Khofnak Kahaniyan

Khofnak Kahaniyan WELLCOM TO HORROR STORIES

28/08/2024

ملیر 15 طوفانی بادل آگںۓ

قانون صرف غریب کے لیے ہیے تو پھر۔۔غریب کو انصاف کیوں نہیں ملتا۔؟
22/08/2024

قانون صرف غریب کے لیے ہیے تو پھر۔۔
غریب کو انصاف کیوں نہیں ملتا۔؟

بند کمرے کی دلہن مکمل کہانی تحریر ناصر حسین ____________________________________یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب میں دسویں کلاس ...
22/08/2024

بند کمرے کی دلہن
مکمل کہانی
تحریر ناصر حسین
____________________________________
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب میں دسویں کلاس میں پڑھتا تھا ۔۔۔ میرے ابو کلرک تھے اور ان کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا اس لئے ہم سب کو ان کے ساتھ دوسرے شہر شفٹ ہونا پڑا ۔۔۔ اپنا پرانا گھر چھوڑ کر ہم نے نیا گھر کرائے پر لیا اور وہیں شفٹ ہوگئے
نئے مکان کے دروازے لکڑی کے بنے ہوئے تھے
مکان پرانا مگر مضبوط تھا
مکان ایک پرانی گلی کے آخری کونے پے تھا ۔۔۔
امی سارا دن گھر کا کام کرتی اور ابو شام کو آفس سے گھر واپس آتے تھے ۔۔۔
ہمیں نئے گھر میں شفٹ ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور اس ایک ہفتے میں ہمارے ساتھ کئی خوفناک واقعات پیش آئے ۔۔۔ لیکن ہم نظر انداز کرتے رہے ۔۔۔
کبھی کچن سے برتن خود بخود گر جاتے
کبھی سٹیل کے گلاس آپس میں ایسے میں ٹکراتے کے انکی آواز کانوں کو چیر دینے والی ہوتی.
کبھی کبھار پلیٹ میں چمچ بجنے کی آواز آتی کبھی
دروازہ خود بخود زور زور سے بجنے لگتا ۔۔۔۔
ہم جب دروازہ کھولتے تو سواۓ اندھیرے کے کچھ نظر نہ آتا ۔۔۔۔ ہم نے ان سارے واقعات کو اپنا وہم سمجھا ۔۔۔۔
اکثر میرا چھوٹا بھائی ڈر جاتا اور رونے لگتا ۔۔۔ امی آیت الکرسی پڑھ کر ہمیں دلاسا دیتیں ۔۔۔۔
پورے گھر میں ایک جگہ ایسی تھی
جو مجھے سب سے زیادہ عجیب اور خوفناک لگتی تھی
گھر کی سیڑھیاں ۔۔۔۔
گھر کی سیڑھیاں بہت پرانی اور لکڑی کی بنی ہوئی تھیں
ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی کے درمیان بہت فاصلہ تھا
ان سیڑھیوں میں ایک انجانہ خوف اور دہشت تھی
ان سیڑھیوں کے بالکل نیچے ایک چھوٹا سا دروازہ تھا
جس پر پتھر کا ایک مضبوط تالہ لگا ہوا تھا
یوں لگتا تھا کہ بہت ہی پرانا قور مضبوط قسم کا تالہ ہو
چونکہ سیڑھیاں زیادہ تھی
اور ان کے نیچے دروازہ تھا
تو ہمیں کبھی محسوس نہ ہوا کہ نیچے کوئ دروازہ بھی ہے .
مگر امی کو جب معلوم ہوا کہ سیڑھیوں کے نیچے دروازہ ہے تو وہ خوفزدہ ہوگئ ۔۔
اس دروازے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے اندر بہت اندھیرا ہوگا ۔۔۔ میں نے امی سے کہا دروازہ کھول کر دیکھتے ہیں اندر کیا ہے ۔۔۔ امی نے کہا ۔۔۔ چلو کھول کر دیکھو اگر تم سے کھلتا ہے ۔۔۔۔ میں نے کمرے کا تالا ایک بہت بڑے پتھر سے توڑ ڈالا ۔۔۔
جیسے میں نے دروازہ کھولا ایک چیختی ہوئ آواز سنائی دی ۔۔۔
آواز اس قدر خوفناک تھی کہ امی کو لگا جیسے انکا دل باہر آجاۓ گا.
میری سانسوں کی رفتار تیز ہونے لگی
امی پوری طرح سے خوف کی زد میں آچکی تھی ۔۔۔ پھر امی نے مجھ سے کہا جلدی دروازہ بند کر دو ۔۔۔ میں نے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔
شام کو ابو آفس سے آۓ تو امی نے سارا قصہابو کو سنایا
ابو نے غور کیا سوچنے کے بعد آخر مجھے کمرے کو تالا لگانے کا حکم دیا ۔۔۔۔
امی بہت خوفزدہ ہوچکی تھی.
دوبارہ اس کمرے میں جانے کی ہمت نہ کرپائ.
میں دن بھر کام میں پڑھائی میں مصروف رہا اور اس کمرے کو تالا لگانا بھول گیا ۔۔۔۔ ابو شام کو واپس آۓ تو مجھ سے پوچھا کمرے کو تالا لگایا تھا.
میں نے ابو کی ڈانٹ سے بچنے کیلئے جھوٹ بول دیا کہ ہاں
میں نے تالا لگا دیا ۔۔۔۔
پھر میں نے سوچا صبح ابو نے کام پرجاتے ہوئے دیکھ لیا کہ تالا نہیں لگا تو میری بہت بے عزتی ہوجاۓ گی ۔۔۔ میں نے سوچا جب ابو اور امی سو جائیں گے تو جا کر کمرے میں تالا لگاوں گا ۔۔۔
رات تقریباً 12 بجے کا وقت تھا
میں نے
تیز تیز قدموں سے تالا اٹھایا اور پرانے کمرے کی طرف بڑھا
دروازہ کھلا تھا
میں نے تالا لگانے کے لئے دونوں دروازوں کو پکڑا
اچانک ایک خیال میرے دل میں آیا کہ ایک بار کمرے کے اندر جھانک کر دیکھ لوں کہ وہاں ہے کیا ۔ ۔
میں نے دروازہ بند کرنے کے بجاۓ دونوں ہاتھوں سے دروازہ پوری طرح سے کھول دیا.
دروازہ چھوٹا تھا مجھے جھک کر اندر داخل ہونا پڑا.
دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے بہت عجیب خوشبو محسوس ہوئی ۔۔۔ میں نے اپنے موبائل کی لائٹ جلائی ۔۔۔۔اور اس پرانے کمرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔
سامنے ایک خوبصورت بیڈ تھا
بیڈ کے کنارے قیمتی رنگ برنگے پھول لگے پوئے تھے ۔۔۔ اور اس بیڈ کو بہت اچھے سے سجایا گیا تھا ۔۔۔
یوں لگ رہا تھا کہ کسی پہلی رات کی دلہن کیلیے کمرہ سجایا گیا تھا ۔
ایک بات جو مجھے حیران کر رہی تھی کہ کمرے میں کوئی لائٹ وغیرہ نہیں تھی لیکن پورے کمرے میں ہر طرف روشنی آ رہی تھی ۔۔۔
ایسا خوبصورت کمرہ میں نے ساری زندگی میں نہیں دیکھا تھا..
پھولوں سے سجے بیڈ کے بالکل اوپر دیوار پر ایک خوبصورت دلہن کی بہت بڑی تصویر لگی تھی ۔۔۔
دلہن کی تصویر بہت خوبصورت اور پرکشش تھی.
ایسا لگ رہا تھا جیسے دلہن مسکراتے ہوئے میری ہی طرف دیکھ رہی ہو. ۔۔۔ میں اس دلہن کی تصویر کو دیکھتا رہا ۔۔ میں سوچ رہا تھا جانے وہ کون دلہن تھی اور اس کی تصویر یہاں کیا کر رہی تھی ۔۔۔ پھر اچانک
کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھا گیا
مجھے کچھ دکھائی نہ دیا
کچھ لمحے تو میں حیران کھڑا رہا کہ کمرے میں اچانک اندھیرا کیسے ہو گیا ۔۔۔
مجھے پسینہ آنے لگا ۔۔ پھر اچانک کمرے میں روشنی ہوئی اور سامنے دیکھ کر میں صدمے میں آ گیا ۔۔۔
کیا دیکھتا ہوں میری آنکھوں کے سامنے وہی تصویر والی دلہن زندہ کھڑی تھی ۔۔
میں نے مڑ کر دیوار پر لگی تصویر دیکھنا چاہی لیکن
میری تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی.
وہاں دیوا پر کوئ تصویر موجود نہ تھی. میں خوفزدہ ہو گیا ۔۔۔ میرا جسم خوف سے کانپنے لگا ۔۔۔۔
وہ دلہن مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی اور بولی ۔۔۔
گھبراؤ مت آرام کرو ۔۔۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔۔۔۔
کون ہو تم
وہ ہنسی اور بیڈ پر بیٹھ گئی.
میرا نام اسما ہے میں سو سالوں سے اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔ وہ شادی کی پہلی رات مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور اس کا انتظار کرتے کرتے میں مر گئی ۔۔۔ اب تم آ گئے ہو تو تم مجھ سے شادی کر لو ۔۔۔۔۔۔ '
میں اس کی بات سن کر مزید خوفزدہ ہو گیا اور تیزی سے اس کمرے سے بھاگ کر باہر نکل آیا ۔۔۔۔ اور لمبی لمبی سانیسں لینے لگا ۔۔۔ میرے ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے ۔۔۔ ماتھے پر پسینہ تھا
باہر آتے ہی دروازہ پوری مضبوطی سے بند ہوگیا.
صبح فجر کی اذان سنائی دی
۔۔۔۔ سامنے ابو اور امی کھڑے تھے ۔۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے سارا واقعہ ابو اور امی کو سنایا ۔۔۔
ابو نے مجھے تھپڑ مارا ۔۔۔ اور غصے سے بولے ۔۔۔
جاہل جب تمیں پتا تھا اس کمرے میں آسیب ہے تو کیوں گئے تھے یہاں ۔۔۔۔ https://youtu.be/m4RoABIYHM8
امی نے ابو کو مجھے مزید مارنے سے روکا ۔۔۔۔ اور ابو سے بولیں ۔۔
ماریے مت مارنے سے کیا ہوگا
مصیبت تو نہیں ٹلے گی نہ.
آپ جلدی کسی عامل کو بلوائیں.
امی رونے لگی
ابو نے کچھ عاملوں کو بلوایا اور ان عاملوں نے کچھ دم پھونک کر کے اس آسیب پر قابو پا لیا اور ابو سے بولے ۔۔۔۔
آسیب اب آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن آپ لوگوں کو یہ گھر چھوڑنا پڑے گا
کیونکہ اگر آپ یہاں رہے تو وہ دوبارہ آپ لوگوں پر حملہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
ابو نے عامل کی بات سن کر وہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک ہفتے بعد ہم ایک نئے گھر میں شفٹ ہو گئے ۔۔۔۔۔۔
وہ واقعہ میری زندگی کا بہت ہی خوفناک واقعہ تھا ۔۔۔۔۔
اگلی کہانی ' دولہا اور چار جن زادیاں ' اوپر دیئے گئے لنک پہ جا کر پڑھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
میں ایک پرائیویٹ ٹیچر تھی ۔۔۔
لاک ڈاون کی وجہ سے میری جاب ختم کر دی گئی ۔۔۔ میں اپنے اخراجات کے لئے خود کماتی ہوں برائے مہربانی مجھ پر احسان کر کے میرا چینل سبسکرائب کر دیں ۔۔۔۔۔
یہاں آپ کو بہت مزے مزے کی کہانیاں ملیں گی ایک بار وزٹ کر کے دیکھ لیں ۔۔۔
شکریہ
اللہ حافظ

