Ghulam Jillani

Ghulam Jillani Dreams are the key to conquer the World..

16/12/2024

Insta Millionaire | Lucky Ki Kahani | Girlfriend ki bewafai | desi kahani | Kahaniyan | audio story"Toofani Ishq: Ghareeb Machwaron Ka Beta Aur Ameer Larki Ka Chhupa Raaz"
Insta Millionaire episode Insta Millionaire | Lucky One-Man Army | Lucky Ki Asliyat | Lucky Ki Kahani |Girlfriend Ki Bewafai | Insta Millionaire FULL EPISODE 1 | Lucky Ki Kahani |
1. Love Story
2. Romantic Suspense
3. Poor Boy Rich Girl
4. Toofani Ishq
5. Forbidden Love
6. Secret Romance
7. Hindi Urdu Story
8. Emotional Drama
9. Rich Girl Poor Boy Love
10. Romantic Urdu Kahani
11. Heart Touching Story
12. Fisherman Love Story
13. Urdu Romantic Story
14. Suspenseful Love Tale
15. True Love
16. Betrayal and Love
17. Hidden Family Secrets
18. Class Divide Romance
19. Emotional Love Journey
20. Intense Romance
21. Coastal Love Story
22. Wealth vs Poverty
23. Toofaan Mein Mohabbat
24. Rich Girl Poor Boy Drama
25. Epic Love Saga
26. Heartwarming Romance
27. Tragic Love Story
28. Romantic Thriller
29. Forbidden Romance Urdu
30. Urdu Drama Story
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19
20.
sexy story"
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.
sexy vibe,
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.


बेटे ने पूरी रात 6 बजे तक | Suvichar| desi kahani | desi kahaniyan | audio story
hindistory


.0


.0

12/12/2024

Insta Millionaire | Lucky Ki Kahani | Girlfriend ki bewafai | desi kahani | Kahaniyan | audio story"Toofani Ishq: Ghareeb Machwaron Ka Beta Aur Ameer Larki Ka Chhupa Raaz"
Insta Millionaire episode Insta Millionaire | Lucky One-Man Army | Lucky Ki Asliyat | Lucky Ki Kahani |Girlfriend Ki Bewafai | Insta Millionaire FULL EPISODE 100 | Lucky Ki Kahani |
1. Love Story
2. Romantic Suspense
3. Poor Boy Rich Girl
4. Toofani Ishq
5. Forbidden Love
6. Secret Romance
7. Hindi Urdu Story
8. Emotional Drama
9. Rich Girl Poor Boy Love
10. Romantic Urdu Kahani
11. Heart Touching Story
12. Fisherman Love Story
13. Urdu Romantic Story
14. Suspenseful Love Tale
15. True Love
16. Betrayal and Love
17. Hidden Family Secrets
18. Class Divide Romance
19. Emotional Love Journey
20. Intense Romance
21. Coastal Love Story
22. Wealth vs Poverty
23. Toofaan Mein Mohabbat
24. Rich Girl Poor Boy Drama
25. Epic Love Saga
26. Heartwarming Romance
27. Tragic Love Story
28. Romantic Thriller
29. Forbidden Romance Urdu
30. Urdu Drama Story
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19
20.
sexy story"
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.
sexy vibe,
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.


बेटे ने पूरी रात 6 बजे तक | Suvichar| desi kahani | desi kahaniyan | audio story
hindistory


.0


.0

27/11/2024

Insta Millionaire | Lucky Ki Kahani | Girlfriend ki bewafai | desi kahani | Kahaniyan | audio story"Toofani Ishq: Ghareeb Machwaron Ka Beta Aur Ameer Larki Ka Chhupa Raaz"
Insta Millionaire episode Insta Millionaire | Lucky One-Man Army | Lucky Ki Asliyat | Lucky Ki Kahani |Girlfriend Ki Bewafai | Insta Millionaire FULL EPISODE 1 | Lucky Ki Kahani |
1. Love Story
2. Romantic Suspense
3. Poor Boy Rich Girl
4. Toofani Ishq
5. Forbidden Love
6. Secret Romance
7. Hindi Urdu Story
8. Emotional Drama
9. Rich Girl Poor Boy Love
10. Romantic Urdu Kahani
11. Heart Touching Story
12. Fisherman Love Story
13. Urdu Romantic Story
14. Suspenseful Love Tale
15. True Love
16. Betrayal and Love
17. Hidden Family Secrets
18. Class Divide Romance
19. Emotional Love Journey
20. Intense Romance
21. Coastal Love Story
22. Wealth vs Poverty
23. Toofaan Mein Mohabbat
24. Rich Girl Poor Boy Drama
25. Epic Love Saga
26. Heartwarming Romance
27. Tragic Love Story
28. Romantic Thriller
29. Forbidden Romance Urdu
30. Urdu Drama Story
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19
20.
sexy story"
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.
sexy vibe,
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
12.
13.
14.
15.
16.
17.
18.
19.
20.


