Atheism In Pakistan

Atheism In Pakistan Promoting atheism in Pakistan exposing so called atheist secular
(2)

ہزاروں فیمنسٹ عورتیں مل کر بھی ان خواتین کے قدموں کی دھول تک نہیں بن سکتیں۔۔۔ جنہوں نے حالات کا رونا رونے کی بجائے علم ک...
15/04/2024

ہزاروں فیمنسٹ عورتیں مل کر بھی ان خواتین کے قدموں کی دھول تک نہیں بن سکتیں۔۔۔
جنہوں نے حالات کا رونا رونے کی بجائے علم کی شمع جلائے رکھی۔۔۔۔ چاہے حفظ قرآن کریم ہو یا ریاضی کے فارمولے۔۔۔۔۔ انہوں نے مدرسہ و مکتب اس جھونپڑی میں بھی آباد کر لیے۔۔۔۔
حالت جنگ میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا۔۔۔۔ ان کے پاس تو ہزار تاویلیں موجود ہیں بچوں کی تعلیم و تربیت سے بری الزمہ ہونے کی۔۔۔
نہ عمارت، نہ فرنیچر۔۔۔۔ کسی کا باپ تو کسی کا بھائی کسی کا بیٹا تو کسی کا شوہر۔۔۔۔ اس ظلم کی نظر ہوگیا مگر اپنے دل کو مظبوط کیے یہ خواتین اپنی نسل کو اچھا مسلمان بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔۔۔
میرے پاس کئی کیسسز آتے ہیں کہ
جی بچوں کی تربیت نہیں کر سکتے جوانٹ فیملی سسٹم ہے نا۔۔۔۔
بچوں کی تربیت نہیں کر سکتے شوہر ساتھ نہیں دیتے نا۔۔۔۔
بچوں کی تربیت کیسے ہو گھر کے کام ہی ختم نہیں ہوتے نا۔۔۔
کیسے سنبھالوں بچوں کو اتنی بیمار رہتی ہوں نا۔۔۔۔
پھر وہ ہی رونے، دھکڑے۔۔۔۔ کہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔۔
درحقیقت جو کرنا چاہے تو راستے ہزار اور جو نہ کرنا چاہے اس کے پاس بہانے ہزار۔۔۔۔۔
سرزمین انبیاء کی خواتین نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایمان کے بہترین درجات پر فائض ہیں۔۔۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جب عورت تدریس و تربیت کا بیڑا اٹھا لے تو حالات چاہے کیسے بھی ہوں وہ ہار نہیں مانتی۔
باہمت و جذبہ ایمانی سے سرشار یہ بہادر خواتین ہمارے لیے مثالی نمونہ ہیں۔
اللہ ان خواتین کی قربانیاں قبول فرمائے اور ان کے صدقے میں امت کی تمام خواتین کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
فیض عالم ✍️

12/04/2024

*پرابلم آف ایول یا دنیا میں برائی, نا انصافی،ظلم کا مسلہ*
خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے جو باتیں کہی جاتی ہیں ، ان میں سے ایک وه ہے جس کو پرابلم آف ایول (problem of evil) یا سفرنگ )suffering(کہا جاتا ہے – یہ اعتراض صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے وه یہ کہ انسانی زندگی میں جو سفرنگ ہےوه تمام تر مین میڈ ہےمگر اس کو غلط طور پر گاڈ میڈ سمجھ لیا گیا ہے – انسانی زندگی میں سفرنگ کے حوالے سے جو کچھ کہا جاتا ہے ، وه اسی غلط انتساب کا نتیجہ ہے –
اس غلط فہمی کا اصل سبب یہ ہے کہ لوگ جب کسی انسان کی زندگی میں سفرنگ کے واقعہ کو دیکهتے ہیں تو وه اسی انسان کے حوالے سے اس کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں – چونکہ اکثر مثالوں میں خود اسی مبتلا انسان کے اندر اس کی توجیہہ نہیں ملتی ، اس لیے اس سفرنگ کو لے کر وه یہ کہنے لگتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ، یا اگر ہے تو ظالم اور غیر منصف خدا ہے ، مگر یہ انتساب بجائے خود غلط ہے –
انسان کی زندگی میں جو سفرنگ پیش آتی ہے ، اس کا سبب کبهی انسان خود هوتا ہے اور کبهی اس کے والدین هوتے ہیں اور کبهی اس کا سبب وه سماج هوتا ہے جس میں وه ره رہا ہے اور کبهی وسیع تر معنوں میں اجتماعی نظام اس کا ذمے دار هوتا ہے – اسی کے ساته کبهی کوئی سفرنگ فوری سبب سے پیش آتی ہے اور کبهی اس کے اسباب پیچهے کئ پشتوں تک پهیلے هوئے هوتے ہیں –
غلط ریفرنس میں مطالعہ:
حقیقت یہ ہے کہ مزکوره شبہے کا سبب ، اصل صورت حال کا غلط ریفرنس میں مطالعہ ہے ، یعنی جس ظاہرے کو انسان کی نسبت سے دیکهنا چاہئے ، اس کو خدا کی نسبت سے دیکهنا – حالانکہ یہ سائنسی حقائق کے سرتاسر خلاف ہے –
مثال کے طور پر موجوده زمانے میں ایڈز کا مسئلہ ایک خطرناک مسئلہ سمجها جاتا ہے – مگر خود طبی تحقیق کے مطابق ، یہ انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے – میڈیکل سائنس میں یہ مستقل نظریہ ہے کہ کئ بیماریاں اجداد سے نسلی طور پر منتقل هوتی ہیں – ایسی بیماریوں کو اجدادی بیماری کہا جاتا ہے – اسی طرح مختلف قسم کی وبائیں پهیلتی ہیں جس میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، یا خرابی صحت کا شکار هو جاتے ہیں – یہ بهی خود طبی تحقیق کے مطابق ، انسان کی اپنی پیدا کرده هوتی ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانی سفرنگ کو نیچر سے منسوب کرنا ، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے – سائنس کی تمام شاخوں کا مطالعی بتاتا ہے کہ نیچر مکمل طور پر خرابیوں سے پاک ہے – نیچر اس حد تک محکم ہے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی طور پر اندازه کیا جا سکتا ہے – اگر نیچر کے اندر قابل پیشن گوئی کردار نہ هو تو سائنس کی تمام سرگرمیاں اچانک ختم هو جائیں گی –

