chocolatyhero05

chocolatyhero05 crypto trader � Amazon VA �
mul-pakistan �
proud to be hussaine � my name is Syed hassan Shah bukhari,my cell phone number is 03047743787

07/03/2023
20/07/2022

🤣🤣🤣

🥰🥰🥰
20/07/2022

🥰🥰🥰

24/05/2022

tiktok.com/

With Shahzad Samar
07/05/2022

With Shahzad Samar

06/05/2022

Enjoying pool with Aftab shah

06/05/2022
28/04/2022
04/04/2022

ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ
ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﻭ ﺟﻤﯿﻞ ﭘﺮﯼ ﭘﯿﮑﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ . ﻣﮕﺮ ﻋﻘﻞ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﺪﻗﺴﻤﺖ ﺗﮭﯽ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺣﻤﻖ ﺗﮭﯽ ﺭﺧﺼﺘﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻧﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﺪﺑﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮧ ﺑﻨﺪ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ .
ﻟﮍﮐﯽ ﺑﯿﺎﮦ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﭘﺮ ﺑﮍﯼ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﻣﺒﺎﺩﺍ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﭼﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺮﺱ ﮔﯿﺎ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺁﺧﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﯿﺞ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﺁﮔﯿﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﮭﻮﻧﮕﯽ ﮨﻮ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻧﮕﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﺪﺑﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﻣﻐﺎﻟﻄﮧ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺭﻭﺯ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﺪﺑﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﺐ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ ﺷﮩﺪ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﮨﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻭﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺘﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺯﺩﻭﺍﺟﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺟﺐ ﺁﭖ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﮞ؟ " ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮫ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ
ﭼﭗ ﺭﮨﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺁﺭﮨﯽ ہے۔“🙄😒

😂😂

19/02/2022

ایک تندور والا تھا جو 5 روپے میں روٹی بیچتا تھا اسے روٹی کی قیمت میں اضافہ کرنا تھا لیکن بادشاہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کی قیمت نہیں بڑھا سکتا تھا۔ تو وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت مجھے روٹی کے 10 روپے کرنے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ 30 کی کر دو
تندوری نے کہا بادشاہ سلامت اس سے شور مچے گا
بادشاہ نے کہا اس کی فکر نہ کرو
میرے بادشاہ ہونے کا کیا فائدہ۔تم اپنا منافع دیکھو اور روٹی 30 ​​روپے کی کر دو
اگلے دن اس نے روٹی کی قیمت 30 روپے کر دی، شہر میں کہرام مچ گیا لوگ بادشاہ کے پاس پہنچے اور شکایت کی کہ تندور والا ظلم کر رہا ہے 30 روپے کی روٹی بیچ رہا ہے ۔ بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ میرے دربار میں تندوری کو پیش کرو ،وہ جیسے ہی دربار میں پیش ہوا بادشاہ نے غصے سے کہا، تم نے مجھ سے پوچھے بغیر قیمت کیسے بڑھا دی؟ یہ رعایا میری ہے، لوگوں کو بھوکا مارنا چاہتے ہو۔ بادشاہ نے تندوری کو حکم دیا کہ تم کل سے آدھی قیمت پر روٹی بیچو گے ورنہ تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا، بادشاہ کا حکم سن کر عوام نے اونچی آواز میں کہا....بادشاہ سلامت زندہ باد

اگلے دن سے 30 کے بجائے روٹی 15 میں بکنے لگی
عوام خوش، تندوری خوش، بادشاہ بھی خوش😁
_________________
یہ حال اج کل پاکستان کا ہے.
Hasu

19/02/2022

زوجہ حضرت مختار فرماتی ہے!
بابا مجھے پاگل کہتے تھے کہ عمرہ تم پاگل ہو؟
کہ تم ایک کسان کو لئے بیٹھی ہو! جسکے پاس گھاس کی بو آتی ہے!
عمرہ: ظاہر ہے! باقی لڑکیوں میں اور مجھ میں یہی فرق تھا انہیں ایک شوہر چاہئے تھا اور مجھے ایک ہمسفر جو مجھے میری منزل تک پہنچائے جسکی میں مرید ہوں... مختار تو ایک بہانا تھا...
”میری منزل تو محبت علی ع تھی“
”میری منزل عشق علی ع ہے“
ہمسفر_ تا_ بہشت🌺

