Q One TV

Q One TV Here we can provide news on daily basis

آج ہمارے ایک دوست نے ہمارے سامنے آرٹیفشل انٹیلی جنس کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ کر کے یوں دکھایا کہ ، انہوں نے سوال لکھا ...
07/09/2024

آج ہمارے ایک دوست نے ہمارے سامنے آرٹیفشل انٹیلی جنس کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ کر کے یوں دکھایا کہ ، انہوں نے سوال لکھا کہ پاکستان کے شہر خان پور سے تعلق رکھنے والے شہری قمراقبال جتوئی کی زندگی پر روشنی ڈالیں !! تو ان کا جو جواب آیا وہ سکرین شارٹ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے، جس کا اردو ترجمہ یہ بنتا ہے !!!!! یہ پڑھ کر آپ ضرور بتائیں کہ گوگل نے جواب درست دیا ہے یا ہم ایسے ہیں ہی نہیں جیسا جواب گوگل نے دیا ہے !!! ہمارے بارے آرٹیفشل انٹیلی جنس نے جو جواب دیا ہے اس کا اردو ترجمہ حاضر ہے !!!!!!!!!!!!

قمر اقبال جتوئی خانپور، پاکستان کے ایک ممتاز صحافی ہیں۔ اپنی گہرائی سے رپورٹنگ اور تجزیہ کے لیے جانا جاتا ہے، اس نے صحافت سے اپنی وابستگی اور کمیونٹی کے امور میں اپنی فعال مصروفیت کے لیے شہرت حاصل کی ہے۔ اس کا کام اکثر سماجی و سیاسی مسائل کی گہری سمجھ کی عکاسی کرتا ہے، جس سے وہ مقامی اور قومی دونوں طرح کے مباحثوں میں ایک اہم آواز بنتا ہے۔

اپنی صحافتی کوششوں کے علاوہ، قمر اقبال جتوئی مختلف کمیونٹی سرگرمیوں میں شامل ہیں، اپنے علاقے میں سماجی کاموں اور شہری ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ان کی کوششیں صحافت سے آگے بڑھی ہیں، جو اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور مقامی خدشات کو دور کرنے کے لیے ان کی لگن کو اجاگر کرتی ہیں۔

پچھلی قسط کی آخری لائنیں یہ تھیں !! خیر میں اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا مگر خوف میرے وجود میں چھا چکا تھا، چلو یہ تو ہ...
03/09/2024

