بچے کی شرارت نے پچاس براتیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا شھید کی مکھیوں کا برات پر حملہ
رکن پور میں دن دہاڑے دوہرے قتل کی واردات،ملزم روٹھی بیوی نہ ماننے پر ملزم نے بیوی کے نانا اور ماموں کو قتل کر دیا، پولیس موقع پر پہنچ گئی،لاشیں تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیں،ملزمان کی گرفتاری کےلیے کارروائی کا آغاز کردیا گیا،تفصیل کے مطابق تھانہ رکن پور کی حدود کے علاقہ چک 59 کے رہائشی شفیق گوپانگ نے بستی کنیرہ کے رہائشی کنیرہ برادری سے تعلق رکھنے والے فقیر بخش کی نواسی کیساتھ شادی کی ہوئی تھی ملزم شفیق کی بیوی گھریلو ناچاقی سے کئی روز سے اپنے نانا فقیر بخش کے گھر پر روٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی گزشتہ روز ملزم شفیق گوپانگ اپنے ایک نامعلوم ساتھی کے ہمراہ اپنی بیوی کو منانے آیا تو اس دوران اسکا اسکی بیوی کے نانا فقیر بخش کنیرہ اور اسکے جواں سال بیٹے محمد تنویر کیساتھ جھگڑا ہو گیا جس پر ملزم نے ان پر پسٹل کے سیدھے فائر کھول دیے فائر لگنے سے باہر بیٹا فقیر بخش اور محمد تنویر موقع پر ہی جانبحق ہوگئے باپ بیٹے کو مبینہ طور پر قتل کرنے والا ملزم شفیق گوپانگ اور اسکا نامعلوم ساتھی موٹر سائیکل پر فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار ہوگئے اطلاع پر تھانہ رکن پور پولیس موقع پر پہنچ گئی اور لاشوں کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کردیا،پولیس کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کےلیے کارروائی
ٹائیگر کا درخت 🌲 پر چڑھتے ہوئے خوبصورت انداز
عوام سراپا احتجاج حکام بے خبر
مریدشاخ کے قریب ماہی چوک سے 3 نوجوان ڈاکوں نے اغوا کر کے لے گٸے
ڈاکوں نے ڈی پی او رحیم یار سے مطالبہ کیا ہے ہمارے 2 عورتیں اور 3 مرد صادق آباد پولیس آٹھا کر لے گیا
ڈاکوں نے ایک ویڈیو واٸرل کرتے ہوے کہا ہمارے مرد اور عورتیں رحیم یار خان پولیس نے واپس نہین کٸے تو اغوا شدہ 3 افراد کو ہم قتل کر دینگے
3 اغوا شدہ افراد کے ورثا نے
ڈی پی او رحیم خان سے اپیل کی ہے ہمارے نوجوانو کو ڈاکو اغوا کر کے لے گٸے ان کی جان کو خطرہ ہے ہمارے نوجوانو کو بحفاظت ڈاکوں سے بچاۓ جاۓ
چاچڑاں شریف موضع پہوڑاں کا رہائشی محمد حنیف جو سیلاب سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ بہترین زندگی گزار رہا تھا جو پہلے مسجد میں بلا معاوضہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتا اور باقی وقت اپنی بستی میں موجود اپنی چھوٹی سی کیبن نما دکان میں گزارتا جس سے اسے اچھی خاصی تو نہیں لیکن البتہ گزارے والی آمدنی ہو جاتی جس سے وہ کافی خوش تھا اس کو کبھی اس چھوٹی سی کیبن نما دکان نے یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہے کیونکہ کہ وہ اپنی چھوٹی سی کیبن نما دکان سے جو آمدنی آتی اس سے اپنی ضرورت کی چیز یں خریدتا اور معذور ی کے سبب کسی پر بوجھ نہ بنتا پر پھر سیلاب آیا اور محمد حنیف کی زندگی میں ایک بھونچال سا آ گیا ہوا کچھ یوں کہ محمد حنیف کی چھوٹی سی کیبن نما دکان میں موجود سامان سیلاب کی نذر ہو گیا اور محمد حنیف جو کہ اپنی مدد آپ سے راضی خوشی بہترین زندگی بسر کر رہا تھا اب اس کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے محمد حنیف جو کہ ایک غیرت مند معذور شخص ہے وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا ہے اس نے وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ مجھے میری چھوٹی کیبن نما دکان پھر سے کھول کر دی جائے تاکہ میں پھر سے باعزت روزگار سے دوبار فلڈ سے پہلے والی سر اٹھا کر زندگی ب