تقابلی مطالعہ
پرابلم اف ایول کے اس معاملے کا علمی مطالعہ کرنے کا پہلا اصول وه ہے جس کو تقابلی طور پر سمجهنا کہا جاتا ہے – تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ محدود طور پر صرف انسانی دنیا کا مسئلہ ہے ، جب کہ انسان پوری کائنات کے مقابلے میں ایک بہت ہی چهوٹے جز کی حیثیت رکهتا ہے – بقیہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساته مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات ہے – کائنات میں بے شمار سرگرمیاں ہر آن جاری رہتی ہیں ، لیکن اس میں کہیں بهی کوئی خرابی (evil) دکهائی نہیں دیتی –
انسانی دنیا میں بیماریاں ہیں ، انسانی دنیا میں حادثات ہیں ، انسانی دنیا میں ظلم ہے ، انسانی دنیا میں کرپشن ہے ، انسانی دنیا میں بے انصافی ہے ، انسانی دنیا میں استحصال ہے ، انسانی دنیا میں لڑائیاں ہیں ، انسانی دنیا میں نفرت اور دشمنی ہے ، انسانی دنیا میں سرکشی ہے ، انسانی دنیا میں فسادات ہیں ، انسانی دنیا میں جرائم ہیں ، اس قسم کی بہت سی برائیاں انسانی دنیا میں پائی جاتی ہیں ، لیکن انسان کے سوا ، بقیہ کائنات اس قسم کی برائیوں سے مکمل طور پر خالی ہے – یہی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ برائی کا مسئلہ خود انسان کا پیدا کرده ہے نہ کہ فطرت کا پیدا کرده – اگر یہ مسئلہ فطرت کا پیدا کرده مسئلہ هوتا تو وه بلاشبہہ پوری کائنات میں پایا جاتا –

سائنٹفک مطالعہ
اس معاملے کا سائنٹفک مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا اور بقیہ کائنات میں ایک واضح فرق ہے ، وه یہ کہ بقیہ کائنات حتمی قسم کے قوانین فطرت سے کنٹرول هو رہی ہے – اس کے برعکس ، انسان آزاد ہے اور وه خود اپنی آزادی سے اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے – یہی فرق دراصل اس چیز کا اصل سبب ہے ، جس کو برائی کا مسئلہ کہا جاتا ہے –
اس معاملے کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کی تمام برائیاں ، انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں – میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ بیماریوں کا سبب نیچر میں نہیں ہے ، بلکہ وه انسان کی اپنی غلطیوں میں سے ہے – یہ غلطیاں کبهی مبتلا شخص کی اپنی پیدا کرده هوتی ہیں ، کبهی باپ داد کی وراثت اس کا سبب هوتی ہے ، کبهی اجتماعی نظام کا کرپشن بیماریوں کے اسباب پیدا کرتا ہے – یہ بات بے حد قابل غور ہے کہ بیماری کو نیچر سے جوڑنا ملحد مفکرین کا نظریہ ہے ، وه کسی سائنٹفک دریافت پر مبنی نہیں – اسی طرح جنگیں ، گلوبل وارمنگ ، قحط سالی، بیماریاں ، ظلم، مختلف قسم کی کثافت ، فضائی مسائل )ecological problems( وغیره ، سب کے سب انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں -انکا ذمہ دار خدا کو قرار دینا جہالت ہے.

الرسالہ

12/04/2024

گوجرانوالہ

کرسچن داما کا گھریلو ناچاقی پر اپنے سسر (چرچ پاسٹر) پر توہین قرآن پاک کا غلط الزام لگانے کا معاملہ

گوجرانوالہ پولیس نے توہین قران پاک کا غلط الزام لگانے والے داماد کو گرفتار کرلیا

28/03/2024


28/03/2024

مولوی سے دشمنی بے سبب نہیں
اس لیے ہے کہ ؛
🔴 برصغیر میں انگریزی قبضے کے خلاف سب سے مضبوط آواز مولوی کی تھی جس کے فتاوی کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند ہوا آزادی کی تحریک شروع ہوئی
جبکہ
اس دور میں سرسید احمد خان جیسے انگریزوں کے ٹٹو مسلم قوم کو انگریزوں کی غلامی کا ہاٹ پڑھا رہے تھے
🔴 انگریز کے پیدا کیے ہوئے فتنہ قادیانیت کے پھلنے پھولنے اور انگریز کی مرضی کے دین کی راہ میں واحد رکاوٹ مولوی تھے جن کی وجہ سے قادیانیت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آیا اور اس فتنے کو زیادہ پھیلنے کا موقع نہ مل سکا

یہ دو بڑی وجوہات تھیں جو مولوی کے خلاف پروپیگنڈے کا باعث بنیں ۔۔۔ اول انگریز نے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور دوم قادیانی مربیوں نے انہیں اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ جانتے ہوئے ان کے خلاف زہر اگلا

ان دونوں کے مفادات پر مولوی کے وجود کی وجہ سے ضرب پڑتی تھی اس لیے یہ مولوی کے خلاف تھے۔۔۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ؛؛؛
ہمارے ہاں کے دینی علوم سے نابلد طبقے کو مولوی سے اتنی مخاصمت کیوں ہے ؟

تو اس کی وجہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں

یہ متجدد طبقے مولوی کے اس لیے خلاف ہیں کہ ؛

🔶 مولوی ان کی مرضی کا دین بیان نہیں کر سکتا
اور
🔘 مولوی کے ہوتے ہوئے یہ اپنی مرضی کا دین بیان نہیں کر سکتے ۔۔۔!

