Javed Khichi Advocate Official

Javed Khichi Advocate Official Its a page to discuss laws of the country, business administration,social activities,politics and soc Professional Lawyer
(1)

14/07/2023

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
*نوراں اور پھجاں*
عید کی چھٹیاں تھیں اور بچوں کی ضد کہ ہمیں کہیں نہ کہیں تفریح کے لیے لے جایا جائے ۔
اب پاکپتن ایسا شہر جس کے قریب تو درکنار ااس کے دور بھی کسی اچھی تفریح گاہ کا وجود نہیں ۔ بالآخر قرعہ فال ہیڈ سلیمانکی اور اس کے ساتھ واقع بارڈر پر ہونے والی پریڈ کے حق میں نکلا ۔ سہ پہر کے وقت روانگی ہوئی تو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑی اور گاڑی میں سوار ہر فرد کا ایک ایک جوڑ ہلا کر رکھ دیا۔جیسے تیسے ہیڈ سلیمانکی پر واقع اکلوتے پارک پہنچے تو وہ پارک کم اور خود رو جنگل زیادہ نکلا، حکومت اگر اس پارک کو جنگل کا رتبہ عطا کر دے تو اس کا احسان عظیم ہوگا ۔بچوں نے ہمارے انتہائی اچھے دلائل کے باوجود اس جنگل کو پارک تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا تو ہم انہیں لے کر پاک سرحد پر ہونے والی مشہور و معروف پریڈ دکھانے چل پڑے۔ سرحد پر پہنچے تو پاکستانی خواتین و حضرات کا ایک جم غفیر وہاں موجود پایا، البتہ سرحد کے دوسری جانب سے بہت کم افراد پریڈ دیکھنے آئے تھے، دونوں جانب اونچی آواز میں اپنے اپنے ملی نغمے بجائے جا رہے تھے اور عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا،انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ہمارے شیر جوان سیاہ وردی میں ملبوس اپنے سینوں پہ تمغے سجائے طمطراق کے ساتھ میدان میں اترے جنہیں دیکھتے ہی عوام نے کھڑے ہو کر اور تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ دوسری جانب سے بھی دشمن کے سپاہی کر و فر کے ساتھ سامنے آن کھڑے ہوئے، جس کے بعد تقریب کا آغاز ہوا۔
دونوں جانب سے ایک ایک جوان سامنے آیا اور اپنی ایک ایک ٹانگ اونچی سے اونچی کرنے کا مقابلہ شروع ہوا جو آہستہ آہستہ ہاتھوں کے اشاروں سے ہونے والی جنگ میں تبدیل ہوتا گیا کبھی ایک دوسرےکو انگوٹھے دکھاۓ جاتے اور کبھی بازو پھیلا کر بڑھکیں مار کر عوام کو خوش کیا جاتا،کبھی انتہائی جوشیلے انداز میں ایک دوسرے کو گھٹیا اشارے کیے جاتے اور کبھی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مخالف فریق پر اپنی برتری دکھائی جاتی حتیٰ کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کی غیور سپاہ سطحی قسم کی نورا کشتی دکھا کر مجبور و محکوم عوام کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں، اور یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے بچپن کے دور میں پہنچ گیا، گاؤں میں ہمارے گھر کے قریب ہی نوراں اور پھجاں کے گھر تھے جن کے گھروں کے درمیان سے شمالاً جنوباً گاؤں کی بڑی سڑک گزرتی، نوراں کا گھر سڑک کے مشرق کی جانب اور پھجاں کا گھر سڑک کے مغربی جانب تھا۔ نوراں اور پھجاں کے خاندان ابھی ترقی پذیر تھے دونوں گھروں میں ایک ایک کچی مٹی کا کمرہ اور مویشیوں کےلئے ایک ایک چھپر تھا جس پر گھاس پھوس کی چھت ڈال دی گئی تھی دونوں کے خاوند سخت محنت مزدوری کر کے ان کا اور بچوں کا پیٹ پالتے مگر نوراں اور پھجاں نے انہیں کبھی اپنا مجازی خدا تسلیم نہ کیا اور ان کے شوہروں نے بھی آخر کار ان کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا تھا۔ دنیا کی نظروں میں تو نوراں اور پھجاں کے خاوند ہی گھر کے مالک تھے لیکن درحقیقت گھروں پر اصل حکومت نوراں اور پھجاں کی ہی تھی، لیکن گاؤں میں نوراں اور پھجاں کی اصل وجہ شہرت ان کی لڑائی تھی، اگرچہ دونوں کے مابین کوئی خاص وجہ تنازعہ نہ تھی اور اگر تھی بھی تو اتنی معمولی کہ آرام سے مل بیٹھ کر حل ہو جاتی مگر نہ جانے نوراں اور پھجاں تنازعہ ختم کرنے پر جنگ کو ترجیح دیتیں، شوہروں کو کام پر بھیجنے، بچوں کو ناشتہ کروانے اور گھر کے کام نمٹانے کے بعد اچانک طبل جنگ بجا دیا جاتا لیکن کوئی فریق بھی جنگی قوانین پر عمل کرتے ہوئے سرحد عبور نہ کرتا البتہ اونچی آواز سے دشنام طرازی کرنے کوسنے دینے اور ایک دوسرے کے خلاف مغلظات بکنے کا سلسلہ جاری رہتا، جب گلے خشک ہونے لگتے تو لفظی جنگ اشاروں میں تبدیل ہو جاتی ایسے ایسے اشارے کیے جاتے جن کا ترجمہ کرنے کےلئے مہذب الفاظ کی عدم دستیابی کے باعث میں معافی کا خواستگار ہوں، جب اشارے بار بار دہرانے سے بھی دل نہ بھرتا تو بات جوتے دکھا دکھا کر لعنت ڈالنے توے کے سیاہ رخ سے لعنت کرنے سے شروع ہوتی ہوئی گھر کے ہر اس برتن تک پہنچ جاتی جس کے پیندے پر آگ نے کالک مل دی ہو، اس ساری جنگ کے دوران درمیان میں واقع سڑک پر عوام کی آمد و رفت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتی، کبھی کبھار جب جوش و خروش حد پار کرتا تو کوئی مٹی کا ڈھیلا دوسرے فریق کے گھر کی جانب پھینک دیا جاتا جس پر پہلا فریق ڈھیلا پھینک کر نعرے لگاتا تو دوسرا فریق نقصان نہ ہونے پر قہقہے بلند کرتا ۔ لیکن جیسے ہی گھر کے کاموں کا وقت ہوتا تو مٹی کی ہانڈی الٹی رکھ کر جنگ بندی کا اعلان کر دیا جاتا۔ دوسرے دن پھر دونوں فریق تازہ دم ہو کر میدان میں اترتے اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہتا ،دونوں معزز خواتین اپنے اپنے خاوند کو اس اپنی جنگ کا احوال سنا سنا کر خوب داد سمیٹتیں اور اسی آڑ میں ان سے رقم بھی بٹورتی رہتیں۔
نہ جانے کیوں مجھے آج کی پریڈ ہو بہو نوراں اور پھجاں کی لڑائی جیسی لگ رہی ہے۔
نجانے کیوں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ نوراں اور پھجاں آج بھی اپنی اولادوں اور اپنے خاوندوں کے جذبات سے کھیل کر اور انہیں مخالف فریق سے ڈرا کر اپنا وجود منوانے میں مصروف ہیں۔ نوراں اور پھجاں کو نہ اپنے کچے گھروں کی پرواہ ہے جو ہر بارش میں ڈوب جاتے ہیں نہ اپنی اولاد کی فکر ہے جو اب چوری کرنے پر مجبور ہے۔ نوراں اور پھجاں کے خاوند آج بھی سخت محنت مزدوری کے باوجود اچھے کھانے اور کپڑے کو ترس رہے ہیں مگر نوراں۔ اور پھجاں کو کسی پر ترس نہیں آتا۔ نوراں اور پھجاں کے اس رویے کی وجہ سے گاؤں کا چوہدری ان کے خاندان کو روز بے عزت کرتا ہے مگر انہیں پھر بھی احساس نہیں ہے۔ کیا نوراں اور پھجاں 76 سال سے ہونے والے اس کھیل کو ہمیشہ جاری رکھ پائیں گی یا کبھی اپنے فریضے کے مطابق صرف اپنا اپنا باورچی خانہ سنبھال کر اپنے اپنے خاندان کو سکھ کا سانس لینے دیں گی؟
محمد احمد وٹو ایڈووکیٹ
صدر ڈسٹرکٹ بار پاکپتن

