New Naveed Paints

New Naveed Paints We Deals In All Imported & Local Paints, Power Tolls, Hardware & Tolls, Safty Items & Electric Circu
(5)

Decor Paint Like Wall Paper
01/05/2024

Decor Paint Like Wall Paper

10/04/2024

On this special day, may Allah's blessings light up your path and lead you to success and happiness.Eid Mubarak to you and your family! As the crescent moon shines bright, may it bring peace, prosperity, and happiness to your life.

05/04/2024

Eid Special Discount 50%

Cleaning Products For Sale
24/03/2024

Cleaning Products For Sale

Cleaning Equipments Cleaning your house and corporate buildings are quite essential. To make the cleaning and janitorial tasks easy and efficient. Products brings effective cleaning chemicals and advanced cleaning equipment. Floor cleaning chemicals to glass cleaning tools, we have every kind of che...

23/03/2024

Cleaning Items On Wholesale Rate Especial Discount For Supplier's

﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو می...
16/03/2024

﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو میرا عذاب بڑا سخت ہے (سوره ابراہیم ) انہیں نعمتوں میں سے ایک نعت مال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بعض جگہ لفظ (خیر) سے تعبیر فرمایا ہے یہ مال اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح استعمال کرے اور مصارفِ خیر یعنی نیکی کے کاموں میں خرچ کرے تو یہی مال اسکے لیے ترقی اور عنداللہ محبوبیت کا بڑا ذریعہ ہے