✍️مُحَمّد إسحٰق قریشي ألسلطاني

28/03/2024

*🛑رد الحاد کورس🛑*
*📌 20:سیکولرازم*
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
*🛑باب نمبر:20*
*سبق نمبر5:عرب کلچر کے چند مظاہر پر چیخ وپکار مغربی کلچر خوش آمدید*
اوّل اوّل بہت خوشی ہوئی، دل نے مان کر نہ دیا کہ ایک انگریزی اخبار نے غیر ملکی تہذیبی یلغار کے ہنگام پاکستانیت کی بات کی ہے۔ اہتمام سے میں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ میرے دوست کو شکوہ تھا کہ عرب کلچر ہمیں اپنی آ غوش میں لیتا جا رہا ہے۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹیوں پر اب پاکستان کی جگہ ’ الباکستان‘ اور پنجاب کی جگہ’ بنجاب‘ لکھا ہوتا ہے۔ وہ پریشان تھے کہ عربی لہجہ ہماری پاکستانیت کو کہیں چاٹ نہ لے اور ان کے دوست رضا رومی کو کہیں ردھا رومی نہ کہا جانا لگے، معلوم نہیں رمضان المبارک میں ان کی ہم نصابی سرگرمیوں کا عالم کیا ہوتا ہے لیکن رمضان سے ان کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہیں پاکستانیوں کے رمضان کو عرب لہجے میں رمدھان کہنا نہ شروع کر دیا جائے۔ انہیں شکوہ ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی رمضان مبارک کی جگہ رمضان کریم کہا جا رہا ہے اور اس عالم کرب میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی پہچان تبدیل ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے لاہور میں ہر دوسری گاڑی پر عربی کا بھوت سوار ہے۔ وہ پوچھتے ہیں، عربی الفاظ اور تلفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہماری قومی زبان اردو موجود ہے؟ وہ سوال اٹھاتے ہیں:’’کیا یہ سب چند اشارے ہیں کہ پاکستان عربائزیشن کی طرف جا رہا ہے؟ کیا پانچ دریاؤں کی سرزمین آہستہ آہستہ ریت کے ٹیلوں، اونٹوں اور کھجور کے درختوں کے لیے جگہ بناتی جا رہی ہے‘‘؟ تاہم جب میں یہ تحریر پڑھ چکا تو اب میرے پیشِ نظر چند سوالات ہیں۔ جب تک ان سوالات کا جواب نہیں مل جاتا میرے لیے پاکستانیت کے اس نومولود ترجمان کی فکری دیانت کا قائل ہونا ممکن نہیں۔ ان سوالات کا شافی جواب ملنے تک اپنے دوست کی اس تحریر کو فکری اضطراب نہیں عصبیت کی جگالی کہا جائے گا۔
میرے دوست کی اصل تکلیف کیا ہے؟یہ کہ ایک غیر ملکی کلچر پاکستان میں آ رہا ہے یا یہ کہ عرب کلچر پاکستان میں آ رہا ہے؟اگر یہ ایک غیر ملکی کلچر کے خلاف ایک پاکستانی کا اضطراب تھا تو ہم اس کی تحسین کرتے ہیں لیکن اگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ صرف امریکی اور برطانوی کلچر آنا چاہیے تھا، عربی کلچر کیوں آ رہا ہے تو معاف کیجیے یہ ایک بیمار رویہ ہو گا اور ایسے رویوں کا علم کی دنیا میں کوئی بھرم ہوتا ہے نہ معتدل رویے ایسی سطحی اور احمقانہ باتوں کی تائید کر سکتے ہیں۔ جب ہم بیرونی کلچر کے مقابلے میں پاکستانی کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف عرب کلچر کے اثرات پر بات کیوں کی جائے؟ دیار فرنگ سے جو تہذیب لا کر ہمارے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رضا رومی تو معلوم نہیں کبھی ردھا رومی بنیں گے یا نہیں لیکن ہماری کئی یاسمینیں تو کب سے ’ جیسمین‘ بن چکی ہیں ان پر تو فاضل دوست نے کبھی مضمون نہیں باندھا کہ بی بی جیسمین رشید جب ہماری اپنی اردو موجود ہے تو انگریزی تلفظ اپنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اور یہ اپنے ندیم ایف پراچہ صاحب ندیم ف پراچہ کیوں نہیں لکھتے؟جب اردو کا ’ ف‘ موجود ہے تو انگریزی کے ’ ایف‘ کی پخ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ محترمہ ماروی سرمد صاحبہ ایک عرصے سے پورے اہتمام کے ساتھ ماتھے پر تلک لگا کر ٹی وی پروگراموں میں تشریف لاتی ہیں ان پر تو میرے دوست نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ بی بی جب پاکستانی کلچر موجود ہے تو آپ یہ بھارتی ناریوں کا فیشن کیوں کر رہی ہو۔ عرب کلچر کے صرف دو تین مظاہر دیکھ کر میرے دوست کی ’ پاکستانیت‘ جاگ اٹھی لیکن جو احباب باقاعدہ منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی تلفظ کی نقالی کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ قومی زبان کی محبت میں آج آپ شمشیر بکف ہو گئے لیکن آپ جیسے دوست جب حقارت سے دوسروں کو اردو میڈیم کہتے ہیں اس وقت آپ کی یہ ’ پاکستانیت‘ کہاں چلی جاتی ہے۔ عربوں کا چغہ پہننے سے آپ کی ’پاکستانیت‘ جاگ اٹھی لیکن جب ہمارے نوجواوں کی جینز کمر سے ایک کلو میٹر نیچے چلی جاتی ہے اس وقت آپ نہیں بولتے کہ بھائی اپنا کلچر اپناؤ۔ پینٹ پتلون پہننے والے کو کبھی یہ طعنہ آپ نے نہیں دیا کہ صاحب کیا ہو گیا ہے اپنا کلچر اپناؤ۔ جون کے مہینے میں یار لوگ پاکستان میں ٹائی لگاتے ہیں اور پتلون کوٹ پہن لیتے ہیں کبھی ان سے تو ’ مسٹر پاکستانی‘ نے نہیں کہا کہ بے وقوفو لباس تو موسم کی مناسبت سے پہن لو۔ ۔۔۔ یہ پاکستانیت آخر اس وقت ہی کیوں جاگتی ہے جب سیکولر احباب کی متعین فکر سے ہٹ کر کوئی کام ہونے لگتا ہے؟
میں ایک عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ سیکولر انتہاپسند مذہبی انتہا پسندوں سے کم جنونی نہیں بلکہ یہ ان سے کچھ زیادہ ہی خطرناک ہیں۔ یہ دو انتہائیں ہیں اور سماج کو ان دونوں سے بچنا ہو گا۔ اب جیسے جیسے وقت گذرے گا آپ کو پتا چل جائے گا کہ لبرل اور کلچرڈ کہلانے والوں کی من کی دنیا کتنی متعصب اور کتنی شدت پسند ہے۔ رچرڈ ریویز نے کہا تھا: ’’ہم امریکی اپنے مفادات کے لیے واہیات باتیں علی الاعلان کر سکتے ہیں‘‘۔ آج یہی دعوی ہمارے سیکولر انتہا پسند بھی کر سکتے ہیں۔ کل تک مذہبی طبقے کے جن دلائل پر یہ کندھے اچکا کر ’ بلڈی نان سینس‘ کہہ دیا کرتے تھے آج خود انہی دلائل سے مسلح ہو کر آ گئے ہیں۔ اس سے زیادہ واہیات بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ کل جب مذہبی طبقہ کہتا تھا انگریز کلچر سے خود کو بچانا چاہیے تو یہ سیکولر احباب کہتے تھے کلچر تو کلچر ہوتا ہے ، اور زبانیں تو ساری ہی محترم ہوتی ہیں ۔ کل جب لوگ کہتے تھے یہ ویلنٹائن ڈے ہم پاکستانیوں کا کلچر نہیں تو یہ سیکولر احباب حقارت سے کہتے تھے کلچر کو سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا یہ تو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے، لیکن آج عرب کلچر کی دو چیزیں کیا آئیں یاروں نے ہاتھ سر پر رکھ کر دہائی دینا شروع کر دی ہے۔ اس سے شرمناک رویہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یعنی جب تک چیزیں آپ کی ترجیحات کے مطابق چلتی رہیں آپ کو نہ مذہب کی پرواہ ہوتی ہے نہ پاکستانیت کی لیکن جیسے ہی آپ کے تصورات سے ہٹ کرکچھ ہونے لگتا ہے تو آپ چیخ و پکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انگریزی میں نمبر پلیٹس بنتی رہیں تو پاکستانیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا عربی میں دو چار بن گئیں تو آپ ’ نظریاتی سرحدوں کے نومولود محافظ ‘ بن کر سامنے آ گئے۔ کیا آپ ایک تہذیب کی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مقابل کوئی آئے تو آپ ’ پاکستانیت‘ کے نام پر شمشیر بکف ہو جاتے ہیں۔ یعنی تعصب کی انتہا دیکھیے ’ کے ایف سی ‘ اور میکڈونلڈ سے ان کی پاکستانیت کبھی متاثر نہیں ہوئی اور انہوں نے کبھی نہیں لکھا کہ جب پاکستان میں برائلر مرغ دستیاب ہے تو کے ایف سی ، میکڈونلڈ اور اٹالین پزا کیوں کھائیں لیکن عرب کی دو درجن کھجوروں سے انہیں تکلیف ہونا شروع ہو گئی ہے۔
اگر کسی کے پیش نظر واقعی پاکستانی تہذیب و اقدار کا تحفظ ہے تو وہ بتائے یہ جو روز فیشن شوز ہو رہے ہیں ان میں پہنے جانے ملبوسات ( اگر کچھ پہنا جاتا ہے)پاکستان کے کس علاقے کی تہذیب کے عکاس ہیں اور یہ ہمارا میڈیا ہم پر بھارتی کلچر مسلط کر رہا ہے اس کے خلاف کب آپ میدان میں آئیں گے؟ پاکستانیت کے یہ نومولود خیر خواہ بھائیوں کا نام لے لے کر یاروں کو مت روئیں۔
تحریر آصف محمود

