Haqqeqat kia h

Haqqeqat kia h پاکستان تحریک انصاف

25/12/2023
29/11/2022

دلچسپ عربی حکایت ۔

کہتے ہیں ایک بدو کسی شہری بابوکا مہمان ہوا۔ میزبان نے ایک مرغی ذبح کی۔ جب دسترخوان بچھ گیا تو سب آموجود ہوئے۔ میزبان کے گھر میں کل چھ ( 6 ) افراد موجود تھے ؛دو میاں بیوی، دو ان کے بیٹے اور دو بیٹیاں۔ میزبان نے بدو کا مذاق اڑانے کا فیصلہ کرلیا۔

میزبان: آپ ہمارے مہمان ہیں۔ کھانا آپ تقسیم کریں۔

بدو: مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں لیکن اگر آپ کا اصرارہے تو کوئی بات نہیں۔ لائیے! میں ہی تقسیم کر دیتا ہوں۔

بدو نے یہ کہہ کر مرغی اپنے سامنے رکھی، اس کا سرکاٹا اور میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ”آپ گھر کے سربراہ ہیں لہذا مرغی کا سر، ایک سربراہ کو ہی زیب دیتا ہے“۔ اس کے بعد مرغی کا پچھلا حصہ کاٹا اور کہا ”یہ گھر کی بیگم کے لیے“۔ پھر مرغی کے دونوں بازو کاٹے اور کہا ”بیٹے اپنے باپ کے بازو ہوتے ہیں۔ پس بازوبیٹوں کے لیے“۔ بدو نے بیٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا ”بیٹیاں کسی بھی خاندان کے وقار کی بنیاد ہوتی ہیں اورسارے خاندان کی عزت ان کے وقار پر کھڑی ہوتی ہے“۔ یہ کہہ کر مرغی کے دونوں پاؤں کاٹے اورمیزبان کی بیٹیوں کو دے دیے۔ پھر مسکراکر کہنے لگا ”جو باقی بچ گیا ہے وہ مہمان کے لیے“۔

میزبان کا شرمندگی سے برا حال تھا۔ اگلے دن اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج پانچ مرغیاں ذبح کرنی ہیں۔ بیوی نے ایسا ہی کیا اور جب دسترخوان لگا تو اس پر پانچ بھنی ہوئی مرغیاں موجود تھیں۔ میزبان نے سوچا کہ دیکھتے ہیں کہ آج یہ پانچ مرغیوں کو کس طرح تقسیم کرے گا؟

میزبان : ان مرغیوں کو سب افراد میں برابر تقسیم کردو۔

بدو:جفت یا طاق؟

میزبان : طاق انداز میں تقسیم کرو۔

بدو نے میزبان کی بات سن کر سرہلایا، تھال سے ایک مرغی اٹھائی، میاں بیوی کے سامنے رکھی اور بولا ”آپ اور آپ کی بیوی دو اور ایک یہ مرغی، کل ملا کے تین۔ پھر دوسری مرغی اٹھائی اور کہا“ آپ کے دو نوں بیٹے اور ایک مرغی، کل ملا کے یہ بھی تین ”۔ اس کے بعد تیسری مرغی اٹھائی اور کہا“ آپ کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی ؛ کل ملا کریہ بھی تین ہوگئے ”۔ اب تھال میں دو مرغیاں باقی تھیں۔ اس نے وہ مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور کہنے لگا“ یہ دو مرغیاں اور ایک میں ؛ یہ بھی تین ہو گئے ”۔ میزبان بدو یہ تقسیم دیکھ کر ہکابکا رہ گیا۔ اس نے اگلے دن پھرپانچ مرغیاں روسٹ کیں۔ جب سب لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے تو میزبان نے بھنی ہوئی پانچوں مرغیاں بدو کے سامنے رکھیں۔

میزبان: آج بھی تقسیم تم ہی کرو گے لیکن آج تقسیم کی نوعیت جفت ہونی چاہیے۔

بدو: لگتا ہے کہ تم لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض ہو۔

میزبان: ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ تقسیم شروع کریں۔

بدو نے مرغیوں کی طشتری سامنے رکھی۔ اس میں ایک مرغی اٹھائی اور کہنے لگا ”ماں، اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی ؛ یہ ہوئے کل ملا کر چار“۔ یہ کہہ کرپہلی مرغی ان کی طرف بڑھا دی۔ اس کے بعد دوسری مرغی اٹھائی اور میزبان سے کہا ”آپ، آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی؛ یہ بھی کل ملا کر چارہوئے“۔ پھر تھال میں موجود باقی تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے بولا ”میں اوریہ تین مرغیاں ؛ یہ بھی کل ملا کر ہو گئے چار“۔ اس کے بعد مسکرایا، بے بسی کی تصویر بنے اپنے میزبانوں کی طرف دیکھا اورآسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگا ”یا اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تونے مجھے تقسیم کرنے کی اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے..!! 😀😁🤪

