The Knowledge Home

The Knowledge Home Our aims is to explore knowledge. The Knowledge Home explore knowledge.

20/12/2023

😭😭😭

17/12/2023
14/08/2023

طنز و مزاح سے بھرپور ایک سبق آموز تحریر__❤️♥️
ایک دُور دراز کے گاؤں میں ایک سیاستدان کی تقریر تھی😅😅
300 کلو میٹر ٹُوٹی پُھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد جب وہ تقریر کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ صرف ایک کسان انکی تقریر سُننے کے لئے بیٹھا ہُوا تھا

اس اکیلے شخص کو دیکھ کر سیاستدان کو سخت مایوسی ہُوئی، اور نہایت افسردہ انداز میں کہنے لگے،
بھائی آپ تو صرف اکیلے آدمی آئے ہو، سمجھ میں نہیں آتا کہ اب میں تقریر کروں یا نہیں-"،؟

کسان بولا، صاحب میرے گھر پر بیس(۲۰) گدھے ہیں
اگر میں ان کو چارہ ڈالنے جاؤں، اور دیکھوں کہ وہاں صرف ایک گدھا ہے، اور باقی دوڑ گئے ہیں، تو کیا میں اس ایک گدھے کو بھی چارہ نہ ڈالوں،؟ اور اسے بھی بُھوکا مار دوں؟؟

کسان کا بہترین جواب سُن کر سیاستدان بہت خُوش ہُوا، اور ڈائس پر جا کر اس اکیلے کسان کے لئے دو(۲) گھنٹے تک پُرجوش انداز میں تقریر کرتا رہا۔🤣

تقریر ختم کرنے کے بعد، وہ ڈائس سے اُتر کر سیدھا کسان کے پاس آیا اور بولا،
تُمہاری گدھے والی مثال مجھے بہت پسند آئی،، اب تُم بتاؤ، تُمہیں میری تقریر کیسی لگی؟😁
کسان بولا،، صاحب، اُنیس(۱۹) گدھوں کی غیر موجودگی کا یہ مطلب تو نہیں کہ بِیس(۲۰) گدھوں کا چارہ، ایک گدھے کے آگے ڈال دِیا جائے۔۔۔!!!!
😂😂😂😂😂😂
منقول

14/08/2023

میں جب تین سال کا تھا۔تو ٹھٹھرتی سردی میں ایک دن دادا نے سکول میں داخل کروا کر عمر پانچ سال لکھوا دی۔کہ سرکاری سکول میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ جب کہ میرا یار جمعہ گُل اپنی اماں کی گرم گود میں بیٹھ کر چائے پراٹھے ٹھونستا رہا۔

میں ٹاٹ پر بیٹھ کر صبح سے دُوپہر تک الف سے اللہ اور ب سے بکری کے راگ الاپتا رہا۔اور جُمعہ گُل گلے میں غلیل ڈال کر گاؤں کے درختوں میں پرندے مارتا رہا۔ ہم سارا سارا دن اُستاد رحیم گل کی سوٹیاں اپنی پشت پر کھاتے رہے، تاکہ کل کو مُعاشرے میں ایک مقام بنا سکیں۔اور جُمعہ گُل اپنے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر گاؤں کے میلے لُوٹتا رہا۔

ہم سکول سے چُھٹی ہونے کے بعد گندم کی کٹائیوں میں اماں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔اور جُمعہ گُل کھیت کی مُنڈیر پر بیٹھ کر جوانی کے گیت گاتا رہا۔
ہم جب آنسو بھری آنکھوں سے جُمعہ گل کی طرف دیکھتے۔تو دل کا حال جان کر اماں بولتیں۔بیٹا تم ایک دن بڑا افسر بنے گا اور جُمعہ گل جیسے لوگ تیرے نوکر بنیں گے۔

سکول سے کالج،کالج سے یونیورسٹی ہماری قسمت میں صرف کتابوں کا ڈھیر چاٹنا رہ گیا۔جب کہ جُمعہ گُل گاؤں کا لُچا لفنگا بن کر جوانی کے مزے لُوٹتا رہا۔ اِدھر ہم نے پی ایچ ڈی تھیسز جمع کروا کر گویا علامہ بننے کی ٹھان لی۔ تو اُدھر گاؤں میں جُمعہ گُل نے بغل سے پستول کا ہولسٹر ہٹا کر کندھے پر کلاشنکوف رکھنی شروع کردی۔ پھر ہم نے پیچھے کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔ کہاں کا جُمعہ گُل اور کہاں میں۔

ہم بقول اماں کے واقعی افسر بن گئے۔اور گاؤں سے اپنا ناطہ ٹوٹ گیا۔ اپنی افسری، شہری بیوی اور بچوں میں ایسا کھو گئے۔کہ یاد بھی نہیں رہتا تھا، کہ جُمعہ گُل کیا کررہا ہوگا۔ اماں کی باقی ساری باتیں بالکل سچ ثابت ہوچُکی تھی۔بس کبھی کبھار اُن کی یہ بات دل کے دروازے پر دستک دے کر بےچین کر دیتی۔کہ جُمعہ گُل تمہارا نوکر بنے گا۔ شائد اماں کی بات سے زیادہ یہ خود کی ایک خواہش تھی۔جو شعور سے لاشعور تک کا فاصلہ پاٹتے ہوئے تحت الشعور میں پنجے جا گاڑ بیٹھی تھی۔اور پھر میں کیمبرج میں پڑھتے اپنے بچوں کو ہر وقت یہی راگ سُنانے لگتا۔کہ بیٹا میری طرح بنو،جُمعہ گُل مت بنو۔میرے بچے مجھ سے پوچھتے کہ پاپا ہُو اِز جمعہ گل؟

اور میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا،کہ میرا نوکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالوں بعد گاؤں جانا ہوا۔ بیوی بچے ساتھ تھے۔ گاؤں بھی پھیل کر جیسے چھوٹا سا شہر بن گیا ہو۔ کافی لوگ اب اجنبی تھے میرے لئے۔ ایک دن پیغام آیا کہ جُمعہ گُل نامی بندے نے اہلِ خانہ سمیت دعوت پر بُلایا ہے۔ میرے اندر ایک کمینی سی خوشی در آئی۔کہ جُمعہ گُل کو دکھاؤں گا کہ پڑھائی لکھائی اور اُستاد رحیم داد کی سوٹیوں نے مُجھے کہاں سے کہاں تک پُہنچا دیا ۔اور وہ سدا کا لُچا لفنگا آج بھی دو وقت کی روٹی کے لئے مر رہا ہے۔ بیگم کو تاکید کی کہ پانچ ہزار اس کی بیوی کو تھما دینا۔رات کو اپنی 4000 سی سی گاڑی میں بیٹھ کر جُمعہ گُل کے گھر پُہنچا۔تو سناٹے میں آگیا۔شہر میں تین سو گز بنگلے والا افسر چار ہزار گز وسیع بنگلے کو دیکھ کر حیرت سے دانتوں میں اُنگلی دبائے رہ گیا۔جس پر "جُمعہ گُل پیلس" کا نیم پلیٹ اُس کا مُنہ چڑھا رہا تھا۔ بنگلے کے اندر چار وی ایٹ لینڈ کروزرز ایک شان سے کھڑی تھیں۔ واسکٹ پہنے جُمعہ گُل گرمجوشی سے آگے بڑھ کر میرے گلے لگ گیا۔کہ ڈاکٹر صاب بڑے آدمی بن گئے۔بُھول گئے ہم جیسے غریب اور ان پڑھوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بیوی اور بچے مُنہ کھولے حیرانگی سے بنگلے کو دیکھ رہے تھے۔ اور جُمعہ گُل بتا رہا تھا،کہ اماں کی دعاؤں سے وہ آج پاکستان کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹر بن گیا ہے۔ اچانک میرے بیٹے نے انگریزی میں مُجھ سے پُوچھا کہ بابا یہ وہی جُمعہ گُل ہے جو آپ کا نوکر بن رہا تھا؟میری خاموشی پر چھوٹے والے بیٹے نے انگریزی میں کہا

