دفاع اسلام فورم

دفاع اسلام فورم Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from دفاع اسلام فورم, Publisher, Peshawar.

06/11/2024

#سوال #

لوگوں کوزبردستی قسم دیناکیساهے؟

الجواب وبالله التوفی #

قسم ایک اہم عمل ہے،

جو کہ عموماً کسی بات یا وعدے کی پختگی کو ظاہر کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ ایک قسم کا عہد یا وعدہ ہوتا ہے جو فرد کی سچائی اور ایمانداری پر مبنی ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں قسم کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسے ایک بڑی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔

مجبور کرنا اور اس کی اخلاقی پیچیدگیاں #

کسی کو قسم پر مجبور کرنا ایک اخلاقی مسئلہ بن جاتا ہے، کیونکہ اس میں فرد کی مرضی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
انسانوں کی آزادی اور ان کی رضا کو اہمیت دی جاتی ہے، اور جب کسی کو زبردستی قسم پر مجبور کیا جائے، تو اس کی ذاتی آزادی پر حملہ کیا جاتا ہے۔ مجبور کرنے کی صورت میں وہ شخص اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ دوسروں کے دباؤ میں آ کر قسم اٹھاتا ہے، جو کہ اس کی سچائی اور صداقت کو مشکوک بنا سکتا ہے۔

دینی نقطہ نظر

اسلام میں قسم اٹھانا ایک سنگین معاملہ ہے، اور اسے صرف اس صورت میں استعمال کرنا چاہیے جب حقیقت میں ضرورت ہو۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جھوٹی قسم اٹھانے والے پر اللہ کی لعنت ہے" (مسلم)۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قسم کو محض کسی دباؤ یا مجبوری کی حالت میں استعمال کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ دینی طور پر بھی اس کی ممانعت ہے۔ اسلام میں انسان کی آزادی اور اس کی رضا کی اہمیت ہے، اور کسی کو قسم پر مجبور کرنا اس کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

قانونی نقطہ نظر #

قانونی طور پر، کسی فرد کو قسم پر مجبور کرنا ایک ناجائز عمل ہے۔ دنیا کے مختلف قانونی نظاموں میں جب کسی کو زبردستی کوئی وعدہ یا بیان دینے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اسے "دباؤ" یا "جبر" کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں بیان یا وعدہ قانونی طور پر قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ مثلا، اگر کسی شخص کو جھوٹ بولنے یا قسم اٹھانے کے لئے مجبور کیا جائے، تو اس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی اور ایسا عمل مجرمانہ فعل ہو سکتا ہے۔
نفسیاتی اثرات #

کسی کو قسم پر مجبور کرنے کے نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ یہ فرد کی ذہنی سکون اور خوداعتمادی کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایسے افراد جو دباؤ میں آ کر قسم اٹھاتے ہیں، وہ بعد میں خود کو بے عزتی اور مجبوری محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ ان کی شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور ان کے اندر نفسیاتی تناؤ، اضطراب اور ذہنی دباؤ کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔

خلاصہ #

کسی کو قسم پر مجبور کرنا نہ صرف اخلاقی اور دینی طور پر غلط ہے بلکہ یہ قانونی اور نفسیاتی لحاظ سے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ انسان کی آزادی اور رضاکارانہ عمل کو عزت دینا ضروری ہے تاکہ اس کے عہد یا وعدے کی صداقت برقرار رہ سکے۔ انسان کو اپنی مرضی سے قسم اٹھانے کا اختیار ہونا چاہیے، نہ کہ کسی کی خواہش یا دباؤ کے تحت۔

(تحریرمفتی ابواسامه غلام حسن حفظه الله)
زیرنگرانی دفاع اسلام فورم۔
رابطه نمبر(03005989739)

*"نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئیاں: امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اور زمین پر عدل کا قیام"* *سنن ابوداؤد کی روایت:*  *حدیث نمبر ...
06/11/2024

*"نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئیاں: امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اور زمین پر عدل کا قیام"*

*سنن ابوداؤد کی روایت:*
*حدیث نمبر :1*
`حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدٍ حَدَّثَهُمْ. ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ. ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ. ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا زَائِدَةُ. ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فِطْرٍ، ‏‏‏‏‏‏الْمَعْنَى وَاحِدٌ كُلُّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِرٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ زَائِدَةُ فِي حَدِيثِهِ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اتَّفَقُوا:‏‏‏‏ حَتَّى يَبْعَثَ فِيهِ رَجُلًا مِنِّي أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي زَادَ فِي حَدِيثِ فِطْرٍ يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ:‏‏‏‏ لَا تَذْهَبُ أَوْ لَا تَنْقَضِي الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ لَفْظُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرٍ بِمَعْنَى سُفْيَانَ.`

