Mehar M Boota Javid

Mehar M Boota Javid Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Mehar M Boota Javid, Media/News Company, 79 abbasia Road arain market, Liaquat Pur.

پیشہ ور بھکاری اور مخیر حضرات کا موازنہ  :- اگر آپ چڑیاں آزاد کروائیں گے تو ان کی ڈیمانڈ بڑھے گی اور مزید پکڑ کر لائی جا...
03/04/2024

پیشہ ور بھکاری اور مخیر حضرات کا موازنہ :-

اگر آپ چڑیاں آزاد کروائیں گے تو ان کی ڈیمانڈ بڑھے گی اور مزید پکڑ کر لائی جائیں گی اور اگر آپ انھیں آزاد کروانا چھوڑ دیں گئے تو چند ماہ بعد بیوپاری خود انھیں آزاد کر کے کوئی دوسرا روزگار اختیار کر لے گا کہ اس میں کمائی نہیں۔
" یعنی انھیں آزاد کروانا دراصل انھیں قید کروانا ہے " ۔

ایسے ہی کسی بھکاری کو بھیک دینا دراصل اس بزنس کی مارکیٹ ویلیو بڑھانا ہے , غربت ختم کرنا نہیں۔

جب اسے دن کے تین چار ہزار ملیں گے تو اپنے پورے خاندان کو اس کام پر لگائے گا اور دن بدن یہ بزنس پھلے پھولے گا۔

یعنی کسی بھکاری کو بھیک دے کر آپ ایک بھکاری کم نہیں کر رہے بلکہ دس مزید کو بھیک مانگنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

اگر ہم سب عہد کر لیں کہ بھکاریوں کو بالکل کچھ نہیں دیتا تو سال بھر میں وہ سب کسی نہ کسی دوسرے کام کی طرف لگ جائیں گے کیونکہ پیٹ تو روٹی مانگتا ہے۔

بجائے اس کے کہ آپ ہر بھکاری کو 10/20 روپے دیں اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ کسی اصل مستحق خاندان کو ڈھونڈ کر اسے حسب استطاعت معقول رقم دے دیں .
اس سے پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور اصل حقداروں کی مدد ہو سکے گی.
edited and copied.

02/04/2024

رات ایک بجے کا وقت تھا اور اس طوطے نے اپنی چونچ میں مٹر کے دانے لیے ہوئے تھے طوطی نے انڈے دے کر اپنا کام پورا کیا اور اب وہ اپنے بکس میں انڈوں پر بیٹھ کر حرارت دینے کا کام کر رہی ہے طوطا شدید سردی میں تقریباً بکس سے باہر رہ کر سیب مٹر چنے اور دانے کا انتظار کرتا ہے پھر خود کی خوراک مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی چونچ میں لے جا کر طوطی کی چونچ میں دے دیتا ہے طوطی خود بھی کھاتی ہے اور جو انڈوں کے ساتھ بچے ہیں انہیں بھی چوگا دیتی ہے بعض اوقات طوطا بھی کچھ دیر کیلئے انڈوں پر بیٹھ کر ٹھنڈ سے محفوظ رکھنے کا کام کرتا ہے اور طوطی کچھ دیر کیلئے بکس سے باہر آ کر خود کو پرسکون کرتی ہے
بس یہی کہانی انسانوں کی ہے کہ میاں بیوی دونوں مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور دو طرفہ قربانیاں دیتے ہیں کون زیادہ اور کون کم قربانی دیتا ہے اس بارے سوچنا شاید فضولیات کا حصہ ہے کبھی مرد زیادہ تو کبھی عورت زیادہ قربانی دیتی ہے اور یوں توازن قائم رہتا ہے
عورت کا یہ سمجھنا کہ مرد سے زیادہ قربانی میں دیتی ہوں بالکل ایسا ہی ہے جیسے بکس میں بیٹھی طوطی یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ باہر بیٹھا طوطا ٹھٹھرتی سردی میں دانے کا انتظار کرتا ہے اور پھر ایک ایک دانہ اپنی چونچ میں لے کر کئی چکر بکس کے لگاتا ہے تاکہ طوطی اور بچے بھوکے نہ رہیں باہر ٹھنڈی ہوا ان کی بیماری کا سبب نہ بنے
مرد کا یہ سوچنا کہ وہ زیادہ قربانی دیتا ہے بالکل ایسا ہی ہے جیسے باہر بیٹھا طوطا یہ نہیں محسوس کر سکتا کہ کئی گھنٹے ایک چھوٹے سے بکس میں قید ہو کر بیٹھے رہنا ایک ایک بچے کو دانہ تقسیم کر کے دینا ان کا ہر وقت خیال رکھنا قید میں سانس لینا کس قدر مشکل کام ہے
ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ جب آپ نیا جوڑا لگاتے ہیں تو چھ ماہ اور بعض اوقات ایک سال اس جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجیسٹ کرتے ہوئے لگ جاتا ہے تب جا کر یہ خاندان تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو سپیس دینا سیکھیے.

ایک دوسرے کو دل میں جگہ دیں ۔

29/03/2024

‏بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!
"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا
ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا
اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،
شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو
اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.

ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.
ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں
اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں.
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.

اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.
مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.
اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.

صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.
یاد رکھئے!
بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.
خیرات دیں،
منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،
اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.
باقی مرضی آپ کی"

29/03/2024

ایک زندگی ایک مکان کے لیے!