۔پاپا میں بھی جُمعہ گُل بنوں گا۔ ۔“😀

منقول

15/05/2023
پاکستان کو ویسے تو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیاں اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسلہء ہے۔ا...
12/02/2023

پاکستان کو ویسے تو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیاں اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسلہء ہے۔
اور پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں بھی شامل ہے جن کو قدرتی آفات کے خطرے کا سامنا ہے۔
پاکستان میں آنے والے پچھلے سال کے خولناک سیلاب کو ہی دیکھ لیں جس میں لاکھوں لوگ اپنے گھر بار اور مال مویشیوں سے محروم ہوئے اور ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے گئے۔
محتلف رپورٹس کے مطابق پاکستان کو تقریباً 30 ارب ڈالرز کا نقصان اس سیلاب سے پہنچا۔
پاکستان پہلے بھی کئی قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے جیسے کے خوفناک زلزلے، سیلاب، خشک سالی وغیرہ
لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ پاکستان کو اس بار بیک وقت کئی قدرتی آفات کا خطرہ ہے جن میں گلیشیر کا پگھلنا، سیلاب، خشک سالی، ہیٹ ویوز، ٹڈی دل، قحط وغیرہ۔
لیکن قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہماری عوام میں بہت کم شعور پایا جاتا ہے، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے یہاں اکیلی حکومت ان آفات سے نہیں نمٹ سکتی اس کے لیے عام عوام کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم قدرتی آفات کو روک تو نہیں سکتے لیکن کچھ اقدامات کر کے ذیادہ نقصانات سے بچ سکتے ہیں
🔴 جیسا کہ ہمارا جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہے اس کو بڑھانے کے لیے جنگی بنیادوں پر اربوں درخت لگانے کی ضرورت ہے،

🔴 یہ بھی سچ ہے کہ ہم اس وقت فالٹ لائنز کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے اس کے لیے ہمیں اپنا گھروں اور عمارتوں کا اسٹرکچر ایسا بنانے چاہیے کہ وہ زلزلوں کو برداشت کر سکیں خاص کر گنجان آباد علاقوں میں زلزلے کی تباہی زیادہ ہوتی ہے

🔴 موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں ہمیں شدید گرمی کا سامنا ہے وہی ہمارا پانی کا لیول تیزی سے نیچے جا رہا ہے، دریا خشک ہو رہے ہیں اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چھوٹے ، بڑے ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔

🔴 موسمیاتی تبدیلیوں کی ہی وجہ سے ہماری زراعت اس وقت مشکلات میں ہے
ہمیں ٹنل فارمنگ اور ہوم گارڈننگ کی طرف آنا پڑے گا تاکہ ہم اناج کے بحران سے بچ سکیں۔

🔴 اہم چیز جو کرنے والی ہے وہ یہ کہ حکومتوں کے آسرے کر بیٹھے رہنے کی بجائے ہمیں یونین کونسل کی سطح پر ایسی ٹیمیں بنانی چاہیے جو قدرتی آفات آنے پر اپنے علاقے میں لوگوں کو فوراً ریسکیو کریں، ہائی سکول کالجز کے طلباء، طالبات کو رضاکارانہ طور پر 1122 کی طرز پر ٹریننگ دینی چاہیے۔

🔴 یونین کونسل کی سطح پر ہی مخیر حضرات ایک فنڈ قائم کریں جو کے قدرتی آفات کے دوران لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال ہو۔
پاکستان زندہ باد۔

12/02/2023

کیا ترکی میں زلزلہ کسی دوسرے ملک نے کیا ۔ کیا امریکہ کے ہارپ پروجیکٹ سے یہ زلزلہ پیدا ھوا۔ ائے دیکھتے ھیں۔

ہارپ پوجیکٹ میں جو ریڈیو ٹرانسمیٹر استعمال ھوئے وہ 930 کلو واٹ یعنی 0.93 میگا واٹ بجلی استعمال کرتے تھے۔
ترکی میں انے والے زلزلہ 7.8 مقدار کا تھا۔
جس میں 32 peta jouls توانائ پیدا ھوئ۔
یعنی 8،888،888 میگا واٹ فی گھنٹہ انرجی۔
اگر کوئ انسان یہ سمجھتا ھے کہ ایک میگا واٹ انرجی سے 8،888،888 میگا واٹ انرجی پیدا کی جا سکتی ھے۔ تو اس پر ماتم ھی کیا جا سکتا ھے۔
اگر ریڈیو ٹرانسمیٹر سے زلرلہ پیدا ھوتا تو دنیا میں ھر ریڈیو سٹیشن کے قریب رھنے والوں کو ھلکا سا زلزلہ محسوس ھوتا۔ لیکن ایسا ممکن نہی۔ کچھ افراد یہ بھی کہتے ھیں کہ ھارپ سے بارشیں ، سیلاب ، آسمانی بجلی اور زلزلے سمیت بہت سے موسمیاتی افات پیدا کی جا سکتی ھیں۔ اس پر یقین کرنا ایسا ھی ھے جیسا کہ حکیم اپکو بتائے کہ اسکی پھکی کو کھانے سے اپکے سر سے لے کر پاؤں تک ساری بیماریوں کا علاج ھو سکتا ھے۔ اور بہت سے افراد یقین بھی کر لیتے ھیں۔