*ترجمہ:*
"عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا، یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر، اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا، وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔ سفیان کی روایت میں ہے: دنیا نہیں جائے گی یا ختم نہیں ہوگی تاآنکہ عربوں کا مالک ایک ایسا شخص ہوجائے جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا اس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر اور ابوبکر کے الفاظ سفیان کی روایت کے مفہوم کے مطابق ہیں۔" *(سنن ابوداؤد)*
*حدیث نمبر: 4282*

*حدیث نمبر : 2*
`حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا فِطْرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ أَبِي الطُّفَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَلِيٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدَّهْرِ إِلَّا يَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا.`

*ترجمہ* :
"علی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کھڑا بھیجے گا وہ اسے عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔" *(سنن ابوداؤد ، کتاب امام مہدی کا بیان )*
*حدیث نمبر: 4283*

*حدیث نمبر : 3*
`حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ بَيَانٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ نُفَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِي مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ أَبَا الْمَلِيحِ، ‏‏‏‏‏‏يُثْنِي عَلَى عَلِيِّ بْنِ نُفَيْلٍ وَيَذْكُرُ مِنْهُ صَلَاحًا.`

*ترجمہ:*
"ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے ۔" *(سنن ابوداؤد ، کتاب: امام مہدی کا بیان)*
*حدیث نمبر: 4284*

*حدیث نمبر : 4*
`حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ تَمَّامِ بْنِ بَزِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمَهْدِيُّ مِنِّي أَجْلَى الْجَبْهَةِ أَقْنَى الْأَنْفِ يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ.`

*ترجمہ:*
"ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مہدی میری اولاد میں سے کشادہ پیشانی، اونچی ناک والے ہوں گے، وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے، ان کی حکومت سات سال تک رہے گی ۔" *(سنن ابوداؤد ، کتاب : امام مہدی کا بیان)*
*حدیث نمبر : 4285*

*حدیث نمبر : 5*
`حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَاحِبٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ فَيَقْسِمُ الْمَالَ وَيَعْمَلُ فِي النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ إِلى الْأَرْضِ فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ عَنِ هِشَامٍ تِسْعَ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ سَبْعَ سِنِينَ.`

*ترجمہ:*
"ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہوگا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لیے پیش کریں گے، اسے یہ پسند نہ ہوگا، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں اس کے پاس آئیں گی، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا ننہال بنی کلب میں ہوگا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا، وہ اس پر غالب آئیں گے، یہی کلب کا لشکر ہوگا، اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے، وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا، اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا، وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا، پھر وفات پا جائے گا، اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بعض نے ہشام سے نو سال کی روایت کی ہے اور بعض نے سات کی۔" *(سنن ابوداؤد ، کتاب امام مہدی کا بیان)*
*حدیث نمبر : 4286*

*جامع الترمذی کی روایت :*
*حدیث نمبر: 1*
`حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ، قَالَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.`

*ترجمہ:*
"عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہوگا عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا ۔" *(جامع الترمذی ،کتاب : فتنوں کا بیان ، باب امام مہدی کے متعلق)*
*حدیث نمبر : 2230*

*حدیث نمبر : 2*
`حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ يَلِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَاصِمٌ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَلِيَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.`

*ترجمہ:*
"عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہوگا حکومت کرے گا ۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: اگر دنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا یہاں تک کہ وہ آدمی حکومت کرلے۔" *(جامع الترمذی ، کتاب : فتنوں کا بیان ، باب : امام مہدی کے متعلق)*
*حدیث نمبر : 2231*

*سنن ابن ماجہ کی روایات*
*حدیث نمبر : 1*
`حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعُقَيْلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صِدِّيقٍ النَّاجِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَكُونُ فِي أُمَّتِي الْمَهْدِيُّ،‏‏‏‏ إِنْ قُصِرَ فَسَبْعٌ وَإِلَّا فَتِسْعٌ،‏‏‏‏ فَتَنْعَمُ فِيهِ أُمَّتِي نِعْمَةً لَمْ يَنْعَمُوا مِثْلَهَا قَطُّ،‏‏‏‏ تُؤْتَى أُكُلَهَا وَلَا تَدَّخِرُ مِنْهُمْ شَيْئًا،‏‏‏‏ وَالْمَالُ يَوْمَئِذٍ كُدُوسٌ،‏‏‏‏ فَيَقُومُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا مَهْدِيُّ أَعْطِنِي،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ خُذْ.`

*ترجمہ:*
"ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت میں مہدی ہوں گے، اگر وہ دنیا میں کم رہے تو بھی سات برس تک ضرور رہیں گے، ورنہ نو برس رہیں گے، ان کے زمانہ میں میری امت اس قدر خوش حال ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہوگی، زمین کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنا سارا پھل اگا دے گی، اس میں سے کچھ بھی اٹھا نہ رکھے گی، اور ان کے زمانے میں مال کا ڈھیر لگا ہوگا، تو ایک شخص کھڑا ہوگا اور کہے گا: اے مہدی! مجھے کچھ دیں، وہ جواب دیں گے: لے لو (اس ڈھیر میں سے جتنا جی چاہے)" *١ ؎* ۔