جس رات آپ کا بچہ روتا ہے، آپ نیم خوابیدہ آنکھوں کے ساتھ اسے اٹھا کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں، پہروں اُسے اٹھا کر کمرے میں ٹہلتے رہتے ہیں، کسی پنڈولم کی طرح دائیں سے باہیں اور بائیں سے دائیں چکر کاٹتے رہتے ہیں، اُس دن پہلی مرتبہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ یا والد نے ایسی کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہوں گی؟

والدین کے رتجگوں کا یہ پہلا احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب آپ کی زندگی کے کوئی تین عشرے گزر چکے ہوتے ہیں۔
تب آپ سوچتے ہیں، او میرے خدایا! تب تو آج جیسی آسائشیں نہیں تھیں، میری والدہ نے رات کو اٹھ کر کتنی مرتبہ میرا لنگوٹ بدلا ہو گا، تب ہیٹر تو نہیں تھے، اگر چارپائی گیلی ہوئی ہو گی تو والدہ سردیوں میں اس گیلی جگہ خود لیٹ گئی ہوں گی ؟ میرے رونے سے والد بھی رات کو کئی مرتبہ جاگے ہوں گے اور پھر مزدوری کے لیے صبح کام پر بھی گئے ہوں گے۔

والدین کے رتجگوں کا یہ پہلا احساس آپ کو اپنے پہلے رتجگے کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن تب تک بہت سوں کے والدین اس دنیا سے ہی کوچ کر چکے ہوتے ہیں۔

اولاد والدین کی محبت کو محبت ہی نہیں سمجھتی۔ والدہ کی چاہت کو، والد کی شفقت کو کبھی سمجھ ہی نہیں پاتی۔ جب ان چیزوں کی سمجھ آتی ہے، جب آپ ایک عاشق کی طرح جوابی محبت کرنا شروع کرتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

کوئی پندرہ بیس برس پہلے تقدیر نے کروٹ لینا شروع کی تو مجھ سمیت بھائیوں کے دن بدلنا شروع ہو گئے۔ ایک دن آیا کہ سائیکلوں والوں نے کاریں خرید لیں۔ ایک مزدور کے بیٹوں نے زمینیں خریدیں اور اپنے اپنے گھر بنا لیے۔
چند برس پہلے کی بات ہے کہ میں پاکستان گیا ہوا تھا۔ گھر میں آتے جاتے ایک فقرہ کان سے گزرا کہ والد صاحب تو کچھ نہ بنا سکے لیکن ہم نے بہت کچھ بنا لیا ہے۔

اس وقت میں نے یہ فقرہ سُنا اَن سُنا کر دیا۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے یہ فقرہ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح آ کر لگ رہا ہے۔
میرا جرمنی میں کبھی بھی کوئی گھر خریدنے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ پاکستان میں بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ فقط اور فقط والد صاحب تھے، جن کی ساری عمر ایک گھر تعمیر کرتے ہوئے بیت گئی لیکن جب دو کمرے، ایک باورچی خانہ اور ایک بیٹھک تعمیر ہوئی تو حصہ مانگنے والے تیار کھڑے تھے۔

میں چھوٹا سا تھا تو بیٹھک کی صرف چھوٹی چھوٹی دیواریں کھڑی تھیں۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا تو گھر کا کچا صحن سرخ اینٹوں سے فرش میں تبدیل ہوتا گیا۔ ایک وقت آیا کہ کچی چھت لینٹر میں تبدیل ہو گئی، گھر میں چونے کی کلی کی بجائے پہلی مرتبہ پینٹ ہوا، کولر کی جگہ فریج آئی، کئی برسوں بعد بیٹھک کی بھی چھت مکمل ہو گئی۔
میرے لیے یہ سب کچھ نارمل تھا، اس میں کیا انوکھی بات ہو سکتی ہے؟ سبھی کے گھر تعمیر ہوتے ہیں، سبھی کے لینٹر پڑتے ہیں۔
لیکن اب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ سب کچھ نارمل نہیں تھا۔ ایک مزدور کی زندگی بھر کی کمائی پانچ مرلے کا ایک مکان بنانے پر لگی تھی۔ تھکی ہوئی آنکھوں نے کتنی راتوں کو سونے سے پہلے یہ حساب کتاب کیا ہو گا کہ اس مرتبہ صحن کی اینٹوں کے لیے پیسے جمع کرنے ہیں۔

ایک لاغر جسم نے کتنی مرتبہ یہ ہمت کی ہو گی کہ بخار کے باوجود آج کام پر گیا ہو گا تاکہ اولاد کے خرچے پورے ہو سکیں۔
بیٹھک پر لگنے والے سیمنٹ کی بیس بوریوں کے لیے کتنے برس پیسے جمع کیے ہوں گے؟

ہمارے محلے میں بابا چَنن ہوا کرتے تھے۔ ہم گُلی ڈنڈا کھیلنے کے لیے ان سے گُلی بنوایا کرتے تھے اور مزدوری کی جگہ ایک اینٹ دیا کرتے تھے۔

مجھے اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ بابا پیسوں کی بجائے مزدوری میں ایک اینٹ کیوں لیتا ہے؟

لیکن اب سمجھ آیا ہے کہ بابے چَنن نے چار پانچ سال کی محنت سے فقط ایک دیوار مکمل کی تھی۔

اب خیال آتا ہے کہ انسان ساری زندگی تین کمروں کا مکان بنانے میں کھپا دیتا ہے اور اولاد بے دھیانی میں یہ کہہ دیتی ہے کہ ہمارے والد تو ہمارے لیے کچھ خاص نہیں بنا سکے تھے۔

ہاتھوں پر پڑنے والی چَنڈیاں، جون جولائی کی مزدوری، دھوپ سے بازوں کے براؤن ہونے والے بال، فکروں میں کٹی راتیں، بڑھاپے میں محنت سے چٹختی ہڈیاں، سوکھی آنکھوں میں اولاد کے لیے ذاتی گھر کا خواب پالنے والے کو کون یاد رکھتا ہے؟

میں سوچتا ہوں کہ جس دن والد صاحب نے اولاد میں یہ گھر تقسیم کیا ہو گا، تو وہ رات ، وہ کیا سوچتے رہے ہوں گے؟

اس رات انہوں نے یہ تو سوچا ہو گا کہ اب میں کس کمرے میں رہوں گا؟ اس رات ان پراسرار آنکھوں سے نیند تو کوسوں دور ہی رہی ہو گی۔ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے ہوئے دل تو کئی مرتبہ ٹھہر گیا ہو گا۔

شاید میں ابھی اُس بوڑھے جسم کی ، عشروں سے تھکے ہوئے دل و دماغ کی یہ کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔

شاید مجھے یہ کیفیت سمجھ آئے، جب میں اپنا گھر تقسیم کروں گا، جب میں خود یہ سوچوں گا کہ مجھے اب کون سا کمرہ ملے گا، پتہ نہیں ملے گا بھی نہیں؟

