Yaadgaar

Yaadgaar Understanding the actual theoretical Challenges with its Philosophy and the Rejection

Welcome to Tafheem, your go-to source for exploring the multifaceted concepts and news surrounding capitalist values, the repercussions of Western ideologies, and Islamic critiques on Western civilization and its philosophers. Our page delves deep into the inherent contradictions and crises within capitalist societies, offering insightful perspectives on how these values shape global economies and

cultural paradigms. We also highlight the adverse impacts of Western values, examining how they affect individual and societal well-being. Through a critical Islamic lens, we challenge the dominant narratives of Western civilization, drawing on historical and contemporary Islamic thought to provide a robust critique. Join us as we discuss influential Western philosophers and their ideologies, juxtaposing them with Islamic perspectives to foster a comprehensive understanding of the ongoing intellectual discourse. Stay informed and engaged with our regular updates, articles, and thought-provoking discussions aimed at fostering a well-rounded and critical view of these pivotal issues. Follow us to stay updated with the latest insights and engage in meaningful conversations that challenge the status quo and inspire intellectual growth.

سوشل میڈیا پھر جیت گیا- سلمان علی -October 27, 2024شیطان ایکشن میں:پنجاب کالج کیس کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچ...
27/10/2024

سوشل میڈیا پھر جیت گیا
- سلمان علی -October 27, 2024

شیطان ایکشن میں:
پنجاب کالج کیس کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچی کے علاقے الیون بی نارتھ کراچی میں واقع بلال مسجد کے بالکل پڑوس میں نئی تعمیر ہونے والی انڈس یونیورسٹی نے بھی توجہ حاصل کرلی۔ یہ ایس ٹی پلاٹ کہا جاتا ہے مگر یہاں عین رہائشی علاقے میں ایسی یونیورسٹی کا قیام بھی سوالیہ نشان ہے۔ بہرحال انہوں نے اپنے اس نئے کیمپس میں داخلوں کے نام پر ایک ’ویلکم پارٹی‘ رکھی۔ اس پارٹی میں جو کچھ ہوا، دو دن بعد وہ سوشل میڈیا پر ڈسکس ہونے لگا۔ تصاویر کیا تھیں بم کا گولہ تھیں۔ ایک تصویر پر لکھا ہوا تھا ’’شیطان تمہاری کارکردگی سے خوش ہے‘‘۔ اب یہ کیا کارکردگی ہوگی؟ یہ جاننے کے لیے میں نے ذرا سا سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ ’’شیطان اپنے پیروکاروں کو فحاشی کا حکم دیتا ہے‘‘۔ تو اُس ویلکم پارٹی کی مزید تصاویر ہی نہیں وڈیوز بھی چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ جو کچھ وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں وہاں کررہے تھے وہ سب خالص شیطان کے احکامات کی پیروی یعنی اُس کی پرستش ہی کہلائے گا۔ مجھے تو وہ فحاشی سے بھی آگے کا کوئی قدم لگ رہا تھا۔ امریکا میں واقع ’’شیطانی چرچ‘‘ ہی نہیں الیومناٹی سمیت دیگر تمام شیطانی علامات کو اسکرین پر چلایا جاتا رہا۔ موسیقی کی دھن پر جو کچھ وہاں ہورہا تھا، اہلِ علاقہ پر تو جو گزری وہ گزری، مگراب سوشل میڈیا کی وجہ سے مزید بھونچال آیا۔ لڑکے لڑکیاں اس شیطانی علامت کے سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بناتے رہے۔

اب جو ردعمل آیا تو یونیورسٹی انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھولے اور انہوں نے ایک معذرت اپنے فیس بک پیج پر ڈال دی۔ اس میں انہوں نے لاکھوں روپے کے خرچ سے ہونے والی پارٹی کو ’’حادثہ‘‘ قرار دیا۔

نیون لائٹ میں لکھی گئی تحریر کو اپنی انتظامی غلطی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ہماری نیت ایسی نہیں تھی۔ ہم نے تھرڈ پارٹی وینڈر سے کام کرایا تھا، وہ بھی اور ہم بھی اس کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ہم تو بڑے مذہبی ہیں اور خیال رکھتے ہیں کہ ایسے حادثے نہ ہوں، ہم آئندہ اس کا خیال رکھیں گے۔ کہنے کو بات ختم ہوگئی، مگر یہ بات اتنی ہلکی نہیں ہے۔ وڈیوز تو سوشل میڈیا پر چلتی رہیں گی، ان کی معذرت کوئی نہیں دیکھ رہا۔ میں نے یونیورسٹی رابطہ کیا، دونوں کیمپس کا دورہ کیا۔ ان کے ڈپٹی رجسٹرار اور مارکیٹنگ منیجر سے ملاقات ہوئی، یونیورسٹی کے حالات دیکھے۔ ان سے وینڈر کا نام معلوم کیا جو کہ ڈی جے ہنی تھا۔ ڈی جے سے بات ہوئی تو انکشاف ہواکہ وہ تو یہ کام پارٹی کے آرڈر پرکرتا رہتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کے پاس موجود ہیں اور لوگ شوق سے کرا رہے ہیں۔ اس نے کراچی کی مزید کئی نجی جامعات کے نام بھی لیے۔

اب اگر شیطان کا نام لے کر، اس کی علامتی تصاویر لگاکر یہ کام کراچی میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اپنا تن، من، دھن نچھاور کرکے انجام دے رہے ہیں تو اس کا مطلب کیا محض تفریح ہے؟یہ لوگ محسوس یا غیر محسوس طور پر شیطان کاگروہ نہیں بن رہے؟ کیا ان پارٹیوں میں لوگ یہاں سے نوجوانوں کو مختلف لالچ دے کر نہیں ’’گھیرتے‘‘ ہوں گے؟ پس خاموش تماشائی بننے والوں کو اُس عذابِ الٰہی کی دعوت ہے جس میں اللہ نے بستی کے سب سے بڑے عابد و زاہد پر پہلے الٹنے کا حکم دیا تھا۔ اتفاق سے یہ یونیورسٹی ایونٹ بھی بالکل مسجد کے برابر میں ہوا۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ریاست بنا ہوا ہے، اس کا آئین ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں، تھانے ہیں، جیلیں ہیں۔ اگر سنگین جرائم کے بعد سب ایسی معذرتیں کرنا شروع کردیں توپھر ملک کیسے چلے گا!

انڈس یونیورسٹی بھی پاکستان کی دیگر نجی یونیورسٹیوں کی لسٹ میں شامل ایک نام ہے جہاں نوجوان نسل کو مخلوط،آزادانہ،لبرل،سیکولر اقدار کی طرف راغب کرنے کا مشن بخوبی انجام دیا جاتا ہے۔نئے داخلوں کے لیے یا پاس آئوٹ ہونے والوں کے لیے یا کسی اوربہانے سے یہاں ’ناچ گانے‘ کے ویسے ہی بے ہودہ ایونٹ منعقد ہوتے ہیں جو دیگر یونیورسٹیوں میں ہوتے ہیں۔ان میں سرکاری اورغیر سرکاری کی کوئی تفریق نہیں۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 31 کے مطابق ریاست کو اسلامی طرزِ زندگی کو فروغ دینے، اور فحاشی اور غیر اخلاقی حرکات کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان کی عبادت اسلامی طرزِ حیات تو ہو نہیں سکتی، لہٰذا یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ ملکی آئین توڑا گیا ہے۔ اب چلتے ہیں پینل کوڈ یعنی سزائوں کی کوڈنگ کی طرف۔واضح رہے کہ اس میں معذرت، معافی وغیرہ نہیں ہوتے۔

پاکستان پینل کوڈ (PPC) 1860، سیکشن 294 ۔ یہ دفعہ عوامی جگہوں پر فحاشی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں پر پابندی لگاتی ہے، اور تعلیمی ادارے بھی عوامی مقامات میں شمار ہوسکتے ہیں اگر وہاں ایسی سرگرمیاں ہوں جو فحاشی کے زمرے میں آئیں۔ اس دفعہ کے تحت کوئی بھی عمل یا مواد جو عوامی ناراضی کا باعث ہو، قابلِ سزا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان کی عبادت تو عوامی خوشی کا باعث نہیں ہوسکتی۔

