Information Desk

Information Desk Digital Creator. Content Creator. Creator of digital shorts, entertaining and informative content

04/04/2025

*قدرت کی ڈسٹری بیوشن*
پروفیسرصاحب، آپکے کتنے بچے ہیں؟ میں نے کہا ’’تین‘‘۔
انہوں نے پھرپوچھا’’انکی عمریں کیاہیں؟میں نے جوا ب دیا ’’نوسال،سات سال اورتین سال‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے کہا ’’ پھر تو یقیناآپ یونیورسٹی سے واپسی پر ان کے لیے کچھ نہ کچھ لے کرجاتے ہوں گے؟‘‘ میرے اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے پھر استفسار کیا ’’آپ ان چیزوں کو ان میں کیسے تقسیم کرتے ہیں؟
میں نے کہا ’’میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں اور چونکہ بیٹا بڑا ہے اس لیے میں اپنی لائی ہوئی تمام چیزیں اس کے حوالے کر دیتا ہوں اوراس سے کہتا ہوں کہ انہیں آپس میں بانٹ لو‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے فرمایا ’’پروفیسرصاحب،اگر آپ کو کسی دن یہ پتا چلے کہ آپکاصاحبزادہ آپکی لائی ہوئی چیزیںآپکی ہدایت کے مطابق تقسیم نہیں کرتا یا انہیں بانٹنے میں انصاف سے کام نہیں لیتاتوآپ کیا کریں گے؟
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’ اگرکبھی ایسا ہوا تو ا سکا حل تو بہت آسان ہے، میں اگلی بار اس کو صرف اسی کا حصہ دوں گا اور بیٹیوں کا حصہ انہیں خود الگ سے دے دیاکروں گا‘‘۔
یہ سن کر ان کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے کہا’’پروفیسر صاحب! آپکی اس بات میں وہی فلسفہ کارفرما ہے جسکی بنیاد پر اللہ پاک نے اپنی عنایات تقسیم کرنے کا فارمولا طے کر رکھا ہے۔
۔اللہ پاک آپ کوجو رزق اور نعمتیں عطا فرماتا ہے وہ صرف اور صرف آپ کے لئے نہیں ہوتیں‘ ان میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے اور جب تک آپ وہ حصہ ان حقداروں تک پوری ایمانداری اور انصاف سے پہنچاتے رہتے ہیں ‘آپ کو وہ حصہ اسی تناسب سے ملتا رہتا ہے اور آپ بھی دنیا کی نظرمیں مالدار‘ سیٹھ‘ جاگیردار اورسرمایہ دار بنے رہتے ہیں۔لیکن جب اس تقسیم میں کوتاہی یا بداعتدالی ہوتی ہے تو اللہ پاک آپ کو صرف آپکے حصے تک محدود کر دیتا ہے اور اس ریل پیل سے محروم کر دیتا ہے۔
پھر وہ رب کریم وہ رزق یا تو ان لوگوں تک براہ راست پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔۔
یا اس رزق کی تقسیم کیلئے کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘مقرر کر دیتا ہے اور دنیایہ سمجھتی ہے کہ یہ سیٹھ دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اسی دوران یہ باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ فلاں کے بیٹے پر اللہ کا بہت کرم ہے‘ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے‘ دنوں میں کروڑ پتی ہو گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہوتا ہے جسے رب کریم نے آپ کو ہٹا کر آپکی جگہ نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دیا ہوتا ہے.‘‘۔
دیکھا جائے تو اللہ کی تقسیم کا یہ معاملہ صرف رزق تک ہی محدود نہیں ہے،اس میں عزت ‘ سکون‘ امن اور آسانیاں بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر عزت کا معاملہ بڑا خاص الخاص ہے اور اس کو بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک عزت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ ہم نے اللہ کی دی ہوئی عزت کو اپنی ذاتی کمائی سمجھ لیا ہے۔ہم اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اس عزت کے ہم بلا شرکت غیر مالک ہیں۔یہ ساری کی ساری ہماری ذاتی میراث اور ہماری اہلیت اور صلاحیتوں کا ثمر ہے۔حالانکہ ایسا قطعاََ نہیں ہے۔۔
آپ اپنے گردواطراف میں نظردوڑائیں تو آپ کو بے چین‘ بے سکون اور ہیجانی کیفیت مین مبتلا لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا۔بد قسمتی سے ہم من حیث القوم بھی انہی کیفیات کا شکار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟باقی اقوام عالم کے مقابلے میں ہم اتنے محروم کیوں ہیں؟ کیا یہ ہماری بداعمالیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے یا کوئی اور معاملہ ہے؟
ہم نے رب کی دی ہوئی عزت سے لوگوں کا حصہ نکالنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح عزت کی ترسیل میں کمی واقع ہو گئی ہے‘ ہم نے اپنے رب کی دی گئی آسانیوں کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے اور وہ آسانیاں بھی ہم سے چھن رہی ہیں۔۔۔
ہم اپنے غریب ہمسائے کے مجرم ہیں‘ اس غریب بچی کے مجرم ہیں جس کی شادی کا کل خرچ ہمارے بچے کی سالانہ پاکٹ منی کے برابر ہے، ان طعنوں میں برابر کے شریک جرم ہیں جووہ تمام عمر کم جہیز لانے پر سہتی ہے۔ہم اس بیمار بچے کے مجرم ہیں جس کے علاج کا خرچ ہمارے گھر میں کھڑی بہت سی گاڑیوں میں سے کسی ایک کی قیمت میں ہو سکتا ہے، ہم اس عرضی خواں کے مجرم ہیں جو قرض لیکر دور دراز کے گاؤں سے ہمارے دفتر اس غلط وقت پہنچتا ہے جب ہم اپنے کسی عزیز یا دوست سے گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ اگلے دن کیلئے ٹال دیا جاتا ہے۔ ہم اس گھریلو ملازمہ کے مجرم ہیں جس کا بیٹا ہمارے گھر کھڑی ٹوٹی سائیکل‘ پرانے کپڑوں اور جوتوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔۔
اس اجتماعی بے چینی‘ بے سکونی‘بے برکتی اور ہیجان سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہے۔
ہمیں اپنے روزمرہ کے رویوں کو بدلنا ہوگا‘
ہمیں یہ سمجھنا پڑے گاکہ مخلوق کی عزت دراصل اسکے خالق کی عزت اور مخلوق سے پیار دراصل اس کے خالق سے پیار ہے۔ کیا ہم ان اقوام کا مقابلہ کر سکتے ہیں جہاں انسان تو انسان ‘ جانور بھی اپنے حصے کی عزت‘ پیار اور سہولیات کا حصہ پوری ایمانداری اوردھڑلے سے وصول کرتا ہے۔ جب ہم پیار کی جگہ نفرت‘ عزت کی جگہ حقارت اور بخشش کی بجائے محرومیوں کا بیوپار کریں گے تو پھر ہمیں یقین کر لینا چاہیئے کہ وہ خالق دو جہاں جلد یا بدیر ہمیں ہٹا کر کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دے گا