پچھلی قسط کی آخری لائنیں یہ تھیں !! خیر میں اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا مگر خوف میرے وجود میں چھا چکا تھا، چلو یہ تو ہمارا محلے دار ہے اگر آگے کوئی واقعی چور مل گیا تو وہ مجھ پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے یہ خیال ہی خوف زدہ کرنے کیلئے کافی تھا چوک سرائیکی جیٹھہ بھٹہ بازار پہنچا تو ایک اور چور صاحب ایک ہوٹل کے پٹھے کھینچنے کی کوشش کر رہے تھے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک بڑا سا راڈ
چھیویں قسط!! سیلاب 1973
یہ قسط معلومات کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی دلچسپ ہے کہ کیسے ہم اپنے گھروں کے چوکیدار بن کر گئے اور پھر کس مجبوری کے تحت ہم نے چوریاں شروع کر دی تھیں؟؟؟
جب چور صاحب ! تھڑے سے جمپ لگا کر میری جانب بڑھے لوہے کا راڈ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کا چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے
سب رنگ کی کہانی بازیگر کے استاد بٹھل کی طرح اس کے چہرے پر چاقو کے وار سے بنی اک لکیر مجھے کیسے بھول سکتی ہے، اسے میرا وہاں اچانک آجانا بہت برا لگا، وہ جب میری جانب بڑھا تو چند سیکنڈ کے لئے میرے دل کی تیز دھڑکن رک سی گئی، مگر مجھے اچانک پھر اس کے ہاتھ میں لوہے کے راڈ نے چوکنا کیا اور میں یک دم چور چور کا شور مچاتے پیچھے کی جانب سرپٹ دوڑ پڑا مگر جیٹھہ بھٹہ بازار کے چوک سرائیکی میں اس وقت بھی ایک فٹ سے زاید پانی موجود تھا ،پانی کی وجہ سے مجھ سے بھاگا نہیں جا رہا تھا مجھے نہیں ہوش تھا کہ وہ میرے پیچھے آرہا ہے کہ نہیں، بس میں پانی میں شڑاپ شڑاپ کرتا چور چور کا شور مچاتا سر پٹ بھاگتا ہی جا رہا تھا آگے بازار اونچا تھا اس لئے پانی کی گہرائی کم ہوتی جا رہی تھی جب میں حاجی سلیم قریشی کی سبزی والی دکان کراس کرکے چوک میں پہنچا جہاں نواں کوٹ روڈ کے ایک جتوئی کی دودھ کی دکان بھی تھی، میری بریک وہیں جا کر لگی پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں آرہا تھا، مجھے سانس چڑھا ہوا تھا اور میں بری طرح ہانپ رہا تھا، بازار مکمل سنسان تھا میرے چور چور کے شور نے کسی کو نہ متوجہ کیا نہ متاثر!!
میں چوک میں اس آس پر بھی کھڑا تھا شاید میرا شور کسی کو یہاں لے آئے جب چار پانچ منٹ گزر گئے تو میں خود ہی واپس چل پڑا
بوجھل تھکے ہوئے قدموں سے مسجد پھلاں والی کے راستے سے صدر بازار پہنچا وہاں سے مینا بازار کی جانب اپنے ٹھکانے پر آگیا، والدہ صاحبہ خورشید سلائی مشین والوں کے مکان کے صحن میں بیٹھی تھیں مجھے یوں مایوس دیکھ کر والدہ صاحبہ بولی، قمر! کیڈے گیا ہانویں؟ میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا کہ ابا جی نے کہا تھا کہ! پانڑی لہہ گے، گھر والے پاسوں چکر مار آنویں ہا، کجھ ڈیکھ بھال کر آ، کیا پوزیشن اے؟
اماں!! میں اُتھائیں گیا ہم پر رستے وچ میکوں چور پئے گئے ہَن!! بس ماں کا یہی سننا تھا تو جھٹ سے مجھے سینے سے لگایا، پیار کیا، ماں کی آنکھوں میں نمی صاف نظر آرہی تھی، دوسرے کمرے سے میرے والد صاحب نکلے تو پوچھا خیر اے اج قمر تے ڈاڈھا پیار آگے؟ میری والدہ صاحبہ نے خالص ماں والی شفقت، پیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ! اینکوں کیوں بھیجا ہاوے گھر والے پاسے؟ اتھاں چور آئے ودے ہَن، اینکوں کجھ تھی ونجے ہا، ول؟
والد صاحب نے کہا، اینکوں خود شوق تھیا ودا ہا کہ میں گھر والے پاسوں چکر مار آواں!! بات تو والد صاحب کی بھی ٹھیک تھی میں گیا خود اپنے شوق کی خاطر کہ دیکھ آؤں اب وہاں کیا حالات ہیں؟ خیر مجھے والدہ صاحبہ نے کہا کہ اب اکیلے مت جانا، دوپہر کا وقت تھا، عام حالات تو نہیں تھے کہ کھانا پکانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا، اس مکان میں لکڑیاں موجود تھیں مگر کیا پکایا جائے، یہ بڑی اہم بات تھی، میں اس بھاگ دوڑ میں کچھ تھک سا گیا تھا مجھے نیند آگئی پتہ نہیں کتنی دیر سویا رہا کوئی عصر کا وقت تھا امی جان نے اٹھایا،قمر آ!! اُٹھی روٹی کھا گھن میڈا لعل!! میں اُٹھ کر بیٹھ گیا، بھوک لگی ہوئی تھی، پتہ چلا کہ بڑے بھائی ظفراقبال کہیں سے انڈے لے آئے تھے والدہ صاحبہ نے انڈے آلو اور پیاز کا آملیٹ بنادیا(اُن دنوں یہ فارمی انڈے نہیں ہوتے تھے خالص دیسی انڈے تھے) آملیٹ بہت لذیذ بنا ہوا تھا میں دو روٹیاں کھا گیا، باہر جانے لگا تو پھر وہی سوال! قمر آ کیڈے؟ میرے پاس جواب تو کوئی نہیں تھا، بس اماں میں ایویں باہروں ہوا لوا ااواں؟ نہ تیکوں کیا تھی گے جو ہوا لواونڑ ویسیں؟ بس توں کتھائیں نئیں وجنڑا، گھر بہہ! میں نے کہا اچھا میں کتھائیں نئیں ویندا باہر گلی وچ تھی کھڑداں، خیر میں مکان سے نکل کر مینا بازار والی گلی جہاں اُن دنوں ماسٹر صدیق ٹیلر ماسٹر کی دکان ہوتی تھی، تھڑے پر جا کر بیٹھ گیا کہ تھوڑی ہی دیر میں ہمارے دو ہمسائے اللہ بخش المعروف جُمی اور مستری نصیر المعروف ڈند پیر وہاں سے گزرتے ہوئے مجھے بیٹھا دیکھ کر رک گئے اور پوچھا کہ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ سامنے ہماری رہائش ہے، انہوں نے پوچھا محلے میں گئے تھے؟ پھر میں نے سارا احوال سنا دیا!! دونوں اسی جانب جا رہے تھے، مجھ سے حال احوال سنا تو ٹھٹھک کر رک گئے، طے یہ ہوا کہ ہم کل مزید محلے دار اکٹھے کر کے آئیں گے اور پھر سب مل کر محلے میں جائیں، رات جیسے تیسے گذر گئی، صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ اللہ بخش جمی مرحوم، نصیر الدین مرحوم ، میاں ابراہیم مرحوم اور خدابخش مرحوم (مسات) ہماری رہائش گاہ پہنچے، جب میں ان کے ساتھ جانے لگا تو والدہ صاحبہ نے پہلے روکا، جب بتایا کہ سارے محلے دار مل کر اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے جا رہے ہیں تو والد صاحب نے کہا کہ ٹھیک اے، انہاں کوں وجنڑ ڈیو!! اب ہم پانچ لوگ تھے، صدر بازار، مسجد پھُلاں والی سے ہوتے ہوئے جیٹھہ بازار پہنچے راستے میں کوئی چڑیا کا بچہ بھی نہ ملا، ہم چوک سرائیکی سے ہوتے ہوئے جب مدینہ فلور مل والے راستے کی جانب بڑھے تو مدینہ فلور مل (نورجاویدمرحوم والی چکی) کے آگے پانی زیادہ گہرا تھا، ہم واپس لوٹے اور میاں مانو (میاں عبدالرحمن وائس چئیرمین بلدیہ خان پور) والے گھر کے راستے ہم میاں والی حویلی پہنچے، جب حویلی کے راستے اندر گئے تو!! اللہ اکبر، ہمارا گھر مکمل طور پر سیلابی پانی میں زمین بوس ہو چکا تھا،میاں صاحبان کی حویلی کی مشرقی دیواریں ساری گرچکی تھیں،ڈاکٹر حافظ عبدالواحد صاحب مرحوم کے گھر کی دیواریں اور چند کمرے گرے ہوئے تھے، درکھانڑیں والی حویلی (یعنی کے بی بھٹی اور حاجی رشید گالہے کا گھر بھی زمین بوس تھا، خواجہ محبوب مرحوم یعنی خواجہ ظفراقبال جو آج کل کینیڈا میں ہیں ان کے گھر کی دیواریں زمین بوس تھیں، خواجہ محمد عالم یعنی خواجہ بشیراحمد کے گھر بھی گر چکے تھے، ملک ساون ہوٹل والے کا گھر مکمل زمین بوس تھا، رسول بخش ٹھٹھار یعنی آستان ٹھٹھاراں کا لائسنسدار کا گھر بھی مکمل گر چکا تھا، میاں عثمان مرحوم (یعنی میاں طاہر عثمان) کے گھر کے جو کمرے اونچائی پر تھے وہ بچے ہوئے تھے اور جو ذرا نیچے تھے وہ گر چکے تھے، کالو قصائی، لعلو قصائی، محسن وکیل، حاجی رحمت (ہمارے محلے میں باقاعدہ طور پر نسل در نسل خواجہ سراؤں کا گھرہے) والے گھر بھی مٹی کا ڈھیر بنے ہوئے تھے، الغرض ہمارے محلے کے چند مکانوں کو چھوڑ کر سب زمین بوس تھے اگر کوئی بچ گئے تھے تو ان کو دراڑیں آچکی تھیں، اس دوران ایک کتا ہمارے گھر کے سامنے گلی میں تیرتے ہوئے ایک چھپرے پر بیٹھا نظر آیا وہ شاید کسی بستی سے اس چھپرے پر بیٹھ کراسے کشتی سمجھ کر یہاں نکل آیا تھا، ہم سب اپنے اپنے گھروں کی بربادی پر آپس میں ایک دوسرے سے ارمان اور افسوس کرنے لگے، ہماری مین گلی میں جو نشان تھے وہ 8فٹ پانی کے تھے جبکہ پانچ دن بعد وہاں تین سے چار فٹ پانی اب بھی موجود تھا جبکہ چاچا عالم والے مکان کی جانب یہ گہرائی اس وقت بھی میرے قد سے اونچی تھی، ہم تقریباً ایک گھنٹہ تک اپنے اپنے گھروں کے ملبے کو دیکھ دیکھ کر آنسو بہاتے، سسکتے بلکتے رہے، ہم سب لوگ متوسط بلکہ لوئر مڈل کلاس کے افراد تھے،اپنے گھروں کی بربادی محفوظ چھت جانے کے بعد احساس عدم تحفظ سے وہی واقف ہو سکتا ہے جس نے یہ دن دیکھے ہوں عام آدمی کو اس کا احساس مشکل سے ہو گا،
وقت کیسے گذرا ہمیں اس کا علم نہیں اپنے گھروں کے ملبوں پر کھڑے ہم خاموش ماتم کر رہے تھے، گھر میں موجود سٹور (جسے ہم محفوظ سمجھ کر سارا سامان اس میں رکھ گئے تھے) مکمل طور پر سیلابی پانی کی نذر ہو چکا تھا، سب اپنے اپنے اور پھر ایک دوسرے کے گھروں کے ملبوں کو دیکھنے کے بعد تھکے ہوئے قدموں سے میاں عثمان یعنی میاں لالی والے گھر میں موجود بڑے سے بیری کے درخت کی چھاؤں میں آن بیٹھے، افسردگی،احساسِ زیاں، ارمانی کیفیت اور صدمےسے نکلنے میں مزید کچھ وقت لگا دوپہر کے ڈھائی بج رہے تھے مگر ہماری بھوک مر چکی تھی، پھر آہستہ آہستہ زندگی کی جانب لوٹنے لگے ساڑھے تین بجے کے لگ بھگ میاں اللہ بخش نے کہا کہ یار بُکھ لگی اے؟ سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور شرماتے شرماتے کہا کہ ہا! لگی تاں ہے!!ول ہنڑ روٹی کیتی ٹیشن تے جُلوں؟ سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر کہا کہ اب تو اسٹیشن پر بھی روٹی نہیں ملے گی کیونکہ وہاں بھی سیلاب زدگان میں ایک سے دو بجے تک ہی کھانا تقسیم کرتے تھے، پھر اب کیا کریں؟ جوں ہی کھانے کی بابت پوچھا گیا سب کو ہی بھوک ستانے لگی، مگر اس کا حل کیا ہے؟ میں ان سب میں عمر میں چھوٹا تھا مگر ایک بات میرے ذہن میں آئی کہ اب کھانا کہیں سے بھی نہیں ملیگا البتہ تجویز یہ ہے کہ ہم خود پکائیں، سارے ہکے بکے رہ گئے میرا منہ تکنے لگے، کیسے پکائیں؟ میں نے کہا یہ سوچنا آپ کا کام ہے آپ سب مجھ سے بڑے ہیں، اچانک نصیرالدین المعروف ڈند پیر کی آنکھوں میں چمک ابھری کہ سب کجھ ہے پیا، بس ہمت کرنڑی پوسے!! میاں ابراہیم نے کہا، کیویں تے کتھوں؟ اس نے کہا ساڈے تاں سارے گھر تے سامان لڑھ گن، تہاڈیاں صرف دیواراں تے ڈو کوٹھے ڈٹھن، تساں ساریاں دے گھریں وچ سبھ کجھ ہوسیا، بس ہمت کرو!! بات سب کی سمجھ میں آگئی تھی مگر ہمت کیسے کی جائے؟ ہم تو اپنے گھروں کے چوکیدار بن کر یہاں آئے تھے مگر حالات نے ہمیں اپنے گھروں میں ہی (واردات) کرنے پر مجبور کردیا اور چند ہی منٹ بعد میاں اللہ بخش مرحوم اٹھے اپنے عزیزوں کے گھروں میں موجود کچن کے تالے توڑے اور واقعی اندر ہمیں آٹا، دالیں، چاول،پیاز، نمک مرچ، گھی اور وہ بھی سچا دیسی گھی مل گیا ہماری باچھیں کھلیں ہوئی تھیں، سب نے ادھر اُدھر بھاگ کر لکڑیاں اکھٹی کیں، پھر پانی کا بندوبست کیا گیا، ان دنوں ہمارے گھر میں کنواں تھا مگر وہ سیلابی پانی سے بھرا ہوا تھا البتہ حویلی والے کنویں تک سیلابی پانی نہیں پہنچا تھا اس لئے وہاں سے پانی حاصل کیا ، آگ جلائی اور پھر سب نے مل جل کر پہلے دال پکائی کیونکہ ہم سب کئی دنوں سے امدادی چاولوں کیساتھ گذارا کر رہے تھے، دال مسور اور وہ بھی دیسی گھی جب دال کو دھنگاری دی گئی، پس نہ پوچھو، اساں تجھوں بے ہوش تھیندے ہاسے، دھنگاری اور وہ بھی لہسن کی کیسی خوشبو اٹھتی ہے، یہ ہر کسی کو تو پتہ نہیں ہوگا، یہ تھا پہلا دن جب ہم اپنے گھروں کے چوکیدار بن کر گئے تھے اور پھر چوریاں کرنے لگ گئے، آگے ہم نے کیا کیا کارنامے سر انجام دئے، کیا کیا وارداتیں کیں!! پھر اگلی قسط میں اُن رازوں سے پردہ اُٹھائیں گے 😎😜🙏

