Muhammad Usman

Muhammad Usman جو لوگ اپنا قیمتی وقت ﷲ کو دے دیتے ہیں ﷲ پاک انہیں کبھی پریشان نہیں ہونے دیتا۔❣️🥰🥀

‏فرعون ٹیکنالوجی اور سائنس میںہم سے بہت آگے تھےیہ سات ہزار سال قبلسات سو کلو میٹر دور سےایک کروڑ پتھر مصر لائےہر ایک پتھ...
11/06/2024

‏فرعون ٹیکنالوجی اور سائنس میں
ہم سے بہت آگے تھے
یہ سات ہزار سال قبل
سات سو کلو میٹر دور سے
ایک کروڑ پتھر مصر لائے
ہر ایک پتھر 25 سے 28 سو ٹن وزنی تھا
یہ ون پیس تھا اور یہ پہاڑ سے چوڑائی میں کاٹا گیا تھا
یہ پتھر صحرا کے عین درمیان 170 میٹر کی بلندی پر لگائے گئے
‏قدیم مصری آرکیٹیک نے 8ہزار قبل ایسا ڈیزائن بنایا
جو ہر طرف سے بند بھی تھا
لیکن بندش کے باوجود
اندر سورج کی روشنی بھی آتی تھی
اندر کا درجہ حرارت بھی باہر کے ٹمپریچر سے کم تھا
اُن لوگوں نے8 ہزار سال قبل لاشوں کو (محفوظ) کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیا
یہ خوراک کو ہزار سال ‏تک محفوظ رکھنے کا
طریقہ بھی جان گئے
قاہرہ کے علاقے جیزہ کے بڑے اہرام
میں 23 لاکھ بڑے پتھر ہیں
ابوالہول دنیا کا سب سے بڑا ون پیس اسٹرکچر ہے
اور
یہ لوگ جانتے تھے
شہد دنیا کی واحد خوراک ہے
جو کبھی خراب نہیں ہوتی
اہراموں میں 5 ہزار سال پرانا شہد نکلا
اور
یہ مکمل طور پر ‏استعمال کے قابل تھا
یہ لوگ کمال تھے
پر
اُن میں یہ خرابی تھی
کہ
یہ تکبر کرتے تھے
اور
اِسی لئے اُن لوگوں نے اللّٰه کو
یکتا ماننے سے انکار کیا
اللّٰه تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں
چنانچہ
یہ پکڑ میں آ گئے
اور
عبرت کا یوں نشان بنے
کہ
آج تک نشان عبرت ہیں
جس نے رب کیلئے ‏جھکنا سیکھ لیا
وہی علم والا ہے
کیونکہ علم کی پہچان
عاجزی ہے
اور
جاہل کی پہچان تکبر ہے۔۔!!

فرمانِ مصطفی ﷺ ہے
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔۔!!!
(مسلم شریف، حدیث نمبر 91)

اغواء برائے تاوان کیسے ہوتے ہیں کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ olx پر بھی اپنی پراڈکٹ لسٹ کیا کرو...
10/06/2024

اغواء برائے تاوان کیسے ہوتے ہیں

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ olx پر بھی اپنی پراڈکٹ لسٹ کیا کرو وہاں سے بھی اچھا بزنس ملتا ہے.

مینے جھٹ سے olx ڈاؤنلوڈ کی اور بیری کے شہد کا ایڈ لگا دیا

اگلے دن سلاجیت کا اور پھر اسی طرح روزانہ کی بنیاد پر ایڈ لگانے شروع کر دیئے مگر کوئی رسپانس نہیں ملا، لیکن ہم نے تو سیکھا ہے کہ نتیجے پر نظر رکھے بغیر محنت کرنی ہے، سو لگے رہے.

چند دن بعد olx کی طرف سے آفر ہوئی کہ صرف 500 روپے میں 1 ہفتے کے لیئے پوسٹ کو بوسٹر لگائیں اور پتا نہیں کتنے ہزار لوگو تک آواز پہنچائیں

مینے جھٹ سے بیری شہد کی پوسٹ کو بوسٹر لگا دیا

اگلے ہی دن 1 صاحب نے رابطہ کیا اور کہنے لگے olx پر آپ کا بیری شہد کا ایڈ دیکھا
دراصل ہماری کمپنی پاکستان سے مختلف اشیاء باہر ممالک میں ایکسپورٹ کرتی ہے اور ہمارے پاس ایک ٹن کے قریب بیری شہد کا ابتدائی آرڈر ہے

کیا آپ ہمیں اتنا شہد مہیا کر سکتے ہیں؟ کیا قیمت ہو گی، کوالٹی کیسی ہو گی وغیرہ وغیرہ

بار بار کہتا سر خیال رکھیں کوالٹی میں شکایت نا ہو اور ہمیں ہر مہینے اتنا ہی شہد چاہئیے ہو گا بس سپلائی نہیں رکنی چاہیے

کافی ساری باتیں اور معاملات ڈسکس کرنے کے بعد کہنے لگے کہ ہمارے باس فوجی جنرل ہیں اور یہ انکی کمپنی ہے

ابھی وہ انگلینڈ میں ہیں کل یا پرسوں واپس آ رہے ہیں تو میں آپ کی میٹنگ ارینج کرواتا ہوں
بس آپ نے خیال رکھنا ہے کہ اکیلے آنا ہے، مینے پوچھا کہاں آنا ہے تو کہنے لگا فیصل آباد یا بہاولپور.
ان دو شہروں میں ہمارے آفس ہیں

میرے تو دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ لو بھئ میری تو چاندی لگ گئی

فون بند ہوا تو میں حساب کتاب لگانے لگا کہ کتنے پیسے بچیں گے، سپلائی کیسے مینج ہو گی وغیرہ وغیرہ

2 گھنٹے گذرے تو ان صاحب کا پھر سے فون آ گیا پوچھنے لگے کہ کمپنی میں آپ کے ساتھ کوئی شریک تو نہیں آپ اکیلے ہی ہیں فیصلہ خود ہی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ

پھر کہنے لگے میری اپنے باس سے بات ہو گئی ہے وہ پرسوں آ رہے ہیں آپ نے پرسوں 2 بجے فیصل آباد پہنچنا ہے

پھر پوچھنے لگا کیسے آئیں گے اپنی گاڑی پر یا لوکل؟ مینے کہا لوکل ہی آؤں گا آپ یہ بتائیں فیصل آباد میں آنا کہاں ہے؟
کہتا جب آپ فیصل آباد پہنچے تو بتا دینا ہمارا بندہ خود آپ کو لے آئے گا مگر خیال رکھیں کہ اکیلے ہی آنا.
مینے اثبات میں سر ہلا دیا

فون بند ہوا تو مینے فوراً ڈائیو کی ایپ سے آن لائن فیصل آباد کی ٹکٹ بک کی اور اس بندے کو واٹس اپ کر کے اطلاع کر دی کہ ٹکٹ ہو گئی ہے کہتا بہت خوب بس خیال رہے کہ آپ نے اکیلے ہی آنا ہے

اب تو جیسے ہی اس نے ایسا کہا مجھے کھٹکا کہ یار یہ کیا بات ہوئی بار بار 1 ہی بات، کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں

مینے بیگم صاحبہ کو ساری صورتحال بتائی وہ بھی کہنے لگی کہ کیوں ایسا کہہ رہا ہے

چھٹی حص نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں، ایک طرف لمبی دیہاڑی تھی اور دوسری طرف خطرے کی گھنٹی.