20/08/2024

Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars - they help me earn money to keep making content you love.

Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars!

بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا عید شب رات کبھی بھی  ابو یا امی جاتے ہیں میری بیوی ایک دن مج...
20/08/2024

بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں
میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا عید شب رات کبھی بھی ابو یا امی جاتے ہیں
میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی
آپ کی بہن جب بھی آتی ہے
اس کے بچے گھر کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں
خرچ ڈبل ہو جاتا ہے
اور تمہاری ماں
ہم۔سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے کبھی کپڑے کبھی صرف کے ڈبے
اور کبھی کبھی تو چاول کا تھیلا بھر دیتی ہے
اپنی ماں کو بولو یہ ہمارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں

مجھے بہت غصہ آیا میں مشکل سے خرچ پورا کر رہا ہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے
بہن ایک دن گھر آئی ہوئی تھی اس کے بیٹے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا
میں ماں سے غصے میں کہہ رہا تھا
ماں بہن کو بولو یہاں عید پہ آیا کرے بس
اور یہ جو آپ صابن صرف اور چاول کا تھیلا بھر کر دیتی ہیں نا اس کو بند کریں سب
ماں چپ رہی
لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی تھیں میری
بہن کچھ نہ بولی

4 بج رہے تھے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی بھائی مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ او
میں نے جھوٹے منہ کہا رہ لیتی کچھ دن
لیکن وہ مسکرائی نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں

پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا ہو رہا تھا تو
میں نے صاف انکار کیا بھائی میں اپنی زمیں سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا
بہن سامنے بیٹھی تھی
وہ خاموش تھی کچھ نہ بولی ماں نے کہا بیٹی کا بھی حق بنتا ہے لیکن میں نے گالی دے کر کہا کچھ بھی ہو جائے میں بہن کو حصہ نہیں دوں گا
میری بیوی بھی بہن کو برا بھلا کہنے لگی
وہ بیچاری خاموش تھی

بڑابھای علدہ ہوگیا کچھ وقت کے بعد
میرے بڑے بیٹے کو ٹی بی ہو گئی
میرے پاس اس کا علاج کروانے کے پیسے نہیں تھا
بہت پریشان تھا میں
قرض بھی لے لیا تھا لاکھ روپیہ

بھوک سر پہ تھی
میں بہت پریشان تھا کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا شاید رو رہا تھا حالات پہ
اس وقت وہی بہن گھر آگئی
میں نے غصے سے بولا اب یہ آ گئی ہے منحوس
میں نے بیوی کو کہا کچھ تیار کرو بہن کےلیے
بیوی میرے پاس آئی
کوئی ضرورت نہیں گوشت یا بریانی پکانے کی اس کے لیئے

پھر ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئی
بھائی پریشان ہو
بہن نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا بڑی بہن ہوں تمہاری
گود میں کھیلتے رہے ہو
اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو
پھر میرے قریب ہوئی
اپنے پرس سے سونے کے کنگن نکالے میرے ہاتھ میں رکھے
آہستہ سے بولی
پاگل توں اویں پریشان ہوتا ہے
بچے سکول تھے میں سوچا دوڑتے دوڑتے بھائی سے مل آؤں۔
یہ کنگن بیچ کر اپنا خرچہ کر
بیٹے کا علاج کروا
شکل تو دیکھ ذرا کیا حالت بنا رکھی تم۔نے
میں خاموش تھا بہن کی طرف دیکھے جا رہا تھا
وہ آہستہ سے بولی کسی کو نہ بتانا کنگن کے بارے میں تم۔کو میری قسم ہے
میرے ماتھے پہ بوسہ کیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا جو سو پچاس کے نوٹ تھے

شاید اس کی جمع پونجی تھی
میری جیب میں ڈال۔کر بولی بچوں کو گوشت لا دینا
پریشان نہ ہوا کر

جلدی سے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھا دیکھ اس نے بال سفید ہو گئے

وہ جلدی سے جانے لگی
اس کے پیروں کی طرف میں دیکھا ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی
پرانا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا جب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی

بہن کی اس محبت میں مر گیا تھا
ہم بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں بہنوں کو پل بھر میں بیگانہ کر دیتے ہیں اور بہنیں
بھائیوں کا ذرا سا دکھ برداشت نہیں کر سکتیں
وہ ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھا

اس کے ساتھ میری آنکھیں بھی نم تھیں
اپنے گھر میں خدا جانے کتنے دکھ سہہ رہی ہوتی ہیں
کچھ لمحے بہنوں کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ لیا کریں
شاید کے ان کے چہرے پہ کچھ لمحوں کے لیئے ایک سکون آ جائے، ،،،

بہنیں ماں کا روپ ہوتی ہیں
اللّٰہ پاک آپکی اور میری بہنوں کی زندگی لمبی کرے ہر آزمائش اور مصیبت سے محفوظ فرمائے اور دلی سکون نصیب فرمائے آمین 🤲😊