پانچویں قسط!! 1973میں آنے والے ہولناک سیلاب سے خان پور میں کیا کیا تباہی ہوئی، کچھ آنکھوں دیکھا حال اور کچھ واقعات کا بی...
02/09/2024

پانچویں قسط!! 1973میں آنے والے ہولناک سیلاب سے خان پور میں کیا کیا تباہی ہوئی، کچھ آنکھوں دیکھا حال اور کچھ واقعات کا بیک گراؤنڈ لاکھوں کروڑوں لوگوں کا محبوب رہنما وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ہمارے سامنے تھا، وہ غریب آباد والی حمید کاٹن فیکٹری (حمید کاٹن فیکٹری شیخ حمید نامی بندے کی ملکیت تھی بعد ازاں اس فیکٹری کو اس کا بیٹا سیٹھ سکندر چلاتا رہا، سیٹھ سکندر کا چھوٹا بھائی سیٹھ جاوید حسین کا بہنوئی بھی ہے) کے مین گیٹ کے ساتھ والی دیوار پر اپنے ساتھیوں ملک غلام مصطفیٰ کھر، ڈاکٹر مبشر حسن اور دو اور ساتھیوں کے ہمراہ وہ مجمع سے مخاطب ہوئے اور کہا
(مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ جب وہاں پہنچے اور کوئی خوراک تقسیم کا سلسلہ نظر نہ آیا تو میرے سمیت بہت سے لوگ ناامید ہوئے، یہ بھی کہ وزیراعظم کی تقریر کے ایگزکٹ الفاط یاد نہیں کیونکہ میرے سمیت بہت سے لوگوں کی ترجیح تقریر تھی ہی نہیں)
میرے بھائیو اور پیارے بچو(اس مجمع میں بڑی عمر کے لوگ بہت کم تھے، زیادہ تر میری عمر یعنی پندرہ سولہ سالہ عمر کے لڑکے تھے،) میں آپ کے شہر کو پوری طرح دیکھ کر آیا ہوں مجھے بہت دُکھ ہے کہ سیلاب نے آپ کے شہر کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، کئی جگہ پر تو سیلابی پانی آپ لوگوں کے گھروں کے روشندانوں تک پہنچ گیا ہے، مگر آپ گھبرائیں نہیں، ہم اس شہر کا نقشہ بدل دیں گے، حکومت آپ کو اتنی امداد دے گی کہ آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے اور پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کرکے دوسرے شہروں سے آگے نکل جائیں گے ابھی یہ جملے مکمل نہیں ہوئے تھے کہ اچانک آواز آئی ”سئیں میڈی گالھ سنڑسو؟ اُس وقت مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی مگر جونہی یہ فقرہ میں نے سنا کہ یہ کس نے کہا تو پہلے مجھے وہ شخص نظر بھی نہ آیا پھر جب دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو دیوار کے اوپر سے اس شخص سے پوچھ رہے تھے کہ، جی جی پہلے آپ بتائیں؟ اور ساتھ ہی انہوں نے بالکل سامنے کھڑے لوگوں سے کہا کہ بابا جی کو آگے آنے دیں، میں نے دیکھا کہ ملک غلام مصطفی کھر بھی اس بندے کیلئے راستہ بنانے کا کہہ رہے تھے، سرائیکی میں لوگوں کو کہا کہ تھوڑا جیہاں رستہ ڈیو انہاں کو اگوں آونڑ ڈیو! پھر ہم سب نے دیکھا کہ وہ قاضی برخوردار مرحوم تھے اور اُن کے بالکل پیچھے خواجہ منظوراحمد صدیقی مرحوم تھے، مجمع نے دونوں کو راستہ دیا، میں دیکھ رہا تھا کہ خواجہ منظور احمد مرحوم قاضی برخوردار مرحوم کے ساتھ چلتے چلتے بھی ان کے کان میں سرگوشیاں کر رہے تھے، مجمع چھٹا، انہیں راستہ ملا اور وہ دونوں فیکٹری کی دیوار کے قریب عین ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے تھے، ذوالفقار علی بھٹو نے کہا جی بابا، آپ فرمائیں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ یہی الفاظ ملک غلام مصطفی کھر نے بھی سرائیکی میں کہے، تو قاضی برخوردار نے ایک سسپنس سا پیدا کر کے دونوں ہاتھ باندھے آسمان کی طرف رُخ کیا (کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے اوپر دیوار پر کھڑے تھے) اور کہا کہ سئیں میڈے بدھے ہتھیں ول ڈیکھو، غلام مصطفی کھر نے کہا جی جی ڈہدے پیوں، تساں فرماؤ، کیا آکھنڑ چاہندو؟ قاضی برخوردار نے غلام مصطفی کھر کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی طرف رکھی اور کہا کہ سئیں مہربانی کرو ِ کرسی دی جان چھوڑو، جڈوں دے تساں آیو ملک اوائی وچ آگے، ہر ڈوجھے تریجھے مہینے کئی نہ کئی آفت آویندی اے ملک تے، مہربانی کرو اے ڈیکھو میں ہتھ بدھی کھڑاں ملک دی جان چھوڑو، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، غلام مصطفی کھر، ڈاکٹر مبشر حسن یقیناً اس آفت زدہ اور لٹے پھٹے مجمع کے شرکاء سے ایسی کسی بے عزتی کی توقع نہیں رکھتے ہوں گے، وہ دوبارہ بولے تو قاضی برخوردار کے ساتھ خواجہ منظور احمد صدیقی بھی بول پڑے، آپ مہربانی کریں ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں آپ چلے جائیں، اس دوران ملک غلام مصطفی کھر نے بولنے کی کوشش کی تو انہیں بھی چپ کروا دیا گیا، اس پورے مجمع میں کوئی بھی اور ایسی شخصیت نہیں تھی جو ان دو افراد کو کنٹرول کرکے وزیراعظم کی بات لوگوں کو سنانے دیتی ، آخر کار دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر دیوار کے ساتھ لگی لکڑی کی سیڑھی کے ذریعے دیوار سے اتر کر ہیلی کاپٹر کی جانب روانہ ہوئے چند لمحوں بعد ہیلی کاپٹرکے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے وزیراعظم پاکستان کا ہیلی کاپٹر فضا میں تھا اور یوں دو افراد کی (مہربانی) سے شاید ہمیں بھی حکومت نے نظرانداز کر دیا، کیونکہ ان کے جانے کے بعد فوجی ہیلی کاپٹر صرف ایک بار ہی مزید کھانے پینے کی اشیاء کے تھیلے پھینک کر گیا اور پھر واپس نہ لوٹا، ہمارے شہر کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے نظرانداز کیا گیا ہو گا، اس کی تفصیل میں نہیں جانتا، البتہ ان دنوں اکثر لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ قاضی برخوردار تے حاجی منظور خوجے دی وجہ توں حکومت ساڈی مدد نئیں پئی کریندی، اب اس بات میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ تھا؟ مجھے اس کا نہ اب اندازہ ہے اور نہ اس وقت اندازہ تھا،
قارئین سیلاب کے بعد لاتعداد مرتبہ لوگوں سے یہ کہتے سنا کہ کہ جب ذوالفقار علی بھٹو سیلاب کے دنوں خان پور آئے تھے تو لوگوں نے انہیں جوتے دکھائے جس پر ذوالفقار علی بھٹونے کہا جی جی مجھے پتہ ہے کہ چمڑہ مہنگا ہو گیا ہے اور پھر جب کچھ لوگوں نے کہا کہ جناب چینی نہیں مل رہی اور چینی چینی کا شور مچایا تو پھر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا جی ہاں مجھے بھی پتہ ہے کہ چینی ہمارے دوست ہیں،
ایسی کوئی بات مجمع کی جانب سے نہیں ہوئی، یہ سارا پروپیگنڈہ ہے
