Mubashirturk_official

Mubashirturk_official IRIAN

08/09/2023

Yes, you fell down.
I feel for you, for I have
fallen many times.

Now you must get up.
I know it isn't easy.
I know it will take time.

Remember, the seed
can't imagine breaking
ground. And the fledgling
can't imagine flying.

And so, your broken heart
can't imagine finding its way.

But life is this repeating journey
from sleep to wakefulness,
from blindness to sight,
from fear to love.

No matter how many times
we fall, we are just beginning.

Received a certificate of appreciation from the esteemed vice chancellor of UAJK ✨
05/09/2023

Received a certificate of appreciation from the esteemed vice chancellor of UAJK ✨

Why do I read?I just can't help myself.I read to learn and to grow, to laughand to be motivated.I read to understand thi...
29/08/2023

Why do I read?
I just can't help myself.
I read to learn and to grow, to laugh
and to be motivated.
I read to understand things I've never
been exposed to.
I read when I'm crabby, when I've just
said monumentally dumb things to the
people I love.
I read for strength to help me when I
feel broken, discouraged, and afraid.
I read when I'm angry at the whole
world.
I read when everything is going right.
I read to find hope.
I read because I'm made up not just of
skin and bones, of sights, feelings,
and a deep need for chocolate, but I'm
also made up of words.
Words describe my thoughts and what's
hidden in my heart.
Words are alive--when I've found a
story that I love, I read it again and
again, like playing a favorite song
over and over.
Reading isn't passive--I enter the
story with the characters, breathe
their air, feel their frustrations,
scream at them to stop when they're
about to do something stupid, cry with
them, laugh with them.
Reading for me, is spending time with a
friend.
A book is a friend.
You can never have too many. ~Gary Paulsen

26/08/2023

This is the dark reality of our society where abundantly the feudal system, those having huge capital massively terminating their limitations and does the the same practice since very longer time.

People of our era must raises voice against this brutal activities that would continuously bringing the ticking bomb near them . This system exploited our whole society in a very high proportion.

We All need to raise standing powers along them to abolish this salvary, domestic violence against any of the entities either it would be male or female,, adults or children ( as we All know these kind of brutal actions always taken against the women most probably).

So government must do ensure these insecurities to a very Fair and fine secure environment. They must do reforms such policies and strictly impose them on every sector of the society.



Illusions let them to be pretender that affect their whole life scenario and whole life activities fall under that. So a...
02/04/2023

Illusions let them to be pretender that affect their whole life scenario and whole life activities fall under that. So as a individual and as a society let the illusions and supposed to be realistic whatever the hurdles are¡!!!

ہر نسل کا حق ہے کہ وہ اپنی سوچیں بزرگوں سے مخفی رکھے کیونکہ بزرگ اُن سوچوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ اُن کا ادراک نہیں رکھتے۔...
20/02/2023

ہر نسل کا حق ہے کہ وہ اپنی سوچیں بزرگوں سے مخفی رکھے کیونکہ بزرگ اُن سوچوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ اُن کا ادراک نہیں رکھتے۔ اس لیے نہیں رکھ سکتے کہ اُن کی مٹّی مختلف ہوتی ہے ، وہ کسی اور بھٹی کے پکے ہوتے ہیں ………….. ہر نسل اپنی بھٹی میں اپنی آگ اور تجربوں میں پکتی ہے اور وہ اپنے تجربے اپنے نتائج کو آئندہ نسل پر لاگو نہیں کر سکتی۔ اور اسی کو ارتقاء کہتے ہیں۔

(مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے ”چترال داستان“ سے اقتباس)

12/02/2023

جنرل باجوہ کا بیٹا اور میرا بیٹا
فروری 11, 2023

جنرل باجوہ کا بیٹا اور میرا بیٹا
پچھلے دنوں جنرل باجوہ اور ساتھ اُن کے صاحبزادے کو دُبئی میں مٹر گشت کرتے ہوئے سڑک کراس کرنے کے لیے ریڈ سگنل پر بغیر حفاظتی کمانڈوز کے انتظار کرتے دیکھ کر میرا کمزور دل تو ٹوٹ ہی گیا۔