29/07/2024

طلاق مبارک

میری ایک کلائنٹ کی آپ بیتی ہے۔
ان کی اجازت سے اس لیے بیان کر رہی ہوں کہ شاید کوئی لڑکی سنبھل جائے۔
والدین کی اکلوتی ذرا نازوں سے پلی، ابو شروع سے ہی کہتے تھے کہ ایسے لاڈ نہ کیا کرو اس سے کہ جو کل کو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنیں لیکن امی اپنی ناک کے نیچے ساری ضدیں پوری کیا کرتیں اور ابو کو خبر نہ ہوتی۔۔۔ جس کام کو ابو منع کرتے امی خاموشی سے اجازت دے دیتیں اور میں کر لیتی۔
انٹر کے بعد شادی ہوگئی، بیس سال کی عمر میں۔ اچھا پڑھا لکھا رشتہ تھا کھاتا کماتا۔ ابو نے چھان بین کر کے بیاہ دیا۔ امی راضی نہیں تھیں کہ ابھی اور اچھے رشتے آئیں گے ذرا انتظار کریں خیر ابو نے خاندان کے بڑوں کو شامل کر کے امی کو منوا لیا اور پھر میری بھی رضا تھی کہ چلو لڑکا پیسے والا بھی یے اور ہینڈسم بھی ہے۔
میں چونکہ بہت نازوں میں پلی تھی تو برداشت بہت کم تھی۔ تربیت کسی قسم کی کچھ تھی نہیں۔ میں نے اپنے شوہر کی باتیں امی کو بتانی شروع کر دیں۔ ذرا ذرا سی باتیں شکایت کی صورت میں بتانے لگی امی چونکہ خود یہ کام کرتی رہی تھیں اس لیے مزے لے لے کر سنتیں اور پھر الٹے سیدھے مشورے دیتیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوگیا لیکن میرا یہی حال رہا۔ ایک دو بار میاں نے سختی کرنے کی کوشش کی تو میں بیماری کا ڈھونگ رچا کر میکے چلی گئی۔ ابو نے بہت سمجھایا سختی کی تو واپس آگئی لیکن عادت سے مجبور تھی سو وہ ہی سب کیا کہ غلطیاں کر کے سینہ چوڑا کر کے بدتمیزی کرنا اور اپنی غلطی نہ ماننا۔۔۔۔ میاں نے بھی پیار سے سمجھا کر ہر طرح کوشش کی کہ میں سدھر جاوں لیکن اس وقت مجھے یہ شخص دنیا کا سب سے برا آدمی لگتا تھا۔
ابو نے ڈانٹ کر پیار سے ، ہاتھ جوڑ کر ہر طرح سمجھایا کہ بیٹا اپنا گھر آباد رکھو ایسا نہ کرو۔۔۔۔ لیکن میری والدہ کی طرف سے ملنے والی ٹیوشن نے آخر کار وہ سیاہ دن دیکھا ہی دیا۔۔۔ کچھ دن سے شوہر سے ان بن چل رہی تھی۔ امی سے روز سبق لے رہی تھی میں بس صبح ہی صبح ذرا سی بات کا میں نے پتنگڑ بنایا جیسا کہ میں اکثر کیا کرتی تھی اور دس سال کی بھڑاس میرے میاں کے منہ سے طلاق کے تین لفظوں کی صورت میں نکل گئی۔۔۔
میں نے کال کر کے ابو کو کہا کہ لڑائی ہو گئی ہے آکر لے جائیں اس وقت طلاق کا نہیں بتایا تھا کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ ابو کے لیے یہ بہٹ بڑا صدمہ ہوگا۔۔۔ ابو گھر میں آتے ہی میرے میاں سے کہنے لگے کہ اس کی طرف سے مجھے معافی مانگنے دو بیٹا مجھے پتا ہے میری بیٹی کی غلطی ہے کیوں کہ ایسی لڑائیاں میں اکثر کرتی رہتی تھی۔۔۔۔۔ میرے میاں نے بہت تحمل سے ابو کو طلاق کا بتا دیا۔
ابو نے کہا کہ مجھے رکشہ کروا دو میں اسے گھر لے جاوں میرے شوہر نے کہا کہ نہیں آپ گاڑی میں جائیں۔ اصرار کر کے ابو سے معافی مانگ کر گاڑی ڈرائیور کے ساتھ ہمیں چھوڑنے کے لیے بھیج دی۔۔۔۔۔ ابو گاڑی میں بلکل خاموش رہے گھر میں آتے ہی امی سے کہا لو تمھاری بیٹی کو صلہ مل گیا ہے اس کے کیے کا، اب تمھیں بھی یہ انعام ملنا چاہیے اور امی کو اسی وقت طلاق دے دی۔۔۔۔
مجھے نہیں پتا کہ ابو نے غلط کیا یا صحیح لیکن ابو کی حالت ایسی تھی کہ مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
تم دونوں ماں بیٹی کو طلاق مبارک، اب ساتھ بیٹھ کر عدت کرنا( ابو نے اس وقت باقاعدہ تالیاں بجا کر کہا۔۔۔ شاید وہ اس وقت شدید زہنی دباو میں تھے) ابو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔۔۔۔ پھر چار دن ہوگئے ابو واپس نہیں آئے۔۔۔ ہم ڈھونڈتے رہے کہاں کی عدت اور کیسی عدت بس ابو کو ہر جگہ ڈھونڈا۔۔۔۔ کہیں نہیں ملے۔۔۔۔۔۔ خاندان والوں کی باتیں الگ اور ابو کی گمشدگی الگ۔۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
پانچویں دن جمعے کی نماز کے وقت میرے موبائل پر تایا ذاد کی کال آئی کہ چچا مل گئے ہیں میں گھر لا رہا ہوں ان کو۔۔۔۔ میری کچھ سانس میں سانس آئی۔ ابو آئے تو۔۔۔۔۔ مگر ایدھی کی ایمبولینس میں کفن میں لپٹے ہوئے۔۔۔ پانچ دن ابو کہاں رہے نہیں معلوم بس ایدھی والوں کا کہنا تھا کہ یہ صاحب فٹھ پاتھ پر پڑے ملے تھے۔۔۔ نہ کوئی زخم نہ چوٹ کا نشان ابو کا دل بند ہونے سے ان کی موت ہوئی تھی۔۔۔۔
اور آپ کو پتا ہے فیض عالم کہ ان کا دل میں نے اور امی نے مل کر بند کیا ہے۔۔۔
اس چھتیس سالہ لڑکی کا یہ جملہ میرے دل پر گھونسے کی طرح لگا۔۔۔۔۔
پھر کہتی ہے کہ ابو نے ہمارے لیے گھر چھوڑا جو کہ وہ پہلے ہی امی کے نام کر چکے تھے۔۔۔ اوپر والا پورشن ہم نے کرائے پر اٹھا دیا، ابو کی پینشن بھی آتی ہے، کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی، سفید پوشی میں اچھے سے گزارا ہو رہا ہے۔ ددھیال والے ہم سے ملتے نہیں ہیں کہتے کہ تم دونوں ہمارے بھائی کی موت کا سبب ہو۔۔۔۔ میرے تین میں سے دو بڑے بچے اپنی مرضی سے اپنے باپ کے پاس جا چکے ہیں۔ باقاعدہ لڑ کر گئے ہیں۔ ملنے بھی نہیں آتے۔ چھوٹے والا ابھی تین سال کا ہے تو وہ میرے پاس ہے مگر مجھے پتا ہے کہ وہ بھی چلا جائے گا۔۔۔
امی ابھی تک ویسی ہی ہیں۔ ابو کو بہت کوستی ہیں۔۔۔ اب میری اور امی کے گھمسان کے معرکے ہوتے ہیں۔۔۔۔ میں کہتی ہوں کے اگر ابو نے آپ کو پہلے ہی طلاق دے دی ہوتی تو آج مجھے طلاق نہ ہوتی۔
کھانے پینے کو سب ملتا ہے، رہنے کو سر پر چھت ہے مگر اب سکون نہیں ہے۔۔۔ ابو کا چہرہ دماغ میں گھومتا رہتا ہے۔ اپنا شوہر بھی یاد آتا ہے۔ وہ برا نہیں تھا میری تربیت بری تھی۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہوں گی کہ میں ساری غلطی امی کی کیوں بتا رہی ہوں۔ میں تو بالغ تھی سب دیکھ اور سمجھ رہی تھی آخر کیوں امی کی باتوں میں آگئی۔۔۔ آپ بتائیں جس لڑکی کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہو۔۔۔ میں نے ساری زندگی امی کو نانی سے یہی باتیں کرتے دیکھا تھا۔ بس نانی یہ کہتی تھیں دیکھو کچھ بھی ہو طلاق مت لینا تو امی طلاق کی نوبت نہیں آنے دیتی تھیں کچھ ابو بھی چپ ہو جاتے تھے۔ ہر کسی کے صبر کا پیمانہ ایک نہیں ہوتا۔ میرے شوہر نیک فطرت کے تھے لیکن بس اس دن ان کا پیمانہ چھلک گیا۔ میں نے ان کو اس حد تک پریشان کیا۔۔۔ کہ آخر نوبت یہاں تک آگئی۔۔۔
امی یہی کہتی تھیں کہ تمھاری شادی ہی غلط شخص سے ہوئی ہے۔۔۔ بس یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی۔ ان کی اچھائی بھی برائی ہی لگتی تھی۔ میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ اب مجھے نیند نہیں آتی میں چوبیس میں سے بمشکل دو گھنٹے سو پاتی ہوں۔۔۔
آپ بتائیں کیا ابو کی جان لے کر اور اپنا گھر تباہ کر کے مجھے نیند آنی چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی کلائنٹ کی اس آب بیتی کو آپ سب کے سامنے رکھنے کا بس ایک مقصد ہے کہ تربیت پر کام کریں۔۔۔۔۔ اور بہت ذیادہ کریں۔ عورت بطور ماں گیم چینجر بن سکتی ہے۔
کون غلط ہے کون صحیح اس بحث میں جانے کی بجائے تربیت اولاد اور خود اپنا احتساب کریں۔ اولاد کے سامنے ہر وقت رونے مت روئیں۔ مظلوم بننے کی سوچ سے باہر آجائیں اور شادی شدہ بیٹیوں پر رحم کریں۔ ان کے کچن میں بیڈروم میں ان کے ذہن میں گھسنے کی کوشش نہ کریں۔۔۔۔۔ بیٹیوں کو بھڑکانے کی پالیسی ختم کر دیں۔
ماں کی بہت زیادہ مداخلت بیٹیوں کے گھر اجاڑنے کا ایک اہم سبب ہے۔ آپ نہایت سلجھی ہوئی باشعور خواتین ہیں اسی لیے مجھے امید ہے کہ کسی بھی قسم کے فیمنزم کا چشمہ لگائے بغیر اس تحریر کو پڑھ کر سبق حاصل کریں گی۔
وما علینا الاالبلاغ
فیض عالم