बेटे ने पूरी रात 6 बजे तक | Suvichar| desi kahani | desi kahaniyan | audio story
hindistory


.0


.0

17/11/2024

*⚔️فاتح سندھ محمدبن قاسم* 🏇🏿

*قسط نمبر : 13*

✍🏻دیبل میں اذان گونج رہی تھی ،محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ان فوجیوں کو جو بھاگ نہیں سکے تھے قیدی بنا لیا تھا ،اس فوج میں سے زیادہ تر آدمی محمد بن قاسم کے اس حکم کے تحت مارے گئے تھے کہ کسی کو بخشا نہ جائے، دیبل کے شہریوں نے بھی دیول کا جھنڈا گرنے کے بعد مسلمان فوج پر ہلہ بولا تھا لیکن محمد بن قاسم نے عام معافی کا اعلان کردیا ،اس طرح کچھ لوگ شہر سے بھاگ کر مضافات میں ہی کہیں چھپ گئے تھے وہ آہستہ آہستہ واپس آگئے۔
محمد بن قاسم نے مال غنیمت اپنی فوج میں تقسیم کیا اور بیت المال کا حصہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سمندر کے راستے عراق بھیج دیا۔ اس نے حمید بن ورداع نجدی کو امیر دیبک مقرر کیا ۔
دیبل کو مکمل طور پر اسلامی شہر بنانے کے لئے محمد بن قاسم نے شہر کے وسط میں ایک مسجد کی تعمیر شروع کردی ،اس مسجد کی بنیادوں کی کھدائی میں بسم اللہ محمد بن قاسم نے اپنے ہاتھوں کی، آج اس مسجد کا کہیں نام و نشان ہے نہ دیبل کہیں نظر آتا ہے، اس کے کھنڈر بھی وقت اور زمانے کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن تاریخ میں دیبل ایک سنگ میل کی طرح زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس شہر کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ یہاں ہندوستان کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔
دو تاریخ نویسوں نے اس وقت کی تحریروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ دیبل کے لوگ محمد بن قاسم کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ وہاں کے بت تراشوں نے محمد بن قاسم کا مجسمہ بنالیا تھا ،کسی اور مستند مورخوں نے اس کی تصدیق نہیں کی، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کا اور اس کی فوج کا سلوک وہاں کے شہریوں کے ساتھ اتنا مشفکانہ تھا کہ لوگ اس کی پوجا کرنے پر بھی اتر آئے تھے، محمد بن قاسم کو بڑی تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن وہ شہری انتظامات مکمل کیے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھتا تھا، تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار کے سامنے ایک مقصد تھا وہ ان بادشاہوں جیسا نہیں تھا جو دولت اور ملک گیری کی ہوس لے کر حملہ کرتے اور بستیوں کی بستیاں اجاڑتے چلے جاتے ہیں۔
محمد بن قاسم نے جاسوسی کا نظام خالد بن ولید جیسا بنا رکھا تھا بلکہ اس نے جاسوسی خالد بن ولید سے ہی سیکھی تھی، اسی مقصد کے لیے اس نے شعبان ثقفی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا، وہ خود اپنی فوج کے ساتھ دیبل میں تھا لیکن جاسوسوں کی معرفت وہ نیرون اور اروڑ تک پہنچ چکا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں👇🏻`*
https://whatsapp.com/channel/0029VawqKGFDTkJybqjFwO47