12/07/2023

الحمداللہ
اللہ پاک کے کرم سے اور ڈسٹرکٹ بار پاکپتن صدر میاں محمداحمد وٹو صاحب اور جنرل سیکرٹری بار پاکپتن چوہدری حماد انور گجر صاحب کی رٹ پیٹشن پر دپیالپور روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا

21/04/2023

تمام امت مسلمہ کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں

02/04/2023

تم ڈالر ہزار کا کر دو مگر ہمیں تو الیکشن ہی چاہیے 😄

29/01/2023

لگتا ہے مریم بی بی چھوٹی سی سرجری کے پیسے وصولنے آی ہے

Game On hai
14/01/2023

Game On hai

16/12/2022
06/07/2022

پہلی بار آپ کو ٹکر کے لوگ ملے ہیں

27/02/2021

Hello India , Happy Fantastic Tea Anniversary.

The Supreme Court on Thursday reserved its decision on the presidential reference seeking opinion on holding Senate elec...
26/02/2021

The Supreme Court on Thursday reserved its decision on the presidential reference seeking opinion on holding Senate elections through open ballot as all respondents concluded their arguments.

A five-member larger bench headed by Chief Justice Gulzar Ahmed and comprising Justice Mushir Alam, Justice Umar Ata Bandial, Justice Ijaz ul Ahsan and Justice Yahya Afridi heard the presidential reference.

At the outset of the hearing, Pakistan Bar Council lawyer Mansoor Usman Awan said in his arguments that if the Senate election is held through open ballot, it will affect all elections. “The constitution does not say that election should be held by secret ballot. In fact, election means secret ballot,” he maintained.

The chief justice remarked that the question before the court is only about implementation of Article 226 of the constitution. “What is the reason that no amendment is being made to eradicate corruption from the electoral process? Resolutions are passed in parliament to make the electoral process transparent,” he said. “If there is an amendment bill related to open ballot in the parliament, then what is the problem in doing amendment? Why didn’t PPP and PML-N amend the constitution in the past?” he asked.

The chief justice further remarked that political parties have acknowledged corrupt practices in Senate elections. “You have seen the videos … do you want to do the same again. Everyone is acknowledging the corrupt practices but no one is taking steps to eradicate it,” he added.

Khurram Chughtai, counsel for the Lahore High Court Bar Association, argued that the federal government does not have the authority to seek opinion of the apex court, to which the chief justice said that the reference in the court has been sent by the president of Pakistan.

Justice Ijaz ul Ahsan said, “Should we call the president and ask him why this is a question of public importance?”

Khurram Chughtai further said that the attorney general is the advocate of the federal government and not the president. “Before drafting the Election Act, opinions were sought from all political parties. Sheikh Rashid, Arif Alvi and Shibli Faraz were also members of the Election Act Committee. There were 89 meetings held. President Arif Alvi himself was a member of the constitutional reform committee. Most of the ministers sitting in the cabinet were also members of the committee,” he added.

Chughtai also said that the president of Pakistan has to act on the advice of the cabinet or the prime minister, on which the CJP told him to limit his arguments to the questions raised.

During the hearing, the chief justice while talking to the attorney general said, “You have taken a lot of time, now complete the arguments in five minutes.” The attorney general replied, “You have heard me for 17 days, just listen to me for another 15 minutes, I will not take more than that. This reference is the most important case of my life.”

Justice Yahya Afridi asked whether the opinion of the Supreme Court on the reference would be final. The attorney general replied that the government would abide by the opinion of the court and no request for review of the reference would be filed.

The court then reserved its opinion on the reference.

19/02/2021
26/01/2021

Address

District Courts
Pakpattan
57400

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 16:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

03003531989

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Javed Khichi Advocate Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Javed Khichi Advocate Official:

Share


Other Digital creator in Pakpattan

Show All