28/11/2022

ملکی معیشت برباد ہو چکی، غرقاب ہونے کے کنارے کھڑی ہے۔

بربادی کی سب سے بڑی وجہ وہ کرائے کے بجلی گھر IPPs ہیں جو 90 کی دہائی اور 2014-15 میں ملک پر مسلط کئے گئے

کمیشنوں اور کِک بیکس کے لئے ایسے معاہدے کر لئے گئے جن کا خمیازہ نہ صرف ہم بلکہ ہماری اگلی نسل بھی نہیں چُکا پائے گی۔

انہیں ایندھن اُنکی مرضی کی قیمت پہ ملتا ہے جبکہ بجلی کا یونٹ وہ تازہ ترین ڈالر ریٹ پہ ہمیں دیتے ہیں۔ درمیان کا جو تباہ کن فرق ہوتا ہے وہ یہ ملک سبسڈیز کی صورت میں دے دے کر مرنے جوگا ہو گیا۔

اور تو اور اگر وہ ایک یونٹ بھی پروڈیوس نہ کریں، معاہدہ یہ ہوا ہے کہ آپ انہیں فُل پیمنٹ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ اپنی سات نسلوں سمیت زمین میں دو گز نیچے دھنس جائیں۔

مجھے نہیں پتہ یہ معاہدے کب ختم ہو رہے ہیں اور حکومتیں اِن میں کیا کر سکتی ہیں اور کیا نہیں؟ لیکن اتنا پتہ ہے کہ اِن تیس سالوں میں ہم نے متبادل کوئی انتظام نہیں کیا اسلئے اِن خونی IPPs کے آگے اُلٹا لیٹنا ہماری مجبوری بن چکی ہے۔

انرجی کی اِس تباہ کن مہنگائی نے ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا، لوکل انڈسٹری کا پٹھا بیٹھ گیا، بیروزگاری قوم کی رگ رگ میں سما چکی۔ امپورٹ بِل ہمیں کھانے کو آ گیا۔

وجہ صرف یہ کرائے کے بجلی گھر جو اپنے چند ٹکوں کی کمیشن کے لئے لائے گئے تھے، آج پورا ملک کھا چکے ہیں اور پھر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن بُری نہیں۔

کرپشن تو ہوتی ہے، پیسے کھائے جاتے ہیں۔ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔ لگاتے تو ہیں لیکن آنتیں پھر نسلوں کی کھینچی جاتی ہیں۔

بھُگتو، تم سب اِسی لائق ہو !!

