This page is my each and every writeup and stories and my other activities, I use to create for the people want to read in print media.
01/05/2020
ادب پیڈیا
اصناف شاعری
17/04/2020
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
شین شوکت
لاک ڈاؤن کو ہم اردو زبان اور اس قبیل کی دیگر زبانوں میں تالہ بندی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ تالہ بندی اور دستور زباں بندی میں بڑا فرق ہے اس لئے ہمیں تالہ بندی کے نتیجہ میں دستور زبان بندی پر عمل نہ کرتے ہوئے یہ بات کہنے میں عار نہیں ہونی چاہئے کہ
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اس بات کو جانتے بوجھتے لاک ڈاؤن یا تالہ بندی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا جارہا حالانکہ کہیں دور پار سے لیکر آئی ہے چلتی ہوا کرونا نامی قاتل وائرس کو جس کی دھاک سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے۔ چلتی ہواؤں یا بدلتے موسموں پر کسی کا بس نہیں چلتا کوئی سرحد نہیں ہوتی ان کی، اس لئے کرہ ارض کی فضاؤں میں حدود و قیود کو خاطر میں لائے بغیر یہ قدرت کے اس نظام کی پیروی میں دندناتی پھرتی ہیں جس کو موسمی تغیرات کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ایک مقام کی فضاؤں میں موسمی تغیرات کی وجہ سے ہوا کے دباؤ میں کمی ہوجائے تو کسی دوسرے مقام کی ہوا اس کمی کو دور کرنے کے لئے آندھی اور طوفان بن کر بڑے ہیبت ناک انداز سے دوڑتی چلی آتی ہے اور بعض اوقات اس تیز و طرار یا طوفانی ہوا کے دوش پر کالے سیاہ بادلوں کی فوج بھی اڑتی چلی آتی ہے اور یوں ہم ایسی ہوا کو طوفان باد و باراں کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش اور ژالہ باری سے میدان کے میدان جل تھل ہو جاتے ہیں۔ کچے مکانوں کی دیواریں گرتی ہیں اور
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے مرے صحن میں رستے بنا لئے
اور لوگ چادر و چار دیواری کا خیال رکھے بغیر کچے مکانوں میں در آتے ہیں۔ ہائے اب کے جو بن ساون کے پون چلی تو
سدا ایک ہی رخ ناؤ نہیں چلتی
چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو
کا راگ الاپتا ظالم قاتل، اور تباہ کن کو ویڈ 19 بھی اس کے دوش پر سوار ہوکر ملکوں ملکوں اپنی تباہ کاریاں پھیلانے لگا۔اس ناہہنجار کو نہ ہماری سرحدوں کے محافظ روک سکے اور نہ ہی ہوا کے گھوڑے نے اس کو اپنے دوش کی سواری سے منع کیا، جس طرح چلتی ہوا پر سرحدوں کی پاسداری یا حدود کو قیو کا قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا اسے اپنے ساتھ بے مہر موسموں کو لانا لیجانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، کرونا وائرس نے عالم گیر سطح پر جتنی بھی تباہ کاریاں کیں اس سے اہل وطن پوری طرح آگاہ ہیں۔ کیونکہ وہ بھی اس گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں جہاں کی ہر خبر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برق رفتاری ترقی کی بدولت ایک مقام سے کسی دوسرے مقام تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ جب صورت حال ایسی ہے تو بھلا ہم یا ہمارے یہ سب کچھ دیکھتے بھالتے بسنت کے اندھوں کی طرح ہرا ہی ہرا تو دیکھ نہیں سکتے تھے، سو انہوں نے
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
