Tariq Khan Yousafzai

Tariq Khan Yousafzai بین الاقوامی ، ملکی ،علاقائی اور مقامی خبروں کے لئے ہمارا نیوزپیج لائیک کریں۔اور دوستوں کے ساتھ شیر کریں۔

  کہتے ہیں:دنیا میں چوروں کی تین قسمیں ہیں۔1) عام چور2)سیاسی چور3) مذہبی چورعام چور وہ ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رقم ...
02/01/2025

کہتے ہیں:
دنیا میں چوروں کی تین قسمیں ہیں۔
1) عام چور
2)سیاسی چور
3) مذہبی چور
عام چور وہ ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رقم ، بیگ ، جیبیں ، گھڑیاں ، سونا ، تار ، موبائل فون ، گھریلو سامان وغیرہ چوری کرتے ہیں۔
- سیاسی چور وہ ہیں جو: آپ کا مستقبل ، خواب ، خواہشات ، خواب ، کام ، زندگی ، حقوق ، تنخواہ ، تعلیم ، قابلیت ، ساکھ ، وقار ، قومی سرمایہ اور یہاں تک کہ آپ کے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اور وہ آپ کو اندھیرے اور اذیت میں رکھتے ہیں۔
مذہبی چور وہ ہیں جو: آپ کی خوبصورت دنیا ، آپ کی ہمت ، آپ کی سائنس اور علم ، آپ کی عقل و دانش ، آپ کی خوشی اور آپ کے جسم و دماغ کی صحت ، آپ کا مال و دولت اور اسی طرح کی چیزیں چوری کرتے ہیں۔
اور وہ آپ کو مہنگی چیزیں ، جیسے خدا ، مذہب ، جنت ، توہم پرستی ، لاعلمی ، غم ، ماتم ، اور افسردگی دیتے ہیں-
مذہبی چور جو جھوٹ بولتے ہیں ، دھوکہ دیتے ہیں ، گھمنڈ کرتے ہیں ، آپ پر سواری کرتے ہیں ، آپ کو غربت اور بدحالی ، غم و پریشانی دیتے ہیں اور اسکو برقرار رکھتے ہیں۔
دلچسپ فرق یہ ہے کہ
عام چور .. وہ آپ کا انتخاب کرتے ہیں۔
لیکن آپ کے سیاسی چور وہی ہیں جن کا آپ انتخاب کرتے ہیں۔
آپ نے مذہبی چوروں کا اسکول بھی چنا ھے۔
اور آپ مذہبی چوروں کی قدر کرتے ہیں اور ان کی بڑائی کرتے ہیں۔
دوسرا اور بڑا فرق یہ ہے کہ:
عام چور۔ پولیس کے ذریعہ ان کا پیچھا کیا جاتا ہے ، انہیں گرفتار کیا جاتا ہے ، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، کوڑے مارے جاتے ہیں ، جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ، بائیں اور دائیں ہاتھ اور پاؤں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں ، رسوا کیا جاتا ہے۔
لیکن سیاسی اور مذہبی چور!
دونوں قانون (ریاست) کے اور پولیس کے زریعے محفوظ ہیں ..

 #اپنےـبچوںـکوـیہـفلم-ضرور-دکھائیںکبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسا مقام آتا ہے کہ اس کے لئے دنیا میں سب کچھ ختم ہو جات...
16/12/2024