28/03/2024

سوال:
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مہلت دی ہے تو پھر رمضان میں شیاطین کو کیوں باندھ دیا جاتا ہے؟
کیا یہ وعدہ خلافی نہیں؟

جواب:
اسلام پر اعتراضات کرنے سے پہلے اس کا مطالعہ ضروری ہے
پہلے ابلیس کی مہلت والی آیات ملاحظہ کریں

*ابلیس نے قیامت تک مہلت مانگی*
قَالَ أَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سورۃ الاعراف: آیت: 14)

اُس نے کہا : ’’ مجھے اُس دن تک (زندہ رہنے کی) مہلت دیدے جس دن لوگوں کو قبروں سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے مہلت دے دی
قَالَ إِنَّكَ مِنَ المُنظَرِينَ
(سورۃ الاعراف: آیت: 15)

ﷲ عزوجل نے فرمایا :
’’ تجھے مہلت دے دی گئی۔"

پھر ابلیس نے اپنے عزائم کا اظہار کیا

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ
(سورۃ الاعراف: آیت: 16)

کہنے لگا : اب چونکہ مجھے گمراہ کیا ہے، اِس لئے میں (بھی) قسم کھاتا ہوں کہ اِن (انسانوں) کی گھات لگا کر سیدھے راستے پر بیٹھا رہوں گا۔(تاکہ سیدھی راہ سے ہٹاؤں)

پہلی بات:
یہ مہلت ابلیس نے مانگی تھی، تمام شیاطین نے نہیں۔۔۔۔
لہذا ابلیس تا قیامت زندہ رہے گا اور اس کی فوج (شیاطین جن و انس) میں زندگی و موت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

دوسری بات:
اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کہیں نہیں فرمایا کہ ابلیس اور شیاطین کے مشن میں رکاوٹ نہیں آئے گی ۔۔۔۔
یہ خود ساختہ نسبت ہے جو سوال کرنے والے نے اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی ہے ۔۔۔
جب عدم رکاوٹ کا وعدہ اللّٰہ تعالیٰ نے کیا ہی نہیں ہے ۔۔۔
تو وعدہ خلافی کیسے ہو سکتی ہے ۔۔۔

تیسری بات:
اب رمضان المبارک والی حدیث ملاحظہ فرمائیں:

وَیُصَفَّدُ فِیْہِ کُلُّ شَیْطَانٍ مَرِیدٍ
اور اس (رمضان) میں ہر شیطان مرید (سرکش شیطان) کو باندھ دیا جاتا ہے۔
(سنن النسائی: 2110، و مسند احمد 4/ 311، 312، واسنادہ حسن)
یہ حدیث مختلف اسناد اور مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردۃ الشیاطین (سرکش شیطانوں) کو رمضان میں باندھ دیا جاتا ہے ، یہ ابلیس کی اولادیں ہیں ۔۔۔
کسی حدیث میں ابلیس کو باندھنے کا ذکر نہیں ہے

چوتھی بات:
اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو زندگی کی مہلت دی تھی ۔۔۔ ابلیس کے مشن میں رکاوٹ نہ آنے کی مہلت کہیں نہیں دی گئی ۔۔۔۔۔
لیکن
اگر بالفرض (For the sake of argument ) مان بھی لیا جائے کہ ابلیس کے مشن میں رکاوٹ بھی نہ ہو۔۔۔۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ ۔۔۔
حکومت ، عوام کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک روڈ بنا کر دیتی ہے ۔۔۔۔
سب کو کھلی اجازت ہوتی ہے کہ وہ روڈ پر چلیں آزادی سے سفر کریں۔۔۔۔
مگر
اس کے ساتھ جگہ جگہ پر چیک پوسٹ ہوتی ہے جہاں گاڑیوں کو رکنا پڑتا ہے۔۔۔۔
دنیا بھر میں کہیں بھی ان چیک پوسٹوں کو آزادی کے منافی نہیں سمجھا جاتا۔

ایسے ہی ہر سال رمضان میں گیارہ مہینے کے بعد ایک چیک پوسٹ یعنی رمضان کا مہینہ آتاہے ۔۔۔۔
جہاں مجرموں کی بھیڑ کو روک دیا جاتا ہے۔ تاکہ عام لوگوں کو نیک کام میں زیادہ سہولت مہیا ہو۔

مفتی سید فصیح اللہ شاہ

28/03/2024

بقول شاعر
اگر عورت کو آزادی نہ دو تو
"عورت مارچ"
نکال لیتی ہے ۔۔۔

اور اگر آزادی دو تو خلیل الرحمن قمر کی۔۔۔

"دو ٹکے والی عورت"

بن جاتی ہے۔۔

جی ناظرین ایک مزید ای بنت E-BINT یا حجابی ٹک ٹاکر یا حجابی فیمینسٹ کا خلاصہ ہوگیا ۔۔۔
اچھا خاصا گھر تھا دو اولادیں بھی تھی محبت کرنے والا شوہر تھا ۔۔۔
میڈم ٹک ٹاک پر لائیو بیٹھتیں تھیں اور ایک امریکن بزنس مین کڑوڑوں روپے کی گفٹنگ کرتا تھا-
اپنے شوہر سے طلاق لی ، اولاد بھی پیچھے چھوڑ دی اور اب اُسی گفٹر سے دوسری شادی کرلی-
مسئلہ یہ ہے کہ جو لڑکیاں جن کا ہنستا بستا گھر ہے اور وہ اس ڈائن (کوئین دارو) کی فالورز ہیں ۔۔۔
وہ تو یہیں سوچیں گیں ۔۔۔
یہ کرنا بلکل ٹھیک ہے اور عام سی بات ہے؟

ان کے دلوں میں تو ایک امید پیدا ہوگئی ۔۔۔۔
(کیونکہ یہ فالوورز اتنے عقل سے فارغ ہوتے ہیں ۔۔۔
کہ ان کی بناوٹی زندگی کو ۔۔۔۔
حقیقی زندگی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
جیسے ہمارے نوجوان ۔۔۔
رات کو جو فلم دیکھتے ہیں ۔۔۔
صبح اپنے آپ کو اسی فلم کا ہیرو سمجھتے ہیں ۔۔۔)

