Zaini TV

Zaini TV information zain ali

17/02/2022
03/11/2021

Yajooj Majooj Ki Qom Mil G*i _ __ Ye Qom Kaha Mojod Hai Jan Lo

13/10/2021

Zaini TV

12/10/2021

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

اِس کے بعد میں نے چاہا کہ میں سائنسی طریقِ استدلال (scientific method) کے ذریعے اِس معاملے کی تحقیق کروں۔ سائنسی مطالعہ میں جو مسلّمہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے۔ مگر اس مشاہداتی استدلال کے دو دور ہیں۔ سائنس کا مطالعہ جب تک عام کبیر (macro world)تک محدود تھا، اُس وقت تک اس استدلال کا صرف ایک طریقہ رائج تھا۔ لیکن جب سائنس کا مطالعاتی سفر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا تو اِس استدلال میں ایک تبدیلی واقعہ ہوئی۔ وہ یہ کہ پہلے اگر مشاہداتی استدلال (observational argument) کو درست مانا جاتا تھا، تو اب استنباطی استدلال (inferential argument) کو بھی یکساں طور پر درست (valid)مانا جانے لگا، یعنی پہلے اگر آرگومینٹ فرام سین ٹو سین (argument from seen to seen) کا اصول رائج تھا تو اب آرگومینٹ فرام سین ان سین (argument from seen to unseen)کا اصول بھی درست استدلال کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اِن دونوں طریقوں کو فنی زبان میں اِس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
1. Observation, hypothesis, verification
2. Hypothesis, observation, verification

ایک سادہ مثال سے اس معاملے کی عملی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ سیب کو شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہتے ہیں دوسیب جمع دو سیب، برابر چار سیب۔ یہ مشاہداتی استدلال کی ایک مثال ہے۔ دوسرے استدلال کی مثال یہ ہے کہ نیوٹن (وفات: 1727) نے دیکھا کہ ایک سیب درخت سے گر کرنیچے آیا۔ یہ ایک مشاہدہ تھا۔ اُس نے سوچنا شروع کیا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر اوپر کیوں نہیں گیا، وہ نیچے کیوں آ گیا۔ اِس سوچ کے بعد وہ ایک استنباط تک پہنچا، وہ یہ کہ زمین میں قوتِ کشش ہے۔ اِس کے بعد اُس نے دوسرے متعلق شواہد (relevant data)کا جائزہ لیا تو اِس بات کی تصدیق ہو گئی کہ اس کا استنباط درست (valid) تھا۔

سائنسی میتھڈالوجی کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ مشہور برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970 ) کی کتاب ہیومن نالج (Human Knowledge) ہے۔ اِس کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں :چیزوں کا علم، سچائیوں کا علم
Knowledge of things, knowledge of truths

چیزوں کی دریافت میں مشاہداتی طریقِ استدلال کار آمد ہے، لیکن خدا کے وجود کا معاملہ سچائی کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس لیے اس معاملے میں وہی استدلال قابل انطباق ہے جس کو استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔

غالباً 1965 کی بات ہے، میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ اُن سے خدا کے وجود کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے:
What criterion do you have to prove the existence of God.

میں نے جواب دیا کہ وہی کرائٹیرین جو آپ کے پاس اِس نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے ہو:
Same criterion that you have to prove anything else.

اِس کے بعد میں نے اُن کے سامنے مذکورہ طریقِ استدلال کی وضاحت کی ۔ میں نے کہا کہ خدا کے وجود کا معاملہ سچائی (truth) کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ سچائی کی نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس کرائٹیرین کو استعمال کرتے ہیں، اُسی کرائٹیرین کو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیجئے، اور پھر آپ جان لیں گے کہ خدا کا وجود بھی اُسی علمی معیار سے ثابت ہوتا ہے، جس علمی معیار سے اس نوعیت کی دوسری چیزیں ثابت ہو رہی ہیں۔

سنجیدہ اہلِ علم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً برٹرینڈرسل نے اعتراف کیا ہے کہ تھیالوجین عام طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہا جاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کے مطابق، یہ طریقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پورے معنوں میں سائنسی منطق (scientific logic) پر مبنی ہے۔ اس لیے یہ استدلال اصولی طور پر اتنا ہی حقیقی ہے، جتنا کہ کوئی دوسرا سائنسی استدلال۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے:
Where there is design, there is designer and when designer is proved, the existence of God is also proved.