*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

ایک روز دیبل شہر کے دروازے کے باہر آٹھ شاہی سوار آ کر رکے، انھوں نے بتایا کہ وہ اروڑ سے آئے ہیں اور راجہ داہر کا پیغام لائے ہیں ۔
محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی۔
ان کے لیے دروازہ کھول دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ ایلچی کو میرے پاس بھیج دو اور اس کے محافظوں کو عزت سے رکھو اور ان کی خاطر مدارت کرو ۔
راجہ داہر کا ایلچی جب محمد بن قاسم کے سامنے آیا تو وہ رکوع کی طرح جھک گیا پھر اس نے پر تکلف سے الفاظ کہنے شروع کردیئے ترجمان اس کے الفاظ کا ترجمہ کرتا جا رہا تھا۔
کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ یہ یہاں آگیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اسے کہو کہ ہم اپنے سامنے کسی کا اس طرح جھکنا پسند نہیں کرتے، نہ ہی ہمارا مذہب اسکی اجازت دیتا ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کے سامنے اس طرح جھکے، اس سے پیغام لے لو اور اسے باہر بٹھاؤ۔
ایلچی نے پہلا عربی سالار دیکھا تھا جو فاتح بھی تھا ،اس سالار کی بات سن کر وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ نوجوان بھی ہے، سالار بھی ہے، اور فاتح بھی ہے لیکن اس میں اخلاق بھی ہے، اس نے پیغام محمد بن قاسم کے حوالے کیا اور باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے کھول کر دیکھا یہ پیغام راجہ داہر نے اپنی زبان میں لکھا تھا ،محمد بن قاسم نے پیغام اپنے ترجمان کے حوالے کردیا ترجمان پیغام پڑھنے لگا تاریخوں میں یہ پیغام لفظ بلفظ محفوظ ہے ،یہ اس طرح ہے۔
یہ پیغام چچ کے بیٹے داہر کی طرف سے ہے جو سندھ کا بادشاہ اور ہندوستان کا راجہ ہے، یہ خط اس داہر کی طرف سے ہے جس کا حکم دریاؤں جنگلوں صحراؤں اور پہاڑوں پر چلتا ہے، یہ پیغام عرب کے کم عمر اور ناتجربہ کار سالار محمد بن قاسم کے نام ہے جو انسان کے قتل میں بے رحم اور مال غنیمت کا حریص ہے ،اور جس نے اپنی فوج کو تباہی اور موت کے منہ میں پھینکنے کی حماقت کی ہے،،،،،
ائے کمسن لڑکے تم سے پہلے بھی تمہارے وطن کے سالار اپنے دماغوں میں یہ خبط لے کر آئے تھے کہ وہ سندھ کو اور پھر ہندوستان کو فتح کریں گے، کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا یاسنا، ہم نے اسی شہر دیبل میں ان کو ایسی شکست دی تھی کہ وہ زندہ واپس نہ جا سکے، وہ دیبل کی دیواروں تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے، اب یہی خبط تم اپنے دماغ میں لے کر آ گئے ہو دیبل کو فتح کرکے اور اس شہر کے اندر بیٹھ کر تم بہت خوش ہوں گے، لیکن میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کے اس شہر کی فتح پر غرور نہ کرنا یہ چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں تاجر بیوپاری اور دکاندار رہتے ہیں، یہ لوگ جنگجو نہیں نہ کبھی انہیں لڑائی سے واسطہ پڑا ہے، ان پر دو تین پتھر پھینکے تو انہوں نے ڈر کر شکست تسلیم کر لی ،دیبل میں ہماری کوئی اتنی فوج بھی نہیں تھی، تم اسے اتنی بڑی فوج اور ہماری شکست نہ سمجھو اگر ہمارا ایک بھی بہادر سالار وہاں ہوتا تو تمہارا انجام تمہارے وطن کے پہلے سالاروں جیسا ہوتا ،تم اور تمہارا ایک بھی سپاہی زندہ نہ ہوتا، میں تمہاری نوجوانی پر رحم کرتا ہوں اور تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایک قدم آگے نہ بڑھانا جہاں تک پہنچے ہو وہی سے واپس چلے جاؤ ،آگے آؤ گے تو تمہارا سامنا میرے بیٹے جے سینا سے ہوگا ،تم نہیں جانتے کہ اس کے قہر اور غضب سے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہ بھی پناہ مانگتی ہیں، اور ہندوستان کے راجہ اور مہاراجہ اس کے آگے ماتھے رگڑتے ہیں ،میرا بیٹا سندھ ،مکران، اور توران کا حکمران ہے، اس کے پاس ایک سو جنگی ہاتھی ہیں جو بدمست ہو کر لڑتے اور دشمن کو کچلتے ہیں، اور جے سینا خود ایک سفید ہاتھی پر سوار ہوتا ہے جس کا مقابلہ نہ گھوڑے کرسکتے ہیں نہ وہ بہادر سپاہی جوبرچھی برادر ہوتے ہیں،،،،
تم صرف ایک فتح پر اتنے مغرور ہوگئے ہو کہ تمہاری عقل پر پانی پڑ گیا ہے، تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو تمہارے پہلے سالار بدیل کا ہوا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم یہ پیغام سن کر مسکرایا اس نے اپنے سالار و نائب سالاروں اور امیر محمد بن وداع نجدی کو بلایا اور ترجمان سے کہا کہ وہ ان سب کو یہ پیغام پڑھ کر سنائے، ترجمان نے پیغام ایک بار پھر پڑھا اور تمام حاضرین مسکرانے لگے۔