06/02/2022

سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد مولا علی نے ان کی وصیت کے مطابق دوسری شادی کی ۔ حسن حسین زینب ابھی چھوٹے تھے ۔ آپ نے سیدنا عقیل کو رشتہ دیکھنے کے لئیے کہا تو کلبسی بنو قلاب کے قبیلے کا انتخاب ہوا ۔ سیدنا علی کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو شجاعت سخاوت اور ایثار کی خصوصیات سے مالا مال ہو ۔ بنو قلاب کی خاتون فاطمہ بنت حزم کے گھر رشتہ بھیجا تو سردار حزم اپنی بیوی کے پاس گئے اور پوچھا کہ سیدنا علی کا بیٹی فاطمہ کے لئیے رشتہ آیا ہے کیا آپ نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی ہے جو نبی کے خاندان میں بیاہی جا سکے ۔ رشتہ قبول ہوتا یے تو فاطمہ بنت حزم( سیدہ ام البنین) سیدنا علی کے گھر جاتی ہیں تو سیدنا حسن حسین اور فاطمہ کو گلے لگا لیتی ہیں۔ سیدنا علی سے درخواست کرتی ہیں کہ ان بچوں کے سامنے آپ مجھے کچھی فاطمہ مت کہئیے گا انہیں اس سے ان کی ماں یاد آ جائے گی ۔ میں اس گھر میں ان کی ماں بن کر نہیں آئی بلکہ کنیز بن کر آئی ہوں۔ میرا یہ مقام نہیں کہ ان کی ماں کی جگہ لے سکوں ۔ اس کے بعد آپ نے انہیں بیٹا نہیں کہا بلکہ ہمیشہ مولا کہتی رہیں۔ ان کے چار بیٹے ہوئے اس لئیے انہیں ام البنین بھی کہتے مطلب بیٹوں کی ماں ۔ اپنے بیٹوں کو ہمیشہ حسن حسین علی کی صرف اطاعت کا حکم دیا ۔ ادب سکھایا اور کہا جو وہ کہیں بس حکم بجا لانا ہے بحث نہیں کرنی۔ یہ اہل بیت ہیں ہم ان کے نوکر ہیں۔

چار بیٹوں میں عباس ابن علی ، عبداللہ ابن علی ، جعفر ابن علی اور عثمان ابن علی تھے ۔ سیدنا عباس علیہ السلام لشکر حسین کے سپہ سالار بھی رہے شجاعت میں یہ ایک مقام رکھتے تھے دونوں ہاتھ سے تلوار چلاتے تھے ۔ جنگ صفین میں سیدنا علی نے ان کو بھیجا تو محمد بن حنفیہ کہتے کہ مولا آپ صرف عباس کو کیوں آگے بھیجتے ہیں تو سیدنا عباس کہنے لگے حسن حسین میرے ابا کی آنکھیں ہیں اور میں ان کا بازو اور بازو ہمیشہ آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں ( حالانکہ عمر میں حسن و حسین سے چھوٹے تھے ) مطلب کہ یہ سوال بھی نہیں بنتا ، ماں کی تربیت ہر مقام پر جھلکتی تھی ۔

واقعہ کربلا میں جب ایک ایک کر کے لشکر حسین کے سپاہی شہید ہوتے گئے تو سیدنا عباس نے مولا حسین سے درخواست کی کہ مجھے جانے دیں۔ سیدنا حسین ان سے تلواریں لے لیتے ہیں کہ بس عباس تم پانی لے آو ۔ آپ پانی لینے جاتے ہیں تو یزیدی لشکر ان پر حملہ کر دیتا ہے دونوں بازو کاٹ دئیے جاتے ہیں وہی جنہوں نے حسین کی حفاظت کرنی تھی ۔ گھٹنے میں تیر لگتا ہے حسین عالی مقام کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ سیدنا عباس مولا حسین سے درخواست کرتے ہیں کہ میرے گھٹنے سے تیر نکال دیں اور کہتے ہیں کہ مولا میری والدہ سے کہہ دیجئیے گا کہ عباس کے دونوں بازو نہیں تھے اس لئیے صرف آپ کو تیر نکالنے کا کہا ۔ یہ وہ ادب تھا وہ اطاعت تھی جو سیدہ ام البنین کی تربیت تھی جنہوں نے ساری زندگی نبی کے اس گھرانے کی کنیز بن کر گزار دی ۔ آپ کے چاروں بیٹے اس جنگ میں شہید ہو گئے ۔ علی کے پانچ بیٹوں نے اس میں جام شہادت نوش کیا جس میں 4 سیدہ ام البین کے فرزندان تھے ۔ جو لشکر حسین کا نہ صرف حصہ بنے بلکہ امام عالی مقام پر اپنی جان تک قربان کر دی اور ساری عمر کبھی زبان پر کوئی سوال نہ لائے ۔

