا : میگا پرا بیلنس میں لگا دیا جاتا ہے اور ان میگا پراجیکٹ کا منافع گاہوں میں کر دیا جاتا ہے۔

نیٹ ورکنگ نسبتاً اچھی پونزی ہوتی لیکن دونوں میں شروع کے گاہک فائدے اور آخری نقصان میں رہتے ہیں۔ یه وزیر آبادی شخص بھی اپنے گاہکوں کے ساتھ پونزی کر رہا تھا۔ یہ لوگوں کو لالچ دے کر لوٹ رہا تھا۔ خفیہ اداروں نے اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔
اس دوران *ڈیلی نمیشن * میں اس کے خلاف خبر شائع ہوگئی۔ وجرانوالہ ڈویژن میں کہرام برپا ہوا۔ اور یہ شخص اپریل 2007ء میں گرفتار ہو گیا۔ جی ہاں ۔ آپ کا اندازہ درست * سید سبط احسن عرف ڈبل شاہ* الحسن

وہ ڈبل شاہیں کا شمار پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیوں میں ہوتا تھا۔اس نے صرف ڈیڑھ سال میں تین اضلاع سے سات ارب روپے جمع کر کے دنیا کو حیران کر آپ اب اس شخص کی چالا کی ملاحظہ کیجئے۔ یہ 2007ء میں نیب کے شکنجے میں آ گیا۔ 2007ءمیں نیب نے اس کی جائیداد زمینیں' اکانٹس اور سیف پکڑ لئے یہ رقم تین ارب روپے بنی، اور اس نے یہ مین ارب چپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیے۔ ڈبل شاہ کا کیس چلا۔ اسے یکم جولائی 2012ء کو 14 سال قید کی سزا ہوئی۔ جیل کا دن 12 گھنٹے کا ہوتا ہے چنانچہ ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً 7 سال تھے. عدالتیں پولیس حراست” حوالات اور مقدے کے دوران گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہیں۔ ڈبل شاہ 13 اپریل 2007ء کو گرفتار ہوا تھا وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا۔ پانچ سال بھی اس کی مجموعی سزا سے نفی ہو گئے پیچھے رہ گئے دو سال ڈبل شاہ نے محسوس کیا چار ارب روپے کے عوض دو سال قید مہنگا سودا نہیں ، ار چنانچہ اس نے پلی بارلین کی بجائے سزا قبول کر لی۔
جیل میں اچھے چال چلن' عید' شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی

قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے. ڈبل شاہ کو یہ چوٹ بھی مل گئی۔ چنانچہ وہ عدالتی فیصلے کے 23ماہ بعد جیل سے رہا ہو گیا۔ ڈبل شاہ 15 مئی 2014ء کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوا، تو ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کیا۔ یہ لوگ اسے جلوس کی | شکل میں وزیر آباد لے آۓ. وزیر آباد میں ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا. پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیے کو ہار پہناۓ گئے. اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی کئیں،اور اسے مسجدوں کے لاڈ سپیکروں کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی۔ وہ ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا۔ وہ سکول ٹیچر تھا. وہ معاشرے کا تیسرے درجے کا شہری تھا۔ اس نے فراڈ شروع کیا اور 18 ماہ میں سات ارب روپے کا مالک بن گیا۔ نیب نے اسے گرفتار کر لیا' وہ گرفتار ہو گیا نیب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود اس سے چار ارب روپے نہیں نکلوا سکا. سزا ہوئی، اور وہ بڑے آرام . سزا بھگت کر باہر آ گیا۔ اس نے قید کے دن بھی جیل کے ہسپتال اور سیکنڈ کلاس میں گزارے۔ اسے جیل میں تمام سہولتیں حاصل تھیں. چنانچہ وہ جب رہا ہوا، تو وہ مکمل طور پر کلیئر تھا۔ اس نے اب کسی کو کچھ ادا کرنا تھا، اور نہ ہی پولیں اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی۔ ارب روپے اب اس کے تھے. یہ رقم بلا : اس رقم کا بلا شرکت غیرے مالک تھا ایک سابق مولا میرے لیے چار ارب روپے کی رقم قارون کے خزانے سے تم نہیں تھی۔
وہ وزیر آباد سے لاہور شفٹ ہوا،اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا۔ لیکن اب * اللہ کا نظام بھی ملاحظہ کیجئے * الحسن شاہ عرف ڈبل شاہ کو رہائی کے 16 ماہ بعد اکتوبر 2015ءمیں لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا. پر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا اس کی طبیعت تھوڑی سی بحال ہوئی یہ گھر آیا، لیکن پھر یہ شخص 30 اکتوبر 2015ء کو انتقال کر گیا. یہ شخصچار ارب روپے کا مالک ہونے کے باوجود دنیا رخصت ہو گیا. ڈبل شاہ کی ساری بے نامی جائیداد خفیہ اکانٹس کیش رقم فیکٹریاں اور پلازے دنیا میں رہ گئے، اور وہ خالی ہاتھا گلے جہاں چلا گیا۔ وہ جائیداد' وہ رقم وہ پلازے اور وہ خفیہ اکانٹس آج کہاں ہیں؟