اس شخص نے مجھے مغرور کہا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے شگفتہ سے لہجے میں کہا ۔۔۔کیا یہ شخص کم عقل اور کمینہ نہیں، میں جو جواب لکھوانا چاہتا ہوں وہ آپ سب سن لیں اور اپنی رائے اور مشورے دیں۔
محمد بن قاسم نے انہیں بتایا کہ وہ کیا لکھنا چاہتا ہے، سب نے مشورہ دیا کہ ایسے شخص کو شریفانہ جواب نہیں ملنا چاہیے ،سب نے جو مشورے دیے ان سے پیغام تیار ہوا ،محمد بن قاسم نے کاتب کو بلا کر پیغام لکھوایا یہ خط بھی تاریخوں میں محفوظ ہے، جو اس طرح ہے۔
یہ خط اس محمد بن قاسم ثقفی کی طرف سے ہے جو شرکش اور مغرور مہاراجوں اور بادشاہوں کا سر نیچا کرنا جانتا ہے ،اور جو مسلمانوں کے خون کا انتقام لیے بغیر نہیں رہتا ہے، تو کافر، جاھل ،مغرور، اخلاق کا منکر اور اپنی سگی بہن کا خاوند ہے ،اور جسے احساس نہیں کہ وقت اور زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور حالات تکبر اور غرور کو کچل دیتے ہیں،،،،،
تم نے جہالت اور حماقت سے جو لکھا ہے وہ میں نے پڑھا ہے، اس میں سوائے تکبر و غرور اور چھچھورے پن کے کچھ بھی نہیں ،مجھے اس سے بھی واقفیت ہوئی کے تمہارے پاس طاقت ہے ہتھیار ہیں اور ہاتھی بھی ہیں، میں نے سمجھ لیا کہ تم انہی چیزوں پر بھروسہ کرتے ہو، میرے پاس طاقت بھی کم ہے اور ہاتھی بھی نہیں لیکن ہماری سب سے بڑی طاقت خداوند تعالی کا کرم اور فضل ہے،،،،،
آئے عاجز انسان سواروں، ہاتھیوں ،اور لشکر پر کیوں ناز کرتا ہے، ہاتھی تو ایک کمزور اور انسان جیسا عاجز جانور ہے جو ایک مچھر کو بھی اپنے جسم سے نہیں ہٹا سکتا ،اور تم میرے جن گھوڑوں اور سواروں کو اپنے ملک میں دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے ہو وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق فتح انہیں کے لیے لکھی گئی ہے، اور یہی غالب آئیں گے کیونکہ یہ اللہ کی جماعت ہے (حزب اللہ) ہیں،،،،،،،
ہم تمھارے ملک پر لشکر کشی کبھی نہ کرتے لیکن تمہاری بداعمالیوں ،اسلام دشمنی ،اور تکبر نے ہمیں مجبور کر دیا ہے، تم نے سراندیپ کے مسلمانوں کے بحری جہاز کو روک کر ان کو لوٹا اور پھر ان کو قید کر لیا حالانکہ خلیفۃ المسلمین کی برتری اور حکومت کو دنیا کے تمام ملک تسلیم کرتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین نبوت کا نائب ہوتا ہے۔
صرف تم ہو جس نے سرکشی کی اور ہمارے ساتھ دشمنی شروع کی ،تم بھول گئے تھے کہ تمہارے باپ دادا ہماری خلافت کو خراج ادا کرتے تھے جو تم نے روک دیا ہے، پھر تم نے بیہودہ حرکتیں کیں اور دوستانہ تعلقات رکھنے کی بجائے دوستی کے منکر ہوئے اور پھر تم نے اپنی اشتعال انگیز حرکتوں کو جائز سمجھا، تمہاری کرتوت کو دیکھتے ہوئے مجھے خلافت سے حکم ہوا کہ تمھیں سبق سکھاؤں مجھے یقین ہے کہ میرا اور تمہارا مقابلہ جہاں کہیں بھی ہو گا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے جو ظالموں اور مغرورں کو مغلوب کرنے والا ہے تم پرغالب آؤں گا، اور تم ذلت کا منہ دیکھو گے تمہارا سر کاٹ کر عراق بھیجوں گا یا اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا،،،،،،،
جسے تم اپنے ملک پر لشکر کشی کہتے ہو یہ ہمارے لئے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،میں نے یہ فرض اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی کے لئے قبول کیا ہے، اور میں اسی کی ذات کے فضل و کرم کا طلبگار ہوں وہی مجھے فتح عطا فرمائے گا۔
یہ پیغام راجہ داہر کے ایلچی کو دے کر رخصت کر دیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
آج سندھ کے زمینی خدوخال وہ نہیں رہے جو آج سےایک ہزار دو سو سال پہلے تھے، دریائے سندھ نے بارہا اپنا راستہ بدلا ہے آج یہ بتانا ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم کے دور میں سندھ کا راستہ کیا تھا، کون کون سی بستیاں اس کنارے اور کون سی اس کنارے تھیں ،اس وقت کی متعدد بستیوں اور قصبوں کے نام و نشان بھی نہیں رہے۔
دریائے سندھ کے معاون دریا بھی تھے یہ سب اب خشک نالے بن چکے ہیں ،چھوٹی بڑی ندّیاں بھی تھیں ان میں ایک ساکرہ نالہ بھی تھا جس کی گہرائی بڑی کشتیوں کے لئے کافی تھی۔
ایسے ہی برہمن آباد اس دور میں ایک شہر ہوا کرتا تھا راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سینا کو اس کے دستوں کے ساتھ برہمن آباد بھیج دیا تھا ،آج اس شہر کے کہیں کھنڈرات بھی نظر نہیں آتے، بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ یہ آج کا منصورہ ہے، مختلف مورخوں کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برہمن آباد منصورہ سے سات آٹھ میل دور ہوا کرتا تھا۔