یہی نہیں تعلیمی اداروں کے داخلی قوانین سے لے کر پی ٹی اے تک بے شمار قوانین توڑے گئے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ قانون کب حرکت میں آئے گا؟ کیا والدین اپنی اولاد کو شیطان کا ایسا پیروکار بننے کے لیے بھیجتے ہیں؟ یہ ناچتے گاتے لڑکے لڑکیاں آپس میں کیا ہیں؟ کیا ان کے والدین اتنے آزاد ہوچکے ہیں؟ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کیا ہوا؟

میڈیا ہتھیار ہے:
ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت یہ جملہ کئی میڈیا ماہرین نے بھی کہا ہے کہ ’میڈیا ایک خطرناک ہتھیار ہے‘۔ ہم نے بھی زمانۂ طالب علمی میں ایسا ہی کچھ پڑھا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہمارے اساتذہ نے اس کی یہ حقیقت بھی بتائی تھی کہ اس کی قدر خالص ’منفی‘ ہے، یہ قطعی ’نیوٹرل‘ نہیں ہوتا اس لیے اس کو خطرناک کے لاحقے کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ ہمارے ایک معززاستاد سلیم مغل تو صاف مثال دیتے ہوئے سمجھاتے تھے کہ سگریٹ نوشی مانندِ زہر نقصان پہنچاتی ہے، بالوں کے لیے تیل ہزارہا سال سے آزمودہ ہے، روزہ افطار کے وقت پانی یا دودھ مؤثر ترین مشروب ہے۔ یہ سب باتیں جاننے، ماننے، ایمان رکھنے کے باوجود آپ محض میڈیا کے اثر میں جاکر اپنے ایمان، یقین، تجربے، حتیٰ کہ اپنی صحت کے بھی برخلاف عمل کرتے ہیں، اور ایسا کرکے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ تیل کے بجائے کیمیکل زدہ شیمپو کا استعمال ہو، افطار کے وقت زہریلی کولڈ ڈرنک یا سگریٹ نوشی و دیگر… یہ سب آپ فخر سے انجام دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لیے آپ کو کس نے مجبور کردیا۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا کے بعد تو صورتِ حال مزید بھیانک اور ہولناک ہوچکی ہے اور بہت آگے جاچکی ہے۔ بہرحال بطور ایک مسلمان صحافی ایک بنیادی،لازمی کام خبردار کرنا ہے، حق بات بتانا ہے، وہ ہم بتاتے رہیں گے۔ اب بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کیس کوئی ایک نہیں، مستقل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان میں ہربار سوشل میڈیا اپنی ویسی ہی جیت کا اعلان کررہا ہے جیسا وہ پہلے کررہا تھا۔ جب یہ ہتھیار ہے تو ہتھیار کا کام ہے قابو کرنا، زیرکرنا، وہ یہ کام انجام دے رہا ہے۔

احسن العلوم:
اس ہفتے کراچی کے ایک معروف دینی مدرسے جامعہ عربیہ احسن العلوم کے درس حدیث کی دو منٹ کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر آئی اور اپنا کام کرگئی۔ وڈیو کے بارے میں بنیادی بات، اصل بات، اصل سوال، اصل حقیقت کو سمجھے بغیر لوگ وہی کام کرگئے جیسا وہ سگریٹ نوشی، شیمپو کے استعمال اور کولڈڈرنک پیتے ہوئے کرتے ہیں۔

وڈیو کوئی بھی ہو، یہ جان لیں کہ وہ کبھی بھی holistic یعنی ’کلیّت‘ میں کوئی بات بیان نہیں کرے گی۔ آسان لفظوں میں سمجھنے کے لیے ’’سیاق و سباق‘‘کہہ لیں، پس منظر کہہ لیں، سکے کا دوسرا رُخ کہہ لیں… یہ سب کوئی وڈیو بیان نہیں کرسکتی۔ پھر ایک کلپ ہو یعنی ٹکڑا ہو تو مزید محال ہوجاتا ہے۔

وڈیو میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک استاد اپنے درس کے دوران ایک طالب علم کو عمامہ پہننے کا حکم دیتا ہے، پھر کسی قریبی طالب علم سے کہتا ہے کہ وہ اس کو تھپڑ مارے۔ وہ طالب علم شاید عمامہ پہننے کے حکم پر عمل نہیں کرتا تو وہ جلال میں آکر فون کرکے اپنے والد کی تدریسی روایت کا حوالہ دے کر جلاد نامی عہدے پر فائز کسی کو بلاتا ہے جو وڈیو میں بالکل نظر نہیں آرہا ہوتا۔ استاد طالب علم کو سزا کے طور پر دس ڈنڈے لگانے کا کہتا ہے۔ وہ استاد صاف کہتا ہے کہ میں کئی بار سمجھا چکا ہوں، تم لوگ باتوں سے نہیں سمجھتے، جملے کہتاہے کہ تم منکر سنتِ رسول ہو۔ شکر کرو کہ ہم نے کفر تک نہیں پہنچایا۔ وہ طالب علم بدتمیزی کا ردعمل دیتا ہے، جس پر وہ استاد کہتا ہے کہ اس کو انتظامیہ کے پاس لے جائو اور اگر ہاتھ لگائے تو بتانا۔ اس کے بعد دعا کا منظر ہے جس میں استاد صاف کہتا ہے کہ طالب علم نے جس طریقے سے بدتمیزی کی ہے اس کو اللہ ساری زندگی ذلیل کرے اور کتے سے بدتر زندگی کرے اور ایسے گندے لوگوں سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اس دوران وہ طلبہ کو آمین کہنے کا بھی کہتا ہے، اور نہ کہنے پر بے غیرت بھی کہتا ہے۔

ہولسٹک ویو:
وڈیو سوشل میڈیا پر آئی اور تمام لبرل کے پیٹ میں مروڑ اُٹھی۔ ستم یہ ہوا کہ جو مذہبی اور دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی وڈیو کو دیکھ کر ان کے ساتھ ہم آواز ہوگئے۔ ساری دینی تاریخ، واقعاتی حقیقت، سب کچھ بھلا بیٹھے۔ یہ تک بھول گئے کہ خود ان کے اپنے بچوں کے اسکولوں میں محض فیس کی ادائیگی نہ ہونے پر کیا کچھ ہوتا ہے، یونیفارم کی درست پابندی نہ ہونے پر کیا معمول ہے۔ فوجی بھرتی کے ٹیسٹ سمیت دسیوں معاملات ہیں جہاں جسمانی طور پر ایذا دینا معمول ہے۔

اس وڈیو کو دیکھ کر کبھی بھی یہ تاثر قائم نہیں ہوسکتا کہ اُس لڑکے کو ساڑھے سات سال سے یہی مدرسہ وقت پر کھانا دیتا رہا، آرام و رہائش الگ۔ اس وڈیو سے یہ بھی نہیں معلوم ہورہا کہ عمامہ پہننا مدرسے کی روایت کا کتنا اہم حصہ ہے (جیسا کہ اسکولوں میں یونیفارم سمجھ لیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ یونیفارم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مطہرہ نہیں ہے۔ تاہم عمامہ کے بارے میں کسی کو ابہام نہیں ہوگا)۔ اس وڈیو کو دیکھ کر کوئی یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ استاد جس عمامے کا کہہ رہا ہے وہ اس شاگرد سے محض ایک گز کی دوری پر اس کی ٹیبل پر ہی تھا جسے وہ بار بار کہنے کے باوجود نہیں پہن رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عمامہ کہیں دکان سے خرید کر لانا تھا۔ اس وڈیو میں باوجود اس کے کہ استاد کہہ رہا ہے کہ میں نے کئی بار سمجھایا ہے، کئی بار زبان سے سمجھایا ہے… مگر وہ جملہ کوئی نوٹ نہیں کرسکا،کیوں؟ جب ڈنڈے مارنے والا آیا تو شاگرد نے جس طرح کا عمل دیا وہ بھی وڈیو میں کسی کو نظر نہیں آرہا۔ یہ اور اس طرح کے کئی امور ہیں جو وڈیو میں ظاہر نہیں ہورہے، وڈیو کو کئی جگہ سے کاٹ کر جوڑ کر بنایا گیا ہے، یہ بات بھی شاید لوگ نہیں سمجھے۔ رہی بات دعا کی، تو کم علم لوگ شاید نہیں جانتے کہ وہ بھی کوئی خلافِ شرع عمل نہیں ہے۔ بہرحال ان سب کے باوجود سوشل میڈیا یوں جیت گیا کہ اگلے دن ہی معافی مانگ لی گئی اور بات اپنے تئیں ختم کردی گئی۔

