Sadiq Shaikh

Sadiq Shaikh .سڀ سڀوئي حال منجھان ئي معلوم ٿئي

11/01/2023

سنڌ جي ستن ضلعن جي روزانه جي بنياد تي حاضري 16/1/2023 کان شروع ڪئي ويندي هر استاد پنهنجي فون تان ڏينهن ۾ ٻه دفعا حاضري لڳائيندو نوٽيفڪيشن جاري.

ایندڙ سومر کان استاد صاحبان پنھنجي ئي موبائل فون ۾ (PMS SINDH) اينڊرائڊ ايپ جي ذريعي ڏينھن ۾ ٻه ڀيرا پنھنجي روز جي حاضري لڳائيندا.. ان جي لاء ايندڙ جمعي کان استادن کي ايپ استعمال ڪرڻ جي ٽريننگ پڻ ڏني ويندي ۽ ان لاء ھر استاد وٽ ٽچ موبائل ۽ ان سان گڏ انٽرنيٽ جو ھجڻ لازمي آھي..

10/01/2023

آج کی حدیث شریف
17 جُمادَی الاُخری 1444ھ
10 جنوری 2023 منگل

24/12/2022
14/12/2022
06/12/2022
01/12/2022
29/09/2022
28/09/2022
28/09/2022

"I took up arms for the freedom of my color. It is our own - we will defend it or perish."

Founding Father and Governor-General for life - General Toussaint Louverture

28/09/2022

⁦▪️⁩ ربیع الاول کی برکات ⁦▪️⁩

عزیزان ملت!
ماہ ربیع الاول کا ورود تمہارے لیے جشن و مسرت کا ایک پیغام عام ہوتا ہے کیونکہ تم کو یاد آجاتا ہے کہ اسی مہینے کے ابتدائی ہفتوں میں خدا کی رحمت عامہ کا دنیا میں ظہور ہوا۔ اسلام کے داعی برحق ﷺ کی پیدایش سے دنیا کی دائمی غمگینیاں اور سرگشتگیاں ختم کی گئیں!
تم خوشیوں اور مسرتوں کے ولولوں سے معمور ہو جاتے ہو ، تمھارے اندر خدا کے رسول برحق کی محبت و شیفتگی ایک بے خودانہ جوش و محویت پیدا کر دیتی ہے ، تم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اسی کی یاد میں ، اسی کے تذکرے میں اور اسی محبت کے لذت و سرور میں بسر کرنا چاہتے ہو!
تم اس کے ذکر و فکر کی مجلسیں منعقد کرتے ہو ، ان کی آرایش و زینت میں اپنی محنت و مشقت کی کمائی بے دریغ لٹاتے ہو۔ خوشبو دار اور تر و تازہ پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو۔ کافوری شمعوں کے خوبصورت فانوس اور برقی روشنی کے بہ کثرت کنول روشن کرتے ہو ، عطر و گلاب کی مہک اور اگر کی بتیوں کا بخور جب ایوانِ مجلس کو اچھی طرح معطر کر دیتا ہے ، تو اس وقت مدح و ثنا کے زمزموں اور درود و سلام کے مقدس ترانوں کے اندر اپنے محبوب و مطلوب مقدس کی یاد ڈھونڈتے ہو اور بسا اوقات تمھاری آنکھوں کے آنسو اور تمھارے پُر محبت دلوں کی آہیں اس کے اسم مبارک سے والہانہ عشق اور اس کے عشق سے حیاتِ روحانی حاصل کرتی ہیں!
پس کیا مبارک ہیں وہ دل ، جنہوں نے اپنے عشق و شیفتگی کے لیے رب السموات والارض کے محبوب کو چنا اور کیا پاک و مطہر ہیں وہ زبانیں جو سیدالمرسلین ورحمتہ للعالمین ﷺ کی مدح و ثنا میں زمزمہ سنج ہوئیں!

انھوں نے اپنے عشق و شیفتگی کے لیے اس کی محبوبیت کو دیکھا ، جسے خود خدا نے اپنی چاہتوں اور محبتوں سے ممتاز کیا اور ان کی زبانوں نے اس کی مدح و ثنا کی ، جس کی مدح و ثنا میں خود خدا کی زبان ، اس کے ملائکہ اور قدوسیوں کی زبان اور کائنات ارض کی تمام پاک روحوں اور سعید ہستیوں کی زبان ، ان کی شریک و ہمنوا ہے!