یہ تو گمنام بستیاں تھیں جو زمانے کی ریت میں دب گئی، لیکن ایسی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہو کر جو مر کر بھی زندہ رہتی ہیں یہ بستیاں اپنا نام و نشان مٹا کر بھی زندہ ہیں، ان بستیوں سے وہ مجاہد گزرے تھے جو سینوں میں اللہ کا پیغام لے کر بڑی دور سے آئے تھے، وہ کفر کی تاریکیوں میں اسلام کا نور بکھیرتے گئے تھے، ان میں سے بہت سے لوٹ کے نہیں آئے تھے وہ اللہ کی راہ میں خاک و خون میں تڑپے اور سندھ کی ریت کے ذروں کے ساتھ ریت ہوگئے تھے ،اللہ کی راہ ان بستیوں میں سے گزرتی تھی انہی کے صدقے ان بستیوں کے نام آج بھی زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے۔
اس وقت جب راجہ داہر دو سو بیس میل دور اروڑ میں اپنے بیٹے جے سینا سے کہہ رہا تھا کہ یہ جنگ اب دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی نہیں یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے۔ اُس وقت دیبل میں محمد بن قاسم جمعہ کے خطبے میں کہہ رہا تھا کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں آئے تھے وہ پورا ہو چکا ہے، ہم نے قیدی رہا کرانے ہیں سندھ کی فوج کو سزا بھی دے لی ہے اور مال غنیمت، جزئے، اور جنگی قیدیوں کی صورت میں راجہ داہر سے ہرجانہ بھی وصول کر لیا ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش کرو کے ہم پر ایک اور فرض عائد ہو گیا ہے،
ہم نے دیکھا ہے کہ اس مندر کا گنبد ٹوٹا اور جھنڈا گرا تو ان لوگوں کے حوصلے ختم ہوگئے محمد بن قاسم نے خطبے میں کہا۔۔۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک جھنڈا لہرا رہا ہے انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی یہ لوگ دیوتا پرست اور بت پرست ہیں، ان کے دل اللہ کے نام سے بے بہرہ اور خالی ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ سب سے بڑی قوت اللہ ہی، انہیں کسی نے بتایا نہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ انھیں ذہن نشین کرایا جائے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ کے بندے ہو کر یہ اللہ کے نام سے بھی واقف نہیں، ان کا خدا یہ جھنڈا تھا ہم انہیں خدا سے روشناس کرائیں گے، یہ ملک بت خانہ ہے۔
اور جب راجہ داہر اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والوں پر قہر نازل ہوگا ،اُس وقت محمد بن قاسم کہہ رہا تھا کہ ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بتائیں کہ جن دیوتاؤں اور دیویوں کے تم بت اور مورتیاں بنا کر پوجتے ہو وہ اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکی کو بھی نہیں اڑا سکتے۔
تم اس ملک کے لوگوں سے جہاں بھی ملو ان کے ساتھ پیار، محبت اور تعظیم سے پیش آؤ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور انہیں بتاؤں کہ خدا ہم سب کا خالق ہے لیکن تم نے اپنے خداؤں کی تخلیق اپنے ہاتھوں کی ہے ،اگر ہم یہ کام نہیں کرتے تو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جسے گمراہ دیکھو اسے صراط مستقیم دکھاؤ ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اندھے کو ٹھوکریں کھاتا دیکھتے ہو تو اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس راستے پر ڈال دیتے ہو ،جس پر ٹھوکریں نہیں لگتیں۔
راجہ داہر اسے دو مذہبوں کی جنگ کر رہا تھا، تو محمد بن قاسم نے بھی اسے حق و باطل کا معرکہ بنا دیا تھا، اس نے حجاج بن یوسف کو اطلاع دے دی تھی اور حجاج کا اجازت نامہ بھی آ گیا تھا ،اور حجاج نے اسے لکھا تھا کہ وہ کمک اور رسد بھیج رہا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
محمد بن قاسم کے اپنے جاسوس بھی تھے اور ان کے ساتھ دیبل کے چند آدمی مل گئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا ،ان کے علاوہ علافی نے محمد بن قاسم کو درپردہ اپنے چار آدمی دے دیے تھے جو اس خطے کی زبان بولتے اور سمجھتے تھے ،محمد بن قاسم نے انہیں آگے بھیج رکھا تھا اور کچھ جاسوس نیرون کے اندر بھی تھے، شعبہ جاسوسی کا سالار شعبان ثقفی بھی بہروپ میں نیرون تک ہوا آیا اور اردگرد کا علاقہ دیکھ آیا ان کی رپوٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ راجہ داہر باہر آکر نہیں لڑنا چاہتا، اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا تھا کہ وہ باہر آ کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ،محمد بن قاسم جانتا تھا کہ راجہ داہر اِس دور دراز علاقے میں کھلے میدان کی جنگ لڑے گا جہاں تک پہنچتے محمد بن قاسم کی فوج پیش قدمی اور محاصروں کی تھکی ہوئی ہو گی، اور شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے اس کی نفری بھی کم ہو چکی ہو گی، اور یہ فوج دیبل کی بندرگاہ سے بہت دور ہو گی، اس طرح سندھ کی فوج نے محمد بن قاسم کی فوج کے رسد اور کمک کے راستے کاٹ دینے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو دشمن کی اس نیت سے آگا ہ کر دیا۔
