قلم و ورق رائٹرز فورم منڈی بہاؤالدین

قلم و ورق رائٹرز فورم منڈی بہاؤالدین آواز اٹھاو ورنہ گونگے بہروں میں شامل ہو جاو گے

06/07/2022

کل جب یہ ابصار عالم اسد طور حامد میر پر حملے ہوئے تو یہ صاحب بتاتے تھے کہ لڑکی کے بھائیوں نے مارا ھے یا یہ سب ڈرامہ ھے

لیکن آج بہت سے دوستوں کو حقیقی خوشی محسوس ہو رھی ھے
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سے تراشے بت نہ صرف بولنے لگے بلکہ تخلیق کاروں کے گریبانوں سے کھیلنے بھی لگے

مالکان کی اس عزت افزائی پر مجھے تاریک راھوں میں مارے گئے وہ زمین زادے یاد آرھے ہیں
جو جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کے دوران مارشل لاوں کا رزق ہوئے پھانسی چڑھے کوڑے کھائے قیدیں کاٹیں
بے رحمانہ تشدد سہا

انہی مالکان نے ایک نسل تیار کی
اس نسل سے ہر شخص کو گالی دلوائی گستاخ اور غدار کہلوایا آج وہی نسل بھرے چوکوں میں ان کے کپڑے اتار رہی ھے
اے خودساختہ مالکو اور مجاورو
ہن مزے لو پتلی تماشے دے

28/07/2021

کمشنر کا کتا۔۔۔
گزشتہ روز گوجرانوالہ ڈویژن میں دو اہم واقعات ہوئے ۔۔
پہلا واقعہ :ضلع منڈی بہاؤالدین کے گاؤں چوٹ دھیراں کے قریب خاندانی دشنمی میں چار افراد مخالفین کی فائرنگ سے قتل ہوئے ۔۔
یہ ہمارے ضلع کے حساب سے ایک معمول کا واقعہ ہے ۔۔ کیونکہ یہاں روزانہ فائرنگ کے واقعات میں لوگ قتل ہوتے ہیں ۔ خاندانی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ جب کوئی قتل ہوتا ہے تو ایک بار سب کے کان کھڑے ہوتے ہیں پھر حسب معمول سیرن گیتی کے جنگلوں میں چرنے والے جانوروں کی طرح سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں
یہ قتل و غارت کا سلسلہ پچھلے تین چار سال سے شدت اختیار کرچکا ہے ۔ اگر ہم پچھلے تین چار ماہ کا ریکارڈ اٹھا کے دیکھیں تو ہمارے ضلع میں چالیس کے قریب قتل کے واقعات ہوئے ہیں ۔ اتنی اموات ہمارے ضلع میں کرونا سے نہیں ہوئی ۔۔۔ جس پہ حکومت اربوں روپے لگا رہی ہے ۔۔
اگر ہم اپنے ضلع کے لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کریں تو مجھے تین طرح کے محرکات نظر آتے ہیں ۔۔
پہلا محرک لوگوں کے پاس ناجائز اسلحہ ہونا ہے ۔۔ ہمارے ( سابقہ علاقہ غیر) کے بہت سے خاندان ضلع منڈی بہاؤالدین میں آباد ہیں ۔ یہاں کے مقامی بااثر لوگوں نے علاقہ غیر کے لوگوں کے ساتھ مل کر اسلحہ ڈیلرز شاپ بنائیں ۔۔ پھر عوام کو اسلحہ فروخت کیا۔۔۔یقینا تمام اسلحہ خریداروں نے اسلحہ لائسنس کے لئے درخواست دے رکھی ہو گی لیکن آگے ہمارے سرکاری اہلکار ہیں جنہوں نے اسلحہ لائسنس بھاری رشوت کے عوض ہر کس و ناکس کو جاری کرنے ہوتے ہیں ۔۔ جو جتنا گڑھ ڈالے اتنا ہی اس کو اتنا ہی میٹھا ملتا ہے ۔۔ پھر جن لوگوں کو اسلحہ لائسنس نہیں ملتا وہ ناجائز اسلحہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں ۔ خاص طور پر جنہوں نے قتل کی واردات کرنی ہوتی ہے وہ لائسنسی اسلحہ استعمال نہیں کرتے ۔
چونکہ اسلحہ ہر جگہ دستیاب ہے اس لئے کوئی بھی پانچ دس ہزار میں خرید لیتا ہے ۔
دوسرا محرک ہمارے وہ نوجوان جو آج سے پندرہ بیس سال پہلے ڈنکی لگا کر یورپ چلے گئے ۔ وہاں سے انہوں نے بے تحاشہ پیسہ بھیجا ۔۔ ان کے لواحقین نے پہلے تو لمبی چوڑی زمینیں خریدیں کاروبار بنائے جائدادیں بنائیں بڑے بڑے دارے بنائے ۔۔ اور اپنی چوہدھراہٹ قائم کی ۔۔ سرکاری اہلکار اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے سلامیاں دینے لگے ۔۔ ان کے بچوں نے اس چیز کا فائدہ اٹھایا اور غلط راستہ اختیار کیا۔۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک بڑے صاحب کے چودہ پندرہ سالہ بچے کا گاڑی چلاتے ہوئے ہمارے شہر میں چالان ہوگیا تھا۔۔۔ اس کے والد نے پولیس پہ ڈکیتی کا کیس بنایا مقامی صحافیوں نے بھرپور ساتھ دیا ، اخباروں کہ شہہ سرخیوں میں اس جھوٹی خبر کو چھاپا اور ایک چھوٹے سے ناجائز کام کو اس طرح جائز بنا دیا کہ پنجاب پولیس جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہاتھی سے بیان دلوا لیتے ہیں کہ وہ ہرن ہے ان کو یہ بات ماننا پڑی کہ اس بچے کا کم عمری میں گاڑی چلانا جائز تھا۔
اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں لیکن پولیس کے ملازمین جو زیادہ تر مڈل کلاس سے ہیں انہوں نے بجائے اس کے کہ قانون پر عمل کرکے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کردیا۔۔ چھوٹے بچوں کو گاڑیاں/ موٹر سائیکل چلانے سے لیکر ہر طرح کا اسلحہ لیکر گھومنے کی آزادی مل گئی ۔۔ ایک پرائیویٹ سکول میں واقعہ ہوا کہ بچے نے لڑائی ہونے پر موبائل فون سے اپنے ڈیرے سے کمک منگوا لی ۔۔ دیوار کے باہر سے پستول سکول کی چاردیواری کے اندر پھینکا گیا اور اس بچے نے تین چار فائر کئے لیکن گارڈ کی بروقت کاروائی سے جانی نقصان نہ ہوا۔۔۔
گزشتہ دنوں حمزہ علی نے کالم لکھا تھا کہ ہمارے کالجز میں طلبہ کے گروپ ہیں اور ان کا صدر وہ ہوتا ہے جس نے سب سے زیادہ لڑائیوں میں حصہ لیا ہو۔۔ یعنی باقاعدہ گاؤں کی سطح پر طلبہ کے گینگ بن چکے ہیں ۔
جب ان کی لڑائیاں شدت اختیار کرتی ہیں تو ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے ہیں ۔ اگر کسی کا بچہ مرجائے تو ملزم اپنا سارا کچھ جھونک دیتا ہے ہر طرح کا سیاسی اور انتظامی دباؤ ڈلوا کر بچہ ضمانت پہ رہا کرواتا ہے اور ملک سے باہر بھیج دیتا ہے ۔۔ دوسری پارٹی جوابی کاروائی میں مخالف پارٹی کا بندہ مار دیتی ہے اور وہ بھی ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔۔ جب کہ ادارے صرف رپورٹیں تیار کرتے رہتے ہیں
ہمارے ضلع میں ہر ضلع کی طرح بہت بڑے بڑے سرکاری افسران ہیں ۔ سیکرٹری سے لیکر ڈی آئی جیز تک افسران ہیں ۔ ہر افسر کا رشتے دار بڑا سیاستدان ہے ۔ یہ سیاستدان اپنے خاندان کے بڑے سرکاری افسر سے ضلع کی سطح کے افسران کو ہر طرح کے احکامات جاری کرواتے ہیں ۔۔ پھر ہمارے قوانین میں بہت ساری گنجائشیں پیدا کرنے کے لئے وکلاء حضرات کے ہراول دستے کسی بھی بڑے سے بڑے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔۔۔
تیسرا بڑا محرک قانون کا لچکدار ہونا ہے ۔ انصاف کی جلد فراہمی میں ناکامی ہونا ہے ۔۔ پچھلے تیس چالیس سے ہمارے عوام جان چکے ہیں کہ تھانے کچہری اور عدالت جانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ انصاف نہیں ملنا ۔ ۔۔
البتہ مجرم پارٹی کو یقین ہوتا ہے کہ ہم انصاف کا بھی قتل کردیں گے اس لئے وہ فوری طور پر عدالتوں اور تھانوں کا رخ کرتے ہیں ۔کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ سب کچھ خریدا جاسکتا ہے ۔۔ میں نے ایک دو قتل کی وارداتوں کے بارے میں پڑھا اور سنا تھا ( جو ہمارے ضلع میں ہوئی تھیں ) کہ مجرم واردات سے پہلے کسی تھانے میں جھوٹا پرچہ کروا کے خود کو بند کروا لیتا ہے یا ملک سے باہر چلا جاتا ہے ۔ اس کے تھانے میں بند ہونے کے ایک دو ہفتوں کے اندر اندر اس کے لواحقین مخالف پارٹی کا بندہ قتل کروا دیتے ہیں ۔۔ ایک طریقہ جعلی پولیس مقابلے کا بھی ہے ۔ دو سال پہلے چار پانچ واقعات ایسے ہوئے جن پہ جعلی پولیس مقابلے کا الزام لگایا گیا
جب مدعی پارٹی کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ بلکہ پورے پاکستان میں اس بات کا ہر مدعی کو یقین ہوتا ہے کہ ہمیں عدالت سے انصاف نہیں ملنا تو پھر کچھ لوگ جو طاقت رکھتے ہیں جیسے ہمارے ضلع کے لوگ وہ قانون کو ایک سائیڈ پہ رکھتے ہیں اور انتقامی کاروائی پہ اتر آتے ہیں ۔۔ دو سال پہلے سردیوں میں کٹھیالہ شیخاں کا ایک نوجوان ست سرا چوک میں اپنے ساتھی کے ساتھ قتل ہوا تھا ۔۔ اس نوجوان کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ اس نے اپنے بھائی یا والد کو قتل کرنے والے شخص کو سرگودھا روڈ پہ قتل کیا تھا اور اس کے منہ پہ اتنے برسٹ مارے تھے کہ اس کا چہرہ مسخ ہوگیا تھا۔ قتل کے بعد وہ یورپ بھاگ گیا۔۔۔ لیکن جب بھی واپس آیا وہ مخالفین کی بھینٹ چڑھ گیا۔۔ اب اس نوجوان کے لواحقین بدلہ لیں گے ۔۔۔

