NajamWrites/-_

NajamWrites/-_ Assalamualaikum.

مرزا کی نہایت مرغوب غذا، گوشت کے سوا کوئی اور چیز نہ تھی۔ ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے ت...
04/03/2023

مرزا کی نہایت مرغوب غذا، گوشت کے سوا کوئی اور چیز نہ تھی۔ ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا، مسکرا کر کہنے لگے، اگر برتنوں کی کثرت پہ خیال کیجئے تو میرا دسترخوان یزید کا دستر خوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار دیکھیے تو بایزید رحمۃاللہ کا۔

“I leave behind me two things, The Quran and My Sunnah and if you follow these you will never go astray.” ...Hazrat Muha...
05/01/2022

“I leave behind me two things, The Quran and My Sunnah and if you follow these you will never go astray.” ...
Hazrat Muhammad P.B.U.H

01/01/2022
“I do not believe in taking the right decision, I take a decision and make it right.”(Muhammad Ali Jinnah)Happy birthday...
25/12/2021

“I do not believe in taking the right decision, I take a decision and make it right.”

(Muhammad Ali Jinnah)

Happy birthday dear
QUAID
🖖🖖🖖
May your soul rest in jannah
Ameen

20/05/2021

میں نعرہِ مستانہ ____ میں شوخیِ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں ____ پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہُوتی ____ میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو ____ اِس حال میں پہچانا

میں سوزِ محبت ہوں ____ میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں ____ میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں ____ کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں ____ ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں ____ میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں ____ میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں ____ میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں ____ میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِؔ بسمل ہوں ____ میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں ____ میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ...
22/04/2021

وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"
سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔
پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔
اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ
"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"
اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔
نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،
اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔"
پھر مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔"
(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"
مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔
"ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"
آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!"
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"
اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه
(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
"جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"
پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔ میں نے آج تک اس سے اچّھا پیغا م کبھی پوسٹ نہیں کیا۔اسلۓ آپ سے گزارش کہ آپ اسے پورا سکون و اطمینان کے ساتھ پڑھۓ۔انشاء اللہ ، آپکا ایمان تازہ ہوجاۓگا۔
Copy...

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیںیہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیںمیں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو...
20/04/2021

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
تیرے آگےیوں ہیں دبے چلے فصحا عرب کے بڑےبڑے
کوئ جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئ مفر مقر
جو وہاں سے ہویہیں آ کے ہوجو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہی کا ہے سب ہے انہی سے سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لا مکاں کے مکیں ہوئےسر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیں جن کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرادین پارہ ناں نہیں
پروانہ شمع رسالت امام الہند اعلیحضرت احمد رضا خان فاضل بریلی

سر جھکا کے جیے نہ منہ چھپا کہ جیےستم گر کی نظروں سے نظریں ملا کر جیئےھم اگر دو دن کم جیے تو اس میں حیرت کیاہم ان کے ساتھ...
19/04/2021

سر جھکا کے جیے نہ منہ چھپا کہ جیے
ستم گر کی نظروں سے نظریں ملا کر جیئے
ھم اگر دو دن کم جیے تو اس میں حیرت کیا
ہم ان کے ساتھ جیے جو شمع جلا کے جیے
لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ ﷺ
تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد زندہ باد ❤️

مچھلی کا شمار آبی حیاتیات میں ہوتا ھےمچھلی مَر جائے تو سمندر کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ کوئی میّت اسکے اندر رہےفوراً ...
17/04/2021

مچھلی کا شمار آبی حیاتیات میں ہوتا ھے
مچھلی مَر جائے تو سمندر کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ کوئی میّت اسکے اندر رہے
فوراً اچھال کر ساحل سے پرے پھینک دیتا ھے.

اَلَّذِیۡ یَذکُرُ رَبَّہُ وَ الَّذِیۡ لَا یَذکُرُ رَبَّہُ مَثَلُ الحَیِّ وَالمَیِّت.

رب کو یاد کرنے والا اور یاد نہ کرنے والا زندہ اور مُردہ کی مثل ھیں،
یعنی جو یاد کرتا ھے وہ زندہ ھے اور جو یاد نہیں کرتا وہ مُردہ ھے !
اس یاد کا تعلق نہ زبان سے ھے نہ آواز سے ھے نہ الفاظ کے تلفظ کی ادائیگی سے ھے

یاد کرنا کیا ھے ؟
ھونٹ آواز زبان بند ، بس تین چیزیں متحرک رہتی ہیں
خیال ، سانس ، دل کی دھڑکن
اس مثلث کو ایک نکتے پر ایک تصور پر مرتکز کرنے کا نام یاد ھے

خیال مخلوق نہیں ھے
سانس مخلوق نہیں ھے
اَللّٰہ مخلوق نہیں ھے

جبھی تو سلطان العارفین حضرت سلطان باھو صاحب رح اپنی تصنیفِ لطیف عین الفَقر میں فرماتے ہیں.