[ 📘 رسولِ رحمت ﷺ ، صـ ۵۳- ۵۴ - مولانا ابوالکلام آزاد ]
• انتخاب و پیشکش : عبد الجبار آزاد

27/09/2022

Airclass - Global Online 1-on-1 Tutoring School. More than 500,000 students across 113 countries have

26/09/2022
26/09/2022

The scarlet macaw (Ara macao) is a large red, yellow, and blue Central and South American parrot, a member of a large group of Neotropical parrots called macaws. It is native to humid evergreen forests of the Neotropics. Its range extends from south-eastern Mexico to Peru, Ecuador, Colombia, Bolivia, Venezuela and Brazil.

24/09/2022

• مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا ظفر علی خان کی نظر میں•

[ آغا شورش کاشمیری اور مولانا ظفر علی خان کا ایک مکالمہ جسے آغا شورش کاشمیری صاحب نے اپنی معرکۃ آرا کتاب " ابوالکلام آزاد صـ ۴۸۳ تا ۴۸٦ میں درج کیا ہے]

جہان اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہوئی
ہے تجھ کو اس کی جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے!

شورش کاشمیری نے مولانا ظفر علی خان سے استفسار کیا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق آپ نے جو شعر کہا ہے وہ محض قافیہ کی بندش ہے یا فی الواقعہ آپ یہی سمجھتے ہیں؟
مولانا ظفر علی خان : جو کچھ میں نے کہا ، وہ لفظ ہی نہیں معناً بھی درست ہے.

شورش کاشمیری : کیا مولانا ابوالکلام تفسیر قرآن میں اسلاف کے پیرو اور اس عہد کے مجتہد ہیں؟
مولانا ظفر علی خان : بالکل ، اللّٰه تعالی نے قرآن فہمی کے باب میں انہیں خاص ملکہ عطا کیا ہے ، وہ زمانہ حاضر کی فکری تحریکوں کو بخوبی سمجھتے اور قرآن کو ہر زمانے کی پیچیدگیوں کا حل قرار دے کر انسانی معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ قرآن کی ابدی دعوت پر نظام کائنات کی اساس رکھتے ہیں ، ان پر بفضل ایزدی علم القرآن کے دروازے سے اس طرح کھلے ہیں کہ ان کے لیے کوئی سی راہ مسدود و منقطع نہیں ، ان کی آواز قرآن کی آواز ہے۔

شورش کاشمیری : مولانا کے ترجمہ و تفسیر میں بڑی خوبی کیا ہے ؟ اور وہ کونسا پہلو ہے جو دوسرے تراجم و تفاسیر کے مقابلے میں منفرد ہے؟

مولانا ظفر علی خان : ان کے ترجمہ و تفسیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی زبان میں خطاب کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کے الفاظ الوہیت اور نبوت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور یہ صرف اللّٰه کی دین ہے ، دوسرے تراجم جو اب تک ہندوستان میں ہوئے ہیں ، وہ قرآن کے الفاظ میں لغت و سخنانی ترجمہ ہیں ، ان میں قرآن کے شکوہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ عربی الفاظ کا ترجمہ ردو الفاظ میں کیا گیا ہے ، مطالب کی طاقت و پہنائی اوجھل ہو گئی ہے۔ آزاد کی تفسیر محض مقامی یا محض اسلامی نہیں ، بین الاقوامی و بین الملّی ہے ، وہ الہیاتی زبان میں کائنات کو خطاب کرتے ہیں!

شورش کاشمیری : ادب میں ان کا مقام کیا ہے؟
مولانا ظفر علی خان : فی الواقعہ وہ ایک سحر طراز ادیب ہیں ، ان کا قلم تلوار ہے ، وہ قرن اول کے غزوات کی چہرہ کشائی کرتے ، اور عصرِ حاضر کی رزم گاہوں میں مسمانوں کی فتح مندیاں ڈھونڈتے ہیں۔ ان کا اسلوبِ بیان بے مثال ہے آدمی ان کے الفاظ سے مسحور ہوتا اور مطالب میں ڈوب جاتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وہ نکتہ آفرینی کے اعتبار سے اس وقت ہندوستان بھر میں اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ قلم کی نزاکت اور علم کی طاقت مبدۂ فیاض نے ان کے لیے ارزاں کر دی ہے!

شورش کاشمیری: ان کی زبان عوام کے لیے مشکل ہے؟
مولانا ظفر علی خان : کوئی زبان مشکل نہیں ہوتی ، سوال ہمارے علم کا ہے کہ ہم کس حد تک اس سے بہرہ یاب ہیں۔ ان کی زبان قرآن کی زبان ہے ، جو قرآن نہیں جانتے یا اس کی زبان سے نابلد ہیں ان کے لیے ان کی زبان فی الواقعہ مشکل ہے ، ورنہ وہ آبشار کی طرح بہتی ہوئی اور چاندی کی طرح کھلی ہوئی زبان لکھتے ہیں ، وہ ہمارے عظیم ماضی کی زبان و بیان کے وارث ہیں.!