آپ تجربے کار ہیں ۔۔۔اس نے سالاروں سے کہا ۔۔۔رسد اور کمک کو رواں اور محفوظ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم سندھ کے راجہ کے دارالحکومت اروڑ تک کچھ قلعے فتح کر لیں کچھ بستیاں لے لیں اور ان میں اپنی تھوڑی نفری چھوڑتے جائیں جو گشت کے ذریعے رسد اور کمک کی آمدورفت کو محفوظ رکھے۔
آگے سے آنے والے جاسوسوں نے اگلے قلعے کی رپورٹ دی تھی جن کے مطابق آگے ایک مقام سیسم تھا اور اس سے آگے نیرون (حیدرآباد) تھا محمد بن قاسم کی منزل نیرون تھی وہاں تک کا فاصلہ اس وقت کی پیمائش کے مطابق پچیس فرسنگ تھا ایک فرہنگ ساڑھے پانچ میل کے لگ بھگ ہوتا تھا۔
ایک چھوٹا دریا جس کا نام ساکرا تھا دیول کے قریب سمندر میں گرتا تھا ،اور نیرون کے قرب وجوار سے گزر کر آتا تھا ،محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجنیقیں کشتیوں میں لاد کر کشتیاں دریائے ساکرا میں جو ساکرا نالہ کہلاتا تھا لائی جائیں، ان کے علاوہ بے شمار رسد اور دیگر جنگی سامان بھی کشتیوں میں لاد نے کا حکم دیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
چند ہی دنوں بعد کشتیوں کا ایک بیڑہ دیبل سے نیرون کی طرف ساکرا نالے میں جا رہا تھا، ان میں بادبانی کشتیاں بھی تھیں اور چپو والی بھی، ان میں تیر انداز بھی جارہے تھے کہ دشمن حملہ کرے تو اسے دریا کے قریب نہ آنے دیا جائے، دریا کے دونوں کنارے کے ساتھ گھوڑسوار جا رہے تھے یہ اس بیڑے کی حفاظت کا انتظام تھا۔
باقی فوج جاسوسوں کے بتائے ہوئے راستے پر جا رہی تھی، گائیڈ ساتھ تھے شعبان ثقفی نے اپنے آدمی آگے اور دائیں اس مقصد کے لئے بھیج دیے تھے کہ کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اسے پکڑ لیں، کوشش کی جارہی تھی کہ نیرون تک یا داہر تک اسلامی فوج کی پیشقدمی کی اطلاع نہ پہنچ سکے ،لیکن یہ ممکن نہیں تھا، یہ دریا تھا اور دریا کے کنارے چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن کی آبادی نے فوج کو جاتے دیکھا ،کئی آدمی دریا کے کنارے ملے وہ دیہاتی اور سادہ لوح لوگ تھے۔
موسم سخت گرم تھا ساون کی برسات ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، یہ عرب کی فوج تھی جو عرب کی گرمی کی عادی تھی اور ریگستان بھی ان کے لیے نیا اور تکلیف دے نہیں تھا ،لیکن سندھ کی گرمی کچھ اور قسم کی تھی۔
کشتیاں سیسم کے مقام پر پہنچ گئیں کچھ وقفے سے فوج بھی پہنچ گئی محمد بن قاسم نے وھاں پڑاؤ کا حکم دیا ،گرمی جلا رہی تھی کشتیوں کو بھی وہیں روک لیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
رات کے وقت بصرہ سے ایک قاصد آیا ،وہ خشکی کے راستے آیا تھا ،پہلے دیبل گیا وہاں سے اسی راستے پر چل پڑا جس راستے پر فوج جا رہی تھی، آخر سیسم کے مقام پر محمد بن قاسم تک پہنچا وہ حجاج بن یوسف کا پیغام لایا تھا حجاج نے لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ؛
حجاج بن یوسف کی طرف سے سالار محمد بن قاسم کے نام ،ہمارے دلی ارادوں کا اور ہماری ہمت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمہیں ہر حال میں فتح و نصرت حاصل ہو اور انشاءاللہ تم فتحیاب ہوکر واپس آؤ گے، اور اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین کا دشمن اس دنیا میں سزا پائے گا، اور اپنے بت کے عذاب میں ہمیشہ پڑا رہے گا ،ایسا خیال کبھی دل میں نہ لانا کے دشمن کے ہاتھی، گھوڑے، زروجواہرات اور اس کا تمام مال و اسباب تمہاری ملکیت میں آجائے گا، اس کی بجائے کیا یہ بہترین نہیں کہ تم اپنے رفیقوں اور تمام مجاہدین کے ساتھ پر مسرت زندگی بسر کرو ،لالچ نہیں رکھو گے تو تمہاری زندگی پر مسرت ہوگی،،،،،،،
تمہارا وصول یہ ہو کہ ہر کسی کی تعظیم و تکریم کرو ،اور چھوٹے بڑے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،دشمن کے ملک پر فتح پا کر بھی اس ملک کے لوگوں کو یہ یقین دلاوں کے یہ ملک تمہارا ہے، جب کبھی کوئی قلعہ فتح کرو تو اس میں سے ضروریات کی جو بھی چیزیں ملیں وہ اپنے پاس نہ رکھا کرو، یہ سب اپنے لشکر پر اور فوج کو تیار کرنے پر صرف کرو، اگر کوئی شخص کھانے پینے کی چیزیں زیادہ رکھتا ہے تو اس سے مت چھینو اور اس کو مت ٹوکو،،،،،،