تو کیا زلزلہ پیدا کرنا نا ممکن ھے ۔ نہی بلکہ عین ممکن ھے
اب زلزلہ پیدا کرنے کے سائنسی طریقہ پر غور کرتے ھیں۔۔
اتنا بڑا زلزلہ پیدا کرنے کیلیے 8 ملین ٹن بارود درکار ھے۔ اگر اس میں بعد میں انے والےبڑے زلزلے 7.5 اور 6.7 بھی شامل کریں تو اپکو 15 میگا ٹن بارود چاھیے۔
اسکا مطلب یہ ھوا کہ ترکی میں زلزلہ پیدا کرنے کیلیے 1000 ہیروشیما جتنے ایٹم بم چلانے پڑے گے۔ لیکن امریکہ 15 میگا ٹن کا دھماکہ bravo اور روس 50 میگا ٹن کا دھماکہ tsara bomba کر چکا ھے۔
ترکی میں بڑا زلزلہ 7.8 کی گہرائ 18 کلومیڑ تھی۔ جو کہ کم گہرا زلزلہ تھا۔ جبکہ انسان ابھی تک صرف 12 کلو میٹر گہرائ تک کھدائ کر سکا ھے۔
اگر ترکی کا کوئ دشمن ملک ترکی میں زلزلہ کرنا چاھے تو اسکو مطلوبہ مقام زمین میں 18 کلومیڑ کھدائ کرنی پڑے گی۔ پھر اس میں 15 میگا ٹن طاقت کا ایٹم بم ڈال کر چلانا پڑے گا۔ اس کام کیلیے بھاری مشینری چاھیے جو کہ ترکی کی حکومت اور عوام کی نطروں سے چھپ نہی سکتی۔
کھدائ کے علاوہ کسی دوسرے ملک سے زیر زمین سرنگ بنا کر مطلوبہ مقام پر دھماکہ کیا جا سکتا ھے۔ لیکن اس کیلیے ھزاروں کلومیٹر لمبی سرنگ کھودنی پڑے گی۔ اور بھی 18 کلومیڑ گہرائ تک۔ دنیا کی سب سے بڑی سرنگ Gotthard Base Tunne ھے۔ جو کہ 57 کلومیٹر لمبی ھے۔ اور 2.3 کلومیٹر گہری ھے۔ یہ پہاڑ میں بنائ گئ ھے۔ لیکن سرنگ کو 18 کلومیڑ گہرائ تک لے جانا موجودہ ٹیکنالوجی سے ناممکن ھے.

چینی کھاتی قوم!!پاکستان میں سالانہ فی کس 25 کلوگرام چینی کھاتا ہے۔ اتنی چینی کھانے کے باوجود مجال ہے کہ لہجے اور باتوں م...
04/02/2023

چینی کھاتی قوم!!

پاکستان میں سالانہ فی کس 25 کلوگرام چینی کھاتا ہے۔ اتنی چینی کھانے کے باوجود مجال ہے کہ لہجے اور باتوں میں کوئی مٹھاس پیدا ہوتی ہو۔ 2023 تک پاکستان میں چینی کی کھپت 7.2 ملین میٹرک ٹن تک ہو جائے گی جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں 3 فیصد زیادہ ہو گی۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک جیسے کہ بھارت کے مقابلے(تقریباً 20 کلوگرام فی کس سالانہ) میں پاکستانی زیادہ چینی کھاتے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق صحت مند زندگی گزارنے کے لیے دن میں چینی کی زیادہ سے زیادہ مقدار 5 چائے کے چمچ اور خوراک میں سبزیاں اور پھل 300 گرام
تک ہونے چاہئے تاہم پاکستان میں ان سب کا اُلٹ چل رہا ہے۔
پاکستان میں فی کس روزانہ 16 چائے کے چمچ چینی کھاتا ہے جبکہ سبزیاں اور پھل سو گرام سے بھی کم۔ اس سب سے کیا ہوتا ہے؟ انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص ذیابیطس کا شکار ہے جسکی بڑی وجوہات میں سے ایک چینی کا زائد استعمال بھی بتایا جاتا ہے۔ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں آبادی اور تیار کھانوں کی مصنوعات میں اضافےکے باعث چینی کی کھپت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں چینی کی پیداوار کھپت کو پورا نہیں کر پاتی اور باہر سے چینی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ 2021 کے حکومتی اعداو شمار کے مطابق پاکستان نے تقریباً 15 کروڑ ڈالر کی چینی برآمد کی اور اُسی سال 25 کروڑ ڈالر کی چینی اور چینی کی مصنوعات دوبارہ درآمد کی۔ گویا 10 کروڑ ڈالر کی اضافی چینی امپورٹ کی گئی۔

پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے اٹرات سے گزر رہا ہے اور آنے والے سالوں میں زیرِ کاشت رقبے میں کمی اور پانی کی قلت کے باعث یہاں خوراک کی غیر یقینی صورتحال متوقع ہے۔ اس وقت کاشت ہونے والے گنے کی فصل کا ایک بڑا حصہ چینی کی پیداوار میں استعمال ہو رہا ہے۔ ملک کے کل زیر کاشت رقبے میں 1 ملین ہیکٹرز گنے کی کاشت کے لیے وقف ہے۔جبکہ گنے کی فصل آبپاشی کے لیے استعمال ہونے والے پانی کا تقریباً 10 فیصد حصہ استعمال کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دیگر فصلیں خاص کر کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے جسکے باعث کسان زیادہ ہانی استعمال کرنے والی گنے کی فصل لگانے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں فی ایکڑ گنے کی پیداوار بھارت سے بھی کم ہے۔ یہاں ہر ایک ہیکٹر پر اوسط 46 ٹن گنا اُگتا ہے جو دنیا کی اوسط یعنی 60 ٹن فی ہیکٹر سے کافی کم ہے۔ (

21/01/2023

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پڑھے لکھے افراد روزمرہ کے درپیش مسائل سے واقف ہونے کے باوجود یہ نہیں جانتے کہ انکے مسائل سے کس طرح نمٹا جائے اور جہاں درخواست یا بیان حلفی کی ضرورت ہو وہ کس طرح لکھی جائے، اور مختلف لین دین اور دیگر خرید و فروخت، نکاح و شادی کی دستاویزات اور دیگر درخواستیں کس طرح لکھی جائیں، اس لیے شہریوں کی آگاہی کے لیے ہم نے کلید وثیقہ نویسی و عرائض نویسی پر مفصل اردوکتاب لکھی ہے جس میں ہر قسم کی درخواستیں بشمول،مختار نامے، کرایہ نامہ،اقرار نامہ بیع نامہ ، معاہدہ جات ،پولیس کو درخواست لکھنے کا طریقہ کار ،طلاق نامہ ،وصیت نامہ ،اقرار نامہ فروختگی ،ہبہ نامہ ،ٹرانسفر ڈیڈ ،رجسٹری ،ایگریمنٹ ،کنٹریکٹ، ریسد پرونوٹ ،اقرار نامہ شادی اور بیان حلفی وغیرہ لکھنے کا طریقہ کار درج ہے
یہ کتاب پڑھے لکھے ہر شخص کی ضرورت ہے ۔
اس کتاب کے قیمت ڈیلیوری چارجز کے ساتھ ٹوٹل 1000 روپے ہے ،کتاب بذریعہ ڈاک منگوانے کے لیے اپنا مکمل پتہ معہ نام اور فون نمبر انباکس کریں یا واٹس ایپ کریں
03350012323
WhatsApp app direct link without saving number 👇👇👇👇
https://wa.me/message/HD3NJV7TSCJHB1