اپنا گھر لیا ہے تو پہلی مرتبہ یہ سارے سوال ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ چند برسوں پہلے یونہی بے دھیانی میں سنا ہوا فقرہ بار بار یاد آ رہا ہے۔

سوچ رہا ہوں کہ جب میں دنیا میں نہیں رہوں گا تو کسی محفل میں ایسا ہی کوئی فقرہ گونجے کہ والد صاحب تو ہمارے لیے کچھ خاص نہیں بنا سکے تھے۔

ایک وقت آتا ہے، آپ سوچتے ہیں کہ او میرے خدایا! ہمارے والدین ہم کتنی محبت کرتے تھے لیکن جب تک یہ ادراک پیدا ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس ادراک اور فہم کے بیچ عشروں کا فاصلہ ہے، آپ کی اور میری جوانی کو جھریوں والے چہرے میں تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ خیال ہے، ادراک ہے، نہروں میں چھوٹی چھوٹی چکیوں کی شکل گھومنے والے پانی کی طرح ماضی میں ڈبکیاں ہیں۔
یہ ڈبکیاں لمحوں کی نہیں عشروں کی ہیں اور پھر یہ احساس پیدا ہوتا کہ والدین ہم سے کتنی محبت کرتے تھے۔ لیکن تب تک ٹرین اسٹیشن سے نکل چکی ہوتی ہے، صدیوں سے زندگیوں کو نگل جانے والی موت اولاد کے لیے قربانیاں دینے والوں کو اپنی چادر میں لپیٹ چکی ہوتی ہے۔

جو جوانی کبھی برف تھی، وہ سورج کی تپش میں پگھل چکی ہوتی ہے، گزرنے والی ٹرین کی گرد تک بیٹھ چکی ہوتی ہے اور قبروں پر کنندہ نام تک مٹ چکے ہوتے ہیں۔
والدین کی بے لوث محبت کا ادراک پیدا ہوتا ہے لیکن اس میں عشرے لگتے ہیں، آپ کو اپنے ہاتھوں کی جھریوں میں والدین کی جھریاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

جس نے ہماری پرورش کے لیے اپنی زندگی نچوڑ دی، جس کی جوانی مزدوری کرتے ہوئے ہوا میں تحلیل ہو گئی، جس نے ہماری زندگیوں کے کھارے پانی میں رس گھولنے لیے اپنی کمر جھُکا دی، جس کی آنکھوں کے خواب ایک مکان کی تعمیر کا حساب کتاب کرتے ہوئے بوڑھے ہو گئے، آج اس محنت کش کی بارہویں برسی ہے۔

آپ سب دوستوں سے ان کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین

‎یٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ
‎ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

28/03/2024

نفسیاتی طور پر متوازن افراد کی دس نشانیاں:

1 وہ دوسروں کی تعریف کرتے ہیں۔
2 وہ اپنی تعریف نہیں کرتے۔ (اپنا تعارف کرانا اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں ضرورتاً آگاہ کرنا اپنی تعریف میں شامل نہیں۔)
3 ہمیشہ یا اکثر مسکراتے ہیں۔
4 محفل میں موجود دیگر افراد کو اظہارِ خیال کا موقع دیتے ہیں۔
5 دوسروں کی بات خاموشی اور توجہ سے سنتے ہیں۔
6 اُن میں کسی کا تمسخر اڑائے بغیر حس ظرافت ہوتی ہے۔
7 وہ دوسروں کی مقدور بھر مدد کرتے ہیں۔
8 خیر خواہانہ مشورہ دیتے ہیں۔
9 دوسروں کی اچھائیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ انھیں انھی سے منسوب کرتے ہیں۔
10 حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

کیا آپ میں یہ سب خصوصیات ہیں؟؟
اگر ہیں تو آپ نفسیاتی طور پر نارمل انسان ہیں اگر نہیں ہیں تو خود میں یہ سب خصوصیات پیدا کریں اور اگر پیدا کر نے میں مشکل ہو رہی ہے تو دیکھیں مسئلہ کہاں ہے اس کو ختم کریں اس کے بعد
آپ ایک پر سکون زندگی گزاریں گے۔

کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ روزمرہ استعمال کے تولیوں کے کناروں پر لکیروے بنی ہوتی ہیں اور کیا آپ. نے کبھی سوچا یہ کیوں بنی...
25/03/2024

کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ روزمرہ استعمال کے تولیوں کے کناروں پر لکیروے بنی ہوتی ہیں اور کیا آپ. نے کبھی سوچا یہ کیوں بنی ہوتی ہے تولیوں کے کناروں پر جو لکیریں آپ دیکھتے ہیں انہیں ہیمس(hems) کہتے ہیں۔ ہیمس دراصل ایک قسم کی فنشنگ تکنیک ہے جو ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ کئی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے یہ تولیہ کی لمبی عمر اور معیار کو یقینی بنانے میں کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ہیمز کے اہم کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ تولیہ کے تانے بانے کو پھٹنے سے روکنے میں مدد. کرتا ہے ۔ تولیوں کو اکثر بار بار استعمال اور دھونے کی وجہ سے کناروں کو خاص طور پر پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہیمز کو تولیے پر بنانے سے، تانے بانے کو مضبوطی ملتی ہے اور اسے پھٹنے سے محفوظ رکھا جاتا ہے، جس سے تولیہ کو وقت کے ساتھ اس کی شکل اور سالمیت برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ہیمس تولیہ کے کناروں کو اضافی طاقت اور استحکام بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتے ہیں، تولیہ کو آسانی سے پھٹنے یا کناروں پر پھٹنے سے روکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر اس وقت اہم کردار ادا کرتا ہے جب آپ تولیہ کو خشک کرنے یا اپنے ارد گرد لپیٹنے کے لیے استعمال کر رہے ہوں، کیونکہ ہیمز تولیے کی ساختی کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

