Zahor Network

Zahor Network اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَفَاعَةَ الْحُسَيْن🤲 like my page and subscribe my YouTube channel

بِسْمِ اللَّـہِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِفَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِل...
16/01/2025

بِسْمِ اللَّـہِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
فَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّہُ عَلَى رَسُولِہِ وَ آلِہِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ كَذَلِكَ يَقُولُ «ثُمَّ كانَ عاقِبَۃَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّہِ وَ كانُوا بِہا يَسْتَہْزِؤُنَ»[] أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا ہَوَاناً عَلَيْہِ وَ بِكَ عَلَيْہِ كَرَامَۃً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَہُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَۃً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَۃً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَہْلًا مَہْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّہِ تَعَالَى «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَہُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّما نُمْلِي لَہُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَہُمْ عَذابٌ مُہِينٌ»] أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّہِ ص سَبَايَا قَدْ ہَتَكْتَ۔ سُتُورَہُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوہَہُنَّ تَحْدُو بِہِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُہُنَّ أَہْلُ الْمَنَاہِلِ وَ الْمَنَاقِلِ وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوہَہُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَہُنَّ مِنْ رِجَالِہِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِہِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَۃُ مَنْ لَفَظَ فُوہُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُہُ مِنْ‏ دِمَاءِ الشُّہَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَہْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ لَأَہَلُّوا وَ اسْتَہَلُّوا فَرَحاً/ ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏» مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّہِ سَيِّدِ شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ تَنْكُتُہَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَۃَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَۃَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّۃِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَہْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيہِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَہُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ اللَّہُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّہِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّہِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِہِ وَ انْتَہَكْتَ مِنْ حُرْمَتِہِ فِي عِتْرَتِہِ وَ لُحْمَتِہِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّہُ شَمْلَہُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَہُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّہِمْ «وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّہِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُونَ»[] وَ حَسْبُكَ بِاللَّہِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَہِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاہِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّہِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَہَذِہِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاہُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاہِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُہَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُہَا أُمَّہَاتُ الْفَرَاعِلِ وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّہِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْہِ الْمُعَوَّلُ فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُہْدَكَ فَوَ اللَّہِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَہَا وَ ہَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَۃُ اللَّہِ عَلَى الظَّالِمِينَ فَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِينَ الَّذِي خَتَمَ لِأَوَّلِنَا بِالسَّعَادَۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ وَ لِآخِرِنَا بِالشَّہَادَۃِ وَ الرَّحْمَۃِ وَ نَسْأَلُ اللَّہَ أَنْ يُكْمِلَ لَہُمُ الثَّوَابَ وَ يُوجِبَ لَہُمُ الْمَزِيدَ وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلَافَۃَ إِنَّہُ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَ حَسْبُنَا اللَّہُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ۔ ۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے
سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیہم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔ اس کے بعد فرمایا :اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹہا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔ اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا ہو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکہا ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیہم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔ اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔ اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیہ السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔ اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔ تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔ آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجہتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بہی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔ اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔ اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔ اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔ عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا : اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔ اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔ اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجہے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔ ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِثُمَّ قَالَتْ بَعْدَ حَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى وَالصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهِ (ص):...
16/01/2025