پس غیر مخلوق ( اَللّٰہ جل شانہ ) کو غیر مخلوق ( سانس اور خیال ) سے یاد کیا جانا چاہئیے.
60 ہزار رومیوں کے لشکر کو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زیرِ کمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صرف 60 جانثاروں نے خاک چٹا دی تھی کیونکہ وہ 60 زند دل تھے یعنی ایک کے مقابلے میں ایک ہزار ، زرا تصور تو کیجئے کہ اُن 60 نے 60 ہزار کا کیا اور کیسا حشر کیا ہوگا ؟
جب یاد کرنے والے زندہ ہیں اور نہ یاد کرنے والے مُردہ تو 60 ہزار لاشوں کا 60 زندوں سے کیا مقابلہ
آج عالمِ اسلام کی آبادی اربوں نفوس پر مشتمل ھے مگر
ہر طرف سے مار پڑ رہی ھے
حالانکہ قرآن تو کہتا ھے عِشرُونَ صَابِرُونَ یَغلِبُو مِئاَتَین. تم 20 بھی ہوئے تو 200 پر غالب آؤ گے
وجہ ؟

جو دَم غافل سو دَم کافر
سانوں مُرشد ایہہ پڑھایا ھُو

سُنیا سُخن گئیاں کُھل اکھیں
اساں چِت مولا ول لایا ھُو

کیتی جان حوالے رب دے
اساں ایسا عشق کمایا ھُو

مَرن توں پہلے مَر گئے ( حضرت باھو)
تاں مطلب ( اَللّٰہ ) نوں پایا ھُو.

اور یہی سانس ھے جسکے متعلق سلطان العارفین رح فرماتے ہیں

سینے وچ مقام ھے کس دا
مُرشد ایہہ گل سمجھائی ھُو

ایہو ساہ جو آوے جاوے
ہور نہیں شے کائی ھُو

اِس نوں اسم الاعظم آکھن
ایہو سِرِّ الٰہی ھُو

ایہو موت حیاتی ( حضرت باھو )
ایہو بھید الٰہی ھُو.

اور اقبال رح بھی کہہ گئے !

کیا حال پوچھتے ہو میری زندگی کا
اس میں نہ پیری نہ طفلی جوانی

مگر جو ساعتیں یادِ دلبر میں گذریں
وہی ہیں وہی ہیں میری زندگانی

اَلاَنفَاسُ مَعدُودَۃ وَ کُلُّ نَفسٍ یَخرُجُ بِغَیۡرِ ذِکرِ اللّٰہِ تعالیٰ فَہُوَ مَیِّت.

سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس اَللّٰہ کی یاد سے غافل گذرا وہ مُردہ ھے میت ھے.
اور میت کی اپنی ایک فطرت ھے کہ اسے سپرد خاک نہ کیا جائے تو یہ تعفن اور بدبو پھیلاتی ھے ،
سوچئے ! ایک معاشرے کی کثیر تعداد جب یادِ حق سے غافل ہو تو زبانِ نبوت سے اسی کثیر تعداد کو مردہ اور میت کہا گیا ہے ،
تو کثیر تعداد لاشیں اپنی فطرت تو دکھائیں گی.
یادِ حق سے غافل ہو کر دنیاوی چمک دمک اور اسکی دلفریب رنگینیوں میں محو ہونا زندہ دلی نہیں مردہ دلی ھے.
زندہ دلی تو یہ ہے کہ دل کو
" حَیُّ قَیُّوم " ذات کے تصور کیساتھ قائم و قیام دیا جائے کہ اُسکی صفات سے متصف ہونا ہی اُسکی ذات کی معرفت کے بحرِ بیکنار میں مستغرق کرتا ھے
اور یہی زندگی کا بھید ھے
اقبال رح سے کسی نے پوچھا تھا !

چیست دین ؟
دین کیا ھے ؟
فرمایا
دریافتند اسرارِ خویش
زندگی مرگ است بے دیدارِ خویش.
اپنے اندر کے بھید کو پا لینے کا نام دین ھے ، اور زندگی اُسکے دیدار کے بغیر ہرگز زندگی نہیں بلکہ موت ھے.

