لشکرجمعیت

لشکرجمعیت اس پیج پر هم جمعیت علماء اسلام کے متعلق مواد کا اشتراک کریں گے

19/06/2023

(ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ دوڑ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍتنے ﺁﮔﮯ ﻧﮑﻞ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﭘﺎﺱ میں ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ)

08/04/2023

ترجمانPDM حافظ حمد اللہ صاحب کا شاعرانہ انداز میں عدلیہ کے تین ججوں پر طنز
¶اپیل بھی تم، دلیل بھی تم
گواہ بھی تم، وکیل بھی تم
جس سے بھی چاہو حلال کہہ دو
جس سے بھی چاہو حرام کہہ دو¶

28/03/2023

تو ہم ہے خاموش کہ بر ہم نہ ہو عالم کا نظام
یہ(پی ٹی آئ) سمجھتے ہیں کہ ہم میں طاقت فر یاد نہیں
مفتی اسعد محمود نے یوتیوں کی چیخیں نکال دی

02/02/2023

مصر سے آۓ ہوے معزز مہمان تلاوت فر جارہے ہیں۔۔۔

02/02/2023
02/02/2023

قاری عبد الباسط صاحب تلاوت کلام پاک فر ما رہے ہے ۔

02/02/2023

محفل حسن قرات

18/01/2023

گورنر صاحب چابی ترے والا۔۔۔
گورنر صاحب چابی لے لو۔۔۔

28/12/2022

شب بخیر

28/12/2022

مولانا کے جانثار وفادار ساتھیوں السلام علیکم

23/12/2020

مٹ گۓ مٹانےوالے, جھک گۓ جھکانے والے,گرگۓگرانے والے,نام تھا, نام هےاورنام رهےگا.ان شاءالله مولانا فضل الرحمان صاحب

25/10/2020
17/10/2020
19/09/2020
15/09/2020
06/09/2020
05/09/2020
02/09/2020
01/09/2020
30/08/2020
28/08/2020
27/08/2020
25/08/2020
25/08/2020
24/08/2020
23/08/2020
22/08/2020
22/08/2020
18/08/2020

You like him or not but the fact is he is a man who has command on every subject. Speaks with confidence/ knowledge.

18/08/2020

پاکستانی معیشت کیلئےایک اورخوشخبری: جولائی 2020 میں سمندرپارپاکستانیوں کیجانب سےبھجوائی جانےوالی ترسیلاتِ زر 2768 ملین ڈالرز تک پہنچ گئیں جوملکی تاریخ میں 1 ماہ میں بھجوایاجانےوالا سب سےزیادہ سرمایہ ہے۔یہ ترسیلاتِ زر جون 2020 کی نسبت 12.2%جبکہ جولائی 2019 کی نسبت 36.5% زیادہ ہیں۔

15/08/2020

14 اگست: پاکستان کا یومِ آزادی انڈیا کے یومِ آزادی سے ایک دن پہلے کیوں منایا جاتا ہے؟

ماؤنٹ بیٹن 14 اگست 1947 کو محمد علی جناح کی تقریر سنتے ہوئے

پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس طویل عرصے میں ہم اپنی تاریخ کے کتنے ہی گوشوں سے ناواقف رہے۔ ہم اپنی یوم آزادی کی تقریبات ہر سال 14 اگست کو اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسایہ ملک انڈیا اپنی یہی تقریبات 15 اگست کو مناتا ہے اور ہر سال یہ سوال اٹھتا ہے کہ دو ملک جو ایک ساتھ آزاد ہوئے ہوں، ان کے یوم آزادی میں ایک دن کا فرق کیسے آ گیا؟ اس تحریر میں ہم نے اسی معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان رمضان کی 27ویں شب کو آزاد ہوا اور یہ کہ جس دن پاکستان آزاد ہوا اس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن 14 اگست 1947 کی تاریخ تھی اور ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے 'ایک دن بڑے' ہیں۔

لیکن جب ہم 14 اگست 1947 کی تقویم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن تو جمعرات تھی اور ہجری تاریخ بھی 27 نہیں 26 رمضان تھی۔

پھر ہم پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ دیکھتے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے 11 ماہ بعد نو جولائی 1948 کو جاری ہوئے تھے۔ ان ڈاک ٹکٹوں پر واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی 15 اگست 1947 طبع ہوا ہے۔