29/07/2024

آج صبح مجھے یو بی ایل ہیلپ لائن سے کال موصول ہوئی ہیلپ لائن نمبر بھی سیم تھا 111825888(021)
پہلے موصوف نے مجھے امپریس کرنے کے لیے میرا نام لیا کہ آپ سید ابوزربات کر رہے ہیں پھر مجھے میرا بنک اکاؤنٹ نمبر بتایا
سر کیا آپ ہماری ایپ سروس سے خوش ہیں
میں نے ضرورت کے مطابق کہا سروس ٹھیک نہیں اس پر اس سکیمر نے کہا سر ایپ کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے آپ اپنے کارڈ کے لاسٹ 4 ڈیجٹ بتائیں
میں کنفیڈینٹ تھا کے ھیلپ نمبر تو یوبی ایل کا ہے اور مجھے یہ زبانی بھی یاد تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ک یہ فراڈ کال ہے
کارڈ میرے پاس نہیں تھا میں بولا کارڈ ابھی نہیں ہے پاس
اس پر اس نے کہا ہم نے آپ کو لنک سینڈ کیا ہے آپ وہاں سے ایپ اپڈیٹ کر لیں
مزے کی بات وہ لنک یو بی ایل کا نہیں تھا میرے زہن میں فورا خیال آیا کچھ تو گڑ بڑ ہے میں نے اسے یہ کہ کے کال کاٹ دی کہ مجھے کچھ اپڈیٹ نہیں کرنا
تھوڑی دیر گزری پھر کال آگئی سر آپ کیوں پریشان ہو رہے یہ کال آپ کو یوبی ایل کی جانب سے ہے اور کمپنی نمبر سے ہے میں پھر کچھ مطمئن ہوا بات تو ٹھیک ہے یہ نمبر تو یو بی ایل کا ہے
پر پھر بھی کچھ دل مطمئن نہیں تھا میں بولا سر میں بزی ہوں بعد میں کال کریں
پھر میں نے یو بی ایل کی ھیلپ لاین پر کال۔کر کے سارہ ماجرہ سنایا اس پر مجھے بتا یا گیا یہ سکیمر کی کال تھی اور آپ شکر کریں کے فراڈ سے بچ گئے ہیں اگر آپ یوزر پاسورڑ انٹر کر دیتے تو آپ کا اکاؤنٹ خالی ہو جاتا
یہ سب آپ سے شئر کرنے کا مقصد تھا کہ آپ فراڈ سے بچ جائیں۔
سکیمرز آیے روز نت نئے طریقہ واردات ڈھونڈ رہے ہیں
سیم یوبی ایل نمبر سے کال کا انا بہت بڑا فراڈ ہے جس پر ہر کوئی یقین بھی کر سکتا ہے
لہذا یہ میسج اپنے پیاروں سے شیئر کریں تاکہ فراڈ سے بچا جا سکے

08/07/2024

سب سے بھیانک کہانی:

گاؤں کی پُرسکون رات میں، جہاں چاندنی چھن کر درختوں کے پتوں سے زمین پر بکھر رہی تھی، ایک پرانی اور ویران حویلی موجود تھی۔ گاؤں کے لوگوں کا ماننا تھا کہ یہ حویلی آسیب زدہ ہے، اور وہاں ایک معصوم لڑکی کی روح بھٹکتی ہے جو کئی سال پہلے پراسرار حالات میں لاپتہ ہو گئی تھی۔

شبینہ، ایک نوجوان لڑکی جو شہر سے گاؤں اپنی دادی سے ملنے آئی تھی، نے حویلی کی کہانی سنی اور اس کی حقیقت جاننے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں والوں نے اسے بارہا منع کیا مگر اس کی تجسس نے اسے حویلی جانے پر مجبور کر دیا۔

ایک رات، جب سب سو رہے تھے، شبینہ نے چپکے سے حویلی کا رخ کیا۔ جیسے ہی وہ حویلی کے قریب پہنچی، ایک سرد ہوا کا جھونکا آیا اور درختوں کی سرسراہٹ سنائی دی۔ حویلی کا دروازہ آہستہ آہستہ کھلا اور شبینہ نے ہمت کر کے اندر قدم رکھا۔

حویلی کے اندر کا ماحول سرد اور خوفناک تھا۔ دیواروں پر پرانے اور بوسیدہ تصویریں لٹک رہی تھیں۔ شبینہ نے اپنی ٹارچ جلائی اور ایک کمرے میں داخل ہوئی جہاں ایک پرانا جھولا جھول رہا تھا۔ اچانک، اسے ایک ننھی بچی کی ہنسنے کی آواز سنائی دی۔

شبینہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی لڑکی سفید لباس میں کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور معصوم تھیں مگر ان میں ایک عجیب سا خالی پن تھا۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا، "کیا تم میرے ساتھ کھیلنا چاہو گی؟"

شبینہ کا دل دھڑکنے لگا مگر اس نے حوصلہ کرتے ہوئے لڑکی سے پوچھا، "تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

لڑکی نے اپنی کہانی سنانی شروع کی، "میرا نام نادیہ ہے۔ میں کئی سال پہلے یہاں کھیل رہی تھی جب مجھے کچھ عجیب محسوس ہوا۔ ایک دن، ایک خوفناک سایہ آیا اور مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔ تب سے میں یہاں بھٹک رہی ہوں، کسی کو میری مدد نہیں ملی۔"

شبینہ نے نادیہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پوچھا، "تمہیں کیسے نجات مل سکتی ہے؟"

نادیہ نے کہا، "مجھے اس کمرے کے نیچے دفن کیا گیا ہے۔ اگر تم میری باقیات کو نکال کر انہیں عزت کے ساتھ دفن کر دو تو میری روح آزاد ہو جائے گی۔"

شبینہ نے نادیہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے تہہ خانے کا رخ کیا۔ جیسے ہی اس نے فرش کی کھدائی شروع کی، اسے ایک چھوٹا سا صندوق ملا۔ صندوق کو کھولنے پر اس نے نادیہ کی باقیات دیکھیں۔

شبینہ نے ان باقیات کو احترام کے ساتھ دفن کیا اور دعائیں پڑھیں۔ جیسے ہی وہ فارغ ہوئی، نادیہ کی روح نمودار ہوئی اور مسکراتے ہوئے کہا، "اب میں آزاد ہوں۔ تمہاری بہت شکر گزار ہوں۔"

نادیہ کی روح آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو گئی اور حویلی کا ماحول یک دم روشن اور پر سکون ہو گیا۔ شبینہ نے گاؤں واپس جا کر سب کو یہ داستان سنائی اور حویلی کی خوفناک کہانی کا اختتام ہو گیا۔

اب وہ حویلی ویران تو ہے مگر وہاں اب کوئی خوف نہیں۔ نادیہ کی روح کو سکون مل چکا تھا اور شبینہ کے حوصلے نے ایک بھیانک راز کا پردہ فاش کر دیا تھا۔

14/06/2024

یہ واقعہ مجھے ایک امام صاحب نے سنایا تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنے گاؤں موسی زئی شریف میں رہا کرتے تھے ۔ہم چار افراد پر مشتمل تھے ۔ہم دو بھائی اور ہمارے امی ابو ۔مجھے پڑھائی میں بالکل دلچسپی نہیں تھی.. میں سارا دن آوارہ کردی کرتا تھا ۔میرے گھر والوں کو میری بہت پریشانی تھی ۔میرے بھائی اور میرے ابو مجھے بہت ڈانٹتے تھے ۔۔

۔ انہوں نے مجھے ایک مکینک کے پاس بھی دکان پر کام سیکھنے کو لگایا.. لیکن وہاں پے بھی میں ان کا سخت ڈانٹنا برداشت نہ کرسکا اور میری لڑائی ہوگئی.. مجھے دکان سے نکال دیا. گیا.

۔ایک دن ناشتے پر میری امی نے مجھے کہا کہ ہم تم کو حافظ قران بنانے کے لئے گاؤں کے مدرسے میں بھیج رہے ہیں،، فوراً تیار ہو جاؤ ۔.

ہمارے گاؤں میں یہ رواج عام تھا کہ جب بچہ بہت تنگ کرتا تو اسے گھر سے دور کسی مدرسے میں بھیج دیا کرتے.. یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا.. میں نے کافی احتجاج کیا مگر کوئی اثر نہ ہوا اور مجھے مدرسے بھیج دیا گیا ۔یہاں میرا کچھ دل لگ گیا.. ہمیں پڑھنے کے ساتھ تفریح کا موقع بھی دیا جاتا.. مدرسہ کا نظام ہر لحاظ سے اچھا تھا.. ہر کمرے میں دو لڑکوں کو رکھا جاتا ۔میرا ساتھی بڑا ھی چلاک اور چاپلوس ٹائپ کا لڑکا تھا.. میں اس کے زیادہ بولنے کی عادت سے بہت پریشان تھا.. اس کا ذکر میں نے کئی بار مولوی صاحب سے کیا کہ مجھے اس سے الگ کیا جائے.

۔ایک دن مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ اب تمہارے ساتھ سلیمان رہے گا. یہ بہت اچھی بات تھی کیونکہ سلمان ایک کم گو اور سنجیدہ لڑکا تھا اور صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا تھا.. اوباش قسم کے لڑکے اسے بہت تنگ کرتے مگر اس نے کبھی کسی کو کچھ نہیں کہا تھا.. اب جب وہ میرے ساتھ رہنے والا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ میں اس سے پوچھوں گا کہ تم اتنے خاموش اور بزدل کیوں ہو ۔..

سلیمان مدرسے کا لائق طالب علم تو تھا ہی مگر اس کی آواز بھی بے حد پیاری تھی.. وہ جب نماز عشاء کے بعد کمرے میں قرآن شریف کی تلاوت کرتا تھا.. میں اس کی تلاوت سنتا.

۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب سردیاں آنے والی تھیں.. میری آنکھ کھلی تو سلمان اپنے بستر پر نہیں تھا.. رات کا پتہ نہیں کون سا وقت تھا.. بہرحال میں اٹھ کھڑا ہوا.. میں نے جیسے ہی سلیمان کو دیکھنے کے لیے اپنے جوتے پہنے تو ایک بلی فورا کمرے سے باہر نکل گئی.. مجھے بہت خوف محسوس ہوا.. میں دوبارہ اپنے بستر پر سو گیا..