اس ضمن میں دوسری سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جب تک علمائے کرام میڈیا کے ڈسکورس کا حصہ بنے رہیں گے،جو اُن کا نہیں ہے، جس کو انہوں نے سخت انکار کے بعد نامعلوم وجوہات پر اپنایا ہے، تو لازم ہے کہ اکابرین کے فتاویٰ کے مطابق زہریلے نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ گزشتہ نصف صدی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ سارا میڈیا… سوشل ہو یا غیر سوشل… کسی بھی دین کے فروغ کے لیے نہیں بنا ہے۔ اس کو علمائے کرام کسی بھی نیت سے استعمال کریں گے وہ اسی طرح (سیکولر و مذہب دشمن عوام کے نزدیک) ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے، چاہے کتنے بڑے بڑے’’پھنے خان‘‘ کیوں نہ ہوں۔ میڈیا ڈسکورس میں جانے کے بعد سب کے کپڑے ایک ہی طرح سے اُترتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا تو اور زیادہ خطرناک ہے۔ سیکڑوں سالہ تہذیبی علمی روایت کو اس طرح میڈیا پر جب لایا جائے گا تو یہی نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ایک نہیں کئی مثالوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں جو یہی بتا رہے ہیں کہ جس مصلحت کے لیے تصویر اور وڈیو کی گنجائش نکالی گئی وہ انتہائی بھیانک صورت اختیار کرچکی ہے۔ عمامے کی اہمیت سے زیادہ موبائل، تصویرکشی کی حرمت پر ڈنڈے برسانے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ استعماریت کا غلبہ لوگوں کو تو دور کی بات، ہمارے علما کو بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ تو ترقی اور ہیومن رائٹس ڈسکورس کو دینی سمجھ کر دل سے قبول کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک جواب نہیں دے پاتے، منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اِس لیے اصل معاملہ وڈیو، تصویر کا ڈومین ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھے، جانے بغیر لٹی ہوئی عزت واپس نہیں آسکتی، بلکہ مزید لٹتی ہی رہے گی۔

مزید تفصیلات پہلے دوسرے کمنٹ میں

پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس :پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح ہے۔اِس سے مراد وہ خاص حالات بھی لیے جاتے ہیں کہ جن میں معر...
20/10/2024

پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس :
پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح ہے۔اِس سے مراد وہ خاص حالات بھی لیے جاتے ہیں کہ جن میں معروضی حقائق کی بجائے جذبات سیاسی فیصلوں کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ مہم کے دوران، غلط اور مبالغہ آمیز دعوے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے، جیسے کہ یورپی یونین کو فنڈنگ کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ دعوے۔اسی طرح امریکی صدارتی انتخابات (2016) میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم میں سوشل میڈیا پر جعلی خبریں اور سازشی نظریات بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے، جنہیں سچ مان کر ووٹرز نے قبول بھی کیا، بھارتی الیکشن میں مودی کی کامیابی کو بھی اسی تناظر میں استعمال کیا گیا۔ عمران خان پاکستان کے ضمن میں سوشل میڈیا کی پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس کی انتہائی اہم مثال میں شامل ہیں۔ ویسے اگر کوئی سوال کرلے کہ ان مثالوں سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ ’جھوٹ پرکیسا عمل کرتے ہیں؟‘ تو یہ غلط نہ ہوگا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ مغرب اصطلاحات کی ایسی خوش نما چادرچڑھاتا ہے کہ حقیقت ویسے ہی چھپ جاتی ہے، جیسے یہاں ’جھوٹ‘ کا نام ’پوسٹ ٹرتھ ‘ رکھ دیا گیا۔ جس کے بظاہر لفظی معانی ہیں ’’سچائی کے بعد‘‘۔ ویسے نظری اعتبار سے دیکھا جائے دیکھا جائے تو سچائی کے بعد جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ اس ہفتے لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں واقع پنجاب گروپ آف کالجز کے لڑکیوں کے کیمپس میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کی خبر کو ایسے انداز سے پھیلایا گیا کہ پنجاب کا منظر ہی یک لخت تبدیل ہوگیا۔پاکستان ہی نہیں بھارتی و عالمی میڈیا پر یہ خبر ایسے نشر ہوئی کہ خود اْن اداروں پر سوال اْٹھتا ہے کہ کیسے ’مبینہ‘ کے نام پر ایک یکسر جھوٹا واقعہ رپورٹ کرتے رہے۔ کیا عوام نے بھی حقیقت اور حقائق کو مدنظر رکھنے کے بجائے جذبات کا اظہار ایک ایسی حد تک کیا جو سوشل میڈیا ڈسکورس میں آنے والی خبر کا لازمی نتیجہ کہلائے گا۔ ویسے ہم جانتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر ایسے ہی اظہار کرتے ہیں۔

پوسٹ ٹروتھیے :
معروف کالم نگارآصف محمود لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے پوسٹ ٹروتھیے جھوٹ اور دجال کے سفیر بن چکے ہیں۔ معاشرے کو ہمہ وقت ہیجان اور اضطراب سے دوچار کر کے رکھا ہوا ہے۔ پانچ دن ہو گئے یہ لوگ اب تک کیوں نہیں بتا رہے بچی کون تھی؟ نام کیا تھا؟ کلاس کون سی تھی؟ داخل کس اسپتال میں ہوئی؟‘‘ عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ ’’جس میں 100 فیصد فیک نیوز کو بذریعہ سوشل میڈیا حقیقت ثابت کرنے اور اس کے نتیجہ میں سماجی اُبال اور اس سے کسی بڑی گڑبڑ جیسے کہ خانہ جنگی یا امن و امان کا مکمل بحران پیدا کردینے کے امکان کا جائزہ لینا مقصود ہے۔‘‘

ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر ’’سماجی تحرک‘‘ کے ’’خطرناک تجربے‘‘ سے گزارا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں اب بھی ردِ عمل کی صلاحیت ہے کہ نہیں؟ مگر میں کہتا ہوں کہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ’’ناموس رسالت‘‘ کے معاملے پر ابھی ہم نے اگست، ستمبر میں واقعات کی ایسی ترتیب دیکھ لی ہے جو مکمل سچائی پر مبنی تھی۔ ناموس رسالت تو واقعی بہت بڑا معاملہ ہے۔ ہم تو ابھی ایک صوبے میں ’قوم پرستی‘ کے عنوان سے بھی لوگوں کو نکلا ہوا دیکھ رہے ہیں۔تو اس ہولناک تجربے کی پریشانی کیسی ؟

پنجاب کالج جیسے بڑے گروپ کا اس کے لیے انتخاب، بہت منظم سوشل میڈیا مہم اور اس میں بڑھتی تیزی بہت اہم معاملہ ہے۔ پنجاب مردانہ و زنانہ پولیس ہی نہیں وزیر اعلیٰ کا بھی بہت واضح مؤقف سامنے آچکا ہے کہ ’’ایسا کوئی واقعہ نہ کسی نے رپورٹ کیا ہے۔ سینکڑوں طلبہ احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی ایک بھی اس اس واقعے کا گواہ، مدعی یا کوئی نشان یا کوئی سراغ دینے کو نہیں تیار۔ کسی ذریعے سے اس واقعے کی تصدیق ہی نہیں ہو رہی۔ یہ سراسر جھوٹ پر کھڑا واقعہ ہے۔ ‘‘

معاملہ پیچیدہ کیوں ہے؟
معاملہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ عملاً ریاست کے لیے اس واقعے کو چھپانا بالکل ممکن ہے۔ رائج الوقت صحافتی طریقہ کار پر بھی یہ واقعہ فٹ نہیں بیٹھ رہا۔جو چیزیں وقوع کے نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں اُن کو میڈیا کی رسائی نہیں دی جا رہی۔ جب واقعہ ہوا ہی نہیں تو پھر کالج کیمپس کی رجسٹریشن بغیر تحقیق کیوں منسوخی کی گئی؟ سب حکومتی تسلیوں اور یقین دہانیوں کے باوجود احتجاج کا دائرہ پھیلتا ہوا لاہور سے اسلام آباد چلا گیا۔

