Anchan Sound And Production House

Anchan Sound And Production House Languages & Cultural channel of Gilgit Baltistan

11/01/2025

Allah Marhoom Dr Shakeel ko jannat mai aala muqam ata farmaa aameen

11/01/2025
11/01/2025

15 shaban 2024 Sundus

05/01/2025

کلام شاعر بزبان شاعر
M Afzal Rawish

21/12/2024

جشن مے فنگ سکردو 2024
شبِ یلداء
ژھن تھقرینگ (څھن تھقریݩ)

دیدار کے بنا نہ ہو یہ زندگی تمامآجائیے امام (عج)
29/09/2024

دیدار کے بنا نہ ہو یہ زندگی تمام
آجائیے امام (عج)

سید سراج موسوی کی خوبصورت آواز میں امام زمانہ کے حضور خوبصورت منقبت shaban 1444 hijri 08 march 2023بمقام امام...

Balti Qasida by Ajmal Zakiri
21/09/2024

Balti Qasida by Ajmal Zakiri

Balti Qasida Hazrat Shehzada Qasim By Ajmal Zakiri19-09-2024

26/08/2024

چہلم جلوس دستہ حسینیہ رگیایول سکردو 2024
خواجہ علی کاطم نوحہ خوانی کرتے ہوئے
ساؤنڈ منیجمنٹ: انچن ساؤنڈ اینڈ پروڈکشن

22/08/2024

سالانہ شب غم کتپناہ سکردو بروز پیر 19 اگست 2024
13 صفر 1446 ہجری
دستہ اکبریہ سندوس
ساؤنڈ منیجمنٹ: انچن ساؤنڈ اینڈ پروڈکشن

06/08/2024

Anchan Sound
نوحہ
کس جرم کی سجاد نے پائی یہ سزا ہے
آواز محمد حسین آزاد
ساؤنڈ منیجمنٹ: انچن ساؤنڈ اینڈ پروڈکشن