ان کے فعال فوائد کے علاوہ، ہیمس تولیہ کی ایک خاص شکل دیتا ہے جس سے دیکھنے میں اچھا لگتا ہے۔ یہ کناروں کو صاف ستھرا اور مکمل شکل دیتا ہیں، جس سے مجموعی ڈیزائن میں خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہیمز سادہ، سلائی کی ایک لائن کے ساتھ، یا آرائشی نمونوں یا کڑھائی کے ساتھ زیادہ وسیع ہو سکتے ہیں۔

لہذا، تولیوں کے کناروں پر لکیریں بے مقصد نہیں ہوتی ہیں، بلکہ بامقصد اور عملی ہوتی ہیں ہیں۔ وہ تانے بانے کی حفاظت، استحکام کو بڑھانے اور تولیے کو چمکدار شکل دینے میں مدد کرتے ہیں۔ اگلی بار جب آپ تولیہ استعمال کریں گے تو ہیمز کو قریب سے دیکھیں اور ان کے پیچھے کی سائنس کی تعریف ضرور کریں!
کاپی

21/03/2024

" تین کی کسوٹی "

افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا "آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا"
سقراط نے مسکرا کر پوچھا "وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟"
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا "آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ۔۔!"

اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا "تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں"

افلاطون نے عرض کیا "اے استاد محترم! تین کی کسوٹی کیا ہے؟"
سقراط بولا "کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟"
افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ہنس کر کہا "پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟"
افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا "یہ پہلی کسوٹی تھی۔

اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ "مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟"
افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ "جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!"
سقراط نے مسکرا کر کہا "کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔۔؟"
افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط بولا "گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی۔"
افلاطون خاموش رہا۔۔!

سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا "اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔۔؟"
افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا "یا اُستاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!"
سقراط نے ہنس کر کہا "اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟"
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔

سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اُس کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔۔!

1۔ "کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟"،
2۔ "کیا یہ بات اچھی ہے؟" اور
3۔ "کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟"

اگر وہ بات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی، تو وہ بے دھڑک بول دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہو جاتے تھے۔

آج ہمارے معاشرے کو بھی اِس "تین کی کسوٹی" کی بہت ضرورت ہے۔ جہاں نقطہ چینی، چغل خوری، تہمت بیانی اور گمراہ کن باتوں کا دور دورہ ہے اور ہر فرد دوسرے کے لیے زبان کے تیر چلانے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔ اور جس کی وجہ سے بہت سے افسوسناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔

25/09/2023

*ضرورت نہیں ہے!*
٭٭٭
۱۔ کان میں سرگوشی… جب سرگوشی کہا گیا تو *کان میں* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۲۔ انڈے کی طرح بیضوی… جب بیضوی کہا جائے تو *انڈے کی طرح* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۳۔ پھولوں کا گلدستہ… جب گلدستہ کہا جائے تو *پھولوں کا* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۴۔ آب زم زم کا پانی… جب *آبِ زم زم* کہا جائے تو *پانی* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۵۔ شب قدر کی رات… جب *شب قدر* کہا جائے تو *رات* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۶۔ حجر اسود کا پتھر… جب *حجراسود* یا سنگ مرمر کہا جائے تو *پتھر* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۷۔ نوشتہ دیوار پر لکھا ہے…جب *نَوِشْتَہ* کہا جائے تو *لکھا ہے* کہنے کی ضرورت نہیں۔ (نوشتہ کا درست تلفظ بروزن فرشتہ ہے)...

۸۔ ہونٹوں پر زیرلب مسکراہٹ… جب *زیرلب* کہا جائے تو *ہونٹوں پر* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۹۔ گندے پانی کا جوہڑ… جب *جوہڑ* کہہ دیا تو *گندے پانی* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۰۔ پانی کا تالاب… تالاب میں خود آب موجود ہے۔ *پانی کا* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۱۔ صبح تا شام تک، دس تا بارہ سال تک!… جب *تا* کہا جائے تو *تک* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۲۔ بہترین نعم البدل… جب *نعم البدل* کہہ دیا تو *بہترین* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۳۔ نمک پاشی چھڑکنا… جب *نمک پاشی* کہہ دیا تو مزید نمک *چھڑکنے* کی کوئی ضرورت نہیں۔

۱۴۔ زیادہ بہترین… جب بہتر یا بہترین کہا جائے تو *زیادہ* یا *بہت* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۵۔ فی الحال ابھی میں نہیں آ سکوں گا!… جب *فی الحال* کہہ دیا تو *ابھی* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۶۔ ناجائز تجاوزات… جب *تجاوزات* کہہ دیا تو *ناجائز* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۷۔ایصال ثواب پہنچانا… جب *ایصال* کہہ دیا تو *پہنچانا* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۱۸۔ قابلِ گردن زَدنی… صرف *گردن زَدنی* کہنا کافی ہے، قابل کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

۱۹۔ ابھر کر سامنے آئے ہیں… جب *ابھر* ہی گئے ہیں تو *سامنے آنے* کی کوئی ضرورت نہیں۔

۲۰۔ تا ہنوز… جب *ہنوز* کہا جائے تو *تا* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۲۱۔ آنکھیں نمدیدہ ہو گئیں!…جب *نم دیدہ* کہا جائے تو *آنکھیں* کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

۲۲۔ روز افزوں بڑھنا… جب *افزوں* کہا جائے تو *بڑھنا* کہنے کی کچھ ضرورت نہیں۔

۲۳۔ نئی جدت… جب *جدت* کہا جائے تو *نئی* کہنے کی ضرورت نہیں۔

۲۴۔ سوچھی سمجھی سازش… جب *سازش* کہا جائے تو *سوچی سمجھی* کہنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔
کاپى