دنیا کا مال دنیا کے کتے چاٹ گئے۔ یہ کیا ہے؟ ہماری زندگی' ہمارے نہ ختم ہونے والے لالچ اور ہماری لامتناہی خرص کی اصل حقیقت ہے ہم انسان اپنے گرد لالچ کی وسیع دیوار بناتے ہیں ہم مال جمع کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کی عمر بھر کی کمائی لوٹتے ہیں اور قارون کی طرح خزانے بناتے ہیں. لیکن آخر میں ہم چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں. اور یہ مال دوسروں کے کام آ جاتا ہے۔ نور جہاں کا مقبرہ نشئیوں کی پناہ گاہ بن جاتا ہے۔ اور شاہ جہاں کے تاج محل میں انگریزوں کے گھوڑے باندھے جاتے ہیں۔

01/10/2022

وفاقی حکومت کا ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دیا جانا والا اسپیشل بجلی ٹیرف ختم کرنے کا فیصلہ ، یہ اسپیشل ٹیرف عمران خان دور حکومت میں فیصل آباد سمیت پنجاب کے دیگر فیکٹریوں کو دیا گیا تھا خرم مختار صدر فیصل آباد ٹیکسٹائل کا کہنا ہے اس فیصلہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بہت نقصان ہوگا اور ہمارے لئے کام چلانا بہت مشکل ہو جائے گا اور فیکٹریاں بند کرنے سے بہت سے لوگوں کو بے روزگار ہونا پڑے گا
ان کا مزید کہنا تھا موجودہ حکومت نے وعدہ کیا تھا بجلی کا ریٹ نہیں بڑھایا جائے گا جس کی بنا پر ہم نے اگلے چھ ماہ کے آرڈر لئے تھے اب اگر ریٹ بڑھتا ہے تو ہمیں نقصان ہوگا
جبکہ اس فیصلہ کے بعد پنجاب میں انڈسٹری کے لئے بجلی سندھ سے زیادہ مہنگی ہو جائے گی.

01/10/2022
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف درج ایف آئی آر سے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
19/09/2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف درج ایف آئی آر سے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