#اپنےـبچوںـکوـیہـفلم-ضرور-دکھائیں
کبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسا مقام آتا ہے کہ اس کے لئے دنیا میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور کوئی امید کی کرن نظر نہیں اور پھر اس کے اندر قدرت کی عنایت کی گئی وہ صلاحیتیں کام کرنے لگتی ہیں جو اسے ان مشکلات سے لڑنے اور زندگی میں دوبارہ واپس آنے میں مدد دیتی ہیں۔ کاسٹ اوے ایک ایسی فلم ہے جو انسان کے اندر کی طاقت اور عزم کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ فلم نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے بلکہ انسان کی زندگی کی اصل حقیقتوں کو بھی پیش کرتی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی سخت ہوں، انسان میں خود پر یقین اور ارادے کی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرے اور جیتے۔ ٹام ہینکس کی شاندار اداکاری اور روبرٹ زیمیکس کی ہدایتکاری نے اس فلم کو ایک کلاسک ڈرامہ بنا دیا ہے جو آج بھی دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔کہ سال دو ہزار میں فلم کاسٹ اوے ریلیز ہوئی ایک ہالی ووڈ ڈرامہ ہے، جس کی ہدایتکاری روبرٹ زیمیکس نے کی اور اس میں مرکزی کردار ٹام ہینکس نے ادا کیا۔ یہ فلم ایک انسان کے اکیلے رہ جانے کی کہانی پر مبنی ہے، جو ایک پرواز کے حادثے کے بعد ایک بے آباد جزیرے پر پھنس جاتا ہے اور اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ فلم کا مرکزی خیال انسان کی جدو جہد، تنہائی، امید اور بقا پر ہے۔فلم کی کہانی چاک نولن (ٹام ہینکس) کے گرد گھومتی ہے، جو ایک کورئیر کمپنی "فیڈ ایکس" کا ملازم ہے اور اپنے کام کے سلسلے میں ایک پرواز کے ذریعے مختلف مقامات پر جاتا رہتا ہے۔ ایک دن، اس کی پرواز ایک طوفان کی زد میں آ جاتی ہے اور طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہو جاتا ہے۔ چاک اکیلا جزیرے پر زندہ بچتا ہے، لیکن اس کے پاس کوئی مدد نہیں ہوتی اور وہ بے آباد جزیرے پر پھنس جاتا ہے۔جزیرے پر چاک نولن کا آغاز ایک ایسی زندگی سے ہوتا ہے جہاں اس کے پاس صرف چند چیزیں ہی ہیں، جن میں ایک واچ (گھڑی)، کچھ سامان اور فیڈ ایکس کی پیکیجز شامل ہیں، جنہیں وہ کھول کر مختلف چیزیں نکالتا ہے اور ان سے اپنی بقا کی کوششیں شروع کرتا ہے۔ ان پیکیجز میں سے ایک اہم چیز "ویلس" نامی ایک والی بال نکلتی ہے، جسے وہ اپنے دوست کی طرح استعمال کرتا ہے اور اس کا نام ویلس رکھتا ہے۔ ویلس کے ساتھ اس کی گفتگو اور تعلق چاک نولن کی ذہنی اور جذباتی حالت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔
زندگی بچانے کے لئے چیک نولن کچے ناریل، کچی مچھلیوں اور بارش کاپانی پر کر گذارا کرتا ہے اور اس طرح پانچ سال گذر جاتے ہیں۔ ایک دن اسے اپنے تباہ شدہ جہاز کا لوہے کی چادر کاایک ٹکڑا ملتا ہے جو اس میں جزیرے سے نکلنے کے لئے ایک امید پیدا کرتا ہے۔ چاک نولن درخت کے تنوں سے اور لوہے کی چادر سے ایک ناو بناتا ہے اور کئی سال کے بعد اس جذیرے کو الوداع کہ دیتا ہے۔ کئی دن تک سمندر کی لہروں پر بھوکے پیاسے نڈھال رہنے کے بعد آخر کار ایک کارگو جہاز کی اس پر نظر پڑ جاتی ہے۔ چاک نولن کی کہانی اس کی بقا کی جدوجہد پر مبنی ہے۔ وہ نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی جنگ لڑتا ہے۔ اس دوران، اس کا جسمانی حالت میں نقصان ہوتا ہے، لیکن اس کی ذہنی حالت میں مزید مشکلات آتی ہیں، جیسے کہ تنہائی، بے یقینی اور مایوسی۔ چاک کا انسانیت کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی کوششیں اور اپنے اندر کی امید کو زندہ رکھنا اس کے زندہ رہنے کی وجہ بنتا ہے۔
فلم "کاسٹ اوے" انسانی جذبے، امید، اور بقا کی ایک طاقتور تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ فلم دکھاتی ہے کہ انسان کس طرح اپنی عقل، قوت ارادی اور فطری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مشکل حالات میں بھی زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ چاک کی بقا کی جدوجہد ایک غیر معمولی کہانی ہے جس میں انسان کے اندر کی طاقت، حوصلہ اور عزم کو دکھایا گیا ہے۔ فلم کے آخر میں، چاک ایک طویل عرصے بعد جزیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے اور واپس اپنے وطن واپس آ جاتا ہے۔ لیکن اس کا ماضی اور جزیرے کی زندگی اسے مکمل طور پر بدل چکی ہوتی ہے۔ اس کے دوست اور خاندان کے افراد اسے مردہ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ اس کی ذاتی زندگی میں تبدیلیاں آ چکی ہوتی ہیں اور وہ اپنے ماضی کے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بقا کی جدوجہد: یہ فلم انسان کے بقا کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی داستان ہے، جہاں ایک انسان کو اپنی زندگی بچانے کے لیے خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔تنہائی اور ذہنی طاقت: فلم میں تنہائی کے اثرات کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ چاک کی شخصیت میں تبدیلی اور اس کی ذہنی طاقت کا کمال اس کی زندگی کی سب سے بڑی جنگ ہے۔امید اور عزم: "کاسٹ اوے" ایک پیغام دیتی ہے کہ انسان کو جب تک امید ہوتی ہے، وہ کسی بھی مشکل سے نکلنے کی طاقت رکھتا ہے۔انسانی تعلقات: چاک کا تعلق ویلس والی بال سے اور اس کی واپسی کے بعد اپنے ماضی کے تعلقات میں تبدیلی اس موضوع کو اجاگر کرتی ہے۔فلم کی تکنیکی خصوصیات: فلم کی ہدایتکاری روبرٹ زیمیکس نے بہت عمدہ طریقے سے کی ہے، جس میں فطرت کے مناظر اور چاک کی ذہنی حالت کو بہترین طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ٹام ہینکس کا کردار "چاک نولن" ایک بے مثال اداکاری کی مثال ہے، جس میں اس نے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی سطح پر بھی اپنے کردار کو بہترین انداز میں پیش کیا۔ اس کے علاوہ، فلم کی موسیقی اور ساؤنڈ ڈیزائن بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں، جو کہ کردار کی تنہائی اور بقا کے موضوعات کو بہت اچھے طریقے سے اجاگر کرتی ہے۔ اپنی کہانی اور موضوع کے باعث یہ فلم آسکر سمیت بہت سے ایوارڈز کے لئے نامزد کی گئی۔۔۔۔

، #سفر نامہ کیسے لکھتے ہیں ؟ تحریر کی ایک قسم ”سفرنامہ“ لکھنا بھی ہے۔ سفرنامہ نگاری کا فن قدرے آسان ہے۔ اس میں کوئی عرق ...
04/12/2024