ہمارے پاس اس مسلے کا کوئی حل نہیں ۔۔
کیونکہ عوام جاہل ہیں
قانون نافذ کرنے والے ادارے انصاف فراہم کرنے میں بہت تاخیر کرتے ہیں ۔
پیسہ بہت ہے عوام کے پاس
اور اسلحہ بھی بہت ہے ۔
۔
دوسرا اہم واقعہ گوجرانوالہ کے کمشنر کے کتے کی گمشدگی کا ہے ۔۔ جس طرح کالونیل دور کے اہلکار کے کتے کی تلاش کے لئے پولیس اور بلدیہ حرکت میں آئی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔۔حالانکہ اس طرح مجرم تلاش کرنے چاہیے تھے ۔ اگر گوجرانولہ شہر میں دھشت گرد چھپے ہوتے یا ہندوستانی جاسوس چھپے ہوتے تو ان کے لئے بھی شاید اس طرح سرکاری ذرائع کا استعمال نہ ہوتا۔۔۔
ان دونوں واقعات کو دیکھنے کے بعد صرف اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک میں ہر گاؤں کی سطح پر پنچائت سسٹم نافذ کیا جائے اور تمام اختیارات پنچائت کو دے دیے جائیں ۔۔
تھانے ختم کردیے ہیں
موجودہ عدالتی نظام کی قطعاَ ضرورت نہیں
انگریز کی آمد سے پہلے ہمارا پنچائت سسٹم تھا اور صدیوں سے چل رہا تھا۔۔ ہم آج بھی اسی سسٹم کو بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں ۔
تحریر افتخار احمد

21/05/2021

شیر اور شارک دونوں شکاری ہیں لیکن شیر سمندر میں شکار نہیں کرسکتا اور شارک خشکی پر شکار نہیں کر سکتی۔
شیر کو سمندر میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا اور شارک کو جنگل میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا۔
دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں جہاں وہ بہترین ہیں۔
اگر گلاب کی خوشبو ٹماٹر سے اچھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کھانا تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایک شے کا موازنہ دوسرے کے ساتھ نہ کریں۔
آپ کی اپنی ایک طاقت ہے اسے تلاش کریں اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں۔
کبھی خود کو کم تر نہ محسوس کریں بلکہ ہمیشہ خود سے اچھی اُمیدیں وابستہ رکھیں۔
یاد رکھیں ٹوٹا ہوا رنگین قلم بھی رنگ بھرنے کے قابل ہوتا ہے۔
خود کو ہمیشہ بہتر اور تعمیری کاموں میں مصروف رکھیں ۔
*وقت کا بدترین استعمال اسے خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں ضائع کرنا ہے*
مویشی گھاس کھانے سے موٹے تازے ہو جاتے ہیں جبکہ یہی گھاس اگر درندے کھانے لگ جائیں تو وہ اسکی وجہ سے مر سکتے ہیں۔
*کبھی بھی اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں اپنی دوڑ اپنی رفتار سے مکمل کریں ۔*
جو طریقہ کسی اور کی کامیابی کی وجہ بنا، ضروری نہیں کہ آپ کیلئے بھی سازگار ہو۔
خُدا کے عطاء کردہ تحفوں نعمتوں اور صلاحیتوں پر نظر رکھیں
اور اُن تحفوں سے حسد کرنے سے باز رہیں جو خُدا نے دوسروں کو دیے ہیں۔اللہ رب کریم نے آپ کو بھی بہت صلاحیتوں سے نوازا ُانہیں تلاش کر کے بروئے کار لائیں ۔

