12/10/2021
How to discover God?
خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔
سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable
خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔
اِس کے بعد میں نے چاہا کہ میں سائنسی طریقِ استدلال (scientific method) کے ذریعے اِس معاملے کی تحقیق کروں۔ سائنسی مطالعہ میں جو مسلّمہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے۔ مگر اس مشاہداتی استدلال کے دو دور ہیں۔ سائنس کا مطالعہ جب تک عام کبیر (macro world)تک محدود تھا، اُس وقت تک اس استدلال کا صرف ایک طریقہ رائج تھا۔ لیکن جب سائنس کا مطالعاتی سفر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا تو اِس استدلال میں ایک تبدیلی واقعہ ہوئی۔ وہ یہ کہ پہلے اگر مشاہداتی استدلال (observational argument) کو درست مانا جاتا تھا، تو اب استنباطی استدلال (inferential argument) کو بھی یکساں طور پر درست (valid)مانا جانے لگا، یعنی پہلے اگر آرگومینٹ فرام سین ٹو سین (argument from seen to seen) کا اصول رائج تھا تو اب آرگومینٹ فرام سین ان سین (argument from seen to unseen)کا اصول بھی درست استدلال کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اِن دونوں طریقوں کو فنی زبان میں اِس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
1. Observation, hypothesis, verification
2. Hypothesis, observation, verification
ایک سادہ مثال سے اس معاملے کی عملی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ سیب کو شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہتے ہیں دوسیب جمع دو سیب، برابر چار سیب۔ یہ مشاہداتی استدلال کی ایک مثال ہے۔ دوسرے استدلال کی مثال یہ ہے کہ نیوٹن (وفات: 1727) نے دیکھا کہ ایک سیب درخت سے گر کرنیچے آیا۔ یہ ایک مشاہدہ تھا۔ اُس نے سوچنا شروع کیا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر اوپر کیوں نہیں گیا، وہ نیچے کیوں آ گیا۔ اِس سوچ کے بعد وہ ایک استنباط تک پہنچا، وہ یہ کہ زمین میں قوتِ کشش ہے۔ اِس کے بعد اُس نے دوسرے متعلق شواہد (relevant data)کا جائزہ لیا تو اِس بات کی تصدیق ہو گئی کہ اس کا استنباط درست (valid) تھا۔
سائنسی میتھڈالوجی کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ مشہور برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970 ) کی کتاب ہیومن نالج (Human Knowledge) ہے۔ اِس کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں :چیزوں کا علم، سچائیوں کا علم
Knowledge of things, knowledge of truths
چیزوں کی دریافت میں مشاہداتی طریقِ استدلال کار آمد ہے، لیکن خدا کے وجود کا معاملہ سچائی کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس لیے اس معاملے میں وہی استدلال قابل انطباق ہے جس کو استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔
غالباً 1965 کی بات ہے، میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ اُن سے خدا کے وجود کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے:
What criterion do you have to prove the existence of God.
میں نے جواب دیا کہ وہی کرائٹیرین جو آپ کے پاس اِس نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے ہو:
Same criterion that you have to prove anything else.
اِس کے بعد میں نے اُن کے سامنے مذکورہ طریقِ استدلال کی وضاحت کی ۔ میں نے کہا کہ خدا کے وجود کا معاملہ سچائی (truth) کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ سچائی کی نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس کرائٹیرین کو استعمال کرتے ہیں، اُسی کرائٹیرین کو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیجئے، اور پھر آپ جان لیں گے کہ خدا کا وجود بھی اُسی علمی معیار سے ثابت ہوتا ہے، جس علمی معیار سے اس نوعیت کی دوسری چیزیں ثابت ہو رہی ہیں۔
سنجیدہ اہلِ علم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً برٹرینڈرسل نے اعتراف کیا ہے کہ تھیالوجین عام طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہا جاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کے مطابق، یہ طریقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پورے معنوں میں سائنسی منطق (scientific logic) پر مبنی ہے۔ اس لیے یہ استدلال اصولی طور پر اتنا ہی حقیقی ہے، جتنا کہ کوئی دوسرا سائنسی استدلال۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے:
Where there is design, there is designer and when designer is proved, the existence of God is also proved.