صبح جب میری آنکھ کھلی تو سلیمان وہیں موجود تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری اور سلیمان کی بہت دوستی ہوگئی.. مگر سلیمان نے ابھی تک مجھے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا.. ایک بار میں نے پوچھا تو وہ ٹال گیا.. سلیمان کئ دفعہ میرے گاؤں جا چکا تھا مگر جب میں اس کے گاؤں جانے کی بات کرتا تو وہ ہمیشہ ٹال دیتا. ۔میں نے سوچا شاید وہ بہت غریب ہے اور غربت کی وجہ سے مجھے اپنے گھر نہیں لے جاتا...

ایک رات مجھے پیاس لگی. بستر سے اٹھا. یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سلیمان پھر اپنے بستر نہیں تھا. اس کمرے میں وہ بلی موجود تھی. اسے دیکھ کر میں پھر ڈر گیا اور آیۃ الکرسی پڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا. ابھی میں سونے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ بلی سلیمان کے بستر پر آ کر بیٹھ گئی.. میں اور زیادہ خوفزدہ ہوگیا ۔ڈرتے ڈرتے میں کسی وقت دوبارہ سو گیا..

صبح جب اٹھا تو سلیمان اپنے بستر پر بیٹھ قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا.. پہلے میں نے سوچا اس سے رات والی بات کا ذکر کروں مگر میں خاموش ہوگیا ۔.

کچھ دنوں بعد سردی زوروں پر تھی.. میں بہت گہری نیند سویا ہوا تھا.. مجھے لگا جیسے کوئی مجھے جگا رہا ہے.. میں نے جیسے ہی آنکھ کھولی تو سامنے سلیمان کھڑا تھا..

وہ بولا چلو میں تمہیں اپنا گھر دکھاتا ہوں ۔۔ میں بہت حیران ہوا.. ایک تو آدھی رات کا وقت اور سردی بھی بہت شدید..

میں نے سلمان سے کہا. یار صبح چلے جائیں گے،، یہ کوئی وقت ہے گھر دیکھنے کا،،

مگر سلیمان کی ضد تھی کہ ابھی چلنا ہے. تو چلو ورنہ پھر کبھی مت کہنا کہ تمہارا گھر دیکھنا ہے..

اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سلیمان کے ساتھ جانا پڑا،،

ہم نے سردی سے بچنے کا پورا انتظام کیا اور مدرسے سے نکل گئے. ہر طرف مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا. ۔سلیمان درازندہ کی پہاڑیوں کی طرف جا رہا تھا ۔اس نے جس طرف کا رخ کیا، وہاں کوئی آبادی نہیں تھی، اور گاؤں کے لوگ بھی وہاں کم ہی جایا کرتے تھے،، میں کچھ خوفزدہ ہوگیا..

درہ زندہ کی پہاڑیوں کا فاصلہ مدرسے سے کافی زیادہ تھا.. جس کی وجہ سے میں تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا.. پتہ نہیں ہم کتنا سفر طے کر چکے تھے کہ ایک جگہ سلیمان رکا اور پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا.. میں سلمان کے پیچھے ہی تھا.. ہم نے آدھی پہاڑی عبور کی کہ سلیمان اچانک رکا اور غائب ہو گیا.

۔میرا خوف سے برا حال ہوگیا.. میرے پسینے چھوٹ گئے.. مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ۔میں نے اس کو آوازیں دینا شروع کی تو جواب میں مجھے اسکی آواز سنائی دی.. وہ مجھے بلا رہا تھا، مگر وہ کہاں تھا، تب مجھے اندازہ ہوا کہ آواز زمین کے اندر سے آرہی ہے،، اس وقت میری نظر اس پر پڑی..

سلیمان کی آواز واقعی اندر سے آ رہی تھی.. وہ کہہ رہا تھا ۔اس طرف سے اندر آجاؤ.. میں بہت خوفزدہ تھا..

میں نے سلمان سے کہا اندر کیسے آؤں،،؟ یہ سوراخ تو بہت چھوٹا ہے،، اس کے اندر آنا تو میرے لیے ناممکن ہے..

۔سلیمان نے کہا.. آنکھیں بند کر لو.. پھر خود ہی اندر آ جاؤ گے.. جب میں نے آنکھیں بند کیں اور تب کھولی جب سلیمان نے مجھے کھولنے کو کہا.

۔جب میں نے آنکھیں کھولی.. میری حیرت کی انتہا نہ رہی میں ایک خوبصورت محل نما گھر میں تھا اور میرے سامنے ایک خوبصورت لڑکی موجود تھی.. میں اس کو بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا...

سلیمان نے کہا ..یہ میری بہن ہے جس بلی کو دیکھ کر تم خوفزدہ ہوجاتے تھے.. وہ یہی تھی ..یہ بلی کے روپ میں مجھ سے مدرسے ملنے آیا کرتی تھی.. ہم انسان نہیں بلکہ جنات ہیں اور میں نے حافظ قرآن بننے کے لیے انسانوں کا روپ دھارا ہوا ہے .

۔بعد میں اس نے مجھے اپنے گھر والوں سے ملایا ..اس کے امی اور ابو نے میری بہت عزت کی اور یہ بھی کہا کہ میں انکے اور سلیمان کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتاؤں.

ہم کچھ دیر وہاں رہے اور صبح ہونے سے پہلے ہی مدرسے واپس آگئے.. بعد میں کئ بار میں ان کے گھر گیا اور ہر بار اس کے گھر والوں نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ محبت دی.

۔ہر مہینے گرمیوں میں ہمیں دو مہینے کی چھٹیاں ہوتی تھیں.. ایک دفعہ جب دو مہینے کی چھٹیاں ملی تو سلیمان اپنے گھر چلا گیا اور میں اپنے بھائی کے ساتھ اپنے گھر آ گیا..

گھر آکر بھی سلیمان کے بارے میں سوچتا تھا.. محلے کے لڑکوں کے ساتھ میرا بلکل دل نہیں لگتا تھا.. میں چاہتا تھا جلدی جلدی چھٹیاں ختم اور میں مدرسے جاؤں..

۔ماں مجھے کہتی تھی.. کچھ دیر کے لیے باہر چلے جاو مگر میں صبح نماز کے لیے مسجد جاتا اور سارا وقت اپنے گھر میں گزارتا..

آخر دو مہینے گزر گئے... میں نے اپنی تیاری مکمل کی اور گھر سے مدرسے کے لئے روانہ ہوگیا تھا کہ سلیمان سے مل سکوں..

شام کو مدرسے پہنچا مگر سلیمان نہیں تھا.. میں نے سوچا آج پہلا دن ہے اس لیے نہیں آیا ۔۔ کیونکہ اور بھی کافی لڑکے نہیں آئے تھے ۔مگر دوسرے دن بھی سلیمان نہیں آیا.. پھر ایک ہفتہ گزر گیا.. مگر سلیمان کا کچھ پتہ نہیں تھا. مدرسے میں بھی ان کے گھر کا کسی کو پتا نہیں تھا.

۔جب ایک مہینہ گزر گیا اور سلیمان کا کچھ پتہ نہیں چلا تو ایک دن میں نے خواب میں سلیمان کی ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی.. سلیمان مر گیا ہے.. اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا..

۔میری اچانک آنکھ کھل گئی اور میں بہت دیر تک روتا رہا.. دوسرے دن صبح سویرے میں درازندہ کی پہاڑیوں کی طرف چل پڑا.. اور اس پہاڑی پر پہنچ گیا.. مگر وہاں کوئی سراغ نہیں تھا.. میں کافی دیر وہاں سلیمان کو آوازیں دیتا رہا.. جب کوئی جواب نہ ملا تو تھک کر واپس مدرسے آگیا..

اس رات میں نے پھر اس کی ماں کو خواب میں دیکھا.. انہوں نے کہا،، اب ہمیں تلاش مت کرنا ۔کیونکہ اب ہم تمہارے سامنے نہیں آسکتے اور اس پہاڑی پر بھی مت آنا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے جنات تم کو نقصان پہنچا دیں...

پھر میں نے کبھی ان پہاڑیوں کا رخ نہیں کیا.. آج کافی عرصہ گزر چکا ہے.. اپنے شہر کی ایک مسجد میں پیش امام ہوں مگر جب کبھی سلیمان کی یاد آتی ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں.