*خوش رہیں سلامت رہیں.*منقول

04/02/2021

الیگزینڈرپوپ۔۔۔اٹھاوریں صدی کانمائندہ شاعر
تحریر۔۔۔۔وقاراحمد ملک

الیگزینڈر پوپ کے والد کانام بھی الیگزینڈرپوپ تھا جو اپنے دور کا سوتی کپڑے کا مشہور تاجراور کیتھولک مذہب کا پیروکارتھا۔ پوپ کی پیدائش 1688 میں برطانیہ کے شہر لندن میں ہوئی۔ اس کا شمار ان گنے چنے ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک عہد کی بنیاد رکھی اور وہ عہد ان کے اپنے نام ہی سے مشہور ہو گیا۔ یہ الیگزینڈر پوپ ہی ہے جس کے نام پر اٹھارویں صدی کے پہلے نصف کو Age of Pope کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انگریزی ادب میں اٹھارویں صدی کو ادب کا کلاسیکی دور کہا جاتا ہے۔ اور اسی بنیاد پر الیگزینڈر پوپ کو کلاسیکیت کا شہزادہ بولا گیا ہے۔ الیگزینڈر پوپ کی ظاہری اور جسمانی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی پرکشش پہلو نظر نہیں آتا۔ وہ سدا کا روگی بیمار انسان تھا۔ پست قامت پوپ اکثر شدید سردرد کا شکار رہتا۔ اسی سردرد کے باعث وہ اپنی زندگی کو ایک طویل بیماری کہا کرتا۔ ٹی بی کی بیماری نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا اور وہ کبڑے پن کا شکار ہو گیا۔ ادبی لڑائیوں میں اس کے نقاد اکثر اس کی کبڑی پیٹھ کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ ادب کا طالب علم یہ جان کر حیران ہو گا کہ اس دور میں پوپ کو طنزیہ طور پر کبڑی مینڈک کے نام سے بھی پکارا جاتا۔ پوپ کو دمے کا مرض بھی تھا جو اکثر اس کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتا۔ ساڑھے چار فٹ قد کے حامل اس شاعر کو بیٹھنے کے لیے ریڑھ کو ہڈی کو سہارا دینا پڑتا جس کے لیے وہ سخت کینوس کا کمر بند استعمال کرتا تھا۔
جسمانی معذوری تو تھی ہی سہی کیتھولک مذہب نے اس کو معاشرتی طور بھی پریشان کیے رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ میں کیتھولک مذہب کے پیروکار شدید دباؤ اور پابندیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ کیتھولکس کو نہ تو یونیورسٹیوں میں داخلہ ملتا تھا اور نہ ہی وہ سرکاری ملازمت کے اہل سمجھے جاتے تھے۔ ان پابندیوں اور مجبوریوں کے تحت پوپ باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ پوپ کی ایک آنٹی نے اس کو گھر پر ہی پڑھنا سکھایا۔ لاطینی اور یونانی اس نے ایک پادری سے سیکھی۔ بعد ازاں اس نے فرانسیسی اور اطالوی شاعری کا علم بھی حاصل کیا۔بچپن سے ہی مطالعہ اس کا مشغلہ بنا رہا۔ وہ اپنے والد کی ایک مختصر سی لائبریری میں کتب بینی میں زیادہ وقت صرف کیا کرتا۔
لٹ کا کٹ جانا(RAPE OF THE LOCK) پوپ کی شاہکار نظم ہے۔ ہلکے پھلکے موضوع پر لکھی ہوئی اس نظم کو موک ایپک کا نام دیا گیا جو انگریزی ادب کی ایک معروف صنف ہے۔ اس نظم میں اٹھارویں صدی کے لندن شہر کی خامیوں کو کھول کے بیان کیا گیا ہے۔ خاص کر اس عہد کی اشرافیہ کی خواتین کو تو اس نے نشانے پہ رکھا۔ پوپ کے کارنامے تخلیق کے ساتھ ساتھ ترجمے کے میدان میں بھی نمایاں ہیں۔ پوپ نے مشہورِ زمانہ یونانی شاعر ہومر کی ایپک نظموں ILLIAD اور ODYSSEYکا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کے مشکل پن کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوپ کو اس کام پر گیارہ سال لگ گئے۔
پوپ کا انتقال تیس مئی 1744 کو ہوا۔ رومانوی ہوائیں چلنے کی بنا پر اس کے انتقال کے بعد اس کی شاعری کو متروک سمجھا گیا۔ لیکن بیسویں صدی کے نقادوں نے پوپ کے بارے میں مثبت فیصلہ صادر کر کے اس کو انگریز نسل کا ایک اہم اور معتبر شاعر تسلیم کر لیا۔

31/01/2021

======🌴=====

*اپنی حدیں پہچانیں*
✒️اقدس مختار ساہی
*****

میں اس واقعہ پر بات نہ کرتی لیکن میرا خیال ہے کہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہم چند باتوں کو ڈسکس کر کے ایک دوسرے کو اچھی نصیحت کرنا شروع کر دیں۔

نواب ٹاون لاہور میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی۔ بعد از تفتیش سے بہت سی باتیں سامنے آئیں۔ میں کسی بھی صورت خبر کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی، آپ یقیناً اس خبر کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم ان والدین کے بارے میں سوچیں جن پر قیامت گزر گئی۔اس باپ اور ماں کے بارے میں سوچیں کہ جن کی جوان اولاد ایسے لاوارث لاشوں کی صورت میں ملتی ہے۔ جو ہنس بول رہے ہوتے ہیں اور انہیں ایک فون کال آتی ہے کہ آ کر شناخت کر لیں۔ جن کا اولاد سے رابطہ نہیں ہو رہا ہوتا اور ان کے دل دہل رہے ہوتے ہیں۔ دعائیں مانگ مانگ کر ان کی زبانیں خشک ہو جاتی ہیں کہ سب خیریت ہو۔

میں ایک بات چاہتی ہوں اور میں سب لڑکیوں سے چاہتی ہوں کہ جو جو یہ پوسٹ پڑھے وہ رکے اور سوچے، ضرور سوچے کہ دنیا کا سب سے بڑا غم اولاد کی موت کا غم ہے، جو والدین سہتے ہیں۔ جنہوں نے پالا پوسا، کھلایا، پلایا، ان کی جانوں پر رحم کریں۔ آپ جو گھروں سے باہر ہیں، جو ہوسٹلوں میں ہیں، جو دوسرے شہروں میں پڑھ رہی ہیں، پلیز عقل سے کام لیا کریں۔ زمانے کی سوجھ بوجھ رکھیں۔