طالبہ کے ساتھ زیادتی کو لے کر سوشل میڈیا پر ایسا ایسا مواد تشکیل دیا گیا کہ جس سے انتہائی عجیب صورت حال پیدا ہوگئی۔ یوٹیوبرز کی بھی خوب چاندی ہوگئی، دھڑا دھڑ تبصرے، تجزیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کالج کا مالک میاں عامر محمود ایک بڑے میڈیا گروپ کا بھی مالک ہے‘ اس لیے میڈیا کی جانب داری کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے‘ مگر میڈیا کے درمیان مسابقت بھی حقیقت ہے۔ اگر کالج کی جگہ بحریہ ٹائون یا کے الیکٹرک ہوتا‘ یا یہ واقعہ امریکن، برطانوی، فرانسیسی ایمبیسی میں ہواہوتا تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میڈیا ہی نہیں بلکہ پوری ریاست اس واقعے کو چھپانے کے لیے نکل آتا، مگر یہ تو محض پنجاب کالج ہے اور مبینہ ملزم ایک گارڈ اور وین ڈرائیور ہے۔ 9 ستمبر2020 کو لاہور موٹر وے پر ہی رات کو فرانسیسی نژاد پاکستانی خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ تو آپ کو یاد ہوگا؟ جس میں ملوث مجرموں کو حیرت انگیز طور پر سزائے موت دے دی گئی۔ یہی نہیں 7 سالہ ’زینب‘ کا کیس رپورٹ ہوا ہے، دسیوں اس سے زیادہ گھنائونے ہائی پروفائل کیسز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایاز امیر کے بیٹے سمیت کئی کیسز ہیں۔ مگر یہ عجیب کیس ہے کہ نہ متاثرہ لڑکی اور نہ ہی اس کے کوئی گھر والے سامنے آئے ہیں۔

متاثرہ کی تلاش :
اس واقعے کو اب پورا ہفتہ بھر ہوچکا ہے مگر ابھی تک متاثرہ طالبہ، اس کے والدین یا کوئی اور شناخت سامنے ہی نہیں آرہی۔ لڑکی کی کسی قسم کی کوئی معلومات سامنے نہیں۔ جس گارڈ کو ملوث بتایا گیا، اُس کو بغیر کسی ایف آئی آر کے گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے ایک گارڈ واقعہ کے دن سے غائب تھا جسے پولیس سرگودھا سے پکڑ لائی۔ اس گارڈ نے بھی اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اپنی چھٹی کو عمومی چھٹی قرار دیا ہے۔ کالج میں لگے کیمروں کے بارے میں طالبات کا بیان انتہائی حیران کن ہے کہ ’’انتظامیہ نے ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا۔‘‘ وزیر تعلیم نے بھی میڈیا سے یہی کہا کہ
وڈیو ڈیلیٹ کی گئی ہے بعد میں وزیر اعلیٰ کے مؤقف کے بعد وہ بھی مکر گئے۔ دوسری جانب سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا جو پولیس نے دیکھا ہے اُس میں پولیس کا کہنا یہ ہے کہ ایساکوئی نشان بھی نہیں ملا۔ اَب مزید حیران کن بات اس کیس کی یہ ہے کہ بڑے سے بڑے دھماکوں کی سی سی ٹی وی تصاویر میڈیا کو جاری کر دی جاتی ہیں مگر یہ سادہ سی فوٹیج ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس واقعے کو انسٹاگرام اکائونٹ پر شیئر کرنے والے ضرور گرفتار ہوئے ہیں اور ان پر عوام کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے جس کو گرفتار کیا ہے‘ اُس کی شناخت وزیر اعلیٰ نے اپنے سوشل میڈیا سے جاری کی، مگر پولیس کی تحقیقات کوئی بھی جاری نہیں کر رہا۔ اگر ایسی کوئی لڑکی نہیں ہے یا جس طالبہ کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے‘ اُس کو سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟جب کچھ ہوا ہی نہیں تو بدنامی کیسی؟

با اثرکون:
پولیس کہتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی پرچہ کٹوانے نہیں آیا ، طلبہ کہتے ہیں کہ اُس کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ ’’کہیں رپورٹ نہ کرو۔‘‘ لڑکی کی مستقبل اور عزت کا معاملہ اُٹھا کر لڑکی کی شناخت چھپائی جا رہی ہے۔ عجیب عجیب وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال کر کہانیاں بنائی جا رہی ہیں، کوئی اپنی شناخت کے ساتھ سامنے آنے کو تیار نہیں۔ لوگ پُر تشدد مظاہرے کر رہے ہیں، ہر مائیک کو دیکھ کر چہرے پر ماسک سجا کر انٹرویو دے رہے ہیں مگر پرچہ کٹوانے نہیں آرہے۔لڑکی کا پوچھو تو کہتے ہیں کہ ’’لڑکی کی عزت کی خاطر‘‘ نہیں بتا رہے تو بھئی پھر معاملہ حل کیسے ہوگا؟

جہاں تک یہ سوال ہے کہ کالج کی ساکھ خراب ہوگی اور داخلوں کا مسئلہ ہوگا تو یہ فی زمانہ کیسے کوئی بہت وزنی بات سمجھی جا سکتی ہے، وہ بھی ایک گارڈ کی قیمت پر اور ایسے وین ڈرائیور پر جو کالج کا ملازم ہی نہیں۔ دیکھاجائے تو پنجاب کالج کی اس جھوٹے الزام سے بھی اتنی بدنامی ہوچکی ہے کہ غیرت مند والدین وہی کریں گے جو ان کو کرنا ہے، باقی جس کو نہیں ماننا وہ نہیں ماننے والا۔

یہ تشدد کیوں محسوس نہیں ہوتا:
اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ کی جانب سے اِن پرتشدد مظاہروں میں ایک معصوم جان بھی چلی گئی۔گجرات میں تو یہ مظاہرے اِس حد تک گئے کہ پنجاب کالج کے مقامی کیمپس کے 50 سالہ گارڈ اظہر حسین کی جان بھی لے لی گئی۔ گجرات پولیس نے 185 افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا‘ 92 گرفتار کیے۔ وہاں ایک طالب علم بھی اِس وقت شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہے۔ یہ طالب علم پولیس گرفتاری سے بچ کر بھاگ رہا تھا کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ طلبہ اتنے زیادہ پُر تشدد کیسے ہوگئے؟ اَب تک لاہور میں 30 کے قریب گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ پنجاب کالج کیمپس و دیگر کی کروڑوں روپے کی املاک نذر آتش کی جا چکی ہیں۔ لالہ موسیٰ میں 200 افراد کے خلاف مقدمہ در ج ہوا ہے، 46 ناموں کے ساتھ جنہوں نے کھاریاں کیمپس پر حملہ کیا۔ منڈی بہاء الدین اور جہلم سمیت جہاں‘ جہاں پنجاب کالج کے کیمپس ہیں وہاں بھرپور حملے اور لوٹ مار کی گئی۔ دوسری طرف پنجاب کالج کے مختلف کیمپس (سرگودھا، سمندری) کے طلبہ بھی اپنے کالج کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے نکل آئے۔ پنجاب حکومت نے جمعے کو اپنے نوٹیفیکیشن میں بغیر کوئی وجہ تحریر کیے صوبے بھر کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کو بند کرنے کا حکم دے کر مزید سوال اٹھا دیے۔274 افراد پر صرف ایک شالامار کالج مظاہر ے کا پرچہ کاٹا گیاہے۔ 4 پولیس والے طلبہ کے تشدد سے زخمی ہوئے۔ پنجاب کے شہروںمیں پھیلنے والا اس تشدد کو صوبائی حکومت نے سیاسی رنگ اور سیاسی بدلہ لینے کی سازش قراردیا ہے۔

یہ بات نوٹ کریں کہ یہ قطعاً کوئی مذہبی گروہ نہیں تھے‘ نہ یہ کسی مدرسے کے طلبہ تھے‘ نہ اِن کو کسی مذہبی جماعت نے اُکسایا تھا‘ نہ یہ کسی مذہبی جماعت کے زیر اثر تھے۔ اس کے باوجود سارے لنڈے کے لبرل، سیکولر مفکرین کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ مظاہرے کسی بھی نہاد میں مذہبی نہیںہیں، اگر تو جھوٹی خبر پر ہیں تو بھی نہیں، بقول پنجاب حکومت اگر سیاسی ہیں تو بھی مذہبی دائرے میں نہیں آتے‘ جو مذہبی نہیں وہ لازمی سیکولر ہے۔ تو ان سب مظاہروں پر جو کہ پڑھے لکھے باشعور طلبہ کر رہے ہیں کہیں سے کوئی آواز کیوں سنائی نہیں دے رہی ؟ یعنی یہ طے ہوا کہ مذہب کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک نہایت گندی و غلیظ عادت ہے ان سب کی۔