*وضاحت* : *١ ؎* : "مہدی کے معنی لغت میں ہدایت پایا ہوا کے ہیں، اور اسی سے ہیں مہدی آخرالزمان، زرکشی کہتے ہیں کہ یہ وہ مہدی ہیں، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ پائیں گے اور ان کے ساتھ نماز پڑھیں گے، اور قسطنطنیہ کو نصاریٰ سے چھین لیں گے اور عرب و عجم کے مالک ہوجائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور مسجد حرام میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت کی جائے گی"۔ *(سنن ابن ماجہ ، کتاب : فتنوں کا بیان ، باب : *حضرت مہدی کی تشریف آوری)*
*حدیث نمبر :4083*

*حدیث نمبر : 2*
`حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَاسِينُ،‏‏‏‏ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ،‏‏‏‏ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ.`

*ترجمہ:*
"علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا، اور اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں ان کو صالح بنا دے گا ۔" *(سنن ابن ماجہ ، کتاب : فتنوں کا بیان ، باب: *حضرت مہدی کی تشریف آوری)*
*حدیث نمبر : 4085*

*حدیث نمبر : 3*
`حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ الرَّقِّيُّ،‏‏‏‏ عَنْ زِيَادِ بْنِ بَيَانٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ نُفَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ فَتَذَاكَرْنَا الْمَهْدِيَّ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْمَهْدِيُّ مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ.`

*ترجمہ:*
"سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ہم ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے پاس تھے، ہم نے مہدی کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے "۔ *(سنن ابن ماجہ ،کتاب : فتنوں کا بیان ، باب : حضرت مہدی کی تشریف آوری)*
*حدیث نمبر : 4086*

*مسند احمد کی روایت*

`حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالَا حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ حَجَّاجٌ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا مِنَّا يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ رَجُلًا مِنَّا قَالَ وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً يَذْكُرُهُ عَنْ حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ`

*ترجمہ:*
"حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر دنیاختم ہونے میں صرف ایک دن ہی بچ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ ہم میں سے ایک ایسے آدمی کو ضرور بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے پہلے وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی (مراد حضرت امام مہدی ؓ ہیں جن پر اس ناکارہ کی مستقل کتاب اسلام میں امام مہدی کا تصور کے نام سے بازار میں دستیاب ہے)۔" *(مسند احمد ، کتاب: حضرت علی (رض) کی مرویات ، باب: حضرت علی (رض) کی مرویات)*
*حدیث نمبر: 734*

*معارف الحدیث*
`عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي. (رواه الترمذى)`

*ترجمہ:*
"حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک یہ نہ ہوگا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص عرب کا مالک اور فرماں روا ہوگا اس کا نام میرے نام کے مطابق (یعنی محمد) ہوگا۔" *(معارف الحدیث ، کتاب: علاماتِ قیامت ، باب: حضرت مہدی کی آمد اور ان کے ذریعہ برپا ہونے والا انقلاب)*
*حدیث نمبر: 1960*

*تشریح*
اس حدیث میں بھی مہدی کا لفظ نہیں ہے لیکن مراد حضرت مہدی ہی ہیں اور سنن ابی داود میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓٗ ہی کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ان کے باپ کانام میرے باپ کے نام کے مطابق (یعنی عبداللہ) ہوگا نیز یہ بھی اضافہ ہے کہ `يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا` (وہ اللہ کی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح پہلے وہ ظلم و ناانصافی سے بھری ہوئی تھی) سنن ابی داؤد کی اس روایت سے اور حضرت مہدی سے متعلق دوسری بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حکومت پوری دنیا میں ہوگی پس جامع ترمذی کی زیر تشریح روایت میں جو عرب پر حکومت کا ذکر کیا گیا ہے وہ غالبا اس بنیاد پر ہے کہ ان کی حکومت کا اصل مرکز عرب ہی ہوگا دوسری تو جیہ اس کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ابتداء میں ان کی حکومت عرب پر ہوگی بعد میں پوری دنیا ان کے دائرہ حکومت میں آجائے گی۔ *واللہ اعلم۔*

*کنزالعمال کی روایات*

*حدیث نمبر : 1*
*کتاب: قیامت کا بیان*
*باب: ” مہدی کا ظہور “*
*حدیث نمبر: 38663*

`38651- "إذا رأيتم الرايات السود قد جاءت من قبل خراسان فأتوها، فإن فيها خليفة الله المهدي." حم، ك - عن ثوبان".`

*ترجمہ:*
*٣٨٦٥١* ۔۔۔ "جب تم خراسان سے سیاہ جھنڈے آتے دیکھو تو وہاں پہنچ جاؤ کیونکہ ان میں خلیفۃ اللہ مہدی ہوگا"۔ *(مسند احمد، حاکم عن ثوبان )*