14/01/2023

سلام کیسے اور کس کو کرنا چاہیے

(1)چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری:921/2،قدیمی)
(2)سوار پیدل کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری:921/2،قدیمی)
(3)کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ (صحیح بخاری:921/2،قدیمی)
(4)چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری:921/2،قدیمی)
(5)اتنی آواز سے سلام کرے کہ دوسرا سن لے۔ اور جواب بھی اتنی آواز سے دے کہ سلام کرنے والا سن لے۔
(شمائل کبری:511/4، زمزم پبلشرز)
(6)اگر کسی مجلس میں آئے اور مجلس میں کوئی خاص گفتگو ہو رہی ہو تو جہراً (بلند آواز سے) سلام نہیں کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت:40،العلم)
(7)جھک کر سلام نہیں کرنا چاہیے۔(آداب المعاشرت:44،مکتبۃ العلم)
(8)اجنبی مرد اجنبی عورتوں کواور اجنبی عورتیں اجنبی مردوں کو سلام نہ کریں۔ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی:83،دارالکتاب)
(9)سلام ہر مسلمان کو کرناچاہیے، خواہ اُسے پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ (صحیح بخاری:921/2،قدیمی)
(10)تلاوت، ذکر، وظیفہ وغیرہ میں مشغول شخص کو سلام نہ کر نا چاہیے۔ (جامع الفتاوی: 313/3،تالیفات اشرفیہ)
(11)علمی مشغلہ میں مصروف شخص کو سلام نہ کرنا چاہیے۔ (جامع الفتاوی: 313/3،تالیفات اشرفیہ)
(12)اگر کوئی سونے کے لیے لیٹاہو تو اتنی آواز سے سلام کیا جائے کہ اگر وہ جاگ رہا ہو تو جواب دے دے اور اگر سو رہا ہو تو بیدار نہ ہو۔ (جامع ترمذی: 96/2،فاروقی )
(13)اذان کے دوران سلام نہ کرنا چاہیے۔ (جامع الفتاوی: 313/3،تالیفات اشرفیہ)
(14)جب مسجد میں آئے اور لوگ ذکر وغیرہ میں مشغول ہوں تو سلام نہ کرنا چاہیے۔ (امداد الفتاوی: 278/4، دارالعلوم)

واللہ اعلم بالصواب

05/01/2023


Epicenter: Hindu Kush Region
Intensity:5.5
Depth:191km

تصویر میں جس جانور کو آپ دیکھ رہے ہیں اس کو پنجابی میں "سھ" اور انگلش میں  Porcupine کہتے ہیں ۔یہ ایک سبزی خور جانور ہے ...
27/12/2022

تصویر میں جس جانور کو آپ دیکھ رہے ہیں اس کو پنجابی میں "سھ" اور انگلش میں Porcupine کہتے ہیں ۔یہ ایک سبزی خور جانور ہے اور فصلوں میں رہتا ہے۔ یہ شکاری (predatory) نہیں ہے ۔ کسی پہ حملہ نہیں کرتا ۔ فطری طور پر ایک مسکین اور عاجز مخلوق ہے۔ لیکن اس پر ہر شکاری جانور حملہ کرتا ہے۔ کتے سے لیکر لومڑی تک اور چیتے سے لیکر ریچھ تک سبھی اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔کوئی اس پر گھات لگا کر حملہ کرتا ہے تو کوی سامنے سے دلیری کے ساتھ ۔ شکاری جانور طرح طرح کی حکمت عملی اور چالیں استعمال کرتے ہیں ۔ سھ survival کی جنگ میں ہمیشہ جیتتا ہے ۔ اور اس کی بچاو کی حکمت عملی بہت سیدھی اور سادہ ہوتی ہے ۔ بچاو کیلیے یہ اپنی core strength استعمال کرتا ہے۔ حملے کی صورت میں یہ اپنے کانٹے کھڑے کر لیتا ہے اور chill کرتا ہے۔ حملہ آور جانور کانٹوں سے زخمی اور ذلیل ہو کر چلے جاتے ہیں ۔ اس جانور سے ہم زندگی میں survival کا گر سیکھ سکتے ہیں ۔ جب بھی حالات مشکل ہو جائیں ۔ہر طرف سے تھپیڑے پڑنا شروع ہو جائیں کچھ سمجھ نہ آئے کہ ایسی صورت حال میں کیا کرنا ہے۔ بس چپ کر کے "سھ" بن جائیں ۔ اپنی core strength کو تلاش کریں اور مشکلات کا سامنا کرنے کیلیے استعمال کریں ۔اپنی حکمت عملی اور چال کو سادہ رکھیں ۔

25/12/2022

English Rules
1.
"دا The " اور " دی The"
انگریزی کے جو الفاظ واؤلز (vowels) سے شروع ہ وتے ہیں ان سے پہلے The ہو تو اس کا تلفظ " دی " ہوگا۔
مثلا ً The Earth کو دی ارتھ بولیں گے اور The East کو دی ایسٹ۔
2.
جو جوالفاظ consonents سے شروع ہوتے ہیں ان سے پہلے The ہو تو اس کا تلفظ "دا " ہوگا
مثلا ً The West کو دا ویسٹ بولیں گے اور The Sky کو دا سکاۓ بولیں گے۔
3.
انگریزی حروف تہجی A,E,I,O,U کو واؤلز Vowels کہا جاتا ہے۔ اس کا تلفظ واول wawal نہیں ہے جو ہم میں سے اکثر بولتے ہیں۔
4.
واؤلز کے علاوہ بقیہ تمام حروف consonant کہلاتے
ہیں
10 Golden Rules on Spelling Correction in English Grammar

Rule 1: When the suffix “full” is added to a word, one “ I” is removed.
Faith + full = faithful
Use + full= useful

Rule 2: If the word to which the suffix “full” is added ends in “ll”, one “I” is removed from the word also.
Skill +full = skilful
Will + full= wilful

Rule 3: Words of two or three syllables ending in single vowel + single consonant double the final consonant if the last syllable is stressed.
Eg:
Permit + ed = permitted
Occur + ing =occurring
Control + ed =controlled
Begin + ing = beginning

Rule 4: Consonant ‘L’ is doubled in the words ending in single vowel + “I” before a suffix beginning with a vowel eg.
Signal + ing = signalling
Repel + ent = repellent
Quarrel + ed = quarrelled
Travel + er = traveller

Rule 5 : Words ending in silent “e”, drop the “e” before a suffix beginning with a voweleg.
Hope + ing = hoping
Live + ed = lived
Drive + er = driver
Tire + ing= tiring

Rule 6: If the suffix begins with a consonant “e” is not dropped e.g
Hope + full = hopeful
Sincere + ly= sincerely
But,
True + ly = truly
Nine + th = ninth
Argue + ment = argument

Rule 7: A final “y” following a consonant changes to “i” before a suffix except “ing”. Eg.
Carry + ed = carried
Happy + ly = happily
Marry + age = marriage
Beauty + full = beautiful
But,
Marry + ing = marrying
Carry + ing = carrying

Rule 8: A final “y” following a vowel does not change before a suffix. Eg:
Obey + ed = obeyed
Play + er = player
Pray + ed= prayed

Rule 9:
When the suffix “ous” is added to a word ending in “ce”, “e” is changed to “i”.
Space + ous= spacious
Vice + ous= vicious
Malice + ous = malicious
Grace + ous= gracious

Rule 10:
When the suffix “ing” is added to a word ending in “ie”, “ie” is changed to “y”.
Lie + ing= lying
Die + ing = dying
Tie + ing= tying...