، #سفر نامہ کیسے لکھتے ہیں ؟

تحریر کی ایک قسم ”سفرنامہ“ لکھنا بھی ہے۔ سفرنامہ نگاری کا فن قدرے آسان ہے۔ اس میں کوئی عرق ریزتحقیق نہیں کرنی پڑتی، اور نہ ہی کوئی لمبے چوڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ زیادہ معلومات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔ کلام کو مقفٰیٰ مسجع بھی نہیں کیا جاتا۔ سفرنامے میں بس کرنا یہ ہوتا ہے کہ مسافر جس راستے سے گزرا ہوتا ہے، اس کے حال احوال اور رُوداد کو عام فہم انداز میں بیان کرتا ہوا چلا جاتا ہے۔
سفرنامے کی کئی قسمیں ہیں۔ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ سفرناموں کے انداز اور اسٹائل بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم سفرناموں اور جدید دور کے لکھے گئے سفرناموں میں بہت فرق ہے۔ پہلے سفرنامے تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے لکھے جاتے تھے۔ تاریخ، معلومات، جغرافیہ اور حقائق کو ترجیح دی جاتی تھی۔ آج کل ایسا نہیں ہے۔ آج کے دور میں ہلکے پھلکے اور لائٹ سفرناموں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ پاکستان میں جن ادیبوں کے سفرناموں کو شہرت ملی ان میں کرنل اشفاق، مستنصر حسین تارڑ، کرنل محمد خان اور عطاءالحق قاسمی کے سفرنامے ہیں۔ سفرنامے کی اےک قسم اےسی بھی ہے جس میں دونوں چیزوں کو یکجا کرکے لکھا جاتا ہے۔ اس میں تاریخ، جغرافیہ اور معلومات بھی ہوتی ہیں اور ادب، تناظر، مکالمے، منظر نگاری، کردار سازی.... وغیرہ بھی ہوتی ہے۔ ان سب چیزوں کو آپس میں ایسا گوندھ کر پیش کیا جاتا ہے کہ قاری کو بیک وقت کئی چیزیں مل رہی ہوتی ہیں۔ سفرنامہ نگار سفر ہی سفر میں پڑھنے والے کے ذہن میں ایک تاریخ بھی نقش کردیتا ہے۔ وہ قاری کو حال میں ماضی کے جھروکوں سے گزارتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ سفرنامہ نگار بننے کے لیے کن کن چیزوں کا آنا ضروری ہوتا ہے؟ ایک کامیاب سفرنامہ نویس کیسے بنا جاسکتا ہے؟ وہ کون سے گُر اور فارمولے ہیں جس پر عمل پیرا ہوکر سفرنامہ لکھا جاسکتا ہے؟ سفرنامہ لکھنے کی ابتدا کیسے کرنی چاہیے؟ کیا سفرنامہ لکھنے کے لیے سفر کرنا بھی ناگزیر ہے؟ کیا ٹیبل اسٹوریوں کی طرح سفرنامہ بھی لکھا جاسکتا ہے؟ آج کل زیادہ تر سفرنامے کیسے لکھے جارہے ہیں؟ یہ اور اس جیسے بیسیوں تشنہ طلب سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
سفرنامہ لکھنے کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ سفرنامہ نگار نے واقعتا سفر بھی کیا ہوا ہو۔ ٹیبل اسٹوری کی طرح ٹیبل سفرنامہ نہیں لکھا جاسکتا۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: ”لَی±سَ ال±خَب±رُ کَال±مَعَایَنَةِ“.... یعنی ”مشاہدہ خبر کے برابر نہیں ہوسکتا۔“ چند سال پہلے جب خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلہ آیا تو میرے اخبار کے ایڈیٹر نے کہا آپ متاثرہ علاقوں کا وزٹ کریں اور پھر واپس آکر اس موضوع پر مضمون لکھیں۔
میں نے کہا: ”میڈیا پر سب کچھ آچکا ہے۔ میرے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل آپ کو اس موضوع پر مضمون مل جائے گا۔“ ایڈیٹر صاحب نے حکماً کہا: ”نہیں! آپ کو لازمی جانا ہے۔ واپس آکر آپ مضمون لکھیں یا نہ لکھیں، لیکن ایک مرتبہ وزٹ ضرور کر آئیں۔“
چنانچہ تعمیلِ حکم میں متاثرہ علاقوں کا 5 روزہ دورہ کیا۔ وزٹ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعتا خبر مشاہدے کے برابر نہیں ہوسکتی اور بغیر دیکھے مضمون نہیں لکھنا چاہیے۔ حالات آنکھوں سے دیکھنے کے بعد جیسا مضمون لکھا ہے ایسا مضمون ہر گز نہیں لکھ سکتا تھا، چنانچہ اس کے بعد سے بغیر دیکھے اور مشاہدے کے کبھی ٹیبل اسٹوری نہ لکھی۔
یہی حال سفرنامے کا ہے۔ اگرچہ بعض رائٹر بن سفر کیے بھی سفرنامہ لکھ مارتے ہیں، لیکن باشعور پڑھنے والا شخص جلد ہی بھانپ جاتا ہے کہ اس نے کیسا سفر کیا ہے؟ چنانچہ سفرنامہ لکھنے کے لیے پہلی لازمی شرط سفر کرنا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سفر کرنے والے کا مشاہدہ تیز ہو، کیونکہ سفرناموں میں منظر نگاری کی جاتی ہے، جس علاقے اور جگہ کا سفر کیا ہوتا ہے، اس کی ایک ایک جگہ کی ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ پڑھنے والا جب کبھی اس مقام پر جائے تو دیکھنے کے بعد اس کے ذہن میں وہ سارا منظر گھوم جائے اور وہ بے ساختہ کہہ اُٹھے کہ ہاں یہی وہ منظر اور جگہ ہے جس کا تذکرہ میں نے فلاں سفرنامے میں پڑھا تھا۔
منظر نگاری کے ساتھ واقعیت نگاری بھی ضروری ہوتی۔ واقعیت نگاری کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا تذکرہ کیا جارہا ہے، جس چیز کی منظر نگاری کی جارہی ہے، وہ چیز واقعتا موجود بھی ہو۔ وہ چیز فرضی نہ ہو، خیالی نہ ہو، اس کا تعلق تخیل سے نہ ہو، بلکہ حقیقت اور واقعیت سے تعلق رکھتی ہو۔
اسی طرح سفرنامے میں کردار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کردار کبھی اصلی ہوتے ہیں اور کبھی کسی مجبوری کے تحت فرضی بھی ہوتے ہیں، کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کسی شخص کا نام لے کر ذکر مناسب نہیں سمجھا جاتا، تو پھر اس جیسا کوئی کردار بنالیا جاتا ہے اور اس کردار سے وہ ساری باتیں کہلوادی جاتی ہیں یا اس کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں۔ کردار سازی میں اس کردار کا حلیہ، نین نقش، چال ڈھال، شکل صورت، وضع قطع، بولنے کا انداز.... ہر ہر چیز کو لکھا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک کردار ”عبداللہ“ ہے۔ یہ ایک شخصیت، ہزار تضادات، نرم خو، کم زور دل، ہم درد، غم گسار، مونس و غم خوار ہے۔ من موجی، سادھو، البیلا، رنگ رنگیلا، چھیل چھبیلا بھی۔ کبھی اس قدر زود رنج و دل گرفتہ کہ کسی روتے کو کاندھا دے تو ساتھ اپنی بھی آنکھیں بھر آئیں، ہچکیاں بھرنے لگے۔ کبھی ایسا نوٹنکی باز کہ راہ چلتوں کے سنگ محبت و الفت کی پینگیں بڑھانے، گیت گانے لگے۔ ان جان، اجنبیوں کے ساتھ ناچ ناچ پاگل ہوا جائے.... عمر چور تو ہے ہی، پر ایسا من رسیا کہ بیک وقت تین جنریشنز کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ بچے ”بھائی بھائی“ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ نوجوان تو اس کے ہم رکاب و ہم نوا ہیں ہی، بزرگوں کا بھی ایسا ”چہیتا برخوردار“ کہ اکثر کئی بڑی بوڑھیاں بلائیں لیتی اور دعائیں دیتی نظر آتی ہے۔ عبداللہ فطرتاً خوش مزاج ہے تو عادتاً خوش پوشاک ہے۔ صاف ستھرا ہی نہیں بناسنورا رہنا پسند کرتا ہے۔ حقیقت پسند تو ہے ہی دل کا بھی پاک ہے۔ بات کرنے کا مخصوص اسٹائل ہے۔ ”جی دیکھیں“ ان کا تکیہ کلام ہے۔“ قارئین! یہ ایک کردار ہے۔ سفرناموں میں ایسے کرداروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
کردار سازی کے بعد مکالمے کا نمبر آتا ہے۔ منظرنگاری کی طرح مکالمہ بھی سفرنامے کی جان کہلاتا ہے۔ مکالمے کے بغیر سفرنامہ ادھورا شمار ہوتا ہے۔ مکالمہ ان لوگوں سے ہوتا ہے، دورانِ سفر جن جن حضرات و خواتین سے مختلف موضوعات پر تبادلہ¿ خیال کیا گیا ہے۔ جن سے بات چیت کرنے اور انٹرویو لینے کا موقع ملتا ہے۔ مکالمے نقل کرتے ہوئے ان کی باڈی لینگویج کو بھی الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یوں لکھا جاتا ہے کہ اس نے چائے کی پیالی رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے ہوا میں مکا لہراتے ہوئے جواب دیا۔“ وغیرہ وغیرہ۔ اس کی پوری تفصیل ”مکالمہ نگاری“ کے باب میں آگے آرہی ہے۔