فیصلہ کرنا کافی مشکل ہو رہا تھا کہ کیا کرنا چاہیے اس صورتحال کو کیسے مینج کروں

خیال آیا کہ استاد جی سے مشورہ کرتا ہوں، فون کیا ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو استاد جی کہنے لگے کوئی بات نہیں اب اگر فون آئے تو کہنا کہ ہم 2 سے 3 لوگ آئیں گے اپنی گاڑی پر اور اسکا ری ایکشن دیکھنا پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، مینے کہا ٹھیک ہے دیکھتے ہیں.

کچھ ہی دیر گذری تھی کہ پھر فون آ گیا اور اس دفعہ تو مجھے اس بندے کا لہجہ بھی عجیب سا لگا، کچھ دیر بات کرنے کے بعد کہتا پھر ٹکٹ ہو گئی آپ کی، پھر اکیلے ہی آ رہے ہیں نا؟
مینے کہا نہیں پروگرام بدل گیا ہے جی ہم 3 لوگ آئیں گے اور اپنی گاڑی سے آئیں گے

یہ سننا تھا کہ جناب کے تو اوسان ہی خطا ہو گئے ایسے جیسے بوکھلا گیا ہو.
ذیشان صاحب آپ کا دماغ خراب ہے، آپ کو عقل نہیں، فلاں فلاں

مینے کہا بھائی خیر تو ہے آپ کا تو رویہ ہی عجیب ہو گیا ہے،
مزید کچھ بات بڑھی تو غصے سے فون بند کر دیا
ایسے لگ رہا تھا جیسے جناب کا کوئی بہت بڑا پلان کینسل ہو گیا ہو
لہجے سے بوکھلاہٹ واضح تھی

خیر مینے استاد جی کو فون کر کے ساری صورتحال بتائی تو کہتے اب تم نے کوئی رابطہ نہیں کرنا اگر وہ کرے تو میرا نمبر دے دینا میں دیکھ لوں گا.

چند دن گذرے ہوں گے کہ استاد جی کا فون آیا تو اوسان خطا ہوئے پڑے تھے سانس پھولا ہوا، مینے کہا کیا ہوا خیر تو ہے؟
کہنے لگے ذیشان صاحب شکر کرو اللہ تمہیں اغوا ہونے سے بچا لیا مینے کہا کیا مطلب ؟
تو کہنے لگے تمہیں جو فون آیا تھا نا وہ اغواء برائے تاوان والوں کا تھا

مینے کہا کیا مطلب؟ تو کہنے لگے کہ لگے مجھے کل اسی طرح سے شیخوپورہ کے مضافاتی علاقہ سے 1 مشین کی انکوائری آئی اور مینے سوچے سمجھے بغیر کہ شیخوپورہ میں جہاں یہ بلا رہے ہیں وہاں تو کوئی بڑی انڈسٹری بھی نہیں ملنے کی حامی بھر لی اور آج صبح گاڑی پر شرقپور پہنچ گیا وہاں پہنچ کر رابطہ کیا تو واٹس اپ پر لوکیشن بھیج دی کہ اس جگہ پہنچیں ہم منتظر ہیں

کہتے میں لوکیشن فالو کرتے ہوئے جانے لگا تو محسوس ہوا کہ یہ جگہ تو بلکل ویران ہے غور کیا تو پتا چلا کہ پیچھے سے 1 گاڑی مسلسل پیچھا کرتی ہوئی آ رہی ہے

اتنے میں پکی سڑک ختم ہو کر کچا ٹریک شروع ہو چکا تھا اور دائیں بائیں مڑنے کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا

کہتے اچانک دل میں خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس سے میں رابطے میں ہوں پیچھے آتی گاڑی میں تو نہیں

گاڑی کی رفتار کچھ کم کی تو پچھلی گاڑی ذرا قریب آئی مینے نظریں اس پر جماتے ہوئے اس بندے کو فون ملایا
جیسے ہی رنگ ہوئی تو پچھلی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بندے نے فوراً فون اٹھایا اور کہنے لگا بھائی ہم انتظار میں ہیں آپ جلدی پہنچیں

استاد جی کہنے لگے میں ڈر تو پہلے ہی رہا تھا اب اور گھبرایا اور راستہ دیکھنے لگا کہ کیسے بھاگنا ہے
کہتے مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آئی تو مینے فوراً گاڑی شیخوپورہ شہر کی طرف گھمائی اور ادھر ادھر دیکھے بغیر بس بھگاتا ہی رہا اور شیخوپورہ پہنچ کر سانس لیا

اس بندے کے بار بار فون آتے رہے مینے تو نمبر ہی بلاک کر دیا.

مینے پوچھا اب کہاں ہو کہتے شیخوپورہ سے نکل رہا ہوں ابھی،
وہاں سے سیدھا 1 دوست کے پاس چلا گیا تھا جب اسے سٹوری سنائی تو کہتا شکر کرو بچ گئے یہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں اور اغواء کر کے کہیں لے جاتے ہیں پر پھر تاوان لیتے ہیں اور شدید ٹارچر کرتے ہیں.

یوں استاد شاگرد کو اللہ نے 1 بڑے حادثے سے بچا لیا
اب تو مینے پکا اصول بنا لیا ہے کہ جو بھی ہو جتنا بھی بڑا گاہک ہو کبھی خود چل کر نہیں جانا بلکہ اسے اپنے پاس بلانا ہے

آج سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک بھائی کی وڈیو دیکھی تو اپنا سین یاد آگیا
اس بیچارے کو بکرے دینے کے بہانے راجن پور بلایا گیا اور دل دہلا دینے والے تشدد کیئے اور بھارا تاوان لینے کے بعد چھوڑا،

🥀🍃💕🤍💕🌿✨️. . . .
10/06/2024

🥀🍃💕🤍💕🌿✨️. . . .




