Malik salman

Malik salman Columnist & Journalists President
Pakistan Federation of Columnists. Largest Organization of the Columnists.

https://www.roznama92news.com/%DA%A9-%D8%B3%DA%A9-%D8%B1%D9%88%DA%A9%DB%8C-%D9%88شہباز شریف نے دلبرداشتہ احد چیمہ کو اس ...
12/06/2022

https://www.roznama92news.com/%DA%A9-%D8%B3%DA%A9-%D8%B1%D9%88%DA%A9%DB%8C-%D9%88

شہباز شریف نے دلبرداشتہ احد چیمہ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ پاکستان اس وقت مشکل حالات میں ہے اور ایسے میں پاکستان کو احد چیمہ کی ضرورت ہے۔ جب وطن عزیز کی بات آئی تو احد چیمہ انکار نہ کرسکے ۔شہباز شریف کی کلوز ورکنگ ٹیم میں پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ،پرسنل سیکرٹری سمیر سید کے ساتھ ساتھ احد چیمہ کی شمولیت بہترین فیصلہ ثابت ہوگا۔امید ہے کہ احد چیمہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔

https://www.roznama92news.com/%D8%AA%D8%AD-%DB%92-%D9%86%D9%85-%D8%B1-%D8%AA%D9%84اخلاقیات کے لمبے چوڑے لیکچر دینے والے ...
28/10/2021

https://www.roznama92news.com/%D8%AA%D8%AD-%DB%92-%D9%86%D9%85-%D8%B1-%D8%AA%D9%84
اخلاقیات کے لمبے چوڑے لیکچر دینے والے اینکرز خود اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں ،پیمرا قوانین اور صحافتی اقدار کو بری طرح پامال کر رہے ہیں۔لگتا ہے کہ تفریح کے نام پر عام آدمی سے لیکر سیاستدانوں تک سب کو ’’ڈی گریڈ‘‘ کرنا اوربے حیائی کو ترویج دینا مقصود ہے۔

سوشل میڈیا نیوز چینلز کے نام پر جعل سازی عام ہے۔غیرقانونی پریس کارڈز اور ’’چینل لوگو‘‘ استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروا...
16/10/2021

سوشل میڈیا نیوز چینلز کے نام پر جعل سازی عام ہے۔غیرقانونی پریس کارڈز اور ’’چینل لوگو‘‘ استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے ۔ایسے نام نہاد صحافی اور جعل ساز ’’فیک ٹی وی چینلز‘‘ کے سی ای او اور چیئرمین بنے ہوئے ہیں جن کو کوئی رجسٹرڈ اخبار یا ٹی وی چینل اپنارپورٹر بھی نہ بنائے۔

https://www.roznama92news.com/%D8%B3%D9%88%D9%84-%D9%85%DB%8C-%D8%B1-%D9%88%D8%B1-%D8%B3

28/09/2021

PFC 😍Same Day 2018🙂

https://dailypakistan.com.pk/11-Aug-2021/1327071بیوروکریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گاملک محمد سلمان(حاشیہ)پرائیویٹ ...
11/08/2021