13/03/2024

خلاصہ دوسری تراویح رمضان مبارک

*سورۃ البقرہ* ایک نہایت جامع سورت ہے۔ اس میں دین کا پورا ضابطہ حیات مسلمانوں کو بتایا گیا ہے۔ اس پارے میں سورۃ البقرہ کی آیات، آیت نمبر 141 سے 252 تک ہیں۔ اس پارہ کا آغاز تحویل قبلہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ نبی کریم علیہ صلاۃ والسلام کی شدید خواہش تھی کہ بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی طرف رخ کرکے عبادت کریں، چناچہ اس سورت میں بیت المقدس کی بجائے کعبہ مشرفہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اور ہمیشہ کے لئے بیت اللہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا۔ یہ بھی حکم دیا گیا کہ جہاں کہیں بھی ہو نماز میں اپنا چہرہ بیت اللہ کی طرف ہی کرو۔ یہود، کفار اور منافقین نے اس حکم پر سخت اعتراضات کیے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں تو جس طرف بھی تم رخ کرو وہ اللہ ہی کی طرف ہوگا۔
اس کے بعد اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے جو سیدنا ابراہیم نے مانگی، چنانچہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کا ذکر کیا گیا اور آپ کے چار وظائف بتائے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری طرف مبعوث کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں، تمہارا تزکیہ کریں، تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور تمہیں وہ سب سکھائیں جو تم نہیں جانتے، پس یہی آپ کی امت کا بھی مقصد ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذکر، شکر اور نماز کی بھی تلقین کی گئی۔ یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ تمہاری زندگی میں آزمائشیں آتی رہیں گی تو اصل خوشخبری صبر کرنے والوں کے لیے ہے، اور صبر کرنے والے ہی ہدایت یافتہ ہیں۔ مصیبت کے وقت آخرت کو یاد کرنے کی تلقین بھی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے مصیبت ہلکی لگنے لگتی ہے۔
پھر اللہ تعالی نے مختصرا علم کو چھپانے والوں اور ان کے لیے تیار کردہ وعید کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں ذکر کرکے حلال اور طیب کھانے کی ترغیب دی، اور یہ بتایا کہ دنیا میں جو کچھ حلال ہے وہ کھاؤ پیو، اور ساتھ ہی مردار، خون، سور کا گوشت، غیر اللہ کے نام نذر کی ہوئی چیزوں کا حرام ہونا بھی واضح کر دیا۔
اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کردیا کہ مخلوق کی محبت اگر حد سے بڑھ جائے تو وہ شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ جو سب سے بڑا محبوب ہوتا ہے وہی اصل میں معبود ہوتا ہے، اور ایمان والوں کا اصل محبوب ان کا رب ہوتا ہے۔
پھر آیت البر لائی گئی جس میں نیکی کا ایک جامع تصور دیا گیا، کہ نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ عقیدہ درست ہو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی مناسب طریقے سے ہو، عہد کو پورا کیا جائے اور ہر قسم کے حالات میں صبر کیا جائے، یہی اصل میں نیکی ہے۔ اس آیت میں باقی نیکیوں کو عمومی انداز میں ذکر کیا گیا، جبکہ ایفائے عہد اور صبر کا الگ سے ذکر کیا گیا، جو ان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کے بعد قصاص کے احکام بیان کئے گئے کہ جان کے بدلے جان ہوگی، اور قصاص کو زندگی سے عبارت کیا گیا کہ اصل میں تمہارے لئے قصاص میں ہی زندگی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اگر مقتول کے ورثاء راضی ہوں تو خون بہا کی بھی اجازت ہے۔
اس کے بعد وصیت کے احکام آئے، اور اس کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی۔ (حدیث مبارکہ کے مطابق ایک تہائی مال میں وصیت کی جاسکتی ہے، بقیہ سارا مال وارثوں کا حق ہے)