ایک غریب عورت نے بڑی عزت کے ساتھ آواز دی ، آجائیے میڈم ، آپ یہاں بیٹھ جائیں ، کہتے ہوئے اس نے اپنی سیٹ پر ایک استانی کو ...
10/06/2024

ایک غریب عورت نے بڑی عزت کے ساتھ آواز دی ، آجائیے میڈم ، آپ یہاں بیٹھ جائیں ، کہتے ہوئے اس نے اپنی سیٹ پر ایک استانی کو بیٹھا دیا اور خود بس میں کھڑی ہو گئی میڈم نے بہت بہت شکریہ میری تو بری حالت تھی سچ میں ، کہتے ہوئے دعائیں دی،
اس غریب عورت کے چہرے پر ایک خوشکن مسکان پھیل گئی ۔ کچھ دیر بعد استانی کی پاس والی سیٹ خالی ہو گئی ، لیکن اس عورت نے ایک اور عورت کو (جو ایک چھوٹے بچے کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور مشکل سے بچے کو اٹھا پا رہی تھی) سیٹ پر بیٹھا دیا اگلے پڑاؤ پر بچے والی عورت بھی اتر گئی ، سیٹ پھر خالی ہوگئی ، لیکن اس نیک دل عورت نے پھر بھی بیٹھنے کی بالکل کوشش نہیں کی بلکہ اس ایک کمزور اور بزرگ آدمی کو بیٹھا دیا ، جو ابھی ابھی بس میں سوار ہوئے تھے۔
مزید کچھ دیر کے بعد وہ بزرگ بھی اتر گئے ، سیٹ پھر سے خالی ہو گئی ،
بس میں اب چند مسافر ہی رہ گئے تھے ، اب اس استانی نے غریب خاتون کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ کتنی بار سیٹ خالی ہوئی لیکن آپ لوگوں کو بٹھاتی رہیں ، خود نہیں بیٹھیں ، کیا بات ہے ؟
اس خاتون نے جواب دیا میڈم میں مزدور ہوں ، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کچھ صدقہ و خیرات کر سکوں ، تو میں کیا کرتی ہوں کہ ، سڑک میں پڑے پتھروں کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتی ہوں ، کبھی کسی ضرورت مند کو پانی پلا دیتی ہوں ، کبھی بس میں کسی کے لیے سیٹ چھوڑ دیتی ہوں ، پھر جب سامنے والا مجھے دعائیں دیتا ہے تو میں اپنی غربت بھول جاتی ہوں ، میری دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے ، اور تو اور ، جب میں روٹی کھانے کے لیے باہر بینچ پر بیٹھتی ہوتی ہوں، کچھ پرندے میرے قریب آکر بیٹھ جاتے ہیں ، میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے انکے سامنے ڈال دیتی ہوں ، جب وہ خوشی سے چلاتی ہیں تو خدا کے ان مخلوق کو خوش دیکھ کر میرا پیٹ بھر جاتا ہے ، روپے پیسے نہ سہی ، سوچتی ہوں دعا ئیں تو مل ہی جاتی ہوں گی ، مفت میں ، فائدہ
ہی ہے نا ، اور ہمیں کیا ہی لے کر جانا ہے اس دنیا سے ۔ استانی ہکا بکا رہ گئیں ، ایک ان پڑھ سی دکھنے والی غریب عورت نے
اتنا بڑا سبق جو انہیں پڑھا گئی
اگر دنیا کے آدھے لوگ بھی ایسی خوبصورت اور مثبت سوچ اپنا لیں تو یہ زمین جنت بن جائے گی سب کے لئے ، صدقہ و خیرات صرف پیسے سے نہیں دل سے بھی کیا جاتا ہے ۔

💕جس نے ایک بار یہ تحریر سمجھ کر پڑھ لی اسے کبھی غصہ نہیں آئے گا۔۔۔!ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت سقراط اپنے ایک شاگرد کے ساتھ ...
09/06/2024

💕جس نے ایک بار یہ تحریر سمجھ کر پڑھ لی اسے کبھی غصہ نہیں آئے گا۔۔۔!

ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت سقراط اپنے ایک شاگرد کے ساتھ بازار میں کہیں جا رہے تھے اچانک ایک شخص بھڑک کر ان کے سامنے آیا اور انہیں گالیاں دینے لگا حضرت سقراط اس کی گالیوں کا نوٹس لئے بغیر جب مسکرا کر آگے بڑھ گئے تو اس شخص کو اور زیادہ غصہ آگیا، وہ اور زیادہ شدت سے گالیاں دیتے ہوئے ساتھ ساتھ چلنے لگا حضرت سقراط کی مسکراہٹ اور زیادہ گہری ہوگئی، وہ ایک بھی لفظ کہے بغیر چلتے رہے لیکن ان کے شاگرد کو بھی استاد کی توہین کرنے پر غصہ آگیا وہ اس شخص کو کوئی سخت جملہ کہنے ہی والا تھا کہ حضرت سقراط نے اسے منع کرتے ہوئے تادیب کی اور خاموش رہنے کا اشارہ کیا،

اسی اثناء میں سقراط کا گھر آگیا جب گھر پہنچے تو سقراط نے اپنے شاگرد سے کہا تم بیٹھو میں آتا ہوں یہ کہہ کر وہ گھر کے اندرونی کمرے میں چلے گئے شاگرد بیٹھ کر ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر بعد سقراط واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک میلا تولیہ اور چند کپڑے تھے جن سے سخت بدبو
آرہی تھی اور وہ بھی میلے کچیلے تھے اس نے تولیہ اور کپڑے شاگرد کو دیتے ہوئے کہا لو تولیے سے ہاتھ منہ پونچھو اور یہ کپڑے پہن لو
شاگرد نے انکار کردیا اور کہا تولیہ اور کپڑے گندے اور سخت بدبودار ہیں وہ انہیں کیسے استعمال کر سکتا ہے؟؟؟

حضرت سقراط مسکرائے اور بولے:
ہاں تم ٹھیک کہتے ہو گندے تولیے سے کیسے منہ صاف کیا جا سکتا ہے اور گندے کپڑے کیسے پہنے جا سکتے ہیں؟؟؟
بالکل اسی طرح میں کسی کے گندے اور بدبودار الفاظ کیسے لے کر ان پر اپنا ردعمل دے سکتا ہوں بازار میں گالیاں دینے والا شخص اندر باہر سے ان گندے کپڑوں کی طرح تھا اس لئے میں نے اس پر توجہ دئیے بغیر آگے بڑھ گیا جبکہ تم غصے میں آ گئے تھے،

یاد رکھو ہمیں گندے الفاظ نہیں لینے چاہئیں اگر لیں گے تو پھر دینے بھی پڑیں گے جبکہ ہمارے پاس دوسروں کو دینے کے لئے اچھے الفاظ ہونے چاہئیں اس سے ہمارے اندر نیکی بڑھتی ہے جو پھیل کر سماج کا احاطہ کر لیتی ہے گندے الفاظ بدی بڑھاتے ہیں جو معاشرے کو جنگل کی آگ کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ہم گالی گلوج سے معاشرے کو دوسروں کے لئے جہنم نہیں بنا سکتے یہ نیکی کے خلاف ہے جو ایسا کرتے ہیں وہ ایک دن اپنے ہی گندے الفاظ کا معکوس بن کر معدوم ہو جاتے ہیں۔۔۔!