زیادتیوں پر زیادتیاں:
پنجاب کالج میں کچھ ہوا یا نہیں‘ جنسی ہیجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ ہے سب سے بڑی حقیقت۔ سوشل میڈیا پر اس دورا ن اسکولوں، کالجوںاور یونیورسٹیوں کے مختلف فنکشن کی وہ شرم ناک وڈیوز شیئر کی جاتی رہیں جن میں مخلوط ڈانس اور انتہائی شرمناک حرکات پر مشتمل سرگرمیاں شامل تھیں۔ یہ بیانیہ دیاگیاکہ ان تعلیمی اداروں میں یہی کچھ جب کرایا جائے گا تو یہی نتائج ہوں گے۔ اس میں کوئی تجزیہ غلط نہیں۔ پاکستان کی کئی نجی جامعات ایسی سرگرمیوں کی تشہیر سے ہی ایسیا آزادانہ اختلاط والے ماحول کی وجہ سے ہی گاہگ (طلبہ) کو کھینچ کرلاتی ہیں۔ اس لیے یہ تعلیمی ادارے بہرحال منشیات سمیت تمام منکرات کا ایک ایسا گڑھ بن چکے ہیں کہ معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ’آزاد چائے والا‘ نے وڈیو بناکر سمجھایا کہ پاکستانی جامعات اس قابل نہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بھیجا جائے۔ میڈیا کی زہر افشانی پر جتنی بات کریں کم ہے۔

اس کے ایک اور پہلو سے جواب کے لیے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی رپورٹ پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ اقوام متحدہ نے 18سال سے کم عمر 37 کروڑ خواتین و بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا تخمینہ پیش کردیا۔ دنیا بھر میں لبرل اقدار، مذہب بے زاری اور جنسی آوارگی کے یہ بھیانک نتائج ہیں جنہیں قابل قبول بنانے کی مہم جاری ہے۔ یہ ہے وہ ننگی تہذیب، لادین نظریات پر ترتیب دیے گئے معاشرے کا بھیانک چہرہ۔ اقوام متحدہ بھی صرف رپورٹ شائع کر سکتا ہے‘ دنیا کی کوئی طاقت نہیںجو ’تصورِ آزادی۔ تصورِ حقوق‘ کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال سکے۔ پاکستان میں بھی زیادتیوں کا ایسا ہی شور مچا ہوا ہے۔ سب کو مریض سے مسئلہ ہے ‘ اصل مرض اور اُس کی وجوہات کو ختم کرنے کی طرف کوئی جانے کی ہمت نہیں کرتا۔

18/10/2024

its LEGALITY
not MORALITY

بھارت میں اقلیتوں کو کس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر زبردستی ہندو مذہب میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ ہندوتوا اور آریہ سماج "...
15/10/2024

بھارت میں اقلیتوں کو کس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر زبردستی ہندو مذہب میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟

ہندوتوا اور آریہ سماج "گھر واپسی" کے نعرے کے تحت مسلمانوں کو اسلام سے ہٹا کر دوبارہ ہندو بنانے کی سازش کر رہے ہیں.

پہلے کمنٹ میں لنک موجودہے

ڈاکٹر شاہنواز کی حقیقت:16ستمبرگیارہ ربیع الاول کو جب پورے ملک میں نبی کریم ﷺ کی آمد کی خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ مگر سند...
09/10/2024

ڈاکٹر شاہنواز کی حقیقت:
16ستمبرگیارہ ربیع الاول کو جب پورے ملک میں نبی کریم ﷺ کی آمد کی خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ مگر سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں اچانک شدید غم و غصہ پھوٹ پڑتا ہے۔ عمر کوٹ کے گاؤں جھائنرو کے 18گریڈ کے ڈاکٹر شاہ نواز شاہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر انتہائی گستاخانہ مواد پر مبنی پوسٹس منظر عام پر آتی ہیں۔17ستمبر تک عمر کوٹ میں بھی یہ پوسٹس وائرل ہوتی ہیں ،یہ 12ربیع الا اول تھا ۔وہ مواد اس قدر گستاخانہ تھا جسے یہاں بتایا بھی نہیں جا سکتا۔عمر کوٹ کے غیرت مند مسلمانوں نے مقامی علما کو بتایا اور مشاورت کے بعد قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔

اسی دن یعنی 17ستمبر کو عام تعطیل ہونے کے باوجود ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہاسپٹل عمر کوٹ نے اُس کو ڈیوٹی سے برخاست کا لیٹر جاری کردیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس لیٹر میں لکھے گئے الفاظ انتہائی اہم ہیں :

the basis of strong presumption that you have shared blasphemous posts circulating on social media with alleged facebook ID Shah Nawaz Shah.

پولیس نے عوامی احتجاج پر گواہان، ثبوتوں اور بیانات کی روشنی میں شاہ نواز کے خلاف 295 سی ( توہین رسالت )کا پرچہ درج کر لیا۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ گستاخی کے ملزم کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اسکے لیے وہ تھانے کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔

دوسری جانب ایک اور نامعلوم اکاؤنٹ (کنبھر علی )سے ڈھیر ساری وضاحتی پوسٹیں اور شاہنواز کی ایک وڈیو آتی ہے کہ یہ گستاخی میں نے نہیں ، میرا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے ۔ وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ اس سازش میں اس کے گھر والوں کا ہاتھ ہے۔اس وڈیوکو اہمیت اس لیے نہیں دی جاتی کہ پرچہ کٹنے کے بعد اب شاہنواز کو عدالت میں ہی ثابت کرنا ہوگا کہ کیا واقعی اسکا اکاؤنٹ چوری ہوا کہ نہیں۔

پولیس ملزم کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے بھی ملزم کے تحفظ کے لیے گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔اسی دن ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد حسین کے دستخط کے ساتھ ایک میڈیکل رپورٹ سوشل میڈیا پر جاری کر دی گئی کہ ملزم ڈاکٹر شاہ نواز 4سال سے نشئی اور ذہنی مریض کے طور پر اُن کے زیر علاج ہے۔ بہرحال مٹیاری، حیدر آباد اور آخر کار کراچی کے کئی مقامات پر ٹریس کرتے کرتے پولیس کراچی کے ایک ہوٹل کے کمرے سے ملزم کو حراست میں لےلیتی ہے ۔

جس شخص کو ذہنی مریض کہا گیا وہ اتنا ہوشیار تھاکہ اُسے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پرگستاخی کا بھی پورا علم تھا؟ پولیس تفتیشی رپورٹ کے مطابق وہ فرار ہو کر کراچی کے ہوٹل میں اپنی شناخت چھپاکر کمرہ لینے میں کامیاب ہوگیا تھاجو کہ ہوٹل قواعد میں انتہائی غیر معمولی بات ہے؟

چار سال سے ایک نشئی ڈاکٹر سرکاری ملازمت میں نامعلوم کتنے مریضوں کے ساتھ کیا کرچکا ہوگا؟ پولیس نے ڈاکٹر شاہ نواز سے برآمد ہونے والا موبائل بھی قبضے میں لیا جس میں تمام پوسٹس ، اکاؤنٹس اور قابل گرفت گستاخانہ مواد موجود تھا جس کی بنیاد پر پرچہ درج کیا گیا تھا۔ اٹھارہ اور انیس ستمبر کی درمیانی شب اطلاع ملتی ہے کہ گستاخی کا ملزم ڈاکٹر شاہ نواز پولیس مقابلے میں مارا گیا۔اسکی لاش گھر والوں نے قبول نہیں کی۔مقامی لوگوں نے اسکی لاش کو جلانے کی مذموم کوشش کی جس پر پولیس پہنچی اور لاش کو اپنی نگرانی میں دفن کروادیا۔