چاچڑاں شریف موضع پہوڑاں کا رہائشی محمد حنیف جو سیلاب سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ بہترین زندگی گزار رہا تھا جو پہلے مسجد میں بلا معاوضہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتا اور باقی وقت اپنی بستی میں موجود اپنی چھوٹی سی کیبن نما دکان میں گزارتا جس سے اسے اچھی خاصی تو نہیں لیکن البتہ گزارے والی آمدنی ہو جاتی جس سے وہ کافی خوش تھا اس کو کبھی اس چھوٹی سی کیبن نما دکان نے یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہے کیونکہ کہ وہ اپنی چھوٹی سی کیبن نما دکان سے جو آمدنی آتی اس سے اپنی ضرورت کی چیز یں خریدتا اور معذور ی کے سبب کسی پر بوجھ نہ بنتا پر پھر سیلاب آیا اور محمد حنیف کی زندگی میں ایک بھونچال سا آ گیا ہوا کچھ یوں کہ محمد حنیف کی چھوٹی سی کیبن نما دکان میں موجود سامان سیلاب کی نذر ہو گیا اور محمد حنیف جو کہ اپنی مدد آپ سے راضی خوشی بہترین زندگی بسر کر رہا تھا اب اس کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے محمد حنیف جو کہ ایک غیرت مند معذور شخص ہے وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا ہے اس نے وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ مجھے میری چھوٹی کیبن نما دکان پھر سے کھول کر دی جائے تاکہ میں پھر سے باعزت روزگار سے دوبار فلڈ سے پہلے والی سر اٹھا کر زندگی ب
چاچڑاں شریف موضع پہوڑاں کا رہائشی محمد حنیف جو سیلاب سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ بہترین زندگی گزار رہا تھا جو پہلے مسجد میں بلا معاوضہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتا اور باقی وقت اپنی بستی میں موجود اپنی چھوٹی سی کیبن نما دکان میں گزارتا جس سے اسے اچھی خاصی تو نہیں لیکن البتہ گزارے والی آمدنی ہو جاتی جس سے وہ کافی خوش تھا اس کو کبھی اس چھوٹی سی کیبن نما دکان نے یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہے کیونکہ کہ وہ اپنی چھوٹی سی کیبن نما دکان سے جو آمدنی آتی اس سے اپنی ضرورت کی چیز یں خریدتا اور معذور ی کے سبب کسی پر بوجھ نہ بنتا پر پھر سیلاب آیا اور محمد حنیف کی زندگی میں ایک بھونچال سا آ گیا ہوا کچھ یوں کہ محمد حنیف کی چھوٹی سی کیبن نما دکان میں موجود سامان سیلاب کی نذر ہو گیا اور محمد حنیف جو کہ اپنی مدد آپ سے راضی خوشی بہترین زندگی بسر کر رہا تھا اب اس کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے محمد حنیف جو کہ ایک غیرت مند معذور شخص ہے وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا ہے اس نے وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ مجھے میری چھوٹی کیبن نما دکان پھر سے کھول کر دی جائے تاکہ میں پھر سے باعزت روزگار سے دوبار فلڈ سے پہلے والی سر اٹھا کر زندگی ب
شہر فرید چاچڑاں شریف میں بارش
رحیم یار خان میں تیز بارش