کے مصداق ہوا کے دوش پر اڑ کر پاکستان میں در آنے والے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے اور اس کی تباہ کاریوں سے ملک اور قوم کو بچانے کی خاطر قہر درویش بر جان درویش کے مصداق اپنی گلیوں بازاروں فیکٹریوں کارخانوں تعلیمی اور غیر تعلیمی اداروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی سرگرمیوں کی تالہ بندی یا لا کردی۔ اور یوں ہنستی بستی اور چلتی پھرتی زندگی بھر کی سر گرمیاں مفقود اور مفلوج ہوکر رہ گئیں کہ زندگی کے تعاقب میں کرونا موت کا لٹھ یا اللہ کی بے آواز لاٹھی لیکر چلا آیا تھا۔ ہم نے حکومت یا اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کرونا کے اس طوفان بلاخیز کو بیڑیاں ڈالنے کے لئے تالہ بندی کی اس مصلحت کو بسرو چشم قبول کیا۔ اپنے اپنے گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے ہم سب کہ پوری قوم پر امتحان بن کر اترا تھا یہ عذاب الہٰی۔ بند ہوگئے ناجائز منافع خوری کے بازار، گلنے سڑنے لگے ذخیرہ اندوزوں کے اناج، چوپٹ ہوگئی رشوت خوروں کی اضافی یا اوپری آمدن مگر اس کا کیا جائے کہ خشک لکڑی کے ساتھ گیلی بھی جل جاتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کش غیر معینہ تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے پر مجبور گئے ہیں۔ بہتوں کو نوکریوں سے عارضی طور پر سہی، جواب مل گیا اور وزیر اعظم پاکستان کے ایک کروڑ نوکریاں دلانے کا خواب سبز باغ بن کر تاخت و تاراج ہوگیا۔ ایسے میں بھلا کون خاموش رہ سکتا ہے۔ دستور تالہ بندی کے خلاف آواز اٹھانے والے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں زباں اب تک تیری ہے
فیض احمد فیض کے اس فیض نے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کے عادی ہنر مند، محنت کش، رزق حلال کے متلاشی ہم وطنوں کو دستور زباں بندی توڑنے پر مجبور کردیا۔ تاجر برادری نے تالہ بندی جاری رکھنے کے حوالہ سے سرکار کی حکم عدولی کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ انہوں نے لاک ڈاون میں مزید توسیع کو ناقابل قبول گردانتے ہوئے اپنے کاروباری مراکز کھول دینے کی قسم کھالی ہے۔ کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں ہ کرونا سے ہم نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے، جب ایوان اقتدار نے مزید دو ہفتہ لاک ڈاؤن کا مشورہ دیا ہے، اور دوسری طرف مفتی منیب نے مساجد سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے، لگتا ہے کرونا کو چاروں شانے چت کردینے کی یہ لڑائی چو مکھی لڑائی کا منظر نامہ پیش کرنے لگی ہے، ایسے میں ہم شاعر مشرق کا یہ فرمودہ ہی آج کے کالم کا عنوان بنا سکتے ہیں کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
06/04/2020
پاک چین دوستی زندہ باد
شین شوکت
ہم خوش تو نہیں اس بات پر، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ امریکہ کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی اور پاک چین دوستی فتح و کامرانی کے جھنڈے لہراتی عروج آدم خاکی کے نغمے الاپنے لگی۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