سیدہ ام البنین کو جب بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو کہا عباس شہد ہوا جعفر شہید ہوا عثمان شہید ہوا عبداللہ بھی شہید ہو گیا فرمانے لگی سب چھوڑیں میرے مولا حسین کا بتائیں تو بتایا کہ وہ بھی شہید ہو گئے تو کہنے لگی کیا میرے بیٹے بعد میں شہید ہوئے مولا حسین سے تو بتایا کہ نہیں وہ پہلے شہید ہوئے اور مولا کی حفاظت کے لئیے خوب لڑے تو شکر ادا کیا کہ انہوں نے بیشک حق ادا کر دیا ۔۔۔۔
یہ وہ ماں تھی جو اہل بیت کے مقام کو سمجھتی تھی جس نے اپنے سارے بیٹوں کو ساری عمر صرف اطاعت سکھائی ادب سکھایا خود کو اس گھر کی کنیز بنایا اور حسن و حسین کو بیٹا نہیں ہمیشہ مولا کہا ۔
خدا ہم سب کو اہل بیت کا مقام سمجھنے اور اس ادب و اطاعت کی ہدایت فرمائے جو سیدہ ام البینین نے اپنی اولاد کو سکھایا ۔
Hasu05

06/02/2022

"ہمارے ہاں بچی 16 سال کی ہو تو والدین کہتے ہیں کہ
ابھی بچی پڑھ رہی ہے ۔پہلے پڑھائی مکمل کرلے ۔۔
17سال میں ۔۔۔۔ابھی بچی نے اور پڑھنا ہے ۔۔
18 سال میں ۔۔۔۔اب بچی نے ڈگری کیلیے ایپلائی کرنا ہے
20سال میں ۔۔۔۔(خاندان والوں نے رشتہ مانگا ہے) لڑکا ،لڑکی سے کم پڑھا لکھا ہے اس لیے نہیں دے سکتے ۔
21 سال میں۔۔۔۔(رشتہ آیا) ۔۔۔ہم ذات سے باہر نہیں دے سکتے
22 سال میں ۔۔۔۔لڑکا کم آمدنی والا ہے ہماری بچی کو کیسے خوش حال رکھ پائے گا ۔۔اس لیے نا۔۔۔
23سال میں ۔۔۔لڑکا ملازمت کرتا ہے ۔۔سیلری کم ہے ۔۔۔اس لیے ناں۔۔
24سال میں ۔۔۔۔لڑکے کا رنگ سفید نہیں ہے ہماری بیٹی چٹی گوری ہے لہذا رشتہ میچ نہیں کرتا ۔۔۔اس لیے ناں۔۔
25سال میں ۔۔۔لڑکے کا اپنا مکان نہیں ہے کرابے پر ہے اس لیے ناں ۔۔۔۔
26 سال میں ۔۔۔لڑکا لڑکی سے زیادہ بڑی عمر کا لگتا ہے اس لیے ناں ۔۔۔۔
27سال میں ۔۔۔لڑکے کی پہلی بھی ایک بیوی ہے اس لیے ناں۔۔۔۔
28 سال میں ۔۔۔ہم رنڈوے کو نہیں دے سکتے
30سال میں ۔۔۔۔پیر جی ہماری بچی کیلیے کچھ کریں رشتے تو بہت آتے ہیں مگر میل جوڑ کا ایک بھی نہیں ۔
32سال میں ۔۔۔۔بیٹی کے سر میں سفید چاندی دیکھ کر باپ کو بیماریاں لگ گئیں۔
35 سال میں ۔۔۔لڑکی مایوس
38 میں ۔۔۔۔ساٹھ سال کا رشتہ آیآ ہے آدمی مالدار ہے چار بچے ہیں چاروں اپنے اپنے گھر شادی شدہ ہیں ۔بس بابے کو سبنھالنا ہے ۔۔😪
40 میں ۔۔۔اب میں نے شادی نہیں کرنی ۔۔مجھ سے اب کون کرے گا ؟؟
خدارا اپنی سوچ بدلیں ۔۔
بیٹیوں کو بھاگنے ،خود کشی کرنے یا زندگی سے مایوس ہونے سے پہلے ہی حق زوجیت سے نوازیں ۔اور اپنے گھر پہنچانے کی فکر کریں ۔یہ ہر ماں باپ پر فرض ہے ۔وہ اولاد کے ولی ہیں ۔۔۔بچوں بچیوں کا حق ہے ماں باپ پر ۔۔۔ضرور ادا کریں ۔ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہو جائے ۔۔
Hasu05

06/02/2022

سردی کے موسم میں
عشق۔پیار۔محبت۔وعدے ۔چاند سا چہرہ
سب مل کر بھی
اک ابلے ھوۓ انڈے کا مقابلہ نہیں کر سکتے
🤣🤣🤣🤣😂😂
Hasu05

06/02/2022

*مجھے طلاق دے دو* ایمان افروز واقعہ
پژھنے میں صرف تین منٹ لگیں گے ۔ ضرور پڑھ لیں
جزاک اللہ