*حدیث نمبر : 2*
*کتاب: قیامت کا بیان*
*باب: ” مہدی کا ظہور “*
*حدیث نمبر: 38665*

*
`38653- "أبشروا بالمهدي رجل من قريش من عترتي، يخرج في اختلاف من الناس زلزال، فيملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا، ويرضى عنه ساكن السماء وساكن الأرض، ويقسم المال صحاحا بالسوية، ويملأ قلوب أمة محمد صلى الله عليه وسلم غنى ويسعهم عدله حتى أنه يأمر مناديا فينادي: من له حاجة إلي؟ فما يأتيه أحد إلا رجل واحد يأتيه فيسأله، فيقول: ائت السادن حتى يعطيك، فيأتيه فيقول: أنا رسول المهدي إليك لتعطيني مالا، فيقول: احث، فيحثي ولا يستطيع أن يحمله، فيلقي حتى يكون قدر ما يستطيع أن يحمله، فيخرج به فيندم فيقول: أنا كنت أجشع أمة محمد نفسا، كلهم دعي إلى هذا المال فتركه غيري، فيرد عليه فيقول: إنا لا نقبل شيئا أعطيناه، فيلبث في ذلك ستا أو سبعا أو ثمانيا أو تسع سنين ولا خير في الحياة بعده." حم والبارودي - عن أبي سعيد".`

*ترجمہ:*
*٣٨٦٥٣* ۔۔۔" تمہیں مہدی کی خوشخبری ہو جو قریش میں میرے خاندان کا آدمی ہوگا وہ زلزلوں اور لوگوں کے اختلاف کے دور میں نکلے گا وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا، جیسے وہ ظلم وستم سے بھری ہوگی آسمان و زمین کے رہنے والے اس سے خوش ہوں گے، مال کو صحیح برابر حصوں میں تقسیم کرے گا، اور امت محمد علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے دلوں کو مسرت سے بھردے گا، اس کا انصاف انھیں کافی ہوگا، یہاں تک کہ ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: جسے کوئی ضرورت ہو وہ میرے پاس آجائے؟ تو اس کے پاس صرف ایک آدمی آئے گا اس سے سوال کرے گا، پھر وہ کہے گا: دربان کے پاس جاؤ وہ تمہیں عطا کرے گا، چنانچہ وہ اس کے پاس آکر کہے گا: میں مہدی کا قاصد ہوں تاکہ تم مجھے مال دو، وہ کہے گا: دونوں ہاتھوں سے اٹھاؤ، وہ جھولی بھرے گا لیکن اٹھا نہیں سکے گا، پھر وہ مال نکال دے گا اور اتنا باقی رکھے گا جسے اٹھاسکے، مال لے کر نکلے گا تو اسے ندامت وپشیمانی ہوگی وہ (دل میں) کہے گا: امت محمد میں سے میں ہی (بڑا) بےباک ہوں، سب کو اس مال کی طرف بلایا گیا تو میرے علاوہ سب نے چھوڑ دیا، چنانچہ (اس خیال سے ) وہ دربان کو مال واپس کرے گا، تو وہ کہے گا: ہم جو چیز دے دیتے ہیں واپس نہیں لیتے، پھر وہ (مہدی) اس حال میں چھ، سات، آٹھ یا نوسال رہے گا اس کے بعد زندگی میں کوئی خیر نہیں۔۔ (مسند احمد، والباوردی عن ابی سعید)"

*حدیث نمبر : 3*
*کتاب: قیامت کا بیان*
*باب: ” مہدی کا ظہور “*
*حدیث نمبر: 38669*

`*38657* - "يخرج ناس من المشرق فيوطؤن للمهدي سلطانه." هـ - عن عبد الله بن الحارث بن جزء"`

*ترجمہ:*
*٣٨٦٥٧* ۔۔ "کچھ لوگ مشرق سے نکلیں گے اور مہدی کی حکومت کی اطاعت کریں گے (ابن ماجہ عن عبداللہ بن الحارث بن جزء)"

*روایات السلسلة الصحيحة*

*کتاب: ایام فتن، علامات قیامت اور دوبارہ زندہ کیےجانے کا بیان*
*باب: ایام فتن، علامات قیامت اور دوبارہ زندہ کیےجانے کا بیان*
*حدیث نمبر: 2731*

`عَنْ مُعَاوِيَةَ بن قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ مَرفُوعاً: لَتُمْلأَنَّ الأَرْضُ جَوْرًا وَظُلْمًا فإذا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا بَعْثَ اللهُ رَجُلا مِنِّي، اسْمُهُ اسْمِي، فَيَمْلأُهَا قِسْطًا وَعَدْلا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا.`

*ترجمہ:*
"معاویہ بن قرہ اپنے والد ؓ سے مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ:زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی۔جب زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اللہ تعالیٰ مجھ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص بھیجےگا،اس کا نام میرے نام جیسا ہوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔"
*الصحيحة رقم (1529) المعجم الكبير للطبراني رقم (15412)*
*ضبط و ترتیب*: *مولانا عمیر اللّٰہ قریشی* *(مرکزی شوریٰ ممبر دفاع اسلام فورم)*
*زیر نگرانی : مناظر اسلام مولانا مفتی ابو اسامہ غلام حسن صاحب حفظہ اللہ*