دولت کی ہوس میں یہ ٹک ٹاکر یہاں تک بھی بھول گئی۔۔۔
اس کے دو بچے ہیں اور پہلا شوہر نہ کنگلا ہے اور نہ دنیاوی اعتبار سے غیر ذمہ دار ، ۔۔۔
اسے اپنے ساتھ جرمنی لے کر آیا ، اسے پہچان دی ۔۔۔۔
( مذہبی لحاظ سے بے غیرت)

مگر افسوس۔۔۔ شوہر سے وفا نہیں کر سکی۔۔۔

اس لئے کہتے ہیں ۔۔۔
عورت کو پردے میں رکھو۔۔۔
جب اسے زیب و زینت کیساتھ دوسروں سے متعارف کرواؤ گے ۔۔۔
تو یقیناً کئی گندی نظریں اسکی طرف اٹھیں گی ۔۔۔۔
اور کوئی زیادہ پیسے والا ۔۔۔
آپ سے زیادہ "دام" لگا کر لے جائے گا ۔۔۔۔
یعنی عورت اب بکنے والا مال بن جائے گی ۔۔۔۔
اسے گھر کی عزت بناؤ ۔۔۔
نہ کہ بازاری آئٹم ۔۔۔۔

28/03/2024

*🛑رد الحاد کورس🛑*
*📌 20:سیکولرازم*
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
*🛑باب نمبر:20*
*سبق نمبر6:سیکولرازم کے مسلم حامیوں کے ساتھ ایک مکالمہ*
سیکولر فکر کے مضمرات کیا ہیں؟ انہیں واضح کرنے کے لیے مکمل تحریر کے بجائے یہاں سوال و جواب کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس گفتگو میں “مدعی” پاکستانی مسلم سیکولر ہیں اور “مبصر” ہم۔ نیز اس تمام گفتگو میں “مبصر” نے ایک “داخلی طور پر ہم آہنگ” اور “سیکولر فکر کے مضمرات سے واقف” مدعی کو فرض کیا ہے۔ یہ جو “شوقیہ مدعی” ہیں، ان سے گفتگو بہرحال محال ہے۔
٭٭٭٭
مدعی: آئین پاکستان کی اسلامی حیثیت ختم کرنا چاہیے.
مبصر: کیوں؟
مدعی: اس لیے کہ اس سے غیر مسلم اقلیتوں کے عادلانہ حقوق پامال ہوتے ہیں.
مبصر: آپ کے اس دعوے پر بعد میں گفتگو کریں گے، پہلے سر دست ایک سوال کا جواب دیجیے۔ آپ مسلمان اکثریت کی حیثیت میں گفتگو کر رہے ہیں یا غیر مسلم اقلیت کی، یعنی آپ کون ہیں؟
مدعی: جی میں مسلمان ہوں.
مبصر: تو بطور مسلمان آپ کا اسلام کے بارے میں کیا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے جو احکامات نازل کیے، وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل قائم کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر جواب “ہاں” ہے تو پھر بطور مسلمان اعتراض کس بات پر ہے اور اگر جواب “نہیں” ہے تو پھر جس چیز پر آپ ایمان لائے بیٹھے ہیں اس کی اقداری حیثیت کیا ہے؟ یعنی پھر “بطور مسلمان” گفتگو کرنے کا کیا مطلب ہے، بس پہلے یہ بتا دیجیے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ “بطور مسلمان شناخت” اور “تصور عدل” کے مخمصے کا شکار ہیں؟ یعنی “بطور مسلمان” تو آپ کا ایمان ہے کہ اسلام عدل کا پیمانہ ہے اور پھر “تصورعدل” میں آپ بعینہہ اسی دعوے کو رد کرکے اسلام سے ماوراء عدل کا تقاضا کر رہے ہیں؟
مدعی: چلیں فرض کرلیتے ہیں کہ میں مسلمان نہیں بلکہ مثلا ایک ہندو یا عیسائی وغیرہ کی حیثیت میں گفتگو کررہا ہوں.
مبصر: تو پہلے تو یہ مان لیجیے کہ “بطور مسلمان” (جو کہ “آپ ہیں”) آپ کے پاس یہ کہنے کا کوئی سپیس موجود نہیں کہ آئین پاکستان کی اسلامیت کو ختم کیا جانا چاہئے۔ اب ذرا ایک منٹ مزید رکیے، یہ بتائیے کہ “بطور مسلمان” ھندومت و عیسائیت وغیرہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ وہ حق و عدل ہیں؟
مدعی: نہیں، مگر یہ تو بطور مسلمان میرا خیال ہے
مبصر: ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں۔ دراصل فریم آف ریفرنس درست رکھنا مقصود ہے۔ اب یہ بتائیے کہ بطور مسلمان ایک ھندو یا عیسائی کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے نیز اسکی طرف آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟
مدعی: یہی کہ میں انہیں اسلام کی طرف دعوت دوں نیز شرع نے مجھ پر انکے جو حقوق لازم کئے ہیں انہیں پامال نہ کروں۔
مبصر: تو آپ کے سوال کا یہی جواب کہ اگر آپ ایک عیسائی یا ہندو ہوں گے تو میں آپ کو اسلام کی طرف دعوت دوں گا، نہ یہ کہ آپ کے اختلاف کرنے کی وجہ سے خود اس تصور حق و عدل پر عمل پیرا ہونے سے دستبردار ہوجاؤں گا، جسے میں دل و جان سے عدل سمجھتا ہوں۔ میں آپ کے ان حقوق کو ادا کرنے کا پابند ہوں، جو اسلام نے مجھ پر واجب کیے ہیں۔
مدعی: یہ تو پھر لڑائی والی بات ہوئی کہ بطور عیسائی پھر میں بھی یہی چاہوں گا۔
مبصر: بات تو ٹھیک ہے مگر حق و باطل کے مابین ازل سے معاملہ بہرحال مخاصمت ہی کا ہے۔
مدعی: میں اس لڑائی کا ایک “عقلی حل” بتاتا ہوں۔
مبصر: ضرور، یہ تو دلچسپ بات ہوگی۔
مدعی: یہ فرض کرلیتے ہیں کہ نہ آپ مسلمان ہیں اور نہ ہی میں ہندو یا عیسائی ہوں۔
مبصر: تو پھر ہم سب کیا ہیں؟
مدعی: یہ فرض کریں کہ ہم سب انسان ہیں۔
مبصر: لیکن انسان تو ہم ابھی بھی ہیں، تو مسلمان و ہندو ہونے سے انکار کرنے کا انسان ہونے سے کیا تعلق؟
مدعی: مطلب یہ کہ آپ یہ مان لو کہ مسلمان و ہندو وغیرہ ہونے کا عدل کے سوال سے کوئی تعلق نہیں۔
مبصر: اچھا تو پھر عدل کے سوال کا تعلق کس امر سے ہے؟
مدعی: اس ایمان سے کہ ہم سب آزاد و مساوی افراد ہیں اور ہم سب کا مقصد اپنی اپنی مساوی آزادی کا حصول ہے۔
مبصر: مگر میں (مسلمان) اور ھندو، ہم دونوں میں سے کوئی بھی اپنے بارے میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ ہم آزاد ہستیاں ہیں، ہم سب کا ماننا ہے کہ ہم ایک برتر ہستی کے بندے ہیں۔
مدعی: کوئی بات نہیں آپ بھلے یہ نہ سمجھتے ہوں مگر آپ یہی فرض کریں کہ آپ یہی ہو۔ آپ حقیقتا و ذاتی طور پر بھلے سے مسلمان رہو لیکن جب آپ اجتماعی و ریاستی عدل کا سوال اٹھائیں تب یہ فرض کریں کہ آپ مسلمان نہیں ہیں۔