21/07/2024

انسانی معاشرہ پر تہذیب عزاداری کے اثرات
تحریر: محمد حسن حسرت

عزاداری کی تاریخ ویسے تو اس دن سے شروع ہو جاتی ہے جس دن قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا اور ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام نے ہابیل پر مرثیہ پڑھا۔ آدم سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک مختلف ادوار میں ظلم و زیادتیوں کے نتیجے میں صف ماتم بچھتی رہیں مگر واقعہ کربلا نے انسانی معاشرہ پر جو تہذیبی اثرات مرتب کیے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ عزاداری سید شہداء نے انسانی معاشرے کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے طول و عرض میں مختلف قوموں کے درمیان مختلف رسوم پنپتی رہیں اور تاریخ کے مختلف قصے تکرار ہوتے رہے مگر یہ رسوم بدلتے ہوئے حالات کی دھول میں معدوم ہوتی رہیں۔ ایک عزاداری ابا عبداللہ الحسین ہے جو آئے روز ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگرچہ ظالم کرداروں نے اسے روکنے اور عزاداری کو ترک کردینے کے لیے ہر دور میں مختلف ہتھ کنڈے استعمال کیے۔ حسینیت کے پرستاروں نے اپنے ہاتھ کٹوائے، آنکھوں کے پتلے نکلوائے، زندانوں کی ہوا کھاتے رہے، سولی پر چڑھتے رہے یہاں تک کہ دیواروں میں چنواتے رہے اور اذیت ناک سزائیں بھگتتے رہے مگر امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے دست بردار نہیں ہوئے۔ گویا اس عالمگیر رسم میں ترقی ہوتی رہی، تنزلی نہیں آئی۔
چونکہ محرم الحرام کے ایام ہیں، اس لیے میں یہاں صرف اپنے علاقے میں عزاداری کے اثرات سے متعلق چند باتیں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ہمالیہ و قراقرم کی وادیوں میں ویسے تو عزاداری کا سلسلہ اشاعت اسلام کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا مگر راجاؤں کی سرپرستی میں علماء، سادات اور آخوندوں نے عزاداری کی رسم کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بالخصوص سکردو میں راجہ احمد شاہ مقپون، کھرمنگ میں راجہ علی شیر خان مقپون اور شگر میں راجہ حیدر خان اماچا کے دور سے عزاداری کو بہت زیادہ اور وسیع پیمانے پر تقویت ملنی شروع ہوگئی۔ اسی دور سے امام بارگاہوں کی تعمیر کی تاریخی شہادتیں ملتی ہیں۔ عزاداری سید شہداء نے جن شعبوں کو متاثر کیا، ان میں سے ایک خانقاہوں اور امام بارگاہوں کی تعمیر یے۔ عزاداری کے طفیل اسلامی آرکیٹیکچر نے اس علاقے کی ثقافت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان عمارتوں کے محراب و منبر، پنجرے، ختم بام، ستون، بریکیٹ، مرغ، دروازوں اور کھڑکیوں پر کندہ کیے گئے نقوش صدیوں بعد آج بھی اس علاقے کے اہم اور نفیس ثقافتی ورثوں میں شمار ہوتے ہیں۔ الحمد اللہ ان مذہبی عمارتوں کی تعمیر اور آرائش و زیبائش کا سلسلہ روز بروز ترقی کررہا ہے۔
عزاداری سید الشہداء کی تہذیب نے اس معاشرے پر جو سافٹ اثرات مرتب کیے، ان میں یہاں ہر موجود امن، بھائی چارگی، برداشت، اخلاق، آداب اور انصاف کے اثرات ہیں۔ یہ عزاداری کی مجالس میں دیے جانے والے علماء کے دروس ہی کے مرہون منت ہیں کہ یہاں کے لوگ مہذب و متمدن ہیں، انصاف پسند و انسان دوست ہیں، اسلامی شعائر سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ ان کے محافظ بھی ہیں۔ یہاں کے باسی وطن کی محبت اور اس کے تحفظ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ بڑوں کے آداب بجا لانا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنا، والدین پر احسان کرنا، میاں بیوی کے آپس میں حسن سلوک قائم کرنا، پردہ کی اہمیت کو سمجھنا، صلہ رحمی کے اصولوں پر کار بند رہنا، معاشرے کے مظلوم و بیکس و بے سہارا لوگوں کی مدد اور داد رسی کرنا اس علاقے کے اہم ثقافتی ورثے ہیں جو عزاداری کی مجلسوں نے سکھائے۔
عزاداری سید الشہداء نے جن شعبوں کو متاثر کیا ان میں سے ایک ادب و شاعری کا شعبہ ہے۔ اشاعت اسلام اور واقعہ کربلا پر کی جانے والی شاعری سے پہلے یہاں کی مقامی زبانیں تقریباً بانجھ تھیں۔ قافیہ و ردیف سے مبرا چند لوک گیتوں کے علاؤہ ان زبانوں کا دامن ادب و شاعری کے موتیوں سے خالی تھا۔ ان زبانوں کو شاعری کا فن اور تاب و توانائی شہدائے کربلا کے مرثیوں، نوحوں، سلاموں اور دینی موضوعات پر تخلیق ہونے والی حمدوں، نعتوں ، منقبتوں اور نظموں نے عطا کی۔ منقبت نگاروں نے تشبہات و استعارات، ایہام و تضاد، شعری محاسن اور فکر فن کے موتی بکھیر دیے، بلتی شاعری کے فن بحر طویل نے اسلامی جنگوں کی رزم و پیکار اور عرفان و تصوف کے جواہرات سے اس زبان کو مالا مال کردیا۔ حمد، نعت اور مثنویوں نے رب ذوالجلال والاکرام کی فیاضیوں و رحمتوں اور رسول اکرم کے خلق عظیم و کرم فرماؤں کو طشت از بام کیا۔ نوحہ و مرثیہ نگاروں نے جہاں واقعہ کربلا کی منظر کشی کرتے ہوئے فوج اشقیا کے مظالم اور اہلبیت کی مظلومیت کا بین کر کے عزاداروں کے دلوں کو گرمایا وہاں ان مرثیوں میں عمر اور رشتے کے لحاظ سے حفظ مراتب، بڑوں کے لیے آداب اور چھوٹوں پر شفقت کے اسلوب بھی بتائے۔
عزاداری کا ایک اثر یہ ہے کہ ان مجلسوں نے قراقرم و ہمالیہ کے دامن میں بسنے والے لوگوں کو تبرک کے نام پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا کیا۔ یہاں کے باسی ساٹھ ستر سال قبل غربت میں بھی تبرکات کے لیے دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ اب تو ایک محتاط اندازے کے مطابق محرم الحرام کے دوران صرف بلتستان میں سالانہ کم و بیش تخمینہ تین ارب روپے تبرکات کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا کرم اور مولا حسین کے پاک خون کے صدقے میں ہو رہا ہے۔