کردار سازی اور مکالمے کی طرح وہاں کے لوگوں کے حالات ، ملاقاتوں کا حال احوال اور حقائق لکھنے کے بعد اس پر تبصرہ اور تجزیہ بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ تاریخی واقعات کے تناظر میں موجودہ صورت حال کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے فلسطین کا سفر کیا اور واپس آکر سفرنامہ لکھا۔ فلسطین اور فلسطینیوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں وہاں کے اور عالمی حالات دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”اب امن مذاکرات اور افہام و تفہیم کے علمبرداروں پر یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ کم از کم مذاکرات کے ناٹک کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔
اور پھر ایک تاریخی مثال سے بات کو واضح کرتے ہوئے کہاکہ یہ 18 ویں صدی کی بات ہے۔ جرمنی نے فرانس کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ مکمل تسلط کے بعد گرجا گھروں کو بند کردیا۔ ایک مرتبہ فرانس کا ”ارنسٹ لیوس“ (Ernest Lavisse) نامی مصنف و صحافی وہاں گیا۔ سب سے بڑے چرچ میں حاضری دی۔ واپسی پر اپنے تاثرات میں عیسائیوں کو مخاطب کرکے لکھا: ”جب میں نے وہاں حاضری دی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے گرجا گھروں کے میناروں سے آواز آرہی ہے: ”اے فرانسیسیو! تم کہاں ہو؟ ہم تمہارے منتظر ہیں۔“
عیسائی برادری میں یہ آواز اس قدر متاثر کن ثابت ہوئی کہ کچھ ہی عرصے بعد فرانس نے اپنے مقبوضہ علاقے جرمنی سے آزاد کروالیے اور گرجا گھر پھر سے آباد ہوگئے۔ آج قبلہ¿ اوّل بیت المقدس کے سرخ مینار اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی روہانسی آواز 59 اسلامی ممالک اور 2 ارب مسلمانوں کو پکار رہی ہے کہ ہمیں صہیونی چنگل سے آزاد کراﺅ، ہماری مدد کرو۔ اے مسلمانو! جاگو! فلسطین آہستہ آہستہ جارہا ہے، صرف 8 فیصد باقی رہ گیا ہے۔“
اسی طرح سفرناموں میں لفظوں سے بھی کھیلنا ہوتا ہے۔ جابجا ضرب الامثال، حکایات، واقعات، تشبیہات، استعارات، تلمیحات، متضاد، متقابل، متقارب، مصرعے وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مستنصر حسین تارڑ اپنے سفرنامے ”امریکا کے سورنگ“ میں ایک عنوان باندھتے ہیں: ”بلھے شاہ ان نیویارک“ اور پھر ایک جگہ پر ان کا یہ شعر لکھتے ہیں.... چل بُلہیا چل چلئے جتھے سارے انھّے.... نہ کوئی ساڈھی ذات پہچانے نہ کوئی ساہنوں مَنّے....!! حاجی لوک مکّے نُوں جاندے اساں جانا تخت ہزارے....
حرفوں، لفظوں، جملوں اور عمدہ تراکیب سے کھیلنے کا مقصد اپنے قارئین کو متنوع مواد فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بوریت محسوس نہ کریں۔ اسی طرح کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات بھی فراہم کی جائیں، کیونکہ یہ معلومات اور انفارمیشن کا دور ہے۔ اس زمانے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ چیزوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانے۔ اسی طرح اپنے قارئین کے ساتھ مختلف اور نئے نئے آئیڈیاز بھی شیئر کیے جاتے ہیں۔ اپنے اور اپنے دوستوں کے تجربات بھی بتائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سفرنامے میں مصنف نے اپنے کسی دوست کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
”ایک صبح نیند سے بیدا رہونے پر میں نے گلے میں خراش محسوس کی۔ اس قسم کی تکلیف عام ہے۔ اس وقت میں نے بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ تھوڑی دیر بعد گلے میں درد بھی شروع ہوگیا، جسے دور کرنے کے لیے عام طور پر استعمال کی جانے والی ادویہ کا سہارا لیا، لیکن پھر محسوس کیا کہ میری آواز گویا حلق میں گُم ہوتی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری بے چینی اور تشویش بڑھنے لگی، کیونکہ میں ٹھیک طرح سے بول نہیں پارہا تھا۔“ یہ اس تکلیف دہ اور باعثِ تشویش مرض کی ابتدا تھی جس نے مجھے جلد ہی قوتِ گویائی سے محروم کردیا۔“ چنانچہ آپ کسی بھی بیماری کو چھوٹی بیماری نہ سمجھیں۔ ہر بیماری کو بڑی بیماری تصور کرتے ہوئے فوراً علاج کروائیں۔“
اس طرح کی آٹھ دس باتیں اور شرطیں کامیاب سفرنامے کے لیے ضروری ہیں۔ دو چار ادیبوں کے سفرنامے پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ جو شخص سفرنامہ نگار بننا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابنِ بطوطہ، مستنصر حسین تارڑ، کرنل اشفاق، عطاءالحق قاسمی، کرنل محمد خان، مفتی تقی عثمانی وغیرہ کے سفرنامے ضرور پڑھے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ سفرنامہ کیسے لکھا جاتا ہے؟ اور کن کن باتوں کا خیال کرنا ضروری ہوتا ہے؟
نوآموزوں، نوواردوں اور صحافت کے طلبہ و طالبات کے لیے آخری بات یہ ہے کہ سفرنامے کی ابتدا چھوٹے سے سفر سے کریں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان لاہور میں رہتا ہے اور کراچی میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ اب لاہور سے کراچی تک کا جو اس نے سفر کیا ہے، اس کی مکمل اور پوری رُوداد لکھے۔ گھر سے نکلنے بلکہ سفر کی تیاری کرنے سے لے کر کراچی اپنے تعلیمی ادارے میں پہنچنے تک کی لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم تفصیل لکھے۔
سفر کی تیاری کیسے کی؟ کیا کیا چیزیں سفری بیگ میں رکھیں؟ گھر سے نکلتے وقت چھوٹے بھائیوں نے کیا کہا تھا؟ لاڈلی بہن کے کیا تاثرات تھے؟ جدائی کے وقت والدین خصوصاً والدہ محترمہ کے کیا جذبات تھے؟ گھر سے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یا ایرپورٹ تک کس نے پہنچایا؟ بھائی نے، والد نے یا ٹیکسی والے نے؟ گھر سے اسٹیشن تک راستہ بھر کیا کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا؟ لاہور اسٹیشن، بس اڈّے یا ایرپورٹ پر کیا بیتی؟ اور پھر کراچی پہنچنے تک کیا کچھ ہوا؟
سفر میں انسان کو بے شمار تجربات اور مشاہدات ہوتے ہیں، لوگوں سے میل ملاپ ہوتا ہے۔ ہمسفروں سے بات چیت ہوتی ہے۔ وہ ساری باتیں سادگی کے ساتھ ایک ترتیب سے لکھتے چلے جائیں۔ سفر کی تیاری سے لے کر اپنی درسگاہ اور کلاس میںپہنچنے تک قدم بہ قدم اور لمحے لمحے کو لکھنا ہے۔ اس طرح دوچار چھوٹے چھوٹے سفروں کی لمبی لمبی تحریریں لکھنے سے آپ کو لکھنا آجائے گا۔
صحافت کے میدان کے نووارد یاد رکھیں کہ مختلف اسفار اور مطالعاتی دورے صحافی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ جب بھی سفر کا موقع ملے تو ضرور کریں۔ جب بھی کسی کانفرنس، ورکشاپس اور اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور جائیں اور پھر واپس آکر اس کی پوری، مکمل اور جامع رُوداد لکھیں۔ اگر ایک گھنٹے کا بھی سفر کریں تو واپس آکر اپنے سفر کی سفر بیتی لکھیں، کہیں پر بھی جائیں واپسی پر اپنے تجربات اپنے قارئین سے شیئر کریں۔ اپنے مشاہدات بیان کریں۔ اپنی تحریر میں اپنے میزبانوں، مہمانوں، شرکائے مجلس کا ذکر تفصیل سے کریں۔
کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنے ملک کے اندر کوئی نہ کوئی سفر نہ کیا ہو۔ ہر شخص نے لازمی سفر کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان سفروں کی رُودادیں لکھنے سے آغاز کریں۔ ہر سفر کے بعد اس کی سرگزشت احاطہ¿ تحریر میں لائیں۔ ایک دو سال تک آپ نے اس طرح کرلیا تو ایک وقت آئے گا آپ کا شمار ممتاز سفرنامہ نویسوں میں ہونے لگے گا۔

