Rakarssmallahedit

Rakarssmallahedit university of jhang ����

07/07/2024

Wakeup to reality

10/11/2023
25/09/2023
تم پوچھتے ہو آسمان سے فیصلے جلدی کیوں نہیں اترتے،تمہارے اوپر بند دروازے کھلتے کیوں نہیں،*مگر_____________________*تم اپن...
11/09/2023

تم پوچھتے ہو آسمان سے فیصلے جلدی کیوں نہیں اترتے،
تمہارے اوپر بند دروازے کھلتے کیوں نہیں،

*مگر_____________________*

تم اپنی نمازیں قضا ہونے سے نہیں بچاتے.
تم خود کو گناه سے نہیں بچاتے.💛

10/09/2023

#ناول:صبغتہ اللہ
#ازقلم:سیرت فاطمہ
#قسط نمبر #02
#رائٹر کی اجازت کے بغیر کاپی کرنا منع ہے۔✔🔥
حال:
سائیکل کے پیڈل گھماتے ہوئے وہ آٹھ سالہ بچہ چہرے پہ اطمینان لیے ،پرجوش،اپنی مستی میں جارہاتھا،جیسے اسے آج کسی کا خوف نہ ہو۔اس کی سائیکل فٹ پاتھ پہ دوڑ رہی تھی۔کئی دکانوں اور مارکیٹوں نے اس کا راستہ کاٹا لیکن اسے شاید اپنی من پسند کا کچھ نہ ملا۔اتنی دیر سائیکل چلانے کے باوجود اس کے ماتھے پہ شکن تک نہ آئی تھی۔اچانک ایک شاپ نے جس پہ'رنگ سازی کی دکان'' کندہ تھا،اپنی طرف توجہ مبذول کرائی۔بے خوفی سے سڑک کے دونوں طرف دیکھتے اس نے سڑک کراس کی اور رنگ سازی کی دکان پہ پہنچا۔کینوس کے علاوہ اس نے سارا پینٹنگ کا سامان لیا،کندھے پہ لٹکے بیگ کو اتارا،زپ کھولی اور اس میں سارا سامان ڈال دیا۔
"انکل!ممی پاپا کو مت بتائیے گا۔۔اور آپی کو تو بالکل نہیں"قیمت ادا کرتے ہوئے اس نے تقریبا سر گوشی کی۔
"اوکے۔نہیں بتاوں گا۔"دکاندار کو جیسے بچے کی معصومیت پہ بےحد پیار آیا تھا۔
"پرامس۔؟؟"وعدہ لینے کے لیے اس نے ہاتھ آگے بڑھائے۔
"پکا پرامس۔"جوابا دکاندار نے بھی ہاتھ ملادئیے۔
"بیٹا آپ کا نام کیا ہے۔؟بچے کے بال سہلاتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"جو ممی پاپا نے رکھا ہے۔"معصومیت سے بچے نے کندھے اچکا دئیے۔
"اور ممی پاپا نے کیا رکھا ہے۔؟"
"اب یہ تو ان کو پتہ"۔دکان دار فقط افف کر کے رہ گیا۔
"اچھا بیٹا نام چھوڑو۔یہ بتاو،آپ رہتے کہاں ہو۔؟"
"اپنے ممی پاپا کے ساتھ"اسی بے نیازی سے بچے نے جواب دیا۔
"اور ممی پاپا کہاں رہتے ہیں۔؟"
"میرے ساتھ۔"
"اور آپ سب کہاں رہتے ہو۔؟" اب کی بار دکان دار کے ماتھے پہ بل ابھر آئے۔
"ایک ساتھ۔"
"آپ کا گھر کہاں ہے۔؟"
"ہمارے ہمسایوں کے ساتھ۔"
"اور۔۔آپ۔۔کے۔۔ہمسایوں۔۔کا۔۔گھر۔۔کہاں ہے۔۔؟"اب کی بار وہ چبا چبا کے بولا تھا۔
"آف کورس ہمارے گھر کے ساتھ۔۔افف فو انکل!آپ چھوٹے سے بچے ہیں کیا۔؟اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کیا آپ کو۔؟"اس نےماتھا پیٹتے ہوئے کہا اور پلک جھپکتے ہی سائیکل موڑ لی اور دوبارہ اپنے رستہ پہ سائیکل چلانی شروع کردی۔جب کہ دکان دار فقط منہ کھولے رہ گیا۔