کیوں ان بے چاری جانوں کو خوں کے آنسو رلانا چاہتی ہیں؟؟؟
کیوں ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دینا چاہتی ہیں؟؟؟

اس سے بڑا سانحہ ایک گھرانے کے لیے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ میں کسی کو بھی الزام نہیں دے رہی، میں سمجھ بوجھ، اور عقل سے کام لینے کا پرزور مشورہ دے رہی ہوں۔ میں آنکھیں کھول کر رکھنے کے لیے کہہ رہی ہوں۔ میں محبت یا دوستی کے تعلق میں جذباتی ہو کر بہہ جانے سے روکنا چاہ رہی ہوں۔ میں والدین کو اعتماد میں لے کر سب شیئر کرنے کے لیے کہہ رہی ہوں۔ میں بہن بھائیوں کو حقیقت حال سے باخبر رکھنے کے لیے کہہ رہی ہوں۔

آپ کو کسی نہ کسی سے مشورہ ضرور کرتے رہنا ہے۔ کسی نہ کسی سے راز ضرور شیئر کرنے ہیں۔ کوئی بھی قدم اٹھائیں، سمجھ بوجھ کر، کسی سے شیئر کر کے، اس کی نصیحت پر عمل کر کے اٹھائیں۔ سب سے بڑھ کر اپنے والدین کو نظر میں رکھ کر قدم اٹھایا کریں۔ کوئی غلطی ہو گئی ہے تو والدین سے شیئر کریں، کسی دوست سے بات کریں۔ لیکن اکیلے ہی سارا بوجھ اپنے شانوں پر نہ لاد لیں۔

مجھے ان لڑکوں سے بھی شکایت ہے کہ جوکلاس فیلوز ہوتے ہیں، سرکل میں ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں لیکن نقصان سے محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ اس ایک انسان کو بچانے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ مجھے ان لڑکیوں سے شکایت ہے جو گوسپ کرتی ہیں، لیکن سنجیدگی سے سمجھاتی نہیں ہیں۔ مجھے ہر اس لڑکی سے بھی شکایت ہے کہ جو دوسروں کے مشوروں کو اپنی ضد یا جذباتی پن میں شانے اچکا کر اگنور کر دیتی ہے۔ جو خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔ جو یہ سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ کبھی دھوکا نہیں ہو گا۔ اسے تو سچی محبت نصیب ہے۔

یہ نادانی، یہ معصومیت یا بے وقوفی

بعد میں لڑکی کے کردار کو اچھال کر کیا کرنا ہے، ایک بندہ تو دنیا سے گیا ناں۔اس کے خاندان کی تو دنیا ہی بدل گئی۔

عقل سے کام لیا کریں، جذباتی ہونے میں اتنی جلدی کیوں؟؟؟

ایک ہی بندہ سچا لگتا ہے۔ باقی سب برے لگتے ہیں، جھوٹے لگتے ہیں۔ ہم ہر روز ایسے واقعات سن رہے ہیں، پھر بھی یہ واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کس لیے؟ ہمیں آزادی اور آزادی کے درست استعمال میں فرق سیکھنا ہو گا۔ہمیں ہماری حدیں معلوم ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمیں نقصانات کا ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کیا کرنے سے کیا کیا ہو سکتا ہے۔

مجھے اس سلسلے میں مزید چند چیزوں کی طرف توجہ دلانی ہے۔ کہ ہم سب کو یہ کرنا چاہیے تھا سے نکل کر اب یہ ہونا چاہیے، یا یہ کرنا چاہیے کو ڈسکس کرنا ہے۔

ہماری فیڈ بیک میں تلخی ہے،ہماری فیڈ بیک میں بلیم ہے،ہماری فیڈ بیک میں مرد و عورت کی تکرار بھی ہے۔اور یہ چیزیں کبھی بھی مسلہ حل نہیں کریں گی۔ہم آگ کو آگ سے نہیں بجھا سکتے۔ ہمیں خود کو پانی کرنا ہو گا۔

گمراہی کا راستہ، یا نقصان کا راستہ بے شک ہر بندے کی اپنی چوائس ہوتاہے لیکن خود سے پوچھیں کہ کیا ہم سب زندگی کے بہت سے معاملات میں گمراہ نہیں تھے؟؟؟یا گمراہ نہیں ہیں؟؟؟

کیا ہم نے نمازوں کی اہمیت کو ان علماء کی مسلسل تبلیغ سے اہم نہیں جانا، جو بار بار نصیحتیں کرتے رہے۔اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ ان سب نے مسلسل اسلام کی تشریح کی کہ ہم سمجھ جائیں۔ دین کو پا لیں۔یہ جو سمجھانا ہے یہ مسلسل ہی ہونا چاہیے۔ ایسا مت کہیں کہ انہیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ نہیں سمجھتے۔ ہم آج بھی ضدی ہیں، ہم آج بھی اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں، تو کیا پھر سے کوئی نہیں اٹھتا اور ہمیں ہدایت کا پیغام دیتا؟؟؟

قرآن کہتا ہے کہ وہ اچھے لوگ ہیں جو اچھی باتیں اور نصیحتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ وہ جو نصیحتیں کرتے تھے اس پر کسی نے عمل نہیں کیا۔ یا وہ لوگ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ تم اپنا کام کرو۔ ناکامی، کامیابی نہ دیکھو۔

ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آج کی نسل کسی کی نہیں سنتی۔میں یہ کہتی ہوں کہ یہ نسل ہی کیا، ہم بذات انسان اللہ کی نہیں سنتے تو باقی سب کا کیا کہنا۔ کیا رب نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا؟؟؟