25/11/2024

تصوف اور صوفی. تصوف اور راہ تصوف پہ چلنے والا (صوفی)

لفظ ’’تصوف‘‘ کے معنی کے بارے میں اولیاء کاملین کے مختلف اقوال ہیں. اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو تصوف سے مراد حق تعالی کی محبت و عشق میں خلوص دل اور خالص نیت کے ساتھ اپنے نفس کا تزکیہ کرنا اور اپنی ذات کو اس طرح خالص و پاک کرنا کہ وہ حق تعالی کے قرب و رضا کی مستحق ٹھہرے.
جو اس راہ پہ چلتا ہے اس کو صوفی کہا جاتا ہے.
اس راستے کی کوئی منزل نہیں ہوتی جس طرح اللہ کی ذات لامحدود ہے اسی طرح اس کے قرب اور رضا کی بھی کوئی حد نہیں. سو یہ سفر ہی سفر ہے جو زندگی کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے.
یہی آپ کی طریقت ہے یہی آپ کا تصوف ہے. یہی معرفت کا راستہ ہے یہی پیری مریدی اور درویشی ہے.

جب بندہ خالصتا“ اللہ کی محبت میں اس کے قرب و رضا کے شوق میں سفر کر رہا ہوتا ہے یعنی اپنے اعمال کی اپنی ذات کی اپنے خیال، سوچ، فکر کی اصلاح کر رہا ہوتا ہے وہ راہ حق کے سفر پہ گامزن ہے.
وہ اپنے وجود کو رضائے حق کے سانچے میں ڈھال رہا ہوتا ہے. اور جو بندہ جتنا خالص ہوتا جائے گا وہ اتنا ہی قرب الہی میں آتا جائے گا. یعنی اس سفر میں اپنی رفتار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس محبت کے ساتھ کتنا عملاً کام کر رہا ہے.

تصوف اسلام کی روح ہے. تصوف آپ کو یہی سکھاتا ہے کہ آپ اسلام کو کس طرح سے اپنے دل میں راسخ کر سکتے ہیں. یہ آپ کے ہر عمل کا باطن ہے. تصوف آپ کو یہی سکھاتا ہے کہ آپ کس طرح سے ہر اک عمل کی روح کو حاصل کر سکتے ہیں تاکہ آپ کا کیا ہوا ہر عمل فائدہ مند ہو اور اللہ کی محبت و قرب کا زریعہ بنے. تمام فرائض سنت واجبات اور نوافل کو ان کی اصل روح کے ساتھ ادا کرنا ہی تصوف کا مقصود ہے.

مثلاً نماز کو خشوع خضوع کے ساتھ خالصتاً اللہ کی محبت میں مکمل توجہ و یکسوئی کے ساتھ اس کے پورے ارکان کے ساتھ ادا کرنا تصوف کا حاصل ہے.
الغرض تصوف ہی وہ طریقہ کار ہے جس کے زریعے سے مسلمان دین اسلام کی اصل روح سے واقف ہوتا ہے.
تو صوفی، فقیر، درویش، حق کا راہی وہی ہوا جو اس طریقہ پہ چل رہا ہو اور اس راستے کا مسافر ہو.