آج کا انسان کرتا کچھ هے بتاتا کچھ هے۔هوتا کچھ اور جتاتا کچھ اور هے۔ صاف لفظوں میں خود کو منافق نہیں کہتا۔🔥
27/03/2021

آج کا انسان کرتا کچھ هے بتاتا کچھ هے۔هوتا کچھ اور جتاتا کچھ اور هے۔ صاف لفظوں میں خود کو منافق نہیں کہتا۔🔥

25/03/2021

شیطان کاوار ہی نماز پر ہوتا ہے،کیونکہ یہی بے حیائی اور گناہ سے بچاتی ہے،
اے اللہ ہمیں نماز وقت پر ادا کرنے والا بنا
Āmëëñ

22/03/2021

انسان جب تجربے کی بھٹی سے گزرتا ہے تو اسکی فہم و فراست ٹھوس اور مدلل بنیادوں پر استوار ہو جاتی ہے اہلِ نظر ہونا آسان نہیں ہوتا ..

22/03/2021

یونانی ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﮯ۔
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﺎ کہنا ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ کی ﻧﮩﯿﮟ۔

ﺑﻮﻧﺎ ﻭﭨﯿﻮﮐﺮ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﮈﻧﮓ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻼ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﯾﻮﺣﻨﺎ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﺮ ﮐﯽ بیٹی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ۔

ﺭﻭﻣﻦ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﻓﺮﻗﮧ کی تعلیمات ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻼﻡِ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﺟﺎ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ سب ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺭﻭﻣﺘﮧ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ لونڈیوں ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺗﮭﯽ،
ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

یورپ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮﻥ ﺁﻑ ﺁﺭﮎ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺩﻭﺭِ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﯿﺎ جاتا ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ تھے۔

ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت ﮐو وہ مقام عطا فرمایا جو آج تک کسی مذہب میں حاصل نہیں
اب اگر عورت ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت بیٹی ہے تو بخشش کا زریعہ بیوی ہے تو ایمان کی تکمیل کا زریعہ بہن ہے تو غیرت کا زریعہ.....

20/03/2021

جانے کون یہ بھید
ہنستے کھیلتے انساں کے
دل میں کتنے چھید

زندگی چاہے جتنی بھی حسین ہو، کچھ نہ کچھ خلش تو باقی رہ ہی جاتی ہے۔ ہر نعمت کے ہوتے ہوئے بھی کوئی تو ایسی محرومی ہوتی ہی ہے جس کا خیال آتے ہی دل کی دھڑکن جیسے چند لمحے کے لئے رک سی جاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا میں پرفیکشن تلاشتے ہیں، لیکن وہ تو اللہ نے بعد کی زندگی کے لئے رکھ چھوڑی۔ یہاں تو سب کچھ عارضی ہے۔ یاد رکھنے کی بات لیکن یہ ہے کہ اگر یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں تو یہاں کے غم بھی مستقل نہیں۔ گلاس پورا بھرا ہوا نہیں تو مکمل خالی بھی نہیں۔ اپنے دکھوں کے ساتھ جینا، اپنی محرومیوں کے باوجود مسکرانا ۔۔۔ یہی زندگی ہے۔ یہ شاید اتنا آسان کام نہ سہی، بہت مشکل بھی نہیں ہے۔ آئیں آپکو بتاؤں کیسے ۔۔۔

سورۃ البقرۃ کی بہت پیاری سی آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
یہ ممکن ہے کہ جسے تم شر سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جسے تم دوست رکھتے ہو وہ شر ہو اللہ سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو ۔

اسکو پڑھنے کے بعد اگر کسی بھی چیز پر دل خفا ہو تو سوچیں کیا پتہ اسی میں میرے لئے بھلائی ہو، بس مجھے سمجھ نہ آ رہی ہو ۔

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری سی حدیث ہے جس سے دل کو انتہائی سکون ملتا ہے:
"مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہے! کہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث ہے۔"

یہ بات ایسی دل کے اندر راسخ ہوئی کہ اب کچھ مل جائے یا ملنے سے رہ جائے، دونوں صورتوں میں دل مطمئن ہی ہوتا ہے۔

ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ کبھی "لَو" یعنی کاش/اگر نہ کہیں کیونکہ ایسا کہنا شیطان (کے وسوسوں) کا دروازہ کھولتا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ یہی اللہ کی مرضی تھی۔