خیر جب ہیلی کاپٹر فضا میں اڑ کر روانہ ہوا تو مجمع خاصا مایوس مایوس سا واپس ریلوے پلیٹ فارم کی طرف آگیا، کیونکہ جو لوگ ہیلی کاپٹردیکھ کرگئے تھے وہ یہ سمجھ کر گئے تھے کہ ہیلی کاپٹر میں کھانے پینے کی اشیاء ہوں گی، میں بھی تھکا ہارا سا پلیٹ فارم پر قائم اپنے خیمے کی جانب بڑھا تو والدین میرا انتظار کر رہے تھے، دونوں نے بیک وقت پوچھا، ہیلی کاپٹر وچ کیا ہا؟ میں نے مختصراً والدین کو حال احوال سنایا اور پھر پوچھا کہ کئی کھاونڑ پیونڑ دے شئے ہے؟ اماں سینڑ آکھیا ہے تاں کئی شئے کائنا، پر جے توں میکوں کتھاؤں لکڑیاں آن ڈیویں تاں کجھ نہ کجھ پکا ڈیساں، اب ان حالات میں جلانے کے لئے سوکھی لکڑیاں کہاں سے آتیں؟میں ساتھ والے کیمپ میں گیا کچھ لکڑیاں ان سے مانگیں اور پھر کچھ لکڑیاں اسٹیشن سے اکٹھی کیں، جب لکڑیاں اکٹھی ہوئیں تو والدہ صاحبہ نے آلو چھیلے اور پھر انہیں توے پر تل کر مجھے دئیے اور ہم نے کھائے،
کھانا کھانے کے بعد مٹر گشت کے لئے پلیٹ فارم پر نکل گیا جہاں بھی چار بندے اکٹھے ہوتے وہیں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آمد اور قاضی برخوردار کی ان کے ساتھ کی گئی گفتگو زیرموضوع تھی، کوئی قاضی برخوردار اور حاجی منظور مرحوم کی گفتگو کی حمایت کرتا اور کوئی اس گفتگو کو آئے بندے کے ساتھ بدتمیزی ثابت کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا، ہم اب اتنے بھی سیاسی نہیں تھے کہ اس گفتگو کو زیربحث لاتے یا اپنا کوئی موقف دے سکتے،بس لوگوں کی سن رہے تھے،
میں ریلوے اسٹیشن کے باہر نکلا تو درجنوں لوگ پانی میں تیر کر آئی ہوئے سرخ مرچوں کو اکٹھا کرنے میں مصروف تھے، جس کے پاس زیادہ مین پاور تھی وہ زیادہ مرچیں اکٹھی کر چکے تھے جو بندہ اکیلاتھا وہ بھی من دو من تک مرچیں اکٹھی تو کر چکے تھے اب مسئلہ ان سب کا یہ تھا کہ ایسی کون سی چیز ہو جس میں بھر کر ہر بندہ اس لوٹ مار کے مال کو محفوظ کرتا، بوریاں یا کپڑے تو کسی کے پاس تھے نہیں جو بھی لوگ مرچیں اکٹھی کر چکے تھے وہ تھوڑی تھوڑی کرکے اپنے اپنے کیمپوں میں پہنچا رہے تھے، یہ نظارہ دیکھنے کے بعد ہم پہنچے اپنے کیمپ میں تو والد صاحب نے بتایا کہ ابھی کچھ دیر پہلے تمہارا خالہ زاد عبدالرزاق آیا تھا اور کہہ گیا ہے کہ میں نے مینا بازار میں ایک مکان دیکھ کر آیا ہوں اپنی رہائش کے لئے آپ وہاں منتقل ہونے کی تیاری کرو، یوں ہم چار دنوں میں تیسری مرتبہ ہجرت کر نے کی تیاری میں مصروف ہو گئے، میں نے اپنے بڑے بھائی ظفراقبال جتوئی کی ہدایت پر سامان کی ایک قسط اٹھائی اور مینا بازار کی جانب سفر شروع کر دیا، وہاں گئے تو ہمارے خالہ زاد بھائی عبدالرزاق مینا بازار کے باہر ہی مل گئے وہ ہمیں بازار کے اندر لے گئے اور یوں ہم صدیقی کلاتھ ہاؤس کی پچھلی جانب والی گلی کے اندر ایک مکان میں منتقل ہوئے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ مکان خورشید سلائی مشین والے کی ملکیت ہے جو ہمارے خالہ زاد عبدالرزاق مرحوم کے دوست تھے، انہوں نے خود آفر کی کہ آپ اپنی فیملی کو یہاں لے آئیں، تین قسطوں یا تین پھیروں میں ہم نے اپنا سامان ِ ہجرت پلیٹ فارم سے مینا بازار منتقل کیا، اس منتقلی میں شام ہو گئی، تھکن سے برا حال تھا، مگر اس مکان میں پلیٹ فارم پر خیمہ زن ہونے والی صورتحال سے بہت مختلف تھی،ساری فیملی کو چادر اور چاردیواری کا احساس تحفظ سب سے زیادہ آسودگی فراہم کر رہا تھا،
یقیناً بجلی نہیں تھی مگر چار راتوں سے ہم بغیر پنکھے کے سونے کی عادت اپنا چکے تھے، گو ہم سو گئے، صبح سویرے اٹھنا پڑا، کیونکہ گھر میں ناشتے کیلئے کوئی اشیاء خوردنوش نہیں تھی، ہمیں دس روپے دیکر بھیج دیا گیا کہ کوئی کھانے پینے کی چیزیں لے آؤ!! ہم چل پڑے نہر کے پل کی جانب یعنی جہاں اب ہمارا تسکین محل ہے، ایک بندے نے جس کا نام اب یاد نہیں آرہا نہر کے پل کے اوپر حلوہ پوڑی کا اڈہ لگا رکھا تھا اور بہت رش تھا، خیر ہمیں بچہ سمجھ کر اس نے مزید دس منٹ کھڑا کر کے آخر کار دس روپے کا حلوہ پوڑی دیا جو شاید آج کل تین چار سو روپے کا آئیگا، ہم ناشتہ لیکر گھر پہنچے تو والد صاحب نے کہا کہ ناشتہ کر گھن تے ول اپنڑے گھر والے پاسوں وی چکر لا آؤ، امید اے پانڑی کجھ نہ کجھ لہہ گیا ہوسے، ڈیکھ آؤ جو صورتحال کیا اے؟ ناشتے سے فراغت کے بعد میں صدر بازار سے ہوتا ہوا پھولوں والی مسجد والی گلی سے گذر کر جیٹھا بھٹہ بازار پہنچا بازار میں ہو کا عالم تھا، کوئی بندہ بشر نہیں تھا، جب میں حاجی سلیم قریشی کی سبزی والی دکان کے نزدیک پہنچا (حاجی سلیم قریشی کی جیٹھہ بھٹہ بازار میں سبزی کی دکان ہوتی تھی،) دیکھا کہ آستان لوہاراں والی گلی کے سامنے قائم بشیر کریانہ مرچنٹ والی دکان کے تالے کو ایک بندہ توڑنے میں مشغول تھا اور اسے اس بات کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ کوئی آ بھی سکتا ہے، اب بندے کی پیٹھ میری جانب تھی، یقیناً وہ میرے لئے ایک چور ہی تھا، اب میں کوئی رستم زمان تو نہیں تھا کہ اسے للکارتا، میڈی تاں اپنڑی ستھنڑ گند تھی گئی چور صاحب کوں ڈیکھ تے، مگر جب اس نے میرے قدموں کی آہٹ سنی اور میری سائیڈ پر دیکھا تو وہ کھسیانا سا ہو گیا اور میری جان میں جان آئی کیونکہ وہ کوئی پیشہ ور چور نہیں تھاا سی محلے کا ایک بظاہر معزز آدمی تھا، خیر اس نے مجھے دیکھ کر کہا (کملی توں کیڈے آگئیں) میں نے کہا کہ بس ایویں! اباجی آکھیا ہا جو گھر والے پاسوں چکر لا آویں،اس نے کہا! اچھا اچھا ٹھیک گالھ اے اج کل چوریاں وی تھیونڑپئے گن) اب چوریوں کا بتا کون رہا تھا؟ آپ بھی تھوڑا سا ہنس لیں نہ، اتنی دیر سے خشک سا مضمون پڑھ رہے ہیں 🥰😎😂
خیر میں اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا مگر خوف میرے وجود میں چھا چکا تھا، چلو یہ تو ہمارا محلے دار ہے اگر آگے کوئی واقعی چور مل گیا تو وہ مجھ پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے یہ خیال ہی خوف زدہ کرنے کیلئے کافی تھا چوک سرائیکی جیٹھہ بھٹہ بازار پہنچا تو ایک اور چور صاحب ایک ہوٹل کے پٹھے کھینچنے کی کوشش کر رہے تھے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک بڑا سا راڈ نما سریا تھا (ان دنوں شٹر کی جگہ لمبے پھٹے بھی دکان کے آگے لگائے جاتے تھے) اب میں مکمل خوف زدہ ہو چکا تھا میری ٹانگیں میرا ساتھ دینے سے قاصر تھیں دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی، میں دھڑکتے دل کے ساتھ وہیں جامد سا ہو گیا کہ اچانک اس بندے کی نظر مجھ پر پڑی وہ میرے لئے اجنبی تھا، پھر اس نے لمبا سا لوہے کا راڈ میرے سامنے کر کے کچھ کہا جو میں نہ سن سکا نہ سمجھ سکا تھا، کیونکہ میں حقیقتاً خوف زدہ تھا اس نے دکان کے تھڑے سے نیچے جمپ لگایا اور پھر میری جانب بڑھا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