اگلے دن صبح تھانے میں ڈی آئی جی، ایس ایس پی و دیگر افسران کو ایک مقامی این جی او کے عہدیداران اور پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نے پھولوں کے ہار پہنائے اور بہادری سے پولیس مقابلہ کرنے والے افسران کو مبارک باد بھی دی۔پھولوں کی کثیر تعداداور خوشی دیکھ کر سارے لبرل، سیکولر، ملحد طبقات کو شدید تکلیف ہوئی اور اُنہوں نے از خود پولیس مقابلے کو ماننے سے انکار کردیا ۔ ایک زبردستی کی نماز جنازہ کرائی اور شاہنواز کو فقیر، درویش بناکر پولیس کے خلاف اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔

حیرت کی بات ہےکہ علما نے تو ملکی قانون کا سہارا لیا، قتل جو بھی ہواوہ پولیس والوں نے خود کہا کہ مقابلے میں ہوا ، پھر علما کے خلاف احتجاج صرف اور صرف دین سے بغض و عداوت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جو لوگ احتجاج میں آگے آگے تھے اِن سب کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اسلام، پاکستان کے خلاف گستاخانہ مواد سے بھرے ہوئے تھے ۔پولیس کا کسی کو مقابلے میں قتل کرنا پاکستان میں تو حیرت کی بات ہی نہیں۔تاہم اسکا فیصلہ بھی عدالت ہی کو کرنا چاہیے ۔

اس سلسلے میں پولیس کی تفتیشی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں یہی کہا کہ پولیس مقابلہ ثابت نہیں ہوا ہے۔اس کا اصل فیصلہ تو اب عدالت ہی کرےگی ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا شاہ نواز بالکل بے قصور تھا؟یہ ٹھیک ہے کہ الزام جب تک ہو وہ ملزم ہی رہے گا بالکل اسی اصول پر شاہنواز کی اکاؤنٹ ہیک وڈیو کے بعد بھی وہ ملزم ہی رہےگا اور پولیس مقابلہ بھی عدالتی فیصلے تک پولیس مقابلہ ہی کہلائے گا۔

تاہم ہما را موضوع تو سوشل میڈیا ہے اس لیے ہم اُسی دائرے میں رہیں گے ۔سوشل میڈیا پولیس رپورٹ کے اگلے دن ایک اور وڈیو وائرل ہوئی ۔ اس وڈیو میں شاہنواز کے موبائل کے اندر کا مواد شیئر کیا گیا تھا ۔ یہ وڈیو ظاہر ہے کہ جس کے پاس موبائل تھا وہی بنا یا بنوا سکتا ہے اور کوئی نہیںکر سکتا۔ نہ ہی ایسی وڈیو کسی آرٹیفشل انٹیلیجنس طریقے سے بنائی جا سکتی ہے، کیونکہ جو اور جیسے شواہد اُس میں دیئے گئے ہیں وہ جب کسی بھی عدالت میں پیش ہوں گے تو کوئی انکار نہیں کر سکے گا۔وزیر داخلہ نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں ایک دن قبل ہی شاہنواز کے موبائل کی تحقیق کے آنے کا ذکر کیا تھا۔

وڈیو صاف طور پر بتا رہی ہے کہ شاہنواز کا کوئی فیس بک اکاؤنٹ ہیک نہیں ہوا تھا ۔ وہ خود ہی دونوں اکاؤنٹ چلا رہا تھا ۔ شاہنواز کے اصل فیس بک اکاؤنٹ پرجائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپریل 2024 میں بھی ایسا کچھ کر چکا تھا ، اسکا اقرار اُس نے خود Mistakenly hacked۔ جیسا ’جاہلانہ ‘جملہ لکھ کر کیا تھا۔یہ اُس کا پورا موڈ آف ایکشن تھا کہ گستاخی کرو پھر ہیکنگ کا رونا گانا مچاؤ۔یہی ترتیب ہمیں دیگر سوشل میڈیاگستاخوں کے کیسز میں بھی ملتی ہے۔

اس وڈیو میں شاہنواز کے واٹس ایپ کی بھی تفصیلات دکھائی گئی ہیں جس میں اُس نے اپنے سہولت کاروں سے یہ کام کرنے کے بعد مشورہ بھی مانگا ۔ سارے وائس نوٹ سنائے گئے ہیں کہ’’ اب کیا کرنا ہے‘‘ ۔ ایک سہولت کار نے اُس کو بتایا کہ ’’ہیک ہونے کا کہو اور موبائل کو ختم کردو یہ پولیس کو نہیں ملنا چاہیے‘‘۔شاہنواز کی گستاخیوں کا ایک اور ثبوت خود اس کے املا کی غلطی سے بھی ہوا۔ دو الفاظ کے املا کی جو غلطی شاہنواز نے اپنی صفائی میں لکھی وہی الفاظ کی غلطی گستاخانہ پوسٹ میں بھی تھی ۔ ان میں حصاب۔ کو ص سے لکھنا نمایاں طور پر پکڑی جا سکتی ہے۔اسی طرح بائےByeکی غلطی یعنی By لکھنا ۔ یہ کام دونوں نے کیا ہے۔اب کیا ہیکر اور شاہ نواز کا املا بھی ایک جیسا غلط تھا؟لیکن سردار شاہ نے اسمبلی فلور پر کہا تھا کہ یہ ’’شاہ نواز ٹاپ ٹین اسٹوڈنٹس میں سے تھا‘‘۔یہی نہیں ،ملزم کے سسر اور اس کی ماں نے غلط صحبت اور شیطان کے راستے پر چلنے کا بیان دیاجو بہت سارے راز کھولتا ہے۔بہرحال فیصلہ ملکی عدالت میں ہی ہوتو بہتر ہے ۔ سندھ میں سیکولر، لبرل، ملحدین نے امن کے نام پر جو آگ لگائی ہے اُس سے اُن کے گھر ہی جلیں گے۔

اصل انتہا پسندی یہ گستاخی کرنا ہے۔ اس میں نہ کسی مذہب کا احترام ہے، نہ کسی مقدس شخصیت کا نہ ہی مذہبی جذبات کا احترام ہے۔ ایسا شخص معاشرے میں فساد پھیلانے والا ہے ، امن و امان کو تباہ کرنے والا ہے۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو اور خاص طور پر اسلامی جماعتوں اور علما کرام کو چاہیے کہ ایسے واقعات کو وائرل کرنے کے بجائے تھانے جا کر قانونی کارروائی کریں ۔دوسری ذمہ داری قانون کی ہے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر تحقیقات کرے اور عدالت فیصلہ کرے ۔اگر ہر طبقے نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو ملک میں مزید افرا تفری اور انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے جو نہ تو ملک کے لیے اچھا ہوگا نہ یہاں رہنے والے کسی بھی طبقے کے لیے بہتر ہوگا۔

مکمل کالم کے لیے لنک پر کلک کریں

سوشل میڈیا پر جنگی شور - سلمان علی - October 6, 2024 70 فيس بک پر شیئر کیجئیے ٹویٹر پر ٹویٹ کريں tweet پیجر حملوں سے ایرانی مزاحمت تک: غزہ پر اسرائیلی درندگی کو سال ہو چکا ، مطلب 12 ....

27/09/2024

ملعون گستاخ شاہنواز کے موبائل کی فارنزک رپورٹ
سامنے آنے کے بعد گستاخوں کے سارے جعلی وکیل
ایسے غائب ہوئے ہیں کہ پوچھو مت۔
اب پتہ چلے گا کون کس کے ساتھ تھا؟

21/09/2024

میڈیا نہ پہلے غیر اقداری تھا نہ آج ہے۔
یہ اول روز سے انتہائی منفی قدر کا حامل تھا
یہ آج بھی ایسا ہی ہے۔
میڈیا کا طالب علم ہونے کے بعد تو مزید یقین ہوگیا تھا۔
میں تو میڈیا و سوشل میڈیا پر
ہر طرح کی علمی یا دینی سرگرمی اختیار کرنے
پر سخت معترض ہوں۔
سوشل میڈیا نے جو سب کو بے لاگ زبانیں عطا کی ہیں
اِس میں سب سے پہلے جو چیز دفن ہوئی ہے وہ ’ادب‘ ہے۔

جو نادان لوگ اس ذریعہ کو اسلام پھیلانے کے نام پر استعمال کرتے ہیں
میں نے سب کو یہی سمجھایا کہ
یہ جھوٹ ہے،
دھوکہ ہے
نادانی ہے
افترا ہے
ایسا ہو ہی نہیں سکتا،
جواب میں وہ چند ایک مثالیں دیتے ہیں
جو سب کی سب سوئے تعبیر کے ضمن میں آتی ہیں۔