19/09/2023

💥 *ہماری اگلی نسل*💥

کل مارکیٹ جانے کیلئے امی اور میں نے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ امی کا بس میں سفر کرنا مشکل تھا عمر کی وجہ سے جوڑوں کا درد اور بلڈ پریشر وبال جان بنا رہتا ہے۔ مگر پٹرول کی قیمتوں سے لڑنے کیلئے پرائیویٹ گاڑی کروانے کی بجائے بس کو ترجیح دی۔
بس میں سوار ہوئے تو خواتین والی سائیڈ پر تمام سیٹیں بھری ہوئی تھیں اور عموما سب کالج/سکول کی لڑکیاں تھیں۔ میں نے سب سے درخواست کی کہ میری امی کھڑی نہیں ہو سکتیں تو کیا آپ میں سے کوئی انہیں جگہ دے دیگا؟ مگر کسی نے جواب دینا گوارا نہ کیا بلکہ منہ پھیر کر ایسے ظاہر کروایا کہ ہم نے سنا ہی نہ ہو۔ خیر میں نے کنڈکٹر کو اچھے سے یاد دہانی کروائی کہ جیسے ہی کوئی سیٹ خالی ہو میری امی کو جگہ دیں وہ بیمار ہیں کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ اگلے ہی سٹاپ پر بس کے رکنے پر ایک لڑکی اتری تو میں نے شکر کیا کہ اب امی کو جگہ مل جائیگی، مگر اسی سیٹ کے ساتھ بیٹھی ایک خاتون نے اپنی بیٹی کو بازو سے کھینچا جو غالبا نو یا دس سال کی ہوگی، اور اس سیٹ پر بٹھا لیا۔
میں نے کنڈکٹر کو دیکھا، وہ بت بنے کھڑا تھا کہ جیسے کوئی مسلہ نہیں یہاں عمروں کا لحاظ نہیں دھکم پیل ہی چلتا ہے۔ جب میں نے کنڈکٹر سے اعتراض کیا تو اس نے اس خاتون سے درخواست کی کہ بچی کو اپنی گود میں کر لیں، بزرگ کو جگہ دیں، مگر اس عورت نے اکھڑ کر جواب دیا کہ "سیٹ کے پیسے ہم نے بھی دئے ہیں، میری بچی تھک جائیگی کھڑی ہو ہوکر، جو کھڑا نہیں ہو سکتا وہ بس میں دوسروں کو تنگ کرنے کی بجائے اپنی گاڑی میں جائے"

چنانچہ ہم اگلے سٹاپ پر اترے اور کریم کروا کر بہت سارے پیسے دے کر اپنی منزل پر پہنچے۔

مجھے اپنے زمانہ طالبعلمی کا وقت یاد ہے، دو سال پبلک بس میں سفر کرنا پڑا، دو سال میں ایک دن میں بیٹھنا نصیب نہ ہوا، جیسے ہی سیٹ ملتی کوئی نہ کوئی بزرگ یا حاملہ عورت آجاتی اور اٹھنا پڑتا، یہ ایک نارمل بات تھی کوئی احسان نہیں، ایک معاشرتی سیکھ تھی کہ کم عمر کا سوار بزرگ کیلئے اٹھ کر اپنی نشست خالی کریگا۔
یہ صرف ایک مثال ہے اس معاشرے کی بے حسی کی!

*آج کل کے والدین بچوں کو اپنے حقوق کے بارے میں تو بخوبی آگاہ کرتے ہیں، آگے بڑھ کر اپنا حق چھین لینا سکھایا جاتا ہے*
*مگر فرائض اور معاشرتی تہذیب کے بارے میں آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔*

آج کل کے بچے فر فر انگریزی تو بولتے ہیں *مگر اپنے والدین کے آنے پر اٹھ کر جگہ خالی نہیں کرتے۔*

آج کل بچے سکول میں ڈیبیٹز تو جیتتے ہیں *مگر ہمسائے کے انکل یا آنٹی کے گزرنے پر اسلام علیکم نہیں کہتے۔*

آج کل بچے کمپیوٹر گیمز میں تو سیریز جیت جاتے ہیں *مگر کسی مہمان کے آنے پر خوش نہیں ہوتے، بلکہ اپنی "پرائیویسی" میں حلل سمجھتے ہیں۔*

آج کل بچے کارٹونز دیکھ کر کھانا کھاتے ہیں *مگر ماں کے ساتھ کچن میں ہاتھ نہیں بٹاتے، نہ برتن میز پر رکھتے ہیں نہ اٹھاتے ہیں۔*

آج کل بچے مہنگے سکولوں میں تو جاتے ہیں *مگر باپ کے گھر آنے پر اسکے کندھے نہیں دباتے،* *کسی ہمسائی آنٹی کے ہاتھ سے سامان پکڑ کر اسے سیڑھیاں چڑھنے میں مدد نہیں* *کرتے* ۔

آج کل بچے انگلش گانے تو زبانی سنا دیتے ہیں، مگر ماں سے باتیں نہیں کرتے۔

آج بچہ اگر ایک بار کہہ دے کہ مجھے وہ چاچی یا مامی پسند نہیں، وہ بھی بغیر کسی بڑی وجہ کے، تو ماں باپ اسکی مکمل حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ہم اس سے ملیں گے ہی نہیں، *درگزر کرنا اب بچوں کی تربیت میں نہیں، نہ رشتے نبھانا!*

کسی ٹیچر کی اتنی جرات کہ وہ بچے کی بدتمیزی پر اس کو ڈانٹ دے؟ پوری سکول انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں والدین!!

اور سب سے دلچسب بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کو آج "نارمل" سمجھا جاتا ہے۔ ماڈرن سمجھا جاتا ہے۔ اور اس پر ایک اچھا سا لیبل لگا دیا جاتا ہے کہ بچے کی "مینٹل ہیلتھ" پر برا اثر پڑے گا۔

*ہمدردی، درگزر، رحم، انصاف پسندی، ادب، عزت و احترام، راست بازی، دور اندیشی جیسی خصوصیات نہ سکھانے پر مینٹل* *ہیلتھ پر کیا اثر پڑے گا؟ اس بارے میں کسی کو فکر نہیں!!*

آج کا ہر بچہ یا "شہزادہ" ہے یا "شہزادی"۔ انسٹاگرام کے ماڈلز ہیں سب!! اسلئے انہیں خود پسندی اور خودغرضی خود سکھائی جاتی ہے اور اس میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

*جذبات سے عاری، معاشرتی درد سے عاری ایک پوری کی پوری نسل پروان چڑھا رہے ہیں ہم، جسکا نتیجہ تب نکلے گا جب* *ہمارے اختیار میں کچھ نہیں رہے گا!!!*