کیا اس نے ہدایت دینی شروع نہیں کی۔ ہم سب کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ایسے ہیں کہ ہمیں مسلسل ہدایت کی ضرورت رہتی ہے۔ ہم سب گناہ کرتے ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، لیکن ہمارے اعمال پر پردے ہیں۔ اور یہ پردے اللہ نے ڈالے ہیں۔ اور جن کے اعمال سے کسی نہ کسی وجہ سے پردے اٹھ چکے ہیں، وہ شاید ہماری آزمائش کے لیے ہیں کہ دوسروں کے اعمال پر ہم کیسے ری ایکٹ کرتے ہیں۔ہمیں خود بھی سمجھنا ہے، دوسروں کو بھی نصیحت کرنی ہے، اور یہ ہمیں اللہ اور اس کے بندوں کے لیے کرنا ہے۔محبت ہو جانا اک فطری بات ہے۔محبت کرنا گناہ نہیں، محبت میں بہک جانا گناہ ہے۔یہ کیسی محبت ہے جو دو لوگوں سے شروع ہو کر ایک کو زمانے بھر میں ذلیل رسور کر دے۔محبت تو نام ہے کسی کے سر پر عزت کی چادر ڈالنا ہے۔یہ کیسی محبت ہے جو گفٹ سے شروع ہو کر بند کمروں میں ختم ہو جاتی ہے۔جو بندہ اپکی حفاظت نہیں کر سکتا وہ اپنی عزت کیو ں بنائے گا اپ کو؟۔پھر محبت ہو گئی ہے تو گھر والوں کو بتائے۔کوئی غلطی ہو گئی ہے اس سے پہلے وہ گناہ میں تبدیل ہوقدم روک لیں اپنے۔میرے خیال سے کسی لڑکی کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ اپنے کردار سے ایسی محبت کو وار دے۔اسے اتنا تو مضبوط ہونا چاہیے۔کہ اپنے باپ اور بھائیوں کی بیس ،پچیس سالہ محبت پہ کسی کی سال ،دو سال کی ہزاروں محبتوں کو قربان کر سکے۔ اس سے وفا اور وعدے نبھانے کے چکر میں اپ اپنے باپ،بھائیوں اور ماں کی تربیت سے بے وفائی کر جاتیں ہیں۔ہماری پہلی وفا کے حقدار ہم پر جان وارنے والے ہمارے بھائی ہیں۔ہمارے نخرے اٹھانے والے ولداین ہیں۔محبت کرنے والا تو شاید اور مل جائے پر باپ اور بھائی اور نہیں مل سکتے ۔کسی کا نہیں تو خود پر رحم تو کرنا چاہیے۔اسے پتہ ہونا چاہیئے اک لڑکی کی غلطی اللہ معاف کرتا ،معاشرہ اور لوگ نہیں کرتے۔اک غلط قدم کی سزا کتنی نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔تمام باپ اور بھائیوں سے التماس ہے اپنے گھر کی بہنوں،بٹیوں کو اتنی محبت اور مان تو دیں کہ وہ ہر بات اپ کو بتا سکے۔نفرت اور غصے سے بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی اپنی عزت سلامت رکھنے کا نہی کہ سکتے۔ہاں محبت وہ واحد ڈور ہے جو اپکی عزت سلامت رکھ سکتی ہے۔اتنی محبت تو کریں اپنی بہنوں سے کہ کسی دوسرے کی سال،دو کی محبت حاوی نہ سکے۔اگر گھر کے مرد دوسروں کی بٹیوں کو ی
عزت دیں۔ تو ان کی گھر کی عزت بھی محفوظ رہے گی
۔ اصل مرد تو پھر وہ ہے جو طائف کو بھی اتنی ہی عزت دیتا ہو جتنی اپنے گھر کی خواتین کو دیتا ہے ۔الللہ پاک ہم سب کو حفاظت میں رکھیں۔امین۔
======================

31/12/2020

1948 میں بھارت نے پاکستان کو واجب الاد 500 ملین ڈالر دینے سے انکار کردیا"

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے کے

پاکستان 14 اگست 1947 میں حقیقت کا روپ دھار کر دنیا کے نقشے پر ابھرا- وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانان ہند نے جس کٹھن اور طویل سفر کا آغاز کیا تھا وہ بالآخر تمام ہوا- انگریز اور ہندو جیسے چال پوس قوم بھی تقسیم ہند کے حق میں نہیں تھی-برطانوی وزیراعظم لارڈ اٹیلی نے کہا تھا" کہ ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں ہم آج الگ کر رہے ہیں ایک دن پھر مل کر ایک ہو جائیں گی-
ہندو مسلمانوں کے لئے دل میں بغض رکھتے تھے- وہ کبھی نہیں چاہتے تھے ٫کہ مسلمان کبھی بھی اپنی الگ ریاست بنانے میں کامیاب ہوں- ہندوستان پر ہمیشہ سے مسلم حکمرانوں کا تسلط قائم رہا تھا اور یہ بات ان کو خنجر کی طرح چبھتی تھی- انگریزوں کی چال پوسی کے ذریعے ان کے پاس سنہری موقع تھا ہندوستان پر خاص کر مسلمانوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کا- قائد اعظم اور علامہ اقبال کی زیرک نگاہوں نے بخوبی جان لیا تھا کہ ہندو صرف ہندوؤں کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں- ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمان اپنی الگ پہچان کو رہے تھے اور بہت سی ہندو روسمات مسلمانوں میں ضم ہو چکی تھی- یہ لمحہ فکریہ تھا مسلم حکمرانوں کے لئے اگر وقت پر کچھ نہ کیا گیا تو مسلمان صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے-
اس لئے قائد اعظم اور دیگر مسلم حکمرانوں کی سربراہی میں مسلمانان ہند الگ ریاست کے لیے سر توڑ کوششیں کرنے لگے اور یہ بات ہندو سامراج کے لئے ہضم کرنا مشکل تھی- یہی وجہ ہے ان کی سر توڑ کوششیں اور دیگر رکاوٹوں کے باوجود مسلمانوں کی محنت رنگ لائی اور پاکستان معرض وجود میں آ گیا- بھارت نے پاکستان کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا- اور اس کے لیے مشکلات بڑھاتا رہا تھا- انگریزوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ابتدا ہی سے پاکستان کے لیے لاتعداد مسائل کھڑے کر دیے- تاکہ یہ ملک اپنی آزادی برقرار نہ رکھ سکے اور پاکستان ایک بار پھر ہندوستان کا حصہ بن جائے- ہندوؤں نے ساری دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی٫ کہ یہ نوازئیدہ مملکت چند ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے گا- کانگریس کے صدر اچاریا کربلا نی نے تقسیم ہند پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
" کانگریس کا نصب العین متحدہ ہندوستان تھا اور اب بھی پرامن ذرائع سے اس کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے گی گی"
پنڈت نہرو نے کہا" ہماری یہ سکیم ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنا لینے دیں- اس کے بعد معاشی طور پر یا دوسرے ذرائع سے ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں جن سے مجبور ہو کر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کریں- ہمیں پھر سے ہندوستان میں شامل کر لیجیے"-
اس قسم کے بیانات سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی اور بزدلی پیدا کرنے کی کوشش کی -مگر پاکستانی قوم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عظیم قائد کی رہنمائی میں تعمیر وطن کے لئے مصروف عمل ہو گئے -