05/11/2024

#ردالالحار #
نظریاتی سائنس اور مشاہداتی سائنس میں کیا فرق ہے تفصیلی درس ہے خود بھی سن لیں اور اگے میں شیئر کریں #

*سوال: السلام علیکم محترم مفتی صاحب!*  *ملحدین اکثر یہ اعتراض پیش کرتے ہیں* کہ اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ی...
05/11/2024

*سوال: السلام علیکم محترم مفتی صاحب!*
*ملحدین اکثر یہ اعتراض پیش کرتے ہیں* کہ اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ہے، جبکہ اگر کوئی گناہ کرتا ہے تو اسے اس کے اپنے اختیار اور آزاد ارادے کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ کیا ایسا کہنا عدل کے خلاف نہیں؟ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ نیکی اور گناہ میں اللہ کی مشیت اور انسان کے اختیار کا کیا تعلق ہے۔
*جواب* :
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔*
یہ سوال اسلامی عقائد کا ایک اہم پہلو ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مشیت، انسان کا اختیار، اور جزا و سزا کا باہمی تعلق زیر بحث آتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ اللہ کی مشیت اور انسان کے ارادے کے درمیان کیا تعلق ہے اور نیکی و گناہ کے مسئلے میں اللہ کا فضل اور انسان کا اختیار کیسے کارفرما ہیں۔
**1. نیکی اور اللہ کا فضل*
*اسلامی عقائد کے مطابق** ، ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے، اور نیکی کرنے کی توفیق بھی اللہ کے فضل سے ملتی ہے۔ نیکی کا ارادہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ توفیق ہے، اور مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر نیکی کو اللہ کے فضل سے منسوب کرے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ"
(سورۃ التکویر: 29)
"اور تم کچھ نہیں چاہتے مگر جو اللہ چاہے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کی چاہت اللہ کی مشیت کے تابع ہے۔ نیکی کا جذبہ اور ارادہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
**2. گناہ اور انسان کا اختیار* *اسلام میں انسان کو نیکی اور*گناہ میں تمیز کرنے کا اختیار دیا **گیا ہے۔* اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، ارادہ، اور فیصلے کی آزادی دی ہے تاکہ وہ اپنے اعمال کے مطابق جوابدہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا"
(سورۃ الدھر: 3)
"بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، چاہے وہ شکر گزار ہو یا ناشکرا۔"
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح اور غلط دونوں راستوں کی پہچان دی ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ وہ کس راستے پر چلتا ہے۔
*3. اللہ کی مشیت اور انسان کے اختیار میں توازن*
اسلامی تعلیمات میں اللہ کی مشیت اور انسان کے اختیار میں توازن موجود ہے۔ اللہ نے انسان کو نیکی اور گناہ کا اختیار دے کر اس کی آزمائش کی ہے تاکہ اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جا سکے۔ اللہ کا علم اور مشیت ہر چیز پر غالب ہیں، مگر انسان کو ارادے کی آزادی دی گئی ہے۔ قرآن میں ہے:
"مَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ ٱللَّهَ يَجِدِ ٱللَّهَ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا"
(سورۃ النساء: 110)
"جو شخص برائی کرے یا اپنے اوپر ظلم کرے، پھر اللہ سے معافی مانگے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔"
یہ آیت انسان کی آزادی اور ذمہ داری کو ظاہر کرتی ہے، جس کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔
*4. احادیث میں نیکی اور گناہ کا توازن*
احادیث مبارکہ میں بھی اللہ کے فضل اور انسان کے اختیار کے بارے میں واضح احکامات موجود ہیں۔ *حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:*
"لَا يَجِدُ أَحَدٌ طَعْمَ الْإِيمَانِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَهُ، وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَهُ"
(صحیح مسلم)
"کوئی ایمان کا حقیقی ذائقہ نہیں پاتا جب تک یہ یقین نہ رکھے کہ جو اسے پہنچا وہ اس سے بچ نہیں سکتا تھا اور جو نہ پہنچا، وہ اسے پہنچنے والا نہیں تھا۔"
یہ حدیث انسان کے نیک اعمال میں اللہ کے فضل کا انحصار اور انسان کی آزمائش کو بیان کرتی ہے۔
**5. عقلی اور منطقی دلائل*
*عدل اور اختیار کا تعلق** : اگر اللہ تعالیٰ انسان کو نیکی یا گناہ پر مجبور کرتا تو جزا و سزا کا تصور بے معنی ہو جاتا۔ اس لیے اللہ نے انسان کو اختیار دیا کہ وہ خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہو۔
*جزا و سزا کا مقصد* : آخرت میں جزا و سزا کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو جزا و سزا کا نظام عدل کے خلاف ہوتا۔
نیکی پر شکر اور گناہ پر توبہ: اسلام میں نیکی کے بعد اللہ کا شکر اور گناہ پر توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیکی پر شکر یہ اعتراف ہے کہ یہ اللہ کے فضل سے ممکن ہوا، جبکہ گناہ پر توبہ انسان کے اختیار اور ذمہ داری کو ظاہر کرتی ہے۔
*خلاصہ*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور گناہ میں انتخاب کی آزادی دی ہے۔ نیکی اللہ کے فضل سے ہوتی ہے جبکہ گناہ انسان کے اختیار اور اس کی مرضی سے۔ یہی توازن اسلامی عدل کو واضح کرتا ہے اور انسان کے اعمال پر جزا و سزا کا بنیادی اصول ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضی سے نیکی کی توفیق عطا فرمائے اور گناہوں سے بچائے۔ آمین۔
*تحریر مفتی مرتضی افتخار*
*ممبر مرکزی شوریٰ دفاع اسلام فورم*
*زیرنگرانی مفتی ابو اسامہ غلام حسن حفظہ اللہ*

