13/01/2024
باتیں تیری الہام ہیں، جادُو تری آواز
رَگ رَگ میں اُترتی ہُوئی خوشبُو تری آواز
بہتے چلے جاتے ہیں تہہِ آب ستارے!
جیسے کہیں اُتری ہو لب جُو تری آواز
پابندِ شبِ کنجِ قفس میں مرا احساس
اُمید کی دھندلی سی کِرن تُو تری آواز
میں شامِ غریباں کی اُداسی کا مسافر
صحراؤں میں جیسے کوئی جگنو تری آواز
لفظوں میں چھپائے ہُوے بے ربط دلاسے
چنتی رہی شب بھر مرے آنسو تیری آواز
بس ایک میرے شوق کی تسکین کی خاطر
کیا کیا نہ بدلتی رہی پہلو تری آواز
یہ ہجر کی شب بھیگ چلی ہے کہ مرے بعد
روتی ہے کہیں کھول کے گیسو تری آواز
دیکھوں تو وہی میں وہی چپ چپ سے دروبام
سوچوں تو بکھر جائے ہر اِک سُو تری آواز
جعفر کے خیالوں میں اُترتی ہے سرِ شام
رِم جھم کی طرح باندھ کے گھنگھرو تری آواز
شاعر: رضا جعفر ، نظم: تیری آواز