اس کے ساتھ ساتھ تفصیل سے روزے کے احکام کا ذکر ہے۔ روزہ ایک فرض عبادت ہے اور یہ آخرت میں کفایت کرنے والا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مریض اور مسافر کے لیے نرمی ہے وہ بعد میں قضا کر سکتے ہیں۔ روزہ تقوی پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی گنتی پوری کرنا لازم ہے لہذا قضا روزے رکھنا بھی فرض ہے، البتہ معذور جو بعد میں بھی ادا نہیں کرسکتا اس کے لیے فدیہ کی بھی اجازت ہے۔ یہ بھی واضح کردیا گیا کہ رمضان کی اہمیت قرآن کی وجہ سے ہے۔ یہ مہینہ اس لیے اتنا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی مہینے میں قرآن نازل کیا گیا۔
اس کے بعد چند احکام جہاد وقتال کے بارے میں بتائے گئے ہیں۔ یہ واضح کیا گیا کہ فتنہ پھیلانا قتل سے زیادہ برا ہے، قتال تم پر فرض ہے اور یہ کہہ کر ہمت دلائی گئی کہ ہوسکتا ہے کہ جو چیز تمہیں ناپسند ہو وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور جو چیز تمہیں پسند ہو وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور یہ خوشخبری سنائی گئی کہ جو بھی ایمان لے آئے اور ہجرت اور جہاد پر عمل پیرا ہو ان کے لئے رحمت کی امید اور مغفرت ہے۔ اور شہید کے درجات کی طرف بھی یہ کہ کر اشارہ کر دیا گیا کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔
یہاں سے حج اور عمرہ کے مفصل احکام آتے ہیں۔ حکم ہوا کہ یہ دونوں اعمال خالصتا اللہ کے لیے کرو، اور یہ حکم دیا کہ حج کے دوران کسی بے حیائی، لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ میں نہ پڑو۔ حج کا سفر نیکیوں کا سفر ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ بخشش مانگنی چاہیے۔
یہ بھی واضح ہوا کہ جنت کا راستہ آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے کوئی شخص اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ آزما نا لیا جائے۔
اس پارے میں صحابہ کرام کے بعض سوالات کا بھی جواب دیا گیا ہے۔ اس میں انفاق کے مصارف کے بارے میں سوال کا جواب دیا گیا کہ جو بھی تمہارے ضرورت سے زائد ہو وہی خرچ کرو، اس میں سے سب سے بہترین خرچ وہ ہے جو والدین، قرابت داروں، یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے اور ان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے۔
اس کے علاوہ شراب اور جوئے کی حرمت کا ذکر کیا گیا۔ یتیموں کی اصلاح اور ان کی دیکھ بھال کی ترغیب دی گئی۔
اس پارے کے آخر میں تفصیل سے بعض احکام نکاح، طلاق، رضاعت، مہر، عورتوں کے بعد مخصوص مسائل، اور عدت کے احکام کا ذکر کیا گیا۔ یہ بتایا گیا کہ مومن مرد اور مومن عورت کا کافر مرد یا کافر عورت سے نکاح اور ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ درمیان میں شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ احکام کے بیان میں حقوق کا ذکر اس لیے ہوا کہ یہ بات بھی واضح کر دی جائے کہ طلاق کی نوبت
تب ہی آتی ہے جب حقوق پورے طریقے سے ادا نہ کئے جائیں۔ دو طلاقوں کے بعد تو رجوع کیا جاسکتا ہے، لیکن تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے۔ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا نامناسب اور شریعت کے خلاف ہے اسی طرح عورت کو اذیت دینے کے لئے بھی طلاق کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ جل شانہ کی جانب سے عورت کو بالکل اجازت ہے کہ وہ عدت کے بعد دوسرا نکاح کرلے۔ اسی طرح بیوہ کے اوپر بھی چار ماہ دس دن عدت کرنا فرض ہے، اور اس دوران شوہر کے گھر میں رہنا اس کا حق ہے۔ عدت کے بعد اس کو دوسرا نکاح کرنے کی پوری اجازت ہے۔
پھر کچھ واقعات کے ذریعہ اہم سبق سکھائے گئے ہیں ان میں ایک واقعہ مردوں کو زندہ کر کے دکھائے جانے کا ہے۔
آخر میں سلسلہ کلام بنی اسرائیل کی طرف دوبارہ موڑ دیا گیا، اور داؤد علیہ السلام کا قصہ، طالوت کی بادشاہت اور جالوت کے لشکر سے مقابلہ کا ذکر کیا گیا۔ اس واقعے کے ذکر سے ایک اہم نکتہ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کامیابی کا تعلق وسائل اور اسباب کے بجائے اللہ کی مدد اور اس پر بھروسہ سے ہوتا ہے۔