اشیاء کا سائنسی مطالعہ 1969 میں شروع ہوا، جب کہ اطالوی سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642) نے ابتدائی دور بین (telescope) کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بینی کے ذریعے زیادہ بڑے پیمانے پر آسمانی مشاہدہ ممکن ہو گیا۔ اِس کے بعد الیکٹرانک دور بین ایجاد ہوئی جس کو 1990 میں امریکا کی ہبل آبزرویٹری میں نصب کیا گیا۔
اس قسم کے مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ تقریباً 15بلین سال پہلے خلا میں بگ بینگ کا واقعہ ہوا جس کے بعد ستاروں اور سیاروں کی موجودہ دنیا وجود میں آئی۔ اِس کے بعد تقریباً ایک بلین سال پہلے لٹل بینگ (little bang) ہوا جس کے ذریعے موجودہ شمسی نظام (solar system)وجود میں آیا۔ اس کے بعد سیارۂ ارض پر واٹر بینگ (water bang)ہوا اور زمین پانی سے بھر گئی۔ اس کے بعد زندگی اور زندگی سے متعلق تمام چیزیں پیدا ہوئیں۔

بگ بینگ کے واقعہ کے مزید مطالعے کے لیے 1989 میں امریکہ کے ادارہ ناسا (NASA)نے ایک خصوصی سٹلائیٹ (cosmic Background Explorer) خلا میں بھیجا۔ اِس سٹلائیٹ نے بالائی خلا کی جو تصویریں بھیجی ہیں، اُن سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات کے بیرونی حصے میں لہر دار سطح (ripples)موجود ہیں۔ تصویر میں ان لہروں کو دیکھ کر ایک مغربی سائنس داں بولٹز من (Boltzmann)نے کہا وہ کون خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں:
Who was the God who wrote these signs?

یہ بات صرف بگ بینگ سے نکلی ہوئی لہروں تک محدود نہیں ہے، بلکہ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار چیزوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان جب کائنات کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے وہ کون خدا تھا جس نے اِن تمام نشانیوں کو لکھا:

Who was the God who wrote these signs?

کائنات کا جب سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک بے نقص (zero-defect) کائنات ہے۔ وسیع خلا میں بے شمار ستارے اور سیارے مسلسل طور پر حرکت میں ہیں، مگر ہمارے شہروں کے برعکس، خلا میں کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا۔ گویا کہ عظیم خلا میں نہایت وسیع پیمانے پر ایک ایکسیڈنٹ فری ٹریفک (accident-free traffic) قائم ہے۔ ہماری زمین پر نیچر روزانہ بہت سے واقعات ظہور میں لا رہی ہے۔ یہ گویا ایک عظیم صنعتی نظام ہے۔ مگر یہ نظام زیرو ڈیفیکٹ انڈسٹری (zero-defect industry)کی سطح پر چل رہا ہے۔ بے مثال کا ئناتی کنٹرول اور یہ آفاقی توازن پکار رہا ہے کہ بلاشبہ اس کے پیچھے ایک عظیم خدا ہے جو اِن واقعات کو ظہور میں لا رہا ہے۔

کائنات میں واضح طور پرایک ذہین منصوبہ بندی (intelligent planning) پائی جاتی ہے۔ ایک چھوٹے ذرے سے لے کر عظیم کہکشانی نظام تک یہ منصوبہ بندی نمایاں طور پر ہمارے مشاہدے میں آتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی بلاشبہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کائنات کے پیچھے ایک بہت بڑا ذہن (mind) کار فرما ہے یہ عقیدہ اتنا ہی سائنسی ہے، جتنا کہ ایکس رے کی قابلِ مشاہدہ تصویر کو دیکھ کر ناقابلِ مشاہدہ ایکس ریز (X-Rays)کے وجود کو ماننا۔

موجودات کے مشاہدے سے ایک عظیم حقیقت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اُس میں جگہ جگہ یکسانیت کے ساتھ استثناء (exception amidst uniformity)کی مثالیں موجود ہیں۔ استثناء (exception)اُس کو کہا جاتا ہے جو عام قانون کے خلاف ہو، جو عام قانون کی پابندی نہ کرے:
Exception: That does not follow the rule

نیچر میں اس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔ یہ انگلیاں ہر ایک میں یکساں طور پر ہوتی ہیں۔ لیکن ہر ایک کے ہاتھ میں اس کے انگوٹھے کا نشان (finger print)ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر ایک نشان دوسرے کے نشان سے الگ ہوتا ہے۔ اس عموم میں یہ استثناء ایک برتر ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں۔