ہم رقص کرنے والے ہیں زندگی کے ساتھ
وہ اور تھے جو گردش دوراں سے ڈر گئے

فوجی تقسیم ہو یا فوجی اثاثوں کی٫ انتظامی مسئلہ ہو یا آئین سازی کا٫ دریائے پانی کا مسئلہ ہو یا ریاستوں کے الحاق کا ٫معاشی تقسیم ہو یا جغرافیائی غرض ہر طرح سے بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری رکھی- اس سلسلے کی ایک کڑی ریزرو بینک بھی تھا- جو متحدہ ہندوستان کا مرکزی بینک تھا- جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو متحدہ ہندوستان کے مرکزی بینک میں 4ارب ( چار بلین) جمع تھے-تناسب کے لحاظ سے ان میں سے 75 کروڑ یعنی 750 ملین روپے پاکستان کو ملنا چاہیے تھے -بھارت پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے یہ اثاثے دینے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتا رہا -باآخر پاکستان کے مسلسل مطالبے پر اور بین الاقوامی ساکھ قائم رکھنے کے لیے اس نے پاکستان کو 20 کروڑ روپے دیے- باقی اثاثوں کی ادائیگی کے لیے بھارتی وزیر سردار پیٹل نے یہ شرط لگائی - کہ پاکستان کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرے- اس سودے بازی کے لیے پاکستان کیسے آمادہ ہو سکتا تھا ؟آخر بین الاقوامی شرمندگی سے بچنے کے لیے گاندھی کے کہنے پر بھارتی حکومت نے مزید 50 کروڑ روپے کی ایک قسط پاکستان کے حوالے کر دی باقی پانچ کروڑ کی ادائیگی کیلئے نومبر 1947 میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس ہوا -اس میں ادائیگی کے لیے معاہدے کی توثیق بھی ہو گئی- لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا-
اس کے بجائے بھارت نے متحدہ ہندوستان پر بیرونی قرضہ جات کا بیس فیصد بھی پاکستان کے ذمے ڈال دیا- جو دہلی کے اجلاس کی گفت شنید کے بعد ساڑھے 17 فیصد کر دیا گیا -
بھارت کی ان سب چالاکیوں کے باوجود پاکستان آج ایک الگ مضبوط ریاست کے طور پر بہت سے کمزور اسلامی ریاستوں کی امیدوں کا مرکز ہے- اللہ تعالی کے فضل و کرم اور مسلمانوں کے جذبہ اور ہمت نے بہت جلد مشکلات پر قابو پا لیا تھا- تاریخ نے دیکھا کہ جس ملک کے دریا اور سرزمین کے اہم حصے بھارت کو دے دیے گئے, جس کے اثاثوں کو جی بھر کر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور جس کی فوجی طاقت کو ناکارہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی٫ جس کو لاوارث قرار دے دیا گیا تھا -اس نے نہایت قلیل مدت٫ محدود ذرائع اور بفضل خدا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا-

انگریز صعبرایان سٹفیز رقمدراز ہے
"پاکستان کے ابتدائی دنوں میں بیرونی دنیا سے آنے والوں کو کوئی چیز اس سے زیادہ متاثر نہ کر سکی- جتنا پاکستانی قوم کا جدوجہد کا انداز٫ جو وہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اختیار کیے ہوئے تھی"-

سر جھکا مولا کے آگے ہے وہی مشکل کشا
کفر کی دہلیز پہ سجدوں کی عادت چھوڑ دے

دشمن تو آج بھی ہماری صفوں میں چھپا بیٹھا ہے- نسل در نسل آج بھی بھارتی قوم پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہے- دکھ تو یہ ہے ٫جن کے بزرگوں نے قربانیاں دیں- ان کی نسل آج سب کچھ بھلا کر ان فرسودہ اور نگ روایات کو اپنا رہی ہے جو دشمن چاہتا تھا- دشمن آج بھی پاکستان سے اتنی ھی نفرت کرتا ہے -بس اس دفعہ چال بدل کر میدان میں اترا ہے- افسوس صد افسوس چند دنیاوی خواہشوں کی تکمیل کے لئے٫ دنیاوی عیش و آرام کے لئے آج ہمارے اپنے ہی ان کے ساتھ الحاق کر چکے ہیں- اپنے ذاتی مفادات کے لیے مادر ملت کو داؤ پر لگا دیا ہے-

کیا کریں ظلمت حالات کا شکوہ کے سعود!
ہم نے اندر کے اندھیروں کی سزا پائی ہے

پاکستانی قوم کا وہ ایمان افروز جذبہ ناپید تو نہیں ہوا پر شاید وقت کی دھول میں کہیں کھو ضرور گیا ہے- اب ٹیکنالوجی کا جدید دور ہے فائیو وار جنریشن کا زمانہ ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قوم کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کروا کر مثبت طریقے سے عمل میں لائںں اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔
اللہ تعالی اس ملک خداداد کو اپنے حفظ و امان میں رکھے -اسے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا کرے اور صفوں میں چھپے دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے یہاں جو بھی پھول کھلے
وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

تحریر اقدس مختار ساہی

مکھڈ ایک تاریخی قصبہ ہے جو اسلام آباد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔اگر آپ یہ دیکھنا ...
25/12/2020

مکھڈ ایک تاریخی قصبہ ہے جو اسلام آباد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔

اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تین سوسال پہلے کا کوئی شہر کیسا ہو گا تو اس کے لیے آپ کو مکھڈ ضرور دیکھنا چاہیے جو اپنی پوری تہذیبی قدامت کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ اس کی قدیم گلیاں اور چوبارے، مندر، مسجدیں، گوردوارہ اور کشتیوں کے گھاٹ شکستہ ضرور ہیں مگر سلامت ہیں۔ پاکستان میں مکھڈ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور قصبہ ہو جو اپنی اصلی حالت میں آج بھی موجود ہو۔

اسلام آباد سے کوہاٹ جاتے ہوئے اٹک کی تحصیل جنڈ آتی ہے، یہاں ڈھلوانی پہاڑیوں کے راستے بل کھاتی ہوئی ایک سڑک آپ کو مکھڈ لے جاتی ہے۔ یہاں تنگ اور چھتی ہوئی گلیاں، خوبصورت پتھروں سے تراشیدہ در و دیوار اپنے دور کے ماہر کاریگروں کے فن کا منہ ثبوت ہیں۔

دریا کے رخ پر بنے ہوئے تین منزلہ گھر اور ان کے خوبصورت چوبارے دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ جب اس شہر میں زندگی اپنے جوبن پر ہو گی تو کیسی دکھتی ہو گی؟ یہاں شب براتیں کیسی ہوتی ہوں گی اور دیوالیاں کیسی منائی جاتی ہوں گی، کتنی ہندو بہنیں اپنے مسلمان بھائیوں کو راکھی باندھتی ہوں گی، ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تکثیری سماج کی بنت کیا ہو گی؟ مشہور خٹک ناچ دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ یہاں زندگی نے کتنی ہی خوبصورت انگڑائیاں لی ہوں گی۔

نجانے پھر اسے کس کی نظر لگ گئی کہ آج یہ شہر تو اپنی جگہ کھڑا ہے مگر ا س کے مکین تاریخ میں کہیں کھو گئے ہیں۔ آج ا س شہر سے کہیں زیادہ وسیع اس کا قبرستان ہے جو تین میل پر پھیلا ہوا ہے اکثر قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں۔ مقامی افراد کے بقول یہ قبرستان ایک ہزار سال پرانا ہے۔