کُچھ ہی ہفتوں پہلے ایک وقت تھا کہ وطنِ عزیز میں پاک فوج کے سپہ سالار کے گھر سے نکلنے سے کئی گھنٹے پہلے شاہراہیں بند کردی جاتی تھیں، جہاں سے شاہی سواری گُزرنا ہوتی فوجی کمانڈوز مشین گنیں اُٹھائے سڑکوں کے دونوں اطراف قطار اندر قطار ایسے ایستادہ کھڑے ہوتے کہ فاتح قلو پطرہ، مصر، یونان، فرانس، سپین، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، ہالینڈ اور برطانیہ، رومن شہنشاہ جولیس سیزر بھی دیکھ لیتا تو بروٹس کے خنجر کے وار کی بجائے حسد کی آگ میں جل مرتا۔

مارچ 2020 میں میرا بیٹا، مُحّمد عُمر ابصار، اپنا پہلا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے پنڈی سٹیڈیم کے سامنے مری روڈ پر اپنے کزنز کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ پہنچیں تو سب مل کر اکٹھے پی ایس ایل کا میچ دیکھنے سٹیڈیم میں داخل ہو سکیں۔ وہیں سے اُس نے فون پر اپنے کزنز کو اپنی لوکیشن بتائی کہ وہ کہاں کھڑا ہے تاکہ وہ اُس کو آسانی سے ڈھونڈ سکیں۔ یہ فون کال کرنا اُس کا جُرم ٹھہری کیونکہ اُسی دن سپہ سالار اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے لاڈلے بچوں کے ساتھ میچ دیکھنے آنا تھا۔

ابھی فاتح کشمیر براستہ واشنگٹن صاحب بہادر کے گھر سے نکلنے میں دو گھٹے باقی تھے لیکن مری روڈ پر حفاظتی انتظامات ایسے مبالغہ آمیز کہ امریکی صدر بھی دیکھے تو دانتوں میں اُنگلی داب لے۔

مری روڈ پر چہار اطراف پاک فوج کے بہادر اور پنجاب پولیس کے گھبرو جوان ہزاروں کی تعداد میں سویلین کپڑوں اور یونیفارم میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔ چھتوں پر خودکار رائفلوں کے ساتھ شارپ شُوٹرز کالے چشمے لگائے مشکوک افراد کو ڈھونڈ رہے تھے۔ سیکورٹی اداروں کی بم پرُوف گاڑیاں مُسلح فوجیوں کو بٹھائے مری روڈ پر زن زن کرتے ایسے گُزر رہی تھیں جیسے انڈیا نے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کر دیا ہو۔

ان فرض شناس اہلکاروں نے جب ایک بیس سالہ لڑکے کو فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی۔ فوج اور پولیس کے چاک و چوبند جوانوں نے فوراً اُس کو گھیر لیا، اُس کے ہاتھ سے فون چھین لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے۔

پوچھا کہ وہ کون ہے تو اُس نے اپنا نام بتایا اور مزید پوچھنے پر بتایا کہ وہ ابصار عالم کا بیٹا ہے۔

بس یہ سُننا تھا کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس کے تقریباً 15/16 شیر جوان اُسے دھکے دیتے ایک بلڈنگ میں لے گئے، اندر لے جا کر وہ سب اُس نہتے لڑکے پر پَل پڑے۔

گھونسوں، تھپڑوں، لاتوں اور ٹھڈوں سے اُسے مارنا شروع کردیا۔ ساتھ اُس کا “جُرم” بتاتے رہے کہ ”تُمہیں پتا نہیں تھا آرمی چیف آرہے ہیں اور تُم نے یہاں کھڑے ہو کر فون پر بات کر کے سیکورٹی بریچ کردی ہے، بتاؤ اس وی آئی پی موومنٹ کی انفارمیشن کس کو دے رہے تھے۔“