ایک دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے گھر کے اندر جھانکا،جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو وہ چپکے سے گھر میں داخل ہوا۔اپنی سائیکل کونے میں کھڑی کی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگا یوں کہ اس کےقدموں کی چاپ بھی کسی کو سنائی نہ دے۔دھیرے دھیرے چلتا کمرے کے عقبی دروازے سے وہ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔آج اس کے چہرے پہ در خیبر فتح کرنے جیسی سرخروئی تھی۔اس کا دل خوشی کے گھوڑے پہ ناچ رہاتھا کیونکہ آج اس نے اپنی آپی کے لیے بہت بڑا کام کیا تھا۔
🌸🌸🌸🌸
اس نے تیزی سے باتھ روم کا دروازہ بند کر لیا۔کنڈی لگائی اور سنک پہ جھک گئی۔اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔سہارا لینے کے لیے اس نے سنک کے کنارے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ایک آنسو اس کی دائیں گال پہ لڑھکا۔پھر بائیں پہ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے آنسووں کی لڑی نےاس کے گال سے لڑھکتے اس کی گردن تک کا سفر طے کیا۔وہ
ابھی بھی سنک کے کناروں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔
"یا اللہ!یہ یادیں میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتیں۔میں جتنا ان سے دور بھاگنے کی کوشش کرتی ہوں،یہ اتنا ہی میرے پیچھے آتی ہیں۔آخر کب تک میں یوں گھٹ گھٹ کے مرتی رہوں گی۔یا اللہ!۔۔"اس کے اندر کا غبار اب آنسووں کی شکل میں باہر آرہاتھا۔آنسو اسکے گلابی گالوں سے ہوتے سنک میں گر رہے تھے۔اس کی آواز آنسووں میں رندھنے لگی تھی۔پھر کسی خیال کے تحت اس نے سر اٹھایا،آئینے میں اپنا عکس دیکھا اور دوبارہ اپنے آپ سے گویا ہوئی۔
"میں صرف اپنے دل کے ہاتھوں مجبور نہیں ہو سکتی۔یہ یادیں مجھے کمزور نہیں کر سکتی۔"اس نے انگلی کے پوروں سے اپنے آنسو صاف کیے۔
"نو۔۔نیور۔۔آئی ایم فائن۔۔آئی ایم پرفیکٹلی فائن۔"یہ کہہ کر وہ پھیکا سا مسکرائی،شاید خود کو تسلی دینے کے لیے۔ آنسووں کے تاثرات ختم کرنے کے لیے اس نے چہرے پہ تین چار چھینٹے مارے،ٹاول سے چہرہ صاف کیا،اور چینج کر کے باہر آگئی۔لانگ پنک کرتے کے ساتھ بلیک جینز پہنے،بغیر کسی میک اپ کے وہ بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔اس پہ تو ہر رنگ ہی جچتا تھا۔بس عرصہ ہوا اس نے تیار ہو نا چھوڑ دیا تھا۔کھلے بالوں کواس نےکیچر میں مقید کیا اور چادر شانوں پہ پھیلائے باہر آگئی۔
🌸🌸🌸🌸