قارئین یہ 1973 کو خان پور میں آنے والے ہولناک سیلاب کی تیسری قسط ہے ، میں دوسری قسط کی چند لائنیں اپ لوڈ کررہا ہوں تاکہ ...
30/08/2024

قارئین یہ 1973 کو خان پور میں آنے والے ہولناک سیلاب کی تیسری قسط ہے ، میں دوسری قسط کی چند لائنیں اپ لوڈ کررہا ہوں تاکہ آپ کو کچھ یاد آسکے کے اس سے پہلے والی قسط میں بات کا اختتام کہاں ہوا تھا !!
ہمیں کراچی جانے والی سائیڈ کے پلیٹ فارم پر موجود پیپل کے بڑے اور سایہ دار گھنے درخت کے نیچے جگہ مل گئی، سامان تین چار قسطوں میں وہاں پہنچایا گیا، جس میں سب سے زیادہ تھکا دینی والی چیز چارپائیاں تھیں، خیر ہم سب نے مل جل کر چارپائیاں کھڑی کیں اُن کے ساتھ چادریں باندھیں اور پھر اسے ایک خیمہ کی شکل دیکر بیٹھ گئے، اس دوران دوسرے پلیٹ فارم پر ایک مسافر ٹرین موجود تھی اور وہاں پر منادی کرائی جارہی تھی کہ جس نے بھی کراچی، روہڑی، سکھر، رحیم یار خاں یا کہیں جانا ہے تو بغیر ٹکٹ کے آپ بیٹھ جائیں محکمہ ریلوے آپ کو مفت میں پہنچائے گا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پلیٹ فارم پر موجود سینکڑوں لوگ اُس ٹرین میں بیٹھ گئے، میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں آپاں وی کراچی جلوں؟ ماں نے کہاں ساڈا کون اے کراچی وچ؟ میں نے کہا اماں لالا مجاہد تے شاہد وی تاں کراچی ہن! اُتھائیں نہ جلوں، ماں نے کہا کہ تیڈے پیو نال صلاح کریندوں، مگر والد صاحب نہ مانے اور یوں ہم نے خان پور ریلوے اسٹیشن کے اس پلیٹ فارم پر کئی دن اور راتیں گزاریں اور وہاں کیا کیا دیکھا؟ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ہیلی کاپٹر پر آمد اور مزید شہر کے حیران کن حالات جاننے کیلئے آپ کو مزید انتظار کرنا پڑے گا!!