اُس کمرے میں دھینگا مُشتی کے دوران ایک پولیس والے کو ہونٹ پر ذرا سی چوٹ آگئی جس کا الزام میرے بیٹے پر لگا دیا گیا۔ چُونکہ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر مُودی کو دینے اور دلی کے لال قلعے پر جھنڈا نہ لگانے کا دُکھ ابھی کم نہیں ہوا تھا اس لیے عُمر کو اُٹھا کر پولیس گاڑی میں پھینکا گیا اور تھانہ نیو ٹاؤن شفٹ کر دیا گیا، وہاں لے جا کر اُس پر تشدد کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا اور پھر کار سرکار میں مُداخلت اور سرکاری مُلازم پر حملہ کرنے کے الزام میں پرچہ کاٹ کر اُُسے عادی اور نشئی مُلزمان کے ساتھ سیل میں بند کر دیا گیا۔

اکیسویں صدی میں پیدا اور بڑے ہونے والے میرے “گُستاخ” بیٹے کو پتا نہیں تھا کہ وہ باجوہ ڈاکٹر ائن کی تخلیق کردہ اُس عمرانی ریاستِ مدینہ کے ٹیکس پئیر کا بیٹا ہے جہاں سرکاری نوکر بادشاہ ہوتا ہے اور وطن کے مالک عوام اُس بادشاہ کے غُلام۔ اور اپنے ہی مُلازموں کے غُلام عوام پر لازم ہے کہ بادشاہ سلامت کی سواری گُزرنے سے کئی گھنٹے قبل ہی اپنی عزت اور جان بچانے کی خاطر ایسی جگہوں سے میلوں دور رہیں جہاں سے ظلِ الٰہی کا قافلہ گُزرنا ہے۔

رات دیر گئے عُمر واپس گھر پہنچا تو جس بیٹے کو ہمیشہ قانون پر عمل کرنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی تربیت دی تھی، جب وہ میرے بازوؤں میں تڑپ کر رویا تو میرے پاس اُس کی بھیگی اور اُداس آنکھوں میں کُلبلاتے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔

اُس رات سے میرے اکلوتے بیٹے کے نفسیاتی مسائل شروع ہوئے جن کا علاج اور تھیراپی آج تیسرے سال بھی جاری ہے۔ پُورے خاندان نے جو پریشانی اُٹھائی وہ ایک طرف لیکن اُس کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا اور آج بھی وہ اپنے ٹراما سے نکلنے کی مُسلسل کوشش کر رہا ہے۔

یہ واقعہ صرف میرے بیٹے کا نہیں. اس مُلک کے ہزاروں بیٹوں کو اپنے بچے باہر سیٹل کروانے والے جعلی سیزروں کی محدود دماغی سوچ کی بھینٹ مُختلف اندرونی و بیرونی ایڈونچرز میں یا تو قُربان کروا دیا گیا جیسے کارگل، جہاں سے شہیدوں کے جسدِ خاکی لینے سے بھی انکار کیا گیا، یا پھر اُن کو پہلے مُجاہد اور پھر دہشت گرد بنا کر ڈالرز کے لیے مُسلط کی گئی پرائی جنگوں کا ایندھن بنا دیا گیا۔

قوم کے ہزاروں بلوچ، پختون، سندھی، مہاجر، کشمیری اور پنجابی بیٹے اس لیے غائب کر دئیے گئے کہ وہ اس وطن پر اپنا حق جتلاتے ہیں، اور یہیں رہ کر اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں۔ لیکن اُن کو اُٹھانے والے، تشدد کرنے والے ترقیاں پاتے، ارب پتی بن کر ریٹائر ہوتے اور اہل و عیال کے ہمراہ بیرون مُلک چلے جاتے ہیں۔