یہ بات بھی جب دل کے اندر جذب ہو جائے تو خود بخود سکون آ جاتا ہے۔ جو کچھ بھی ہو جائے، انسان کا کامل یقین اسی بات پر ہوتا ہے کہ اللہ نے چاہا، اسلئے ایسا ہوا۔ اسکے بعد کوئی اگر مگر اور کاش دل میں خلش پیدا نہیں کرتے ۔ کاش میں اس وقت یوں نہ کرتا، اگر وہ فلاں وقت ایسا کر لیتا تو ۔۔۔ یہ خیال اپنے ذہن میں بھی نہ لائیں ، اور زبان سے نکالنے کی تو خیر قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔

ایک بار کہیں پڑھا تھا:
Accept what you cannot change; change what you cannot accept.
جو چیز تبدیل کرنا ممکن ہو سکے، اسے تبدیل کیا جائے اور جو ممکن نہ ہو اسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرنے کی کوشش کی جائے۔

اوپر دی گئی سبھی ٹپس پر اگر آپ غور کریں تو ایک مماثلت سبھی میں پائیں گے؛ !Acceptance
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا! اپنی بھرپور کوشش کریں، دعا کریں اور ایسے کریں کہ دل کھول کے رب کے سامنے رکھ دیں، رونا آئے تو روئیں، اور اسکے بعد نتائج اللہ پر چھوڑ دیں، اور جو بھی ہو اس پر راضی رہیں۔ یاد رہیں کہ کوئی بھی واقعہ بےمقصد یا بلاوجہ وقوع پذیر نہیں ہوتا۔
"It's either a memory made or a lesson learnt"

اسکے علاوہ یہ ہر وقت اداس شاعری پڑھنا، اداس غزلیں سننا، منفی ذہنیت کے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا انسان کے موڈ پر انتہائی منفی اثرات ڈالتا ہے؛ تو اچھے لوگوں کی صحبت میں رہیں تا کہ کچھ مثبت سیکھ کر اٹھیں. اچھی کتابیں پڑھیں، اچھی باتیں سنیں، اچھی باتیں بولیں۔

آخری بات؛ آپ دل سے رب کے ہر فیصلے پر راضی ہوں تو بھی کسی وقت دل بوجھل ہو جانا بالکل فطری ہے۔ اداس ہو جانا، رو لینا تو ہمارے ایک نارمل انسان ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم روبوٹ تھوڑی ہیں! ہاں یہ ضرور یاد رہے کہ اداس ہو جانے میں خرابی نہیں، اداس رہنا مسئلے کی بات ہے۔

اللہ تعالی آپکے دل کی ہر جائز مراد پوری فرمائے، آپکی ہر الجھن دور کر دے اور اپنے ان شکر گزار بندوں میں شامل کر لے جو اسکے ہر فیصلے پر راضی ہوں۔ آمین

باقی بیشک کہ انسان کو اپنے حصے کی محنت کرنا ہی پڑتی ہے
عبارت کا مقصد صرف رضائے الٰہی سے متعارف کروانا تھا

19/03/2021


کامیاب ذہن میں جنم لینے والی کامیاب سوچیں، کامیاب زندگی کی طرف سفر کی ضامن ہیں۔
اس سادہ سے اصول کی وضاحت کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔

آپ کبھی کسی ہوٹل میں بوفے ڈنر پر تو ضرور گئے ہوں گے/ یا سوشل میڈیا پر لازم دیکھا ہو گا۔ چالیس پچاس ڈشیں آپ کی منتظر ہوتی ہیں ۔ آپ جتنا چاہیں کھائیں پئیں، کوئی روک ٹوک نہیں! لیکن بوفے ٹیبل تک جانے کیلئے ایک لمبی لائن لگی ہوتی ہے ۔لائن میں سب سے پیچھے لگے ہوئے لوگ ٹیبل پر پہلے سے موجود لوگوں کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں کیونکہ بوفے ٹیبل پر جو کچھ بھی ہے ان کی خدمت میں حاضر ہے۔
زندگی میں کامیابی اور خوشحالی کے ٹیبل تک جانے کیلئے بھی اسی طرح کی ایک لائن لگی ہے۔کچھ لوگ آخر میں کھڑے سامنے والوں کو رشک سے دیکھ رہے ہیں تو کچھ ایسے ہوتے ہیں جو لائن سے باہر ہی کھڑے تبصرے کر رہے ہوتے ہیں۔
کامیابی کا اصول بڑا ہی سادہ ہے
لائن میں لگ جائیے اور پھر لگے رہیۓ۔۔۔

چلیے آج سے کوشش کرتے ہیں کہ اپنے حصے کی کوشش کریں گے انشاء اللہ

Address

Sheikhupura

Telephone

+923044653741

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when NajamWrites/-_ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to NajamWrites/-_:

Videos

Share