https://dailypakistan.com.pk/11-Aug-2021/1327071
بیوروکریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا
ملک محمد سلمان(حاشیہ)
پرائیویٹ ممبر ڈے پر چوہدری پرویزالٰہی ”شیر شیر“ کے نعروں میں پنجاب اسمبلی نے گورنر کی جانب سے اعتراضات لگا کر بھجوایا گیا ”استحقاق ترمیمی بل“ دوبارہ منظور کرلیا۔ مذکورہ بل پر حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے کسی نے اعتراض نہیں کیا اور اسمبلی سیشن میں اس بل کو ایجنڈے پر لائے بغیر اور بغیر بحث کے ہی منظور کر لیا گیا ۔اراکین پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی کی ”جے جے کار“ہو رہی ہے۔
کامیاب ریاست کےلئے ضروری ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی بجائے معاون ہوں۔ مگر ہمارے معاملات ہی نرالے ہیں، ایک دوسرے کے اختیارات کو استعمال کر کے اپنی برتری اور بالا دستی قائم کرنا اور ایک دوجے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے۔قانون سازوں نے تمام اختیارات کا مرکز اپنی ذات کو بنا لیا،بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں قانون سازی کا عمل غیر مربوط، سطحی اور شخصی مفادات کے بہت زیادہ تابع ہے اسی لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمارا ملک اسکی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔ جتنے بھی قوانین بنائے جاتے ہیں اسکے پیچھے بنیادی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ اختیارات حکمرانوں کے پاس آجائیں ، اکا دکا قوانین عوامی مفاد کیلئے بنائے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر قوانین ایسے ہوتے ہیں جو صرف دکھاوے کیلئے ہوتے ہیں۔ استحقاق بل پر پوری اسمبلی ایک ہی صف میں کھڑی نظر آئی ، بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو کنٹرول کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن صحافیوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اس احتجاج کے نتیجے میں صحافیوں بارے ترامیم کے بعد اسمبلی نے اتفاق رائے سے دوبارہ بل منظور کر لیا۔ اس نئے قانون کے مطابق پہلی بار ایک ”پارلیمانی جوڈیشل کمیٹی“کا قیام عمل میں لایا گیا۔
سینٹ ،قومی اسمبلی سمیت تمام صوبوں میں پہلے سے ہی اراکین اسمبلی کے استحقاق کے حوالے سے استحقاق کمیٹی موجود ہے۔جہاں سرکاری ملازمین کی اچھی خاصی ”خجل خواری“ کی جاتی ہے۔
لیکن اب اس قانون کے مطابق جوڈیشل استحقاق کمیٹی قائم ہو گئی ہے جو کسی بھی رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے کی صورت میں استحقاق مجروح کرنے والے شخص کو طلب کر کے اس کو سزا دے سکے گی۔ اس کمیٹی کی سزا کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا ۔ کمیٹی کی سزا بارے اپیل سپیکر پنجاب اسمبلی کوہی کی جا سکے گی۔ جوڈیشل کمیٹی کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات اور سمری ٹرائل کے دوران ایک دن میں سزا سنانے کا اختیار بھی ہوگا۔ ان سزاﺅں میں کمی یا اضافہ سپیکر کی صوابدید ہوگا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔ یہ قانون گورنر کے دستخطوں کے بغیر ہی نافذ العمل ہو گا کیونکہ گورنر ایک بار اعتراض لگا کر بل واپس بھیج سکتا ہے دوبارہ اگر اسمبلی اسے منظور کر لیتی ہے تو وہ ازخود نافذ العمل ہو جاتا ہے ۔
اب سرکاری ملازمین اراکین اسمبلی کو پروٹوکول دینے کیلئے تیار رہیں ،اگر کسی پارلیمینٹیرین نے کمی محسوس کی تو خیر نہیں۔مشاہدے کی بات ہےکہ اراکین اسمبلی اپنے ووٹروں سپورٹروں کیلئے ناجائز فیور حاصل کرنا بھی اپنا حق تصور کرتے ہیں اورافیسر کے انکار کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اب نئے قانون کے بعد سرکاری ملازم کسی رکن اسمبلی کو ناجائز کام سے بھی انکار کرتے وقت ہزار بار سوچے گا کہ کہیں صاحب ناراض ہوکرپارلیمانی عدالت میں نہ طلب کر لیں۔