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
ثُمَّ قَالَتْ بَعْدَ حَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى وَالصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهِ (ص):أما بعد :يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ وَمَلَقُ الْإِمَاءِ وَغَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا بِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَفِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أتَبْكُونَ أَخِي؟! أَجَلْ، وَاللَّهِ فَابْكُوا فَإِنَّكُمْ أَحْرَى بِالْبُكَاءِ فَابْكُوا كَثِيراً وَاضْحَكُوا قَلِيلًا فَقَدْ أَبْلَيْتُمْ بِعَارِهَا وَمَنَيْتُمْ بِشَنَارِهَا وَلَنْ تَرْحَضُوهَا أَبَداً وَأَنَّى تَرْحَضُونَ قُتِلَ سَلِيلُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنِ الرِّسَالَةِ وَسَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَلَاذُ حَرْبِكُمْ وَمَعَاذُ حِزْبِكُمْ وَمَقَرُّ سِلْمِكُمْ وَآسِي كَلْمِكُمْ وَمَفْزَعُ نَازِلَتِكُمْ وَالْمَرْجِعُ إِلَيْهِ عِنْدَ مُقَاتَلَتِكُمْ- وَمَدَرَةُ حُجَجِكُمْ وَمَنَارُ مَحَجَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ وَسَاءَ مَا تَزِرُونَ لِيَوْمِ بَعْثِكُمُ فَتَعْساً تَعْساً وَنَكْساً نَكْساً لَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَتَبَّتِ الْأَيْدِي وَخَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَبُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ* وَضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ أَ تَدْرُونَ وَيْلَكُمْ أَيَّ كَبِدٍ لِمُحَمَّدٍ ص فَرَثْتُمْ وَأَيَّ عَهْدٍ نَكَثْتُمْ وَأَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَأَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ هَتَكْتُمْ وَأَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ دَماً وَلَعَذابُ الْآخِرَةِ أَخْزى‏ وَهُمْ لا يُنْصَرُونَ- فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَحْفِزُهُ الْبِدَارُ «3» وَلَا يُخْشَى عَلَيْهِ فَوْتُ النَّارِ كَلَّا إِنَّ رَبَّكَ لَنَا وَلَهُمْ لَبِالْمِرْصادِ ثُمَّ أَنْشَأَتْ تَقُولُ (ع‏): مَا ذَا تَقُولُونَ إِذْ قَالَ النَّبِيُّ لَكُمْ مَا ذَا صَنَعْتُمْ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ‏ بِأَهْلِ بَيْتِي وَأَوْلَادِي وَتَكْرِمَتِي مِنْهُمْ أُسَارَى وَمِنْهُمْ ضُرِّجُوا بِدَمٍ‏ مَا كَانَ ذَاكَ جَزَائِي إِذْ نَصَحْتُ لَكُمْ أَنْ تَخْلُفُونِي بِسُوءٍ فِي ذَوِي رَحِمِي‏ إِنِّي لَأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ يَحُلَّ بِكُمْ مِثْلُ الْعَذَابِ الَّذِي أَوْدَى عَلَى إِرَمٍ‏ ثُمَّ وَلَّتْ عَنْهُمْ- قَالَ حِذْيَمٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ حَيَارَى قَدْ رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ شَيْخٌ فِي جَانِبِي يَبْكِي وَقَدِ اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ بِالْبُكَاءِ وَيَدُهُ مَرْفُوعَةٌ إِلَى السَّمَاءِ وَهُوَ يَقُولُ بِأَبِي وَأُمِّي كُهُولُهُمْ خَيْرُ كُهُولٍ وَنِسَاؤُهُمْ خَيْرُ نِسَاءٍ وَشَبَابُهُمْ خَيْرُ شَبَابٍ وَنَسْلُهُمْ نَسْلٌ كَرِيمٌ وَفَضْلُهُمْ فَضْلٌ عَظِيمٌ ثُمَّ أَنْشَدَ: كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَنَسْلُكُمْ إِذَا عُدَّ نَسْلٌ لَا يَبُورُ وَلَا يَخْزَى‏ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ يَا عَمَّةِ اسْكُتِي فَفِي الْبَاقِي مِنَ الْمَاضِي اعْتِبَارٌ وَأَنْتِ بِحَمْدِ اللَّهِ عَالِمَةٌ غَيْرُ مُعَلَّمَةٍ فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَةٍ إِنَّ الْبُكَاءَ وَالْحَنِينَ لَا يَرُدَّانِ مَنْ قَدْ أَبَادَهُ الدَّهْرُ فَسَكَتَتْ- ثُمَّ نَزَلَ (ع) وَضَرَبَ فُسْطَاطَهُ وَأَنْزَلَ نِسَاءَهُ وَدَخَلَ الْفُسْطَاطَ.۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے
سب تعریفیں خداوند ذوالجلال و الاکرام کے لئے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمد (ص) پر اور ان کی طیب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اہلِ کوفہ! اے اہل فریب و مکر! کیا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیا اور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم (منافقانہ طور پر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو، جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، ڈینگ مارنے والے، پیکرِ فسق و فجور اور فسادی، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے کہ جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔ آگاہ رہو! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و بکا کرتے ہو؟ ہاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ روۆ زیادہ اور ہنسو کم۔ تم امام علیہ السلام کے قتل کی عار و شنار میں گرفتار ہو چکے ہو اور تم اس دھبے کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے سلیل (فرزند) اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ، مصیبت میں جائے پناہ، منارہئ حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لئے۔ تم نے بہت ہی برے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ہو گئی اورتم برباد ہو گئے۔ تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہو گئے۔ تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول (ص) کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا؟ اور ان کا کون سا خون بہایا؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا؟ تم نے ایسے اعمال شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امام کا جرم شنیع کیا ہے جو پہنائی و وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اگر اس قدر بڑے پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔ اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔ کیونکہ خداوندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ”یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے”۔