تیسری قسط !! قارئین 24اگست کا دن جیسے تیسے گذرا وہ ہمیں معلوم ہے اور کوشش کی ہے کہ آپ کو بھی اُس دن یوں سمجھیں ہم نے اپنے ساتھ ہی رکھا ہے مگر رات نہیں بلکہ سرشام ہی مچھروں کی یلغار نے ہمارے سمیت سب سیلاب زدگان کو (ویڑہ) کر دیا، بجلی تو تھی نہیں ہاتھ والے پنکھا تھا وہ بھی ایک، کیونکہ ہجرت کے وقت ان مصیبتوں کا اندازہ نہیں تھا، اب آپ کچھ اندازے خود بھی لگائیں کہ 24اگست کو کیسی حبس زدہ گرمی ہوتی ہے، ہماری رات کیسی گذری ہوگی، اس کا صحیح اندازہ دریائی بیٹ کے لوگ لگا سکتے ہیں آپ شہر والے نہیں، رات ساری مچھروں کو بھگاتے گذری، ابھی آنکھ لگی ہی تھی کے صبح کا دھندلکا پھیلنے لگا، مگر نیند بڑی میٹھی لگ رہی تھی سورج نکلتے ہی مکھیوں نے تنگ کرنا شروع کیا تو ہم نیند ہی میں ہاتھ مار رہے تھے کہ اسی اثناء میں ہمارے چہرے پر والدہ صاحبہ نے ایک کپڑا ڈال دیا یوں ہم مزید تھوڑی دیر کیلئے سو گئے مگر پلیٹ فارم پر سوئے سیلاب زدگان اُٹھ چکے تھے، ان کی آوازوں نے مزید سونے نہ دیا، ماں نے بھی کہا قمر آ اُٹھی پو میڈا چن، سارے لوک اُٹھیے ودن، والدہ نہ بھی کہتیں تبھی بھی اس ماحول میں مزید نیند کسے آئیگی؟ خیر اپنے خیمے (ویسے وہ کوئی خیمہ شیمہ نہیں تھا بس ہم نے اپنی اس پناہ گاہ کو خیمے کا نام دے رکھا تھا) سے نکل کر سب سے پہلے جس چیز نے ہمیں سمیت وہاں موجود سب لوگوں کو پریشان کیا ہوا تھا وہ چیز تھی رفع حاجت؟ ریلوے اسٹیشن کی حالت اُن دنوں بہت اچھی تھی یعنی چیزیں فنگشنل تھیں دونوں پلیٹ فارم پر لیٹرین بنے ہوئے تھے،مسافر خانے اور فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لئے بنے ویٹنگ رومز میں بھی لیٹرین تھے مگر وہاں موجود سیلاب زدگان کی تعداد زیدہ تھی اور خصوصاً خواتین کے لئے صرف اہم نہیں بلکہ یہ ایک سنگین مسئلہ تھا، آخرکار جیسے کیسے یہ ”معرکہ“ سرانجام دیا گیا تو بات ناشتے تک پہنچ گئی کل والی خریدی گئی لکڑیاں ابھی باقی تھیں والدہ صاحبہ نے پہلے آٹاگوندھا اور پھر روٹیاں بنا کر گھی ڈالا (اۃن دنوں یہ آئل شائل بھی نہیں ہوتا تھا اور اکثر گھروں میں دیسی گھی ہوتا تھا) اور اُن روٹیوں پر شکر ڈال دی یوں ہم نے ناشتہ کیا، جو آج تک یاد ہے،ناشتے سے فراغت کے بعد ہم نے پہلا کام یہ کیا کہ پورے ریلوے اسٹیشن کا چکر لگایا،پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اے اللہ تونے ہمیں دنیاوی دولت تو اُتنی نہیں دی مگر شعور کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے، کیونکہ پورے ریلوے اسٹیشن پر جتنے بھی سیلاب زدگان خاندان موجود تھے چارپائیاں ہمارے علاوہ
سات یا آٹھ خاندانوں کے پاس تھیں باقی لوگ ایسے بے پردہ حالت میں موجود تھے اور بے یار و مددگار بھی، کھانے پکانے کی اشیاء بھی چند خاندانوں کے پاس تھیں، وہاں سے نکل کر غلہ گودام کی جانب سے جو پلیٹ فارم کا گیٹ ہے وہاں سے جب اسٹیشن روڈ پر نگاہ پڑی تو پورا اسٹیشن روڈ لال مرچوں سے سرخ ہوا پڑا تھا،پانی کی سطح یہاں پر ایک دو فٹ سے زیادہ نہیں تھی پھر غلہ گودام والے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے میں موجودہ دربار جندن پیر کے سامنے پہنچا اور وہاں سے نہر مونڈی مائنر والے پل پر یعنی موجودہ نام حشمت چوک پر، یہاں سے جب ریلوے روڈ اور ٹرنک بازار روڈ پر نگاہ پڑی تو یہ سارے روڈ سرخ مرچ سے ایسا منظر پیش کر رہے تھے جیسے کسی نے پورا پانی لہو لہان کردیا ہو، دراصل اُن دنوں خان پور غلہ منڈی ملک بھر میں سرخ مرچ کی وجہ سے مشہور تھی اور اس منڈی میں سیلاب کے وقت ہزاروں من سرخ مرچ ڈھیریوں کی صورت میں یا بوریوں میں بند تھی مگر سیلابی پانی نے ساری مرچ کو پورے روڈز پر بکھیر کر رکھ دیا، اُس وقت نہر کے پل پر کوئی پانی نہیں تھا البتہ پل سے ہٹ کر ریل بازار جو اب ہار بازار بن چکا ہے یہاں پر پانی تھا اور بہت ساری دیار کی قیمتی لکڑیوں کے تنے پانی میں بہہ کر یہاں تیر رہے تھے پھر میں چوک صدربازار کی جانب پانی میں چلتا ہوا گیا تو موجودہ صدربازار میں پاک شربت ہاؤس تک پانی تھا اور یہاں بھی دیار کی قیمتی لکڑی کے گٹھے تیر رہے تھے اور ایک صاحب اپنے بیٹوں کی مدد سے وہ گٹھے شالیمار ٹیلرز والی گلی میں گھسیٹ کر اپنے گھر لے جانے کی تیاری کررہے تھے، لکڑی پانی میں تو آسانی سے ان کے ہاتھوں کھیلتی گئی مگر جب وہ خشکی پر پہنچی تو باپ بیٹے سے تگڑی ہوگئی، اب یہ اللہ جانتا ہے مرحوم ان گٹھوں کو گھر کے اندر (محفوظ) کرنے میں کامیاب ہوئے یا ناکام؟ میں آگے بڑھا تو باقی پورا صدربازار مینا بازار خالی پڑے تھے پانی پاک شربت ہاؤس سے آگے نہیں بڑھا تھا(پرانے لوگوں کو پتہ ہے کہ پاک شربت ہاؤس کہاں تھا) میں مینا بازار کے راستے باہر نکلا اور پھر نہر کے درمیان لکڑیوں کا پل غلہ منڈی کے سامنے کراس کرکے غلہ منڈی کی جانب جھانکا تو ساری غلہ منڈی مرچوں سے اس طرح سرخ تھی جس طرح انقلابی لوگ نعرہ مارتے ہیں کہ سرخ ہے، سرخ ہے ایشیا سرخ ہے،اور یہاں پوری غلہ منڈی، ٹرنک بازار ریلوے روڈ، اسٹیشن تک سرخ تھا۔ یہاں سے دوبارہ بھٹی صاحبان کے گھروں کے سامنے سے ہوتا ہوا پھر نہر کے پل پر پہنچا، جہاں کچھ مزید لوگ دیار کی لکڑیاں جو پرانا سینما روڈ پر موجود لکڑیوں کے کاروبار کرنے والے افراد کے گوداموں سے تیرتی ہوئی یہاں پہنچی تھیں (انہیں محفوظ کرنے کی کوشش کررہے تھے)نوٹ!! اگر اسٹوری لکھتے لکھتے میں کچھ زیادہ ہی سچ لکھ جاؤں تو اس کا قصوروار مجھے نہیں جام منیراختر شاہین کو قرار دیا جائے کیونکہ انہی کی ہدایت تھی کہ سارا سچ لکھنا ہے، ویسے ہے یہ برا مشکل کام، کیونکہ میں نے ایسی ایسی چیزیں اور شخصیات کو ایسے ایسے کام کرتے دیکھا اور کہیں کہیں سے سنا تھا کہ الامان و الحفیظ!!
اب یہ آپ قارئین سے بھی مشورہ لینا ہے کہ کیا سب کچھ لکھ دوں یا جس طرح اللہ سبحان تعالیٰ ہمارے پردے رکھتا ہے ہم بھی لوگوں کا پردہ رکھ لیں؟ ویسے 25اگست کو میں نے ڈھیر ساری آوارہ گردی کی تھی اگر آس کا حال لکھنے بیٹھ گیا تو یہ قسط ایک بار پھر طوالت اختیار کر جائیگی
اسے یہیں ختم کرتے ہیں اگلی قسط میں آپ کو بتائیں گے کہ شہر میں ہم نے کیا کیا دیکھا؟

کل شام کو اطلاعات ملیں کہ ممبر قومی اسمبلی چوہدری جاوید وڑائچ کی بھابھی صاحبہ اور فاروق وڑائچ صاحب کی اہلیہ ،، جبکہ دوسر...
29/08/2024

کل شام کو اطلاعات ملیں کہ ممبر قومی اسمبلی چوہدری جاوید وڑائچ کی بھابھی صاحبہ اور فاروق وڑائچ صاحب کی اہلیہ ،، جبکہ دوسری اطلاع یہ ملی کہ پیپلزپارٹی مشآئخ ونگ سرائیکی وسیب کے صدر علامہ عبدالرحمن صدیق دین پوری صاحب کی والدہ صاحبہ وفات پاگئیں ہیں اور دونوں خواتین کی نماز جنازہ کا وقت ایک ہے یعنی صبح دس بجے ، اس وقت برادرم مجاہد جتوئی صاحب میرے پاس ہی تشریف فرما تھے ان سے مشورہ کیا کہ دونوں جگہ گہرا تعلق ہے کیسے تقسیم ہوں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تم رحیم یار خاں چلے جانا اور میں باقی بھائیوں کو لیکر دین پور شریف جنازہ پڑھنے چلا جاؤں گا، اس تقسیم کے بعد میں مطمعن ہو گیا اور صبح چوہدری سلیم بھلر صاحب کے ہمراہ رحیم یار خاں پہنچ گئے ، نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری سجاد وڑائچ صاحب اپنی گاڑی سے اتر کر ہماری گاڑی میں آگئے اور پھر یوں سمجھیں کہ ہم صبح سے لیکر تین بجے تک اکٹھے رہے ، اس دوران ہم ایک مرتبہ پھر چوہدری جاوید وڑائچ کی رہائش گاہ پر فاتحہ خوانی کے لئے بھی گئے اور وہیں سابق ممبر اسمبلی شیخ فیاض الدین صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں ملکی ، علاقائی اور کاروباری حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ، ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوا مگر جو تبصرے تجزئیے ہمارے چوہدری سجاد وڑائچ صاحب کے ساتھ گفتگو کے دوران ہوئے اس نے مجھے تو سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہر بندہ سیاست میں صرف کمانے کے لئے ہی نہیں آتا بلکہ لگانے کے لئے بھی آتا ہے اور چوہدری سجاد وڑائچ گو سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب سمجھتے ہیں (میں نہیں سمجھتا) مگر اس علاقے کی محرومیوں پر انہوں نے کھل کر گفتگو کی ، انہوں نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سہجہ، کوٹسمابہ ، داعو والا ، چوک ماہی ، بستی دینوں شاہ ، صادق آباد خان پور جیٹھہ بھٹہ چنی گوٹھ وغیرہ کا طالب علم گوجرانوالہ ، راولپنڈی منڈی بہاوالدین شیخوپورہ لاہور فیصل آباد کے طالب علم سے مقابلہ کرے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ ظلم اور ناانصافی ہے اور اسی طرح ہی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر بلوچستان میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے ، انہوں نے کہا کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی وقت ہے کہ اس خطے کو علیحدہ صوبے کا درجہ دینا چاہیئے اور ایسا نظام لانا چاہئے کہ پورے وطن عزیز میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو تب ہی وطن عزیز میں بھائی چارے اور اخوت کی فضا پیدا ہوگی وگرنہ علاقوں کو ترقی دینے کی بجائے وسائل کا رخ اپنی پسندیدہ شخصیات کی طرف موڑنے سے علاقائی احساس محرومی میں شدید اضافہ ہوگا اور یہ احساس محرومی کے بڑھنے سے صوبائیت پسندی کو فروغ ملے گا جو کہ نہیں ہونا چاہیئے صرف وطن پسندی ہونی چاہئے ،
بحرحال اج کا دن میرا ضائع نہیں ہوا میں ایک شخص کے اچھے اور ترقی پسند خیالات سے فیض یاب ہوا ہوں ،