مبصر: یہ بتائیں کہ جو “میں حقیقتا ہوں” خود کو اس سے علی الرغم و برعکس شخصیت و انفرادیت کے طور پر کس طرح فرض کرلوں؟ جناب ذات تو تاریخی و معاشرتی طور پر embedded ہوتی ہے، تو ذات کو اس کی ان particularities سے الگ تھلگ کرکے ذات کی نوعیت (کہ “وہ کیسی ہے”) کے بارے میں کوئی سوال کیسے اٹھایا جاسکتا ہے؟ یہ تو ایک قسم کا schizophrenia ہے کہ جو “میں واقعی ہوں” اور جن تقاضوں کے درست ہونے پر ایمان رکھتا اور ان کا اقرار کرتا ہوں، اجتماعی عدل کا سوال اٹھاتے وقت انہیں اگنورکرکے اپنے بارے میں ایک ایسا تصور قائم کرلوں جو میں جانتا ہوں کہ میں نہیں ہوں۔ یہ تو عجیب تر بات ہے کہ جس تصور خیر کو میں درست سمجھتا ہوں اجتماعی نظم میں انہیں اگنور کردوں۔
مدعی: دراصل یہ جو کچھ فرض کرنے کو کہا گیا ہمارے ایمان کے مطابق سب انسان حقیقت میں یہی ہیں۔
مبصر: چلیں اب آپ کی بات صاف ہوگئی۔ یہاں ایک منٹ مزید رک کر میں کچھ سمجھنا چاہوں گا۔ بطور مسلمان یا عیسائی یا ھندو میں جس تصور خیر کو حق سمجھتا ہوں اگر وہ مجھ سے اجتماعی عدل کے قیام کے بارے میں کچھ تقاضے کریں تو ان کے بارے میں میں کیا فرض کروں؟
مدعی: یہی کہ وہ غیر متعلق ہیں۔
مبصر: یعنی میں یہ سمجھوں کہ ایسے سب تقاضے غیر عقلی و لایعنی ہیں جن کے حق ہونے پر میں (مسلمان) یا دیگر اہل مذہب ایمان رکھتے ہیں۔
مدعی: جی ہمارے درمیان اس لڑائی کو ختم کرنے کے لئے یہی ماننا ضروری ہے۔
مبصر: یہ بتائیے کہ جب میں (مسلمان) نے اور ایک ہندو یا عیسائی نے یہ مان لیا کہ ہم مسلمان، ہندو یا عیسائی وغیرہ نہیں بلکہ ان سے ماوراء آزاد ہستی ہیں نیز اجتماعی عدل سے متعلق ہمارے تصورات خیر کے جتنے بھی دعوے و تقاضے ہیں وہ سب لایعنی ہیں تو یہ مسئلے کا حل (solution) تو نہ ہوا یہ تو مسئلے کو dissolve کرنا ہوا۔ یعنی جس معاملے پر ہمارا یہ اختلاف تھا کہ “ہم دو اہل مذہب میں سے” کون حق پر ہے، اسے آپ نے یہ کہہ کر حل کیا کہ “تم دونوں ہی کا تصور خیر باطل ہے، حق پر تو میں ہوں جو یہ کہہ رہا ہے کہ تم دونوں غلط ہو؟” جب ہم دونوں اپنے اپنے تصورات خیر سے دستبردار ہوچکے تو پھر لڑیں گے کاہے کو؟ یہ تو ہم دونوں کو ایک نئے و مستقل تصور خیر پر کھڑا کردینا ہے، یہ تو ایسے ہی ہے کہ میں عیسائی کو کہوں کہ “فرض کرلو کہ تم مسلمان ہو اور تم ہو بھی یہی نیز اجتماعی عدل کے قیام کے بارے میں تمہارے جتنے دعوے ہیں وہ سب لایعنی ہیں اور عدل کا تقاضا وہ ہے جو اسلام کہتا ہے، لو ہوگیا مسئلہ حل”۔ آخر منطقی اعتبار سے اس حل میں کشش کا کون سا پہلو ہے؟
مدعی: دیکھیے جب تک لڑائی کی بنیاد ختم نہیں ہوگی لڑائی رہے گی۔
مبصر: یعنی لڑائی کی بنیاد “ہمارا (اہل مذھب کا) یہ دعوی ہے کہ ہم میں سے کوئی حق پر ہے” اور حل یہ ہے کہ ہم سب آپ کی یہ بات مان لیں کہ ہم سب باطل پر ہیں اور حق وہ ہے جو آپ کہتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جو ہم جانتے و مانتے ہیں کہ ہم نہیں ہیں”۔ ماشاء اللہ کیا خوب حل تجویز فرمایا ہے۔ یعنی ہم دونوں کا دعوی تو یہ تھا کہ “عدل ہم دونوں کے تصورات خیر کے اندر کی بحث ہے” اور آپ نے یہ حل طے فرمایا کہ “عدل کا تم دونوں کے دائرہ خیر سے کوئی تعلق نہیں ہے”۔ یہ بات توازخود لڑائی کی بنیاد ہے۔
مدعی: ہاں تو ٹھیک ہے جو ہماری یہ بات نہیں مانتا وہ غلط ہے اور صحیح و غلط کے مابین لڑائی ہی کا تعلق ہے۔
مبصر: تو آپ کا بھی معاملہ وہیں آکر رک گیا جہاں میرا اور ہندو کا رکا تھا، تو فرق کیا رہا، سوائے اس کے کہ پہلے عدل کی جس بحث پر میں اور ھندو جھگڑ رہے تھے اب ہم دونوں آپ سے جھگڑیں گے؟
مدعی: دیکھیے میرا حل عقلی ہے۔
مبصر: یہ مان لینے کی عقلی دلیل کیا ہے کہ ہم اصلا آزاد ہستی ہیں؟
مدعی: بھائی اس کی تو دلیل نہیں مگر یہ ان معنی میں عقلی ہے کہ اس کے بعد آپ کو مسلمان رہنے کی بھی آزادی ہوگی اور ایک ہندو کو ہندو اور عیسائی کو عیسائی۔ دوسرے لفظوں میں سب “سب کچھ رہتے ہوئے” امن و امان سے رہ سکیں گے۔ میرا حل مان لینے کے بعد اس دنیا میں ہم سب آپس میں مل جل کر رہ سکتے ہیں اور لڑائی بھی نہیں ہوگی۔ کیا دیکھتے نہیں کہ مغربی دنیا میں اب مذہب کے معاملے میں لوگ لڑتے نہیں۔
مبصر: یہ تو بڑی بھلی بات معلوم ہوتی ہے، میں چاہوں گا کہ اسے ذرا مزید کھول کر سمجھ لوں تاکہ شرح صدر حاصل ہوجائے۔
مدعی: جی جی ضرور ضرور
مبصر: یہ امن و امان والی بات پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ آپ کے تجویز کردہ حل کے مطابق میں وہ سب کچھ رہ سکوں گا جو میں ہوں، مثلا میں مسلمان ہوں تو مسلمان رہ سکوں گا۔
مدعی: جی جی بالکل، آپ کو کوئی نہیں کہے گا کہ اسلام ترک کردو۔
مبصر: لیکن آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ مسئلے کے حل کے لئے میں یہ مان لوں کہ عدل کے سوال سے متعلق اسلام سے برآمد ہونے والے تقاضے لایعنی و غیر متعلق ہیں۔ تو اسلام کے بارے میں یہ مان لینے کے بعد کہ قیام عدل کے لئے اس کے بیان کردہ حقوق کی تفصیلات درست نہیں اور یا کم ازکم متعلق نہیں، یہ مان لینے کے بعد میرے اور آپ کے “جیسے مسلمان ہم ہیں ویسے مسلمان رہنے کا” کیا مطلب رہا؟
مدعی: جی دراصل ہمارا خیال یہ ہے کہ عقل کے مطابق مذھب کا اجتماعی عدل کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا اہل مذھب کو بھی یہ عقلی نتیجہ قبول کرنا چاہیے۔
مبصر: لیکن آپ نے تو خود فرمایا کہ اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے، تو اسے بار بار عقلی کہنے پر اتنا اصرار کیوں کررہے ہیں آپ؟ یہ تو اسی طرح کی ایمانی و اعتقادی پوزیشن ہے جیسے ایک مسلمان رکھتا ہے۔
مدعی: جی ایسا ہی سمجھیے، عقلی سے مراد وہی تھی جو پہلے کہی کہ “سب لوگ سب کچھ ہوسکیں گے”
مبصر: لیکن میں یہی تو سمجھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی بات مان لینے کے بعد میرے لیے ویسا مسلمان رہنے کا کیا مطلب جیسا کہ میں ہوں یا ایک ہندو کے لیے ویسا ہندو رہنے کا کیا مطلب جیسا کہ وہ ابھی ہے؟
مدعی: ہمارا ماننا یہ ہے کہ دنیا کا ہر مذہب یہی کہتا ہے جو ہم بتا رہے ہیں کیونکہ یہ عقل کا بھی تقاضا ہے۔