13/06/2024

ایک بڑھیا کی دعا نے ہوائی جہاز کیسے نیچے اتارا؟
جب الله تعالی دعا قبول کرتا ہے تو اسکے لئے اسباب بھی مہیا کر دیتا ھے مگر کیسے ... ؟؟

وہ گاڑی سے اترا اور بڑی تیزی سے ہوائی اڈے کی جانب لپکا؛ جہاز اڑنے کے لئے تیار تھا اور اسے ایک کانفرنس میں شرکت کرنی تھی جو اسی کے اعزاز میں دی جا رہی تھی۔ جلدی جلدی جہاز میں پہنچ کر اپنی مقررہ نشت پر بیٹھا اور ابھی جہاز اڑنے کے بعد کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک اعلان ہوا آسمانی بجلی کے کڑکنے ، اور تیز اور طوفانی بارش کی وجہ سے انتظامی آلات میں خلل واقع ہو گیا ہے، لہذا جہاز کو نزدیک ترین ہوائی آڈے پر اتارا جا رہا ہے۔

وہ جہاز سے اترتے ہی ہوائی اڈے کے عملے کے منتظم کے پاس پہنچا اور گویا ہوا:میں ایک جانا مانا عالمی متخصصڈاکٹر ہوں، میرے لیے میرا ایک ایک منٹ انسانوں کی جانوں کے برابر قیمت رکھتا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ میں یہاں14 گھنٹے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں؟

کارکنوں میں سے ایک بولا جناب ڈاکٹر ذیشان صاحب!
اگر آپ کو زیادہ جلدی ہے تو ایک گاڑی کرائے پر لے کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیے ، یہاں سے گاڑی میں وہ مقام تین گھنٹے سے زیادہ دور نہیں۔
اس نے ایک گاڑی کرائے پر لی اور اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گیا ، لیکن یہاں بھی قسمت کام نہ آئی، موسلا دھار بارش اور جھکڑ آڑے آئی اور وہ سفر جاری نہ رکھ سکا،ابھی یہ راہ میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے تھے کہ احساس ہوا راستہ گم ہو گیا ہے، ناامیدی کے ساتھ آگے چل ہی رہےتھے کہ اچانک ایک چھوٹے سے گھر پر نظر پڑی، اس طوفان میں غنیمت جان کر نیچے اترا اور جا کر دروازہ بجا دیا۔
آواز آئی جو کوئی بھی ہے اندر آ جاؤ دروازہ کھلا ہے۔اندر ایک بڑھیا زمین پر جائےنماز بچھائے بیٹھی تھی ۔اس نے کہا ماں جی اجازت ہے میں آپ کا فون استعمال کر لوں؟

بڑھیا مسکرائی اور بولی بیٹا کون سا فون؟
یہاں تو نہ بجلی ہے نہ فون! لیکن تم بیٹھو، سامنے چائے رکھی ہے پیالی میں ڈال کر پیو تھکن دور ہو جائے گی اور کھانے کو بھی کچھ نہ کچھ رکھا ہو گا ، کھا لو تاکہ آگلے سفر کے لیے بدن میں طاقت آئے۔ڈاکٹر نے بڑھیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پیالی میں چائی ڈالی اور پینے میں مشغول ہو گیا جبکہ کہ بڑھیا نماز و دعا میں مشغول تھی۔
اچانک بجلی کوندی تو ان کی نظر پڑی اس بڑھیا کی جا نماز کی بغل میں ایک بچہ کنبل میں لپٹا پڑا ہے جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہلاتی جا رہی ہے۔ جب کافی دیر بعد بڑھیا نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو ڈاکٹر نے کہا میں آپ کے اس اخلاق اور لطف و کرم کا نہایت ہی مشکور ہوں، میرے لیے بھی دعا کیجیے ، آپ کے اخلاق حسنہ اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپ کی دعا ضرور قبول ہو گی۔

بڑھیا بولی نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں تم راہگیر ہو اور راہگیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ میں نے تمہارے لیے بھی دعا کی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے میری ہر دعا سنی ہے، بس ایک دعا کی قبولیت میں شاید ابھی کچھ دیر ہو.

ڈاکٹر نے پوچھا کون سی دعا؟

بڑھیا بولی یہ جو بچہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ادھ موا پڑا ہے، میرا پوتا ہے، نہ اس کی ماں زندہ رہی نہ باپ، اس بڑھاپے میں اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں اسے کوئی موزی مرض ہے، جس کا وہ علاج نہیں کر سکتے، کہتے ہیں ایک ہی ڈاکٹر ہے بڑا نامی گرامی نام بتایا تھا اس کا، ہاں ذیشان !
وہ اس کا اپریشن کر سکتا ہے۔ لیکن میں بڑھیا کہاں اس تک پہنچ سکتی ہوں ؟
لے کر جاؤں بھی تو پتہ نہیں قبول کرے یا نہ کرے، میری تو خیر ہے یہ بچارہ بچہ خوار ہو جائے گا؛بس اب اللہ سے ہی امید ہے کہ وہ میری مشکل آسان کر دے.
ڈاکٹر کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا خدا کی قسم! آپ کی دعا نے ہوائی جہاز کو نیچے اتارلیا ، آسمان پر بجلیاں کوندوا دیں، مجھے رستہ بھو لوا دیا تاکہ میں یہاں تک کھینچا چلا آؤں، خدا کی قسم ، مجھے یقین نہیں آتا کہ خدا ایک دعا کو اس طرح قبول کر کے اپنے بندےکے لیے یوں اسباب فراہم کرتا ہے.
سبحان الله.
صراطِ مستقیم

11/06/2024

ایک روز کا ذکر ہے شہزادی گل صنوبر محل کے باغ میں جھولاجھول رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ملکہ اوربادشاہ بھی وہیں تھے اور ایک تخت پربیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔

شہزادی کو باغ میں جھولا جھولنا بہت اچھا لگتا تھا وہ اپنی کنیزوں کے ساتھ روز شام کو یہاں آتی تھی۔ آج اس کے ساتھ ملکہ اور بادشاہ بھی آگئے تھے۔ شہزادی حسب معمول جھولا جھول رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر ایک نہایت خوب صورت پرندے پر پڑی۔ اس کا رنگ سنہری تھا اور سر پر ایک چھوٹا سا تاج بھی تھا۔ وہ درخت پر بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اس کی خوب صورتی دیکھ کرشہزادی گل صنوبر دنگ رہ گئی اور جھولے سے اتر کر اس درخت کے نزدیک آگئی جس پر وہ خوب صورت پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پرندے سے کہا۔ ’’تم کتنے خوب صورت پرندے ہو۔ آؤ میرے پاس آؤ۔میں تمہیں کھٹی میٹھی رس بھری کھلاؤں گی۔‘‘

اس کی بات سن کر پرندے نے کہا۔ ’’میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ تم جیسی اچھی اور خوش اخلاق لڑکی کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کروں اور کھٹی میٹھی رس بھریاں کھاؤں۔ مگر میں تو نگر نگر کی سیر کرنے کے لیے نکلا ہوں اس لیے چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے پر پھڑپھڑآئے اور اڑ گیا۔

شہزادی صنوبر کو بہت حیرت ہوئی کہ وہ خوب صورت پرندہ انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔ وہ بھاگ کر بادشاہ کے پاس آئی اوربولی۔ ’’ابّا حضور۔ مجھے وہ بولنے والا پرندہ چاہیے۔ ابھی۔ اسی وقت۔‘‘

پہلے تو بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ شہزادی صنوبر کیا کہہ رہی ہے مگر جب کنیزوں نے بتایا کہ درخت پر ایک سنہری پرندہ آکر بیٹھا تھا اور انسانی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا تو بادشاہ نے کہا۔ ’’بیٹی۔ میں نے کہانیوں میں تو سنا ہے کہ پرستان میں کچھ ایسے پرندے بھی ہوتے ہیں جو انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ وہ پرندہ پرستان سے ہی آیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے وہ کل پھر آئے۔‘‘

اگلے روز شہزادی صنوبر انتظار ہی کرتی رہی مگر وہ پرندہ دوبارہ وہاں نہیں آیا۔ اس کی فکر میں شہزادی نے پورے دن نہ کچھ کھایااور نہ کچھ پیا۔ جب رات ہوئی تو وہ بالکل ہی نا امید ہوگئی اور ملکہ کے گلے لگ کر رونے لگی۔ ملکہ نے اسے مختلف طریقوں سے بہلانے کی کوشش کی مگر اس عجیب و غریب پرندے کے خیال کوشہزادی صنوبر کے دل سے نہ نکال سکی۔

اپنی چہیتی بیٹی کی اداسی دیکھ کر بادشاہ بھی پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے بہت سارے کھلونے منگوا کر شہزادی گل صنوبر کو دیے مگراس نے ان کھلونوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ جب دوتین روز اسی طرح گزر گئے تو ملکہ اور بادشاہ کی تشویس میں اضافہ ہوگیا۔ شہزادی گل صنوبر ان چند دنوں میں نہایت کمزورہوگئی تھی۔ انھیں یہ ڈر تھا کہ وہ کہیں بیمار نہ پڑ جائے۔ بادشاہ کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ شہزادی کے ساتھ پرستان جا کر اس پرندے کو تلاش کرکے اپنے ساتھ لائے تاکہ اسے پا کر وہ خوش ہوجائے۔

یہ بات اس نے جب ملکہ کو بتائی تووہ بولی۔ ’’اگر آپ اس سفر پر روانہ ہوئے تو حکومت کون چلائے گا۔اس پرندے کو تلاش کرتے کرتے نہ جانے کتنے دن لگ جائیں۔ اس دوران رعایا کی خبر گیری کون کرے گا۔ آپ ایسا کریں کہ یہ اعلان کروا دیں کہ جو بھی پرستان سے اس عجیب و غریب پرندے کو لے کر آئے گا اسے بہت سی اشرفیاں انعام میں دی جائیں گی۔‘‘

بادشاہ کو ملکہ کی یہ تجویز پسند آئی اور اس نے یہ اعلان کروادیا۔انعام کا سن کر بہت سے لوگ قسمت آزمانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ پرستان بہت دور تھا اور اس کا راستہ بھی پر خطر تھا۔ راستے میں بہت سے پہاڑ تھے، دریا تھے، جنگل تھے اور جنگلوں میں خونخوار درندے تھے۔

بہت سے لوگ اونچے اونچے پہاڑوں پر نہ چڑھ سکے، بعض دریا کو عبور نہ کر سکے۔ کچھ لوگ جنگل میں درندوں کو دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی پرستان سے اس پرندے کو نہ لے کر آ سکا۔