اشیاء کا سائنسی مطالعہ 1969 میں شروع ہوا، جب کہ اطالوی سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642) نے ابتدائی دور بین (telescope) کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بینی کے ذریعے زیادہ بڑے پیمانے پر آسمانی مشاہدہ ممکن ہو گیا۔ اِس کے بعد الیکٹرانک دور بین ایجاد ہوئی جس کو 1990 میں امریکا کی ہبل آبزرویٹری میں نصب کیا گیا۔
اس قسم کے مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ تقریباً 15بلین سال پہلے خلا میں بگ بینگ کا واقعہ ہوا جس کے بعد ستاروں اور سیاروں کی موجودہ دنیا وجود میں آئی۔ اِس کے بعد تقریباً ایک بلین سال پہلے لٹل بینگ (little bang) ہوا جس کے ذریعے موجودہ شمسی نظام (solar system)وجود میں آیا۔ اس کے بعد سیارۂ ارض پر واٹر بینگ (water bang)ہوا اور زمین پانی سے بھر گئی۔ اس کے بعد زندگی اور زندگی سے متعلق تمام چیزیں پیدا ہوئیں۔
بگ بینگ کے واقعہ کے مزید مطالعے کے لیے 1989 میں امریکہ کے ادارہ ناسا (NASA)نے ایک خصوصی سٹلائیٹ (cosmic Background Explorer) خلا میں بھیجا۔ اِس سٹلائیٹ نے بالائی خلا کی جو تصویریں بھیجی ہیں، اُن سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات کے بیرونی حصے میں لہر دار سطح (ripples)موجود ہیں۔ تصویر میں ان لہروں کو دیکھ کر ایک مغربی سائنس داں بولٹز من (Boltzmann)نے کہا وہ کون خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں:
Who was the God who wrote these signs?
یہ بات صرف بگ بینگ سے نکلی ہوئی لہروں تک محدود نہیں ہے، بلکہ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار چیزوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان جب کائنات کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے وہ کون خدا تھا جس نے اِن تمام نشانیوں کو لکھا:
Who was the God who wrote these signs?
کائنات کا جب سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک بے نقص (zero-defect) کائنات ہے۔ وسیع خلا میں بے شمار ستارے اور سیارے مسلسل طور پر حرکت میں ہیں، مگر ہمارے شہروں کے برعکس، خلا میں کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا۔ گویا کہ عظیم خلا میں نہایت وسیع پیمانے پر ایک ایکسیڈنٹ فری ٹریفک (accident-free traffic) قائم ہے۔ ہماری زمین پر نیچر روزانہ بہت سے واقعات ظہور میں لا رہی ہے۔ یہ گویا ایک عظیم صنعتی نظام ہے۔ مگر یہ نظام زیرو ڈیفیکٹ انڈسٹری (zero-defect industry)کی سطح پر چل رہا ہے۔ بے مثال کا ئناتی کنٹرول اور یہ آفاقی توازن پکار رہا ہے کہ بلاشبہ اس کے پیچھے ایک عظیم خدا ہے جو اِن واقعات کو ظہور میں لا رہا ہے۔
کائنات میں واضح طور پرایک ذہین منصوبہ بندی (intelligent planning) پائی جاتی ہے۔ ایک چھوٹے ذرے سے لے کر عظیم کہکشانی نظام تک یہ منصوبہ بندی نمایاں طور پر ہمارے مشاہدے میں آتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی بلاشبہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کائنات کے پیچھے ایک بہت بڑا ذہن (mind) کار فرما ہے یہ عقیدہ اتنا ہی سائنسی ہے، جتنا کہ ایکس رے کی قابلِ مشاہدہ تصویر کو دیکھ کر ناقابلِ مشاہدہ ایکس ریز (X-Rays)کے وجود کو ماننا۔
موجودات کے مشاہدے سے ایک عظیم حقیقت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اُس میں جگہ جگہ یکسانیت کے ساتھ استثناء (exception amidst uniformity)کی مثالیں موجود ہیں۔ استثناء (exception)اُس کو کہا جاتا ہے جو عام قانون کے خلاف ہو، جو عام قانون کی پابندی نہ کرے:
Exception: That does not follow the rule
نیچر میں اس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔ یہ انگلیاں ہر ایک میں یکساں طور پر ہوتی ہیں۔ لیکن ہر ایک کے ہاتھ میں اس کے انگوٹھے کا نشان (finger print)ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر ایک نشان دوسرے کے نشان سے الگ ہوتا ہے۔ اس عموم میں یہ استثناء ایک برتر ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں۔
نیچر میں اِس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق، خلا میں تقریباً 125بلین کہکشائیں موجود ہیں۔ ہر کہکشاں (galaxy)کے اندر تقریباً 200بلین ستارے پائے جاتے ہیں۔ لیکن شمسی نظام (solar system)ایک استثنائی نظام ہے جو صرف ہماری اُس قریبی کہکشاں میں پایا جاتا ہے جس کو ملکی وے (milky way)کہا جاتا ہے۔ عظیم کائنات میں یہ استثناء ایک طاقت ور ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا:
Exception means intervention, and when intervention is proved, intervenor is also proved. And intervenor is only the other name of God.