تصویر اور وڈیو نے سب کو میسمرائز کردیا ہے۔
ڈجیٹل کے بہانے اپنے تئیں تصویر کی رعایت لینے کے بعد سب پاگل سے ہوگئے ہیں۔
بے شک ہمارے دوست حافظ انس اسلام نے درست کہاکہ
جدید طریقےو انداز، ٹول و ذرائع
نہ صرف بھیانک اور مہلک و خطرناک ہیں،
بلکہ اسلام کو صرف اور صرف مسخ کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں!
ہم اسلام کو ایک مکمل باطل فریم میں
ایک باطل پیراڈائم میں پیش کرنے کی
سنگین و جان لیوا غلطی پر ہیں۔۔

ہر بندہ سوشل میڈیا کی آڑ لیکر اسلام پڑھانے میں لگ گیا ہے۔
کیا روایتی کیا غیر روایتی؟
کسی چیز کی قدر کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے
Fact Value dichotomy کو یکسر نظر انداز کیا ہواہے۔
پس ایسے میں صرف نقصان ہوگا، شدید ہوگا، ناقابل تلافی ہوگا۔

درد کا پس منظر:سارے عدالتی فیصلوں اور ’فائر وال‘ کے باوجود آج بھی ٹوئٹر پر پاکستان میں غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ ...
08/09/2024

درد کا پس منظر:
سارے عدالتی فیصلوں اور ’فائر وال‘ کے باوجود آج بھی ٹوئٹر پر پاکستان میں غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ چور رستے سے جاتے ہیں تو عجیب عجیب ٹرینڈ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ٹرینڈ ’’افغان وومن‘‘ کا دیکھا تو خوب مزے لیے۔ یہ ٹرینڈ اُن تمام لبرلز، سیکولرکی شدید تکلیف کا اظہار تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی کودا ہوا تھا۔ افغانی خواتین کی برقع کا مذاق اڑاتی کئی وڈیوز نظر آئیں جو گانے گاکر احتجاج کررہی تھیں، مگر وہ یہ سب یورپی ممالک میں بیٹھ کر اپنی واپسی کے رستے بند کررہی تھیں۔

یہ ساری لبرل خواتین امریکا کی فاش شکست کے بعد بھی اُس کی دی ہوئی ’آزادی‘ کی ہی دلدادہ ہیں۔ اس لیے انسانی حقوق کے نام پر ’تکلیف‘کا ایسا کھیل جاری تھا کہ موقع پاکر ہم نے بھی کچھ جارحانہ شارٹس جڑ دیے۔ معاملہ کیا ہے، پہلے یہ سمجھ لیجیے۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جس پر پہلے 1979ء میں روس حملہ آور ہوا۔ افغانستان میں اُس وقت کے تمام حکمران بے شک سوشلسٹ و کمیونسٹ نظریات میں ڈوبے ہوئے تھے(یعنی صرف نام کے مسلمان)، تاہم عوام اور حکمرانوں میں کوسوں کا فاصلہ تھا۔ جیسی تیسی بادشاہت وہاں طویل عرصہ چلی۔ یہ والی ساری بادشاہت بھی عوام سے، افغان معاشرت سے کوسوں دور ہوتی تھی۔ معاشرت میں اسلام کی روح بہرحال موجود تھی جس کا اِظہار ہم سب نے روس کے حملے کے بعد 10 سال یعنی 1989ء تک ’ج افغانستان‘ کے عنوان سے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ’فتح کابل‘ کا جشن پاکستان میں بھی پوری ایمانی حرارت سے منایا گیا۔ آپ لاکھ کہیں کہ اس میں امریکا کی مدد شامل تھی، ہم لاکھ بار جواب دیں گے کہ اس مدد کے شامل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہ مدد مجاہدین کے صبر و ثبات کے بعد کسی کامیابی کے امکان و لالچ پر آئی۔ ویسے روس کے مقابلے پر امریکا کی مدد جن نادانوں کو سمجھ میں آتی ہے وہ 2001ء سے 2021ء کے 20سالوں میں افغانستان کے اندر امریکی شکست میں کس کی مدد کا لیبل لگائیں گے؟ وہ آج مجاہدین کی ہیلی کاپٹروں و ٹینکوں سے جھولا جھولنے کی وڈیوز سے کیسے انکار کریں گے؟ بہرحال طویل عرصہ جنگ جھیلنے کے بعد2021ء میں وہاں امریکا اپنی شکست تسلیم کرکے اُس وقت کے حکومتی ترجمانوں سے مذاکرات کرکے ملک اُن کے حوالے کر گیا۔

نئی حکومت پرانے اعلان:
ط ب ن حکومت پر ابتدا میں بہت باتیں کی گئیں۔ امریکا نے 20 سال میں بڑے شہروں میں ادارتی صف بندی کا خطرناک جال بچھا دیا تھا تاکہ اسلام کو کہیں سے کوئی جگہ نہ مل سکے۔3سال تک تو حکومت نے قدم جمانے میں لگائے۔کرکٹ ٹورنامنٹ بھی ہوتے رہے، کھلاڑی اولمپکس میں بھی جاتے رہے، کسی پروپیگنڈے والے معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالا گیا، وہ بہت دھیمے انداز سے چلتے رہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 95 فیصد کمی ہوئی ہے جو دنیا میں کہیں بھی انسدادِ منشیات کی سب سے کامیاب مہم ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے ہر قسم کی منشیات کے خلاف مہم شروع کی۔ منشیات کے عادی افراد اور اسے فروخت کرنے والوں کو گرفتار کیا اور افیون اور بھنگ کی فصلوں کو تباہ کیا۔ اگرچہ سفارتی محاذ پر کسی بھی ملک نے ط ب ن کی حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا، لیکن روس اور چین نے کابل کے ساتھ اپنی سفارتی قربت کو بڑھایا ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مطابق ط ب ان کے نمائندوں نے گزشتہ تین سالوں میں 92 ممالک کے ساتھ 1,864 مرتبہ ملاقاتیں کیں، جن میں سب سے زیادہ چین، ترکی، ایران، قطر اور پاکستان کے ساتھ ہوئیں۔ پاکستان اور تاجکستان کو چھوڑ کر طالبان کے چین، روس، ازبکستان، قطر کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ طالبان حکومت انڈیا، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی۔

خواتین کا معاملہ سب سے نازک تھا، ط ب ن کی ترجیح میں یہ معاملہ سرفہرست تھا، اس لیے کہ کسی اسلامی معاشرت میں ’حیا‘ ہی بنیادی قدر ہوتی ہے۔ مغرب کا سب سے اولین ایجنڈا ’خواتین‘ کو پبلک لائف میں لانا ہوتا ہے، اس کا توڑ کسی بھی مسلم معاشرت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس لیے پہلے مرحلے میں 2022ء میں خواتین کے لیے این جی اوز کی ملازمت پر پابندی لگائی گئی۔ پھر اگلے سال 2023ء میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا ماحول بنایا گیا۔ اُن کی دکانیں الگ کی گئیں۔ اس دوران ملکی خزانے کی صورتِ حال کو مستحکم کیا گیا۔ اب تین سال بعد 2024ء میں کہیں جاکر افغان حکومت نے وزارتِ اخلاقیات کے تحت کچھ بڑے فیصلے کیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے سرخی لگائی کہ ’’ط بان کے نئے منشور پر افغان خواتین کو بدترین خوف لاحق ہے۔ اپنی حکمرانی کے تین سال بعد، اس تحریک نے اپنے سخت اسلامی فرامین کو قانون میں تبدیل کردیا ہے جس میں اب عوام میں خواتین کی آوازوں پر پابندی بھی شامل ہے۔‘‘ صرف نیویارک ٹائمز ہی نہیں، ہر طرف سے ’انسانی حقوق‘ اور ’خواتین حقوق‘ کی آڑ میں خوب زہر اُگلا جارہا تھا۔ بی بی سی کے مطابق طب ان حکومت نے مذہبی حکمرانی نافذ کررکھی ہے اور وہ اخلاقیات کے قانون کو سرکاری طور پر نافذ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی، لیکن دارالحکومت کابل سمیت ملک کے کچھ حصوں میں اس قانون کو منظم طریقے سے لاگو نہیں کیا جارہا۔ وزارتِ اخلاقیات کے ایک ذریعے نے بی بی سی نیوز پشتو کو بتایا کہ وہ نئی شقوں کے نفاذ کے لیے ایک فریم ورک پر کام کررہے ہیں۔ جب اس فریم ورک کو حتمی شکل دے دی جائے گی تو قانون پر عمل درآمد کے سلسلے میں مزید وضاحت آئے گی۔