ایک صحابی رسول رات کو اپنے گھر میں آرام فرما رہے تھے اور انہیں پیاس لگی تو انہوں نے اہلیہ سے پانی مانگا، ان کی اہلیہ صحابیہ عورت تھی وہ پانی لے کر آئی تو وہ صحابی دوبارہ سو چکے تھے۔

وہ عورت اتنی خدمت گزار تھی کہ پانی لے کر کھڑی ہوگئی، جب رات کا کافی حصہ گزر گیا تو صحابی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی وفادار بیوی پانی لے کر کھڑی ہے، پوچھا تم کب سے کھڑی ہو؟

اس صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ جب آپ نے پانی مانگا تھا، میں پانی لے کر آئی تو آپ آرام فرماچکے تھے اس لئے میں نے آپ کو جگا کر آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور سونا بھی گوارا نہ کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے پھر آپ کی آنکھ کھلے اور آپ کو پانی کی طلب ہو اور کوئی پانی دینے والا نہ ہو، کہیں خدمت گزاری اور وفا شعاری میں کوتاہی نہ ہوجائے اس لئے میں ساری رات پانی لے کر کھڑی رہی۔

ذرا سوچیے! آج کوئی ایک عورت ایسی باوفا اور خدمت گزار تو دکھاؤ، آج اگر خاوند پانی مانگے تو بیوی سو باتیں سناتی ہے لیکن ان عورتوں کی وفا شعاری بھی دیکھو۔

جب اس عورت نے یہ کہا کہ میں ساری رات کھڑی رہی تو اس صحابی کی حیرت کی انتہانہ رہی وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا اور عجیب خوشی کی کیفیت میں اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ تم نے خدمت کی انتہا کردی، اب میں تم سے اتنا خوش ہوں کہ آج تم مجھ سے جو مانگو گی میں دوں گا، صحابیہ نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس تم راضی اور خوش رہو لیکن جب صحابی نے بار بار اصرار کیا تو عورت نے کہا اگر ضرور میرا مطالبہ پورا کرنا ہے تو مہربانی کر کے مجھے طلاق دے دو۔

جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اس صحابی کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی، وہ ہکا بکا اور حیران رہ کر اپنی بیوی کا منہ دیکھنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے، اس نے کہا اتنی خدمت گزار بیوی آج مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہے، اس نے کہا چونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے تیرا مطالبہ تو پورا کروں گا لیکن پہلے چلتے ہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، آپ سے مشورہ کے بعد جو فیصلہ ہوگا اسی پر عمل کروں گا۔

چنانچہ صبح صادق کا وقت ہوچکا تھا یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر سے نکل کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کی طرف روانہ ہوگئے، راستے میں ایک گڑھے میں صحابی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گئے، اس کی بیوی نے ہاتھ پکڑ کر صحابی کو اٹھایا اور کہا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی، صحابی نے کہا اور تو کچھ نہیں البتہ پاؤں میں تکلیف ہے، صحابیہ عورت نے فرمایا چلو واپس گھر چلیں، صحابی نے کہا اب تو قریب آچکے ہیں، صحابیہ کہنے لگیں نہیں واپس چلو، چنانچہ جب واپس گھر آئے تو صحابی نے پوچھا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آئی کہ ساراماجرا کیا ہے۔

صحابیہ نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ جسے ساری زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو اس کے ایمان میں شک ہے کیونکہ جو بھی ایمان دار ہوتا ہے وہ ضرور تکلیف میں آزمایا جاتا ہے، مجھے تو آپ کے ساتھ رہتے ہوئے پندرہ سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آپ کو کبھی سر میں بھی درد نہیں ہوا، اس لئے مجھے شک ہو گیا اور میں نے سوچا کہ ایسے آدمی کے نکاح میں رہنے کا کیا فائدہ ہے جس کا ایمان مشکوک ہے، اس لئے میں نے طلاق مانگی لیکن جب راستے میں آپ کے پاؤں میں چوٹ آئی تو میرا شک رفع ہوگیا کہ الحمد للہ آپ تکلیف میں آزمائے گئے اور آپ نے اس تکلیف پر صبر کیا۔

یہ تھیں صحابہ کرام کی زندگیاں ۔۔۔ آج تو میاں بیوی کی لڑائی زیوروں، آسائشات ، کپڑوں ، اور گھر اور اخراجات پر ہوتی ہے ، ایمان اور دین کی بات کوئی نہیں پوچھتا.....
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دیں ، اور اسی عارضی دنیا سے زیادہ آخرت کو ترجیح دیں ۔ اور ہر رشتے کو دل سے نبھائیں - امین
تنقید کرنے والے ، ‏‏ بے دین ، اور لبرل حضرات دور رہیں خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں
Hasu05