"بیٹا جب سے آیا ہے،گدھے،گھوڑے اور پتہ نہیں کیا کیا،بیچ کے سورہا ہے۔مجال ہے جو گھر کا کوئی کام کر لے،لڑکیوں کی طرح بستر میں دبک کے پڑا رہتا ہے ہر وقت۔کوئی ایک سو ایک بار جگا چکی ہوں،لیکن نواب کی نیند ہے کہ پورا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔عمر اور اسامہ حسیب کے گھر اسے ساتھ لے کےجانےکیلیے آئے تھے،اور اب خاموش،سر جھکائے آنٹی کی صلواتیں سن رہے تھے۔
"آنٹی اب ہم آگئے ہیں نا!اسے ایک دم سیٹ کر کے جائیں گے۔ آپ بے فکر رہیں،"عمر نے کالر جھاڑے جس پہ اسامہ نے سے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
"جیتے رہو بیٹا،جگ جگ جیو۔"سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے آنٹی نے دعا دی۔"بس اسے جگا ہی دو کسی طرح "آنٹی نے جیسے منت کی۔اور وہ دونوں حسیب کے کمرے میں داخل ہوئے۔دروازہ باہر سے ہی بند تھا سو انہوں نے آہستہ سے کنڈی کھولی کہ جناب کی نیند میں کوئی خلل نہ آئے۔حسیب حسب معمول اپنے بستر پہ ایک ٹانگ مشرق میں،تو دوسری مغرب میں کیے،منہ کھولے ہوئے خرگوش کی نیند سورہا تھا۔۔
اس کے خراٹوں کی آواز دروازے کی چوکھٹ تک پہنچ رہی تھی،یاشاید باہر تک بھی جارہی تھی۔
"ہمم گرو۔۔!ہو جا شروع۔۔!"کہتے ہی دونوں نے ٹھنڈے یخ پانی کی بوتل اس کے کھلے منہ میں ڈال دی۔
"ہائے سیلاب۔۔ہائے سیلاب۔۔۔امی بچاو۔۔امی۔۔۔"ہڑبڑی میں اٹھتے ہی اس نے زور زور سے چیخنا شروع کردیا۔
"کام ڈاون بے بی،کام ڈاون۔۔کوئی سیلاب شیلاب نہیں آیا۔ہم آئے ہیں۔۔تمہارے معصوم و معروف دوست۔۔پہچانا ہمیں۔۔؟"اسامہ اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے ،آنکھوں میں شرارت لیے بولا۔
"نہیں پہچانا۔۔"اپنی نیند خراب ہونے پہ وہ بگڑ کے دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔
"دیکھتے ہیں تجھے۔۔تو کیسے نہیں پہچانتا۔۔!"کہتے ہی دونوں نے اس کے گردن دبوچ لی اور وہ چیخ کے رہ گیا۔
"معاف کر دو بھائی۔پہچان لیا۔پہچان لیا ہے۔۔"مزید مار کٹائی سے بچنے کے لیے وہ جلدی جلدی میں بولا۔
"ہاں،یہ ہوئی نہ بات۔۔"عمر نے اسے داد دی جس پہ حسیب اسے گھورنے لگا۔ جیسے کہہ رہا ہو'کتنے ظالم دوست ہو تم دونوں۔۔ایک تو نیند خراب کر دی اور اوپر سے مار کٹائ۔۔پتہ نہیں میں معصوم کیسے آپھنسا تم دونوں کے بیچ میں۔"
"کیا۔۔ایسے کیوں گھور رہے ہو۔؟؟مانا کہ میں حسین ہوں،خوبصورت ہوں اور اوپر سے جوان بھی ہوں۔۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں،کہ تم مجھ پہ لائنیں مارنا شروع کر دو۔"اس کے مسلسل گھورنے پہ عمر بول پڑا۔
"ابے چل۔۔استری کے منہ والے۔شکل دیکھی ہے اپنی۔"اس کے منہ کی طرف اشارہ کر کے حسیب زور سے ہنسنے لگا۔
"اور اپنے بارے میں تیرا کیا خیال ہے۔پیتل کے ڈونگے۔"
"اور،یہ اسامہ۔۔پانچ روپے والا شیمپو۔۔۔ہاہا۔"اس پہ تینوں کا بے اختیار قہقہہ بلند ہوا۔
🌸🌸🌸🌸