❂▬▬▬๑۩۞۩๑▬▬▬❂

19/09/2023

ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔
-
آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔ ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے!
-
ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟
-
ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں، ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے، ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی، وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے۔ ہم نے ہی اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔
-
ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا، ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان سٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔ گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ!
-
اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔ گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا!
ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔
-
ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی، براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔
-
آئیں، ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں، گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے، ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، ہم ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔
-
ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔
-
سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔
-
پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، ’عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔‘
-
ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں، سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔
-
ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔
-
عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ ’فورٹی رولز آف لَو‘ انگریزی میں آئی تو چومتے نہیں تھکتے۔ الف لیلیٰ، کلیلہ و دمنہ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، جرمن سے گورے کے پاس آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔

جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔ پاؤلو کوہلو اسی کا ٹنکچر بنا کے دے گا تو بگ واؤ کرتے ہوئے آنکھوں سے لگا لیں گے۔ متنبی کون تھا، آملی کیا کر گئے، شمس تبریز کا دیوان کیا کہتا ہے، اغانی میں کیا قصے ہیں، ہماری جانے بلا!
-
ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے، ہمارے چاند روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔
-
وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نہیں آئی۔

ہم لوگ پینڈو سے ماڈرن کتنی قیمت دے کر ہوئے
حسنین جمال
انڈپینڈنٹ اردو
21 فروری 2022

16/09/2023

.

💐 *کیا آپ بھی بنی اسرائیل ہیں ؟؟؟*

کیا تمہارے پاس گاڑی ہے ؟
" میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے تک اسے حیرت سے دیکھتا چلا گیا۔ وہ دانت نکال رہا تھا اور بار بار اپنی داڑھی کھجا رہا تھا۔

پارک میں لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ کچھ لوگ ہلکی ہلکی جاگنگ بھی کر رہے تھے۔ دوپہر مایوس ہو کر رخصت ہو رہی تھی اور شام دھیرے دھیرے مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے سرک رہی تھی۔ گرم دوپہر کے بعد اسلام آباد کی شام کی اپنی ہی خوب صورتی، اپنا ہی سکھ ہوتا ہے۔

میری بچپن کی عادت ہے، میں پریشانی یا ٹینشن میں کسی پارک میں چلا جاتا ہوں۔ ایک دو چکر لگاتا ہوں اور پھر کسی بینچ پر چپ چاپ بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بینچ میری ساری ٹینشن، میری ساری پریشانی چوس لیتا ہے اور میں ایک بار پھر تازہ دم ہو کر گھر واپس آ جاتا ہوں۔

میں اس دن بھی شدید ٹینشن میں تھا۔ میں نے پارک کا چکر لگایا اور سر جھکا کر بینچ پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد ایک نیم خواندہ پشتون کسی سائیڈ سے آیا اور بینچ پر میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ اسے شاید بڑبڑانے کی عادت تھی یا پھر وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا
چناں چہ اس نے مجھے بار بار انگیج کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی آٹے کی مہنگائی کا ذکر کرتا تھا، کبھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا رونا روتا تھا اور کبھی لوگوں کے غیر اسلامی لباس پر تبصرے کرتا تھا۔ میں تھوڑی دیر اس کی لغویات سنتا رہا لیکن جب بات حد سے نکل گئی تو میں نے جیب سے تھوڑے سے روپے نکالے اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔

وہ تھوڑی دیر تک حیرت سے نوٹوں کو دیکھتا رہا، پھر اس نے قہقہہ لگایا۔ نوٹ واپس میرے ہاتھ پر رکھے اور بولا۔ "آپ لوگوں کا بڑا المیہ ہے (وہ المیہ کو لمیا کہہ رہا تھا) آپ دوسروں کو بھکاری سمجھتے ہیں۔ آپ کا خیال ہوتا ہے آپ کے ساتھ اگر کوئی غریب شخص بات کر رہا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ آپ سے بھیک لینا چاہتا ہے۔
بابو صاحب ! مجھ پر ﷲ کا بڑا کرم ہے۔ چوکی داری کرتا ہوں، روٹی مالک عزوجل دے دیتا ہے اور خرچے کے پیسے مالک عزوجل کے بندے سے مل جاتے ہیں۔ میں بس آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ میرا والد کہتا تھا پریشان آدمی کو حوصلہ دینا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے۔ چناں چہ میں جہاں کسی کو پریشان دیکھتا ہوں میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں مگر آپ نے مجھے بھکاری سمجھ لیا۔"

میری حیرت شرمندگی میں بدل گئی اور میں اس سے معافی مانگنے لگا۔ وہ ہنسا اور داڑھی کھجاتے کھجاتے مجھ سے پوچھا۔ "کیا تمہارے پاس گاڑی ہے ؟ "

میں نے چند لمحوں تک اس سوال پر غور کیا اور پھر جواب دیا۔ "ہاں تین چار ہیں۔" وہ بولا۔ "تم کو پتا ہے آج کل پٹرول کی کیا قیمت ہے ؟" میں نے ہنس کر جواب دیا۔ "مجھے نہیں پتا، ڈرائیور پٹرول ڈلواتا ہے۔
" اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ "اور تم پھر بھی پریشان بیٹھے ہو ؟"

میں نے حیرت سے جواب دیا۔ "گاڑی کا پریشانی کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے خان ؟" وہ سنجیدہ ہو کر بولا۔ "بڑا گہرا تعلق ہے۔

کیا مکان تمہارا اپنا ہے۔ ؟ " میں نے جواب دیا۔ "ہاں میرا اپنا ہے بلکہ تین چار ہیں۔" وہ مسکرایا اور پوچھا "کیا بیوی بچے بھی ہیں ؟ " میں نے فوراً ہاں میں جواب دیا۔ اس نے پوچھا۔ "بچہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟" میں نے جواب دیا "بیٹے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔" اس نے پوچھا " اور کیا تمہاری بیگم صاحبہ کی صحت ٹھیک ہے ؟"میں نے فوراً جواب دیا "ہاں الحمد للہ۔ ہم دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ہمیں اللہ نے مہلک بیماریوں سے بچا رکھا ہے۔" وہ بولا "اور کیا خرچہ پورا ہو جاتا ہے ؟ " میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور جواب دیا "الحمد للہ۔ خرچے کی کبھی تنگی نہیں ہوئی۔"