12/03/2024

خلاصہ پہلی تراویح رمضان مبارک:-

قرآن مقدس کی سب سے پہلی سورۃ الفاتحہ ہے،حدیث قدسی میں اسے صلوۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا واجب قرار دیا گیا ہے۔ اس سورۃمبارک کی سات آیات ہیں، یہ سورۃ مومن کی طرف سے دعا اور رب کریم کی طرف قبولیت دعا ہے۔ سورۃ فاتحہ کو بہت سے خوبصورت ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس سورت میں اللہ کی حمد وثنا اور عظمت اور فوقیت کا بیان ہے۔ اس کی ذات پاک اور بالذات صرف دعا و التجا اسی سے ہی طلب کی جائے اللہ کی بارگاہ دعا والتجا کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔سورۃ بقرہ کی دوسری آیت میں بتایا گیا یے اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔مکہ کے کفار ومشرکیں قرآن حکیم کواللہ کا کلام ماننے سے انکاری تھے ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ کلام نبی کریمﷺکااپنا تخلیق کردہ کلام ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ کی آیات نمبر 22اور 23ایسے تمام منکرین اور معاندین کو چیلنج کیا ہے کہ اگر تمہیں قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر شک ہے تو تم سب مل کر اس جیسا کلام لے کر آؤ اور تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے کہ قرآن مقدس کے اس چیلنج کو قبول کیا گیا ہو،آیت نمبر 3تا 5 میں مومنین کی صفات، ایمان بالغیب،اقامت صلوۃ، انفاق فی سبیل اللہء،الہامی کتابوں پر ایمان اور آخرت پر ایمان کا ذکر خیر ہے۔ آیت نمبر 5, 6 ان لوگوں کا ذکر ہے جن کا کفر نمایاں اور ظاہر ہےاور وہ اپنی بغاوت میں اسقدرآگے جا چکے ہیں کہ ان کا ہدایت قبول کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔
ان پراللہ کی طرف سے ابدی شقاوت اور بدبختی کی مہرکندہ ہوچکی ہے۔آیت نمبر 8 تا 20 میں منافقین کا ذکر ہے۔انسانیت کا وہ طبقہ ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہے دل ایمان کی دولت سے خالی ہیں۔آیت نمبر 30 تا 39 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے اعلان فرمایا کہ میں آدم کو زمیں پر اپناخلیفہ بنا رہا ہوں۔ فرشتوں نے اپنی دانش کے مطابق کہا کہ بنی آدم زمین پرفساد وخون ریزی کرے گا۔ اے اللہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں، اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ جن اسرار رموز کو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو ،پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کو مختلف اشیاء کے ناموں سے آشنا کرکے فرشتوں پر آدم کی برتری کو ثابت کردیا تھا۔فرشتوں کو حکم دیاگیا کہ آدم کو سجدہ کرو ابلیس لعین کے علاوہ سب نے سجدہ تعظیم کیاتھا پھر آدم کو جنت میں داخل کردیا گیا سب چیزوں کے استعمال کی اجازت مرحمت فرما دی ماسوائے ایک درخت کے کہ اس کے قریب نہیں جانا ہے۔ ابلیس کے آدم کو سجدہ نہ کرنے،آدم کے جنت سے نکالے جانے اور آدم کو توبہ کے کلمات القا کرنے اور ان کی برکت سے توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔توبہ کے مقدس کلمات سورۃ اعراف آیت نمبر 23 میں مذکور ہیں جس کا ترجمہ اس طرح ہے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ، پس اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کی عہد شکنیوں اور سرکشیوں اور انعامات کا مختلف انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔
نمبر 1) فرعون اور فرعونیوں کے تسلط اور نسل کشی سے نجات دلانا۔ نمبر 2) ان کیلئے سمندر کے بیچ سے راستہ بنانا۔ نمبر 3) وادی سینا میں پہچانا۔ 4) وادی سینا میں طویل عرصے تک بادلوں کا سایہ فگن رینا .5) من و سلویٰ کا پہچانا۔ 6) چٹان سے عصائے موسوی سے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشمے جاری کرنا۔ 7) گائے زبح کے لمس سے قاتل کا پتا چلانا.8) اپنے عہد کے لوگوں پر فضیلت دینا، 9) بنی اسرائیل سے بہت سے انبیاءکا پیدا کرنا اور اس کے سرکشی کا تفصیلی بیان ہےجس کی تفصیل یہ ہے۔ 1) اللہ سے کئے گئے عہدو پیمان کو توڑنا.2) علماء کے قول و فعل کا تضاد .3) لالچ کی بنا پر موثر لوگوں کیلئے اللہ کے کلام میں تبدیلی کرنا۔ 4) موسی علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا کرنا۔ 5) من وسلوی کو ٹھکرا کر زمینی اجناس طلب کرنا۔ 6) انبیاء کو ناحق قتل کرنا۔ 7) ہفتے کے دن کی حرمت کو پائمال کرنا۔ 8) گائے کے بارے میں سیدھے سادھے حکم کو ماننے کی بجائے کئی سوالات اٹھانا۔ 9)تورات اور انجیل میں سیدنامحمد کے بارے میں بیان کی گئی بشارتوں کو چھپانا۔ (10 شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرنے کیلئے جادو سیکھنا۔11) رسول اللہﷺ کی شان میں لفظی ردوبدل کے ذریعے شان میں اہانت کرنا چنانچہ آیت نمبر 104 میں واضح ارشاد ہوا ہے اےاہل ایمان جب تمہیں نبی مکرم کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ بیان کیلئے راعنا نہ کہو کیونکہ یہود و منافقین اس لفظ کو اہانت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں لہذا یوں کہو یا رسول اللہﷺ ہم پر توجہ فرمائیں۔ اس سے بھی زیادہ ادب کا تقاضا ہے کہ پہلے ہی نبیﷺکی بات کو توجہ سے سنو۔ مومنین کو ایسا کلمہ استعمال کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے جو اشارۃ کناۃ یا صراحتاً اہانت کیلئے استعمال کیاجا سکتا ہو۔ بعد ازاں بتایا گیاکہ بچھڑے کی پرستش کے جرم میں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو قتل کیا اور ان کی صورتوں کو مسخ کرکے ان کو ذلیل بندروں کی شکل دے دی گئی اور پھر وہ موت سے ہمکنار ہوئےچونکہ بنی اسرائیل پر عذاب حضرت جبرائیل امین کے ذریعے نازل ہوا تھا وہ اسلئے جبرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے تھےتو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جبرائیل اور میکائیل اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ہی نازل کرتے ہیں پس جو ان کا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے۔اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اس خوش فہمی کو بھی دور کردیا کہ وہ خاص محبوب ہیں۔ اہل ایمان پر واضح کردیا گیا جب تک تم یہود و نصاری کی پیروی نہ کرلو وہ تم سے راضی نہیں ہو سکتے۔ آیت نمبر 123میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منصب امامت پر فائز کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیت اللہ تعمیر کرنے کا تذکرہ ہے۔اللہ کی بارگاہ میں دعا کی گئی اے ہمارے رب ان اہل مکہ میں ایک عظیم رسول مبعوث فرما جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔اس لئے رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمر ہوں۔ اس کے بعد اس سورت میں اولاد ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسماعیل علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد کا حضرت موسی علیہ السلام و عیسی علیہ السلام اور اجمالی طور پر دیگر انبیاء اکرام کا تذکرہ ہے یہ کہ اہل ایمان سب انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لانے کے حوالے سے رسولوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے یہ سب کے سب انبیاء علیہم سلام سب ایک ہی دین کے اسلام کے پیروکار اور علمبردار تھے۔