*سوال: برزخ میں روح رشتہ داروں سے ملاقات کرتی ہے یا نہیں؟* برزخ کی حالت، جو کہ موت کے بعد کی زندگی کا ایک درمیانی مرحلہ ...
05/11/2024

*سوال: برزخ میں روح رشتہ داروں سے ملاقات کرتی ہے یا نہیں؟*
برزخ کی حالت، جو کہ موت کے بعد کی زندگی کا ایک درمیانی مرحلہ ہے، اسلام کی اہم تصورات میں سے ایک ہے۔ اس مضمون میں ہم برزخ میں روحوں کی ملاقات کے موضوع پر قرآن و سنت، عقل و منطق، اور سائنسی نقطہ نظر سے تفصیلی بحث کریں گے۔
**1. قرآن میں برزخ کا تصور*قرآن مجید میں برزخ کی وضاحت کئی مقامات پر کی گئی ہے* ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
"اور ان کے پیچھے ایک برزخ ہے جو قیامت کے دن تک (قائم) ہے۔"
(سورۃ المومنون: 100)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ موت کے بعد انسان کی روح ایک برزخی حالت میں منتقل ہو جاتی ہے۔ برزخ کی حالت میں روح کو دنیا کی زندگی کی طرح نہیں گزارنی ہوتی، بلکہ یہ ایک ایسا عالم ہے جہاں روح کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ اس میں روحیں اپنی اعمال کے مطابق مختلف تجربات کرتی ہیں۔
قرآن میں روح کی زندگی کی تفصیلات کم ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ برزخ کی زندگی مادی زندگی سے مختلف ہے، اور روحیں ایک نئے عالم میں داخل ہو جاتی ہیں۔
**2. احادیث کی روشنی میں*احادیث نبوی میں بھی برزخ* کی زندگی اور روحوں کی ملاقات* کے موضوع پر کچھ معلومات ملتی ہیں۔ مثلاً:
*حضرت عائشہؓ سے روایت* ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ الرُّوحَ إذا قُبِضَ تَبِعَهُ البَصَرُ
"جب روح قبض کی جاتی ہے تو آنکھ اسے دیکھتی ہے۔"
(صحیح مسلم)
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ روح کے قبض ہونے کے بعد کچھ خاص تجربات ہوتے ہیں۔
*ایک اور روایت میں فرمایا گیا ہے:*
إذا ماتَ أحدُكم ، عُرِضَ عليهِ مقعدُه بالغداةِ والعشيِّ
"جب تم میں سے کسی کی موت ہوتی ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے۔"
(صحیح بخاری)
یہ بھی روح کی موجودگی اور اس کے تجربات کا اشارہ ہے۔
یہ روایات اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ روحوں کی حالت برزخ میں ان کی اعمال کے مطابق ہوتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ روحیں ایک دوسرے کے تجربات سے آگاہ ہوں۔
*3. علماء کی آراء*
اسلامی علماء نے اس موضوع پر مختلف آراء پیش کی ہیں:
*ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ* اپنی کتاب "الروح" میں لکھتے ہیں کہ برزخ میں روحیں ایک دوسرے سے مل سکتی ہیں، خاص طور پر جب ان میں محبت یا دینی رشتہ ہو۔
*ابن تیمیہ رحمہ اللہ* بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ روحیں برزخ میں ملاقات کر سکتی ہیں، مگر یہ ملاقاتیں اللہ کے حکم کے مطابق ہوتی ہیں۔
*شیخ الاسلام ابن حزم رحمہ اللہ* نے بھی اس موضوع پر مختلف آراء پیش کی ہیں اور یہ تسلیم کیا ہے کہ روحوں کی ملاقات ممکن ہے۔
*4. سائنسی نقطہ نظر*
سائنس کے دائرے میں روح کے وجود کا تصدیق ممکن نہیں۔ سائنسی تحقیق انسان کی جسمانی حالت اور اس کی موت کو تو سمجھ سکتی ہے، لیکن روح کا وجود ایک غیبی اور روحانی مسئلہ ہے۔
*عصبی سائنس* انسانی دماغ کی کیمیائی و برقی حرکات کو جانچنے میں کامیاب رہی ہے، مگر روح کی حقیقی نوعیت کی تفہیم میں ناکام رہی ہے۔
*نفسیات* بھی انسان کی ذہنی حالت اور احساسات کا مطالعہ کرتی ہے، لیکن روح کے بارے میں کوئی ٹھوس سائنسی نظریہ موجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ روح کی برزخی حالت پر سائنسی بحث مشکل ہے۔ اس لئے ہمیں اس موضوع کو اسلامی تناظر میں ہی سمجھنا ہوگا۔
*5. عقل و منطق کا تجزیہ*
عقل و منطق کے اعتبار سے یہ کہنا کہ روح برزخ میں ایک حالت میں ہو سکتی ہے، ایک منطقی تجویز ہے۔ کچھ نکات درج ذیل ہیں:
*عقل کی بنیاد پر،۔* اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روح کی زندگی کا وجود ہے تو یہ ممکن ہے کہ وہ برزخ میں ایک دوسرے سے مل سکیں۔
*فلسفیانہ بحث بھی یہ سوال اٹھاتی* ہے کہ کیا روح کی حقیقت کا وجود صرف جسم کی حالت سے منسلک ہے یا یہ ایک آزاد وجود ہے؟ اگر روح آزاد وجود رکھتی ہے تو اس کی برزخی حالت میں ملاقات ممکن ہے۔
*روح کی مادی وجود سے آزادی* : اگر روح کی حالت مادی دنیا سے آزاد ہو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روحیں ایک دوسرے سے مل سکتی ہیں۔
*6. نتیجہ*
برزخ میں روحوں کی ملاقات کا موضوع ایک نہایت پیچیدہ اور غیبی حقیقت ہے۔ قرآن و حدیث میں اس بارے میں واضح احکام نہیں ہیں، مگر بعض احادیث اور علماء کی آراء سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ روحیں برزخ میں ایک دوسرے سے ملاقات کر سکتی ہیں۔
سائنسی اعتبار سے روح کی برزخی حالت کو جانچنا ممکن نہیں، لہٰذا ہمیں اس موضوع پر ایمان لانا چاہئے اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا رہنا چاہئے۔
*آخری طور پر، برزخ کی حالت کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے*
، کیونکہ وہی سب کچھ جانتا ہے اور قیامت کے دن ہر چیز کا واضح حساب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فہم عطا فرمائے اور دین کی سمجھ بوجھ عطا کرے۔
*تحریر مفتی مرتضی افتخار*
*ممبر مرکزی شوریٰ دفاع اسلام فورم*
*زیرنگرانی مفتی ابو اسامہ غلام حسن حفظہ اللہ*