برائے مہربانی پوسٹ کو شیئر کریں.

#ڈاکٹر زارون آفریدی✍️🥀

ہمزاد قسط 2 طلاق میں خود دلواؤں گی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا آخر قصور کس کا ہے اب بہو صبا سب کچھ بتا سکتی تھی میرا دما...
08/06/2024

ہمزاد قسط 2

طلاق میں خود دلواؤں گی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا آخر قصور کس کا ہے اب بہو صبا سب کچھ بتا سکتی تھی میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا صبا اٹھ چکی تھی اس نے ناشتہ بھی کر لیا تھا وہ اپنے کمرے میں چلی گئی میرا بیٹا دفتر چلا گیا یہی وقت تھا سب کچھ جاننے کا میں فورا بہو کے کمرے میں گئیں صبا الماری ٹھیک کر رہی تھی وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی اس کو بولا کمرہ لاک کرو میں نے اس سے پوچھا آخر یہ سب ماجرا کیا ہے تم دونوں یہ کیا کھیل کھیل رہی ہو
مناہل کون ہے مناہل کا اخرراز کیا ہے آج میں سچ جان کے رہوں گی اگر تم نے مجھے سچ نہ بتایا تو یہ بات سنتے ہیں میرے قدموں میں گر گئی امی جان مجھے معاف کر دے میرا کوئی قصور نہیں آخر یہ سب کیا ماجرہ ہے مجھے پوری بات بتاؤ میری یہ بات سن کر وہ گھبرا گئی امی جان پہلے آپ مجھ سے وعدہ کریں نوید کو کچھ نہیں بتاؤ گی دیکھو صبا بیٹا مجھے اب سچ بتاؤ میں بس سچ جانے کے بعد ہی فیصلہ کروں گی میری بات پہ وہ اپنے آنسو پونچھ کر مجھے اپنا قصہ سنانے لگی اس نے بتایا کہ میں صبا کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ہم تین بہن بھائی تھے بڑیبڑی بہن کی تین سال پہلے شادی ہوگی وہ باہر ملک چلی گئی اس کے بعد میرا چھوٹا بھائی اور میں تھی میں کالج جاتی تھی میرا چھوٹا بھائی اسکول ہم بہت خوش تھے اچانک میرے پاپا کو بز نس میں لاس ہو گیا ہمارے مالی حالات بہت خراب ہو گئے میرا کالج جھوٹ گیا اور فیس نہ دینے کی وجہ سے بھائی کا اسکول بی قرض میں ڈوب گئے تھے رشتہ داروں نے تو پوچھا تک نہیں یہ بات بالکل سچ ہے سب آپ کا تب تک ساتھ دیتے ہیں جب تک آپ کے پاس پیسہ ہے پاپا نے اپنا قرضہ اتارنے کے لیے گھر بیچ دیا کچھ پیسے بچ گئے تھے ان سے ایک چھوٹا مکان کرائے پر لے لیا 6 مونٹھ کا ایڈوانس دیا دو مونٹھ کا راشن ڈلوایا اب بس چند ہزار روپے بچے تھے وہ بھی کب تک چلتے میرے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی کہ میں کوئی نوکری کر لیتی اس مہنگائی کے دور میں 2000 ہزار سے کیا ہوتا ہے میں باہر آ گئی بس ٹاپ کے پاس آ کر بیٹھ گئی بس کا انتظار کرنے لگی مجھے اپنی بے بسی پہ رونا آ رہا تھا آنسو میرے گالوں پے پھیلتے جارہے تھے کسی نے پوچھا کہ میں کیوں رو رہی ہو میں نے اچانک سر اٹھایا تو میں بہت ڈر گئی مجھ پے خوف طاری ہو گیا کیونکہ وہ ایک اجنبی شخص تھا اور ہمیشہ مجھے
وہ مجھے ادھر بیٹھا گورتا جا رہا تھا آج اس کی اتنی ہمت جرات دیکھ کر بہت خوف آیا میں وہاں سے اٹھ کر دوسری سمت بیٹھ گئی مگر وہاں بھی آ گیا مجھے سے رونے کی وجہ پوچھنے لگی میں نے اس کو کہا یا سے چلے جاؤ لیکن وہ نہیں گیا اور کہنے لگا میں اگر چاہوں تو وہ میری مدد کر سکتا ہے میں نے دل میں سوچا یہ میری مدد کیا کرے گا بچارا مانگ کر اپنا پیٹ پالتا ہے میں نے اس کو کہا کہ میری کوئی مدد نہیں کر سکتا چلے جائیں جہاں سے لیکن وہ نہیں مانا اس نے ضد لگا لیں میں نے پھر اس کو بتایا کہ میرے حالات ٹھیک نہیں کوئی ڈھنگ کی نوکری بھی نہیں ملتی یہ سن کر وہ اپنا مشورہ دینے لگا کہ آپ اپنا پالر کیوں نہیں کھول لیتی اس کی بات سن کر ہنسی کے اس کے لیے لاکھوں روپے چاہیے اور میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کسی پالر میں کورس کر سکو سیکھنے کے لئے بھی پیسے لگتے ہیں یہ سن کر اس نے اپنی جیب سے کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا یہ میرا نمبر ہے تم سوچ لو پھر مجھے کال کر لینا میں تمہیں پیسے لا دوں گا میں نے جھٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا وہاں سے اٹھ گئی کیونکہ میری بس آ گئی تھی گھر پہنچ کر میں اس سارے واقعے کو بھول گئی رات کو جب میں بستر پر
لیٹی بستر پر تو مجھے سارا واقعہ یاد آ گیا دن والا میں کیسے رو رہی تھی
کیسے وہ اجنبی آیا میں سوچ رہی تھی کے اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا جو وہ مجھے دینا چاہتا ہے اور وہ مجھے کیوں دینا چاہتا ہے
آج کل تو کوئی کسی کو ادھار تک نہیں دیتا اس کی باتوں پر مجھے اعتبار تو نہیں آیا ٹھیک نہ جانے میں نے کیا سوچ کر میں نے اپنے بیگ سے وہ چیٹ نکالیں اس کے اوپر لکھا ہوا نمبر دیکھا اور موبائل میں اجنبی مدد گار کے نام سے سیو کر لیا اس واقعے کو کافی دن گزر گئے مجھے اور مما کو میرے چھوٹے بھائی کی بہت فکر ہو رہی تھی کہ وہ اتنے دن سے سکول بھی نہیں گیا گھر پر اداس بیٹھا اپنے اسکول بیگ کو کھول کر کتابیں بکھیر کر گھنٹوں گھنٹوں اداس بیٹھا رہتا ہے میں اس دوران اپنے دوست کے گھر گئی اس سے بات کرنے کے مجھے سکول میں اچھی تنخواہ پر رکھوا دے کسی سے بات کرکے میں وہاں جانے کے لئے نکلی تو راستے میں ایک بیوٹی پالر تھا