Microsoft Verified This Business
07/03/2024

Microsoft Verified This Business

16/02/2024

آب زم زم کی تاریخ

زمزم سب پانیوں کا سردار اور حضرت جبریل علیہ السلام کا کھودا ہوا چشمہ ہے زمزم کا پانی شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے بہانےاللہ تعالیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بےآب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو آج تک جاری ہے۔ یہ کنواں وقت کےساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدادا حضرت عبدالمطلب نےاشارہ خداوندی سےدوبارہ کھدوایا جو آج تک جاری و ساری ہے۔

صحرائے عرب کے لق و دق صحرا میں سبزے سے خالی دو خشک پہاڑ جہاں ایک بچہ پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا ہے، ماں یہ منظر دیکھ کر ہول کھا رہی ہے ، مشکیزے میں موجود پانی کب کا ختم ہوچکا ، صحرا کی تپتی دوپہر اور جھلساتی لُو کے تھپیڑوں نے انھیں جان بلب کردیا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کو بلبلاتا، سسکتا اور تڑپتا نہ دیکھ سکی ،اور پانی کی تلاش میں سامنے موجود ”صفا“ کے پہاڑ پر چڑھ گئی لیکن پانی نہیں ملا اور اس پہاڑ سے اتر کر تیزی سے دوسری طرف موجود ”مروہ“ نامی پہاڑ پر جا پہنچی۔ تین چار چکر لگا کرمامتا کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ واپس آئی ، بیٹے کو پہلے کی طرح تڑپتا بلکتا دیکھ کر واپس پلٹی، دوبارہ وہی چکر، پہاڑ سے اترتی اور تیزی سے دوسرے پہاڑ پر چڑھ جاتی۔ پانی کی تلاش میں وہ ان پہاڑوں کے سات چکر لگا چکی تھی ،لیکن پانی کہیں نہ ملا۔۔۔۔۔ اور پھر وہ بے قرار ماں دوڑ کر اپنے بچے کی طرف آئی جو جاں بلب ہوچکا تھا۔

