21/12/2024
محمد آصف پہلی جھلک میں کسی کو متاثر نہ کر سکا تھا- 2005 کا سڈنی ٹیسٹ تھا اور آصف کی گیند بمشکل کیپر کے پاس پہنچ رہی تھی- پاکستانی ٹیم میں پچھلی کئی دہائیوں سے زیادہ تر ایسے باؤلرز آ رہے تھے جن کی گیند کیپر کے کندھوں تک پہنچتی تھی پر آصف کی گیند تو کیپر کے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچ رہی تھی- بعد میں بھی سپیڈ کبھی بھی آصف کا ہتھیار نہیں رہا، گیند کو دونوں جانب آرام سے گھما دینا ہی آصف کی اصل فنکاری تھی- سڈنی ٹیسٹ میں ایسی کارکردگی دکھانے والے باؤلر سے کسے امید تھی کہ وہ چار سال بعد سڈنی میں ہی پاکستان کو فتح کے اتنے پاس لے جائے گا-
آصف کی اصل جھلک انڈیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں نظر آئی تھی- راہول ڈریوڈ کو گیند باہر نکلی اور ایج دے کر پویلین واپس جانے کے علاؤہ اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا- اگر یہ ایک شاندار گیند تھی تو وی وی ایس لکشمن کو پڑی گیند تو ایک بلا تھی- آف سٹمپ سے بہت باہر گری گیند وکٹوں میں جا گھسی اور لکشمن یقین نہ کرنے والی نظروں سے دیکھتا ہی رہ گیا- دوسری اننگ میں لکشمن کے ساتھ ساتھ یہ صدمہ وریندر سہواگ اور سچن ٹنڈولکر کو بھی سہنا پڑا تھا-
چند دن بعد اس طوفان کا سامنا سری لنکن بیٹسمینوں نے کرنا تھا- کولمبو ٹیسٹ میں پہلی اننگ میں چار اور دوسری میں دو وکٹیں لینے کے بعد کینڈی میں آصف کی باؤلنگ کچھ اور مہلک ہو چکی تھی- سوئنگ کے لئے سازگار ماحول میں آصف نے پہلی اننگ میں چھ وکٹیں حاصل کیں اور پھر پاکستانی بیٹسمینوں کی ناقص بیٹنگ کو دوسری اننگ میں مزید پانچ وکٹوں سے کور کیا اور پہلی بار میچ میں دس وکٹیں حاصل کر لیں-
اگلے سال جنوبی افریقہ کے دورہ پر آصف نے 19 وکٹیں حاصل کیں اور اگر اس سیریز میں بیٹسمین ساتھ دیتے تو پاکستان ٹیم پہلی بار جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز میں فتح حاصل کر سکتی تھی- 2009 میں نیوزی لینڈ میں پہلے ٹیسٹ میں 8 وکٹیں حاصل کیں لیکن ایک بار پھر بیٹسمینوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا- دوسرے ٹیسٹ میں بیٹسمینوں کی کمتر کارکردگی کے باوجود آصف نے دانش کنیریا کے ساتھ مل کر پاکستان کو فتح دلا دی-
پھر وہ سڈنی ٹیسٹ جہاں آصف کی چھ وکٹوں کی وجہ سے آسٹریلیا کی ٹیم 127 رنز پر ڈھیر ہوئی، پھر پاکستان نے اچھی خاصی لیڈ حاصل کی لیکن خراب فیلڈنگ اور بدترین وکٹ کیپنگ کے بعد گھٹیا بیٹنگ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم پہلی اننگ میں 206 رنز کی برتری حاصل کرنے کے باوجود 36 رنز سے ہار گئی-
پھر وہ انگلینڈ کا دورہ جہاں پاکستانی ٹیم نے پندرہ سال بعد آسٹریلیا کو شکست ضرور دی لیکن اسی دورے کے آخری ٹیسٹ کے دوران خبر اڑی کی ایک سٹنگ آپریشن کے دوران پاکستانی کھلاڑی سپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے- سپاٹ فکسنگ سکینڈل سے پہلے دو بار محمد آصف ڈوپ ٹیسٹ میں فیل ہو چکے تھے، دبئی میں منشیات برآمد ہونے پر انہیں جیل میں بھی رہنا پڑا تھا اور ساتھی کھلاڑیوں سے جھگڑے بھی چلتے رہتے تھے- لیکن 2010 کے دورہ انگلینڈ میں آصف نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی اور پھر پاکستان کرکٹ کو دو شاندار باؤلرز سے محروم ہونا پڑا-
محمد آصف ایک ایسا باؤلر تھا جو گیند کو دونوں جانب اپنی مرضی سے گھما سکتا تھا، بہت زیادہ چالاک اور سمارٹ باؤلر تھا، بیٹسمین کا ذہن پڑھنا جانتا تھا، سخت مقابلے کے مزے لیتا تھا (انگلینڈ میں ہونے والی ون ڈے سیریز میں کیون پیٹرسن سے اس کے مقابلے اس کے گواہ ہیں) لیکن وہ جیسے سلمان خان اپنی فلم میں کہتا ہے نا کہ سیدھے کاموں سے مجھے "کک" نہیں ملتی تو شاید آصف کا بھی یہی مسئلہ تھا اور اسی وجہ سے پاکستانی میکگرا ایک ضائع ہو جانے والا ٹیلنٹ ہی بن کر رہ گیا- ایک ایسا باؤلر کے جس کا سامنا کرنے والے، اسے دیکھنے والے شاید ہی کبھی اسے بھول پائیں
محمد آصف کی آج 42 ویں سالگرہ ھے۔