عرض کیا نا کہ ہم خوش نہیں اس بات سے مگر یہ بات ہم تک اخبارات کی سرخیوں نے پہنچائی کہ نصیب دشمناں امریکہ میں دنیا بھر کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ کرونا وائرس کے شکار مریض سامنے آئے ہیں۔ اور اموات بھی وہا ں سب ممالک سے زیادہ ہورہی ہیں۔ یقینا یہ بے حد چونکا دینے والی خبر ہے اور اب خبر آئی ہے کہ امریکن بحری بیڑے بھی کرونا وائرس کی زد میں آچکے ہیں، اگر اس خبر پر اس خبر کا تڑکہ لگا دیا جائے کہ عوامی جمہوریہ چین نے کرونا کے تباہ کن وائرس پر قابو پالیا ہے تو ہم آپ کو بین السطور یہ بتاتے محسوس ہونگے کہ پاکستان کے بہترین ہمسایہ اور آزمودہ دوست ملک چائنا نے اس امتحان میں امریکہ کو پچھاڑ کر اپنی فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑھ لئے۔ کہتے ہیں کہ آج سے کچھ ہی مہینے پہلے کرونا جیسے تباہ کن وائرس نے چائنا میں سر اٹھایا تھا۔ جس کی وجہ بتاتے ہوئے باتیں بنانے والوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ چائنا میں کرونا وائرس نے اس لئے تباہ کاریاں شروع کیں کہ وہاں کے لوگ کتے بلیاں چوہے سانپ اور چمگاڈر تک کھا جاتے ہیں اور ان کاسوپ بنا کر مزے لے لے کر پیتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی اڑائی ہوئی یہ ہوائیا ں سن کر ہمیں بھی گھن آنے لگی تھی چائنا کے گراں خواب چینیوں کے زندگی گزارنے کے اس انداز سے۔ ہمیں یہ بات سن کر وہ زمانہ یاد آنے لگا تھا جب ہم پشاور صدر کی مال روڈ پر چائنیز ریسٹورنٹ میں چائنیز سوپ پینے جایا کرتے تھے۔ کیا رومانٹک ماحول ہوا کرتا تھا۔ صاف ستھرے ماحول میں مدھم روشنی نے ماحول کو نہایت ہی سکون آور بنایا ہوتا۔ یوں لگتا جیسے چین اپنی ثقافت کے تمام تر رنگ سجائے چائنیز ریسٹورنٹ کو پاک چین دوستی کی مثال بنے بیٹھے ہوں۔ ان دنوں پاکستان کے شہر پشاور اور چائنا کے شہر’ارومچی‘کو جڑواں شہر قرار دیا گیا تھا۔ ارومچی کی مقامی حکومت کے اعلیٰ منصب دار چینیوں کے ایک عظیم الشان وفد نے پشاور کے دورے پر آنا تھا۔ ان کے استقبال کی بھر پور تیاریاں جاری تھیں۔ راقم السطور نے رئیس بلدیہ پشاور جنہیں سٹی فادر کے علاوہ مئیر بلدیہ پشاور بھی کہتے تھے جناب آغہ سید علی شاہ کے لئے ایک استقبالیہ تقریر لکھنی تھی۔ راقم السطور نے تقریر تو لکھدی لیکن وہ چاہتا تھا کہ تقریر کا اختتام چینی زبان کے ان خیر سگالی جملوں پر کیا جائے جن سے بے مثال اور لاجواب پاک چین دوستی کی شان ہویدا ہوتی ہو۔ ایسے جملوں کی تلاش میں مجھے زبان یار من ترکی ولے من ترکی نہ دانم کا احساس لیکر چائنیز ریسٹورنٹ جانا پڑا اور یوں میں ریسٹورنٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹرسے مل کر ایسے جملوں کا تحفہ تقریر کے اختتامی کلمات میں جڑنے لگا۔ ان دنوں ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ چین والے ایسی ایسی چیزیں مزے لے لے کر نوش جان کر جاتے ہیں جن کا نام سن کر بھی ہم پاکستانیوں کو گھن آنے لگتی ہے۔ اس بات کا اگر کچھ پتہ چلا تو ان ہی دنوں جب چائنا میں کرونا وائرس نے سر اٹھا کر اپنا آپ منوانا شروع کردیا تھا۔ خوب چرچا کیا گیا چمگاڈر کے سوپ بنا کر پینے اور اس قبیل کی دوسری اشیاء کو چائنیز کا من بھاتے کھاجے کے طور پر استعمال ہونے کا۔ مقصد اس ملک کو بدنام کرنا اور اس کی معیشت کو تباہ کرنا تھا۔ اور یہ کام وہی ملک یا ایسے ممالک کرسکتے تھے جن کو پاک چین دوستی ایک نظر نہ بھاتی تھی۔ جو چائنا کی مصنوعات کی عالمی سطح پر مارکیٹنگ کو ایک نظر دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جن کو
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے
جیسے آفاقی سچ سے چڑ تھی۔ سو انہوں نے اس آڑھے وقت میں چائنا کو تباہ حال کرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہاتھ کرنا شروع کردیا۔ لیکن باکمال چینیوں نے دنیا والوں کی کڑوی کسیلی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور انہوں نے کرونا نامی بلا کو چاروں شانے چت کرکے ثابت کردیا کہ چین ایک عظیم ملک کا نام ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس کی علمیت کا اقرار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حصول علم کے لئے چین تک جانے کی ہدائت فرماگئے ہیں۔ چین والوں نے کہا کہ کرونا وائرس اسلحہ کے سوداگر اور جنگ و جدل کے رسیا امریکہ نے بھیجا تھا۔ جن پر وہ قابوپاچکے ہیں۔ جب کہ یہ خبر کتنی عجیب ہے کہ کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں اور لاکھوں کی تعداد میں کرونا زدہ لوگ امریکہ کے شہری ثابت ہورہے ہیں۔ امریکہ کے بعد اٹلی کی حالت بھی عبرت ناک ہے، فرانس اور برطانیہ بھی اس کی زد میں، لیکن پاکستان بھی اس خطرہ سے محفوظ نہیں، ہماری گلیوں اور بازاروں کی رونقوں کو کرونا وائرس کا خوف ہڑپ کرچکا ہے، اک ہو کا عالم ہے، حکومت اور عوام کو جس بات کا تردد ہے اس میں اولین فکر مزدور طبقہ کی روزی روٹی کا ہے، جس کے لئے سردست کوئی آؤٹ پٹ نظر آیا ہو یا نہ آیا ہو اوپر تلے اجلاس اور اعلانات ضرور ہورہے ہیں، ان اعلانات اور اطلاعات میں یہ اطلاع نہایت حوصلہ افزاء ہے کہ چائنیز ڈاکٹرز دوائیوں اور کرونا وباء سے نپٹنے کے لئے چین سے ضروری امداد لیکر پاکستان پہنچ گئے ہیں، لیکن، دوسری طرف یہ جان کر افسوس بھی ہورہا ہے کہ ایران کی جانب سے کرونا وائرس دانستہ طور پر پاکستان کی جانب دھکیلا جارہا ہے
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
07/03/2020
شین کی ڈائری
سنبھل جاؤ چمن والو
شین شوکت
نجانے کہاں سے سر سراتا چلاآیا تھا باد صبا کا وہ جھونکا جس نے سن رسیدہ درخت کے کانوں میں آمد نو بہار کا پیغام پھونکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ آمد نو بہار کی خوشخبری سن کر بوڑھا درخت ایکدم سے جھوم اٹھے گا۔ مگر درخت نے خوش ہونے کی بجائے ایک لمبی اور ٹھنڈی آہ بھری۔ باد صبا کا دوسرا جھونکا آیا اور وہ بوڑھے درخت کی ٹھنڈی آہ کو اپنے وجود میں سما کر فضاؤں کی بلندیوں میں بھنگڑے ڈال ڈال کر کہنے لگا
بہار آئی ہے، پھر چمن میں نسیم اٹھلا کے چل رہی ہے
ہرایک غنچہ چٹک رہا ہے، گلوں کی رنگت بدل رہی ہے
وہ ناچنے جھومنے اور آمد نوبہار کے نغمے بکھیرنے لگا اور اپنے ساتھ اڑتے باد صبا کے ہر جھونکے کو چوم چوم کر بہار آئی ہے بہار آئی ہے کا پیغام سنانے لگا۔ یہ کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ پاگل ہوگئے ہو کیا۔باد صبا کے پہلے جھونکے نے ناچتے گاتے اور اٹھکیلیاں بھرتے جھونکے سے پوچھا، ارے تم کیا جانو، کہ اس درخت نے مجھ سے آمد فصل نو بہار کی خوشخبری سن کر میری جھولی میں کیا ڈال دیا۔ کچھ بھی تو نہیں ڈالا اس نے تیری جھولی میں۔ اس نے تو بس ایک ٹھنڈی آہ بھری اور تو لگا پاگلوں کی طرح جھومنے گھومنے چومنے اور چلانے، ارے چپ ہوجا، یہ تو جسے ٹھنڈی آہ کہہ رہا ہے میرے انگ انگ میں ناچ ناچ کر کہہ رہی
دیکھ تیر اکیا رنگ کردیا ہے
ہوا کا جھونکا تیرے سنگ کردیا ہے