28/11/2022

مسنگ فیلڈ ۔۔۔عمران خان صاحب کی مقبولیت عروج پر ھے پارٹی ایک جلسے کی طرح ھے جس میں خاص لوگ اور ووٹر بھی آبھی رھے ھیں جا بھی رھے ھیں اور کچھ لوگ مستقل کھڑے ھیں۔جلسہ جاری ھے خان صاحب حقیقی آزادی کے نعرے میں امریکہ کو شعر کا پہلا مصرعہ بتا کر دوسرا مصرعہ کچھ مبھم رکھے ھوئے ھیں جو کہ اصل مدعا ھے کہ انکو اقتدار چائیے اور مکمل آزاد اقتدار چاھئیے کسی کی مداخلت کے بغیر ،نئی اور پرانی نسل دونوں انکے فین ھیں وھ کسی اداکار کی طرح مقبول ھیں ،لوگ انکے کپڑے جوتے ،بولنے اور چلنے کا اسٹائل دیکھتے ھیں ( کارکردگی نہیں ) مزید یہ کہ ان پر حملہ بھی ھوگیا جو کہ قابل مذمت ھے مگر انکو لیڈر ثابت کرگیا ،ھر آدمی کو وھ ایک لفظ زبانی یاد کروا گئے ھیں بلکہ اسکے دل میں اتار گئے ھیں کہ نواز شریف چور ھے ( یہی کام زرداری کے بارے میں نواز شریف کرچکا تھا ) حقیقی آزادی کے اقتدار کا راستہ ایک مخلص اور ملک کیلئے کچھ کر گزرنے کے جذبے والی حقیقی انقلابی ٹیم کے ساتھ ممکن تھا ،مگر اس وقت خان صاحب نے دوسروں کے پکڑائے ھوئے ،الیکٹیبلز ،کا آسرا اور شارٹ کٹ لیا ،جو اک اشارے پر خان صاحب کے ھوئے تھے دوسرے اشارے پر چھوڑ گئے ،اب بھی فواد چوھدری ھے گنڈا پور ھے ( اور اگر چھوڑ نہ گئے ھوتے تو علیم خان ،جہانگیر ترین ،اور بد ترین چینی چور آٹا چور ساتھ ھونے تھے ) اب کے بھی سارا زور احتجاج پر ھے اور ٹیم ،وھی گھسے پٹے اداکار ھیں ،انکے سہارے حقیقی آزادی کیسے ملے گی ،اور عوام کو کیا ملے گا یہ وھ مسنگ فیلڈ ھے جسکا جواب کسی جگہ خان صاحب نے نہ دیا ھے نہ کوئی پوچھ رھا ھے ،خان صاحب بہت مقبول ھوں ،آٹھ کلو میٹر ڈیلی واک کریں ،بھتر سال کی عمر میں نوجوان کی باڈی لینگویج ھو ،شلوار قمیض میں ھیرو کو بھی پیچھے چھوڑ دیں ،اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرسکیں ،مگر عوام کو کیا ملے گا ؟اس سوال کا جواب کون دے گا ،؟

28/11/2022

ہر کسی کی آپنی سوچ ہوتی ہے مگر
بحیثیت ایک پاکستانی، میرے لیے اس ملک کی شان، عزت اور وقار صرف عمران خان ہے

اس حوالے سے نہ مجھے فوج سے کوئی خاص لگاؤ رہا، نہ شریفوں سے، نہ زرداریوں سے لیکن میں فوج کی عزت کرتا ہوں کرتا رہوں گا خاص کر سپاہیوں کی۔

میں اس نتیجے پر کیونکر پہنچا؟

کیا یہ محض ایک جذباتی لگاؤ ہے؟

ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔

میری اس سوچ کے پیچھے کئی برسوں پر محیط ایک پوری ہسٹری ہے جو آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہوں گا

بحیثیت ایک پاکستانی، میں بچپن سے ہی قومی سطح پر رونما ہونے والے ایسے متعدد واقعات دیکھتا ہوا آرہا ہوں، جنھوں نے مجھے میری قومی شناخت پر ہمیشہ شرمسار رہنے پر مجبور کیا

99 میں کارگل کا واقعہ ہوا۔ پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کا وزیراعظم بھاگا بھاگا امریکہ گیا اور ہماری تاریخ کے اوراق ایک اور سرنڈر سے داغ دار ہوئے

نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان

99 میں ہی، بھارت نے پاکستان کی سرحدوں کے قریب ایک پاکستان نیوی کے طیارے کو مار گرایا جس میں درجن سے زائد نیوی افسران اور جوانوں کی شہادت ہوئی

پاکستان کچھ بھی نہ کرسکا

نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان

مشرف کے دور میں پاکستان نے امریکہ کے سامنے بدترین سرنڈر کی کئی شرمناک مثالیں قائم کیں

مشرف دور سے شروع ہونے والے ڈرون حملے 2018 تک مسلسل جاری رہے جن میں بے شمار معصوم پاکستانی بھی نشانہ بنے

میں نے معلوم تاریخ میں کبھی ایسی ذلت نہ دیکھی کہ کوئی سپر پاور، کسی دوسرے ملک میں کئی برسوں ڈرون اسٹرائیکس کرتی رہی ہو، اس میں عام سویلینز کو نشانہ بناتی رہی ہو اور نشانہ بننے والا ملک چپ کرکے بیٹھا رہا ہو

نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان

2011 میں، سلالہ کے مقام پر، نیٹو فورسز نے پاکستان میں گھس کر ہمارے جوانوں کو نشانہ بنایا