شورش کاشمیری : ان کے عوام سے کٹ کے رہنے کی وجہ کیا ہے؟
مولانا ظفر علی خان : ہر طبیعت کا ایک اسلوب ہوتا ہے ان کی طبیعت عوام گریز واقع ہوئی ہے ۔

شورش کاشمیری : مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت ان کی سیاست سے متفق نہیں ، وجہ کیا ہے ؟

مولانا ظفر علی خان : مسلمانوں کی عمومی تاریخ ہی یہ ہے کہ جن کی محرابِ عظمت میں ان کی موت کے بعد جبینِ اعتراف جھکا تے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی میں ان کے اعراض و انکار کی زد میں رہتے اور ان کے استبداد کی بھٹی میں پکتے ہیں پھر جب وہ اللّٰه کو پیارے ہو جاتے تو ایک زمانہ گزرنے پر مسلمان ان کی عظمت کا احساس کرتے اور ان کی مرحوم شخصیت کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ قرن اوّل سے یہی ہورہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے ائمہ کی رسوائی اپنے سلطانوں سے کرائی اور خود تماشائی بنے رہے۔ اب غلامی کے زمانے میں وہ دولت کو پوجتے اور طاقت کو مانتے ہیں ، ان کے نزدیک قربانی و استقامت کسی انسان کی اضافی اور علم و دیانت ضمنی خوبیاں ہیں۔ مسلمان من حیث الجموع ایک ہنگامہ پرست قوم ہے۔ وہ ہنگامہ گزر جانے کے بعد ٹھنڈی پڑ جاتی اور عموماً انہی کی وہ دشمن ہوتی ہے جو ابتلا و آزمائش میں پیش پیش رہے ہوں جو لوگ انگریزوں کی غلامی کا جواز ڈھونڈتے اور ان کی طاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں پر اعتراض کریں جو انگریزوں کے استبداد سے لڑتے ہیں تو یہ ایک دردناک المیہ ہے!

شورش کاشمیری : ان کی صحافت کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟

مولانا ظفر علی خان : اب وہ صحافت ہی سے دستکش ہو چکے ہیں ، لیکن الہلال بلا شبہ صور اسرافیل تھا ، اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے دینی قبرستان میں قم باذن اللہ کہا اور اس صدا سے انہیں جگا دیا تھا الہلال محض جریدہ ہی نہیں صحیفہ تھا کہ ہفتہ وار صحافت میں اس کا جواب نہ تھا۔

شورش کاشمیری : مولانا کے ساتھ آپ کے روابطہ کیونکر رہے؟
مولانا ظفر علی خان : میرے ساتھ انہیں ہمیشہ تعلق خاطر رہا ، سر مائیکل اڈوائر نے زمیندار کو اپنے عتاب کا نشانہ بنایا تو الہلال میں انہوں نے کئی مقالے تحریر کیے اور حکومت کی روش پر نکتہ چینی کرتے ہوئے زمیندار کی آواز کو زندہ رکھنے کے لیے عامۃ المسلمین کو آمادہ کیا۔

شورش کاشمیری : آپ مولانا سے ملتے تو گفت گو عموماً کس موضوع پر ہوتی ؟
مولانا ظفر علی خان : ہر موضوع پر جو اس وقت ہندوستان میں قومی آزادی اور مسلمانوں کے استقلال کا موضوع ہوتا۔

شورش کاشمیری : آپ نے ادب پر کبھی بات چیت کی ؟
مولانا ظفر علی خان: کئی دفعہ ، آزاد اردو ادب کی رفتار موڑ دینے اور اس کو کاملاً انقلابی ڈگر پر لانے کے متمنی تھے۔

شورش کاشمیری : وہ مزاجاً کس ڈگر کے انسان تھے؟
مولانا ظفر علی خان : مہادیو ڈیسائی انہیں مغلی تہذیب کا اجلا نقش کہتے ہیں۔ لیکن وہ مغلی تہذیب سے کہیں زیادہ عربی تہذیب کی اردو تصویر ہیں ۔ وہ دہلی مرحوم کے نہیں بغداد مرحوم کے انسان تھے۔ جب مسلمانوں کا وہاں طوطی بولتا تھا اور بغداد اس دور کی متمدن دنیا میں عروس البلاد تھا۔ مولانا نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا ، وہ امویوں کے دمشق ، عباسیوں کے بغداد اور مغلوں کی دھلی میں ہوتے تو ان کا وجود جہاں ہوتے اس قرن یا عہد کے لیے مایہ ناز ہوتا۔ وہ انسانی قامت میں ڈھلی ہوئی تاریخ کی ایک عظیم سچائی ہیں۔