*انسان کی شناخت اور اجزاء اصلیہ*  *سوال*  *انسان میں اجزاء اصلیہ کون کون سے ہیں اور انسان کو انسان کس لحاظ سے کہا جاتا ہ...
05/11/2024

*انسان کی شناخت اور اجزاء اصلیہ*

*سوال*
*انسان میں اجزاء اصلیہ کون کون سے ہیں اور انسان کو انسان کس لحاظ سے کہا جاتا ہے؟* کیونکہ انسان جب چھوٹا ہوتا ہے تب بھی انسان ہے اور جب بڑا ہو جاتا ہے تب بھی انسان ہوتا ہے، بلکہ مرنے کے بعد بھی قیامت کے دن انسان اٹھے گا۔ اتنے تغیرات کے باوجود بھی انسان انسان ہوتا ہے کیوں؟

انسان کی شناخت ایک گہرا اور کثیر جہتی موضوع ہے جو مختلف پہلوؤں سے مربوط ہے۔ یہ شناخت انسان کے جسم، روح، عقل، ثقافت، احساسات اور تجربات کے انضمام سے تشکیل پاتی ہے۔ ان اجزاء کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اور ان کی تفصیل میں جانے سے ہمیں انسان کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

*1. جسمانی اجزاء*

انسان کی جسمانی شناخت اس کے جسم سے منسلک ہے، جو مختلف نظاموں اور خلیات کا مجموعہ ہے۔ جسم کی ساخت اور اس کی کارکردگی انسان کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ سائنسی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسان کی جسمانی شناخت کا انحصار اس کے جینیاتی عوامل، خلیات، اور جسمانی نظاموں کی حالت پر ہے۔

نیوروسائنس میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دماغ کی ساخت انسانی شناخت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ دماغ کی فعالیت میں کوئی تبدیلی انسانی سوچ، احساسات، اور شناخت کو متاثر کر سکتی ہے۔ تاہم، جسم کی یہ تبدیلیاں انسانی شناخت کی اصل حقیقت کو متاثر نہیں کرتیں۔