04/04/2025

چارلی چپلن 88 سال زندہ رہے۔
اس نے ہمارے لیے 4 بیانات چھوڑے:
(1) اس دنیا میں کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی نہیں۔
(2) مجھے بارش میں چلنا پسند ہے کیونکہ کوئی میرے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔
(3) زندگی کا سب سے کھویا ہوا دن وہ ہے جس دن ہم ہنستے نہیں ہیں۔
(4) دنیا کے چھ بہترین ڈاکٹر...:
1. سورج
2. آرام
3. ورزش
4. خوراک
5. عزت نفس
6. دوست
اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر ان سے جڑے رہیں اور صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہوں...
چاند دیکھو گے تو خدا کا حسن دیکھو گے۔
سورج کو دیکھو گے تو خدا کی قدرت دیکھو گے...
آئینہ دیکھیں تو اللہ کی بہترین تخلیق نظر آئے گی۔ تو یقین کرو۔
ہم سب سیاح ہیں، خدا نے پہلے ہی ہمارے راستوں، بکنگ اور منزلوں کی نشاندہی کر رکھی ہے... اس پر بھروسہ کریں اور زندگی سے لطف اندوز ہوں۔
زندگی بس ایک سفر ہے! لہذا، آج زندہ رہو!
کل نہیں ہو سکتا۔

13/03/2025

میں بتاوں گی نہیں تم کو مگر آتے ہیں
جلد بچھڑیں گے یہ آثار نظر آتے ہیں

بعد میں جا کے اکڑتے ہیں، خدا بنتے ہیں
ورنہ دنیا میں تو سب لوگ بشر آتے ہیں

دل میں رہنے کے طریقے مجھے معلوم نہیں
یار تم مجھ کو سکھا دو گے؟ اگر آتے ہیں

ایک کھڑکی میرے ماضی کی طرف کھلتی ہے
جس میں دھندلائے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں

تیرا دل کیوں نہیں بھر آتا مرے اشکوں سے
اتنے پانی سے تو تالاب بھی بھر آتے ہیں

امن شہزادی
゚ ゚viralシ

02/03/2025

Real Hero ❤️

✨️🫶🏻🍁
27/02/2025

✨️🫶🏻🍁

01/02/2025

The world full of competition and challenges 📚💯💯

21/01/2025

We need to make some changes to improve our education system......!!!!!!!!
📚📚📚📚💖💖💖💖💖