کسی جرم کو ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک قانونی نظام ہے،مجرم کو عدالت میں پیش کر کے فردجرم عائد کی جاتی ہے جس کے بعدعدالت شہادتوں اوردلائل پر فیصلہ دیتی ہے،مگر استحقاق بل کی منظوری کے بعد بیوروکریسی مکمل طورپر اسمبلی ارکان کے رحم و کرم پر ہو گی۔جس کا جو جی چاہے گا زبانی حکم دے گا اگر حکم مانا گیا اور اس میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تو ذمہ داری بیوروکریسی کی اورنہ ماناجائے تو اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کی طرف سے دی جانے والی سزا کے حقداربھی بیوروکریٹ ہی ٹھہریں گے۔دنیا بھر کے پارلیمانی اورجمہوری ممالک میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔وفاق ،آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان سمیت کسی صوبائی حکومت نے اس طرح کی قانون سازی نہیں کی۔بیوروکریسی سے مسئلہ صرف اراکین پنجاب اسمبلی کو ہی کیوں ؟
سزا کا اختیار صرف عدلیہ کوحاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 175سے متصادم ہونے کی وجہ سے وثوق سے یہ پشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ عدالت اسے کالعدم قرار دے دے گی۔
سول بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر مختلف حکومتیں مختلف اقدامات عمل میں لاتی رہی ہیں، لیکن پولیٹیکل وِل نہ ہونے کی بناءپر پہلے سے چلتا ہوا بیوروکریٹک نظام ٹھیک ہونے کے بجائے الٹا خراب ہوتا چلاگیا۔ اس کی ایک وجہ تو عمومی طور پر یہ ہوتی ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومتوں کے دور میں شروع ہونے والی ریفارمز کو تسلسل دینے کی بجائے نت نئے تجربے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے افسران اپنی پوزیشن بچانے کی خاطر سیاستدانوں کے غلط احکامات بھی مانتے ہیں،ہمارے بیورو کریٹ پہلے ہی اس قدر سیاست زدہ ہو چکے ہیں کہ انہیں حکومتی جلسے کامیاب بنانے کے لیئے افرادی قوت بھی مہیا کرنا پڑتی ہے۔ بیورو کریسی کو اکثر معاملات میں خاموش تماشائی بننا پڑتا ہے۔کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے کی جرات کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ان حالات میں ایک سول سرونٹ کیسے انصاف کر سکتا ہے ؟کیا وہ عام آدمی کی خدمت کر سکتا ہے؟ ۔اس صورت حال میں بیورو کریسی پر نا اہلی،بد عنوانی، قانون شکنی کاالزام نہیں دھرا جا سکتا۔
آج چین کی ترقی کی پوری دنیا میں مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ چین کی ترقی کی اگرچہ کوئی ایک وجہ یا محض چند اصول نہیں ہیں تاہم چین کی قیادت نے جو نمایاں کام کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ چینی قیادت نے سرکاری ملازمین کو بہت مضبوط کیا، انہیں مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ،ان کے کام میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاتی۔ بیورو کریسی دراصل انتظامیہ ہوتی ہے جو امور مملکت کو حکومتی پالیسیوں اور قوانین کے تحت چلاتی ہے،عوامی مسائل کے حل کیلئے کام کرتی اور نظم و نسق قائم رکھتی ہے،دنیا بھر میں پالیسی سازی اور عملدرآمد کے معاملہ میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے ۔
ایک طرف وزیراعظم کہتے ہیں کہ بیوروکریسی بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام دے کسی کے دباو میں آئے نہ کسی کے خلاف ضابطہ حکم کو تسلیم کیا جائے۔دوسری طرف پنجاب اسمبلی نے ارکان اسمبلی کو یہ آئینی اختیار دیدیا کہ وہ بیوروکریسی کو کوئی بھی کام کرنے کا حکم دے سکتے ہیں اورسرکاری افسر کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ دراصل بیوروکریسی کو ریاست کی ملازمت سے نکال کر حکومت کا خدمت گار بنانے کی کوشش ہے ۔وزیراعظم عمران خان کوچاہئے کہ پنجاب اسمبلی کو بیوروکریسی پر بادشاہت کرنے کی ہرگز اجازت نا دیں بلکہ میرٹ اور انصاف کو یقینی بنانے کیلئے بیوروکریسی کو آزادی کی جانب لے کر جائیں۔منتخب نمائندوں کا استحقاق اہم لیکن سرکاری افسران کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا، بیورو کریسی کو سیاسی اور پارٹی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اس کی صلاحیتوں سے عوام کو سہولت بہم پہنچائی جائے۔ بیورو کریسی کو بااختیار بنانا ہو گا، بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے کی بجائے ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔

پرائیویٹ ممبر ڈے پر چوہدری پرویزالٰہی ’شیر شیر‘ کے نعروں میں پنجاب اسمبلی نے گورنر کی جانب سے اعتراضات لگا کر بھجوایا گیا ’استحقاق ترمیمی

https://dailypakistan.com.pk/07-Aug-2021/1325375ناکام کمانڈرملک محمد سلمان(حاشیہ) گذشتہ شب صوبائی دارلحکومت لاہور میں نا...
07/08/2021

https://dailypakistan.com.pk/07-Aug-2021/1325375
ناکام کمانڈر
ملک محمد سلمان(حاشیہ)
گذشتہ شب صوبائی دارلحکومت لاہور میں نامزد صوبائی وزیر اسد کھوکھر کے بیٹے حسین کھوکھرکی شادی کی تقریب میں دو درجن سے زائد صوبائی و وفاقی وزراءاور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت سینکڑوں اہم شخصیات شریک تھیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وقت کی قلت کے باعث جلدی اجازت چاہی ۔ صوبائی وزیر اور ان کے دونوں بھائی وزیراعلیٰ پنجاب کوگیٹ تک رخصت کرنے آئے ،وزیراعلیٰ ابھی اپنی گاڑی میں سوار ہوئے ہی تھے کہ پہلے سے تاک لگائے حملہ آور نے وزیر اعلیٰ کوالوداع کرنے کیلئے ہاتھ ہلاتے مبشر کھوکھرکو دنیا سے وداع کردیا۔
عینی شاہدین کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کے ٹویٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حملہ آور نے وزیر اعلیٰ کی گاڑی کی قریب کھڑے ہوکر فائرنگ کی اور مبینہ طور پر وزیراعلی ٰکی ذاتی سکیورٹی نے حملہ آور کو قابو میں لے کر گرفتار کیا۔
ملزم نے ابتدائی تفتیش میں انکشاف کیا کہ وہ شادی میں سواآٹھ بجے آیا،سکیورٹی پر مامورکسی سٹاف نے چیک نہیں کیا اور وہ مہمانوں کےساتھ ہی جا کر بیٹھ گیا ،جب مبشر کھوکھر بھائیوں کے ہمراہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو رخصت کر رہا تھا توحملہ آور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پیچھے پیچھے مارکی سے باہر آیا ، وزیر اعلیٰ پنجاب گاڑی میں بیٹھے تو حملہ آور نے مبشر کھوکھر پرفائرنگ کر دی۔
عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا واقعہ وزیراعلیٰ کی کار سے چند گز کے فاصلے پر ہوا۔حملہ آوار کا ٹارگٹ ہی مبشر کھوکھر تھا ۔ورنہ وہی گولی وزیر اعلیٰ کو بھی لگ سکتی تھی۔ حملہ آوار چاہتا تو وزیراعلیٰ سمیت کسی بھی وزیر یا تقریب میں شریک وی آئی پی کو باآسانی ابدی نیند سلا سکتا تھا۔یہ معمولی واقعہ نہیں ہے ۔یہ ہماری سکیورٹی اور پولیس کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ہے کہ لاءاینڈ آرڈر کی مسلسل خراب صورت حال ،چوری، ڈکیتی،بھتہ خوری اور اغواءو قتل کے نہ رکنے والے واقعات کے باوجود سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو کیوں نہیں ہٹایا جارہا۔صوبائی دارالحکومت میں کیوں شہریوں کی جان و مال کو داﺅ پر لگایا جارہا ہے ۔ لاہور میں بے یقینی اور خوف و ہراس کی فضاءہے۔کرائم کو روکنے کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی،بھتہ خوروقبضہ مافیا دن دیہاڑے زمینوں اور پلازوں پر قبضے کررہے ہیں۔عوام تو عوام اب تو وزیر اعلیٰ بھی محفوظ نہیں رہے۔
ماضی میں جب کیپٹن لیاقت ملک سی ٹی او لاہور تھے تووہ نا صرف ٹرانسپورٹرز کو قانون کے دائرے میں لانے میں کامیاب ہوئے بلکہ انہوں کمال جرات کے ساتھ اشرافیہ اور سرکاری گاڑیوں کو بھی نمونہ والی اوریجنل نمبر پلیٹ لگانے پر مجبور کردیا۔وہ خود فیلڈ میں نکل جاتے اور وائلیشن پر زیرو ٹالرینس پالیسی کا مظاہرہ کرتے ،سفارشی کال لینے کی بجائے چالان کرتے اور یہ کہہ دیتے کہ جن سے آپ بات کروانا چاہتے ہیں انکا نام ہی کافی ہے چالان ضرور ہوگا، مگر ان کے نام کی وجہ سے میں پاکٹ سے جرمانہ پے کردیتا ہوں۔ ایسے میں وائلیشن کرنے والا نا صرف شرمسار ہوتا بلکہ آئندہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے باز رہتا۔سابقہ سی ٹی او حماد عابد کے دور میں وارڈن گردی کا سلسلہ شروع ہوا ۔لاہور ٹریفک پولیس کی کرپشن اور من مانیوں کی لمبی داستان پھر کبھی سہی۔