سینکڑوں ماﺅں سے زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرنے والا خدا یہ منظر دیکھ رہا تھااس نے فوراََ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وہاں بھیجا ، آپؑ نے ایڑ ی زمین پر ماری اور زمین سے پانی کا چشمہ ابل پڑا، بظاہر آخری سانس لیتے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی بے تاب ماں حضرت ہاجرہ علیہ السلام ابلتا پانی کا چشمہ دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئیں اور پانی کے گرد منڈیر بنادی تاکہ پانی اِدھر اُدھر نہ ہوجائے۔

سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر ہاجرہؑ اس پانی کے گرد منڈیر نہ بناتیں تو آج یہ پانی ایک دریا کی شکل اختیار کرلیتا ۔ اس عجیب و غریب پانی نے ماں بیٹے کو کھجور اور کھانے سے بھی بے نیاز کردیا۔ پانی پیتے ہی پیاس کے ساتھ ساتھ بھوک کا احساس بھی مٹ گیا ۔

ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ بنو جرہم کاایک قافلہ وہاں سے گزرا، دیکھا کہ مکہ کی گھاٹیوں پر پرندے اڑانیں بھر رہے ہیں ، ان کے لئے یہ منظرحیران کن اور ناقابل یقین تھا۔ اس علاقے میں تو خاک اُڑتی تھی اور لُو کا گزر ہوتا تھا، وہ حیران تھے کہ پرندے یہاں کیسے۔ عرب کے ریگستانوں میں تو پرندے صرف پانی والی جگہ پر ہی نظر آتے تھے۔اس جستجو نے انھیں اس گھاٹی کی طرف آنے پر مجبور کردیا۔ پانی کا چشمہ اور ایک ماں بیٹے کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے ۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے انھیں سارا قصہ سنایا۔ بنو جرہم کے قافلہ لوگ یہ واقعہ سن کر بے حد متاثر ہوئے اور ماں بیٹے کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھ گئی۔ انھوں نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام سے وہاں بسنے کی اجازت مانگی تو انھوںنے بخوشی اجازت دیدی۔

صحرائے عرب کا یہ بنجر اور ویران ریگستان آباد ہو گیا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو اس قبیلے کے سردار عمر بن مقاض کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لی ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد پیدا ہوئی اور اس کو (بنو بکر) کہا جانے لگا۔ بنو جرہم اور بنو بکر باہمی اتفاق و اتحاد سے کئی سال تک رہے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان میں اختلاف شروع ہوئے جو اس قدر بڑھے کہ بنو بکر نے بنو جرہم کو علاقے سے نکال دیا۔ بنو جرہم نے اس علاقے کو چھوڑنے سے پہلے خانہ کعبہ کا سارا خزانہ، غلاف کعبہ، اور قیمتی تلواریں زم زم کے کنویں میں ڈا ل دیں اور مٹی سے کنویں کو بند کرکے زمین کو برابر کردیا۔ آب زم زم کے ارد گرد کا علاقہ پھر ویران ہوگیا ۔ حج کے دنوں میں وہ علاقہ آباد ہوتا لیکن اب آب زم زم کا قصہ یادِماضی بن کر رہ گیا تھا۔