شورش کاشمیری : ان حالات میں مسلمان ان سے کیونکر استفادہ کر سکتے ہیں ؟
مولانا ظفر علی خان : یہ سوال تمہاری ذہنی اپچ ہے ، علم جب مخاطبت کا میدان خالی پاتا اور عمل اپنوں کی بے رخی سے کبیدہ خاطر ہوتا ہے تو عبقری انسان کی خلوت ہی اس کی انجمن ہوتی ہے۔ آزاد اپنے تئیں دور افتادہ صدا اور غریب الدیار انسان سمجھتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ وہ اس عہد اور محل کے انسان نہیں لیکن اس عہد اور محل میں پیدا ہو کر ناقدری زمانہ کی دستبرد میں ہیں۔ وہ سیاست دان نہیں کیونکہ سیاست دان ہمیشہ اپنے مستقبل پر سوچتے ہیں ، وہ مدبر ہیں اور مدبر ، انسان کے مستقبل پر سوچتا ہے ، ہندوستان جن اقوام کا مجموعہ ہے ان میں کوئی سی قوم اپنی بوقلمونیوں کے باعث آزاد سے متفق نہیں ، وہ اپنے تئیں اس طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح لالہ خود رو بیابان میں ہو!

• انتخاب ، ترتیب و تزئین : عبد الجبار آزاد

23/09/2022

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی شیطان مردود سے
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

23/09/2022
23/09/2022
22/09/2022

Beautiful artwork by Walter Frederick Osborne to enjoy.
This one is a favorite....

22/09/2022

فارم B ٺاهڻ جو طريقو
1. پهريان توهان کي پنهنجي لاڳاپيل ڳوٺاڻي ڪائونسل آفيس مان پيدائش جو سرٽيفڪيٽ وٺڻو پوندو جنهن ۾ 3 کان 6 ڏينهن لڳي سگهن ٿا.
2. پيدائش جا سرٽيفڪيٽ ٺاهڻ کان پوءِ نادرا آفيس ۾ وڃو ۽ اپلائي ڪريو، اتي توهان کي هڪ فارم ڏنو ويندو جنهن جي تصديق بااختيار آفيسر کان ڪرائي ويندي ۽ واپس نادرا آفيس ۾ جمع ڪرايو ويندو. ڄمڻ جا سرٽيفڪيٽ، اسڪول سرٽيفڪيٽ، يا فوليو ڪارڊ شامل ڪريو.
نوٽ. نادرا 6 ڊسمبر کان پاليسي تبديل ڪري ڇڏي. ڪنهن به خاندان ۾ جيترا ٻار آهن، انهن جي ڄمڻ جا سرٽيفڪيٽ، انهن جي شادي جا سرٽيفڪيٽ، جيڪڏهن والدين مان ڪنهن جي وفات ٿي وئي آهي ته انهن جي موت جا سرٽيفڪيٽ گهربل آهن. هي غلط فهمي عارضي آهي ۽ ان مان عوام کي سخت مشڪلاتون پيش اچي رهيون آهن، پر اهو سڀ ڪجهه اسان جي فائدي لاءِ آهي، مقصد آهي ته ڪجهه مهينن بعد نادرا جو 95 سيڪڙو رڪارڊ صاف ڪيو وڃي. ويندي ۽ اهو ماڻهن لاء تمام آسان ٿيندو.
تنهن ڪري هن مهم ۾ انادرا سان تعاون ڪريو هي مهم عارضي آهي. ۽ اسان جي فائدي لاء
مهرباني..

01/09/2022

711 to 1492 Spain, as it is now known, was ruled by Black African Moors. The etymology of the word ‘Moor’ is black, or dark. Moors were a mix of Black African and Arabic Muslims who ruled Spain and the rest of the Iberian peninsula between 711 and 1492.

Guys let's get our YouTube channel (YT: Historical Africa) to 10k subscribers. Kindly click on the link to subscribe. 🙏 https://youtube.com/c/HistoricalAfrica

01/09/2022
31/08/2022

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی شیطان مردود سے
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

31/08/2022
31/08/2022
31/08/2022

آج کی اچھی بات
03 صفر 1444ھ
31 اگست 2022 بدھ

Address

Khairpur Mirs

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sadiq Shaikh posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category