ایک روز دو نوجوان بادشاہ سے ملنے محل آئے اور بادشاہ سے پرستان جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہاں سے اس پرندے کو ڈھونڈکر لا سکیں۔ بادشاہ نے انھیں اجازت دے دی اور تاکید کی کہ وہ اس پرندے کو لے کر جلد سے جلد آنے کی کوشش کریں کیوں کہ شہزادی گل صنوبر کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔

دونوں نوجوان اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اس پر خطر سفرپر روانہ ہوگئے۔ ان میں سے ایک کا نام شہر یار تھا اور وہ ایک لکڑہارے کا بیٹا تھا۔ دوسرے نوجوان کا نام سلیم تھا اوراس کا باپ ریشمی کپڑوں کا تاجر تھا۔ سلیم چونکہ ایک دولت مند تاجر کا بیٹا تھااس لیے اس میں بہت غرور تھا۔ اس نے شہر یار سے کہا۔ ’’تم جا کر اپنے باپ کے ساتھ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور انھیں گدھے پر لادکر شہر میں بیچو۔ تم ان چکروں میں کہاں پڑ گئے ہو؟۔‘‘

شہر یار نے اس کی بات کا برا نہیں منایا۔ مسکرا کر بولا۔ ’’لکڑیاں تومیرے ابّا کاٹ لیں گے تم اس کی فکر چھوڑو۔ ہمارے بادشاہ سلامت اور ان کی ملکہ بہت اچھی ہیں۔ وہ دونوں اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے اچھے سلوک کی وجہ سے ہمارے ملک میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔ اپنے بادشاہ سلامت کی وجہ سے ہم لوگ بہت خوش حال ہیں۔ اب ان پر وقت پڑا ہے تو ہمارابھی فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔ مجھے انعام کا لالچ نہیں، میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ وہ پرندہ جلد سے جلد لا کر بادشاہ سلامت کے حوالے کردوں تاکہ ان کی بیٹی خوش ہوجائے اور ہمارے بادشاہ اورملکہ کی فکر دور ہو۔‘‘

وہ باتیں کرتے کرتے کافی دور نکل آئے تھے۔ اس وقت وہ ایک میدان میں تھے جس میں کہیں کہیں بڑے درخت بھی نظر آ رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے انہوں نے ایک بوڑھی عورت اور اس کے شوہر کو دیکھا۔ شہر یار اور سلیم کو آتا دیکھ کر بوڑھا شخص کھڑا ہوگیا اورانھیں رکنے کا اشارہ کیا۔

’’او بوڑھے شخص۔ تیرا دماغ خراب ہے جو ہمارا راستہ روک رہاہے؟۔‘‘ سلیم نے نہایت نہایت غصے سے کہا اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے جھک کر ایک ہاتھ سے دھکّا دے کر بوڑھے کو ایک طرف ہٹا دیااور گھوڑا بھگاتا ہوا آگے نکل گیا۔

بے چارہ بوڑھا زمین پر گر پڑا۔ اسے گرتا دیکھ کر اس کی بیوی چیخ چیخ کر دہائیاں دینے لگی اور اسے زمین سے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ دیکھ کر شہر یار جلدی سے گھوڑے سے نیچے اترا،بوڑھے کو زمین پر سے اٹھایا اور بولا۔ ’’محترم بزرگ۔ آپ کو چوٹ تو نہیں آئ؟۔‘‘

بوڑھا کراہتا ہوا کھڑا ہوگیا اور بولا۔ ’’برا ہو اس بد بخت کا۔ مجھے پہلے سے پتہ ہوتا کہ وہ ایسا ہے تو میں کبھی اسے اپنی مدد کے لیے نہیں روکتا‘‘۔

’’اسے چھوڑئیے۔ مجھے بتایے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔‘‘ شہریار نے نہایت نرمی سے کہا۔

’’بیٹا ہم صبح سے گھر جانے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن کے گھر سے آ رہا ہوں۔ ہمارا گاؤں یہاں سے چندکوس کے فاصلے پر ہے۔ ہم بوڑھے ہیں۔ چل چل کر بری طرح تھک گئے ہیں۔ بھوک سے برا حال ہے۔ گھر پہنچیں تو کھانا کھائیں اورآرام کریں۔ تمھارے پاس گھوڑا موجود ہے۔ تمہاری مہربانی ہوگی اگرہمیں گاؤں تک پہنچا دو۔‘‘

بوڑھے کی بات سن کر شہر یار نے اپنا کھانا نکال کر ان دونوں کودیا۔ یہ کھانا اس کی ماں نے اس کے ساتھ کردیا تھا تاکہ سفر کے دوران اسے بھوک لگے تو وہ اسے کھا لے۔ جب وہ دونوں کھاناکھا چکے تو شہر یار نے دونوں کو گھوڑے پر سوار کرایا اور خودگھوڑے کی باگ پکڑ کر تیز تیز قدموں سے ان کے گاؤں کی سمت روانہ ہوگیا۔ دونوں میاں بیوی اسے دعائیں دے رہے تھے۔

شام ہوتے ہوتے وہ ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ اسی گاؤں میں ان بوڑھے میاں بیوی کا گھر تھا۔ گھر پہنچ کر بوڑھے اور اس کی بیوی نے بڑے اصرار سے شہر یار کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اگلے روز تک ان کے گھر میں ہی ٹہرے کیوں کہ رات سر پر تھی اور رات کوسفر یوں بھی مناسب نہیں ہوتا۔شہر یار نے ان کی بات مان لی۔

رات کھانے کے بعد بوڑھے نے کہا۔ ’’اب نوجوان تم بتاؤ۔ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو۔‘‘

جواب میں شہر یار نے اسے پوری کہانی سنا دی اور بتایا کہ وہ بولنے والے پرندے کی تلاش میں پرستان جا رہا ہے تاکہ اُسے لے جا کر شہزادی گل صنوبر کے حوالے کر سکے۔

اس کی بات سن کر بوڑھا سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ ’’پرستان میں کچھ ایسے نایاب پرندے بھی ہوتے ہیں جو انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہیں مگر انھیں وہاں جا کر تلاش کرنا پڑے گا۔پرستان جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستے پر خطرات بہت ہیں اور اس کا راستہ بھی بہت طویل ہے۔ دوسرا راستہ قریب کا راستہ ہے۔ اگر گھوڑا تیز رفتار ہو تو ایک گھنٹہ میں وہاں پہنچا جا سکتاہے۔ اس راستے پر کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔‘‘

اگلے روز شہر یار صبح سویرے بیدار ہو گیا۔ بوڑھے نے اُسے پرستان کا راستہ اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔وہ روانہ ہونے لگا تو بوڑھے نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں لگے درختوں سے بہت سارے امرود توڑ کر ایک تھیلے میں رکھ کر اسے دئیے اور بولا۔ ’’پرستان کے پرندے امرود بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ پھل پرستان میں نہیں ہوتا ہے اسی لیے ان کی تلاش میں وہ انسانوں کی دنیا میں آ جاتے ہیں۔ تم یہ امرود اپنے پاس رکھو۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی خوشبو وہاں کے پرندوں کو تمہاری طرف متوجہ کردے گی۔ ہوسکتاہے ان میں کوئی ایسا پرندہ بھی ہو جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا ہو۔‘‘

شہر یار نے امرود لے کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گھوڑے پر سوارہو کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔جس راستے پر اس کا گھوڑا دوڑ رہا تھا وہ بہت صاف ستھرا اورہموار تھا۔ ایک لمبی پگڈنڈی تھی جس کے دونوں ا طراف میں ہری ہری گھاس تھی۔ کہیں کہیں پھولوں کے پودے بھی نظر آجاتے تھے۔اس راستے پر سفر کرتے ہوئے وہ بہت جلد پرستان پہنچ گیا۔

وہ پرستان میں داخل ہوا تو چاروں طرف بہت چہل پہل نظر آرہی تھی۔ حسین و جمیل پریاں خوب صورت اور رنگ برنگی لباس پہنے ادھرسے ادھر اڑتی پھر رہی تھیں۔ پریزاد بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے اور مختلف اشیا کی خریداری میں مصروف تھے۔

شہر یار نے ایک میدان کے چاروں طرف بہت سارے پری زادوں کا جھمگٹادیکھا۔ وہ قریب گیا تو پتہ چلا کہ وہاں دو دیووں کی کشتی ہو رہی ہے اور یہ سب ان دیووں کی کشتی دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ اس کابھی دل چاہا کہ دیووں کی کشتی دیکھے مگر اس نے وقت ضائع کرنامناسب نہ سمجھا اور بولتے پرندے کی تلاش میں چل پڑا۔ اس کی نظریں درختوں پر لگی ہوئی تھیں تاکہ اسے پرندے نظرآجائیں۔

چلتے چلتے وہ ایک باغ میں پہنچا۔ وہاں پر بہت سارے چھوٹے بڑے نہایت خوب صورت پرندے فضا میں اڑتے پھر رہے تھے۔ وہ سب اپنی سریلی آوازوں میں چہچہا رہے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو انسانی زبان میں باتیں کر رہا ہو۔ شہریار کو مایوسی تو ہوئی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے گھاس پربیٹھ کر کچھ امرود کی قاشیں اپنے سامنے ایک کپڑا بچھا کر رکھ دیں۔ امرودوں کی خوشبو سے جتنے بھی پرندے تھے وہ وہاں آگئے اوراپنی ننھی ننھی چونچوں سے انھیں کھانے لگے۔