قارئین ، اسلام علیکم جیسا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ صادق شاہ والی اسٹوری کے بعد آپ کو کچے کے ڈاکوؤں کی اسٹوری سے آ...
23/08/2024

قارئین ، اسلام علیکم جیسا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ صادق شاہ والی اسٹوری کے بعد آپ کو کچے کے ڈاکوؤں کی اسٹوری سے آگاہ کروں گا، میں اس اسٹوری پر کام کر رہا تھا کہ یہ سندھی و بلوچی مہمان نواز کلچر کے لوگ اظلم ڈکیت کب بنے ؟ کیوں بنے؟ کیسے بنے ؟ ان کے ظالم بننے کے پیچھے کیا کیا عوامل تھے ؟ ابھی میں اس نہج پر ہی پہنچا تھا کہ کل رات والا سانحہ درپیش ہوا ، یہ ایسا سانحہ ہے شاید ہم ضلع رحیم یار خاں کے لوگ اسے کافی عرصے تک بھلا نہیں سکیں گے ، ہماری دھرتی وسیب کے وہ نوجوان جب اس فورس میں بھرتی ہوئے ہوں گے اُن کے والدین بہن بھائیوں نے کیسی کیسی توقعات باندھ رکھی ہوں گی مگر ایک ہی حملے میں سب کچھ خاکستر ہو گیا، یہ بھی ایک اسٹوری ہے کہ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ خیر اب میں کیا وضاحتیں پیش کروں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اب کچے کے ڈاکوؤں والی اسٹوری کو کچھ عرصہ آپ بھول جائٰیں کیونکہ جب میں کسی اسٹوری پر کام کرتا ہوں تو اس کے زندہ کرداروں سے ملنا بھی ضروری سمجھتا ہوں تبھی تو جینئین حقیقتیں سامنے آتی ہیں ، اب ان حالات میں کیا میں کچے کا سفر کر سکتا ہوں ؟ اس لئے میں آپ کو خان پور میں آنے والے ہولناک سیلاب کی اسٹوری پڑھانا چاہتا ہوں حالانکہ یہ اسٹوری میں سال ڈیڑھ سال پہلے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کر چکا ہوں مگر ان دنوں میرے فالوورز تھے شاید بیس بائیس ہزار اب جب سے میں نے صادق شاہ کی اسٹوری اپ لوڈ کرنا شروع کی ہے میرے فالوورز کی تعداد تقریباً 38 ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے ، اب نئے آنے والے دوستوں کو بھی تو ہم نے یہ حقیقت پر مبنی اسٹوری پڑھانی اور دکھانی ہے ، اس کو اپ لوڈ تو میں نے آج 23 اگست کی صبح ہی کرنا تھا مگر رات والے سانحے کی وجہ سے میں صدمے میں تھا اس لئے سارا دن یہ اسٹوری اپ لوڈ نہیں کی ، ویسے تو یہ کل بھی اپ لوڈ کی جاسکتی تھی مگر آج کیونکہ 23 اگست ہے اور خان پور میں سیلاب 23 اگست 1973 کی صبح داخل ہوا تھا ، اس لئے اسے آج کی تاریخ میں آپ کو پڑھانا چاہتا تھا تاکہ آپ ہمارے دکھ کو سمجھ سکیں جب 51 سال پہلے اس حبس زدہ موسم میں سیلاب آیا ہوگا تو ہم لوگوں نے اس کا کیسے سامنا کیا ہوگا؟