پاکستان احتجاج کے سوا کچھ نہ کرسکا

2013 میں، ایک امریکی ایجنٹ جس کا نام ریمنڈ ڈیوس تھا، وہ کسی خفیہ مشن پر آپریٹ کررہا تھا کہ اسے ہمارے ایجنسی کے جوانوں نے انٹرسیپٹ کرلیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے جیسے ہی خطرے کو محسوس کیا، اس نے دن دیہاڑے، بیچ سڑک پر گاڑی روک کر، ہمارے ایجنسی کے جوانوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔

ان میں سے ایک نوجوان کی بیوی اس قیامت کی تاب نہ لاسکی۔ وہ مقامی ہسپتال میں انصاف کی دہائیاں دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی

ہماری ایٹمی ریاست اپنی ہی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے قاتلوں کے ساتھ کیا کیا؟

اسے باعزت پاکستان سے فرار کروایا

اس عمل میں ریاست، ن لیگ اور پیپلز پارٹی باقاعدہ شامل رہیں

مجھے آج بھی نیوز چینلز پر چلنے والی وہ پریس کانفرنسز یاد ہیں جن میں پیپلز پارٹی کی رہنما فوزیہ وہاب ہاتھوں میں آئین کی کتاب لہراتے ریمنڈ ڈیوس کا دفاع کیا کرتی تھیں

بالآخر ریمنڈ ڈیوس صحیح سلامت پاکستان سے فرار کروا دیا گیا

نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان

2011 میں، کچھ مقامی ایجنٹوں کی مدد سے، امریکہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں گھس کر، اسامہ کے کمپاونڈ پر حملہ کرتا ہے، اور سکون سے آپریشن مکمل کرکے اسامہ کی باڈی کو وہاں سے باحفاظت لے جاتا ہے

اس شرمناک واقعے کے اگلے دن اس وقت کے صدر پاکستان جناب آصف زرداری صاحب کا امریکی اخباروں میں باقاعدہ کالم چھپتا ہے جس میں وہ اس "عظیم الشان" آپریشن پر امریکی صدر کو مبارکباد پیش کرتے ہیں

اس آپریشن سے امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ اس کے نزدیک پاکستان کی sovereignty کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ ہی وہ پاکستان کی فوج پر زرہ برابر اعتماد کرنے کو تیار ہیں

یہاں بھی نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان

مشرف دور سے چلنے والے ڈرون حملے مارچ 2018 تک چلتے رہے۔ پاکستان ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکا

ان تمام واقعات اور ان کے aftermaths دیکھنے کے بعد، بحیثیت ایک پاکستانی، میرے دل و دماغ میں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ ہماری کوئی حیثیت، کوئی وقعت نہیں

امریکہ، نیٹو یا بھارت جب چاہے، پاکستان کی سالمیت کا مذاق اڑا سکتے ہیں، جب دل چاہے ہماری سرحدوں میں گھس عام پاکستانیوں کو قتل کرسکتے ہیں

یہ احساس ہی تباہ کن تھا

انتہائی ذلت سے بھرپور تھا

ہمارا قومی فخر ملیامیٹ ہوچکا تھا

ہم نے وہ بے توقیری اور ذلالت سہی، جو حالیہ تاریخ میں شاید ہی کسی اور قوم نے سہی ہو

اوورسیز پاکستانیوں سے پوچھیں کہ ان واقعات کے بعد، وہ دوسری اقوام خاص کر بھارتیوں کے سامنے کس قدر شرمندگی محسوس کیا کرتے تھے، کیسے منہ چھپائے پھرتے تھے

پھر تاریخ بدلنا شروع ہوئی

2018 میں عمران خان منتخب ہوا

کسی "نامعلوم" وجوہ کی بناء پر ڈرون حملے اچانک بند ہوگئے

پاکستانی امریکیوں کے ہاتھوں مرنا بند ہوگئے

2019 میں، بھارت نے پاکستانی حدود میں گھسنے کی غلطی کی تو 24 گھنٹوں کے اندر اسے ایسا دندان شکن جواب دیا گیا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی، بھارت بھونچکا رہ گیا

غالباً 65 کے بعد پہلی بار بھارتی حدود میں گھس کر اسٹریٹیجک بمباری کی گئی اور بھارتی طیارے ٹریپ کرکے پاکستان کی فضائی حدود میں لایا گیا اور اسے کامیابی سے نشانہ بنایا گیا

بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرنے اور اس پر تھپڑوں کی بارش کرنے کی ویڈیو جان بوجھ کر لیک کی گئی تاکہ بھارتی افواج کو یہ تھپڑ برسوں یاد رہے