کس شہر کو فتح کرو وہاں اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دو ،جو مال و اسباب خصوصا غلہ دیبل میں پڑا ہے وہ فوج کی رسد کے طور پر استعمال کرو، ایسا نہ ہو کہ وہ دیبل میں ذخیرے کے طور پر پڑا رہے اور خراب ہو جائے، جو شہریاخطہ فتح کر لو سب سے پہلے اس کا مضبوط کرو اور پھر دیکھو کہ وہاں کے لوگ بغیر خوف و ہراس کے مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں ،مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی دلجوئی کرو اور پوری کوشش کرو کہ وہاں کے کسان دیگر پیشہ ور لوگ اور تاجر آسودہ حال ہوں، اور وہاں کی کھیتیاں ویران نہ ہو جائیں، اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ 20رجب 93 ہجری 712 عیسوی۔
حجاج بن یوسف نے اس خط میں محمد بن قاسم کے حوصلے کو تازگی بخشی، اس نے اپنے سالاروں اور کماندروں کو بلا کر یہ خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ تمام لشکر کو سنایا جائے۔
ایک دو روز قیام کرکے محمد بن قاسم نیرون کی طرف روانہ ہوا ،کشتیاں چل پڑی ساتویں روز یہ لشکر بلہار کے مقام پر پہنچا۔
یہاں پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ،دریا جس میں کشتیاں جا رہی تھی بہت پرے ہو گیا تھا اور فوج کا راستہ خاصہ دور چلا گیا تھا ،پانی کی قلت پیداہوگئی گھوڑے پیاس سے بے چین ہوتے اور ہنہناتے تھے، لشکر کی حالت بھی دگرگوں ہونے لگی ایک دو روز میں پانی کے ذخیرے کا آخری قطرہ بھی ختم ہو گیا صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ کوچ ناممکن نظر آنے لگا ،محمد بن قاسم نے دوپہر کے وقت جب زمین اور آسمان جل رہے تھے تمام لشکر کو اکٹھا کیا اور کہا کہ نماز استسقاء ادا کی جائے۔
تمام لشکر قبلہ رو ہو کر صف آراء ہو گیا امامت کے فرائض محمد بن قاسم نے ادا کیے تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اس نے رقت آمیز آواز میں دعا مانگی اس کی دعا کے الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں جو اس طرح ہیں۔
ائے اپنے گمراہ اور پریشان حال بندوں کو راستہ دکھانے والے، اے فریادیوں کی فریاد سننے والے، اپنے ان الفاظ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے صدقے ہماری فریاد سن لے۔
تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار پر ایسی رقت طاری ہوئی کے اس سے آگے اسکی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا مجاہدین کے لشکر میں سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ،متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس قدر مینہ برسا کے ریگزار سمندر کی صورت اختیار کرگیا تمام لشکر نے پانی ذخیرہ کر لیا اس سے اگلے روز محمد بن قاسم نے نیرون کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
لشکر نیرون سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا کہ ایک شتر سوار جو اسی علاقے کا مسافر معلوم ہوتا تھا سامنے سے آتا نظر آیا ،وہ سیدھا لشکر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جس حصے میں محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار چلا جا رہا تھا، وہ مسلمان جاسوس تھا اور نیرون سے آیا تھا ۔
کیا خبر لائے ہو ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے پوچھا۔
سالار اعلی!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔نیرون کا حاکم سندر شمنی نیرون سے غیر حاضر ہے۔
کہاں چلا گیا ہے
اروڑ!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بلاوے پر گیا ہے۔
شہر کے لوگ کیا کہتے ہیں؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
شہر کے لوگ نہیں لڑیں گے۔۔۔ جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ان کے راجہ نے نیرون کی فوج کے حاکم کو بدل ڈالا ہے ،فوج شہر کے لوگوں کو ڈراتی پھر رہی ہے کہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے تو لوٹ مار کریں گے، اور بچوں اور خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، اور وہ کسی گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے غلہ بھی اکٹھا کرکے خود کھا لیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج مقابلہ کرے گی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہاں سالار اعلی!،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔فوج مقابلے کے لیے تیار ہے۔