ہماری کہکشاں جس میں شمسی نظام واقع ہے، وہ اس نوعیت کی ایک انوکھی مثال ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کہکشاں کا درمیانی حصہ ناقابل برداشت حد تک گرم ہے۔ اگرچہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے درمیانی حصے میں ہو تو ہماری زمین پر کسی قسم کی زندگی اور نباتات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے ایک کنارے واقع ہے۔ اِس بنا پر کہکشاں کے پُر خطر درمیانی ماحول کے اثر سے بچا ہوا ہے۔ یہ استثناء واضح طور پر ایک منصوبہ بند مداخلت کا ثبوت ہے، اور منصوبہ بند مداخلت بلا شبہ خدائے برتر کی موجودگی کا ثبوت ہے۔
ہمارے شمسی نظام کے اندر بہت سے سیارے (planets)پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میں سے ایک سیارہ وہ ہے جس کو زمین کہا جاتا ہے۔ دوسرے تمام سیارے مدار (orbit)پر گھومتے ہیں۔ مگر ہماری زمین اپنے مدار پر گردش کرتے ہوئے اپنے محور (axis)پر بھی گھومتی ہے۔ زمین کی یہ دہری گردش (double rotation)ایک انتہائی استثنائی گردش ہے جو کسی بھی ستارے یا سیارے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ استثناء اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک ایسے برتر عامل کو تسلیم کیا جائے جس نے اپنی خصوصی مداخلت کے ذریعے یہ بامعنیٰ استثناء خلا میں قائم کر رکھا ہے۔
ہماری زمین پر استثناء کی ایک ایسی انوکھی مثال پائی جاتی ہے، جو ساری کائنات میں کہیں بھی موجود نہیں، یہ لائف سپورٹ سسٹم (life support system)ہے۔ اِس لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر زمین پر انسان کا یا کسی اور نوعِ حیات کا وجود ممکن نہ تھا۔ لائف سپورٹ سسٹم کا یہ استثنائی انتظام خدا کی موجودگی کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا انکار کوئی سنجیدہ انسان نہیں کر سکتا۔
البرٹ آئن سٹائن (وفات: 1955) کو بیسو یں صدی عیسوی کا سب سے بڑا سائنسی دماغ مانا جاتا ہے۔ آئین سٹائن نے کائنات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اُس نے کائنات کے ہر حصے میں حیرت ناک حد تک معنویت (meaning)پائی ۔ یہ دیکھ کر اُس نے کہا کہ عالم فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے:
The most incomprehensible fact about nature is that it is comprehensible
آئن سٹائن اپنے اِس قول میں بالواسطہ طور پر خدا کے وجود کا اقرار کر رہا ہے۔ اگر اس کے قول کو بدل کر کہا جائے تو وہ اِس طرح ہو گا کہ خدا کے بغیر عالمِ فطرت مکمل طور پر ناقابلِ فہم رہتا ہے، اور خدا کے ساتھ عالمِ فطرت مکمل طور پر قابلِ فہم بن جاتا ہے:
Without God, nature is totally incomprehensible, and with God, nature becomes totally comprehensible.