24/12/2022

سردی میں فالج اور ہارٹ اٹیک کی دو بڑی وجوہات ہیں👇🏻
نمبر 1: لوگ سردی میں اکثر پانی نہیں پیتے جس سے جسم میں پانی کم ہوجاتا ہے اور خون جم جاتا ہے۔
نمبر2: سردی میں خون کی رگیں تنگ ہوجاتی ہے۔لہذا سردی کے موسم میں گرم مشروبات اور نیم گرم پانی ذیادہ پئیں
اپنے جسم کو گرم کپڑے،پاجامہ،جرابے،ٹوپی،داستانے چادر کوٹ پہن کر گرم رکھیں۔
بوڑھے افراد اور بچوں کا خصوصی خیال رکھیں۔شکریہ

23/11/2022




10 division 41 district and
become province 1849 and 5 river

7 division and 30 district and
become province 1936 and 4 river

7 division and 36 district and
become province 1901 and river 8

7 division and 36district and
become province 1970 and 7 river

Sharing and caring
director labour

inspector
etc

19/11/2022



1. 𝙋𝘼𝙉 permanent account number.

2. 𝙋𝘿𝙁 - portable document format.

3. 𝙎𝙄𝙈 - Subscriber Identity Module.

4. 𝐀𝐓𝐌 - Automated Teller machine.

7. 𝙒𝙞-𝙁𝙞 - Wireless fidelity.

8. 𝑮𝑶𝑶𝑮𝑳𝑬 - Global Organization Of Oriented Group Language Of Earth.

9. 𝒀𝑨𝑯𝑶𝑶 - Yet Another Hierarchical Officious Oracle.

10. 𝙒𝙄𝙉𝘿𝙊𝙒 - Wide Interactive Network Development for Office work Solution.

11. 𝘾𝙊𝙈𝙋𝙐𝙏𝙀𝙍 - Common Oriented Machine. Particularly United and used under Technical and Educational Research.

12. 𝙑𝙄𝙍𝙐𝙎 - Vital Information Resources Under Siege.

13. 𝙐𝙈𝙏𝙎 - Universal Mobile Telecommunicati ons System.

14. 𝘼𝙈𝙊𝙇𝙀𝘿 - Active-matrix organic light-emitting diode.

15. 𝙊𝙇𝙀𝘿 - Organic light-emitting diode.

16. 𝙄𝙈𝙀𝙄 - International Mobile Equipment Identity.

17. 𝙀𝙎𝙉 - Electronic Serial Number.

18. 𝙐𝙋𝙎 - Uninterruptible power supply.

19. 𝙃𝘿𝙈𝙄 - High-Definition Multimedia Interface.

20. 𝙑𝙋𝙉 - Virtual private network.

21. 𝗔𝗣𝗡 - Access Point Name.

22. 𝙇𝙀𝘿 - Light emitting diode.

23. 𝗗𝗟𝗡𝗔 - Digital Living Network Alliance.
24. 𝗥𝗔𝗠 - Random access memory.

25. 𝙍𝙊𝙈 - Read only memory.

26. 𝙑𝙂𝘼 - Video Graphics Array.

27. 𝗤𝗩𝗚𝗔 - Quarter Video Graphics Array.

28. 𝙒𝙑𝙂𝘼 - Wide video graphics array.

29. 𝗪𝗫𝗚𝗔 - Widescreen Extended Graphics Array.

30. 𝗨𝗦𝗕 - Universal serial Bus.

31. 𝗪𝗟𝗔𝗡 - Wireless Local Area Network.

32. 𝗣𝗣𝗜 - Pixels Per Inch.

33. 𝗟𝗖𝗗 - Liquid Crystal Display.

34. 𝗛𝗦𝗗𝗣𝗔 - High speed down-link packet access.

35. 𝗛𝗦𝗨𝗣𝗔 - High-Speed Uplink Packet Access.

36. 𝗛𝗦𝗣𝗔 - High Speed Packet Access.

37. 𝗚𝗣𝗥𝗦 - General Packet Radio Service.

38. 𝗘𝗗𝗚𝗘 - Enhanced Data Rates for Globa Evolution.

39. 𝗡𝗙𝗖 - Near field communication.

40. 𝗢𝗧𝗚 - On-the-go.

41. 𝗦-𝗟𝗖𝗗 - Super Liquid Crystal Display.

42. 𝗢.𝗦 - Operating system.

43. 𝗦𝗡𝗦 - Social network service.

31/07/2022

=====آموزش اردو=====

زبان و بیان کا آئین

مُرشَد اور مُرشِد میں باریک سا مگر اہم فرق ہے،
ہم اکثر ش پر زبر لگا کر مُرشَد کہتے ہیں جبکه مُرشَد کا مطلب رشد و ہدایت لینے والا ہے اور ش پر زیر کے ساتھ مُرشِد کا مطلب رشد و ہدایت دینے والا ہے۔ سو اگر آپ نے کسی کو اپنا استاد ماننا یا کہنا ہے تو مُرشِد کہیں کیونکه اگر آپ مُرشَد کہیں گے تو آپ اس کے استاد ہوں گے۔
ویسے آپس کی بات ہے ہم (اکثریت) کسی کو اپنا استاد ماننے کو بھی تیار نہیں شاید اسی لیے اکثر مُرشِد کی جگه مُرشَد ہی کہتے ہیں۔😑

Orbital period of every planet in the Solar System.
31/07/2022

Orbital period of every planet in the Solar System.

چمپنزی ہمارے کزن کیسے ہوئے؟ اگر_چمپنزی_ہمارے_کزن_ہیں_تو_ہومو_نیڈرٹھل_کو_ہمارا_کزن_کیوں_کہاں_جاتا_ہے؟                    ...
31/07/2022

چمپنزی ہمارے کزن کیسے ہوئے؟

اگر_چمپنزی_ہمارے_کزن_ہیں_تو_ہومو_نیڈرٹھل_کو_ہمارا_کزن_کیوں_کہاں_جاتا_ہے؟

( #جواب)

اب جب کہ ہم پچھلے Shorts میں جان چکے ہیں کہ ہمارا ارتقاء بندروں سے نہیں ہوا اور یہ بھی کہ ارتقاء کے نتیجے میں ہر بار انسان ہی بنے یہ کیوں ضروری نہیں۔

اب ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں چمپنزیوں اور بندروں کا کزن کیوں بولا جاتا ہے جبکہ ہمارا ارتقاء بندروں سے نہیں ہوا؟؟؟؟

ہم سب کے ذہنوں میں یہی سوال بار بار جنم لیتا ہے کہ کیا زمین پر موجود تمام جانداروں کا ایک دوسرے سے تعلق رہا ہے؟

جیساکہ ڈارون کی تھیوری کا سیکنڈ سٹپ بھی ہمیں یہی بتاتا ہے (جس بات کی گزشتہ 160 سالوں سے ہونے والی تمام سائنسی تحقیقات (خصوصاً اس فیلڈ میں) وقتاً فوقتاً تصدیق کرتی ہوئی بھی دیکھائی دیتی ہیں۔) کہ زمین پر موجود پوری حیاتیاتی تنوع کسی ایک قدیم جاندار کی بتدریج نشوونما کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔

اگر ہم دنیا کے تمام حیاتیاتی تنوع کی درجہ بندی کریں تو ہمیں زندگی کی نشوونما کا ایک بہت بڑا درخت ملتا ہے جس کی تمام شاخیں کئی نہ کئی جاکر آپس میں مل جاتی ہیں۔ اس درخت کی (یعنی کہ زندگی کے درخت کی) دو مختلف شاخوں کی اصل تلاش کرتے ہوئے اگر ہم اوپر سے نیچے آئیں تو ایک جگہ آکر ہم دیکھیں گئے کہ دونوں شاخوں کا ماخذ ایک ہی تھا۔ یعنی زمین پر موجود ہر جاندار کا ایک مشترکہ اجداد دوسرے جاندار کے ساتھ مشترک گزرا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے آپ کے "دادا" آپ کے حقیقی بھائیوں، کزنوں، آپ کے والد، چچا، تایا کے مشترکہ اجداد ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ اگر ہم اسی چیز کو لمبا لے جائیں تو ایک بہت لمبے وقت بعد ایک ہی جینس سے تعلق رکھنے والی Specie کی اولاد دو الگ الگ انواع میں تبدیل ہوجاتی ہیں مطلب سلیکشن پریشرز (اور میوٹیشنز) ان میں بہت زیادہ بدلاؤ پیدا کردیتا ہے۔

اس بدلاؤ کے باجود ،چونکہ کئی ملین سال پہلے ہمارا ارتقاء ایک کومن جد سے اُن کا چمپنزی بدمانس میں اور ہمارا انسان نما دوسری نسلوں میں ہوا اس بنا پر ہم ایک دوسرے کے دور کے کزن کہلائے جاتے ہیں۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زمین پر زندگی کی دو شکلیں ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں ہیں ، لیکن وہ آپس میں دور ( اس کو بیان کرنے کے لیے لفظ دور بھی بہت کم ہے ) ہی سہی لیکن کئی نہ کئی جاکر ان کے آپس میں لنک مل جاتے ہیں یعنی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔

اگر ہم اپنے بارے میں ہی بات کریں تو چمپینزی زندگی کے درخت پر ہمارا سب سے قریبی رشتہ دار ہے، اس کے بعد گوریلا، اور اورنگوٹان ہے۔ قریبی تعلق کا مطلب یہ ہے کہ چمپینزی وہ جانور ہیں جن کے ساتھ انسان زمین پر موجودہ دور کی نسلوں میں سب سے قریبی مشترکہ آباؤ اجداد کا اشتراک کرتا ہے۔ لیکن زندگی کے درخت پر جب ہم قریب ترین مشترکہ اجداد کے بارے میں بات کرتے ہیں تو قریب ترین کا مطلب دو، تین سو سال کی بجائے ہزاروں سے لاکھوں سال پہلے کا بھی ہو سکتا ہے۔

انسانوں کا سلسلہ نسب تقریباً 6 ملین سال پہلے ایپس کی نسل سے الگ ہوا اور ارتقاء کے دوران مختلف انسانی انواع کے ذریعے موجودہ انسان میں تبدیل ہوا۔ ایک وقت تھا جب زمین کے مختلف حصوں پر مختلف انسانی نسلیں آباد تھیں۔ لیکن وہ سب وقت کے ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے اپنے حالات کا سامنا نہ کر پائیں اور معدوم ہو گئیں اور اب ہومو کی اگر کوئی زندہ نسل زمین پر موجودہ ہے، تو وہ #ہم ہیں۔ یعنی ہومو سپینئز جو اب تک نیچر میں خود کی بقا بنائے ہوئے ہیں۔

اس طرح ہماری اپنی جینس میں ہمارے قریب ترین کزن ہومو نینڈرتھلز ہیں (جن سے ہمارے مشترکہ آباؤ اجداد آج سے تقریباً 4 سے 5 لاکھ سال پہلے گزرے ہیں) جن کے ساتھ ہم بریڈنگ بھی کرسکتے تھے (جو کہ کی بھی) ( جن کے جینوم ہمارے ڈی این اے میں افریقی اوریجن کے لوگوں کو نکال کر باقی دنیا کے لوگوں میں آج بھی 2 سے 4 فیصد کے بیچ پائے گئیں ہیں۔لیکن مختلف علاقوں کے انسانوں میں اس کی percentage مختلف نوٹ کی گئی ہے۔ کسی میں کم تو کسی میں زیادہ۔)

( ہوسکتا ہے، جیساکہ According to some scientists ہمارے یعنی موڈرن ہومن اور نینڈرتھلز کے جینوم کچھ سے لے کر %98 سے %99 فیصد کے قریب اوورلیپ ہوتے ہیں۔ اس کی پیمائش کے بہت سے مختلف طریقے کار ہیں اور اُن کے ریزلٹ ایک دوسرے سے مختلف بھی۔جس کی ڈیٹیل فل الحال ضروری نہیں ۔ خیر بظاہر اتنا معمولی نظر آنے والا فرق بھی اگر ڈیٹیل میں جاکر دیکھا جائیں تو بہت زیادہ ہوتا ہے )

اسی طرح ہمارے دور کے کزنز بھی ہیں جیسے کہ اوپر بھی بیان کیا جاچکا ہے (یعنی کہ Apes )، جن کے ساتھ ہم بریڈنگ نہیں کرسکتے مطلب کہ اب ہم اس قدر الگ انواع بن چکے ہیں کہ آپس میں بریڈنگ کے نتیجے میں اولاد ہو یہ ممکن ہی نہیں رہا۔ آسان لفظوں میں ہمارے اور چمپنزیوں کے ڈی این اے میں %98.8

زیر نظر تصاویر ایک انسانی جوں کی ہیں، جسکو ایک الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے زریعے دیکھا جارہا ہے۔جوئیں صدیوں سے ہمیں پریشان...
31/07/2022

زیر نظر تصاویر ایک انسانی جوں کی ہیں، جسکو ایک الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے زریعے دیکھا جارہا ہے۔

جوئیں صدیوں سے ہمیں پریشان کرتی آرہی ہیں۔ سر کی جوئیں (Head Lice) (پیڈکیولس کیپٹس Pediculus humanus capitis) ہمارے سر کی کھال میں اپنا گھر بناتی ہیں۔ جوئیں سب سے زیادہ گردن کے علاقے، سر کے بالکل اوپر اور کنپٹی کے بالوں میں پائی جاتی ہیں۔ جوؤں کی خوراک کا واحد زریعہ انسانی خون ہے۔ اپنی نسل بڑھانے کے لیے بالغ جوں کو دن میں دو بار انسانی خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ سر کی جوئیں چھوٹی اور بغیر پروں کی ہوتی ہیں جو اڑ یا اچھل کود نہیں کرسکتی۔ جو جووں کے بچے ہوتے ہیں ، جنکو لیکھیں کہا جاتا ہے، وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں، 2 سے 3 ملی میٹر لمبے، اور اور انکی رنگت بالکل شفاف سے سیاہ رنگت کی ہوتی ہے۔ جوؤں کے تین جوڑی پیر ہوتے ہیں، جن میں رینگنے اور بالوں کی لٹوں کو جکڑنے کے لیے خاص پنجے بنے ہوتے ہیں۔ جوئیں سوکھے ہوئے بالوں میں بہت تیز چلتی ہیں۔