06/02/2022

‏سنو! مجھے محبت کرنی نہیں آتی ۔۔
سنو محبت تم کر لینا میں بس وفا کروں گا،
اور تاحیات کروں گا ❤️
Hasu05

06/02/2022

14فروری کے لیے خصوصی پیغام
جہاں دیکھو کپل
وہاں مارو چپل 😂😂
Hasu05

06/02/2022

,ایک ڈاکٹر کہتی ہے میں ڈیوٹی پر مامور تھی خودکشی کا ایمرجنسی کیس آیا
لڑکی کا نام آمنہ تھا میں نے آٹھ سال کے کیریئر میں ایسی خوبصورت لڑکی پہلی بار دیکھی تھی
وہ بے ہوشی کی حالت میں تھی اس کو اٹھا کر لے کے آنے والے اس کے والد تھے
والد ماشاءاللہ بہترین پرسنلٹی کے مالک تھے مگر بیٹی کی حالت میں ان کو اس وقت بے حال کر دیا تھا
پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی کا پیار اور اس کے والد پر بہت رحم آیا تھا
لڑکی کو آپریشن تھیٹر لے کے آیا گیا آپریٹ کر کے اس کو دوسرے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا گھر والوں کو بتایا گیا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے یہ سن کر لڑکی کا والد غربا میں کچھ تقسیم کرنے نکل گیا میں نے اس کی والدہ کو آفس میں بلایا اور پوچھا کہ آپ کی بیٹی کو کیا ہوا ہے مختصرا لڑکی کی والدہ نے جو مجھے کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی
کیا ہماری بیٹی نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ کر رکھی ہے سارے والدین کی طرح ہماری بھی خواہش تھی کے ہماری بیٹی بھی اپنے گھر کی ہو جائے
چنانچہ ہم نے آمنہ کی پسند پوچھی ہماری بیٹی نے مشرقی لڑکیوں کی طرح بولاکہ جوآپ کا فیصلہ ہوگا وہی میرا فیصلہ ہوگا
اس نے سارا اختیار ہم کو دے دیا
چنانچہ کے رشتے کی بات چلائی
آمنہ کو دیکھنے ایک فیملی آئی
لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں آمنہ کے کمرے میں گئیں ایک نے آمنہ کے ہاتھ سے چائے پینے کی فرمائش کی اس کے بعد وہ لوگ چلے گئے چند دن بعد بغیر کچھ بتائے رشتے سے انکار کر دیا
آمنہ کے لیے پہلی بار تھا جب وہ ریجیکٹ ہوئی مگر ماں باپ کی تسلی نے آمنہ کو بہت حوصلہ دیا
ایک بار پھر آمنہ کو دیکھنے فیملی آئی
چائے پینے کے بعد اجازت چاہی اور کچھ دن بعد یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی
کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر چائے پیش نہیں کی بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر چائےرکھ دی
اس انکار کے ساتھ آمنہ اور آمنہ کے والد بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے
اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کیا کچھ دنوں بعد ایک نئی فیملی آئی اس فیملی کے بیٹھتے ہی آمنہ نے ان کے پاؤں کے جوتے بھی اتارے اور اُسی جگہ چائے پیش کی اس فیملی نے ایک ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کیا آپ کی بیٹی پر جنات کا سایہ ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آتا ہے تواس کی آتنی مہمان نوازی کون کرتا ہے
پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد رشتے آئے آمنہ کے لیے کچھ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کے آمنہ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے کہا اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک 48 سال کا بیٹا جس کی اپنی دکان ہے اس کے لیے ہم آمنہ کا رشتہ قبول کرتے ہیں
اتنا کہتے یہ آمنہ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی
اور کہا آپ بھی تو ایک ماں ہیں اور ماں جتنی بھی مجبور ہوں غیروں کے سامنے کیا کہہ سکتی ہے
اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی ہے اور کہتی رہی ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اور ماں بولیں نہ جانے کب اس نے دنیا کو کو الوداع کرنے کا
فیصلہ کرلیا
اور کہتی رہی میرا منحوس سایہ میری بہن کو بھی والد کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا
میں نے آمنہ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے۔ میں اس کا والد اور پیچھے سے وارڈ بوائے کمرے میں داخل ہوا
اور واڈبوائے نے کہا آمنہ ہوش میں آ گئی ہے
آمنہ کی والدہ بجلی کی تیزی سے وارڈ میں داخل ہوئے آمنہ کا سر اٹھایا اور سینے سے لگا کر رونے لگی اتنے میں میں اور آمنہ کا باپ بھی وارڈ میں داخل ہوئے
آمنہ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگ کر رونے لگی اور کہنے لگی بابا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں
پاپا آپ نے مجھے کیوں بچایامجھے مرنے دیتے تاکہ میرا منحوس سایہ گھر سے نکلے اور گڑیا کی شادی ہو
نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑی رہے گی اور بوڑھی ہو جائے گی
آمنہ کا باپ چپ چاپ آنسو بہہ رہا تھا میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو میں نے آمنہ کو انجنکشن دے دیا اور آمنہ کے والد کو لے کر آفس میں آگئی
میں نے آمنہ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لیے مانگ لیا
آمنہ کے والد کی آنکھیں آچانک برسنے لگی مگر اب وہ آنسو خوشی کے تھے
میرے دونوں بھائی بھی ڈاکٹر تھے میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا وہ دونوں خوشی سے قبول کر چکے تھے
ویسے یہ تحریر لکھ کر میں آپ لوگوں سے یہ ااتجا کر رہا ہوں ہم لوگ
شادی ایک عورت سے کر تے ہیں کسی حور سے نہیں کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی کو رکھ کر سوچیں
ایک مرد ہونے کے ناطے یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں اگر عیب کے بنا پر ریجیکٹ کرنا ہو تو لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہونگے
مجھ سے دنیا میں کسی بھی فورم پر کوئی بھی بندہ بحث کرلے میں ثابت کر دوں گا کے مرد میں عیب زیادہ ہیں
میں ہاتھ جوڑ کر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر یہ التجاکرتا ہوں
کسی کو بلاوجہ عیب زدہ کہہ کر ریجیکٹ نہ کرو آپ لوگ اللہ کی مخلوق کی عیبوں پر پردہ ڈالو اللہ تمہارے عیبوں پر پردہ ڈالے گا
آپ کے نکالے عیب نہ جانے کتنی لڑکیوں کو قبر میں دھکیل دیتے ہیں اپنا بھی خیال رکھیں دوسروں کا بھی مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھیں
Hasu05