゚ ゚viralシ

موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید گرمی کے بحران اور ماحولیاتی آلودگی سے باہر نکلنے کے لیے ایک جامع ریاستی و حکومتی پالیسی اور ت...
26/05/2024

موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید گرمی کے بحران اور ماحولیاتی آلودگی سے باہر نکلنے کے لیے ایک جامع ریاستی و حکومتی پالیسی اور ترجیحی عملدرآمد پر مبنی ایجنڈا درکار ہے۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے زیادہ سے زیادہ گھروں، محلوں، بازاروں اور اہم شاہراوں پر درخت اور پھولوں کی سرمایہ کاری کریں۔
درخت اور پھولوں کو اپنی ترجیح بنائیں مقامی علاقوں کو درختوں سے بھر دیں ان کو پالے پوسیں آبیاری کریں یہ آپ کی زندگی اور معاشرے میں بہتر ماحول دیں گے۔
مسائل کا حل ٹھنڈے ایرکنڈیشن نہیں بلکہ درختوں اور پھولوں یا سرسبز علاقوں سے ہے۔ اس ایجنڈے پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں سبز پاکستان ہی ہمارا مستقبل ہے۔ زیر نظر تصویر سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔

18/05/2024
04/05/2024

⚔️

30/04/2024

قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کا خطاب ⚔️✌🏻✌🏻
,
゚viralシ ゚viral

یہ منہ اور مسور کی دال 💢یہ کہاوت اصل میں ’’یہ منھ اور منصور کی دار‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے تم اس لائق نہیں۔ تم اس کے مستحق ن...
30/04/2024

یہ منہ اور مسور کی دال 💢

یہ کہاوت اصل میں ’’یہ منھ اور منصور کی دار‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے تم اس لائق نہیں۔ تم اس کے مستحق نہیں۔ اس تلمیحی کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب وہ مشہور نعرہ ہے جو ایک عارف باللہ حضرت منصور نے عالمِ بے خودی و مستی میں لگایا تھا۔
حضرت منصور کا پورا نام ابوالمغیث الحسین بن منصور البیضاوی تھا، لیکن وہ اپنے باپ کے نام منصور سے مشہور ہوئے۔ حضرت منصور 242ھ کے قریب پیدا ہوئے۔ تقریباً 50 سال ریاضت میں بسر کرنے کے بعد ایک دن جوش میں انہوں نے اناالحق (مَیں خدا ہوں) کا نعرہ لگایا۔ بغداد کے علما نے ان پر کفر کافتویٰ لگا دیا اور 300 کوڑوں کی سزا مقرر کی۔ جب اس سزا سے بھی ان کی وارفتگی میں فرق نہ آیا، اور وہ اس کلمہ سے باز نہ آئے، تو خلیفہ المقتدر باللہ کے حکم پر مفتیِ شریعت نے سزائے موت تجویز کی۔ شریعت کا فتویٰ ہمیشہ ظاہری اقوال و اعمال پر لگتا ہے۔ عشق کے راز و نیاز سے ہر شخص واقف نہیں ہوسکتا۔ منصور نے یہ نعرہ کیوں اور کس حال میں لگایا تھا؟ ان کا یہ فعل محبوبِ حقیقی کی نظر میں ممدوح تھا یا مذموم؟ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا اہلِ عشق کی بے باکی اور جرأت پر سزا دیتی چلی آئی ہے اور یہ اس کا پرانا دستور ہے۔ کہتے ہیں کہ منصور کے پہلے پاؤں کاٹے گئے، پھر آنکھیں نکالی گئیں، پھر زباں کاٹی گئی، اس کے بعد دار پر چڑھا کر سنگ باری بھی کی گئی اور آخر میں ان کے سر کو کاٹ کر جلا دیا گیا۔ ان کی خاک دجلہ میں بہائی گئی۔ مشہور ہے کہ ہر سزا کے بعد ان کے رگ و پے سے ’’اناالحق‘‘ کی صدا بلند ہوتی تھی۔ ان کی خاک کا ہر خون آلود ذرّہ اور خون کے ہر قطرہ سے ’’حق حق‘‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ہر شخص کو منصور جیسا عشق اور مرتبہ کہاں نصیب؟ یہ منھ اور منصور کی دار، خدا جس کے نصیب میں لکھ دے، وہی اس مرتبے تک پہنچے
۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ311 سے انتخاب)

اپنی پسندیدہ ائسکریم کا نام بتاو؟؟
23/04/2024

اپنی پسندیدہ ائسکریم کا نام بتاو؟؟

Address

Lahore
Punjab

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Information Desk posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Information Desk:

Share