31/12/2020
1948 میں بھارت نے پاکستان کو واجب الاد 500 ملین ڈالر دینے سے انکار کردیا"
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے کے
پاکستان 14 اگست 1947 میں حقیقت کا روپ دھار کر دنیا کے نقشے پر ابھرا- وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانان ہند نے جس کٹھن اور طویل سفر کا آغاز کیا تھا وہ بالآخر تمام ہوا- انگریز اور ہندو جیسے چال پوس قوم بھی تقسیم ہند کے حق میں نہیں تھی-برطانوی وزیراعظم لارڈ اٹیلی نے کہا تھا" کہ ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں ہم آج الگ کر رہے ہیں ایک دن پھر مل کر ایک ہو جائیں گی-
ہندو مسلمانوں کے لئے دل میں بغض رکھتے تھے- وہ کبھی نہیں چاہتے تھے ٫کہ مسلمان کبھی بھی اپنی الگ ریاست بنانے میں کامیاب ہوں- ہندوستان پر ہمیشہ سے مسلم حکمرانوں کا تسلط قائم رہا تھا اور یہ بات ان کو خنجر کی طرح چبھتی تھی- انگریزوں کی چال پوسی کے ذریعے ان کے پاس سنہری موقع تھا ہندوستان پر خاص کر مسلمانوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کا- قائد اعظم اور علامہ اقبال کی زیرک نگاہوں نے بخوبی جان لیا تھا کہ ہندو صرف ہندوؤں کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں- ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمان اپنی الگ پہچان کو رہے تھے اور بہت سی ہندو روسمات مسلمانوں میں ضم ہو چکی تھی- یہ لمحہ فکریہ تھا مسلم حکمرانوں کے لئے اگر وقت پر کچھ نہ کیا گیا تو مسلمان صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے-
اس لئے قائد اعظم اور دیگر مسلم حکمرانوں کی سربراہی میں مسلمانان ہند الگ ریاست کے لیے سر توڑ کوششیں کرنے لگے اور یہ بات ہندو سامراج کے لئے ہضم کرنا مشکل تھی- یہی وجہ ہے ان کی سر توڑ کوششیں اور دیگر رکاوٹوں کے باوجود مسلمانوں کی محنت رنگ لائی اور پاکستان معرض وجود میں آ گیا- بھارت نے پاکستان کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا- اور اس کے لیے مشکلات بڑھاتا رہا تھا- انگریزوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ابتدا ہی سے پاکستان کے لیے لاتعداد مسائل کھڑے کر دیے- تاکہ یہ ملک اپنی آزادی برقرار نہ رکھ سکے اور پاکستان ایک بار پھر ہندوستان کا حصہ بن جائے- ہندوؤں نے ساری دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی٫ کہ یہ نوازئیدہ مملکت چند ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے گا- کانگریس کے صدر اچاریا کربلا نی نے تقسیم ہند پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
" کانگریس کا نصب العین متحدہ ہندوستان تھا اور اب بھی پرامن ذرائع سے اس کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے گی گی"
پنڈت نہرو نے کہا" ہماری یہ سکیم ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنا لینے دیں- اس کے بعد معاشی طور پر یا دوسرے ذرائع سے ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں جن سے مجبور ہو کر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کریں- ہمیں پھر سے ہندوستان میں شامل کر لیجیے"-
اس قسم کے بیانات سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی اور بزدلی پیدا کرنے کی کوشش کی -مگر پاکستانی قوم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عظیم قائد کی رہنمائی میں تعمیر وطن کے لئے مصروف عمل ہو گئے -
ہم رقص کرنے والے ہیں زندگی کے ساتھ
وہ اور تھے جو گردش دوراں سے ڈر گئے