18/09/2022

‏6 ارب ڈالرز کا جنازہ!
ملکہ الزبتھ کا 8 تاریخ کو انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن تدفین ابھی تک نہیں ہوئی۔ آخری مراسم جاری ہیں۔ 19 تاریخ کو موت کے 11 دن بعد تابوت قبر میں اتارا جائے گا۔ موت سے تدفین تک عجیب و غریب رسوم و رواج، ویسٹ منسٹر ہال میں چار روزہ دیدار، وہاں سے بکنگھم پیلس روانگی ‏وہاں سے ویلنگٹن آرچ آمد، پھر سینٹ جارج چیپل تک سفر، وہاں دعائیہ تقریب، پھر شاہی والٹ میں اتارنے کے بعد تدفین، مخصوص تابوت، جس پر سنہری چھڑی، گلوب پر نصب صلیب، ہر قدم عجیب شاہی پروٹوکول، چیونٹی کی رفتار سے چلتی مخصوص گاڑیاں، حکومتی زعماء کی شرکت، اس دوران نئےبادشاہ کی تاج پوشی۔ اس سب پر کتنا خرچہ آیا ہوگا؟ امریکی چینل اسکائی نیوز کے مطابق صرف 6 ارب ڈالرز۔ (پاکستانی کرنسی میں 1331 ارب روپے) دنیا بھر سے جو لوگ جنازے میں شرکت کیلئے آئے، ان کے اخراجات اپنی جگہ۔ یہ معاملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا۔ رسوم کی بجا آوری کا سلسلہ مزید چلتا رہے گا۔ ‏جس پر اٹھنے والے اخراجات الگ ہوں گے۔ لیکن اس سب کا آنجہانی ملکہ کی روح کو کوئی فائدہ؟ کچھ بھی نہیں، بلکہ کسی بھی انسان کو تو کیا، کسی ذی روح کو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ سراسر عقل کے خلاف فضولیات، بے جا اسراف، سرمائے کا ضیاع۔ وہ بھی اک ایسے وقت میں جب برطانوی معیشت سخت مشکلات کا شکار۔ مگر اس کے باوجود مجال ہے کسی لبرل، سیکولر یا ملحد نے ان فضولیات پر ایک حرف بھی زبان پر لایا ہو کہ جی بڑا پیسہ ضائع کر دیا۔ اس سے کئی واٹر کولر لگوائے جا سکتے تھے، کسی غریب کی بچی کی شادی ہو سکتی تھی۔ مگر قربانی کے چند ہزار روپے مسلمان اپنی مرضی سے خرچ کریں تو انہیں اوپر نیچے آگ لگ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک مسلم بادشاہ (نام نہاد ہی سہی) کا بھی حال ہی میں (13 مئی) انتقال ہوا۔ امارات کے حکمراں شیخ خلیفہ بن زید النہیان کا۔ لیکن اسلامی تعلیمات کی برکت کہ جنازہ سادگی کا نمونہ۔ صبح انتقال اور مغرب کے بعد تدفین۔ ‏نہ دیدار عام کیلئے چار دن انتظار، نہ ہی لمبا چوڑا شاہی پروٹوکول۔ چند افراد نے عام سے تختے پر میت اٹھائی اور قبرستان پہنچا دیا۔ میت بھی عام سے کفن میں لپٹا ہوا، جس پر نہ سونے سے مرصع چادر اور نہ ہی طلائی تابوت۔

11/09/2022

‏نواز شریف کو 12سال قید بامشقت عدالتوں سے ہوئی قانون آئین کو پھاڑ کر 50روپے کے اسٹام پیپر پر لندن جا بیٹھا ۔
مریم اور کیپٹن صفدر کو 7-7 سال قید بامشقت عدالتوں سے ہوئی 4سال سے ضمانت لےکر اداروں کے خلاف سرے عام زہر اگل۔رہے