مبصر: دیکھیے یہ عقل والے قضیے کو بار بار نہ دہرائیں۔ یعنی آپ کے مطابق مثلا اسلام یہی کہتا ہے کہ اجتماعی عدل کے قیام سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، نیز اس بارے میں حقوق کی کوئی تفصیلات نہیں دیتا اور اگر دیتا بھی ہوں تو وہ غیر متعلق و لایعنی ہیں۔ اسی طرح مثلا ہندومت کی کتابیں بھی اپنے بارے میں یہی کہتی ہیں۔ تو پھر آئیں قرآن و سنت سے اس دعوے کو معلوم کرنے کی کوشش کریں؟
مدعی: نہیں ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان مذاہب کی کتابوں میں حقوق سے متعلق یہی لکھا ہوگا، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اجتماعی عدل سے متعلق آپ اپنے مذہب کے بارے میں یہ مانیں کہ مذہب کو ایسا ہونا چاہیے۔
مبصر: اچھا یعنی کہ آپ یہ نہیں کہہ رہے کہ “مذہب (اسلام) کیسا ہے” بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ “اسے کیسا ہونا چاہیے” نیز مذہب اسلام کو کیسا ہونا چاہیے، یہ اب میں قرآن و سنت سے معلوم نہ کروں بلکہ آپ کی مفروضہ پوزیشن سے اخذ ہونے والے نتائج کی روشنی میں طے کروں کہ قرآن و سنت کا کیا مطلب ہے، اور یہ صرف مسلمان نہ کریں بلکہ ہندو و عیسائی سب کریں۔ گویا مذہب خود اپنے ماخذ سے نہیں بلکہ آپ کی ایمانیات کے مطابق ڈیفائن ہونا چاہیے تاکہ آپ کے اجتماعی عدل کا تصور فنکشنل ہوسکے۔ لیکن اس کے بعد یہ کہنے کا پھر کیا مطلب رہا کہ “سب لوگ سب کچھ ہوسکتے ہیں”؟
مدعی: جی یہ تو ضروری ہے، “سب کچھ ہوسکتے ہیں” کا معنی یہی تھا “وہ کچھ ہوسکتے ہیں جو ہمارے بیان کردہ عدل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو”۔
مبصر: چلیں یہ بات بھی اب بالکل واضح ہوگئی کہ آپ کی بات ماننے کے بعد “سب کو سب کچھ ہونے کا موقع ہوگا” کا کیا مطلب ہے۔ چلیں اب یہ امن والی بات پر بھی بات کرلیتے ہیں۔
مدعی: یہ تو ایک ناقابل قطع عقلی دلیل ہے کہ میرے بیان کردہ حل سے تمام مذاہب کے پیرو کاروں کا اجتماعی عدل سے متعلق لڑائی جھگڑا ختم ہوجاتا ہے اور مغربی دنیا اس کی گواہی دیتی ہے۔
مبصر: آپ کی بات مان لینے کے بعد “جھگڑا نہ ہونے” کے جس نتیجے کو آپ بطور دلیل استعمال کر رہے ہیں نیز پھر اس کے لیے یورپ وغیرہ کی مثال دے رہے ہیں، اس میں عقلی بات کیا ہے؟ ایسا حل تو اس طرح بھی حاصل کیا جاسکتا ہے کہ مثلا سب لوگ مسلمان ہوجائیں یا عیسائی ہوجائیں وغیرہ وغیرہ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ کہ اس حل میں ایسی دلچسپ بات کیا ہے؟ ظاہر ہے جب سب لوگ دل و جان سے یہ ایمان لے آئیں گے کہ ان کے تصور خیر اجتماعی زندگی کی تشکیل میں بے معنی ہیں تو پھر لڑائی ہوگی کس بات پر؟ اس ایمان کے بعد تو اجتماعی زندگی کے نکتہ نگاہ سے مذہب trivial چیز بن جاتا ہے اور trivial معاملے پر یقینا دنیا کا کوئی انسان نہیں جھگڑتا۔ تو آخر مذاہب کو trivial بتانے والے تصور خیر کو غالب کرکے مسئلہ حل کردینے میں ایسی کیا بات ہے جس میں میرے لیے “بطور مسلمان” (نہ کہ بطور آپ کے مفروضہ “انسان”) دلچسپی و معنی کا سامان ہو؟
مدعی: یہ کہ اس سے آپ کی آپسی لڑائی ختم ہوجائے گی۔
مبصر: جی مگر وہ اسی طرح تو ہوا کہ عدل سے متعلق ہم اپنے دعوی حق سے بھی دستبردار ہوگئے، تو جھگڑا ختم ہونا اپنے استحقاق سے پیچھے ہٹ جانے کا “لازمی نتیجہ” ہے نہ کہ اپنے استحقاق پر قائم رہتے ہوئے کسی قابل عمل صورت پر پہنچ جانا، جبکہ آپ تو یہ کہہ رہے تھے کہ جھگڑا بھی ختم ہوجائے گا اور تم سب اپنے اپنے دعوی حق پر قائم بھی رہ سکو گے، تو ایسا تو نہیں ہوا۔ دیکھیے آپ نے کہا تھا کہ “چلو فرض کرو میں بطور غیر مسلم اقلیت بات کر رہا ہوں” لیکن آپ نے تو یہ ثابت کیا کہ عدل کے لیے ہمیں غیر مسلم (عیسائی یا ہندو) رہ کر بھی نہیں سوچنا چاہیے۔ یہ جس یورپ و امریکہ کی مثال دے کر اپنے قائم کردہ امن کی آپ مثالیں دے رہے ہیں، وہاں دراصل یہی ہوا کہ لوگوں کے نزدیک اجتماعی عدل کے سوال میں مذہب لایعنی ہوگیا ہے اور لایعنی چیز پر جھگڑا کیسا؟ جھگڑا تو اس چیز پر ہوتا ہے جسے ہم معنی خیز سمجھتے ہوں۔ تو آخر اجتماعی عدل کے مسئلے میں مذہب کو لایعنی بتا کر آپ نے اہل مذہب پر ایسا کونسا احسان کردیا ہے کہ جس کے لیے وہ اس حل پر آپ کے شکر گزار ہوں؟ اس حل کی مثال یوں ہے کہ فرض کریں میرے پاس ایک گول شے ہے اور زید کے پاس تکون اور ہمارا اس پر جھگڑا ہے کہ ان میں سے درست یا افضل شکل کون سی ہے تو آپ آکر یہ کہیں کہ “یہ لو ایک چوکور ڈبہ اور اب تم دونوں اپنی اپنی شے کی کانٹ چھانٹ کرکے اسے اس میں فٹ کرلو، اس سے تمہارا جھگڑا ختم ہوجائے گا”۔ ٹھیک ہے جھگڑا ختم ہوجائے گا مگر ہماری چیزیں گول اور تکون بھی نہیں رہیں گی بلکہ آپ کی مرضی کے مطابق چوکور ہوجائیں گی۔
مدعی: جی امن کے لیے یہی مطلوب ہے کہ آپ لوگ دوسروں پر اپنے اپنے تصور خیر کو مسلط نہ کریں، اس طرح تو جس کو موقع ملے گا وہ دوسرے کو اقلیت بنا لے گا۔
مبصر: جی یہ “تصور خیر مسلط نہ کرنے” والی بات بہت اہم ہے، لیکن میں یہ سمجھناچاہتا ہوں کہ “میں آزاد ہوں نیز اجتماعی عدل کے لیے اس ہی عقیدے کے مطابق فیصلے ہونے چاہییں” یہ بھی تو بذات خود ایک تصور خیر ہی ہے، تو اسے سب پر کیونکر مسلط کیا جائے؟ نیز یہ اقلیت بنانے والا مسئلہ بھی کچھ عجیب ہے، یعنی اگر میں بطور مسلمان اجتماعی دائرے میں اسلام کے مطابق عدل قائم کروں تو “ایک کے سوا باقی سب کے” اقلیت بن جانے پر آپ کو اعتراض ہے لیکن آپ کے تصور خیر و عدل (جسے ہم میں سے کوئی بھی نہیں مانتا) کو مان کر “ہم سب کے سب” اقلیت بن جائیں تو یہ ٹھیک ہے۔ یہ کیسی منطق ہے؟
مبصر: میرا خیال ہے کافی بحث ہوگئی، اگر اب تک کی گفتگو کا خلاصہ کرلیا جائے تو اچھا نہ رہے گا؟
مدعی: جی ضرور، یہ تو بہت اچھا ہوگا کیونکہ سب کے لیے بات سمجھنا آسان ہوجائے گی ؟
مبصر: تو اب تک یہ واضح ہوا کہ :