بر سہا برس گزر گئے ۔ چھٹی صدی عیسوی میں خانہ کعبہ کے نگراں مطلب بن عبداللہ انتقال کر گئے، عبدالمطلب کو حاجیوں کے امور کانگراں بنا دیا گیا ۔ عبدالمطلب حاجیوں کو پانی پلاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے مکہ میں کئی کنوئیں کھودے گئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چند سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کو خواب میں بشارت ہوئی ، کوئی کہہ رہا تھا ” طیبہ کو کھودو “ حضرت عبد المطلب کو معلوم نہیں تھا طیبہ کیا ہے؟ اگلی رات پھر خواب آیا کہا گیا ” برَّہ کو کھودو “ مگر وہ ” برَّہ “ کو بھی نہیں جانتے تھے۔ تیسری رات خواب میں کہا گیا ” مضنوعہ کو کھودو “ لیکن یہ بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔ چوتھی مرتبہ خواب میں ایک شخص نظر آیا اور کہا ” زم زم کو کھودو “ آپ نے پوچھا کہ زم زم کیا ہے ؟ جواب ملا کہ زمزم وہ ہے جس کا پانی ختم نہ ہوگا۔ نہ خشک ہوگا۔ حاجیوں کو خاطر خواہ سیراب کرے گا ۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ وہاں چیونٹیوں کی بہت سے بلیں ہیں۔ اور ایک کوّا زمین کریدتا رہتا ہے۔

اگلے دن صبح سویرے عبد المطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ اس جگہ پہنچے۔ اور کھدائی شروع کردی۔ اہلِ قریش نے باپ بیٹے کو کھدائی سے روگا ۔ اور کہا کہ اس جگہ تو بتوں کے نام پر قربانیاں دی جاتی ہیں، یہ مقدس جگہ ہے ۔ عبد المطلب نے سنی ان سنی کردی اور کھدائی جاری رکھی ۔ مگر قریش نے باپ بیٹے کی کوئی مدد نہ کی۔ تین دن کی انتھک محنت کے بعدآخر گوہر مقصود ہاتھ آہی گیا۔ عبد المطلب کھدائی کرتے اور حارث مٹی اٹھا کر باہر پھینکتے رہے۔ زم زم کا کنواں نکل آیا اور عبد المطلب کے ہاتھ بیش بہا خزانہ لگا جو بنو جرہم نے دفنایا تھا، اب قریش کی آنکھیں بھی کھل گئیں۔ وہ عبدالمطلب کے پاس آئے اور کہنے لگے ، کنواں تو ہمارے باپ اسمٰعیل کا ہے ، اس خزانے میں ہمارا بھی توحصہ بنتا ہے۔ عبد المطلب نے صاف انکار کردیا ۔ قریش بھی ٹلنے والے نہیں تھے ، انہوں نے لڑائی اور جھگڑے کی دھمکی دے دی۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ معاملہ خراب ہوتا دیکھ کر عبدالمطلب نے پیش کش کی معاملہ کا تصفیہ کرلیا جائے۔چنانچہ اس جھگڑے کو نمٹانے کے لئے عرب کے دستور کے مطابق کسی باعلم اور دانش مند شخص پر فیصلہ چھوڑا گیا۔ اہلِ قریش نے کہا کہ شام میں رہنے والی قبیلہ بنو سعد کی کاہنہ ہی اس کا فیصلہ کرسکے گی۔