پھر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان کا یوم آزادی بھی 14 نہیں بلکہ 15 اگست 1947 ہے، تو پھر یوم آزادی کی پہلی سالگرہ 14 اگست 1948 کو کیوں منائی گئی؟ یوں ذہن ایک مرتبہ پھر الجھ جاتا ہے کہ پاکستان آزاد کب ہوا تھا: 14 اگست 1947 کو یا 15 اگست 1947 کو۔۔۔

اگر ہم 14 اگست 1947 کو آزاد ہوئے تو آزادی کے گیارہ ماہ بعد شائع ہونے والے ڈاک ٹکٹوں پر یوم آزادی کی تاریخ 15 اگست 1947 کیوں درج ہوئی اور اگر پاکستان 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا تو ہم نے آزادی کی پہلی سالگرہ 15 اگست کے بجائے 14 اگست 1948 کو کیوں منائی؟ اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ آج تک یہ سالگرہ 15 کے بجائے 14 اگست کو کیوں مناتے چلے آ رہے ہیں؟

15/08/2020

یہ ہمارے ملک کا حال ہے۔کہ مسجدکے مہراب میں لوگ ڈانس کرتے ہیں اور تصویر نکالتے ہیں اور حکومت پنجاب اس کو اجازت دیتا ہے۔

14/08/2020

ترکی نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو منافقانہ طرز عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ اور خطے کے لوگ اس معاہدے کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔

جمعرات کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔

ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ رویہ 'منافقانہ'ہے۔

ترکی کا کہنا ہے کہ تاریخ اور خطے کے لوگ اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر متحدہ عرب امارات کے 'منافقانہ طرز عمل' کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے کیونکہ ترکی کے مطابق
یو اے ای نے یہ فیصلہ اپنے مفادات کے لیے کیا ہے۔
اس تحریری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے خلاف 'فلسطینی عوام اور انتظامیہ کا سخت ردعمل جائز ہے۔'

'یہ بہت پریشان کن بات ہے، متحدہ عرب امارات کو عرب لیگ کی جانب سے تیار کردہ عرب امن منصوبے کے ساتھ چلنا چاہیے تھا۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ اس تین طرفہ اعلان کو فلسطینی عوام کے لیے فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے۔'
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو اظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید

یاد رہے کہ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن یہ تعلقات برسوں سے کشیدہ ہیں۔ سنہ 2010 میں اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کی پٹی پر ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرنے والے 10 ترک کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جمعرات کو ہونے والے معاہدے کو مختلف حلقوں کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ، بنیامین نتن یاہو اور ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔

14/08/2020

صبا قمر اور بلال سعید کے خلاف مسجد وزیر خان میں گانے کی شوٹنگ پر مقدمہ درج-
لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان میں ایک گانے کی شوٹنگ کرنے پر اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

ان دونوں کے خلاف ایف آئی آر جمعرات کو صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کے اکبری گیٹ تھانے میں وکیل فرحت منظور کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 کے تحت کاٹی گئی اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے ’مسجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے مسجد کے اندر ڈانس/گانا عکس بند کر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی۔‘

’قبول ہے‘ نامی اس گانے کو بلال سعید نے گایا ہے جبکہ صبا قمر اس میں بطور اداکارہ اور ڈائریکٹر کام کر رہی تھیں۔ اس گانے کے ریلیز ہونے سے قبل دونوں کو سوشل میڈیا پر مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہوا تھا۔ جبکہ بعض لوگوں نے ان کی حمایت بھی کی تھی۔

تاہم اس حوالے سے گلوگار بلال سعید کا کہنا تھا کہ فلم بندی کے وقت مسجد کی انتظامیہ بھی موجود تھی اور وہ گواہ ہیں کہ وہاں کسی قسم کی کوئی موسیقی نہیں چلائی گئی۔

یاد رہے کہ 12 اگست کو ریلیز ہونے والے اس گانے میں وزیر خان مسجد میں فلمائے گئے سینز موجود نہیں ہیں۔

14/08/2020

صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت میں پولیس نے طالب علم حیات بلوچ کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں فرنٹیئر کور کے اہلکار کو گرفتار کر کے تفتیش کے لیے سات روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔

تربت پولیس نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ایف سی ساؤتھ نے اندرونی انکوائری کے بعد ملزم شاہدی اللہ کو تربت پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کے حوالے کیا جس کے بعد اب ملزم کی باقاعدہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 13 اگست کو آبسر روڈ پر بلوچی بازار کے مقام پر ایف سی کی دو گاڑیوں پر دھماکہ ہوا تھا، جس پر ایف سی کے اہلکار نے قریبی باغات میں موجود محمد حیات کو اپنی سرکاری رائفل سے گولیوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں محمد حیات ہلاک ہوگئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش جاری ہے اور ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر اور گواہوں کے بیان ریکارڈ مکمل کرنے کے بعد چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

اس سے قبل پولیس نے ایف سی کے ایک ’نامعلوم‘ اہلکار کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔

یہ مقدمہ حیات بلوچ کے بھائی مراد سعید کی مدعیت میں درج کروایا گیا ہے۔

مراد سعید نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ وقوعہ کے وقت تقریباً دن بارہ بجے وہ ڈیوٹی پر تھے جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ایف سی اہلکار نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق جب مراد بلوچ بتائی گئی جگہ پہنچے تو ان کے بھائی حیات کی لاش خون میں لت پت سڑک کے جنوبی کنارے پر پڑی ہوئی تھی۔

'میرے پوچھنے پر میرے والد نے بتایا کہ ایف سی کے دو اہلکار باغ میں آئے اور حیات کو گھسیت کر سڑک پر لے گئے۔۔۔'

یہ بھی پڑھیے
بلوچ والدین اپنے بچے سکول بھیجنا بند کر دیں!

’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو صرف ایک کالونی سمجھا ہے‘

’بھائی لاپتہ ہوا تو نقاب اتارا اور احتجاج شروع کر دیا‘مدعی مقدمہ کے مطابق ان کے والد نے انھیں بتایا کہ 'ایف سی کے ایک باریش سفید کپڑوں میں ملبوس شخص نے میرے سامنے حیات کو سڑک پر اپنی رائفل سے فائرنگ کر کے قتل کیا۔'

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ملزم کو سامنے آنے پر ان کے والد اور والدہ شناخت کر سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا۔

اس سے قبل ایس ایس پی تربت نجیب پندرانی نے بتایا تھا کہ ایف سی کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی انکوائری میں پایا گیا ہے کہ اہلکار نے زیادہ شدت کے ساتھ، اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اور جلد بازی میں ردِ عمل دیا جو کہ اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق جس جگہ دھماکہ ہوا اس کے قریب ہی باغیچے میں حیات بلوچ کام کر رہے تھے اور شاید اس وجہ سے اہلکار نے یہ سمجھا کہ حیات بلوچ اس دھماکے کا ذمہ دار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’واقعے کی اطلاع جب پولیس کو موصول ہوئی تو اس کی تفصیلات سے ایف سی کے حکام کو آگاہ کیا گیا اور انھوں نے اپنی انکوائری کے بعد واقعے میں ملوث اہلکار کو پولیس کے حوالے کر دیا۔‘

ایس ایس پی تربت نجیب پندرانی کا کہنا تھا کہ حیات بلوچ کے والد کے بیان پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔

پولیس کے مطابق حیات بلوچ کے والد واقعے کے عینی شاہد ہیں اور ان سے جمعرات کی دوپہر کو بیان لینے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ اس وقت اس حالت میں نہیں تھے کہ بیان دے سکیں۔

’جس پر ہم نے حیات بلوچ کے لواحقیقن سے گزارش کی ہے کہ اس کے والد جس وقت بھی مناسب سمجھیں واقعے کے متعلق پولیس کو بیان دے دیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حیات بلوچ کے والد کے بیان پر من و عن مقدمہ درج کر کے ہر صورت انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ جس میں فرنٹیئر کور کا تعاون ہمیں حاصل ہے۔

حیات بلوچ کون تھے؟
حیات بلوچ ضلع تربت کے رہائشی تھے۔ وہ چار بہن بھائی تھے جن میں حیات بلوچ کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ کراچی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔

کورونا کی وجہ سے یونیورسٹی بند تھی جس وجہ سے وہ آبائی علاقے تربت میں مقیم تھے۔

حیات بلوچ کے والد معزر محمد علاقے کی جانی پہچانی سماجی شخصیت ہیں اور کھجور کے کاروبار سے منسلک ہیں

Address

Kohat
Kohat
26000

Telephone

+923401902812

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when لشکرجمعیت posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category