اسے دیکھ کر مجھے اس اجنبی کی بات یاد آگئی میں اندر چلی گئی اور کہا کے میں سیکھنا چاہتی ہوں پارلر کی اونر نے کہا کہ وہ کورس کروانے کا ایک لاکھ روپے لیتی ہے اور ایک سال کا کورس ہے جس میں وہ مجھ کو سب کچھ سکھا دے گی
یہ سن کر میں وہاں سے مایوس ہو کر چلی گئی لیکن میں ایک لاکھ کہاں سے لاتی میرے پاس تو دس ہزار روپے بھی نہیں تھے خیر میں گھر آگئی کچھ دن بعد اس اجنبی کا نمبر ملایا اس نے میرا فون کاٹ دیا اور خود کال کی اور پوچھا کہ کیا میں وہی لڑکی ہوں جو اسے بس سٹاپ پہ ملی تھی
مجھے بہت حیرت ہوئی اس نے میری آواز کیسے پہچان لی میں نے اس سے کچھ ظاہر کیے بغیر کہا جی میں وہی ہوں میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کہاں سے مجھے پیسے دیں گے میں نے اس سے کہا آپ تو خود بہت غریب ہیں میری یہ بات سن کر ہنسنے لگا تمہیں پیسوں سے مطلب ہے وہ تمہیں مل جائیں گے بولا کے کتنے چاہیے میں نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ روپیہ چاہیے پالر کے کورس کے لیے میں نے کہا کہ میں آپ کو یہ پیسے لٹا دوں گی اس نے مجھے بس سٹاپ پہ بلایا میں نے ہمیں بھرلی اگلے دن میں وہاں پہنچیں ‏تو وہاں پہلے ہی موجود تھا اس نے میرے ہاتھ میں لفافہ دیا اور اور خاموشی سے چلا گیا میں نےوہ لفافہ جلدی سے اپنے بیگ میں ڈالااور واپس گھر آگئی کمرے میں آ کر دروازہ بند کر کے میں نے لفافہ کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ‏لفافے میں دو لاکھ روپے تھے میں نے اسے کال کی اور پوچھا مجھے ایک لاکھ روپے کی ضرورت تھی تم نے دو لاکھ روپے کیوں دیئے
تو وہ بولا ایک لاکھ پارلر میں دوں گی ایک لاکھ تب تک گھر میں خرچ کرنے کے لئے تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جوش میں آ کر اس سے وعدہ کر بیٹھی
کے زندگی میں مجھے اس سے کوئی بھی مدد کی ضرورت پڑی تو لازمی کروں گی وہ مجھے اپنی بہن سمجھے مجھے نہیں معلوم تھا کہ انجانے میں مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہو گی تو میں نے فون رکھ دیا دوسرے دن پارلر گی مالک کو پیسے جمع کروائے اور پارلر جوائن کر لیا
دن اسی طرح گزرتے جا رہے تھی میں نے بہت کچھ سیکھ لیا چھوٹے بھائی کو سکول میں داخل کروا دیا تھا اسی طرح سال پورا ہو گیا مجھے کورس سرٹیفکیٹ بھی مل گیا اب میں اپنا پارلر کھولنا چاہتی تھی میں نے اجنبی مددگار کو ایک بار پھر سے کال ملائیں بتایا کہ میرا کورس کمپلیٹ ہو گیا اس نے بولا کہ پھر اسی جگہ پر آ جاؤ میں وہاں گئی تو اس نے مجھے پھرتے ایک لفافہ دیا اور بولا کہ میرے ساتھ چلو یہ کیا
میں فورن ڈر گئی تو وہ جلدی سے بولا میں نے آپ کے لئے ایک پارلر دیکھا ہے اور کوئی کرائے پر دے رہا ہے میں اس کے ساتھ چلی گئی اور سارے معاملات طے کیے اور گھر آگئی اور دوسرے دن میں پارلر پر بیٹھ گئی اور اوپن کا بورڈ لگایا اور اپنی مدد کے لیے ایک لڑکی بھی رکھ لیں پا ر لر چل پڑا تھا اور میرے گھر کے حالات بھی ٹھیک ہونے لگے تھے میں تو اسے اپنا محسن سمجھنے لگی دن اور رات اسے دعائیں دیتی لڑکیاں چوک درچوک آتی ان میں سے ایک خاتون آپ بھی ہے جنہوں نے مجھے پسند کیا اور مجھے اپنی بہو بنا لیا میری شادی کی تیاری ہو رہی تھی کے ایک دن اجنبی مددگار میرے پاس آیا اور بولا کہ اسے مجھ سے کچھ چاہیے میں نے کہا کہ میں اس کے سب پیسے لٹا دوں گی اور کچھ وقت دے اس نے کہا کہ اسے کچھ پیسے نہیں چاہیے اسے اس کی مدد چاہیے
اس نے مجھے میری نادانی میں وعدہ کیا ہوا یاد کروایا جو میں نے اس سے دو لاکھ کے بدلے کیا تھا اس کی بات سن کر کافی پریشان ہو گئی تھی اے جانے اب وہ مجھ سے کیا مانگ لیا لیکن میں نے دل کھڑا کر کے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو لیکن اس کی بات سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس کو اپنے جہیز میں لے جاؤ میں حران ہوئی میں نے کہا مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ بولا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں تم مجھے اپنے ساتھ کام والی بنا کر لے جاؤ میں ہر وقت خود کو ڈھانپ کر رکھو گا کسی کو خبر تک نہ ہو گی کے میں لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہوں
جاری ہے
ہاہاہاہا تو دوستو کہانی تو اب بنی ہے تو سوچو آگے کیا ہوتا ہے اور نیچے کمنٹ میں بتاؤ 😄😄😄
شکریہ آپ سب کا اتنا پیار محبت دینے کے لیے
یھاں تک پڑھ کر بتائیں پوسٹ کیسی لگی ۔۔۔