مزید پڑھیے

پوٹھوہار پر گکھڑوں کے ساڑھے سات سو سالہ اقتدار کا عینی شاہد قلعہ

پاکستان پر خزانے لٹانے والے نواب کا خستہ حال قلعہ

صحرائے تھر میں قدیم جین مندر ویران کیوں؟

کراچی میں سکھوں کا قدیم گردوارہ تباہی کا شکار
مکھڈ کے مغوی معنی بہت بڑے کھڈے کے ہیں۔ یہ مہا کھڈ سے بنتے بگڑتے مکھڈ ہو گیا ہے۔ محمد وزیر ابدالی کی کتاب ’تاریخِ مکھڈ‘ جسے دارالحفیظ اٹک نے 2009 میں شائع کیا، اس کے صفحہ تین پر درج ہے کہ ’2000 قبل مسیح میں کورو اور پانڈو قبائل کے درمیان آبی گزرگاہ پر قبضے کی جنگ مکھڈ سے 15 کلومیٹر دور ماڑی انڈس میں قلعہ مانی کوٹ میں لڑی گئی جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ ماڑی انڈس اشوک کا پایۂ تخت بھی رہا۔ ایران کا شہنشاہ دارا کا امیر البحر آبی راستوں کی تلاش میں مکھڈ سے گزرا تھا مکھڈ اس وقت ہندو مت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ سکندر اعظم کی فوج کے کچھ لوگ بھی بھاگ کر مکھڈ میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ 317 میں نوشرواں عادل کے دور حکومت میں مکھڈ سلطنت فارس میں شامل تھا۔‘

14.JPG
دریا کے رخ پر کھلنے والی کھڑکیاں ۔( سجاد اظہر )

کہتے ہیں کہ مکھڈ ایک تجارتی شہر تھا۔ جتنی تجارت آج کل سڑکوں سے ہوتی ہے جب یہ نہیں تھیں تو دریائی راستے استعمال ہوتے تھے۔ ان دریائی راستوں میں دریائے سندھ سب سے بڑا ذریعہ تھا جس میں سکھر سے شمال کی جانب چلنے والی کشتیوں کا آخری پڑاؤ مکھڈ تھا۔ یہاں سینکڑوں کشتیاں ہر وقت رواں رہتی تھیں۔

مکھڈ اس وقت افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کے لیے سب سے اہم آبی بندرگاہ کے طور پر شمار ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہاں ایک بڑی تجارتی منڈی بن گئی تھی۔ کراچی میں آج جو کاروباری اہمیت میمن برادری کو حاصل ہے کبھی وہی حیثیت یہاں کی پراچہ برادری کو حاصل تھی، جن کے کپڑے اور قالینوں کا کاروبار ہندوستان سے چین، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔

کالا باغ کا نمک یہاں سے ہی سکھر جاتا تھا اور آگے اسے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں خشکی اور سمندری راستوں سے بھیجا جاتا تھا۔ مکھڈ کے بازار میں دو سو کے لگ بھگ دکانیں تھیں جن میں دنیا جہان کا سامان ملتا تھا۔ لیکن پھر ایک تبدیلی آئی جس نے اس شہر کی تجارتی اہمیت ختم کر دی۔ وہ تبدیلی تھی ریل، جس نے پورے ہندوستان کو آپس میں مربوط کر دیا جس کی وجہ سے جو تجارت کشتیوں کے ذریعے ہو رہی تھی وہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی۔

انڈس فوٹیلا کمپنی، جس کے تجارتی جہاز سکھر اور روہڑی سے کالا باغ اور مکھڈ تک چلا کرتے تھے وہ نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ضم کر دی گئی۔ 1894 میں راولپنڈی سے میانوالی اور ملتان تک پٹری بچھائی گئی تو ریل مکھڈ کے نزدیک انجرا سے گزرنے لگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے سالوں میں مکھڈ کی رونقیں ماند پڑنا شروع ہو گئیں۔ لیکن پھر بھی ضلع راولپنڈی کے گزیٹیئر 1910 میں درج ہے کہ دریائے سندھ جو کہ 96 میل تک ضلع کی مغربی سرحد تشکیل دیتا ہے، میں مکھڈ تک بڑی کشتیاں چلائی جا سکتی ہیں جہاں تک انڈس فوٹیلا کے سٹیمر جایا کرتے ہیں۔ چھوٹی کشتیاں اٹک تک بھی جاتی ہیں مگر مکھڈ اور اٹک کے درمیان کشتی رانی مشکل اور خطرناک ہے۔ مکھڈ تا سکھر یہ کشتیاں وسیع تجارت سر انجام دیتی ہیں۔ اوسط سائز کی کشتیاں 600 من وزن لے جا سکتی ہیں لیکن 1000 من والی کشتیاں بھی یہاں عام ہیں، جنہیں پانچ آدمی کھیتے ہیں۔ مکھڈ میں ملاحوں کی بستی بھی ہے جن پر 1095 روپے لگان بھی عائد ہے۔ کبھی یہاں کشتیوں کا ایک پل بھی ہوا کرتا تھا جہاں سے دریا پار کیا جاتا تھا۔ لیکن پھر ریلوے کے آنے سے وہ ختم ہو گیا۔ مکھڈ میں ایک ہی وقت میں 32 کشتیاں لنگر انداز ہو سکتی تھیں۔

10.JPG
دریا کے کنارے کھڑا یہ قدیم مندر ،عہد رفتہ کی داستا ن سناتا نظر آتا ہے ۔(سجاد اظہر )

مکھڈ کی تاریخ دو حصوں میں ہے۔ ایک سترہویں صدی سے پہلے کا مکھڈ ہے جس کی تاریخ قبل از مسیح تک جاتی ہے۔ مکھڈ کا پرانا شہر کیسے تباہ ہوا؟ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ دریائے سندھ میں کئی بار خوفناک طغیانی آئی جس نے اس کے کنارے آباد بستیوں کو تہس نہس کر دیا۔

اٹک کے گزیٹیئر 1930 میں رقم ہے کہ 16 جون 1841 میں آنے والے سیلاب سے چار بٹالین فوج اپنے گھوڑوں اور سامان سمیت بہہ گئی، ایک چوتھائی تربیلا بہہ گیا۔ ایسا ہی سیلاب 1889 اور 1928 میں بھی آیا، 2010 کے حالیہ سیلاب میں بھی مکھڈ کی موجودہ آبادی کو خاصا نقصان ہوا، جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پرانا مکھڈ کسی ایسے ہی خوفناک سیلاب کی نذر ہوا ہو گا۔

مکھڈ سے اٹک کی جانب دریا پر دوسرا پڑاؤ باغ نیلاب کا ہے جس کی تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ کئی حملہ آور دریائے سندھ کو یہاں سے پار کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ باغ نیلاب میں سنگ مرمر کی ایسی چٹانیں کثرت سے موجود ہیں جن پر مختلف نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جو کوہستان کے علاقے دیامر سے بہہ کر آئی ہیں۔ یہ چٹانیں اتنی بھاری بھرکم ہیں کہ جو سیلاب انہیں دیامر سے باغ نیلاب تک تین سوکلومیٹر نیچے دھکیل کے لایا ہو گا یقیناً اس نے مکھڈ اور شاید اس جیسی کئی بستیوں کے نام و نشان بھی مٹا دیے ہوں گے۔

موجودہ مکھڈ شہر سترہویں صدی میں فصیلوں کے اندر بنایا گیا تھا جس کے تین دروازے تھے تاکہ یہ بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکے۔ دریا کے ساتھ ساتھ یہ شہر تین کلومیٹر تک چلتا ہے جہاں 11 گھاٹ ہیں جنہیں مقامی زبان میں پتن کہا جاتا ہے۔ خان آف مکھڈ کے بنگلے کے پا س موجود گھاٹ کو خاناں والا پتن کہتے ہیں، دیگر پتنوں میں بیڑیاں والا، لوناں والا، کراڑیاں والا، کمہاراں والا، پیرانوالہ، مولوی صاحب والا، جگیاں والا، توتیاں والا، دھرابواں والا اور کھڑ پڑ والا پتن شامل ہیں۔