کائنات بلا شبہ ایک بامعنی کائنات (meaningful world) ہے۔ سائنس داں وہ لوگ ہیں جو کائنات کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ عام انسان کے مقابلے میں کائنات کی معنویت سے بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے عام طور پر اس کا اعتراف کیا ہے۔ سائنس داں اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ’’خدا‘‘ (God)کا لفظ بولنے سے احتراز کرتے ہیں۔ لیکن نام کے بغیر وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔
مثلاً برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1947) نے اپنی کتاب (The Mysterious Universe) میں کہا ہے کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical)کی شہادت دیتی ہے۔ برٹش عالمِ فلکیات سر فریڈ ہائل (وفات: 2001) نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر کر لیا ہے کہ ہماری کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe)ہے۔ امریکی سائنس داں پال ڈیویز (Paul Davis)نے اقرار کیا ہے کہ کائنات کے پیچھے ایک باشعور ہستی (conscious being) موجود ہے۔ برٹش سائنس داں سر آرتھر اڈنگٹن (وفات: 1944) نے اِس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر لیا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک ذہین مادہ ہے:
The stuff of the world is mind-stuff
خدا کا وجود بلا شبہ اُس طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس طرح کوئی اور ثابت شدہ واقعہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا وجود صرف ایک پُر اسرار عقیدہ کی بات نہیں، خدا کا وجود اُس طرح ایک علمی مسلّمہ ہے جس طرح کوئی اور علمی مسلّمہ۔ اب یہ سوال ہے کہ خدا ایک ہے یا کئی خدا ہیں جو کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام کے ذمے دار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا کا عقیدہ شرک پر مبنی ہے یا توحید پر۔ اس معاملے میں علم کا فیصلہ مکمل طور پر توحید کے حق میں ہے۔
برٹش سائنس داں نیوٹن کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ نیوٹن سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا زور تھا۔ اُس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ خداؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثلاً سن گاڈ (sun god)، مون گاڈ (moon god) ، رین گاڈ (rain god) ، وغیرہ۔ نیوٹن نے اِس معاملے کا سائنسی مطالعہ کیا۔ اُس نے کہا کہ چار طاقتیں (forces)ہیں جو کائنات کے نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں یہ ہیں:
۱۔ قوتِ کشش (gravitational force)
2۔ برقی مقناطیسی قوت (electromagetic force)
3۔ طاقت ور نیو کلیر قوت (strong nuclear force)
4۔ کمزور نیو کلیر قوت (weak nuclear force)
مگر سائنسی مطالعے کے ذریعے جو دنیا دریافت ہو ئی، اُس میں اتنی زیادہ ہم آہنگی (harmony)پائی جاتی تھی کہ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ اتنی زیادہ ہم آہنگ کائنات کو کئی طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں۔ اس لیے سائنسی ذہن اس تعداد پر مطمئن نہ تھا۔ مختلف سائنس داں اِس تعداد کو گھٹانے کے لیے کام کر رہے تھے، یہاں تک کہ 1979میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی۔ اِس تحقیق کے مطابق، کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں تھیں، بلکہ وہ صرف تین تھیں۔ اِس دریافت تک پہنچنے والے تین نوبل انعام یافتہ سائنس داں تھے۔ اُن کے نام یہ ہیں:
Sheldon Glashow (b. 1932), Steven Weingberg (b. 1933)
Dr. Abdussalam (d. 1996)
تاہم سائنسی ذہن تین کی تعداد پر بھی مطمئن نہ تھا۔ وہ اِس تعداد کو مزید گھٹا کر ایک تک پہنچانا چاہتا تھا۔ یہ کام برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (پیدائش: 1942)کے ذریعے انجام پایا۔ اسٹفن ہاکنگ کو نظریاتی سائنس میں سب سے بڑا زندہ سائنس داں مانا جاتا ہے۔ اس نے پیچیدہ ریاضیاتی حساب (mathemetical calculations) کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف ایک طاقت (force) ہے جو پوری کائنات کو کنٹرول کر رہی ہے۔ یہ نظریہ اب تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان ایک مسلّمہ کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ عمومی زبان میں اس کو سنگل اسٹرنگ نظریہ (single string theory)کہا جاتا ہے۔
سنگل اسٹرنگ نظریہ گویا کہ ایک خدا (توحید الٰہ) کے عقیدے کے حق میں ایک سائنسی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ مذہبی عقیدے کے علمی مسلّمہ کی حیثیت دے رہا ہے۔ اب خالص سائنس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اِس کائنات کا ایک خدا ہے۔ یہ خداایک ہے اور صرف ایک:
The concept of God is purely a scientific concept, and this God is one and one alone.