مجلس عزا
16/01/2025

مجلس عزا

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام  فرماتے ہیں : (انت بحمد اللہ عالمة غیر معلمة و فاھمة غیر مفھمة)سفینة البحار ج4ص315   ...
16/01/2025

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں
: (انت بحمد اللہ عالمة غیر معلمة و فاھمة غیر مفھمة)
سفینة البحار ج4ص315
الحمد اللہ آپ ایسی عالمہ ہیں کہ جس کو کسی نے تعلیم نہیں دی اور ایسی فہم وفراست رکھتی ہیں کہ جسے آپ نے کسی سے نہیں سیکھا۔

حضرت زینب کی وفات کی مشہور تاریخ یہ ہے کہ آپ ۱۵ رجب سن ۶۳ ہجری کو دنیا سے رخصت ہوئی ہیں
16/01/2025

حضرت زینب کی وفات کی مشہور تاریخ یہ ہے کہ آپ ۱۵ رجب سن ۶۳ ہجری کو دنیا سے رخصت ہوئی ہیں

16/01/2025

السلام علیک یا بنت علی ابن ابی طالب علیہ السلام

جشن مولود کعبہ  جامع مسجد امامیہ پھالیہ
14/01/2025

جشن مولود کعبہ
جامع مسجد امامیہ پھالیہ

سلام علیکم آج بعد نماز مغربین  مولود کعبہ امام المتقین یعسوب الدین  امام علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کی  ولادت باسعادت...
14/01/2025

سلام علیکم
آج بعد نماز مغربین مولود کعبہ امام المتقین یعسوب الدین امام علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ایک پروقار جشن منعقد ہوگا
تمام مؤمنین اور بچوں سے شرکت کی التماس ہے

بمقام جامع مسجد امامیہ پھالیہ

آج آغـــوشِ مُحمدؐ  میں لوگوکُلِ ایمان اور کُلِ اسلام آیا ہےتمام عالم اسلام کو یومِ ولادت شیرِ خدا، نفس رسولﷺ،  امیرالّم...
14/01/2025

آج آغـــوشِ مُحمدؐ میں لوگو
کُلِ ایمان اور کُلِ اسلام آیا ہے

تمام عالم اسلام کو یومِ ولادت شیرِ خدا، نفس رسولﷺ، امیرالّمومنین امام المتقین اول العابدین مولا امامِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام مبارك
جشن_مولود_کعبہ
آمد_شیر_خدا

قال الامام علی نقی إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ لَهُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، ...
04/01/2025

قال الامام علی نقی إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ لَهُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، وَ ما خَلَّفَهُ كانَ زادَهُ إلَى النّارِ".