جہانگیر کی بیوی نور جہاں شیعہ تهی اسنے ایران خط لکها کہ ایران کے سب سے بڑے مناظر کو ہندوستان بهیج دو تاکہ مناظرہ میں شیع...
07/06/2024

جہانگیر کی بیوی نور جہاں شیعہ تهی اسنے ایران خط لکها کہ ایران کے سب سے بڑے مناظر کو ہندوستان بهیج دو تاکہ مناظرہ میں شیعہ مذھب کی حقانیت بیان کرے اور ساتھ میں تحریر کیا کہ وہ مناظر سیدھا آگرہ نہ آئے بلکہ لاہور سے ہوتا ہوا آئے جہاں علماء نہیں ہیں بلکہ صوفیاء ہیں جن کو مات دینا آسان ہے اسطرح شیعہ مناظر کی آگرہ آنے سے پہلے دهاک بیٹھ جائے گی
شیعہ مناظر سیدھا میاں میر صاحب کے پاس پہنچا آپ اشراق کی نماز سے ابهی فارغ ہی ہوئے تهے ، جیسے ہی وہ دروازے میں سے داخل ہوا آپ نے فرمایا :
" یہ شخص جو آگے آگے آ رہا ہے اس کا دل سیاہ ہے "
علیک سلیک کے بعد حضرت نے دریافت فرمایا کیا کام کرتے ہو ؟ شیعہ مناظر بولا کہ میں ایران سے آیا ہے ہوں اور شان اہل بیت بیان کرتا ہوں
میاں میر صاحب نے فرمایا اہل بیت کی شان بیان کرو تاکہ سنی کا ایمان بڑهے
شیعہ مناظر بولا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ شان ہے کہ کوئی گناہ گار شخص بهی آپ رضی اللہ عنہ کے مزار کے 40 میل کے ارد گرد دفن ہو جائے تو وہ بخش دیا جاتا ہے ، میاں میر صاحب نے بار بار فرمایا پهر سنا پهر سنا اور پهر پوچها کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہ مقام کیسے ملا تو شیعہ مناظر بولا کہ آپ رضی اللہ عنہ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے تهے اس وجہ سے یہ مقام ملا
تو میاں میر صاحب نے فرمایا کہ جب نواسے کی یہ شان ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا عظیم شان ہو گی ، وہ بولا بے شک بڑی شان ہے پهر میاں میر صاحب نے سوال کیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار میں انکے ساتھ سوئے ہوئے ہیں کیا وہ بخشے نہیں جائیں گے
شیعہ عالم ہکا بکا رہ گیا اور آگرہ آنے کی بجائے واپس ایران چلا گیا اور یہ کہہ کر گیا کہ جہاں کے صوفی بزرگ ایسا علم رکهتے ہیں تو یہاں کے عالموں کا کیا مقام ہو گا اور یہ وہ سوال کیا گیا ہے جس کا جواب قیامت تک کوئی شیعہ نہ دے پائے گا...
آپکا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے ۔میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں . آج اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا یہ پہلو کیوں نہ شیئر کریں۔“
جزاک اللہ خیرا۔۔

‏کرم دین چوکیدار۔"" "" "" "" "" "" کرم دین چوکیدار اپنی سائیکل کے ہینڈل سے گوشت کی چند تھیلیاں لٹکائے تیز تیز پیڈل مارتا...
07/06/2024

‏کرم دین چوکیدار
۔"" "" "" "" "" ""
کرم دین چوکیدار اپنی سائیکل کے ہینڈل سے گوشت کی چند تھیلیاں لٹکائے تیز تیز پیڈل مارتا ہوا اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پہ ایک انوکھی سی مسرت اور طمانیت کے آثار نظر آ رہے تھے۔ ایک انتہائی غریب سے محلے میں پہنچ کر اس نے ایک گھر کے سامنے سائیکل روکی اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر بعد اندر سے ایک نسوانی آواز آئی کہ جی کون؟ باجی میں ہوں کرم دین چوکیدار۔۔۔! اس کے بلند آواز سے جواب دیتے ہی دروازہ کھلا اور دوپٹے کے پلو سے چہرہ ڈھانپے ایک عورت نظر آئی۔
کرم دین نے نگاہیں جھکاتے ہوئے اس خاتون کو بڑے احترام سے سلام کیا، حال احوال پوچھا، عید کی مبارک باد دی اور گوشت کی ایک تھیلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ لیں باجی یہ آپ کا حصہ ہے۔

اس عورت نے تھیلی لیتے ہوئے کرم دین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کرم دین میں تیرا شکریہ ادا نہیں کر سکتی، بس اللہ کے سامنے اپنے بچیوں کی یتیمی پیش کر کے تیرے لئے ہمیشہ خیر مانگتی رہتی ہوں۔ یہ سن کر کرم دین کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں اس نے جلدی سے چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا کہ دیکھ بہن تجھے کتنی بار کہا ہے کہ ایسی باتیں نہ کیا کر، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ تو میری بہنوں کی طرح ہے اور تیری بیٹیاں مجھے اپنے بیٹیوں کی طرح ہی عزیز ہیں۔ اچھا میں اب چلتا ہوں، مجھے اور گھروں میں بھی انکا حصہ پہنچانا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اس خاتون کا جواب سنے بغیر سائیکل پہ بیٹھا اور جلدی سے آگے بڑھ گیا۔

یہ حاکم علی مالی کا گھر تھا اور یہ خاتون حاکم علی کی بیوہ تھی۔ کرم دین چوکیدار اور حاکم علی مالی ایک بہت بڑے سیٹھ کے بنگلے پہ کام کرتے تھے۔ دونوں میں اگرچہ کچھ خاص تعلق نہیں تھا، بس اچھی سلام دعا تھی اور روز آتے جاتے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھ لیتے تھے۔ دونوں میں غریبی کے علاوہ ایک بات یہ بھی مشترک تھی کہ دونوں کی چار چار بیٹیاں ہی تھیں، بیٹا کوئی نہیں تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ حاکم علی کام پہ نہ آیا، یوں تو وہ پہلے بھی کئی بار چھٹی کر لیا کرتا تھا، مگر آج شاید سیٹھ صاحب کے کچھ مہمان آنے تھے اس لئے انہوں نے کرم دین کو اسکا پتا کرنے کے لئے اس کے گھر بھیج دیا۔ کرم دین وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس کے گھر تو گویا قیامت صغریٰ برپا تھی، حاکم علی کی بیوی اور بیٹیاں دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھیں۔ حاکم علی رات سویا تو صبح اٹھا ہی نہیں۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو اس دنیا کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے سو چکا تھا۔
کرم دین بےچارہ خود بھی بہت غریب آدمی تھا اور بال بچے دار بھی، مگر اس دن سے ہر چھوٹی بڑی عید پہ جتنا ہو سکتا تھا، ان کے لئے کوئی نہ کوئی چیز اور گوشت پہنچا دیا کرتا تھا۔ کرم دین جب پہلی بار ان کے ہاں گوشت لے کر آیا، تو حاکم علی کی بیوی نے روتے ہوئے کہا کہ کرم دین! اللہ تیرا بھلا کرے، آج میرے بچے ڈیڑھ دو سال بعد پہلی بار گوشت کھائیں گے۔ بس یہ جملہ سننا تھا کہ اس کے دل پہ خنجر سے چل کے رہ گئے۔ بس وہ دن تھا اور آج کا دن کہ وہ ان کے ساتھ ساتھ ایسے چار پانچ اور گھروں کی بھی وقتاً فوقتاً مدد کرتا رہتا تھا۔