لیکن یہ رعایا بھی اتنی ڈھیٹ ہے کہ پھر بھی یہ خُود اور اُن کے بچے یہیں رہنا، جینا اور مرنا چاہتے ہیں،
کیونکہ جنرل باجوہ صاحب یہ سب لوگ اپنے وطن سے بے لوث خلوص اور بے غرض مُحبت کرنے والے ہیں، یہ مُنافق نہیں ہیں، اِن کے بچے آپ جیسے نوکری پیشہ کے بچے ہونے کے باوجود پیدائشی ارب پتی نہیں ہوتے. یہ لوگ حلال مواقع ہونے کے باوجود آپ کی طرح اپنے بچوں کو یہاں کے جہنم سے نکال کر ترقی یافتہ مغربی ممالک میں سیٹل نہیں کرواتے۔

یہ اپنے ہی وطن کے مفادات کی جڑیں کاٹ کر، لوگوں کو غربت، مہنگائی اور اپنی جاہلانہ، ہوس سے بھری، ذاتی مفاد پر مبنی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا کر، تنخواہ دار ہونے کے باوجود شہنشاہوں کی زندگی نہیں گُزارتے بلکہ یہ اپنے وطن کو خوش، خوشحال، عزت دار، ترقی یافتہ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اسی بوسیدہ نظام کے جہنم میں رہ کر اپنی بساط سے بڑھ کر نسل در نسل اپنی مُشقت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اِن کا خمیر اس دھرتی کی بساندی مٹی سے اُٹھا ہے نہ کہ امریکی ڈالر یا برطانوی پاؤنڈ کے نئے کرنسی نوٹوں کی خوشبو سے۔

جنرل قمر باجوہ، میرے اور قوم کے بیٹوں اور آپ کے بیٹوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے بچے بدقسمت ہیں کیونکہ وہ اُن والدین کی اولاد ہیں جو ہمیشہ ایمانداری سے اپنا رزق حلال اسی وطن میں کماتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، اپنے بچوں کو وطن سے مُحبت سکھاتے ہیں، یہیں گھر بناتے اور کاروبار کرتے ہیں، حرام کا اربوں روپیہ لوٹ کر، زمینوں پر قبضے کر کے، ہر ہاؤسنگ سوسائیٹی میں خاندان کے ہر فرد کے نام پر بھتے میں پلاٹ اور محل نُما گھر ہتھیا کر اپنے اور اپنی سات نسلوں کے لیے جائیدادیں نہیں بناتے۔

اس مُلک کے مالک شہری وہ بدقسمت رعایا ہیں جو اپنے بچوں کو تمام عمر رزقِ حلال کما کر پالتے ہیں، بغیر کسی انصاف، آزادی، تحفظ، عزت اور بُنیادی حقوق کے بدلے یہ رعایا اپنے بچوں کا رزق کاٹ کر تمام عمر سینکڑوں قسم کے ٹیکس ادا کرتے ہیں تا کہ ججوں، جرنیلوں اور اشرافیہ کا نہ بھرنے والا بھوکا پیٹ بھر سکیں،
ان ٹیکس کے پیسوں سے جنرل باجوہ جیسے سرکاری نوکر نہ صرف سرکاری گاڑی میں سرکاری پٹرول ڈلوا کر سرکار کے خرچ پر سرکار کی سیکورٹی لگوا کر میچ دیکھنے آتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بیرون مُلک تعلیم دلوا کر وہیں سیٹل بھی کرواتے ہیں اور اگر رعایا کا کوئی فرد اس پر سوال اُٹھائے تو اُسے ہی اُٹھا لیا جاتا ہے۔