’’اور بھئی پرندوں کیا حال ہے؟‘‘ اس نے کہا۔ مگر کسی نے بھی اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ شہر یار سمجھ گیا کہ ان پرندوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو انسانوں کی طرح بولتا ہو۔ امرود کی قاشیں ختم ہوگئیں تو وہ سب خوشی سے چہچہاتے ہوئے اڑ گئے۔

اچانک ایک سنہرے پروں والا پرندہ فضا سے اڑتا ہوا آیا اور شہر یارکے سامنے بیٹھ کر بولا۔ ’’افسوس مجھے آنے میں دیر ہوگئی ہے۔سارے امرود تو ختم ہوگئے ہیں۔‘‘

شہر یار اس سنہری پرندے کو انسانی زبان میں بولتا دیکھ کر خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ اس نے ایک بڑا سے پیلا پیلا، نرم گدریلا امرودنکال کر اس پرندے کے سامنے رکھا اور بڑے پیار سے بولا۔ ’’پیارے پرندے۔ فکر نہ کرو۔ میرے پاس اور بھی امرود موجود ہیں۔‘‘ یہ سن کر پرندہ پھدکتا ہوئے اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور مزے سے اس کا دیا ہوا امرود کھانے لگا۔

’’کیا تم میرے ساتھ انسانوں کی دنیا میں چلنا پسند کرو گے؟۔‘‘ آخر شہریار نے اپنے مطلب کی بات کہہ ہی دی۔

’’کیوں نہیں۔‘‘ پرندے نے جلدی سے کہا۔ ’’مجھے وہاں رہنا بہت اچھالگتا ہے۔ وہاں امروددوں کے بھی بہت سے باغ ہیں۔ مجھے امرودکھانا بہت پسند ہے۔ اگر میں تمھارے ساتھ چلوں تو تم مجھے پنجرے میں تو نہیں رکھو گے۔ مجھے پنجرے میں بند ہو کر رہنا بالکل اچھا نہیں لگتا۔‘‘

’’میں تمہاری تلاش میں بہت دور کا سفر طے کرکے آرہا ہوں۔ ہمارے بادشاہ کی بیٹی تمہیں یاد کرکر کے ہلکان ہوگئی ہے۔ اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ میں تمہیں لے جا کر اسی شہزادی کے حوالے کردوں گا۔ وہاں محل میں تم بہت آرام سے رہو گے۔ میں اسے بتا دوں گا کہ وہ تمہیں پنجرے میں بند نہ کرے۔‘‘ شہر یار نے کہا۔

’’میں کچھ روز پہلے شہزادی سے مل چکا ہوں۔ میں شہر شہرگھومنے پھرنے نکلا تھا اور اتفاق سے محل کے باغ میں میری شہزادی سے ملاقات ہوگئی تھی۔ وہ ایک بہت اچھی اور خوش اخلاق لڑکی ہے۔ میں بخوشی اس کے پاس رہنے کو تیار ہوں۔‘‘ پرندے نے کہا اور اڑ کر شہر یار کے ہاتھ پر بیٹھ گیا۔

شہر یار کا مقصد پورا ہوگیا تھا لہٰذا وہ واپسی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ پرندہ کافی اونچائی پر اس کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔ابھی وہ اپنے ملک کی حدود میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس نے سلیم کودور سے آتے ہوئے دیکھا۔ اس کی حالت انتہائی خراب تھی۔ اس کاجسم دھول مٹی سے اٹا ہوا تھا اور کپڑے بھی بہت بوسیدہ ہوگئے تھے۔ اس کا گھوڑا بھی نہایت کمزور ہوگیا تھا۔ شہر یار سمجھ گیاکہ پرستان جانے کے لیے سلیم اس پر خطر راستے پر نکل گیا ہوگاجس کے بارے میں بوڑھے نے اسے بتایا تھا۔

سلیم نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے قریب آیا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے۔ شہر یار کے پوچھنے پر سلیم نے بتایا۔ ’’مجھ سے بڑی غلطی ہوئی جو میں انعام کے لالچ میں اس سفر پر نکل کھڑا ہوا۔پرستان کے راستے میں بڑے خطرات تھے۔ میں بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگا ہوں۔‘‘

شہر یار نے اسے اپنی کہانی سنائی اور بتایا ’’کہ اس نے ان بوڑھے میاں بیوی کو اپنے گھوڑے پر بٹھا کر ان کے گاؤں پہنچایا تھا۔بوڑھے نے خوش ہو کر اس کی مدد کی جس کی وجہ سے وہ بولنے والا پرندہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔‘‘

’’وہ پرندہ تو تمھارے پاس نظر نہیں آرہا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘ سلیم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

شہر یار نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اوپر اشارہ کیا۔ سلیم نے دیکھا کہ ایک خوب صورت سنہری پرندہ ان کے سروں پر منڈلا رہاہے۔ انھیں باتیں کرتا دیکھ کر پرندے نے چلا کر کہا۔ ’’شہر یار۔جلدی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ رات ہوجائے۔‘‘ شہر یار نے سلیم کو خدا حافظ کہا اور اپنے گھوڑے کو چلنے کااشارہ کیا۔

سلیم نے اسے جاتا دیکھا تو بولا۔ ’’اگر میں ان بوڑھے میاں بیوی کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتا تو مجھے بھی بولتا پرندہ مل جاتا۔ شہزادی کے پاس ایسے دو پرندے ہوجاتے۔ میں نے اپنی بداخلاقی کی وجہ سے انعام حاصل کرنے کا موقع ضائع کردیا ہے۔مجھے اپنے برے سلوک اور غرور کی سزا مل گئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کروہ بھی اپنی راہ ہولیا۔

شہر یار محل پہنچا تو سنہری پرندے کو دیکھ کر شہزادی گل صنوبرخوش ہوگئی۔ پرندہ بھی بہت جلد اس سے مانوس ہوگیا تھا۔ شہزادی جہاں بھی جاتی وہ اس کے پیچھے پیچھے ہوتا۔ شہر یار کے کہنے پرشہزادی گل صنوبر نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ پرندے کو پنجرے میں نہیں رکھے گی۔

شہزادی گل صنوبر کو خوش دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ بادشاہ نے شہر یار کی ہمت اور بہادری کی بہت تعریف کی۔ رات ہو گئی تھی اس لیے بادشاہ نے شہر یار کو گھر نہیں جانے دیا اور اسے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرانے کا حکم دیا۔

اگلے روز حسب وعدہ بادشاہ نے شہر یار کو بہت ساری اشرفیاں انعام میں دیں۔ شہر یار نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور اشرفیوں کاتھیلا اپنے گھوڑے پر رکھ کر محل سے رخصت ہونے لگا۔ شہزادی گل صنوبر اپنے سنہری پرندے کے ساتھ اسے خدا حافظ کہنے آئی۔

شہر یار محل سے نکلا تو اس کا رخ اپنے گھر کی جانب نہیں تھا۔ وہ بڑی تیزی سے اپنا گھوڑا دوڑاتا ہوا اس بوڑھے کے گاؤں کی جانب جا رہا تھا جس کی مدد کی وجہ سے وہ بولنے والا پرندہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ وہ ان کے گاؤں میں پہنچا تو بے چارہ بوڑھا بیمار پڑا تھا اور اس کی بیوی اس کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھی۔ بیماری کی وجہ سے بوڑھا اپنے کام پر بھی نہیں جا سکا تھا۔ایسے میں شہر یار کی اس روز کی دی ہوئی رقم ان کے بہت کام آئی تھی۔

شہر یار کو دیکھ کر دونوں میاں بیوی خوش ہوگئے۔ شہر یار نے اپنی کامیابی کی خبر انھیں سنائی۔ پھر اس نے بادشاہ کے دیے ہوئے انعام میں سے آدھی اشرفیاں بوڑھے کے حوالے کیں اور بولا۔ ’’آدھے انعام کے آپ بھی حق دار ہیں۔ اگر آپ میری مدد نہ کرتے تو مجھے وہ پرندہ کبھی بھی نہ ملتا۔‘‘

اتنی بہت سی اشرفیاں پا کر وہ دونوں خوش ہوگئے اور شہر یار کودعائیں دینے لگے۔

اس کے بعد شہر یار اپنے گھر آیا۔ اس نے پوری کہانی اپنے ماں باپ کو سنائی اور بادشاہ سے ملا ہوا آدھا انعام ان کے حوالے کیا۔ اس کے ماں باپ تو خوشی سے پھولا نہیں سما رہے تھے۔ وہ اس بات پر بھی بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے نے اپنے محسن کو فراموش نہیں کیا تھا اور انعام کا آدھا حصہ اسے بھی دیا تھا۔

انعام میں ملی ہوئی اشرفیوں سے شہر یار نے اپنا کاروبار کر لیا۔ اس کے باپ نے بھی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرنا چھوڑ دیں اور کاروبار میں اپنے بیٹے کا ہاتھ بٹانے لگا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان کا کاروبار خوب چمک اٹھا۔ یوں ایک لکڑ ہارے کا بیٹا کمزورانسانوں سے محبت اور ان کی مدد کرنے کے صلے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک خوش حال زندگی گزارنے لگا۔
میں جانتا ہوں یہ کہانی آپ کو بہت پسند آئ ہوگی پلیز ایک اچھا سا کمنٹ ضرور چھوڑ دیا کریں اِس سے ہمیں کوئ پیسے وغیرہ نہیں ملتے بسس ایک خوشی کا سا احساس ہوتا ہے اللہ آپ سب کو ہنستا بستا رکھے

(ختم شد)

Address

Karachi
Karachi
75120

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khofnak Kahaniyan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Video Creators in Karachi

Show All