محمد بن قاسم نے پیشقدمی تیز کرکے نیرون شہر کو محاصرے میں لے لیا ،اور اس طرح کے اعلان شروع کردیئے کہ فوج نے قلعہ ہمارے حوالے نہ کیا اور ہم نے قلعہ لے لیا تو کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مورخ لکھتے ہیں کہ نیرون کے حاکم سندرشمنی کی اروڑ میں طلبی ایک سازش تھی ،راجہ داہر نے اس اطلاع پر کے مسلمان کی فوج نیرون کی طرف بڑھ رہی ہے سندر شمنی کو ایک ضروری کام کے بہانے اروڑ بلا لیا، پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نیرون کے اس حاکم نے راجہ داہر کو بتائے بغیر حجاج بن یوسف کی طرف اپنا وفد بھیج کر دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا، اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی تھی، حجاج نے اسے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ جب نیرون پہنچے گا تو اسے شہر کے دروازے کھلے ہوئے ملیں گے، لیکن محمد بن قاسم کے لیے شہر کے دروازے بند تھے ،اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ منجیقوں سے شہر پر سنگباری کریں یا نہ کریں، سنگ باری سے شہریوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ،جاسوس نے بتایا تھا کہ شہری نہیں لڑنا چاہتے لیکن فوج ان پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اروڑ میں راجہ داہر نے سندرشمنی کو ویسے ہی روکا تھا ،اسے توقع تھی کہ اس نے نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم سالار بھیجا ہے وہ مسلمانوں کے محاصرے کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ایک صبح راجہ داہر نے سندرشمنی کو بلایا پتہ چلا کہ سندرشمنی کمرے میں نہیں ہے ،اسے ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن وہ نہ ملا ،وہ ملتا بھی کہاں اس وقت وہ اروڑ سے بہت دور پہنچ چکا تھا، اس کے گھوڑے کی رفتار خاصی تیز تھی، اس کے محافظ بھی اروڑ سے لاپتہ تھے۔ وہ سب اس کے ساتھ نیرون کو جا رہے تھے۔
سندر شمنی کے محافظ دراصل عرب کے مسلمان تھے جنہیں شعبان ثقفی نے بھیجا تھا وہ وہاں کی زبان روانی سے بولنے لگے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ آدھی رات کے لگ بھگ محمد بن قاسم کے ایک جاسوس کو محمد بن قاسم کے کہنے پر اروڑ بھیجا گیا تھا، اسے زبانی سندر شمنی کے لئے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نیرون میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس میں ہم کیا کریں، جاسوس کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ اس نے سندر شمنی کے ساتھ کیا بات کرنی ہے۔
جب یہ جاسوس سندر شمنی کے پاس اروڑ پہنچا اور اسے پیغام دیا تو اس وقت سندر شمنی کو خیال آیا کہ راجہ داہر نے اسے نیرون سے دور رکھنے کے لئے اروڑ میں پابند کر رکھا ہے، وہ اسی وقت اٹھا اور نہایت خاموشی سے اپنے محافظوں سے کہا کہ وہ اس طرح اپنے گھوڑوں کو باہر لائیں کہ کسی کو شک نہ ہو۔
کسی کو شک ہو یا نہیں انہیں اروڑ سے نکلنا تھا اور کم سے کم وقت میں نیرون پہنچنا تھا۔ وہ جب نیرون پہنچے اس وقت سورج بہت اوپر آچکا تھا سندر شمنی محاصرے میں سے گزر کر شہر کے ایک دروازے پر آیا ،محاصرہ ابھی خاموش تھا مسلمان فوج نے کوئی کارروائی شروع نہیں کی تھی ،کئی دن گزر گئے تھے۔
اپنے حاکم کو دیکھ کر اندر کی فوج نے دروازہ کھول دیا۔
سندرشمنی نے دروازہ بند نہ کرنے دیا اس نے اپنے ایک محافظ کو محمد بن قاسم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ آؤ اور شہر میں داخل ہو جاؤ۔
فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ سندر شمنی نے محمد بن قاسم کا شاہانہ استقبال کیا بیش قیمت تحفے بھی پیش کئے، اور مسلمان فوج کو شہر میں داخل کر کے اعلان کیا کہ معاہدے کے مطابق نیرون کے لوگ محمد بن قاسم کے وفادار رہیں گے۔
یہ خطرہ نظر آ رہا تھا کہ نیرون کی فوج مزاحمت کرے گی لیکن شہر کے لوگوں نے ایسی پرمسرت اور ہنگامہ خیز فضا پیدا کردی کہ فوج کچھ بھی نہ کرسکی، اس فوج کے حاکم نے یہ ضرور سوچ لیا ہو گا کہ اس نے کوئی مزاحمت کی تو مسلمانوں کی فوج اور خود نیرون شہر کے لوگ نیرون کی فوج کے ایک سپاہی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

**

*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 14 میں پڑھیں*

**

*[صدقہ جاریہ کے لئے یہ تحریر شئیر ضرور کریں]*

Address

Kot Jabbi
Rawalpindi
46000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ghulam Jillani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ghulam Jillani:

Videos

Share