فوجی تقسیم ہو یا فوجی اثاثوں کی٫ انتظامی مسئلہ ہو یا آئین سازی کا٫ دریائے پانی کا مسئلہ ہو یا ریاستوں کے الحاق کا ٫معاشی تقسیم ہو یا جغرافیائی غرض ہر طرح سے بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری رکھی- اس سلسلے کی ایک کڑی ریزرو بینک بھی تھا- جو متحدہ ہندوستان کا مرکزی بینک تھا- جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو متحدہ ہندوستان کے مرکزی بینک میں 4ارب ( چار بلین) جمع تھے-تناسب کے لحاظ سے ان میں سے 75 کروڑ یعنی 750 ملین روپے پاکستان کو ملنا چاہیے تھے -بھارت پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے یہ اثاثے دینے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتا رہا -باآخر پاکستان کے مسلسل مطالبے پر اور بین الاقوامی ساکھ قائم رکھنے کے لیے اس نے پاکستان کو 20 کروڑ روپے دیے- باقی اثاثوں کی ادائیگی کے لیے بھارتی وزیر سردار پیٹل نے یہ شرط لگائی - کہ پاکستان کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرے- اس سودے بازی کے لیے پاکستان کیسے آمادہ ہو سکتا تھا ؟آخر بین الاقوامی شرمندگی سے بچنے کے لیے گاندھی کے کہنے پر بھارتی حکومت نے مزید 50 کروڑ روپے کی ایک قسط پاکستان کے حوالے کر دی باقی پانچ کروڑ کی ادائیگی کیلئے نومبر 1947 میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس ہوا -اس میں ادائیگی کے لیے معاہدے کی توثیق بھی ہو گئی- لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا-
اس کے بجائے بھارت نے متحدہ ہندوستان پر بیرونی قرضہ جات کا بیس فیصد بھی پاکستان کے ذمے ڈال دیا- جو دہلی کے اجلاس کی گفت شنید کے بعد ساڑھے 17 فیصد کر دیا گیا -
بھارت کی ان سب چالاکیوں کے باوجود پاکستان آج ایک الگ مضبوط ریاست کے طور پر بہت سے کمزور اسلامی ریاستوں کی امیدوں کا مرکز ہے- اللہ تعالی کے فضل و کرم اور مسلمانوں کے جذبہ اور ہمت نے بہت جلد مشکلات پر قابو پا لیا تھا- تاریخ نے دیکھا کہ جس ملک کے دریا اور سرزمین کے اہم حصے بھارت کو دے دیے گئے, جس کے اثاثوں کو جی بھر کر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور جس کی فوجی طاقت کو ناکارہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی٫ جس کو لاوارث قرار دے دیا گیا تھا -اس نے نہایت قلیل مدت٫ محدود ذرائع اور بفضل خدا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا-
انگریز صعبرایان سٹفیز رقمدراز ہے
"پاکستان کے ابتدائی دنوں میں بیرونی دنیا سے آنے والوں کو کوئی چیز اس سے زیادہ متاثر نہ کر سکی- جتنا پاکستانی قوم کا جدوجہد کا انداز٫ جو وہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اختیار کیے ہوئے تھی"-
سر جھکا مولا کے آگے ہے وہی مشکل کشا
کفر کی دہلیز پہ سجدوں کی عادت چھوڑ دے
دشمن تو آج بھی ہماری صفوں میں چھپا بیٹھا ہے- نسل در نسل آج بھی بھارتی قوم پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہے- دکھ تو یہ ہے ٫جن کے بزرگوں نے قربانیاں دیں- ان کی نسل آج سب کچھ بھلا کر ان فرسودہ اور نگ روایات کو اپنا رہی ہے جو دشمن چاہتا تھا- دشمن آج بھی پاکستان سے اتنی ھی نفرت کرتا ہے -بس اس دفعہ چال بدل کر میدان میں اترا ہے- افسوس صد افسوس چند دنیاوی خواہشوں کی تکمیل کے لئے٫ دنیاوی عیش و آرام کے لئے آج ہمارے اپنے ہی ان کے ساتھ الحاق کر چکے ہیں- اپنے ذاتی مفادات کے لیے مادر ملت کو داؤ پر لگا دیا ہے-
کیا کریں ظلمت حالات کا شکوہ کے سعود!
ہم نے اندر کے اندھیروں کی سزا پائی ہے
پاکستانی قوم کا وہ ایمان افروز جذبہ ناپید تو نہیں ہوا پر شاید وقت کی دھول میں کہیں کھو ضرور گیا ہے- اب ٹیکنالوجی کا جدید دور ہے فائیو وار جنریشن کا زمانہ ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قوم کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کروا کر مثبت طریقے سے عمل میں لائںں اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔
اللہ تعالی اس ملک خداداد کو اپنے حفظ و امان میں رکھے -اسے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا کرے اور صفوں میں چھپے دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے یہاں جو بھی پھول کھلے
وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
تحریر اقدس مختار ساہی