نیچر میں اِس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق، خلا میں تقریباً 125بلین کہکشائیں موجود ہیں۔ ہر کہکشاں (galaxy)کے اندر تقریباً 200بلین ستارے پائے جاتے ہیں۔ لیکن شمسی نظام (solar system)ایک استثنائی نظام ہے جو صرف ہماری اُس قریبی کہکشاں میں پایا جاتا ہے جس کو ملکی وے (milky way)کہا جاتا ہے۔ عظیم کائنات میں یہ استثناء ایک طاقت ور ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا:

Exception means intervention, and when intervention is proved, intervenor is also proved. And intervenor is only the other name of God.

ہماری کہکشاں جس میں شمسی نظام واقع ہے، وہ اس نوعیت کی ایک انوکھی مثال ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کہکشاں کا درمیانی حصہ ناقابل برداشت حد تک گرم ہے۔ اگرچہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے درمیانی حصے میں ہو تو ہماری زمین پر کسی قسم کی زندگی اور نباتات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے ایک کنارے واقع ہے۔ اِس بنا پر کہکشاں کے پُر خطر درمیانی ماحول کے اثر سے بچا ہوا ہے۔ یہ استثناء واضح طور پر ایک منصوبہ بند مداخلت کا ثبوت ہے، اور منصوبہ بند مداخلت بلا شبہ خدائے برتر کی موجودگی کا ثبوت ہے۔

ہمارے شمسی نظام کے اندر بہت سے سیارے (planets)پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میں سے ایک سیارہ وہ ہے جس کو زمین کہا جاتا ہے۔ دوسرے تمام سیارے مدار (orbit)پر گھومتے ہیں۔ مگر ہماری زمین اپنے مدار پر گردش کرتے ہوئے اپنے محور (axis)پر بھی گھومتی ہے۔ زمین کی یہ دہری گردش (double rotation)ایک انتہائی استثنائی گردش ہے جو کسی بھی ستارے یا سیارے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ استثناء اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک ایسے برتر عامل کو تسلیم کیا جائے جس نے اپنی خصوصی مداخلت کے ذریعے یہ بامعنیٰ استثناء خلا میں قائم کر رکھا ہے۔

ہماری زمین پر استثناء کی ایک ایسی انوکھی مثال پائی جاتی ہے، جو ساری کائنات میں کہیں بھی موجود نہیں، یہ لائف سپورٹ سسٹم (life support system)ہے۔ اِس لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر زمین پر انسان کا یا کسی اور نوعِ حیات کا وجود ممکن نہ تھا۔ لائف سپورٹ سسٹم کا یہ استثنائی انتظام خدا کی موجودگی کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا انکار کوئی سنجیدہ انسان نہیں کر سکتا۔

البرٹ آئن سٹائن (وفات: 1955) کو بیسو یں صدی عیسوی کا سب سے بڑا سائنسی دماغ مانا جاتا ہے۔ آئین سٹائن نے کائنات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اُس نے کائنات کے ہر حصے میں حیرت ناک حد تک معنویت (meaning)پائی ۔ یہ دیکھ کر اُس نے کہا کہ عالم فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے:
The most incomprehensible fact about nature is that it is comprehensible

آئن سٹائن اپنے اِس قول میں بالواسطہ طور پر خدا کے وجود کا اقرار کر رہا ہے۔ اگر اس کے قول کو بدل کر کہا جائے تو وہ اِس طرح ہو گا کہ خدا کے بغیر عالمِ فطرت مکمل طور پر ناقابلِ فہم رہتا ہے، اور خدا کے ساتھ عالمِ فطرت مکمل طور پر قابلِ فہم بن جاتا ہے:
Without God, nature is totally incomprehensible, and with God, nature becomes totally comprehensible.