اس نے قہقہہ لگایا اور میرے بازو پر اپنا کھردرا ہاتھ رکھ کر بولا۔ "اور بابو صاحب آپ اس کے بعد بھی پریشان ہے ؟
آپ نے پھر بھی منہ بنا رکھا ہے۔ آپ کو پتا ہے آپ بنی اسرائیل ہو چکے ہیں۔"

میں بے اختیار ہنس پڑا اور پہلی مرتبہ اس کی گفتگو میں دلچسپی لینے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ "میں بنی اسرائیل کیسے ہوگیا اور بنی اسرائیل کیا ہوتا ہے ؟"

وہ سنجیدگی سے بولا۔ "آپ اگر قرآن مجید پڑھیں تو اللہ تعالیٰ بار بار بنی اسرائیل سے کہتا ہے میں نے تمہیں یہ بھی دیا، وہ بھی دیا، ملک بھی دیا، کھیت بھی دیے، دشمنوں سے بھی بچایا، تمہارے لیے آسمان سے کھانا بھی اتارا، باغ اور مکان بھی دیے، عورتیں اور بچے بھی دیے اور غلام اور کنیزیں بھی دیں مگر تم اس کے باوجود ناشکرے ہو گئے۔
تم نے اس کے باوجود میرا احسان نہیں مانا۔

ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں ساری نعمتوں کے بعد بھی جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اس کے احسان یاد نہیں کرتا تو وہ بنی اسرائیل ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے بنی اسرائیل کی طرح ذلیل کرتا ہے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون اور امن سے محروم ہو جاتا ہے اور آپ بھی مجھے بنی اسرائیل محسوس ہو رہے ہیں۔

آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں مگر آپ ان کے باوجود بینچ پر اداس بیٹھے ہیں۔ مجھے آپ پر ترس آرہا ہے۔"

اب مجھے جھٹکا سا لگا اور میں شرمندگی اور خوف سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ میں اپنے آپ کو پڑھا لکھا اور تجربہ کار سمجھتا تھا۔
بچپن سے اسلامی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور عالموں کی صحبت سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں لیکن آپ یقین کریں بنی اسرائیل کی یہ تھیوری میرے لیے بالکل نئی تھی۔ میں نے قرآن مجید میں جب بھی بنی اسرائیل کے الفاظ پڑھے مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ ناشکرے اور نافرمان یہودیوں سے مخاطب ہے۔ یہ انھیں اپنے احسانات یاد کرا رہا ہے لیکن کیا ﷲ تعالیٰ کی نظر میں ہر احسان فراموش بنی اسرائیل ہو سکتا ہے اور کیا قدرت اس کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ وادی سینا اور اسرائیل میں کیا تھا۔ ؟

یہ بات میرے لیے نئی تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا، اس ان پڑھ پشتون کے ہاتھ کو بوسا دیا اور پارک سے چپ چاپ باہر آ گیا۔

میں سارا راستہ ﷲ کی ایک ایک نعمت یاد کرتا رہا، اس کا شکر ادا کرتا رہا اور اپنی آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔ میں کیا تھا اور میرے رب نے مجھے کیا بنا دیا مگر میں اس کے بعد بھی پریشان اور مایوس رہتا ہوں۔ مجھ سے زیادہ بنی اسرائیل کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔!!!

15/09/2023

پانچویں کے بعد ہائی سکول میں داخلہ لیا تو انگریزی پڑھنی شروع کی۔ ایک دن چھٹی کی درخواست لکھواتے ہوئے استاد یوسف صاحب نے I beg to say لکھوایا تو ہاتھ پتھر کے ہو گئے۔دل نے آواز دی کہ چھٹی کوئی دے یا نہ دے لیکن یہ بھیک نہیں مانگی جا سکتی کہ
I beg to say۔

ابھی دماغ میں Beg کی
👇

ذلت کا احساس ختم نہیں ہوا تھا درخواست ختم بھی ہو گئی۔ اب کی بار درخواست کے اختتام پر استاد جی نے لکھوایا
Your obedient servant
اب تو کنپٹیاں ہی سلگ اٹھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خود کوکسی کا تابع فرمان قسم کا نوکر قرار دے دوں؟

وکالت کے شعبے میں آیا تو یہاں بھی وہی تذلیل دیکھی

جو انصاف مانگنے آتا تھا اسے سائل کہا جاتا تھا۔ سائل ہماری عدالتوں اور کچہری میں ہمیشہ عرض گزار ہی پایا گیا۔ انصاف مانگا نہیں جا سکتا تھا۔ سائل یہ مطالبہ نہیں کر سکتا تھا کہ انصاف دیا جائے۔ ہاں وہ Prayer یعنی التجا اور درخواست پیش کر سکتا تھا

میں بیٹھ کر سوچتا کہ اگر عدالت بنی

ہی انصاف دینے کے لیے ہے اور اگر اللہ کا حکم ہے کہ انصاف کرو ،یہ تقوی کے قریب تر ہے تو پھر اس بنیادی انسانی حق کے حصول کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا ، گڑگڑاتے لہجوں میں مسکینی طاری کر کے Prayer کیوں کی جا تی ہے۔ باوقار طریقے سے ڈیمانڈ کیوں نہیں کی جاتی

بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ

سب اتفاق نہیں ہے۔ یہ برطانوی دور غلامی میں سکھائے گئے غلامی کے وہ آداب ہیں جو ہمارے لہو میں دوڑ رہے ہیں۔انگریز لکھاریوں نے ہمیں آداب غلامی سکھانے کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب ڈبلیو ٹی ویب نے لکھی جس کا عنوان ہے
English etiquette for Indian gentlemen

یہ کتاب کم اور غلامی کی دستاویز زیادہ ہے اس میں ایک ایک کر کے مقامی لوگوں کو بتایا گیا کہ اب ان کا دور نہیں رہا، ان کی تہذیب بھی پرانی ہو چکی۔ نئے آقا اب جو چاہتے ہیں انہیں اسی تہذیب کو اپنانا ہو گا
ڈبلیو ٹی ویب کی اس کتاب میں بعض مقامات پر واضح طور پر آداب غلامی سکھائے