06/02/2022

بیٹی🌼

ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ، ﺍﺳﮯ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﻤﺎ ﮐﺮ، ﺍﺳﮯ ﻧﯿﻠﮯ ﭘﯿﻠﮯ ﺳﺮﺥ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺑﭽﯽ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﻭﮞ، ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮍﯾﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮭﯿﻠﺘﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼﺗﯽ ﺑﭽﯽ ﭘﺮ ﺭﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺑﭽﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺭﯾﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﻭﺍﻟﺪ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻗﺒﯿﺢ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺑﻌﺾ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﺗﻠﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺻﺎﻑ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﮭﺎﮌﮮ، ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﻮﻧﭽﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻤﯿﺾ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﮔﮭﺎﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔

ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﺸﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺧﺪﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﮮ ﺩﻭ۔ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻮﺗﻠﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ " ﺍﺑﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻗﺮﺑﺎﻥ، ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺭﯾﺖ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﻭﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺭﮨﯽ، ﺩﮨﺎﺋﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔

ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺿﺒﻂ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ۔ ﺁﭖ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺣﻠﻖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻻ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ۔ " ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟ " ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ...

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻧﻘﻄﮯ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﯿﻞ ﮐﺮتا ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﺍﯾﺴﯽ ﮔﻨﺪﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﯾﮟ ....

ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ....
Hasu05

06/02/2022

‏صرف جلیبیاں ہی تو کوکا کولا میں ڈبو کے کھائ تھی..😒

اس میں پینڈو کہنے والی کیا بات تھی..🙄🙄😕
Hasu05

06/02/2022

جب فہد مصطفیٰ کہتا ہے😢😢😢😢
"مجھے چاہیے لڑکیاں"کہاں ہیں لڑکیاں!😢😢😢😢
تو لڑکیاں اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر ہاتھ ہلا ہلا کر بتاتی ھیں کہ ہم یہاں یہاں بیٹھی ہیں،پھر وہ چن چن کر میک اپ کئے ھوئے کھلے بالوں والی لڑکیوں کو اشارہ کر کے نیچے بلاتا ہے،کسی کو عجیب یابرانہیں لگتا کسی لڑکی کے ساتھ بھائی ، ابو، ماما ،چاچا وغیرہ اورکسی کے ساتھ توخاوندبھی ھوتاھے
لڑکی کو فہدمصطفیٰ کے پاس بھیجنے والے حضرات بڑے خوش ھوتے ھیں کہ ہمارے لئیے انعام جیت کر لائے گی۔
اسی بے پردہ لڑکی کو اگر اس کے گلی محلے میں کوئی آنکھ بھرکر دیکھ لےتو اکثریت لوگ دیکھنے والے کی ماں بہن ایک کردیتے ھیں اکثریت لوگ تو دیکھنے والے کے ہاتھ پاؤں توڑے بغیرسکون نہیں کرتے
فہدمصطفیٰ کے پروگرام میں لائیو جوکچھ ہوتاھے

کیا اسے غیرت کا مرجانا کہہ سکتے ہیں؟
یعنی اگر مال مل رہا ہوتو ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں-.
راۓ ضرور دیجئے گا -
جب پردے کا حکم ہوا تو دنیا کی بہترین عورتوں نے
دنیا کے بہترین مردوں سے بھی پردہ کیا.