  سینئر ورکنگ جرنلسٹ شکور خان خٹک طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔مرحوم کی نماز جنازہ اج بروز پیر بعد از نماز عشاء بوقت 8...
25/11/2024



سینئر ورکنگ جرنلسٹ شکور خان خٹک طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔مرحوم کی نماز جنازہ اج بروز پیر بعد از نماز عشاء بوقت 8:00 بجے شیرگڑھ مقبرہ میں ادا کی جائیگی۔
تخت بھائی پریس کلب اور تخت بھائی میڈیا سیل اپنے ساتھی جرنلسٹ شکور خان خٹک مرحوم کی وفات پر انکے خاندان کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں ساتھ ھیں اور انکی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ھیں۔

"پروین شاکر کے بیٹے " سید مراد علی "  کی اپنی ماں سے جڑی یادیں"            " ان کی خوشی کا محور میں تھا- ""ماں کا خیال ہ...
25/11/2024

"پروین شاکر کے بیٹے " سید مراد علی " کی اپنی ماں سے جڑی یادیں"

" ان کی خوشی کا محور میں تھا- "
"ماں کا خیال ہر وقت آتا ہے لیکن جب کوئی تہوار ہو، خوشی کا یا عید کا موقع ہو تو اس وقت امی کا خیال زیادہ آتا ہے، سب لوگوں کے خاندان اکٹھے ہوتے ہیں تو کمی تو محسوس ہوتی ہے کہ میری امی میرے ساتھ نہیں ہیں۔"
" سید مراد علی " جو پاکستان کی نامور شاعرہ پروین شاکر کے اکلوتے بیٹے ہیں۔
پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گئی تھیں۔ اس وقت مراد کی عمر 15 برس تھی اور وہ او لیول کے طالب علم تھے۔ مراد کو اپنی والدہ کے ساتھ گزرے لمحوں کی کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا "امی جتنی بھی مصروف ہوتیں رات کا کھانا گھرپر کھاتی تھیں اور کھانے کے ٹیبل پر ہماری باتیں ہوتیں، سکول میں کیسا دن گزرا؟ پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟ دوستوں کے ساتھ وقت کیسا گزر رہا ہے؟ اور تھوڑی سی سیاسی باتیں بھی ہوتی تھیں اگرچہ اس وقت میں چھوٹا تھا مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔"
مراد علی کا کہنا ہے کہ وہ کھانے کے معاملے میں بہت نخرہ کرتے تھے لیکن ان کی والدہ ان کی پسند کے کھانے بھی بناتیں۔ ’امی کے ہاتھ کا مٹرپلاؤ مجھے بہت پسند تھا اور امی رہو مچھلی بنایا کرتی تھی جو مجھے بہت پسند تھی۔"
مراد کہتے ہیں! "ان کی خوشی کا محور میں تھا۔"
بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں مراد علی نے بتایا کہ انھیں آج بھی 26 دسمبر کی وہ سرد صبح یاد ہے جب ان کی والدہ ایک حادثے کے باعث ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔
مراد علی کا کہنا تھا! "بارش ہو رہی تھی، امی حسب معمول تیار ہو کر آفس چلی گئیں۔ تقریباً ساڑھے نو بجے فون آیا کہ آپ کی امی کو حادثہ پیش آیا ہے آپ پمز آ جائیں۔"
مراد نے فوراً پروین شاکر کی قریبی دوست پروین قادر آغا کو فون کیا وہ بھی ہسپتال آ گئیں۔
مراد بتاتے ہیں! "اس دن بارش ہو رہی تھی اور ٹریفک سگنل کام نہیں کر رہے تھے اور بس نے ان کی کار کو ٹکر مار دی۔"
" ہسپتال پہنچنے پر مجھے بتایا گیا کہ جب انھیں (پروین شاکر کو) ہسپتال
لایا گیا تھا تو نبض چل رہی تھی لیکن پھر ان کی وفات کی خبر دی گئی۔"
پروین شاکر پاکستان میں ایک رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری کا موضوع زیادہ تر محبت اور عورت تھا۔ ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سول سروسز کا امتحان دینے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔مراد تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی والدہ پروین شاکر بہت دور اندیش تھیں۔ ’وہ کہتی تھیں مراد تُم کمپیوٹر ضرور پڑھنا، کمپیوٹر بہت ضروری ہے، آگے دنیا اسی طرف جائے گی اور ان کی یہ بات سچ ہوئی۔‘
مراد نے بتایا کہ انھوں نے ماسٹرز کمپیوٹر سائنس میں کیا ہے۔ میں سافٹ ویئر انجینئر بن گیا ہوں میں TESLA کمپنی میں کام کرتا ہوں ۔ یہ وہی کمپنی ہے جو برقی گاڑی بناتی ہے۔ وہ اگر ہوتیں تو وہ بالکل مطمئن ہوتیں کہ میں کامیاب ہو گیا ہوں اور وہ خوش ہوتیں۔"
مراد علی کا کہنا تھا کہ پروین شاکر ان سے ہمیشہ محنت کرنے کے لیے کہتیں اور وہ خود بھی انتہائی محنتی تھیں۔ "ایک چیز جو امی کی زندگی سے میں نے لی ہے وہ ہے محنت کرنا۔ مجھے انھوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نوکری کرنا میرے لیے ضروری نہیں ہے، میری کتابوں کی رائیلٹی آتی ہے وہی کافی ہے۔ میں ملازمت اس لیے کرتی ہوں کہ تم زیادہ پڑھ جاؤ اور ایک اچھے آدمی بن جاؤ۔"
"وہ کہتی تھی کہ محنت کرو گے تو کچھ بن جاؤ گے۔ محنت کے بغیر کچھ نہیں بن سکو گے۔"
"امی مصروف ہوتی تھیں، مشاعروں اور آفس کے کاموں کے بعد جو وقت بچتا تھا وہ میرے حصے میں آتا تھا اور وہی چند یادیں ہیں ان کی جو میرے پاس ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سنگل مدر ہونا بہت مشکل ہے، وہ مشاعروں میں بھی جاتیں، آفس بھی جاتیں اور گھر پر بھی ٹائم دیتیں، وہ ملٹی ٹاسکنگ کرتی تھیں، مجھے آج اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کافی محنت کرتی ہوں گی، بہت مشکل سے وقت گزارتی ہوں گی، وہ بہت ساری چیزیں ایک ساتھ کرتی تھیں، مجھے سمجھ نہیں آتا وہ کس طرح یہ مینج کرتی تھیں۔‘
مراد نے بتایا کہ امریکہ میں قیام کے دوران بھی ان کی والدہ نے مصروفیت کے باوجود ان کی خوشی کا خیال رکھا۔ ایسے ہی ایک خوشگوار واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ مسکرا دیئے-
" ہمیں دو سال ہونے کو تھے امریکہ میں رہتے ہوئے اور دس بارہ سال کے بچے کو کارٹون دیکھنے کا کتنا شوق ہوتا ہے اور امریکہ میں ہوتے ہوئے ایک جگہ جانے کا بہت دل کرتا ہے کہ ڈزنی لینڈ دیکھیں۔ مجھے بڑا افسوس ہوا تھا کہ ہم وہاں نہیں جا سکے۔ ایک دن امی نے کہا کہ ہم ایک نئی جگہ جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں تو امی نے کہا چلتے ہیں ذرا۔ پھر اگلے دن وہ مجھے ڈزنی لینڈ لے گئیں۔"
مراد کے بقول اس دن وہ اس بات پر بہت خوش تھے کہ ان کی والدہ نے ان کی خواہش کو یاد رکھا۔
