11/01/2020
قیامت بہت قریب ہے
یہ پنجاب میں ضلع اوکاڑہ کا واقع ہے
بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم لوگوں میں انسانیت ختم ہوچکی ہے یہ کسی جانور یا ان پڑھ یا جاہل نے نہیں کیا بلکہ یہ ایک پڑھی لکھی جاہل ڈاکٹرنی نے کیا ہے.
جمشید علی ضلع اوکاڑہ تھانہ حجرہ شاہ مقیم کا رہائشی ہے مفلسی کے ہاتھوں تنگ تھا پندرہ سالہ بیٹی ثناء کو ذریعہ معاش میں اضافہ کے لیے لیڈی ڈاکٹر حمیراں "کوٹھی نمبر 385 جیڈ بلاک , پارک ویو سوسائٹی لاہور" کے گھر کام کاج کے لیے چھوڑ دیتا ہے.
اس کے عوض ماہانہ چند پیسے ملنے تھے اور کچھ ایڈوانس ملتا ہے جس سے تمام خاندان کی روٹی بمشکل پوری ہونی تھی ابھی تقریبا دو ہفتے کا وقت گزرا تھا کہ بیٹی والدین کو کال کرتی ہے معصوم بیٹی کہتی ہے کہ اس گھر والوں کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہے بیچارے والدین بیٹی کو کہتے ہیں کہ بیٹا یکم سے پہلے ان سے جو ایڈوانس پیسے لیے تھے وہ اکھٹے کر لاتے ہیں ان کو واپس کر کے تجھے لے جائیں گے..
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایڈوانس کے پیسے اکھٹے کرنے اور لاہور آنے سے پہلے بابا کی گڑیا اس ظالم دنیا کے مظالم کی تاب نہ لانے کے سبب دوسری دنیا میں جا چکی ہوگی والدین کو اطلاع ملتی ہے کہ ان کی بیٹی مر چکی ہے بیچارے جب معصوم گڑیا کی لاش دیکھتے ہیں تو اس کے چہرے کے اردگرد زخموں اور ناخنوں کے نشان ہیں والدین کو خاموش رہنے کے لیے دس لاکھ کی پیش کش کی جاتی ہے..
جس کو ٹھکرا کر جمشید علی قانون سے انصاف مانگتا ہے ابتدائی ضروری رپورٹس ہوتی ہیں واللہ علم مخلصانہ تھیں یا گڈ مڈ کی گئی تھی رپورٹ کےمطابق لڑکی کو صرف ڈنڈوں سوٹوں کے تشدد سے مارا گیا ہے جب کہ والدین کے مطابق لاش کی حالت کو دیکھ کر جو سمجھ آتا تھا وہ صرف تشدد نہیں اس کے علاوہ بھی کچھ تھا کیونکہ لاش کے چہرے اور اردگرد ناخنوں کے زخموں کے نشانات تھے پولیس کو جو کپڑے لاش کے پاس سے ملے ان پر خون کے دھبے تھے..
اس وقت ڈاکٹر حمیراں اور اس کا شوہر پولیس کی حراست میں ہیں کیا بے چاروں کو انصاف مل پائے گا یہ تو ابھی وقت کے ساتھ ساتھ پتا چلے گا لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ کیا یہ معاشرہ قابل برداشت ہے کیا اس بچی کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے غربت میں جنم لیا تھا کیا ذمہ داروں کو سزا مل پائے گی..
اس بے حس معاشرے میں رہتے ہوئے سکون اور انصاف تلاش کرنا مجھے تو ممکن نہیں لگتا کیا ایسے درندہ صفت ظالموں کو شرعام پھانسی نہیں ہونی چاہئیے..