جوئیں دنیا کے تقریبا آدھی سے زیادہ انسانی آبادی کے سر وں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن انسانی سر پر پائے جانے والی جوئیں، کسی دوسرے جانور کے سر یا جسم پر نہیں پل سکتی۔جیسے مختلف پالتو جانور کتے، بلی، بکری وغیرہ۔

ایک بالغ مادہ جوں، دن میں 8 انڈے تک دے سکتی ہے۔ جنسی عمل کے بعد وہ تقریبا 56 انڈے دیتی ہے۔ ان انڈوں کا سائز 0.308 ملی میٹر تک کا ہوتا ہے۔ مادہ جوئیں اپنے انڈوں کو بال کی لٹوں سے ایک سیال کے زریعے لگا دیتی ہیں، اور یہ انڈے بالوں سے چپک جاتے ہیں۔ یہ انڈے سر کی بالکل سطح پر نہیں مادہ جوں دیتی، بلکہ سطح سے کچھ اوپر بالوں پر دیتی ہے۔ ان انڈوں میں سے 6 سے 8 دن کے اندر جوؤں کے بچے نکلتے ہیں ۔

ان چھوٹی جوؤں، جنکو لیکھیں کہا جاتا ہے، وہ قریبا 6 ہفتوں کے بعد بڑی ہوکر دوبارہ انڈے دینے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ اس لیے انکی آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگتی ہے۔ ان جوؤں کی زندگی کی مدت عام طور پر 6 ہفتوں تک کی ہوتی ہے۔ بالوں سے خود بخود گرنے والی جوئیں عموما خود مرنے والی ہوتی ہیں۔ یہ جوئیں زندہ رہنےکے لیے آپکی کھوپڑی کے اوپر منڈھی کھال پر رینگتی رہتی ہیں اور دن میں کئی بار اپنی سونڈھ کھال میں گھسا کر اپنی غذا یعنی انسانی خون حاصل کرکے زندہ رہتی ہیں۔ سر کی جوئیں، تاریکی میں بہت زیادہ سرگرم عمل ہوتی ہیں۔ انکے چلنے پھرنے یا خون چوسنے کے عمل کے دوران ہونے والی خارش کے باعث متاثرہ افراد کی نیند میں خلل پڑتا ہے، اور رات کی نیند اسطرح انکی ڈسٹرب رہتی ہے۔

سائنسدانوں نے سر کی جوؤں اور کھٹمل کے ڈی این اے کا آپس میں موازنہ کیا، تو معلوم ہوا کہ یہ ایک دوسرے سے تقریباً ایک لاکھ سال پہلے جدا ہوئے ہیں، جس سے یہ انداز ہوتا ہے کہ انسان اپنے ارتقاء کے دوران ایک لاکھ سال پہلے لباس استعمال کر رہا تھا اور ایک لاکھ سال پہلے سر میں پائی جانے والی جوؤں نے اپنے آپ کو اس طرح تبدیل کیا کہ وہ لباس میں رہنے کے قابل ہو گئی تھیں۔

مگر انسانی کے پشمی بالوں ( (P***c Hairمیں رہنے والی جوں(P***c Lice) گوریلا کے بالوں میں پائی جانے والی جوں سے جیناتی مشابہت رکھتی ہے، اور سر کی جوئوں اور پشمی بالوں کی جوؤں کے جینیاتی موازے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان آج سے 18 لاکھ سال پہلے اپنی جسمانی بالوں سے جان چھڑا چکا تھا، اور اس کا جسم ننگا ہو چکا تھا، اسی دوران انسان کے جسم پر دو جگہ یعنی سر پر اور پھر اعضائے مخصوصہ میں بال رہ گئے تھے، پشمی بالوں میں وہی جوئیں رہ گئیں جو کہ باقی کے پرائمیٹ میں تھیں، مگر انسانی کے سر کی جوئیں ارتقاء کے ذریعے اپنی موجودہ حالت میں آ گئیں، مگر بعد ازاں جب انسان نے افریقہ سے سرد علاقوں کی طرف ہجرت کی تو اس کو لباس کی ضرورت پڑی اس وقت انسان کے لباس کے لئے بھی جوئیں ارتقاء کر کرے کھٹمل بن گئیں۔

جوؤں کی کہانی سے انسانی ارتقاء کے متعلق دو ثبوت ملتے ہیں، ایک تو انسان کے جسم پر کبھی بال تھے، اور وہ ختم ہو گئے(انسان بھی بڑے بندروں یعنی PRIMATES کی طرح جسم پر بال رکھتا تھا)، جس کے باعث اس کے جسم پر دو قسم کی جوؤں کی موجودگی ہوئی۔ پھر مزید یہ کہ جوؤں کا بھی ارتقاء ہو گیا اور وہ لباس میں رہنے کے قابل ہو گئیں۔ صرف جوؤں کے ارتقاء سے انسانی ارتقاء اور پھر حیاتیاتی ارتقاء کے متعلق انتہائی زبردست معلومات مل جاتی ہے۔
تحریر اور تحقیق


kola superdeep boreholeاگر ہم زمین پر لاہور شہر کے بلکل نیچے زمین کی دوسری طرف جانا چاہیں تو ہمیں 20 ہزار کلومیٹر کا فاص...
30/07/2022

kola superdeep borehole
اگر ہم زمین پر لاہور شہر کے بلکل نیچے زمین کی دوسری طرف جانا چاہیں تو ہمیں 20 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا لیکن اگر ہم زمین کی سطح پر سفر کرنے کی بجائے لاہور شہر کے نیچے زمین کی دوسرے طرف ایک سیدھا سوراخ کریں اور اُس میں چھلانگ لگا دیں تو کیا ہوگا۔

اگر ہم ایسا سوراخ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم زمین کی دوسری طرف ساؤتھ امریکہ کے سمندر میں نکلیں گے جہاں سے قریب ترین ملک چلی ہے اور وہ بھی 608 کلومیٹر کے فاصلے پر لیکن اگر ہم ارجنٹینا سے زمین میں ایک سیدھا سوراخ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سوراخ دوسری طرف چین میں نکلے گا۔
سائنس دان زمین کو زمین کی سطح کے بعد تین بُنیادی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں
Mentle.
Outer core.
Inner core

انسان آج تک ان تین حصوں کے پار نہیں جاسکا اور اگر ہم زمین کی سطح پر سوراخ کرنا شروع کریں تو تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر سے ساڑھے تین کلومیٹر نیچے ہمیں Devil Worm ملیں گے ڈیول وارم زیر زمین گہرائی میں رہنے والے واحد جانور ہیں جو انسان نے 2011 میں دریافت کیے تھے اور پھر 3600 میٹر کی گہرائی سے آگے درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجائے گا۔

زمین کی سطح کے 4000 میٹر نیچے زمین کا درجہ حرارت 60C تک پہنچ جائے گا جہاں سے نیچے مزید سوراخ کرنے کے لیے ہمیں ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے برف درکار ہوگی، سوراخ مزید گہرا کرتے ہُوئے جب 8800 میٹر نیچے پہنچے گا تو یہ زمین کے سب سے اُونچے پہاڑماونٹ ایورسٹ کی بُلندی جتنا گہرا ہوجائے گا اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ انسان زمین کے اندر اس سے بھی آگے جا چُکا ہے اور Kola Superdeep Borehole کے نام سے سائندانوں نے اب تک زمین میں 12260 میٹر کی گہرائی تک سُوراخ کیا ہے۔