عبد المطلب نے یہ بات مان لی، اور مختلف قبائل کے نمائندہ افراد کے ہمراہ شام کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ فاصلہ طویل تھا راستے میں میلوں پر پھیلے صحرا سے گزرنا تھا۔ صحرا میں اکثر لوگوں کے پاس پانی ختم ہوگیا۔ پیاس کے مارے لوگوں کی جان نکلنے لگی۔ جن کے پاس چند گھونٹ پانی تھا انہوں نے دوسرے کو دینے سے انکار کردیا ۔ عبدالمطلب کے ساتھی زندگی سے مایوس ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان ساتھیوں نے کچھ قبریں بھی کھود لیں تاکہ جو پہلے مر جائیں ان کو دوسرے دفنادیں۔ عبد المطلب سے ان کی حالت دیکھی نہ گئی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے کی بجائے سفر جاری رکھا جائے ۔ شاید کوئی بستی نظر آجائے۔ عبد المطلب نے اونٹنی پر سوار ہوکر اسے کھڑا کیا تو نیچے سے شیریں اور عمدہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ خوشی کے ان نا قابل فراموش لمحات میں عبد المطلب نے زور سے نعرہ لگایا ۔ سب نے پانی پیا اوراپنے برتن بھر لئے۔ یہ ماجرا دیکھ کرتمام قبائل کے نمائندہ افراد حیران رہ گئے انہوں نے کہا ، عبدالمطلب اب ہمیں آگے جانے کی ضرورت نہیں، قدرت نے راستے میں ہی تمہارے حق میں فیصلہ کردیا ہے۔ اب ہم تم سے زم زم کے مسئلے پر نہیں جھگڑیں گے۔ جس ذا ت نے اس بے آب و گیاہ ویرانہ میں تمہا رے لئے یہ چشمہ جاری کیا ہے، بے شک اسی نے تمہیں زم زم عطا کیا ہے۔

اس کنویں کی عظمت تو دیکھیئے آب زم زم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے نکا لا گیا اور اس کی وجہ ان کی والدہ بنیں۔ اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ پانی جاری کیا ۔ اس پانی کو تمام انبیا ء اور نیک لوگ پیتے رہے ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبِ زم زم کے کنویں پر تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی کا ایک ڈول نکالا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑ ے کھڑے اس میں سے کچھ پانی نوش فرمایا پھر اس میں کلی کردی اور ڈول کو کنویں میں انڈیل دیا ۔ گویا یہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جھوٹا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” آبِ زم زم ہر بیماری کےلئے شفا ء ہے “۔

آب زم زم کا کنواں خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباََ 21میٹر کے فاصلے پر تہہ خانے میں واقع ہے ، اس کنویں کی گہرائی تقریباََ 98فٹ (30میٹر) اور اس کے دھانے کا قطر تقریباََ3 فٹ 7 انچ تا 8 فٹ 9 انچ ہے ۔ 1953 ء تک یہ پانی ڈول کے ذریعے نکالا جاتا تھا ، مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر کے مختلف مقامات پر آبِ زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ زم زم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج اکرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔آبِ زم زم دنیا کا وہ واحد پانی ہے ، جس کو پینے کے بعدبیماریوں سے شفاءملتی ہے اور جس کے پیتے وقت مانگی جانے والی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔

اللہ سے دُعاہے کہ جس طرح اس نے ہمیں اس دنیا میں آب زم زم کی نعمت عطا فرمائی ہے ، حوضِ کوثر پر بھی ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آب ِکوثر پینا نصیب فرمائے۔ آمین

10/02/2024
19/01/2024
12/01/2024
20/12/2023
20/12/2023

Happy Wedding Season

Happy New year in Advance
20/12/2023

Happy New year in Advance

Transform your space into a canvas of inspiration this New Year! 🎨✨ Unlock an incredible discount with our White Friday Sale and give your boring walls a stunning makeover. Don't miss out on the chance to redefine your surroundings. Book your order now before this offer fades away! 🏡🌟 "

11/12/2023
سلور جوبلی ڈسکاؤنٹ
06/12/2023

سلور جوبلی ڈسکاؤنٹ

ڈسٹمپر گڈکا بالٹی سلور جوبلی ڈسکاؤنٹ

22/11/2023

The aim and priority of Naveed Paints are to add value to our consumers’ lives by providing smart solutions to all their problems. Our pride is providing the most extensive range of services. From home maintenance to personal assistance. We make sure that your safety is never compromised. This is ...

Address

Shop 2642 Nishtar Street Saddar
Rawalpindi
46000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when New Naveed Paints posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to New Naveed Paints:

Videos

Share


Other Digital creator in Rawalpindi

Show All