Hasu 05

24/01/2022
Irokker2 air pode (03137358406)
30/11/2021

Irokker2 air pode (03137358406)

Irokker air pode (03137358406)
30/11/2021

Irokker air pode (03137358406)

😍
16/06/2021

😍

04/06/2021

آقا و مولا حضرت سیدنا امام حسن المجتبی علیہ السلام
خلافت کے زمانے میں جب امام حسن علیہ السلام نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی صلح کروائی تو ایران کے بادشاہوں اور وزیروں نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو دعوت پر بلایا ۔ آپ علیہ السلام نے ان کی دعوت قبول کرلی ۔ لہٰذا ایران میں اعلان کردیا گیا نواسہ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام تشریف لارہے ہیں ۔ ایران میں حضرت مولا علی مشکلکشاہ علیہ السلام کے عاشق بھی بہت زیادہ تھے جب انہوں نے سنا کہ ہمارے مولا کا بیٹا فرزند امام حسن علیہ السلام تشریف لارہے ہیں تو وہ سب دوڑے کوئی کہتا میں یہ تحفہ پیش کروگا کوئی کہتا میں سب سے زیادہ قیمتی تحائف پیش کروگا ۔

ان سب میں ایک موچی تھا بہت ہی زیادہ غریب تھا موچی آسمان کی طرف دیکھ کر رونے لگا ۔ لوگوں نے پوچھا ارے بھائی سب خوشی منارہے ہیں تم کیوں رورہے ہو ۔ موچی کہنے لگا میں بہت زیادہ غریب ہوں یہ سب امیر ہیں میرے پاس کچھ نہیں جو میں اپنے مولا علی علیہ السلام کے فرزند کو تحفہ پیش کرسکو ۔ موچی سارا دن روتا رہا ادھر سب لوگ جشنِ آمد حسن علیہ السلام منارہے ہیں ۔ جب امام حسن علیہ السلام تشریف لے آئے ۔تو سارے لوگ وہاں چلے گئے جہاں پر آپ علیہ السلام تشریف فرما تھے ۔ موچی شرمندگی کی وجہ سے روتے ہوئے کبھی آسمان کی طرف دیکھتا کبھی اس طرف دیکھتا جہاں امام علیہ السلام تشریف فرما تھے بغیر دیکھے امام علیہ السلام کو گھر آگیا ۔ زور زور سے رونے لگا ۔ اس کی بیوی نے پوچھا کیا ہوا ۔جب موچی نے ساری بات بتائی تو وہ پہلے بہت خوش ہوئی کہ میرے مولا علی کا فرزند آیا ہے اور پھر وہ بھی رونے لگ گئی ۔ لہٰذا بیوی نے اپنے خاوند سے کہا تم ایک موچی ہو ۔ تم امام حسن علیہ السلام کےلیے ایک نعلین مبارک بناو اور وہ تحفہ پیش کرنا ۔ لہذا موچی اسی وقت نعلین مبارک بنانے لگ گیا ساری رات لگا کر نعلین مبارک بنالی ۔
صبح سویرے جب نعلین مبارک بناکر آپ علیہ السلام کو تحفہ دینے کےلیے نکلا تو بیوی نے پیچھے سے آواز دی رکو ۔ موچی رک گیا ۔ بیوی نے موچی سے حضرت امام حسن علیہ السلام کو جو نعلین مبارک تحفے میں دینے تھے موچی سے لےکر پہلے ان کو چوما اور پھر رونے لگی اور نعلین مبارک پکڑ کر مدینہ کی طرف منہ کرکے کہنے لگی یا سیدہ زھرا سلام اللہ علیہا ہم بہت غریب ہیں ہمارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں یہ کہہ کر بیوی نے موچی سے کہا ان نعلین مبارک کو ایسے عام پکڑ کے نا لے جانا ۔ موچی کی بیوی نے اپنا ڈوپٹہ اتارا اور نعلین مبارک اس میں لپیٹ کر کہنے لگی موچی سے ان نعلین مبارک کو اپنے سینے سے لگا کر لے جاو.