احکامات کیا ہیں؟
مروڑ یہ تھاکہ افغانستان حکومت نے 3 سالہ مشاورت کے بعد وزارتِ اخلاقیات کے ذریعے شرعی احکامات کے نفاذ کا آغاز کردیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق ’’ط ب ان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے اس قانون کی توثیق کی ہے۔ وزارتِ اخلاقیات نے جسے باضابطہ طور پر نیکی کی تبلیغ اور برائیوں کی روک تھام کی وزارت کے نام سے جانا جاتا ہے،اس بات پر زور دیا کہ ملک میں کوئی بھی ان قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہے۔‘‘

نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جان داروں کی تصاویر بنانا، رکھنا یا شائع کرنا منع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرندے، جانور یا خاندان کے کسی فرد کی تصویر کھینچنا بھی ممنوع ہے۔ جان داروں کے مجسموں کی خرید و فروخت پر بھی پابندی ہے۔ اس قانون میں اخلاقیات کی پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو سے موسیقی بجانے جیسے غلط کام کو روکے جسے شریعت میں ’حرام‘ سمجھا جاتا ہے۔ جان داروں کی تصاویر بنانے، فلموں کی تیاری اور دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔

خواتین سے متعلق ان احکامات میں ہے کہ خواتین کو چھٹی جماعت سے آگے صرف گھروں میں تعلیم دی جائے گی۔ لمبا سفر محرم کے ساتھ کیا جائے گا۔ حکم شرع کے مطابق باپردہ حالت میں گھر سے باہر نکلا جائے گا۔ نامحرم مردوں سے خواتین کی آواز کا پردہ رکھاجائے گا۔ مرد ساتر لباس پہنیں گے۔ مرغوں کی لڑائی اور ہم جنس پرستی پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔ عوامی سطح پر موسیقی پرپابندی کے ساتھ ساتھ مردوں کو داڑھی ختم کرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر زبانی تنبیہ، جرمانے، سنگینی و تکرار پر گرفتاری اور سزا شامل کی گئی ہے۔ حکومت نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر اٹھائے گئے سارے اعتراضات و خدشات کو ’متکبرانہ‘ اور مداخلت قرار دے کر مسترد کردیا۔ شریعت کا نفاذ جبر کے ساتھ نہیں بلکہ مکمل تبلیغ، اسلامی تعلیمات کی تفہیم، روایتی معاشرت کے مطابق ادب احترام سکھاتے ہوئے کیا جائے گا تاکہ لوگ مطمئن رہیں کہ وہ کسی حکومت کا نہیں بلکہ اپنے اصل مالک کا حکم ہی مان رہے ہیں جس کا وہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ مغرب کا مروڑ، دیگر ملکی معاملات میں مداخلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تعریف حکومتِ افغانستان اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق کرنے میں آزاد ہے۔ اس پر مزید یہ ہوا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ترجمان رچرڈ کو بھی افغان حکومت نے ملک میں داخلے سے روک دیا، بالکل ایسے ہی جیسے امریکا و دیگر ممالک دیگر پر پابندیاں لگاتے ہیں۔ افغانستان کوئی غلام ملک نہیں ہے، کسی کا پیسہ پائی قرض نہیں لیا ہوا۔

دو رنگی:
ان کو پہلا درد یہ ہے کہ طان حکومت نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ لڑکیوں کی یہ تعداد یونیسکو 14 لاکھ بتاتا ہے (سی بی ایس نیوز)۔ اب ذرا (اے ای سی ایف کی ویب سائٹ سے) صرف امریکا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کو بھی دیکھ لیں جو 40 لاکھ کے قریب ہے۔ کچھ سمجھ میں آیا؟ یہ اُن کے اپنے گھر کا حال ہے اور منہ مارتے ہیں سات سمندر پار۔ یہ تو ایک مثال ہے، مغرب کا چہرہ اتنا سیاہ ہے کہ ہر ہر دلیل پر جواب دیے جا سکتے ہیں، مگر ہم چونکہ پاکستانی ہیں، یعنی صرف پڑوسی ہیں، اس لیے پڑوسی ہونے کا تو حق ادا کریں گے، باقی افغانستان کو بھی کچھ کرنے دیں۔

افغانستان کا جواب:
پڑوسی ہونے کے ناتے یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 20 سالوں میں ڈیزی کٹر بموں سمیت بارود کا اتنا ڈھیر یہاں خرچ کیا، جس کے استعمال سے افغانستان میں مردوں، خواتین اور بچوں سمیت 60 ہزار سے زائد بے گناہ لوگ مارے گئے، لیکن اس قتل عام پرادارۂ اقوام متحدہ ایک لفظ بھی نہیں بولا تو اب یہاں کیسے کوئی بات کرنے کی ہمت کررہا ہے؟

اسلامی امارات افغانستان اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی تعریف میں بنیادی فرق ہے۔ جسے وہ ’’انسان‘‘ کہتے ہیں اور جسے ہم ’’انسان‘‘ سمجھتے ہیں، اس میں بہت نظریاتی اور دانش ورانہ فرق ہے۔ ایسی صورتِ حال میں وہ کسی ایسی چیز کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جو اُن کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی؟ یہی نہیں بلکہ وہ سارا نظریہ، سارا تصور جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ہو، کیونکہ اِن کو ’غزہ‘ میں 11 مہینے سے جاری مسلم نسل کُشی پرکوئی مسئلہ نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور اطلاعات کی اس صدی میں اقوام متحدہ کی طرف سے ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر پھیلائے گئے جھوٹ اور من گھڑت باتیں بے نقاب ہوگئی ہیں۔ غزہ، میانمر، سوڈان جیسے علاقوں، یہاں تک کہ امریکا اور یورپ میں ہونے والے مظاہروں نے دکھایا ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق اور مساوات جیسے تصورات بھی جھوٹے نظریات ہیں۔

اسلامی امارات اس بات کا تعین کرے گی کہ اس کے عقیدے سے ’’انسان‘‘ کون ہے، اور اُس کے حقوق کیا ہیں۔ ہمارے لیے، ایک شخص اپنے خالق اور مالک کا ہی وفادار نوکر ہوتا ہے۔ یہ ’’انسان‘‘ دوسرے ’’انسانوں‘‘ کو ان کے رشتوں کے مطابق تمام حقوق عطا کرے گا، جیسے باپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو، شوہر اپنی بیویوں کو، بیٹے اپنے والدین کو، اساتذہ طلبہ کو۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تصور میں کوئی گھر، کوئی خاندان، کوئی قبیلہ، کوئی والدین، کوئی روایات، کوئی خدا، کوئی کتاب، کوئی نبی نہیں ہے۔

انسانی تعریف کی طرح ہماری اخلاقی تعریفیں بھی میل نہیں کھاتیں، کیونکہ آپ کی اخلاقیات کی بنیاد آپ کے جعلی، دھوکے باز فلسفیوں سے نکلتی ہے جو خدا پر یقین نہیں رکھتے، اسی وجہ سے یہ اخلاقیات فرضی اور بے بنیاد ہیں۔ جبکہ ہمارے اخلاق ہمارے خالق کی 100فیصد سچائی کی تعلیمات پر مبنی ہیں، جسے آپ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے۔ ویسے تب تک غزہ، کشمیر، میانمر، سوڈان، نائیجیریا، چین، یوکرین اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی اپنی تعریف کو لاگو کرنے پر توجہ دیں۔ یہ ہماری لڑکیاں ہیں، ہماری خواتین ہیں۔ ہم ان کے لیے بہترین فیصلے کریں گے، جیسا کہ آپ اپنے ممالک میں کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہزاروں لوگ احتجاج کرتے ہیں لیکن آپ اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتے۔ لہذا ہم پر اپنی جعلی تعریف مسلط نہ کریں، ایک ایسی تعریف جس پر آپ خود پوری طرح عمل نہیں کرتے۔

Address

Park Avenue, PECHS Block 6
Karachi
75550

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Yaadgaar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share