*قرآنی حوالہ*
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا" (سورہ اسراء، آیت 70)
(ترجمہ: اور بے شک ہم نے بنی آدم کی عزت کی اور انہیں خشکی اور دریا میں اٹھایا اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔)

یہ آیت انسان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور یہ بتاتی ہے کہ جسمانی حیثیت کے لحاظ سے بھی انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔

*2. روح*
روح انسان کی شناخت کا دوسرا اور سب سے اہم پہلو ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، روح اللہ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہے اور یہ اس کی اصل حقیقت ہے۔ روح کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، چاہے جسم میں تبدیلی آئے یا نہ آئے۔
*قرآنی حوالہ*

> "فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ" (سورہ ص، آیت 72)
(ترجمہ: پھر جب میں اسے پورا کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کی موجودگی انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ روح کی یہ مستقل حقیقت انسان کی شناخت کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

*3. عقل*

عقل انسان کی شناخت میں ایک اہم عنصر ہے۔ یہ انسان کو سوچنے، سمجھنے، اور فیصلے کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ عقل کے ذریعے انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے اور اپنی شناخت کو بناتا ہے۔

*قرآنی حوالہ*

> "اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا" (سورہ محمد، آیت 24)
(ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے ہیں؟)

یہ آیت عقل کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، جو انسان کو معانی اور مقاصد کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ فلسفے میں بھی عقل کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جیسے رینے ڈیکارٹ کا کہنا ہے: "میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں"۔

*4. ثقافت اور معاشرت*

انسان کی شناخت کا ایک اور اہم پہلو اس کی ثقافت اور معاشرت ہے۔ انسان کی پرورش اور تربیت مختلف ثقافتی روایات، زبان، اور معاشرتی ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ عوامل انسان کی شناخت میں ایک خاص رنگ بھرتے ہیں، جو اس کی سوچ، اخلاقیات، اور رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

*قرآنی حوالہ*

> "يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا" (سورہ حجرات، آیت 13)
(ترجمہ: اے لوگوں! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو شناخت کرو۔)

یہ آیت بتاتی ہے کہ مختلف ثقافتیں اور قبائل ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے ہیں، جو انسان کی شناخت کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

*5. احساسات اور تجربات*

انسان کی شناخت میں اس کے جذبات اور تجربات بھی شامل ہیں۔ زندگی کے مختلف مراحل میں انسان مختلف احساسات سے گزرتا ہے، جیسے خوشی، غم، محبت، اور نفرت۔ یہ جذبات انسان کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

*حدیث*

> "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (بخاری و مسلم)
(ترجمہ: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کے اعمال اور احساسات کا گہرا تعلق ہے، جو اس کی شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سائنسی مطالعات نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ انسانی تجربات اور جذبات اس کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسے کہ نفسیات میں "جذبات کی تھیوری"۔

*6. مستقل شناخت کی بنیاد*

انسان کی شناخت کی مستقل حیثیت اس کے بنیادی اجزاء کی ہم آہنگی میں ہے۔ جسمانی، روحانی، عقلانی، اور ثقافتی عناصر مل کر انسان کی شناخت کو تشکیل دیتے ہیں۔

*قرآنی حوالہ*

> "كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ" (سورہ آل عمران، آیت 185)
( *ترجمہ* : ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔)

یہ آیت انسان کی مستقل شناخت کی حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ روح اور عقل کی حقیقت قیامت کے دن بھی برقرار رہتی ہے۔

*نتیجہ*
انسان کی شناخت ایک پیچیدہ عمل ہے، جو جسم، روح، عقل، ثقافت، احساسات اور تجربات کے انضمام سے وجود میں آتی ہے۔ یہ عناصر مل کر انسان کو ایک منفرد شناخت عطا کرتے ہیں، جو وقت اور حالات کے تغیرات کے باوجود برقرار رہتی ہے۔ انسان کی اصل شناخت اس کی روح اور عقل میں مضمر ہے، جو اسے اشرف المخلوقات بناتی ہیں۔ انسان کی شناخت کا یہ فلسفیانہ، مذہبی، اور نفسیاتی سوال اس کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ یہ شناخت انسانی تجربات، احساسات، اور عقل کی بنیاد پر مستحکم رہتی ہے، جو انسان کو اپنی نوعیت میں منفرد اور عظیم بناتی ہے۔

اس طرح، انسان کی شناخت کی تشکیل میں جسم، روح، عقل، ثقافت، احساسات اور تجربات کا مجموعہ نہ صرف ایک علمی بلکہ سائنسی تناظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے، جو انسانی زندگی کی گہرائیوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ **تحریر مولانا مفتی مرتضیٰ افتخار صاحب عفی عنہ*
*(ممبر مرکزی شوریٰ دفاع اسلام فورم)*
*زیرنگرانی مفتی ابو اسامہ غلام حسن حفظہ اللہ*

Address

Peshawar
25000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when دفاع اسلام فورم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category