کائنات بلا شبہ ایک بامعنی کائنات (meaningful world) ہے۔ سائنس داں وہ لوگ ہیں جو کائنات کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ عام انسان کے مقابلے میں کائنات کی معنویت سے بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے عام طور پر اس کا اعتراف کیا ہے۔ سائنس داں اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ’’خدا‘‘ (God)کا لفظ بولنے سے احتراز کرتے ہیں۔ لیکن نام کے بغیر وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔

مثلاً برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1947) نے اپنی کتاب (The Mysterious Universe) میں کہا ہے کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical)کی شہادت دیتی ہے۔ برٹش عالمِ فلکیات سر فریڈ ہائل (وفات: 2001) نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر کر لیا ہے کہ ہماری کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe)ہے۔ امریکی سائنس داں پال ڈیویز (Paul Davis)نے اقرار کیا ہے کہ کائنات کے پیچھے ایک باشعور ہستی (conscious being) موجود ہے۔ برٹش سائنس داں سر آرتھر اڈنگٹن (وفات: 1944) نے اِس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر لیا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک ذہین مادہ ہے:
The stuff of the world is mind-stuff

خدا کا وجود بلا شبہ اُس طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس طرح کوئی اور ثابت شدہ واقعہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا وجود صرف ایک پُر اسرار عقیدہ کی بات نہیں، خدا کا وجود اُس طرح ایک علمی مسلّمہ ہے جس طرح کوئی اور علمی مسلّمہ۔ اب یہ سوال ہے کہ خدا ایک ہے یا کئی خدا ہیں جو کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام کے ذمے دار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا کا عقیدہ شرک پر مبنی ہے یا توحید پر۔ اس معاملے میں علم کا فیصلہ مکمل طور پر توحید کے حق میں ہے۔

برٹش سائنس داں نیوٹن کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ نیوٹن سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا زور تھا۔ اُس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ خداؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثلاً سن گاڈ (sun god)، مون گاڈ (moon god) ، رین گاڈ (rain god) ، وغیرہ۔ نیوٹن نے اِس معاملے کا سائنسی مطالعہ کیا۔ اُس نے کہا کہ چار طاقتیں (forces)ہیں جو کائنات کے نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں یہ ہیں:
۱۔ قوتِ کشش (gravitational force)
2۔ برقی مقناطیسی قوت (electromagetic force)
3۔ طاقت ور نیو کلیر قوت (strong nuclear force)
4۔ کمزور نیو کلیر قوت (weak nuclear force)

مگر سائنسی مطالعے کے ذریعے جو دنیا دریافت ہو ئی، اُس میں اتنی زیادہ ہم آہنگی (harmony)پائی جاتی تھی کہ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ اتنی زیادہ ہم آہنگ کائنات کو کئی طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں۔ اس لیے سائنسی ذہن اس تعداد پر مطمئن نہ تھا۔ مختلف سائنس داں اِس تعداد کو گھٹانے کے لیے کام کر رہے تھے، یہاں تک کہ 1979میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی۔ اِس تحقیق کے مطابق، کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں تھیں، بلکہ وہ صرف تین تھیں۔ اِس دریافت تک پہنچنے والے تین نوبل انعام یافتہ سائنس داں تھے۔ اُن کے نام یہ ہیں:
Sheldon Glashow (b. 1932), Steven Weingberg (b. 1933)
Dr. Abdussalam (d. 1996)

تاہم سائنسی ذہن تین کی تعداد پر بھی مطمئن نہ تھا۔ وہ اِس تعداد کو مزید گھٹا کر ایک تک پہنچانا چاہتا تھا۔ یہ کام برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (پیدائش: 1942)کے ذریعے انجام پایا۔ اسٹفن ہاکنگ کو نظریاتی سائنس میں سب سے بڑا زندہ سائنس داں مانا جاتا ہے۔ اس نے پیچیدہ ریاضیاتی حساب (mathemetical calculations) کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف ایک طاقت (force) ہے جو پوری کائنات کو کنٹرول کر رہی ہے۔ یہ نظریہ اب تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان ایک مسلّمہ کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ عمومی زبان میں اس کو سنگل اسٹرنگ نظریہ (single string theory)کہا جاتا ہے۔

سنگل اسٹرنگ نظریہ گویا کہ ایک خدا (توحید الٰہ) کے عقیدے کے حق میں ایک سائنسی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ مذہبی عقیدے کے علمی مسلّمہ کی حیثیت دے رہا ہے۔ اب خالص سائنس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اِس کائنات کا ایک خدا ہے۔ یہ خداایک ہے اور صرف ایک:

The concept of God is purely a scientific concept, and this God is one and one alone.

12/10/2021

How Quran mention about layers of earth 1400 year's ago part 1
Zaini TV

11/10/2021

نظام شمسی میں گردش پذیر جس سیارے میں ہم رہائش رکھتے ہیں، ارض (Earth، زمین) کہلاتا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر آسمان کے مقابل بولا جاتا ہے۔ لغت عرب میں ہر نچلی چیز ارض سے تعبیر کی جاتی ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں:

الارض يعبربها عن اسفل الشئ کما يعبر بالسمآء عن اعلاه.

کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اوپر والے حصے پر بولا جاتا ہے۔

(المفردات : 73)

قرآن مجید نے ہر جگہ ارض کا صغیہ واحد ہی استعمال کیا ہے۔ جمع (ارضون یا ارضین) کا صیغہ استعمال نہیں کیا۔ تاہم کئی زمینوں کا وجود یوں بھی ثابت ہوتا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ.

اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہی کی طرح زمین بھی (اپنی ہی قدرت و حکمت سے) پیدا کی۔

(الطلاق، 65 : 12)

اس آیت کریمہ سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ زمینیں بھی آسمانوں کی طرح سات یا متعدد ہیں۔

سات آسمانوں کا معنی
السمآء کا لفظ سما، یسمو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغت عرب میں ہے :

سماء کل شی أعلاه.

ہر چیز کے اوپر جو کچھ ہے وہ اس چیز کا سماء ہے۔

(المفردات : 427)

لہذا کرہ ارض کے اوپر جس قدر کائنات موجود ہے، وہ عالم سماوات ہے، بلکہ خود کرہ ارض کے اندر وہ بالائی طبقۂ فضا جہاں بادل اڑتے ہیں اور ٹھنڈک کے باعث آبی قطرات کی صورت میں بارش بن کر برستے ہیں، بھی ’’سماء،، کہلاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَّأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً.

اور آسمانوں کی طرف سے پانی برسایا۔

(البقره، 2 : 22)

بنا بریں زمین کے اوپر کا طبقۂ کائنات عالم طبیعی کی آخری حد تک عالم سماء کہلاتا ہے۔

اسلام اور یونانی فلسفے کے موقف میں فرق
عام طور پراہل علم نے مختلف زمانوں میں فلسفیانہ تصورات کی بناء پر آسمانوں کی ماہیت اور حقیقت متعین کرنے کی کوشش کی ہے، اسی وجہ سے کسی نے چاند کو پہلے آسمان میں مرکوز، سورج کو چوتھے آسمان میں اور دیگر سیار گان فلکی کو دوسرے آسمانوں میں مرکوز قرار دیا۔ کسی نے اس سے مختلف ترتیب بیان کی۔ عوام الناس نے بعض علماء کی ان تحریروں سے یہ اخذ کیا کہ شاید یہی اسلام کا موقف ہے اور یہی کچھ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ یہ تاثر کلیتاً غلط ہے۔ قرآن وحدیث کی کوئی ایک نص بھی اس تصور کی تائید نہیں کرتی۔ یہ موقف دراصل قدیم علماء ہیت کا تھا، جو یونانی فلسفے پر مبنی تھا۔ دینی کتابوں میں اس کے بیان ہوجانے کی وجہ سے اسے غلط طور پر دینی تعلیمات کی طرف منسوب کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب تسخیر ماہتاب کاواقعہ پیش آیا تو بعض لوگوں نے کم فہمی کی بناء پر اسے دینی تصورات کے منافی سمجھا۔ حالانکہ اس واقعے کا امکان دینی تصورات اوراسلام کے بیان کردہ حقائق کے عین مطابق تھا۔ اس میں عقلاً و نقلا ًکسی قسم کی مخالفت نہ تھی کیونکہ سورج، چاند اور دیگر سیارے کرہ ارض کے اوپر کروڑوں، اربوں میلوں پر محیط بالائی طبقے میں گردش کرتے ہیں۔ یہ تمام سماوی طبقات اپنے اپنے ’’افلاک،، (Orbits) میں محو گردش ہیں۔ جو زمین اور آسمان کے درمیان واقع ہیں۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا ہے :

الشمس و القمر و النجوم مسخرة فی فلک بين السماء و الارض.

شمس و قمر اور تمام سیارگان، آسمان اور زمین کے درمیان اپنے فلک یعنی مدار (Orbit) میں گردش کررہے ہیں۔

(الدرالمنثور، 4 : 318)

یہ ارشاد اس قرآنی آیت کی تعبیر میں وارد ہوا ہے :

کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ يَسْبَحُوْنَo

تمام (آسمانی کرے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔

(الانبياء، 21 : 33)

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اورامام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :

الفلک الذی بين السماء و الأرض من مجاری النجوم و الشمس و القمر.

