24/12/2024
چقندر (Beetroot) پودے کی جڑیں ہیں جنہیں کھانے بطور سبزی اور سلاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ چقندر ایک ایسی فصل ہے جس کا استعمال متعدد اشیاء کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ چقندر کی چار اقسام ہوتی ہیں، ایک قسم چینی نکالنے کے لیے جبکہ باقی سبزی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ چقندر کی کاشت سولہویں صدی میں یورپ سے شروع ہوئی۔ اس اہم سبزی نے دنیا میں جلد ہی ایک اہم مقام حاصل کر لیا اور یہ سب کچھ ایک نہایت قلیل عرصہ میں سائنسی علوم کی بدولت ہوا۔ 1747ء میں ایک جرمن ماہر کیمیا دان اینڈریز سگمنٹر مارگراف نے معلوم کیا کہ چقندر کی قسم میں گنے کی جیسی چینی پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنی تحقیق کے بعد چینی کی مقدار کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اس کی کاشت کی مختلف اقسام کے بارے میں بتایا لیکن تب اس تحقیق کا کوئی خاص فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ اٹھارویں صدی کے آخری عشرے میں ریکارڈو چقندر سے چینی نکالنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے اس چینی کو بیٹ شوگر کا نام دیا جو بعد میں شوگر بیٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ریکارڈو کے کامیاب تجربے کے بعد جرمنی کے شہنشاہ جرمنی فریڈرک ولیم سوم کی مدد سے جرمنی کے شہر کنرن میں چقندر کی چینی کا پہلا کارخانہ قائم کیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں 13-1912ء سے لے کر 1928ء تک چقندر کی کاشت پر ڈاکٹر ڈبلیو آر براون سابقہ صوبہ خيبر پختونخوا کے ایگریکلچر آفیسر کی زیر نگرانی تجربات کیے اور ثابت کیا کہ وادی پشاور چقندر کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ 1952ء میں زرعی ماہرین نے چقندر پر مزید توجہ دی اور اندازہ کیا کہ چقندرسے حاصل شدہ چینی گنے کی چینی کی نسبت زیادہ فائدے مند ہے۔ چقندر میں گنے کی نسبت 30 فیصد زیادہ چینی پائی جاتی ہے علاوہ ازیں چقندر 6 سے 8 آبپاشی کے ساتھ 7 ماہ میں پک جاتی ہے جبکہ گنا 16 پانی کے ساتھ ایک سال لیتا ہے گنے کی کٹائی تقریباً نومبر میں شروع ہو کر اپریل تک جاتی ہے جبکہ چقندر مئی میں تیار ہو جاتی ہے اور جولائی کے وسط تک کارخانے کو مہیا کی جاتی ہے یہ تجربات مردان میں کیے گئے اور انھی تجربات کی روشنی میں زمینداروں نے چقندر اگانا شروع کی۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں چقندر کی کاشت مردان، پشاور اور چارسدہ میں 30 ہزار ایکڑ سے تجاوز کرچکی ہے ملوں میں چقندر کی چینی کا پرتہ 8 سے 10 فیصد ہے۔1958ء1959 میں چارسدہ شوگر مل نے چینی بنانے کا پہلا کارخانہ لگایا اور اب ملک میں دو شوگر ملیں چقندر سے چینی بنا رہی ہیں۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کا کہنا ہے کہ چقندر سے چینی کا حصول مِلز مالکان اور کسان دونوں کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کی بدولت چینی کی پیداوار بھی زیادہ حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ چقندر کی فصل گنے کی نسبت جلد تیار ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک چوتھائی چینی صرف چقندر سے بنائی جاتی ہے۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زرعی ماہرین نے کاشتکاروں سے کہا ہے کہ وہ چقندر کی فی ایکڑ بہترین پیداوار حاصل کرنے کے لیے چقندر کی کاشت کا عمل 20 ستمبر سے شروع کر کے 31 اکتوبر تک مکمل کر لیں وگرنہ آمدن میں 50 فیصد چینی کے نسبتاً 30 فیصد کمی آتی ہے۔ پاکستان میں کاشت کاروں کو دو اقسام کیوی ٹرما اورکیوی میرا کاشت کے لیے دی جاتی ہیں یہ ٹریلائیڈہائرڈ ہیں ان اقسام کی پیداواری صلاحیت 75 ٹن فی ہیکڑ اور چینی کا برتہ 71 فیصد تک ہے۔ ماہرین کے مطابق چقندر کی فی ہیکٹرزمین میں100 کلو گرام فاسفورس اور 90 سے 120 گرام نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