امام علی نقی علیہ السّلام فرماتے ہیں
"(مال) حرام بڑھتا پھولتا نہیں ہے اور اگر بڑھے اور پھولے بھی تو اس میں (صاحب مال حرام) کے لئے برکت نہیں ہوتی، اگر جو وہ اس مال میں سے انفاق کردے تو اس کا اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا اور اگر (ترکے میں) چھوڑ جائے تو جہنم کی راہ کا توشہ ہے

تعلیماتِ امام محمد باقر (ع)، دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہاسلامی تاریخ میں امام محمد باقر علیہ السلام کا دور علمی...
02/01/2025

تعلیماتِ امام محمد باقر (ع)، دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ
اسلامی تاریخ میں امام محمد باقر علیہ السلام کا دور علمی و فکری احیاء کا ایک نمایاں زمانہ تھا۔ آپ کی تعلیمات میں ایسے اصول و ضوابط موجود ہیں جو آج کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ امام علیہ السلام نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جو علم، کردار اور مقصد پر مبنی ہو۔

نوجوانوں کی تربیت میں امام باقر علیہ السلام کا کردار:

امام باقر علیہ السلام نوجوان نسل کو ایک ایسی شخصیت بنانا چاہتے تھے جو علم و عمل کا پیکر ہو۔ آپ نے اپنے قول و عمل کے ذریعے نوجوانوں کو ایک متوازن اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھائے۔

1. علم کی اہمیّت

امام باقر علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے: "علم زندگی کی روشنی ہے اور جہالت موت کی تاریکی۔"

آپ نے نوجوانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا:"علم حاصل کرو، کیونکہ علم انسان کو حق و باطل کی پہچان دیتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔"

آج کے نوجوانوں کو تعلیم کو صرف دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں بلکہ شخصیت کی تعمیر اور معاشرتی خدمت کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔

2. اخلاقی تربیت

امام باقر علیہ السلام نے اخلاقی اقدار کو شخصیت کی بنیاد قرار دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: "بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے ویسا بنے جیسا وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"

نوجوانوں کو معاشرے میں صبر، دیانت داری، اور عاجزی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔

3. وقت کی قدر

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:"مومن کا دن تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے: ایک حصہ عبادت کے لیے، دوسرا روزی کمانے کے لیے، اور تیسرا اپنی ذات اور علم کے لیے۔"

یہ اصول نوجوانوں کو وقت کی قدر اور اس کے بہترین استعمال کی تعلیم دیتا ہے۔

4. عبادت اور روحانیت کی اہمیّت

امام باقر علیہ السلام نے روحانیت اور عبادت کو زندگی کا اہم حصہ قرار دیا۔ آپ نے نوجوانوں کو نماز، دعا اور قرآن سے جڑے رہنے کی ترغیب دی تاکہ وہ دنیوی مسائل کے باوجود اپنے روحانی سکون کو برقرار رکھ سکیں۔

5. خود اعتمادی اور خود احتسابی

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:"سب سے بڑا جہاد اپنے نفس کے خلاف ہے۔"

آپ نے نوجوانوں کو خود احتسابی اور اپنی اصلاح پر زور دیا تاکہ وہ دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔

6. والدین اور بڑوں کا احترام

امام باقر علیہ السلام نے نوجوانوں کو والدین اور بڑوں کے احترام کی تعلیم دی۔ آپ نے فرمایا: "جو اپنے والدین کا احترام کرتا ہے، اللہ اس کی زندگی میں برکت دیتا ہے۔"

یہ تعلیم آج کے دور میں خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

7. نوجوان اور معاشرتی ذمہ داری

امام باقر علیہ السلام نے نوجوانوں کو معاشرتی انصاف کے قیام کا درس دیا۔ آپ نے فرمایا:"وہ شخص بہترین ہے جو اپنے بھائیوں اور معاشرے کے لیے مفید ہو۔"

یہ اصول نوجوانوں کو اپنے سماجی کردار کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

آج کے نوجوانوں کے لیے امام باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی اہمیت:

1. تعلیم اور ٹیکنالوجی کا استعمال

علم حاصل کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں امام علیہ السلام کی تعلیمات رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

2. کردار سازی

نوجوانوں کو اپنی زندگی میں اخلاق، ایمانداری، اور استقامت اپنانے کی ترغیب ملتی ہے۔

3. دین اور دنیا کا توازن

امام باقر علیہ السلام نے عبادت اور دنیوی معاملات میں توازن برقرار رکھنے کا درس دیا جو آج کے نوجوانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔

4. چیلنجز کا سامنا

آپ کی تعلیمات نوجوانوں کو موجودہ دور کے اخلاقی، سماجی اور روحانی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات نوجوانوں کے لیے ایک جامع رہنما ہیں جو انہیں زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔ علم، اخلاق، وقت کی قدر، اور روحانی تربیت کے ذریعے آپ نے نوجوان نسل کو ایک مثالی شخصیت بنانے کا درس دیا۔ آج کے نوجوان اگر ان اصولوں کو اپنائیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک مثبت مثال بن سکتے ہیں۔ خداوند ہم تمام حق کے پیروکاروں کو سیرت امام باقر علیہ السلام کو سمجھنے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے توفیق عنایت فرمائے۔

شب جمعہ
02/01/2025

شب جمعہ

ولادت با سعادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
02/01/2025

ولادت با سعادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

01/01/2025

السلام علی الحسین
2025

2025 خوش آمدید
01/01/2025

2025 خوش آمدید

پہلی برسی محسن ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی رح کے درجات بلند فرمائے
29/12/2024

پہلی برسی
محسن ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی رح کے درجات بلند فرمائے

قالت فاطمہ زہراء س مَن اَصعَدَ اِلي اللهِ خالِصَ عِبادَتِه اَهبَطَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ اِلَیهِ اَفضَلَ مَصلَحَتِه جو اپ...
23/12/2024

قالت فاطمہ زہراء س
مَن اَصعَدَ اِلي اللهِ خالِصَ عِبادَتِه اَهبَطَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ اِلَیهِ اَفضَلَ مَصلَحَتِه

جو اپنی خالص عبادت کو اللہ کی طرف بھیجے تو اللہ تعالی اپنی بہترین مصلحت اس کی طرف نازل کرے گا۔

عدة الداعی، ص 233

حضرت فاطمہ زہراؑ بھی اپنے والد پیغمبر اکرم کی طرح خدا کی عبادت سے شدید لگاؤ رکھتی تھیں۔ اسی بنا پر آپ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ نماز اور خدا کے ساتھ راز و نیاز میں بسر کرتی تھیں۔بعض مصادر میں آیا ہے کہ بعض اوقات جب حضرت فاطمہؑ قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیں تو اس دوران آپ غیبی امداد سے بہرہ مند ہوتی تھیں۔ جیسے: ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک دن سلامان فارسی نے دیکھا کہ حضرت زہراؑ چکی کے پاس قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں اور چکی خود بخود چل رہی تھی، سلمان فارسی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا: … خداوند عالم نے حضرت زہراؑ کیلئے چکی چلانے کے لئے جبرئیل امین کو بھیجا تھا۔ طولانی نمازیں پڑھنا، راتوں میں عبادت کرنا، دوسروں منجملہ پڑوسیوں کے لئے دعا کرنا، روزہ رکھنا، شھدا کی قبور کی زیارت کرنا؛ آپ کے نمایاں معمولات زندگی تھے کہ جس کی اہل‌ بیتؑ، بعض صحابہ اور تابعین نے تائید کی ہے۔یہی سبب ہے کہ دعا و مناجات کی کتابوں میں بعض نمازوں، دعاؤں اور تسبیحات وغیرہ کی نسبت ان کی طرف دی گئی ہے۔

ولادت مبارک ہو
23/12/2024

ولادت مبارک ہو

Address

Phalia
50430

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zahor Network posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zahor Network:

Videos

Share