موچی نے نعلین مبارک اٹھا کر سینے سے لگائے ہوئے مجمع میں پہنچ گیا ۔ سب لوگ امام حسن علیہ السلام کو دیکھ رہے تھے ایران کے بادشاہ نے 5 ہزار سکے آپ علیہ السلام کو تحفہ میں دیئے ۔ آپ علیہ السلام کے سامنے بیشمار تحفہ پڑے تھے ۔ موچی بھی اس مجمع میں شام ہوکر تحفے دینے کےلیے بڑھا مگر لوگوں نے موچی کی غریبی والی حالت دیکھ کر پیچھے جہاں جوتے پڑے تھے دھیکیل دیا ۔ موچی وہاں بیٹھ گیا جہاں جوتے پڑے تھے آگے مجمع میں امیر ترین لوگ تھے ۔ موچی نعلین مبارک کو چومنے لگا کبھی رو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو کبھی امام علیہ السلام کے چہرے انور کؤ دیکھتا ۔ ادھر غم زدوں کے حال جاننے والوں کو خبر ہوگئی ۔ امام حسن علیہ السلام نے اچانک مجمع میں دیکھنے لگ گئے ۔ آپ نے اٹھ کر فرمایا اے فلاں شخص ادھر آو ۔ موچی نے سنا دوڑتا ہوا امام حسن علیہ السلام کے قدموں میں گر پڑا عرض کرنے لگا حضور میں بہت غریب ہوں یہ سب امیر لوگ ہیں میرے پاس اس نعلین مبارک کے سوا آپ کےلیے کچھ نہیں امام حسن علیہ السلام رونے لگے اور فرمایا ہمارے آل بیت المقدس میں سیرت نہیں بلکہ نیت دیکھی جاتی ہے موچی نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام کی نعلین مبارک سے اس کی بنائی ہوئی نعلین مبارک بہت چھوٹی ہے موچی رو کر عرض کرنے لگا اے نواسہ رسول ﷺ میری بنائی ہوئی نعلین مبارک بہت چھوٹی ہے اور آپ نے جو پہن رکھی ہے وہ بہت بڑی ہے اگر آپ میری نعلین مبارک استعمال کرے گئے تو آپ کے پاوں پر زخم ہوجائے گئے ۔امام حسن علیہ السلام نے فرمایا تمہارا دل دیکھوں یا اپنے زخم دیکھو ۔۔سبحان اللہ آپ علیہ السلام کی لجپالی پر میں صدقے جاو ۔ جب موچی نعلین مبارک دے کر جانے لگا تو امام حسن علیہ السلام نے آواز دے کر فرمایا رک جاو یہ پانچ ہزار سکے لے جاو ۔ موچی کہنے لگا حضور میری ساری زندگی کےلیے 2 سکے ہی کافی ہیں یہ تو پانچ ہزار ہیں لہذا امام کے دوبارہ کہنے پر موچی نے پانچ ہزار سکے اٹھائے اور خوشی سے چلنے لگا ۔ پھر امام حسن علیہ السلام نے فرمایا اے شخص رک جاو موچی پھر واپس پلٹا امام حسن علیہ السلام نے فرمایا وہ سکے مجھے بادشاہ نے تحفے میں دیئے تھے اور میں نے تجھے دے دیئے میں نے ابھی تک تمہیں کچھ نہیں دیا ۔ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا جاو تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں. موچی خوشی سے اور زیادہ جھومنے لگا سارا مجمع حیران ہوگیا ۔ موچی جب واپس جانے لگا تو امام حسن علیہ السلام نے تیسری بار پھر فرمایا اے بزرگ روک جاؤ موچی واپس پلٹا تو امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہمارے اہلِ بیت کی چاہنے والی بیوی کو بھی بتا دینا وہ بھی جنتی ہے ۔۔ اب تو موچی کی خوشی کی انتہا نا رہی ۔پھر جب گھر کے لئے واپس چلنے لگا چوتھی بار پھر امام نے فرمایا ادھر آو اور سارے مجمع کے سامنے امام حسن علیہ السلام نے اپنے عاشق موچی کو سینے سے لگایا ۔ ادھر سارے مجمع والے جو پہلے اس موچی کو پیچھے دھکیل رہے تھے موچی اس قسمت پر عش عش کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔
اللہ اللہ ❤️❤️😭😭😭😭

اللہ کی قسم کائنات میں مولا حسن علیہ السلام جتنا سخی کوئی نہیں Jummah Mubarak

Address

Street 100 Number
Kabirwala
KABIRWALA,PUNJAB,

Telephone

+923047743787

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when chocolatyhero05 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to chocolatyhero05:

Videos

Share


Other Social Media Agencies in Kabirwala

Show All