یاد کیجیے وہ وقت جب بھارت نے پاکستان نیوی کا طیارہ مار گرایا جس میں میں درجن سے زائد جوان شہید ہوئے اور پاکستان کچھ بھی نہ کرسکا

اور پھر وہ وقت کہ جب 27 فروری کو بھارت کو تاریخی جواب دیا گیا

2021 میں سی اے آئی چیف کا دورہ ہوتا ہے پر عمران خان اس سے ملنے سے یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ اپنے ہم منصب سے ملو، مجھ سے نہیں

یہ وہی دورہ تھا جس میں عمران حکومت کی جانب سے، امریکی سی آئی اے کو اڈوں کے حوالے سے صاف جواب دے دیا گیا تھا پر یہ بات ابھی پردوں کے پیچھے تھی

پھر ایک مغربی صحافی کے اڈوں سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان absolutely not کہہ دیتا ہے

اعتراض کرنے والے اسے صرف ایک منہ زبانی بیان قرار دیتے ہیں

میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ یہی "آسان" جملہ عسکری قیادت یا ن لیگ و پیپلز پارٹی کے رہنما بھی بول کر دکھادیں

ن لیگی قیادت نے تو چند ماہ پہلے ہی یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان وینٹیلیٹر پر ہے اور اس کا پائپ امریکہ کے ہاتھ میں ہے

ان ہی لوگوں نے ہمیں بتایا کیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے ہے تو امریکہ کی جی حضوری لازمی ہے

پاکستان پچھلے چھ سات ماہ سے امریکی جی حضوری کرتے کرتے معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا

ککھ فائدہ نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔

بیان کی بات ہی نکلی ہے تو کچھ ماہ پہلے ہی، پاکستان کے سابق سپہ سالار، باجوہ صاحب ایک کانفرنس میں بیٹھے امریکی فرمائش پر، یوکرین پر روسی حملوں کی مذمت کرتے پائے گئے تھے

یہاں میں دو سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:

1- اگر عمران خان صرف منہ زبانی بیانات دیتا ہے تو یہی کام نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری کیوں نہیں کرپاتے؟

2- اگر یہ صاحبان پاکستان کی معشیت کی خاطر امریکی جی حضوری کرتے رہے تو پھر پچھلے چھ ماہ میں، ہماری معشیت کیونکر برباد ہوئی؟

حکومت کے آخری وقت میں بھی، عمران خان امریکی مخالفت مول کر روس کا دورہ کرتا ہے اور پاکستان کی معشیت خاص کر تیل کے حوالے سے مذاکرات کرتا ہے

امریکہ اور مغرب کے بھرپور پریشر کے باوجود وہ کسی بھی پروپگینڈہ بلاک کے ساتھ کھڑے ہونے سے صاف انکار کردیتا ہے

بالآخر کہ اس کی حکومت ختم کردی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔

آخر میں کہنا چاہوں گا کہ عزت ایک بڑا subjective معاملہ ہے

محسوس کرنے والے کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے

اور جو نہ محسوس کرے وہ بیشک کچھ بھی کرتا پھرے

یہ عمران خان تھا، جس کی وجہ سے، بحیثیت ایک پاکستانی مجھے زندگی میں پہلی بار فخر کرنے کا موقع ملا۔ اپنے پاکستانی ہونے پر ایک عزت ایک وقار محسوس ہوا

ورنہ اس سے پہلے یہ وطن ایک پرچون کی دکان اور ہم پاکستانی دکان میں رکھا ہوا بے وقعت مال محسوس ہوتے تھے جسے کوئی بھی گاہک قیمت ادا کرکے خرید لے

اگر آپ کے لیے بھی قومی غیرت معنی رکھتی ہے، تو عمران خان کی تحریک میں اس کا بھرپور ساتھ دیجیے

اگر نہیں رکھتی، تو بیشک لاتعلق بیٹھے رہئیے اور ڈرائنگ رومز مباحث میں بیٹھ کر دوسروں خاص کر اپنی اولادوں کو بتانا مت بھولیے کہ،

"ان حکمرانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا"
اگر کسی کو کوئ بات بری لگی ہوں تو معذرت!

22/04/2022

1940
2022

21/04/2022
21/04/2022
21/04/2022

Address


Telephone

+923015010469

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Haqqeqat kia h posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Haqqeqat kia h:

Videos

Share