وطن عزیز میں کئی سال مُفتے کا کروفر انجوائے کرنے کے بعد جنرل باجوہ کو اس طرح جرنیلی ٹھاٹھ باٹھ کے بغیر، بے نیل و مرام دُبئی کی سڑکوں پر اپنے بیٹے کے ساتھ پیدل جُوتے چٹخاتے دیکھ کر مُسرت نہیں حسرت ہوئی ۔۔۔ کہ کاش ہمارے وطن کی بھی اتنی قسمت ہوتی جہاں پر آپ جیسے گھر کے ببر شیر اور مُحلے کے خرگوش کراچی، کوئٹہ، کشمیر، پشاور، لاہور کی سڑکوں، چوراہوں اور اسلام آباد کی مار گِلہ روڈ پر آئین، قانون کی حُرمت کرتے ریڈ سگنل پر اپنی درجنوں بمب اور بُلٹ پروف گاڑیوں میں ریڈ سگنل کا احترام کرتے دکھائی دیتے۔

اُس آئین کی جس کی عزت اور حفاظت کرنے کا حلف اُٹھانے کے بعد ہی یہ رعایا آپ کو بندوق خرید کر دیتی ہے تاکہ آپ اُس بندوق سے ہمارے بچوں کی حفاظت کریں، نہ کہ اُسی بندوق کے زور پر ہمارے بیٹوں کو اغوا کریں، تشدد کریں، گولی ماریں یا اُن کی تشدد زدہ لاش کو ویرانے میں پھینک دیں۔

اور خُود کئی سال اس مُلک کو لُوٹنے کھسوٹنے، اور تباہ کرنے سے فارغ ہو کر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی دولت سمیٹیں، لگژری چارٹرڈ طیارے میں اُڑتے ہوئے کسی محفوظ، ماڈرن اور خوبصورت شہر میں لینڈ کرجائیں، اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں اور آخری دن ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والے بے انصاف نظام کے مُنہ پر کالک اور گارڈ آف آنر کا طمانچہ رسید کرکے میرے پاک وطن کے جھنڈے میں دفن ہونے کے لیے ایک لکڑی کے بکسے میں واپس آجائیں۔

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر، کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

How inflation oppressed a common citizen |blog| In the current situation which  difficulties a common man faced.
12/02/2023

How inflation oppressed a common citizen |blog|
In the current situation which difficulties a common man faced.

Writer, content creator, international affairs

11/02/2023

مقبول بٹ تو ہر دور میں مقبول رہے گا
جکھ جائے تو جس در پر وہ در مقبول رہے گا
جاہلوں کی غلاموں کی باتوں میں نہ پڑھ
مقبول بٹ کے ساتھ چل تو ہر دور میں مقبول رہے گا

On the day of solidarity of Kashmir that is 5th Feb...So here my opinion about this whole scenerio is what?Well,No doubt...
05/02/2023

On the day of solidarity of Kashmir that is 5th Feb...
So here my opinion about this whole scenerio is what?

Well,
No doubt Pakistan has advocating the Kashmir issue on the international platform . So Pakistan has to taken some sensible step regarding Kashmir issue.

1. Build up it's own image:
Pakistan should work on its economical strength. Because this is the era of power politics.whenever anyone have a power in international politics than everyone gave his attention towards that one .

2. Diplomatic ties:
Pakistan must have to work on its foreign policy and formulate it in such a manner that every state has to listen their voice.

3.let the Kashmir issue for a decade;

Pakistan's economic strength directly related to its importance on international arena . There were 75 years spent on the cause of Kashmir but nothing happened that show the sign of positive in any domain. So, kashmiri's have a capability of forbearance . Just like china's stance over Hong Kong etc.

After the strengthening their economic domain it's mean Pakistan have a capacity to build a narrative over Kashmir. Otherwise just rallies, slogans and all that.... they are not purposeful .

Regards;

Mubashir Turk

03/02/2023

“When we have to change our mind about a person, we hold the inconvenience he causes us very much against him.”

― Friedrich Nietzsche, Beyond Good, and Evil

Address

Azad Kashmir
Muzaffarabad
22500

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mubashirturk_official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mubashirturk_official:

Videos

Share