باقی گھروں میں بھی گوشت کی تھیلیاں پہنچا کر وہ واپس پلٹا، تو کافی دیر ہو چکی تھی اس نے سائیکل موڑی اور اپنے گھر کی راہ پکڑ لی۔ جیسے جیسے اس کا گھر نزدیک آ رہا تھا اس کے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات بڑھتے جا رہے تھے۔ رستے میں ایک جگہ ایک نلکے پہ رک کر اس نے سائیکل صاف کرنے والا کپڑا بھگو کر ہینڈل پہ لگے گوشت اور خون کے نشانات کو صاف کیا، وہ شاید یہ نشانات اپنے گھر والوں سے چھپانا چاہتا تھا اور پھر وہ دوبارہ اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
یہ اس کا ہر سال کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے اپنے پرانے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھنے اپنی کچی بستی سے بہت دور شہر کے سب سے بڑے محلے میں جاتا اور عید کی نماز کے بعد لوگوں کے گھروں سے گوشت جمع کرنا شروع کر دیتا۔ گو کہ وہ ذاتی طور پہ بہت خوددار انسان تھا، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اس کے لئے مر جانے کے برابر تھا، مگر حاکم علی کی بیوہ اور یتیم بچیوں کی خاطر وہ یہ کام بھی کر گزرتا۔ وہ دوپہر تک گوشت جمع کرتا اور دوپہر کے بعد ان گھروں میں جا کے دے آتا اور وہ لوگ یہی سمجھتے کہ شاید کرم دین کی اپنی قربانی ہوتی ہے۔
اور واقعی یہ کرم دین کی قربانی ہی تھی۔ وہ اپنی عزت نفس اور خودداری کے گلے پہ چھری پھیر کر ہی ان کے لئے لوگوں کے سامنے دامن پھیلا کر گوشت اکٹھا کیا کرتا تھا اور ظاہر ہے اس کے لئے اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوسکتی تھی۔
سال سال بعد کرم دین کی بدولت گوشت کا منہ دیکھنے والے یہ کب جانتے تھے کہ خود کرم دین کے گھر سال کے بعد بھی گوشت نہیں پکتا۔ کئی بار کرم دین کے جی میں آیا بھی کہ وہ ایک آدھ تھیلی اپنے گھر بھی لے جائے، مگر ہر بار اس کا ضمیر اسکے آڑے آ جاتا
‏اور اپنے بچوں کو یہ گوشت چاہتے ہوئے بھی نہ کھلا پاتا۔

کرم دین کی بستی قریب آ چکی تھی اس نے اپنی آنکھوں کی نمی کو لوگوں سے نظریں بچا کر صاف کیا اور اپنے درد و الم کو چہرے کے مصنوعی تاثرات سے چھپانے کی کوشش کرتا ہوا اپنی گلی میں مڑ گیا۔ اب اس کے سامنے اس کے اپنے گھر کا دروازہ موجود تھا جس کے اس پار غربت و افلاس کا لبادہ اوڑھے اس کی بیوی اور بیٹیاں اس کی منتظر تھیں۔
کرم دین نے کچھ لمحے توقف کر کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کی چھوٹی بیٹی نے دروازے کی درز میں سے اپنے باپ کو دیکھ کر دروازہ کھول دیا۔ کرم دین سر جھکائے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس نے اسی طرح اونچی آواز میں سب کو سلام کر کے سر اٹھایا تو دیکھ کے حیران رہ گیا کہ اس کے صحن کے بیچوں بیچ کھانے پکانے کے سامان کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور ساتھ ہی ایک تھیلے میں اچھا خاصا گوشت بھی پڑا ہوا ہے۔
کرم دین نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا؟ اسکی بیوی بولی کہ ایک بہت بڑی گاڑی میں کوئی بڑا آدمی آیا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ وہ آپ کو جانتا ہے اور ساتھ میں ایک چٹھی بھی دے کر گیا ہے۔ میں نے سامان تو اس کے اصرار پہ رکھ لیا، مگر اب آپ کے انتظار میں ہی تھی اور ساتھ ہی ایک لفافہ کرم دین کی طرف بڑھا دیا۔ کرم دین نے جلدی سے لفافہ کھولا اور اس میں موجود چٹھی پڑھنے لگ گیا
سلام دعا کے بعد لکھا تھا کہ۔۔۔
یار کرمے میں تجھے ایک عام سا بندہ سمجھتا رہا، مگر تو تو بہت بڑا آدمی نکلا، اتنا بڑا کہ تیرے سامنے مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا ہے۔ مجھے تیرے بارے میں کچھ باتیں کہیں سے پتا چلیں تھیں۔ پھر میں نے سارا دن تیرا پیچھا کیا اور حاکم علی کے گھر تک جا پہنچا، وہاں سے مجھے تیرے بارے میں باقی سب پتا چل گیا اور جب تیرے گھر آیا تو پتا چلا کہ تیرے اپنے گھر کے حالات بھی بالکل انہی لوگوں جیسے ہیں۔
کرمے! یہ کچھ چیزیں عید کا تحفہ سمجھ کر قبول کر لے، تجھے اللہ کا واسطہ انکار نہ کرنا۔ آج سے تیرا اور باقی پانچوں گھروں کا سارا خرچ میرے ذمہ ہوا۔ باقی باتیں شام کو بنگلے پہ کرتے ہیں اور ہاں آج ڈیوٹی پہ ذرا جلدی آ جانا۔
منجانب ''تیرا سیٹھ''

کرم دین کی آنکھوں سے آنسو نکل کر چٹھی کی تحریر بگاڑ رہے تھے اور اسکی زبان پہ بے اختیار جاری تھا۔۔۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ۔“

سنہری الفاظ
06/06/2024

سنہری الفاظ



With Ziaraf Abbasi – I just got recognized as one of their top fans! 🎉
04/06/2024

With Ziaraf Abbasi – I just got recognized as one of their top fans! 🎉

💛 🌷  💘
01/06/2024

💛 🌷 💘











.
31/05/2024

.


