05/11/2022
’پرویز الہی کا قصور نہیں، ایف آئی آر درج نہ کرنے پر بتایا گیا پیچھے سے حکم ہے:‘ عمران خان
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ایک غلطی فہمی ہے کہ اگر آپ کسی فوجی پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ فوج کے خلاف ہیں۔
جمعے کو شوکت خانم ہسپتال میں پریس کانفرنس کے دوران ان کی جانب سے آئی ایس آئی کے حاضر سروس افسر میجر جنرل فیصل نصیر پر الزامات عائد کرنے کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر جگہ ہر ادارے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ادارہ خراب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ کہتا ہوں اگر فوج سے ایسی کالی بھیڑیں ہٹائیں گے تو فوج کا وقار بڑھے گا۔‘
ملک میں مارشل لا لگنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مارشل لا لگنے کے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔ عوام میں شعور آ چکا ہے اب مارشل لا نہیں لگ سکتا۔‘
لانگ مارچ کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے میں میں چلنے کے قابل ہوں گا میں دوبارہ نکلوں گا۔‘
لانگ مارچ پر فائرنگ کے واقعے کی ایف آئی آر درج نہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ میرے پر حملے کا معاملہ ہو، 25 مئی کو تشدد کا واقعہ ہو، ایف آئی اے کے کیسز ہوں، الیکشن کمیشن کے فیصلہ ہوں تو ہمارے کیسز درج نہیں ہوتے اور تمام ادارے ہمیں کہتے ہیں کہ پیچھے سے حکم ہے۔‘
لانگ مارچ پر فائرنگ کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے پر بات کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں چیف جسٹس آف پاکستان سے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پنجاب حکومت کے ہوتے ہوئے انصاف نہ ملنے کی صورت میں کیا آپ موجودہ وزیر اعلیٰ پرویز الہی کو تبدیل کرنے کا سوچ سکتے ہیں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس تمام معاملے میں پرویز الہی کا قصور نہیں ہے۔ یہ نظام کی ناکامی ہے۔ اس نطام میں توازن نہیں ہے۔ ملک کو فوج کی ضرورت ہے لیکن وہ اس نظام سے اوپر نہیں ہے۔ اگر آپ خود سے تنقید سے بالاتر سمجھے گے تو مسائل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا کبھی خوشحالی نہیں آتی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرس کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اس پریس کانفرنس سے انھوں نے کیا مقصد حاصل کیا ہے۔ اگر میں ان کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں جواب دینا شروع کر دیتا تو انھیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا کام نہیں تھا، سیاسی حکومت کے اداروں کو بولنا چاہیے تھا