اس گہرائی پر زمین کا درجہ حرارت 180 ڈگری سے تجاوز کرجاتا ہے اور پریشر سطح سمندر کے پریشر سے 4 ہزار گُنا زیادہ ہو جاتا ہے اور اگر آپ سوراخ کرتے کرتے اس مُقام پر پہنچ جائیں تو آپ کو اس مُقام پر زندہ رہنے کے لیے سوراخ کے ارد گرد ایسی انسولیشن کرنی پڑے گی جو اس شدید درجہ حرارت کو سوراخ میں داخل ہونے سے روک دے وگرنہ آپ اپنے سوراخ کرنے کے سامان سمیت پگھل جائیں گے۔

اگر آپ سوراخ کرتے کرتے 40 ہزار میٹر نیچے پہنچ جائیں تو یہاں سے زمین کی دوسری تہہ Mantle شروع ہوگی اور اس مقام پر زمین کا درجہ حرارت 1 ہزار ڈگری کے قریب پہنچ جائے گا جہاں لوہا اور سلور پگھل جاتے ہیں مگر خوشخبری یہ ہے کے سٹیل نہیں پگھلے گا کیونکہ سٹیل کو پگھلانے کے لیے درجہ حرارت کا 1370 ڈگری سے زیادہ ہونا ضروری ہے چنانچہ آپ سٹیل کی ڈرل سے زمین کی تہہ مینٹل جس کی اوپر والی سطح چٹانوں سے بنی ہے ڈرل کرتے ہُوئے مزید نیچے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور جب آپ 1 لاکھ میٹر نیچے پہنچے گے تو آپ کی سٹیل ڈرل کام کرنا چھوڑ دے گی اور پگھل جائے گی اور آپ کو مزید نیچے جانے کے لیے کسی اور دھات کی ڈرل کی ضرورت ہوگی جو اُس درجہ حرارت پر نا پگھلے.

ڈرل کرتے کرتے جب آپ ڈیڑھ لاکھ میٹر نیچے پہنچیں گے تو آپ کو مزے ہی آجائیں گے کیونکہ یہاں آپ کو بیشمار ہیرے ملیں گے کیونکہ اس مُقام پر زمین کا پریشر اور گرمی کاربن کے ایٹم کی ساخت کو بدلتی ہے اور ہیرا وجود میں آتا ہے اور زمین کی اس گہرائی پر آپکو لوہے اور چٹانوں سمیت ہر چیز پگھلی ہُوئی ملے گی جیسے آتش فشاں کا لاوا ہوتا ہے۔

اگر آپ اس مقام پر سے زمین کی مزید تہہ میں جانے میں کامیاب ہوجائیں تو 4 لاکھ 10 ہزار میٹر کی گہرائی پر لاوا ختم ہوجائے گا اور دوبارہ چٹانوں کا سلسلہ شروع ہوگا زمین کی اس گہرائی پر درجہ حرات بے حد زیادہ ہوجاتا ہے مگر چٹانیں اس لیے نہیں پگھلتی کیونکہ زمین کا پریشربڑھتے بڑھتے اُس مقام پر چلا جاتا ہے جہاں مالیکول پگھل نہیں پاتے چنانچہ چٹانیں دوبارہ وجود میں آ جاتی ہیں۔

ڈرل کرتے کرتے جب آپ 3 ملین میٹر کی گہرائی پر پہنچیں گے تو آپ کو زمین کی تیسری تہہ Outer Core ملے گی اور یہ تہہ چٹانوں کی بجائے لوہے اور نکل سے بنی ہُوئی ہے اور اس مقام کا درجہ حرارت سُورج کی سطح کے برابر ہے اور تقریباً 5 سے 6 ہزار ڈگری گرم ہے یہ تہہ زمین کی انتہائی اہم تہہ ہے کیونکہ یہاں پر میگنیٹک فلیڈز بنتی ہیں جو زمین کی سطح سے باہر نکل کر خلا تک جا کر ایک بیرئر بناتی ہیں اور زمین کی سطح کو سولر ونڈز سے محفوظ رکھتی ہیں، زمین کی اس تہہ پر آپ کو لوہا اور نکل پگھلا ہُوا ملے گا اور ڈرل کرنے کے لیے کوئی سُپر مٹریل درکار ہوگا اور انسان کی عقل نے اب تک کوئی ایسی چیز دریافت نہیں کی جو 6 ہزار ڈگری سے اوپر کا درجہ حرارت برداشت کر سکے۔

اس مُقام پر آپ کو ڈرل کرنے میں دوسرا بڑا مسلہ یہ درپیش آئے گا کہ یہاں کشش ثقل بہت کم ہوئے گی اور آپ کو کوئی سُپر سب مرین درکار ہوگی جو اتنے پریشر اور حدت کو برداشت کرتے ہُوئے مزید گہرائی میں جا سکے اورجب آپ Outer Core کو ڈرل کرتے ہُوئے مزید نیچے پہنچیں گے تو تقریباً 5 لاکھ میٹر نیچے آپ کو زمین کی Inner Core ملے گی جو کے جمے ہُوئے لوہے کی بنی ہُوئی ہے یہاں پر کشش ثقل صفر ہوجائے گی اور زمین کی اس تہہ میں سوراخ کرنا آپ کے لیے مزید مشکل ہوجائے گا لیکن اگر یہاں بھی آپ کامیاب ہوگئے تو تقریبا 6 اشاریہ 4 ملین میٹر نیچے آپ زمین کے بلکل وسط میں پہنچ جائیں گے اور یہاں سے آگے ڈرل کرنے کے لیے آپکو نیچے جانے کی بجائے اوپر کی طرف Climb کرنا پڑے گا۔

مُجھے اُمید ہے کہ اگر آپ 6 اشاریہ 4 ملین میٹر نیچے پہنچ گئے تو پھر یقیناً وہاں سے زمین کی دوسری طرف Climb کرتے ہُوئے نکلنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے اور اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو زمین کے آر پار ایک سوراخ ہوجائے گا اور ارجنٹینا سے چین کا سفر کرنے لیے آپکو صرف ایک گھنٹہ درکار ہوگا اور یہ سفر آپ سوراخ کی ایک سائیڈ سے چھلانگ لگا کر کریں گے اور یہ چھلانگ آپ کو سوراخ کے دوسری طرف نکال دے گی۔

زمین کے اس سوراخ میں چھلانگ لگانے کے لیے آپ کو اور بھی کئی طرح کی چیزیں درکا ہو گی جیسے خلائی سُوٹ جو پریشر کو برداشت سکے وغیرہ وغیرہ لیکن آج تک کوئی انسان ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہُوا اور مستقبل قریب میں بھی ایسا ناممکن ہی دیکھائی دیتا ہے مگر ایک چیز سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ نے انسان کو عقل سلیم عطا کی ہے اور عقل سلیم میں کوئی چیز نا ممکن نہیں ہے۔

بشکریہ۔
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سیکشن۔

Address

Sheringal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Knowledge Home posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Video Creators in Sheringal

Show All