مراد علی پروین شاکر کی اکلوتی اولاد تھے اور ان کی محبتوں کا مرکز بھی لیکن وہ پھر بھی انھیں خود سے دور کرنا چاہتی تھیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے مراد کا کہنا تھا کہ! "وہ مجھے کہتی تھیں کہ آپ کو بورڈنگ سکول میں ڈال دیں گے۔" پہلے جب میں چھوٹا تھا تو مجھے ایچیسن میں ڈالنا چاہتی تھی، پھر حسن ابدال کیڈٹ کالج میں ڈالنے کو کہا اور پھر لارنس کالج کی بات ہوئی۔
"میں نے ان سے کہا آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں، یہ سب اچھی جگہیں ہیں لیکن میں آپ کا اکلوتا بیٹا ہوں، میں نہیں جانا چاہتا۔"
مراد کے بقول ان کے بورڈنگ جانے سے انکار پر پروین شاکر نے ان سے ایک فرمائش کی! "انھوں نے کہا ٹھیک ہے، مجھے ایک لمبا سا خط لکھو، پھر مجھے بتاؤ کہ تم کیوں نہیں جانا چاہتے-؟"
پھر میں نے خط لکھا اور امی نے پڑھا تو کہنے لگیں کہ! " ٹھیک ہے تم نہیں جانا چاہتے، تو پھر ہمارے ساتھ ہی رہو گے۔"
"وہ مجھے نیورو سرجن بنانا چاہتی تھیں- میری تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے میری والدہ نے واضح گائیڈ لائن دے رکھی تھی۔"
"ان کا کہنا تھا کہ تم ڈاکٹر بنو اور وہ بھی نیورو سرجن، جو سخت قسم کی تعلیم ہوتی ہے، تم وہ کرو اور وہ اس پر بہت زور دیتی تھیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ! "وہ ان کی پڑھائی کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کرتی تھیں حتی کہ ایک مرتبہ نمبر کم آنے پر ان کے دوستوں کے سامنے انھیں ڈانٹ دیا تھا۔"
پروین شاکر کی ’خودکلامی‘
مراد کو اپنی والدہ پروین شاکر کی زندگی کے وہ لمحات بھی یاد ہیں جب وہ کھانے کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے شاعری کیا کرتی تھیں۔
"امی کو ٹہلنے کا بڑا شوق تھا خاص طور پر کھانے کے بعد وہ خودکلامی کرتیں، شاید وہ شعر پڑھتی تھیں یا شاید شعر دہرا رہی ہوتی تھی۔"
مراد بتاتے ہیں کہ! " وہ ان لمحوں میں سوچ رہی ہوتی تھیں۔ ’جب ان کو کوئی چیز اچھی لگتی تھی تو وہ اپنی ڈائری میں لکھ لیتی تھیں، ان کی ایک دو ڈائریاں تھیں جو نامکمل تھیں۔"
مراد علی نے بتایا کہ پروین شاکر کی یہ ادھوری شاعری مرتب کروانے کے بعد "کف آئینہ" کے نام سے شائع ہوئی۔ اپنی اس کتاب کا نام پروین شاکر پہلے ہی طے کر چکی تھیں۔
میری بیٹیاں پوچھتی ہیں دادی کیسی تھیں-؟
مراد نے اپنی والدہ کے نام کو اپنی آواز میں شامل رکھنے کے لیے اپنی بڑی بیٹی کے نام کا ایک حصہ پروین رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا! "میری دو بیٹیاں ہیں بڑی کا نام شانزے پروین علی ہے۔ وہ سات سال کی ہے۔ پروین نام میں نے امی کی نسبت سے رکھا ہے اور دوسری کا نام آریہ ہے۔"
"وہ پوچھتی ہیں اپنی دادی کے بارے میں، گھرمیں کئی جگہوں پر ان کی تصویریں میڈل وغیرہ لگے ہوئے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ یہ کون ہیں-؟ میں کہتا ہوں آپ کی دادی جان ہیں، تو اُس وقت یہ افسوس ہوتا ہے کہ امی مل نہیں سکیں، اس وقت امی کا بہت خیال آتا ہے۔"
"کاش اِس وقت وہ یہاں پر ہوتیں تو ان بچوں سے ان کا ایک تعلق ہوتا۔"
پروین شاکر کی وفات کے بعد حکومت نے مراد کی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا-
مراد علی کا کہنا تھا کہ! "امی کی جانے کے بعد بہت تنہائی محسوس کی کیونکہ میرا نہ کوئی بھائی تھا اور نہ بہن۔ ایسے میں میری خالہ اور نانی میرے پاس اسلام آباد آ کر رہنے لگیں۔"
پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کے دوستوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ وہ انھیں ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دیں۔
مراد کا کہنا تھا! "مجھے امی کے دوستوں نے مل کر پالا ہے۔ اگرچہ ماں کا کوئی نعم البدل تو نہیں ہوتا لیکن امی کے دوست میرا خاندان بن گیا اور ان کے بچے میرے کزنز۔"
مراد کے بقول پروین قادر آغا نہ صرف ان کی والدہ کی ہم نام تھیں بلکہ انھوں نے ان سے ماں جیسی محبت بھی کی۔
پروین شاکر کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے انھیں اسلام آباد میں مختلف جگہ پر سرکاری گھر ملے وفات سے قبل جو آخری مکان انھیں ملا وہ جی ٹین ٹو میں تھا۔
مراد کا کہنا تھا! "جب امی کی وفات ہوئی تو حکومت نے یہ مکان میرے پاس رہنے دیا۔ جب تک کہ میں گریجویشن کر لوں، تو یہ بڑا سہارا بنا۔"
مراد کی تعلیم کا بیڑہ بھی حکومت وقت نے اپنے ذمے اٹھا لیا۔ مراد نے بتایا
" اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے میرے لیے ماہانہ 60000 روپے وظیفہ مقرر کر دیا جو میرے لیے بہت مددگار ثابت ہوا اور میں تعلیم مکمل کر سکا۔"
اسلام آباد میں تدفین کا فیصلہ
مراد کہتے ہیں کہ! " چونکہ پروین شاکر نے اپنی زیادہ تر زندگی اسلام آباد میں گزاری اس لیے بڑوں نے اسلام آباد میں تدفین کا فیصلہ کیا جس میں وہ شامل نہیں تھے۔"
مراد علی بتاتے ہیں! " امی کی تدفین اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں کی گئی کیونکہ انھوں نے ساری زندگی یہاں پہ گزاری، ان کے دوست اور ملنے والے زیادہ تر یہاں پر تھے۔"
مراد بتاتے ہیں! " جنازے میں کافی لوگ آئے تھے، بیوروکریٹ، شاعر، ان کے آفس کے لوگ، میری نانی اور خالہ بھی کراچی سے آئی تھیں اور اس دن میرے والد صاحب بھی آگئے تھے۔"
پروین شاکرٹرسٹ
پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کے دوستوں نے مل کر پروین شاکرٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔
اس ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا ہیں۔ جو پروین شاکرکی دفتر میں سینیئر تھیں اور ان کی اچھی دوست بھی تھیں۔
پروین قادر آغا نے بتایا کے ٹرسٹ کا مقصد مراد کی پرورش تھا اور جب وہ بڑا ہو گیا تو اب اس ٹرسٹ کا مقصد پروین شاکر کی شاعری کو اجاگر کرنا ہے۔
پروین شاکر کی موت کے بعد جو ان کا مجموعہ کلام 'کف آئینہ' شائع ہوا اس میں ایک نظم نما غزل نظر آتی ہے جو ان کے بیٹے مراد کے لیے لکھی ہوئی جان پڑتی ہے۔ اس کے دو اشعار ان کے رشتے کے اظہار کے لیے کافی ہیں۔

خدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
دیار وقت سے تو شادماں گزرتا رہے

میں تجھ کو دیکھ نہ پاؤں تو کچھ ملال نہیں
کہیں بھی ہو ، تو ستارہ نشاں گزرتا

پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاح...
24/11/2024

پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے انہوں بچپن میں پروین کو کئی شعراء کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی

26 دسمبر 1994ء کو اس خبر نے ملک بھر کے ادبی حلقوں ہی نہیں عوام الناس کو بھی افسردہ اور ملول کردیا کہ ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک اندوہناک حادثے میں وفات پاگئی ہیں۔

پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کے لوحِ مزار پر انہیں کے یہ اشعار کنندہ ہیں :-

یارب میرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہُنر کو حوصلہء لب کشائی دے
شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے:-

نپولین بوناپارٹ کا یہ قول: دنیا بہت تکلیف میں ہے۔ اس لیے نہیں کہ برے لوگوں کا تشدد۔ لیکن اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے۔...
20/11/2024

نپولین بوناپارٹ کا یہ قول: دنیا بہت تکلیف میں ہے۔ اس لیے نہیں کہ برے لوگوں کا تشدد۔ لیکن اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے۔
یہ نپولین بوناپارٹ کا ایک بہت ہی مشہور اور گہرا معنی رکھنے والا قول ہے۔ اس میں نپولین نے ایک اہم سچائی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا میں جو برائیاں ہوتی ہیں، ان کی سب سے بڑی وجہ صرف برے لوگ نہیں ہوتے بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی بھی ہوتی ہے۔
اس قول کی وضاحت:
* برے لوگ اور ان کا تشدد: نپولین کا کہنا ہے کہ برے لوگ ضرور تشدد کرتے ہیں اور برائیاں پھیلاتے ہیں لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔
* اچھے لوگوں کی خاموشی: زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اچھے لوگ جب برائی کو دیکھتے ہیں اور اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، خاموش رہتے ہیں تو یہ برائی پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔
* خاموشی کی وجہ سے برائی کا پھیلاؤ: جب اچھے لوگ خاموش رہتے ہیں تو برے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اعمال درست ہیں اور وہ بے روک ٹوک برائیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔
* سماج کی ذمہ داری: نپولین کے مطابق ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ برائی کے خلاف آواز اٹھائے اور اچھا کام کرے۔
* تغییر لانے کی اہمیت: اگر ہم دنیا میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف برے لوگوں کو روکنا نہیں بلکہ خود کو بھی اچھے کاموں کے لیے آگے بڑھانا ہوگا۔
اس قول کی اہمیت:
* آج کی دنیا کے لیے بھی relevant: یہ قول آج کی دنیا کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ ہماری دنیا میں بھی بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں جن کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔
* ہر فرد کی ذمہ داری: یہ قول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اردگرد پھیلی برائی کے خلاف آواز اٹھائے۔
* سماج میں مثبت تبدیلی: اگر ہم سب مل کر برائی کے خلاف آواز اٹھائیں تو ہم سماج میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔
نتیجہ:
نپولین بوناپارٹ کا یہ قول ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا میں برائی کو ختم کرنے کے لیے صرف برے لوگوں کو روکنا کافی نہیں بلکہ ہمیں خود کو بھی اچھے کاموں کے لیے آگے بڑھانا ہوگا۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اردگرد پھیلی برائی کے خلاف آواز اٹھائے اور سماج میں مثبت تبدیلی لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
آپ کے لیے مزید معلومات:
* نپولین بوناپارٹ ایک فرانسیسی فوجی اور سیاستدان تھے جنہوں نے 1804 سے 1814 تک فرانس پر حکومت کی۔
* انہیں تاریخ کا ایک بہت ہی اہم اور متنازعہ شخصیت سمجھا جاتا ہے

Address

Kanda Ghar Faqeer Killy
Mardan

Telephone

+923179970041

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tariq Khan Yousafzai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Tariq Khan Yousafzai:

Share