’’فلک،، سے مراد آسمان اور زمین کے درمیان واقع مدار ہیں، جن میں تمام ستارے، سورج اور چاند (سمیت تمام اجرام فلکی) گردش کرتے ہیں۔

(تفسير الدرالمنثور، 4 : 318)

اس امر کی وضاحت اس قول سے بھی ہوتی ہے :

الفلک موج مکفوف تجري فيه الشمس و القمر و النجوم.

’’فلک،، آسمانوں کے نیچے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چانداور ستارے گردش کرتے ہیں۔

(تفسير کبير، 22 : 167)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید بیان کیا ہے کہ فلک ستاروں کے مدار یعنی ان کی گردش کے راستوں کوکہتے ہیں:

وهو فی کلام العرب کل شئي مستدير وجمعه أفلاک.

لغت عرب میں ہر گول شے کو فلک کہتے ہیں اس کی جمع افلاک ہے۔

(تفسيرکبير، 22 : 167)

امام ابوالبرکات نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک صراحت بیان فرمائی ہے :

و الجمهور علی أن الفلک موج مکفوفٌ تحت السماء تجري فيه الشمس و القمر و النجوم. . . يسيرون اي يدورون

جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ فلک آسمانوں کے نچیے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چاند اور دیگر سیارے مستدیراً گردش کرتے ہیں۔

(تفسير المدارک، 3 : 78)

اس لحاظ سے جتنے سیارے بھی خلا میں گردش کرتے ہیں، ہر ایک کا مدار اس کا فلک کہلاتا ہے۔

ابتداء علم ہیت (ASTROMONY) کے ماہرین کا خیال تھا کہ سیاروں کی کل تعداد 7 ہے اور ان میں ہر سیارہ جس مدار میں موجود ہے وہی اس کا فلک ہے۔ بنا بریں عالم بالا کل سات افلاک میں منقسم ہے، پہلے میں چاند ہے، دوسرے میں عطارد، تیسرے میں زہرہ، چوتھے میں شمس، پانچویں میں مریخ، چھٹے میں مشتری اور ساتویں میں زحل، جیسا کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے دور قدیم کے علماء ہیت کا یہ قول نقل کیا ہے۔ (تفسیرکبیر، 26 : 77)

بعض مسلمان اہل علم کی فکری لغزش
ہمارے خیال میں جب یہی نقطہ نظر بعض علماء اسلام نے اپنی کتابوں میں درج کیا تواسی سے یہ تصور پیدا ہوگیا کہ سات آسمانوں میں سے ہر آسمان میں ایک سیارہ ہے اوروہ آسمان اسی سیارے کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ایسا مغالطہ تھا جو سات افلاک کے تصور اور سات آسمانوں کے تصور کے درمیان التباس (CONFUSION) کے باعث پیدا ہوا۔ پھر بقول شیخ طنطاوی جوہری جب فلسفہ یونانی پرفارابی اور ابن سینا کی تصانیف عربی زبان میں منظر عام پر آئیں تو 9 افلاک کا تصور قبولیت پاگیا۔ چنانچہ اس کی توجیہہ بعض علماء اور فلاسفہ نے یوں کی کہ ان سے مراد سات آسمان، کرسی اور عرش ہے۔ کرسی، فلک الثوابت ہے اور عرش، فلک محیط۔ یہ تعبیرات اس وجہ سے اسلامی لٹریچر میں شامل ہوگئیں کہ مختلف ادوار میں جب کوئی نئی فلسفیانہ یا سائنسی تحقیق منظر عام پر آئی بعض اہل علم نے اسے قرآنی آیات پر یا قرآنی آیات کو اس پر منطبق کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ تحقیق فی نفسہا حتمی اور قطعی نہ تھی۔ عقلاء، فلاسفہ اور سائنسدان تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اقدام وخطاء (TRIAL & ERROR) کے انداز میں اپنی نئی سے نئی تحقیقات پیش کر رہے تھے۔ ان تحقیقات کو اسلامی تصورات بنانے کی کوشش نے ایسے کئی موضوعات میں علمی مغالطے پیدا کر دیئے جو اب تک بعض اہل علم کے ہاں منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بے بنیاد اور غلط تصورات کی کوئی سند قرآن و حدیث میں نہیں ملتی۔ جوں جوں انسانی عقل اپنے سائنسی تجربات و مشاہدات کی بناء پر ترقی کررہی ہے۔ عالم بالا کے ہزاروں نئے طبقات منصہ علم پر آرہے ہیں۔

Address


Telephone

+923012934567

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zaini TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zaini TV:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share