14/07/2023
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
*نوراں اور پھجاں*
عید کی چھٹیاں تھیں اور بچوں کی ضد کہ ہمیں کہیں نہ کہیں تفریح کے لیے لے جایا جائے ۔
اب پاکپتن ایسا شہر جس کے قریب تو درکنار ااس کے دور بھی کسی اچھی تفریح گاہ کا وجود نہیں ۔ بالآخر قرعہ فال ہیڈ سلیمانکی اور اس کے ساتھ واقع بارڈر پر ہونے والی پریڈ کے حق میں نکلا ۔ سہ پہر کے وقت روانگی ہوئی تو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑی اور گاڑی میں سوار ہر فرد کا ایک ایک جوڑ ہلا کر رکھ دیا۔جیسے تیسے ہیڈ سلیمانکی پر واقع اکلوتے پارک پہنچے تو وہ پارک کم اور خود رو جنگل زیادہ نکلا، حکومت اگر اس پارک کو جنگل کا رتبہ عطا کر دے تو اس کا احسان عظیم ہوگا ۔بچوں نے ہمارے انتہائی اچھے دلائل کے باوجود اس جنگل کو پارک تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا تو ہم انہیں لے کر پاک سرحد پر ہونے والی مشہور و معروف پریڈ دکھانے چل پڑے۔ سرحد پر پہنچے تو پاکستانی خواتین و حضرات کا ایک جم غفیر وہاں موجود پایا، البتہ سرحد کے دوسری جانب سے بہت کم افراد پریڈ دیکھنے آئے تھے، دونوں جانب اونچی آواز میں اپنے اپنے ملی نغمے بجائے جا رہے تھے اور عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا،انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ہمارے شیر جوان سیاہ وردی میں ملبوس اپنے سینوں پہ تمغے سجائے طمطراق کے ساتھ میدان میں اترے جنہیں دیکھتے ہی عوام نے کھڑے ہو کر اور تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ دوسری جانب سے بھی دشمن کے سپاہی کر و فر کے ساتھ سامنے آن کھڑے ہوئے، جس کے بعد تقریب کا آغاز ہوا۔
دونوں جانب سے ایک ایک جوان سامنے آیا اور اپنی ایک ایک ٹانگ اونچی سے اونچی کرنے کا مقابلہ شروع ہوا جو آہستہ آہستہ ہاتھوں کے اشاروں سے ہونے والی جنگ میں تبدیل ہوتا گیا کبھی ایک دوسرےکو انگوٹھے دکھاۓ جاتے اور کبھی بازو پھیلا کر بڑھکیں مار کر عوام کو خوش کیا جاتا،کبھی انتہائی جوشیلے انداز میں ایک دوسرے کو گھٹیا اشارے کیے جاتے اور کبھی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مخالف فریق پر اپنی برتری دکھائی جاتی حتیٰ کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کی غیور سپاہ سطحی قسم کی نورا کشتی دکھا کر مجبور و محکوم عوام کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں، اور یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے بچپن کے دور میں پہنچ گیا، گاؤں میں ہمارے گھر کے قریب ہی نوراں اور پھجاں کے گھر تھے جن کے گھروں کے درمیان سے شمالاً جنوباً گاؤں کی بڑی سڑک گزرتی، نوراں کا گھر سڑک کے مشرق کی جانب اور پھجاں کا گھر سڑک کے مغربی جانب تھا۔ نوراں اور پھجاں کے خاندان ابھی ترقی پذیر تھے دونوں گھروں میں ایک ایک کچی مٹی کا کمرہ اور مویشیوں کےلئے ایک ایک چھپر تھا جس پر گھاس پھوس کی چھت ڈال دی گئی تھی دونوں کے خاوند سخت محنت مزدوری کر کے ان کا اور بچوں کا پیٹ پالتے مگر نوراں اور پھجاں نے انہیں کبھی اپنا مجازی خدا تسلیم نہ کیا اور ان کے شوہروں نے بھی آخر کار ان کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا تھا۔ دنیا کی نظروں میں تو نوراں اور پھجاں کے خاوند ہی گھر کے مالک تھے لیکن درحقیقت گھروں پر اصل حکومت نوراں اور پھجاں کی ہی تھی، لیکن گاؤں میں نوراں اور پھجاں کی اصل وجہ شہرت ان کی لڑائی تھی، اگرچہ دونوں کے مابین کوئی خاص وجہ تنازعہ نہ تھی اور اگر تھی بھی تو اتنی معمولی کہ آرام سے مل بیٹھ کر حل ہو جاتی مگر نہ جانے نوراں اور پھجاں تنازعہ ختم کرنے پر جنگ کو ترجیح دیتیں، شوہروں کو کام پر بھیجنے، بچوں کو ناشتہ کروانے اور گھر کے کام نمٹانے کے بعد اچانک طبل جنگ بجا دیا جاتا لیکن کوئی فریق بھی جنگی قوانین پر عمل کرتے ہوئے سرحد عبور نہ کرتا البتہ اونچی آواز سے دشنام طرازی کرنے کوسنے دینے اور ایک دوسرے کے خلاف مغلظات بکنے کا سلسلہ جاری رہتا، جب گلے خشک ہونے لگتے تو لفظی جنگ اشاروں میں تبدیل ہو جاتی ایسے ایسے اشارے کیے جاتے جن کا ترجمہ کرنے کےلئے مہذب الفاظ کی عدم دستیابی کے باعث میں معافی کا خواستگار ہوں، جب اشارے بار بار دہرانے سے بھی دل نہ بھرتا تو بات جوتے دکھا دکھا کر لعنت ڈالنے توے کے سیاہ رخ سے لعنت کرنے سے شروع ہوتی ہوئی گھر کے ہر اس برتن تک پہنچ جاتی جس کے پیندے پر آگ نے کالک مل دی ہو، اس ساری جنگ کے دوران درمیان میں واقع سڑک پر عوام کی آمد و رفت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتی، کبھی کبھار جب جوش و خروش حد پار کرتا تو کوئی مٹی کا ڈھیلا دوسرے فریق کے گھر کی جانب پھینک دیا جاتا جس پر پہلا فریق ڈھیلا پھینک کر نعرے لگاتا تو دوسرا فریق نقصان نہ ہونے پر قہقہے بلند کرتا ۔ لیکن جیسے ہی گھر کے کاموں کا وقت ہوتا تو مٹی کی ہانڈی الٹی رکھ کر جنگ بندی کا اعلان کر دیا جاتا۔ دوسرے دن پھر دونوں فریق تازہ دم ہو کر میدان میں اترتے اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہتا ،دونوں معزز خواتین اپنے اپنے خاوند کو اس اپنی جنگ کا احوال سنا سنا کر خوب داد سمیٹتیں اور اسی آڑ میں ان سے رقم بھی بٹورتی رہتیں۔
نہ جانے کیوں مجھے آج کی پریڈ ہو بہو نوراں اور پھجاں کی لڑائی جیسی لگ رہی ہے۔
نجانے کیوں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ نوراں اور پھجاں آج بھی اپنی اولادوں اور اپنے خاوندوں کے جذبات سے کھیل کر اور انہیں مخالف فریق سے ڈرا کر اپنا وجود منوانے میں مصروف ہیں۔ نوراں اور پھجاں کو نہ اپنے کچے گھروں کی پرواہ ہے جو ہر بارش میں ڈوب جاتے ہیں نہ اپنی اولاد کی فکر ہے جو اب چوری کرنے پر مجبور ہے۔ نوراں اور پھجاں کے خاوند آج بھی سخت محنت مزدوری کے باوجود اچھے کھانے اور کپڑے کو ترس رہے ہیں مگر نوراں۔ اور پھجاں کو کسی پر ترس نہیں آتا۔ نوراں اور پھجاں کے اس رویے کی وجہ سے گاؤں کا چوہدری ان کے خاندان کو روز بے عزت کرتا ہے مگر انہیں پھر بھی احساس نہیں ہے۔ کیا نوراں اور پھجاں 76 سال سے ہونے والے اس کھیل کو ہمیشہ جاری رکھ پائیں گی یا کبھی اپنے فریضے کے مطابق صرف اپنا اپنا باورچی خانہ سنبھال کر اپنے اپنے خاندان کو سکھ کا سانس لینے دیں گی؟
محمد احمد وٹو ایڈووکیٹ
صدر ڈسٹرکٹ بار پاکپتن