جھونکے کا یہ پاگل پن دیکھ کر باد صبا اپنی جڑواں بہن نسیم سحر کی جانب دیکھ کر کھل کھلا کر ہنسنے لگی، یہ سچ کہتا ہے، بہت بڑا تحفہ دیا ہے درخت بابا نے اس کو اک آہ سحر گاہی اس کی جھولی میں ڈال کر، دیکھتی نہیں کس قدر جراثیم پل اور بڑھ رہے ہیں ہمارے اندر، کورونا وائرس کے پھیلنے کے چرچے تو زبان زد عام ہیں، دشمن آسمان کے اس ناگہانی آفت نے کتنے لوگوں جانیں گنوادیں، کتنوں کو جان کے لالے پڑ گئے، صرف کرونا وائرس کے ہی سبب نہیں، اس قسم کے جانے کتنے جراثیم او ر بیماریاں ہیں جو ہمارے بدن میں پیوست ہوکر آدم زادوں اور حوا کی بیٹیوں کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں، یہ تو سچ ہے لیکن اس ساری تباہی کا درخت کی ٹھنڈی آہ سے کیا تعلق ہے، آہ تم اتنا بھی نہیں جانتی کہ درخت کے سینے سے اٹھنے والی ٹھنڈی آہیں زندہ رہنے والی زندگیوں کے لئے کتنی ضروری ہیں ، ہاں جانتی ہوں، باد صبا کی اس بات کا نسیم سحر نے جواب دیتے ہوئے اس پر اپنی معلومات کا رعب ڈالتے ہوئے کہا، میں جانتی ہوں کہ درخت ہمارے اندر کی تمام مضر صحت گیسز جذب کرکے ان کے بدلے آکسیجن جیسی حیات افزاء گیس د یتے ہیں ، واہ سبحان اللہ، و بحمدہ،کیا قدرت خداوند ی ہے، کس قدر نظام خود کاری ہے فضائی آلودگی کو دور کرنے کا، ایک بہن نے دوسری سے کہا، مگر پہلے والی نہایت فکر اورتردد سے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے کہنے لگی کہ تشویش اس بات کی ہے کہ درخت نے آمد نو بہار کا سن کر خوش ہونے کی بجائے ٹھنڈی آہ کیوں بھری، آؤ، پوچھتی ہیں درخت بابا سے اس کے دل کا حال، مگر یہ کیا باد صبا اور پھر نسیم سحر اپنے جھونکوں کے جلو میں جب اس بوڑھے درخت کے قریب پہنچیں تو اس کی ہر شاخ او ر ہر ٹہنی نے ایک پر سوز مشاعرہ برپا کر رکھا تھا۔ درخت کی اک بے برگ و بار ٹہنی کہہ رہی تھی
نئی بہار کا مژدہ بجا سہی لیکن
ابھی تو اگلی بہاروں کا زخم تازہ ہے
دوسری شکوہ بلب تھی کہ
میں نے دیکھا بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
تیسری سینے کے پھپھولے دیکھا کر کہہ رہی تھی
میری آنکھوں میں ہیں آنسو، تیرے دامن میں بہار
گل بنا سکتا ہے تو، شبنم بنا سکتا ہوں میں
جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے دل اتنے شعر کے مصداق آمد نو بہار کا جشن منانے کی بجائے درخت کا انگ انگ شکووں اور شکائیتوں کے دفتر کھولے بیٹھا تھا، کیا ہوا، کتنے رنجور ہیں آپ، باد صبا نے آگے بڑھ کر درخت بابا سے پوچھا، کیا بتاؤں بی بی، مری ہر شاخ قلم بن کر لکھ رہی ہے حکایات خوں چکاں، کل جو گھنا جنگل تھا، آج وہا ں ویرانہ ہے، میرے سنگی ساتھی دوست محبوب سب کو کاٹ کر لے گئے درختوں کی چوری کرنے والے، اور میں اکیلا رہ کر انتظار کر رہا ہوں اپنے کٹ جانے کی باری کا، نہ نہ نہ، ایسا نہ کہیں باد صبا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اسے تسلی دی، یہ جو تم آسماں کی طرف دست دعا بلند کئے کھڑے ہو اس کا ثمر ضرور ملے گا تجھے، تم ایک بار پھر سایہ دار درخت بن جاؤگے، اور ان درختوں کا کیا بنے گا جو بلا جواز کاٹ کر جلا دئیے گئے،در دریچے اور فرنیچر بنا دئیے گئے، دل چھوٹا نہ کر و، یہ دردریچے اور فرنیچر بنانے والے ایک بار پھر درخت اگانے کا چرچا کر رہے ہیں، یہ درخت اگانے کا چرچا نہیں کررہے، کسی بڑے مرتبہ والے سے ایک آدھ پودا لگوا کر فوٹو سیشن منانے کا بھونڈا مذاق کررہے ہیں، اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، سیاہ ست مارے بے ضمیر کہیں کے۔ بوڑھا درخت آپے سے باہر ہونے لگا، اس نے ایک بار پھر ٹھنڈی آہ بھری، اور بھرتا چلا گیا ٹھنڈی آہیں، جس کے زیر اثر باد صبا نسیم سحراور ان کے جھونکے مل کر جشن آمد نو بہار منانے لگے
سنو سجنا پپیہے نے کہا سب سے پکار کے
سنبھل جاؤچمن والو، کہ آئے دن بہار کے
Be the first to know and let us send you an email when Sheen ki Diary posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.