31/05/2024

ایک شعر کی گزارش ☺️

💕⎯͢⎯⃝🩷 Today's the best Photo 🌿💜🌺∙──༅༎﷽༎༅──∙🌺                                  
30/05/2024

💕⎯͢⎯⃝🩷 Today's the best Photo 🌿💜

🌺∙──༅༎﷽༎༅──∙🌺


























ایک عورت نے مصور سے اپنا پوٹریٹ بنوایا۔پھر کچھ سوچ کر مصور کو کہا کہ گلے میں نو لکھا ہار بھی بنادو۔ تصویر بننے کے بعد مص...
29/05/2024

ایک عورت نے مصور سے اپنا پوٹریٹ بنوایا۔پھر کچھ سوچ کر مصور کو کہا کہ گلے میں نو لکھا ہار بھی بنادو۔
تصویر بننے کے بعد مصور نے پوچھا
" آپ نے ایسا کیوں کیا ؟
عورت : اگر میں مر گئی، تو یہ دوسری شادی کر لیں گے،
نئی والی آئے گی تو یہ ہار ڈھونڈے گی۔
اور جب یہ ہار نہیں ملے گا تو ان میں جھگڑا ہوگا '
تب میری روح کو بہت سکون ملے گا !!!

میں آج ایک حدیث کی تشریح کرنے والا ہوں۔اس کام کے لیے علمإ موجود ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں حدیث کی تشریح اس تصویر سے کرنے والا ہ...
29/05/2024

میں آج ایک حدیث کی تشریح کرنے والا ہوں۔اس کام کے لیے علمإ موجود ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں حدیث کی تشریح اس تصویر سے کرنے والا ہوں۔۔سہل بن سعد الساعدی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ نے فرمایا، اگر دنیا اللّٰہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت رکھتی تو وہ کا۔ف۔ر کو اس سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا"۔

اس حدیث میں "اللّٰہﷻ" کے ہاں دنیا کی حقارت کو بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر اللّٰہ کے ہاں اس کی تھوڑی سی بھی قیمت ہوتی،،،،تو کا۔ف۔ر کو اس سے ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔اسی لیے دنیا اللّٰہ کے ہاں حقیر ہے۔۔۔۔۔لہٰذا اھلِ ایمان پر "لازم" ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کو پہچانیں اور اسکی طرف مائل نہ ہوں۔اگر آپ مر گٸے تو دنیا پر کچھ نہ کچھ فرق پڑے گا۔۔.۔۔۔۔۔۔اگر آپ نے سمندر سے ایک کلاس پانی پی لیا،، تو سمندر کے حجم پر کچھ نہ کچھ فرق پڑے گا۔ اگر زمین سے ایک ریت کا ذرہ نکال دیں،تو زمین کے ماس پر کچھ نہ کچھ فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر کاٸنات سے زمین کو نکال باہر کردیں، تو کاٸنات پر کوٸی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ کاٸنات کا ڈایا میٹر 93 بلین نوری سال ہے دنیا کی سب سے تیر رفتار "پارٹیکلز" یہ "فاصلہ" طے کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔۔۔فوٹانز یہ فاصلہ طے کرتے وقت ہزار دفعہ سوچتے ہوں گے۔۔۔۔ کیوں کہ 93 ارب نوری سال کوٸی معمولی فاصلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ اگر اس وقت کاٸنات کے کنارے پر کچھ بھی غیر معمولی ہوا،، تو اتنی ایڈونس ٹیکنالوجی کے باوجود بھی ہم کو 93 ارب سال تک پتا نہیں چلے گا۔۔۔اس وقت ہماری زمین شاید ختم ہوچکی ہوگی۔

زمین کی یہ تصویر ناسا کے کیوروسٹی روور سے لی گٸی ہے اس وقت مریخ پر ناسا کی ٹیکنالوجی موجود ہے،، جس میں ایک کیوروسٹی روور نامی اسپیس گاڑی بھی ہے۔۔ یہ تصویر مریخ کی سطح سے لی گٸی ہے۔۔۔۔ کیوروسٹی روور 6 اگست 2013 کو سرخ سیارے یعنی "مریخ" پر اترا۔۔ مریخ پر بھیجا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا اور جدید ترین روور ہے۔۔ یہ مریخ پر اپنے اردگرد کے "ماحول" کا مطالعہ کرتا ہے۔۔ ناسا نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ روور کو ماضی کے ماحول کے شواہد بھی ملے ہیں۔

محققین نے مریخ پر روور کے کام کے 529 ویں مریخ کے دن غروب آفتاب کے تقریباً 80 منٹ بعد اس منظر کو اپنے کمرے میں محفوظ کیا تھا۔۔۔ کیوروسٹی روور پر ایک ماسٹ کیمرہ
لگا ہے جو 24 گھنٹے ایکٹیو ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کیوروسٹی روور نے اپنی اس کیمرے سے "مریخ" کی سطح کی "بےشمار" تصاویر ہمارے ساتھ شٸیر کی ہیں۔چونکہ زمین پر سورج کی روشنی پڑرہی ہے۔۔ اس وجہ سے زمین کی اس تصویر پر روشنی کی شعاعوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کریپ کیا گیا۔۔ کیونکہ روور کا کیمرہ زیادہ زوم آوٹ نہیں کرسکتا۔اگر کوٸی شخص مریخ پر کھڑا ہو، تو وہ شخص زمین اور چاند کو شام کے دو الگ الگ روشن ستاروں کے طور پر آسانی سے دیکھ سکتا ہے

جب کیورُسٹی روور زمین کی یہ تصویر لے رہی تھی، تو اس وقت زمین مریخ سے تقریبا 160 ملین کلومیٹر دور تھی،، یہ
تصویر دور سے سیارے زمین کی تصاویر کے ہمارے مجموعے میں اضافہ کرتی ہے زمین کی اس تصویر کو دیکھ کر واقعی ایسا لگتا ہے،، کہ کاٸنات "Universe" کے مالک کے ہاں ہماری زمین کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے، کیونکہ اس تصویر میں آپ خود زمین کی اوقات دیکھ سکتے ہیں۔۔!

Address

Shorkot
35050

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

+923035530061

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muhammad Usman posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Muhammad Usman:

Videos

Share


Other Digital creator in Shorkot

Show All