Afkar E Hamid

Afkar E Hamid حضرت مولانا حامد علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ جو کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم بزرگ ہے

حضرت مولانا حامدعلی خانؒ بھارت کی ریاست رام پورکے رہنے والے تھے آپ کے والد محترم شیداعلی عالم دین تھے انہوں نے اپنی زندگی دین اسلام کی خدمت اور اشاعت میں صرف کردی ۔ حضرت مولاناحامدعلی خان ؒ 1906ء میں پیداہوئے آپ کمسن تھے کہ والد کا سایہ سر اُٹھ گیا۔ دادا مہدی علی خان نے آپ کی پرورش کی اور قرآن کریم کی تعلیم دلائی اور پھر حدیث وقفہ کی تعلیم بھی دلائی ۔ حضرت عنایت اﷲ خان اُس وقت کے مشہور عالم دین تھ

ے انہوں نے مولانا حامدعلی خان کی ذہانت کوبھانپ لیا اور اپنے بیٹے حمایت علی خان کو مولانا حامد علی خان کی تربیت کرنے کی ہدایت کردی ۔ حمایت علی خان اپنے والد محترم کے حکم کی تعمیل کی
مولانا حامد علی خان کو حضرت عنایت اﷲ خان سے زبردست عقیدت ہوگئی اوران کے دست مبارک پر بیعت کرلی ۔1931ء میں مدرسہ عالیہ رام پورسے فراغت حاصل کی اور سندلی اور 1932ء میں مدرسہ خیرالمعاد کے صدرمقررہوئے ۔ صوم وصلواۃ کے پابند ہوگئے اورعبادت وریاضت میں مشغول رہتے ۔ رامپوراوراردگردکے لوگ آپ کے عقیدت مندہوگئے جب پاکستان بنا تو سینکڑوں عقیدت مند پاکستا ن میں ہجرت کرگئے اوران عقیدت مندوں کے زبردست اصرار پر آپ 1957ء میں بھارت چھوڑ کر پاکستان آگئے کچھ عرصہ قیام کیا مگر پھر بھارت چلے گئے آپ کے عقیدت مند بہت اُداس ہوگئے ۔ کچھ عرصہ بعدآپ حج کی سعادت حاصل کرنے مکہ مکرمہ گئے تو پاکستان میں آپ کے عقیدت مندوں کو بھی اس بات کا علم ہوگیا وہ بھی مکہ مکرمہ پہنچے اور انہوں نے مولانا حامد علی خان سے خانہ کعبہ میں ملاقات کرکے انہیں پاکستان میں آنے اورمستقل آباد ہونے کی التجا کی آپ نے ان کی التجا قبول کرلی ۔ 1959ء میں ملتان میں آپ کے دوبڑے عقیدت مند حافظ معین الدین خالد کے والد محترم جمیل الدین حامدی اور خافظ بشیر احمد بھارت میں رام پورگئے اور مولانا حامد علی خان صاحب کو ملتان لائے ۔
ملتان میں آنے والے مہاجرین کو آپ کے ملتان آنے اور آباد ہونے پر بے کراں خوشی ہوئی۔ مولاناحامدعلی خان نے ملتان میں آکر دین اسلام کی ترویج واشاعت شروع کردی اور بازار چوڑی سرائے میں مدرسہ خیر المعاد قائم کیا اور اس مدرسہ کے صدر معلم بن گئے اور تاحیات اس منصب جلیلہ پر فائز رہے ۔
مسٹر بھٹونے سوشلزم کا نعرہ لگایا تو بھوک او ر افلاس کی ماری عوام اس کے پیچھے لگ گئی اور ذوالفقار علی بھٹو کو پورے ملک میں پذیرائی مل گئی یہ بات اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگی آنا’’فانا‘‘ مسٹر بھٹومغربی پاکستان کی مضبوط ترین سیاسی طاقت بن گیا ۔ ایوب خان ایسا آمر اس کے سامنے دم توڑ گیا اور اقتدار چھوڑ گیا ۔1977ء کے الیکشن میں ملتان کی عوام نے مولانا حامدعلی خان کو الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا ۔ آپ کا تعلق مولاناشاہ احمد نورانی گروپ سے تھا لہذا مولانا شاہ احمد نورانی ملتان آئے اورانہوں نے مولانا کو نظام مصطفے ٰ کے نفاذ کی دعوت دی اور آپ کو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا
پیپلزپارٹی نے بابو فیروز الدین انصاری کو قومی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا ۔ اسے اپنی انصاری برادری کی حمایت حاصل تھی ۔ بابو فیروزالدین انصاری کے مقابلے میں آپ الیکشن میں کھڑے ہوئے ۔ بابو کو کامیاب کرانے کے لئے حکومت نے پولیس اور فیڈرل سیکورٹی فورس کو ہدایت دے دی تھی ۔ مولانا کو خداوندکریم پربھروسہ تھا۔ زبردست مقابلہ ہوا حکومت کی حمایت اور امداد کے باوجود بابو فیروز الدین انصاری کو شکست ہوئی اور حضرت مولانا حامد علی خان کامیاب ہوگئے
اس وقت قومی اتحاد کی تحریک چل رہی تھی جسے کامیاب بنانے کیلئے مضبوط قیادت کی ضرورت تھی لہٰذا قومی اتحادنے آپ کو قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کی اورنظامِ مصطفی کی تحریک کی قیادت سنبھالنے کی ہدایت کی ۔ سی۔آئی ۔ڈی اورسرکاری ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ مولانا حامدعلی خان کو جیل بھیج دیاجائے توتحریک دب جائے گی ۔ بھٹونے یہ تجویز مان لی اور مولاناحامدعلی خان کو گرفتار کرلیا گیا ۔اس گرفتاری کیلئے اندرون شہر میں زبردست فساداور مقابلہ ہوجانے کا خطرہ پیداہوگیاتھا۔ مگر مولانا حامد علی خان نے مدبرانہ فیصلہ کیا ۔ شہریوں اورعقیدت مندوں کو صبرو تحمل کی تلقین کی اور لوہاری گیٹ میں صبح طلوع آفتاب کے بعد خود کو اپنی گرفتاری پیش کردی اورشہر کوخون ریزی سے بچالیا ۔ مولانا حامدعلی خان کوسنٹرل جیل ملتان بھیج دیاگیا اسکے ایک گھنٹہ بعد شیخ خضرحیات ، سید ولایت حسین گردیزی، شیخ عبدالحمیداوراحمدخان درانی کو بھی گرفتار کرکے سنٹرل جیل بھجوادیا گیا مگر تھوڑی دیر بعد مولانا کو بہاولپور جیل بھیج دیا گیا
بھٹوحکومت کو مولاناحامدعلی خان کی گرفتاری مہنگی پڑی ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مولانا حامدعلی خان کو ملتان کا بے تاج بادشاہ کہا گیا اوربھٹونے بھی یہ بات قبول کی ۔ دو،تین ہفتے بعدمولاناحامدعلی خان کورہاکردیا گیا ۔ مولاناحامدعلی خان نے اہلیانِ ملتان کی محبت اور خلوص کا شکریہ ادا کیا ۔ 7جنوری1980ء کو رحلت فرمائی اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں مدفون ہوئے ۔ اب آپ کا مزار تعمیرہوچکا ہے

Address

Multan
66000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Afkar E Hamid posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Publishers in Multan

Show All

You may also like