😜😂
11/09/2022

😜😂

20/08/2022

Copied
ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟

انڈیا نے اپنا آئین 1949 اور بنگلہ دیش نے 1972 میں بنالیا تھا. ہمیں 9 سال لگے اور 2 سال بعد ہی منسوخ کردیا گیا. 1962 کا آئین بنا لیکن نافذ نہ ہوسکا. 2 ٹکڑے ہونے کے بعد 1973 میں کہیں جاکر آئین پاکستان بنا. 1947 سے لیکر 1962 تک جواہر لال نہرو بھارت ‏کے وزیراعظم رہے. ان 15 سالوں میں ہر ادارے کی بنیادوں کو مضبوط کرلیا دوسری طرف پاکستان میں 1958 تک 7 وزرائےاعظم گھر جاچکے تھے. جس پر نہرو کہا تھا اتنی میں نے دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان نے سربراہ بدل لئے. بنگلہ دیش میں 1971 سے 1990 تک 9 وزرائےاعظم آزمائے گئے لیکن پھر 2 عورتوں نے ملک کو استحکام دینے کی ٹھانی خالدہ ضیا نے پہلی بار 1991 سے 96 تک آئینی مدت ‏مکمل کی. اسکے بعد حسینہ واجد نے 5 سال مکمل کئے اور خالدہ ضیاء دوسری مرتبہ آئیں جنہوں نے پھر 5 سال مکمل کئے. 2008 میں حسینہ واجد آئیں جو 2018 میں مسلسل تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں. 2022 میں 15 سال ہوجائیں گے. اس سیاسی استحکام نے بنگلہ دیش کی برآمدات کو 52 ارب ڈالر ‏تک پہنچا دیا ہے. بھارت میں نہرو کے بعد انکی بیٹی اندرا گاندھی نے 15 سال اور انکے بیٹے راجیو گاندھی نے 5 سال حکومت کی. من موہن سنگھ 2004 سے 2014 تک اور تب سے ابتک مودی وزیراعظم ہیں. بھارت گزشتہ برس دنیا کی طاقتور معیشتوں میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پانچویں نمبر پر آگیا ہے. ‏صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات 150 ارب ڈالر سے زائد ہیں.

امریکی خلائی ادارے ناسا میں ہر آٹھواں ورکر بھارتی ہے. 90 کی دہائی میں پاکستان کو 2 نئے سیاستدان ملے تو امید جاگی کہ یہ ملک کو آگے لیکر جائنگے لیکن 1999 تک یہ دونوں ایک دوسرے کو 2 دو مرتبہ گرا کر سینوں پر غرور کے میڈل ‏سجا چکے تھے. 2014 سے بنگلہ دیش اور بھارت میں ایک ہی سربراہ ہے جبکہ اس دوران پاکستان میں چوتھا وزیراعظم ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کررہاہے.

اب تک 23 وزرائے اعظم آچکے لیکن مدت کوئی بھی پوری نہ کرسکا. 75 سالوں میں سے آمریت کے 33 سال نکال دئے جائیں تو باقی 42 سال 23 سربراہوں کے حصے ‏اوسطاً 1 سال اور 8 مہینے آئے. نتیجتاً ڈیفالٹ ہونیکے ہیں.

نریندر مودی بھارت کے 15 ویں وزیراعظم ہیں. ہر سربراہ کو اوسطاً 5 سال ملے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں جمہوریت کس قدر مضبوط ہے. حسینہ واجد ملک کی 51 سالہ تاریخ میں 13 ویں وزیراعظم ہیں. اوسطاً ہر سربراہ کے حصے 4 سال آئے. ‏

بطور مسلمان ہمیں دوسروں کی ترقی سے ہر گز حسد نہیں لیکن پاکستانی ہونے کے ناطے افسوس ضرور ہے کہ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن پھر بھی سبق سیکھنے کی بجاے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے ہیں
No longterm policies made on national interest

29/07/2022

Fluctuation of the Dollar rate in Pakistan from 1947 to 2022 which is given as follows:

In 1947 1 USD was 3.31 PKR
In 1948 1 USD was 3.31 PKR
In 1949 1 USD was 3.31 PKR
In 1950 1 USD was 3.31 PKR
In 1951 1 USD was 3.31 PKR
In 1952 1 USD was 3.31 PKR
In 1953 1 USD was 3.31 PKR
In 1954 1 USD was 3.31 PKR
In 1955 1 USD was 3.91 PKR
In 1956 1 USD was 4.76 PKR
In 1957 1 USD was 4.76 PKR
In 1958 1 USD was 4.76 PKR
In 1959 1 USD was 4.76 PKR
In 1960 1 USD was 4.76 PKR
In 1961 1 USD was 4.76 PKR
In 1962 1 USD was 4.76 PKR
In 1961 1 USD was 4.76 PKR
In 1962 1 USD was 4.76 PKR
In 1963 1 USD was 4.76 PKR
In 1964 1 USD was 4.76 PKR
In 1965 1 USD was 4.76 PKR
In 1966 1 USD was 4.76 PKR
In 1967 1 USD was 4.76 PKR
In 1968 1 USD was 4.76 PKR
In 1969 1 USD was 4.76 PKR
In 1970 1 USD was 4.76 PKR
In 1971 1 USD was 4.76 PKR
In 1972 1USD was 11.01 PKR
In 1973 1 USD was 9.99 PKR
In 1974 1 USD was 9.99 PKR
In 1975 1 USD was 9.99 PKR
In 1976 1 USD was 9.99 PKR
In 1977 1 USD was 9.99 PKR
In 1978 1 USD = 9.99 PKR
In 1979 1 USD = 9.99 PKR
In 1980 1 USD = 9.99 PKR
In 1981 1 USD = 9.99 PKR
In 1982 1 USD = 11.85 PKR
In 1983 1 USD = 13.12 PKR
In 1984 1 USD was 14.05 PKR
In 1985 1 USD = 15.93 PKR
In 1986 1 USD = 16.65 PKR
In 1987 1 USD = 17.4 PKR
In 1988 1 USD = 18 PKR
In 1989 1 USD = 20.54PKR
In 1990 1 USD = 21.71 PKR
In 1991 1 USD = 23.8 PKR
In 1992 1 USD = 25.08 PKR
In 1993 1 USD = 28.11 PKR
In 1994 1 USD = 30.57 PKR
In 1995 1 USD = 31.64 PKR
In 1996 1 USD = 36.08 PKR
In 1997 1 USD = 41.11PKR
In 1998 1 USD = 45.05 PKR
In 1999 1 USD = 51.90 PKR
In 2000 1 USD = 51.90 PKR
In 2001 1 USD = 63.5 PKR
In 2002 1 USD = 60.5PKR
In 2003 1 USD = 57.75 PKR
In 2004 1 USD = 57.8 PKR
In 2005 1 USD = 59.7 PKR
In 2006 1 USD = 60.4 PKR
In 2007 1 USD = 60.83 PKR
In 2008 1 USD = 81.1 PKR
In 2009 1 USD = 84.1 PKR
In 2010 1USD = 85.75 PKR
In 2011 1 USD = 88.6 PKR
In 2012 1 USD = 96.5 PKR
In 2013 1 USD = 107.2PKR
In 2014 1 USD = 103 PKR
In 2015 1 USD = 105.20 PKR
In 2016 1 USD was 104.6 PKR
In 2017 1 USD = 110.01 PKR
In 2018 1 USD = 139 PKR
In 2019 1 USD = 163.75 PKR
In 2020 1 USD = 168.88PKR
In 2021 1 USD = 179.16PKR
In 2022 1 USD = 230.00PKR ( before July 28)

Iron Lady 🇵🇰
07/07/2022

Iron Lady 🇵🇰

سراج الدین حقانی صاحب اور ساتھ جو بچہ بیٹھا ہوا ہے اس کی گھر  کے سارے لوگ زلزلے میں شہید ہوگئے ہیں۔
24/06/2022

سراج الدین حقانی صاحب اور ساتھ جو بچہ بیٹھا ہوا ہے اس کی گھر کے سارے لوگ زلزلے میں شہید ہوگئے ہیں۔

perfect 👌🕶🎓💻
23/06/2022

perfect
👌🕶🎓💻

لمحہ فکریہ
21/06/2022

لمحہ فکریہ

20/06/2022

غذائی بحران شدید تر سری لنکن فوج اب کھیتی باڑی بھی کرے گی

😂😛
19/06/2022

😂😛

Address


Telephone

+923037269855

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when PBC posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to PBC:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share