مکھڈ کی تہذیبی قدامت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر مختلف مذاہب کا مرکز رہا ہے۔ زرتشت، بدھ مت، ہندو مت، سکھ ازم اور اسلام سمیت ہر مذہب کے دور میں مکھڈ پھلتا پھولتا رہا ہے۔ پراچے یہاں کے قدیم باشندے ہیں جن کے بارے میں ایچ اے روز کی کتاب ’اے گلوزری آف دی ٹرائبز اینڈ دی کاسٹس آف دا پنجاب‘ میں درج ہے کہ ’پراچوں کی مرکزی آبادیاں اٹک اور مکھڈ میں ہیں، یہ تاجروں کی نسل ہیں جو ترکستان سے چین تک تجارت کرتے ہیں وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ہندو تھے جو کھوجوں سے مشابہہ ہیں۔ ان کا نام پراچہ اس لیے پڑا کہ وہ اپنی تجارت میں کپڑے کی ایک قسم پراچہ کلاتھ بیچتے ہیں۔ ان کا ایک اور نام فراش بھی ہے کیونکہ یہ وسطی ایشیا سے قالینیں بھی لاتے ہیں۔‘

11.JPG
مکھڈ میں محدود پیمانے پرکشتی سازی آج بھی جاری ہے ،یہ کشتیاں کالا باغ تک چلتی ہیں ۔ (سجاد اظہر )

مکھڈ میں صدیوں سے کشتی سازی کی صنعت بھی موجود رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے یہاں لوہے کی صنعت بھی پروان چڑھی اور جب کشتی سازی ماند پڑی تو یہاں کے ہنر مندوں نے لوہے کے بڑے بڑے کڑاہ بنانے شروع کر دیئے۔ مکھڈ کی مصنوعات میں دوسری مشہور چیز یہاں کی مٹی کی ہانڈیاں ہیں، جنہوں مقامی زبان میں کٹوی کہا جاتا ہے۔

مکھڈ سینکڑوں سال ہندو تہذیب و تمدن کا ایک اہم مرکز رہا۔ آج بھی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود ایک مندر اس کی گواہی دیتا ہے جس کی سیڑھیاں دریا کی طرف اترتی ہیں۔ اس مندر کے ساتھ ہندؤوں کا ایک کمپلیکس بھی تھا جس میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود تھی۔ یہ ہندو تہذیب کی شان و شوکت ہی تھی جس نے یہاں پر مسلمان مبلغین کو آنے پر اکسایا جس کی وجہ سے آج یہاں پرخانوادہ پیر لال بادشاہ، مولانا محمد علی مکھڈی، لکھنو الے پیر اور مولوی صاحب کے خانوادہ سمیت چار روحانی گدیاں موجود ہیں۔ حضرت میاں میر کے مزار کے ساتھ ایک قدیم لائبریری بھی ہے جس میں گیارہ ہزار سے زائد نادر کتب ہیں جن میں قلمی نسخوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ ان نسخوں میں نبی کریم اور حضرت علی کی تحریروں کے عکس بھی شامل ہیں۔ یہاں اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن بھی ہے۔

1910 میں مکھڈ کی آبادی 4195 افراد پر مشتمل تھی جسے میونسپل کمیٹی کا درجہ بھی حاصل رہا مگر یہاں کے خانوں اور پیروں میں لڑائی کی وجہ سے مکھڈ میونسپل کمیٹی کے درجے سے محروم کر دیا گیا۔ پیر آف مکھڈ پیر صفی الدین جو بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور جنہوں نے نواب آف کالا باغ کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا، ان کے جدِ امجد نوری بادشاہ 1650 کے لگ بھگ بغداد سے آئے تھے۔

پیر آف مکھڈ پیر غلام عباس انگریزوں کے طرف دار تھے اور انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے مریدوں کو انگریزی فوج میں بھرتی کروایا تھا جس کے صلہ میں انگریز سرکار نے انہیں نہ صرف لاہور اور وہاڑی میں 25 ہزار کنال زمین لاٹ کی بلکہ ان کی درخواست پر آبی گزرگاہ کا ٹیکس معاف کر دیا۔

یہ ٹیکس خان آف مکھڈ لیتا تھا اس لیے یہاں سے پیر آف مکھڈ اور خان آف مکھڈ کی دشمنی کا آغاز ہوا۔ خان آف مکھڈ کے بارے میں ’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘ میں لکھا ہے کہ ’شیر محمد خان ساگری پٹھانوں کا سردار ہے جو احمد شاہ درانی کے عہد میں مکھڈ پر حکمرانی کرنے لگا۔ سکھوں کے عہد میں اراضی پر نقد لگان وصول کیا جاتا تھا۔ جس کا آٹھواں حصہ خان آف مکھڈ کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا جو محصول چونگی، دریائے سندھ سے سونا نکالنے، اور مکھڈ کے گھاٹ پر اتارے جانے والے سامان سے لیا جاتا تھا۔‘

کہتے ہیں کہ یہاں وائسرائے ہند لارڈ ویول بھی آیا تھا۔ جبکہ اٹک کا گزیٹیئر کہتا ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کے کانوائے کا ایک ہاتھی کالاباغ جاتے ہوئے مکھڈ کے نزدیک دلدل میں دھنس کر ہلاک ہو گیا تھا۔

یہاں کئی مشہور فاتحین نے بھی اپنے قدم رکھے ہوں گے لیکن تاریخ ہمیشہ قلعوں اور ان کے لیے لڑی جانے والی جنگوں کو یاد رکھتی ہے۔

مکھڈ کی تاریخ سوسال بعد ایک اور موڑ لے رہی ہے اور اب سی پیک کا مغربی روٹ اس کے قریب سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے اس تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ مکھڈ شاید تاریخ میں اپنا کھویا ہوا مقام تو حاصل نہ کر سکے لیکن اگر حکومت اس قصبے کے مٹتے ہوئے آثار کو محفوظ بنا لے تو یہاں سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے۔

دریا کے رخ پر بنی ہوئی تین منزلہ حویلیاں جنہیں ماڑیاں کہا جاتا ہے، وہ باآسانی ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ عمران خان کے مشیر ذلفی بخاری کا آبائی علاقہ زیارت بیلہ بھی یہاں سے قریب ہے وہ مکھڈ کو سیاحتی مقام میں تبدیل کر کے یہاں کے مٹتے ہوئے ورثے کو بچا سکتے ہیں۔
copied

Address

Mandi Bahauddin

Telephone

+923400401192

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when قلم و ورق رائٹرز فورم منڈی بہاؤالدین posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to قلم و ورق رائٹرز فورم منڈی بہاؤالدین:

Videos

Share

Category


Other Publishers in Mandi Bahauddin

Show All

You may also like