لیکن سکیورٹی کے لحاظ سے غفلت ، لاپرواہی یا مبینہ سرپرستی کہہ لیں ۔آپ آج ہی مشاہدہ کرکے دیکھ لیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں کسی ایک رکشہ کی بھی نمبر پلیٹ اوریجنل اور نمونہ کے مطابق نہیں ہے جبکہ بیشتر کی نمبر پلیٹ چسپاں ہی نہیں ہوتیں یا انتہائی مبہم۔اسی طرح ٹویٹا ہائی ایس ،وین ،بس ،ٹرک سمیت پبلک ٹرانسپورٹ والے غیرنمونہ نمبر پلیٹ یا بغیر نمبر پلیٹ ہی دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔غیرنمونہ یا بغیر نمبر پلیٹ ہونے کی وجہ سے نا صرف یہ لوگ کھلم کھلا ”ون وے“ کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ اشارے پر رکنے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔
آپ کسی اشارے پر رکتے ہوئے ارد گرد والی کاروں کی نمبر پلیٹ پر ایک نظر ڈالیں، ایک نئی واردات دیکھنے کو ملے گی۔نمبر پلیٹ تو اوریجنل یا نمونہ والی ہی ہوگی مگر نمبر پلیٹ کو بلیک کلر کے ایک خاص لیمینشن پیپر کے ساتھ مبہم کیا گیا ہے۔اس طریقہ کار کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس طریقہ سے نمبر پلیٹ سیف سٹی کے کیمرہ میں نہیں آتی اور ہم آن لائن چالان سے بچ جاتے ہیں۔چالان سے بچنے کیلئے اس قسم کا غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا قانون شکنی اور قابل گرفت عمل ہے ۔ اس طرح کی مبہم نمبر پلیٹ کا مقصد صرف چالان بچانا نہیں ہے بلکہ دیگر جرائم بھی ہیں۔آپ چوری ، ڈاکہ زنی،اغوااور قتل و غارت کرکے آسانی سے بھاگ سکتے ہیں اور آپ کی گاڑی واضح نمبر پلیٹ نہ ہونے کی وجہ سے قانون کی نظروں سے اوجھل ہونے میں کامیات رہتی ہے۔
جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی کرنے اور انکو قانون کے دائرے میں لانے کیلئے نہ صرف ایسی تمام پرائیویٹ و کمرشل گاڑیوں کے مالکان کے خلاف فوری سخت تادیبی کارروائی کی جائے بلکہ پولیس میں موجود ایسی تمام کالی بھیڑوں سے محکمہ کو پاک کیا جائے۔
حال ہی میں ایک جونئیر ایس پی حفیظ بگٹی نے معزز عدالت کے سامنے پولیس ڈیپارٹمنٹ کوشرمسار کروایا ۔چاہئے تو یہ تھا کہ اس کے خلاف محکمہ خود کاروائی کرتا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جہاں پی ایس پی افسران کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال پر کچھ دن کیلئے او ایس ڈی ہوتے ہیں اور اگلے ہی ہفتے نئی پوسٹنگ انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔تمام طرح قانون شکنیوں اور غفلت کے باوجود عہدے ،الاﺅنسز اور پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں۔اگر پولیس کا امیج ٹھیک کرنا ہے تو ایسے مجرمانہ ذہنیت اور مسلسل غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے والے افسران سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔آرمی کی بطور ادارہ عزت و وقار اور کامیابی کی وجوہات میں سب سے اہم احتساب اور میرٹ ہے۔آرمی میں سخت محنت سے کمیشن کا امتحان پاس کرنے والے افسران کو پولیس کی طرح ”عمر پٹہ“ نہیں مل جاتا بلکہ آرمی میں ایک منظم میرٹ اور چیک سسٹم کے تحت قریباً% 70کمیشنڈ افسران کو بطور میجر ریٹائرڈ کردیا جاتا ہے جبکہ% 20فیصد لیفیٹننٹ کرنل اور کرنل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں ، صرف %8 فیصد کے قریب بریگیڈئیر جبکہ سارا کیرئیر نیندیں حرام کرنے والے بمشکل %2 جرنیل بننے کا خواب شرمندہ تعبیر کر پاتے ہیں۔جبکہ وائلیشن یا کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف ورزی پر سپاہی سے جرنیل تک کوبراہ راست گھر بھیج دیا جاتا ہے۔پولیس میں بھی یہی طریقہ رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کرپٹ اورغفلت برتنے والے افسران کو جبری ریٹائرڈ کیا جاسکے اور سب کو معلوم ہو کہ محنت ،ایمانداری اور کارگردگی دکھانے والوں کیلئے ہی آگے بڑھنے کے مواقع ہیں۔