گئے ہیں
تفصیل سے بتایا گیا ہے انگریز کے حضور حاضر ہونے کے آداب کیا ہیں، اس سے ملنے کے آداب کیا ہیں ، اس سے مخاطب کیسے ہونا ہے۔ مقامی یعنی ہندوستانی ڈیزائن کے جوتے پہن کر جانا ہے تو جوتے باہر برآمدے میں اتار کر اندر حاضر ہونا ہے، ایسے جوتے پہن کر انگریز کے حضور حاضر ہونا اس کی

توہین ہے
خبردار سلام کے لیے اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھایا جائے جب تک صاحب یا میم خود تمہیں اس قابل نہ سمجھیں

کسی انگریز کو صرف اس کے نام سے نہیں پکارنا القابات لگانا ضروری ہے۔کسی یورپی سے سر راہ ملاقات ہو جائے تو اد ب کے تقاضے کیسے پورے کرنے ہیں اور ان میں سے کسی کو
مدعو کرنا ہے

تو میزبانی کے آداب کیا ہوں گے، وغیرہ وغیرہ
مقامی تہذیب کو مکمل طور پر قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے سونے سے جاگنے تک اور جاگنے سے سونے تک ، ہر معاملے اور ہر لمحے میں انگریزی طور طریقے سکھائے گئے ہیں۔ کھانا کیسے کھانا ہے۔ چھری کانٹا کیسے استعمال کرنا ہے۔ ہاتھ سے کھانا ایک برائی ہے

خبردار جو کسی جنٹل مین نے گوشت ہاتھ سے کھایا

انگریزوں کی حساسیت کا خیال رکھنے کا بار بار ’ حکم‘ دیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ تمہاری بے عزتی ہو جائے تو برا نہ مانا کرو

اور ہاں اگر تم معزز بننا چاہتے ہوں تو شادی کے دعوت ناموں میں چشم براہ جیسی فضولیات کی جگہ

RSVP
لکھا کرو۔
انگریز کو یہاں سے گئے آج پون صدی ہو گئی ہے
لیکن ہمارے شادی کے دعوت ناموں سے RSVPختم نہیں ہو سکا ۔
ہم آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معززین بننے کے چکروں میں ہیں

مقامی تہذیب و اقدار کی تذلیل پر مشتمل عمومی ’ ادب و آداب‘ کے بیان میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی کتاب کے آخر

میں درخواست لکھنے کے آداب‘ لکھ کر کے پوری کر دی گئی۔
باب نمبر گیارہ میں بتایا گیا ہے کہ درخواست ، پیٹیشن وغیرہ کیسے لکھی جائیں
اور ساتھ ہی نمونے کے طور پر کچھ درخواستوں اور پیٹیشنز لکھی گئی ہیں
کہ ان کو دیکھ کر ’ مقامی جنٹل مین‘ رہنمائی حاصل کریں۔

ان تمام درخواستوں میں چند

چیزیں اہتمام سے بتائی گئی ہیں

اول:
درخواست کی شروعات ،
جو انتہائی غلامانہ، فدویانہ اور ذلت آمیز انداز سے کی گئی ہیں۔
مثال کے طور پر
I beg to say
کا انداز سکول کے بچوں کی درخواست سے لے کر سرکاری عرضیوں تک ہر جگہ استعمال کیا گیا ہے
تا کہ سکولوں سے ہی بچے یہ سیکھ لیں کہ

کہ آداب غلامی کیا ہوتے ہیں اور کیسے ایک دن کی چھٹی کی درخواست کا آغاز بھی Beg سے ہوتا ہے

دوم:
ہر درخواست کے آخر پر
Your servant
،Your most obedient servant ،
جیسے الفاظ لکھے گئے تھے
تا کہ مقامی لوگوں کو یہ معلوم ہو رہے
کہ انکی اوقات نوکر اور رعیت سے زیادہ نہیں

یہ ایک پوری

تہذیبی واردات تھی
جو اس سماج پر مسلط کی گئی۔
چونکہ اہم مناصب پر پھر یہی
’مقامی جنٹل مین‘ فائز ہوئے
اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یہی افسر شاہی ہمیں ورثے میں ملی
اور کسی نے اس سماجی واردات پرنظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی
اس لیے یہ ’مقامی جنٹل مین‘ آج بھی

’ انگریزی آداب‘
سے سماج کی پشت لال اور ہری کیے ہوئے ہیں۔

اس جنٹل مینی کے خلاف پہلی آواز دلی سے اٹھی۔
لعل گوردیج نامی ایک مداری دلی کے چوراہے میں بندر لے کر آتا
اور ڈگڈگی بجا کر اسے کہتا : جنٹل مین بن کے دکھا۔
لعل گوردیج کا بندر ہیٹ لگاتا ، چشمہ پہنتا
اور پورا

' جنٹل مین‘
بن جاتا۔
بندر اور مداری دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
مقامی جنٹل مین ناراض ہو گئے۔
( دل چسپ بات یہ ہے کہ بندر نچانے والے آج بھی بندر نچاتے وقت یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں
کہ جنٹل مین بن کے دکھا۔
شاید اسی لیے انگریز نے ان کا شمار ’ مجرم قبیلوں‘ میں کیا ہوا تھا)

کبھی کبھی جب دن ڈھل رہا ہوتا ہے ، مارگلہ سے اترتا ہوں تو یوں لگتا ہے جنگل سے بندر شور مچا مچا کر کہہ رہے ہوں:
’’ جنٹل مین بن کر تو دکھاؤ‘‘۔

پہاڑ سے اترتا ہوں تو دیکھتا ہوں سارا ہی شہر جنٹل مین بنا ہوتا ہے۔

Copied

Address

79 Abbasia Road Arain Market
Liaquat Pur
64000

Telephone

0685795710

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mehar M Boota Javid posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mehar M Boota Javid:

Videos

Share


Other Liaquat Pur media companies

Show All