یہ مانا جائے کہ “مسلمان جیسےکہ ہم ہیں” رہتے ہوئے آپ کے لیے یہ کہنے کا کوئی جواز موجود نہیں کہ “چونکہ آئین پاکستان اسلامی حیثیت میں غیر مسلموں سے عدل نہیں کرتا لہذا اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کیا جائے” کیونکہ اس کے بعد “مسلمان رہنے” کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔
یہ مانا جائے کہ درست تصور عدل اس مفروضے سے جنم لیتا ہے کہ ہم سب آزاد و خود مختار ہستی ہیں، یہی مفروضہ عقل کا تقاضا ہے۔
یہ مانا جائے کہ حقیقی عدل کا تصور صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذھب کے دائرہ خیر سے ماوراء ہے۔
یہ مانا جائے کہ عدل سے متعلق اگر یہ مذاہب کوئی ایسے تقاضے رکھتے ہیں جو مفروضہ پوزیشن سے جنم لینے والے حقیقی عدل کے خلاف و ماوراء ہوں تو ایسے تمام تصورات لایعنی ہیں۔
یہ مانا جائے کہ مذہب کو ایسے تقاضے کرنے کا حق نہیں ہے۔
یہ مانا جائے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب کی اسی طور تشریح کرے جو آپ کے بیان کردہ “حقیقی عدل” کے مطابق ہو۔
تو اگر ہم سب مذہب والے یہ مان لیں تو ہمارے درمیان امن ہوجائے گا۔ ٹھیک ہے ناں یہ خلاصہ:
مدعی: جی ہے تو کچھ ایسے ہی لیکن ساتھ یہ بات بھی ملا لیں کہ یہ سب ماننا عقل کا تقاضا ہے۔
مبصر: لیکن اگر یہ سب مان لینے کے بعد میں مسلمان نہ رہوں تو؟
مدعی: اولا تو آپ کو یہی سمجھنا چاہیے کہ اسلام ایسا ہی ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو یہ تمھارا مسئلہ ہے میرا نہیں، میرے عقیدے کی رو سے مسلمان ہونا یا نہ ہونا بھلا کون سی معنی خیز بات ہے کہ میں اس کا حل پیش کروں؟
میرا خیال ہے اب تک کے لیے یہ کافی ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

Address

Khan Bela
Rahimyar Khan

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Atheism In Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Atheism In Pakistan:

Videos

Share

Category


Other Magazines in Rahimyar Khan

Show All