خان پور میں آنے والے 1973 کے خوفناک و ہولناک سیلاب کی کہانی (پہلی قسط)
لمحہ لمحہ کی رپورٹ!! قمراقبال جتوئی
میری پیدائش 1958کے اوائل ماہ کی ہے، 1973کے اگست میں میری عمر ساڑھے پندرہ سال بنتی ہے، اب اس عمر کا لڑکا اگر لمحہ بہ لمحہ کی آنکھوں دیکھی اسٹوری لکھ رہا ہے تو کئی قارئین اسے سُنی سنائی باتیں سمجھ کر کم ہی یقین کرتے ہیں خیر کوئی یقین کرے نہ کرے اساں شروع کریندے پئے ائیں!! 1973کے ماہ جون ، جولائی میں ملک بھر میں شدید بارشیں ہوئیں جو ہمارے ملک میں سیلاب کی وجہ بنیں، اگست شروع ہوا تو میرے کانوں نے لفظ سیلاب پہلی بار سنا، مجھے نہیں پتہ تھا کہ سیلاب کہتے کسے ہیں؟ خیر ہمارا گھر خان پور کے قدیم محلے محلہ ٹھٹھاراں میں تھا اور جیٹھہ بھٹہ بازار سے متصل تھا، اس لئے روزانہ بازار میں قائم چائے خانوں میں سے یہ باتیں سننے کو ملتی تھیں،پھر ایک دن پتہ چلا کہ پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں اونچے درجے کا سیلاب ہے اس لئے شاید ہیڈ پنجند کو بچانے کے لئے دریا کے بند کو توڑا جائے گا، بزرگوں سے سنا کہ پہلے بھی جب اس مقام پر سیلاب اونچے درجے کا آتا ہے تو دریا کے بند کو علی پور والی سائیڈ سے توڑا جاتا ہے اور یوں یہ سیلابی پانی چند درجن بستیوں کو تاراج کرتا ہوا دوبارہ سیت پور کے مقام پر دریا میں آن گرتا ہے،مگر اُس وقت ضلع مظفرگڑھ کے بڑے زمیندار غلام مصطفی کھر صاحب گورنر پنجاب تھے اور ان کی بات مانی بھی جاتی تھی(یہ بات بھی ان دنوں ہوئی کہ ہیڈ پنجند کے آب نوش تو ریاست بہاولپور کے لوگ ہیں اور ڈوبیں ہم ضلع مظفرگڑھ والے ) اسی لئے 17اگست کو جب دریائے چناب میں شدید طغیانی اور سیلابی ریلے کے باعث ہیڈ پنجند پر 7لاکھ 62ہزار پانچ سو سولہ کیوسک پانی گذر رہا تھا اور مزید سیلابی ریلا کی آمد تھی تو طے ہوا کہ ہیڈ کو بچانے کے لئے بند کو توڑ دیا جائے تو بند کو توڑنے کیلئے جگہ مختص کی گئی، بستی خیرپور ڈاہا کے قریب بند کو بم مار کر اڑا دیا گیا،سیلابی پانی جونہی بند کی بندش سے آزاد ہوا تو یہ شور مچاتا، بپھرے ہوئے سانڈ کی مانند بستیوں کو تاراج کرتا ہوا، اوچ شریف کی جانب بڑھتا چلا گیا، ابتدا میں محکمہ آبپاشی والوں کے خیال میں تھا کہ یہ پانی اوچ شریف تک ہی تباہی پھیلائے گا مگر ان کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور سیلابی ریلا آہستہ آہستہ 1870کی طرح خان پور کی جانب رواں دواں تھا، یاد رہے کہ جب ہیڈ پنجند نہیں تھا تو تقریباً سو سال پہلے 1870میں بھی دریائے چناب میں اسی مقام پرخوفناک سیلاب آیا تھا جس نے خان پو ر کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، خیر 17اگست کو ہیڈ پنجند سے روانہ ہونے والا پانی 23اگست کو ہیڈ تلے والا پہنچ گیا، میں اس دن فیملی پلاننگ والے ڈاکٹر رحمانی صاحب کا 50سی سی والا چھوٹا ویسپا سکوٹر لے کر شیریں نہر کے کنارے کنارے سے ہیڈ تلے والا پہنچا تھا، وہاں خان پور کے شہری کثیر تعداد میں موجود تھے، تقریباً ایک گھنٹے بعد یعنی گیارہ بجے کے لگ بھگ پانی کا پہلا ریلا ہیڈ تلے والا پر پہنچا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی سطح بلند ہونے لگی، سیلابی پانی کے آنے پر سب سے پہلے وہاں سانپ نکلے، جنہیں مارنے کیلئے نوجوان لاٹھیاں لیکر بھاگے پھرتے تھے، پھر دو یا تین سور آئے (ویسے ہنڑ آبادیاں وچ وی آگن) ساتھ ساتھ کئی بھیڑ بکریاں بھینسیں بھی پانی میں تیرتی ہوئی پہنچیں اور اس کے علاوہ مکانوں کو گراتا، بستیاں تاراج کرتا پانی جب مزید بلند ہوا تو مکانوں کی کھڑکیاں، دروازے، کڑیاں،شہتیر اور بلب تیرتے ہوئے وہاں پہنچے، پانی کی شدت کا اندازہ وہاں موجود لوگوں کو قطعاً نہیں تھا، جبکہ اس وقت خان پور کے شہری حلقے چاہتے تھے، عباسیہ نہر (جو سوکھی تھی) اسے توڑا جائے اور یوں یہ پانی گورنر اسٹیٹ بنک جی معین الدین کے باغوں اور زرعی اراضی سے گذر کر شیریں نہر کے کنارے سے ہوتا ہوا چاچڑاں ریلوے لائن سے تھری ایل کے مقام پر آن ٹکرئے گا اور پھرریلوے لائن توڑ کر ہم اسے خان پور شہر کے اندر آنے سے روک سکتے ہیں،دوسری جانب جی معین الدین کے منیجر اُس وقت کے ایم پی اے چوہدری کلیم اللہ نے بھی دستی قبائل کے بندے اکٹھے کر رکھے تھے کہ اس لئے کہ اگرخان پور کے شہریوں نے نہر توڑ کر ہمارے باغوں اور اراضی کی جانب پانی چھوڑنے کی کوشش کی تو ہم انہیں ایسا کرنے سے بزور قوت روکیں گے، اور جب سینکڑوں شہری اپنے ہاتھوں میں بیلچے اور کسیاں تھامے پانی کا رخ بدلنے کی کوشش کے لئے آگے بڑھے تو چوہدری کلیم اللہ کے کہنے پر کلہاڑیوں اور لاٹھیوں سے مسلح دستیوں نے شہریوں پر حملہ کردیا اور اسی دوران وہ اللہ بخش غضبہ، خواجہ نذیراحمد، اس کے چھوٹے بھائی خواجہ بشیراحمد اور جماعت اسلامی کے ہارڈ ورکر (جو پی ٹی آئی کو پیارے ہوچکے ہیں) چوہدری محمد انور کو اُٹھا کر لے گئے، جونہی یہ خبر خان پور کے شہریوں تک پہنچی تو وہ مزید سہم گئے، (شہری لڑائی بھڑائی کے عادی نہیں ہوتے، جبکہ دیہاتی کیلئے عام سی بات ہے)خیر مذاکرات کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا مگر تینوں کو سوٹیاں لگی تھیں جس کی وجہ سے وہ زخمی بھی ہوئے، پانی کی صورتحال دیکھ کر شہری خان پور شہر کی جانب لوٹ آئے اور آتے ہی اپنے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا اٹھا کر ریلوے لائن اور ریلوے اسٹیشن پر ڈیرے لگانے لگے(کیونکہ یہ اونچی جگہ تھی) شہری دفاع کے ایک عہدیدار بدر منیر صاحب (جو بعدازاں مجسٹریٹ اور پھر اسسٹنٹ کمشنر بھی بنے تھے) انہوں نے تانگے پر لاؤڈ اسپیکر رکھ کر شہر بھر میں اعلان کیا کہ لوگو اپنے اپنے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاؤ، منادی کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد شام ہونے سے پہلے ریلوے لائن اور ریلوے اسٹیشن کو محفوظ سمجھتے ہوئے قیمتی سامان اور اپنی جان بچا کر وہاں آکر ڈیرے لگا چکی تھی
ہم خود اپنے خاندان سمیت سید عظیم شاہ کے گھر کے سامنے ریلوے لائن پر آچکے تھے، البتہ میرے والد صاحب اور ڈاکٹر حافظ عبدالواحد کے والد صاحب بابا عبدالخالق نے اپنے اپنے گھر چھوڑنے سے انکار کردیا (ہمارے گھر ایک دوسرے سے متصل ہیں) شاید انہیں یقین تھا کہ لوگ وہم کر رہے ہیں پانی اتنا زیادہ نہیں ہوگا کہ ہمارے گھروں تک پہنچے، مگر سیلابی پانی کسی کے وہم و گمان سے بھی زیادہ تھا،اُس رات میں اپنے خاندان سمیت ریلوے پٹڑی پر سویا، میں ریلوے کی پٹڑی کو ہی سرہانہ بنا کر سو گیا، سارا دن گھر کا سامان محفوظ کرتے گذری اور کچھ سامان گھر سے نکال کر ریلوے لائن پر لاتے گذر گئی، میں سارے دن کی تھکاوٹ کے ساتھ ریلوے لائن پر بچھے گرم پتھروں کو بستر اور ریلوے کی پٹڑی کو سرہانہ سمجھ کر سو گیا، صبح کے شاید پانچ بجے ہوں گے کہ ریلوے لائن میں ارتعاش کے سبب میری آنکھ کھل گئی، میں ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھا پہلا خیال یہ آیا کہ کوئی ٹرین آگئی ہے، جب غور کیا تو ایسی کوئی بات نہیں البتہ ریلوے لائن میں ارتعاش وہاں موجود سب لوگوں نے محسوس کیا تھا اور پریشان تھے کہ یہ کس وجہ سے پیدا ہوا ہے (بعد میں پتہ چلا کہ فوجیوں نے چاچڑاں ریلوے لائن کو تھری ایل کے نزدیک بم مار کر اڑایا ہے تاکہ پانی دوسری جانب چلا جائے) اس بم دھماکے کے اثرات چار کلومیٹر دور بھی پہنچے، خیر میرا خالہ زاد بھائی بشیراحمد بھٹی جو کہ میرے ساتھ ہی وہاں سو رہا تھا اس نے کہا کہ سائیکل تے جلوں شہروں چکر مار آؤں؟ میں نے کہا اماں کنوں پُچھ گھناں؟ اُس نے کہا اماں کنوں پچھسیں تاں او کائنا ونجنڑ ڈیسے، آخر ہم نے فیصلہ کیا کہ چپکے چپکے سائیکل نکال کر ریلوے لائن کی دوسری جانب چلیں تاکہ گھر والوں کو پتہ نہ چلے، ہم دونوں سائیکل ہاتھ میں تھامے جب پھاٹک پر پہنچے تو وہاں سائیکل پر سوار ہو کر میونسپل کمیٹی کی جناب سائیکل بھگا دیا ہم میونسپل کمیٹی چوک پر پہنچے تو پانی شہر میں داخل ہو چکا تھا، پانی کی بلندی گو ایک فٹ بھی نہیں تھی مگر اس کی تیزی بتا رہی تھی کہ اس کے پیچھے بھی بہت زور دار پانی کا ریلا آرہا ہے، میں سائیکل چلا رہا تھا اور بشیر بھٹی پیچھے بیٹھا تھا ہم مونسپل کمیٹی چوک سے ہوتے ہوئے سول ہسپتال کی طرف مڑ گئے اور پھر گرلز ہائی اسکول کے سامنے سے ہوتے ہوئے چار چک اڈہ کی جانب آرہے تھے پانی کا زور اتنا تھا کہ وہ مجھے سائیکل کاپینڈل مارنے میں مدد فراہم کر رہا تھا تیز پانی سائیکل کو آگے دھکیل رہا تھا ہم اٹھیکلیاں کرتے، شور مچاتے موج مستی کرتے جونہی موجودہ خوجیں والا چوک پر پہنچے تو ہمارے شور کی آواز سے ہڑبڑا کر ایک 6/7فٹ لمبا کالا سیاہ سانپ پھن پھیلائے جو ہادی خوجے کی ہوٹل کے سامنے برف والے پھٹے پر بیٹھاتھا اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی! سانپ کا پانی میں اترنا تھا کہ!!

Address

Taskeen Mahal Meelad Chowck
Khanpur
64100

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Q One TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Q One TV:

Videos

Share



You may also like