گذشتہ شب صوبائی دارلحکومت لاہور میں نامزد صوبائی وزیر اسد کھوکھر کے بیٹے حسین کھوکھرکی شادی کی تقریب میں دو درجن سے زائد صوبائی و وفاقی وزراءاور وزیراعلیٰ

31/07/2021

آپ نے عمران خان کی اس سے اچھی کامیڈی نہیں دیکھی ہوگی

Share it with others to Enjoy 😉😋😄

ویراعظم آزاد کشمیر کون؟ سرپرائز مل سکتا ہے!!
29/07/2021

ویراعظم آزاد کشمیر کون؟ سرپرائز مل سکتا ہے!!

12/12/2018
گھروں میں مقید خواتین کو موقع ملا تو انہوں نہ صرف اپنا آپ منوایا بلکہ اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مردوں کو بھی پی...
05/04/2018

گھروں میں مقید خواتین کو موقع ملا تو انہوں نہ صرف اپنا آپ منوایا بلکہ اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،گزشتہ ایک دہائی سے ہر تعلیمی میدان چاہے جنرل تعلیم ہو یا سی ایس ایس اور پی ایم ایس کے مقابلہ جاتی امتحانات تمام نمایاں پوزیشنز پر خواتین کا ہی غلبہ نظر آتا ہے۔

Address

Lahore

Telephone

+923008080566

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Malik salman posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Malik salman:

Videos

Share

Category