عزاداری سید شہداء کے زیر اثر بلتستان میں جو سماجی و معاشرتی ڈھانچہ تشکیل پایا اس میں دیانت داری و امانت داری اور عزت نفس کے احساس نے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے عزاداری کی ان مجلسوں کی روح سے استفادہ کیا وہ دوسروں کی عزت نفس کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ دوسروں کی عزت اور مقام و مرتبے کو مجروح ہونے نہیں دیتے ہیں۔ جو شخص اپنی عزت چاہتا ہے وہ دوسروں کی عزت کا بھی لاج رکھتے ہیں۔
اب زمانہ بدل گیا ہے، وقت کے دھارے بدل گئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مجالس و محافل کی ضروریات بھی بدل گئی ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ ان مجلسوں میں خطیبوں اور نوجوانوں کے درمیان فاصلے آرہے ہیں، نوحوں کے سوز میں موسیقیت آرہی ہے، خلوص و عقیدت مفقود ہورہی ہے، مجلسوں اور جلوسوں میں نمود و نمائش پروان چڑھ رہی ہے، کالے کرداروں کو پاک و سفید کرنے کی بجائے صرف کالے کپڑے زیب تن کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے، مجلسوں میں مقامی سیاست، ذاتی پسند و ناپسند اور خاندانی و علاقائی رنگ دیکر ہو ہا کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ یوں عزاداری کی اصل روح پرواز کرکے صرف رسمی خد و خال نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں علمائے کرام، زعمائے قوم اور جوانان ملت کو مل بیٹھ کر سوچنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم عزاداری کی اس عظیم نعمت سے رسم برائے رسم کی ادائیگی کے بجائے بخوبی استفادہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند ایک تجاویز و گذارشات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:
1۔ مجلسوں کی کامیابی میں علمائے کرام کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ ان کی خطابت سے ہی فکری تربیت ملتی یے اور ذہنی انقلاب آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے علماء علم اور تقویٰ کے لحاظ سے مثالی ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ بیشتر علماء تقریر بغیر تیاری کے کرتے ہیں جس سے آج کے تعلیم یافتہ معاشرے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ہیں۔ ہم نے برصغیر کے مثالی خطیبوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنی تقریروں کے موضوعات پر نوٹ بک مرتب کیا کرتے تھے۔ اس موضوع سے متعلق قرآنی آیات، احادیث، روایات اور علمی نکات نوٹ کر لیتے اور اس ڈائری کی روشنی میں بیان فرماتے۔ یہ ایک آزمودہ نسخہ ہے جس سے یقیناً خطیبوں اور سامعین دونوں کو فائدہ ہوگا۔ موضوع کا انتخاب بھی وقت کے تقاضے سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے نیز علاقائی، قومی اور بین الاقوامی حالات سے واقفیت بھی لازمی ہے اور پھر سامعین کے ذوق سماعت کا لحاظ رکھنا بھی خطیب کی زمہ داری ہے۔ ورنہ سامعین کی توجہ خطیب کی طرف نہیں رہتی ہے۔ علمائے کرام اور خطیبوں کا محرم سے پہلے سالانہ ایک تربیتی کانفرنس ہونی چاہیئے جس میں موضوعات کا تعین اور خطابت کے تقاضوں پر گفت و شنید ہونا ضروری ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ متنازعہ باتیں منبر سے بولنے کی بجائے مذکورہ کانفرنس میں زیر بحث لائی جائیں۔ قابل اعتراض نکات پر وہاں اکثریتی رائے اور حتمی فیصلے کے بعد مجلسوں میں گفتگو کی جائے۔
2۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ان مجلسوں میں ذوق و شوق کے ساتھ ذہنی طور پر تیار ہوکر شرکت کریں، علمی نکات کو باقاعدہ قلم کاپی لے جاکر نوٹ کریں اور گھر آنے کے بعد ان کا مطالعہ کر کے عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ان مجالس و محافل کو حقیر اور رسمی نہ سمجھیں۔ کربلا ہماری درسگاہ اور یہ مجلسیں ہماری تربیت کا ذریعہ ہیں۔ ان مجلسوں سے دین و دنیا دونوں میں کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو سمجھ کر ان اہداف کے حصول کے لیے جد و جہد کرے۔
3۔ عمائدین و سرکردگان علاقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مجلسوں کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمارے مجلسی آداب اور عزائی ثقافت کے طور طریقے دنیا کے کسی بھی خطے کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ ہمیں کہیں اور سے آداب و رسوم لینے کی ضرورت نہیں ہیں۔ ان تہذیبی رسوم و آداب کا تحفظ اور علمائے کرام کے ساتھ حسن سلوک سرکردگان اور جوانوں کا مشترکہ فریضہ یے۔ گاؤں سماج کی اکائی ہوتی ہے۔ گاؤں کی سطح پر اصلاح کا ایجنڈا زیادہ موثر ہوتا ہے۔
4۔ مرثیہ خوانوں اور نوحہ خوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معیاری مرثیوں و نوحوں کا انتخاب کر کے پڑھنے کی کوشش کریں۔ نیز جدید ثقافتی یلغار سے پہلو بچا کر سوز خوانی کی خدمت کریں ورنہ ہم دنیا و آخرت میں خسارہ سے دوچار ہو جائیں گے۔
5۔ خواتین اور دیگر عزاداروں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق پردہ کی اہمیت کو سمجھیں اور عمل کریں۔ قرآنی تعلیمات اور واقعہ کربلا کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دنیوی خواہشات کو پس پشت ڈالنا پڑتے ہیں۔ عزاداری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس سے بھی اہم پردے کا حکم ہے۔ اگرچہ دنیا کے دیگر علاقوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ کافی بہتر ہے مگر عالمی سطح پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے غیر اسلامی ثقافتی یلغار سے بچنے کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا یے۔

Address

Skardu
16100

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Anchan Sound And Production House posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share