وہ دونوں کسی ریسورنٹ میں ایک میز کے گرد گول دائروں میں رکھی تین کر سیوں میں سے دو کرسیوں پہ بیٹھے ہوئے تھے۔شام ڈھل چکی تھیں۔آسمان پہ مغرب کی سمت ہلکانارنجی رنگ چھایا ہواتھا۔
"آہمم۔اچھی لگ رہی ہو۔۔"احسن نے گلا کھنکارتے کہا ،جس پہ صبغہ "تھینکس" کہہ کےفقط مسکرا دی۔
"یار کیا ہے۔؟میں تمہارے گھر والوں کی منتیں کر کے تمہیں اس لیے تو نہیں لایا کہ تمہارا خاموش چہرہ دیکھتا رہوں۔"آخر کار اس نے اپنی ناراضگی ظاہر کر ہی دی۔
"میں کیا بات کروں۔۔آپ ہی کوئی بات شروع کر دیں۔"بغیر پلک جھپکائے،ہاتھ ملتے ہوئے وہ بولی۔
"ہماری منگنی کو ڈھائی ماہ گزرچکے ہیں،اور ان ڈھائی ماہ میں ہم پہلی بار باہر آئے ہیں۔یار دیکھو،ہم دونوں نے اب ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزارنی ہے،میں تمہیں سمجھنا چاہتا ہوں۔۔۔"وہ آگے بھی کچھ کہہ رہا تھا،لیکن صبغہ نہیں سن رہی تھی۔اس کے کانوں میں فقط ایک آواز گونج رہی تھی"ہم نے ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزارنی ہے۔۔۔"ایک لمحے کو اس کا دل دھڑکنا بھول گیا،اس کی کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھیں۔۔وہ ساکت بیٹھی رہی،اسے لگا وہ اب کبھی بول ہی نہیں پائے گی۔
"کوئی مسئلہ ہے تو بتاو۔ہم ساتھ میں مل کے۔۔۔"شاید اسے پریشان دیکھ کر احسن نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا،لیکن بجلی کی تیزی سے اس نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
"نہیں،ایسی تو کوئی بات نہیں ہے،وہ میں امی کی وجہ سے تھوڑا پریشان ہورہی تھی۔وہ انتظار کر رہی ہوں گی میرا اور مصعب بھی میرے بغیر نہیں سوتا۔ہمیں جلدی چلنا چاہیے۔"اس نے دانستہ طور پر جھوٹ بولا۔
"او اچھا۔مجھے لگا کوئی سیریس ایشو ہے شاید۔ڈونٹ وری،میں
تمہیں وقت پہ پہنچادوں گا۔"
"،یہ بھی سیریس ایشو ہی ہے۔ہمیں جلدی چلنا چاہیے"کہتے ہی وہ جانے کے لیے کرسی پیچھے دھکیلتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"آں۔۔اچھا یہ کھا نا تو ختم کر لو۔"
"نہیں،بس میں نے کھا لیا۔"
"اچھا چلو ٹھیک ہے۔"اس نے ٹیبل سے کار کی چابی اٹھائی اور آگے ہولیا۔صبغہ نے بھی چپ چاپ اس کے پیروی کی۔اور کار کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گئی۔احسن نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے سر جھٹکا اور ڈرائیونگ شروع کر دی۔پندرہ منٹ تک دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔پھر شاید خاموشی کو توڑنے کیلیے احسن نے کوئی گانا چلایا۔
"آپ۔۔پلیز اسے بند کر سکتے ہیں۔؟میرے سر میں درد ہورہا ہے۔"صبغہ نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بے زاری سے بولی۔
"او۔۔اچھا سوری۔اس نے جھٹ سے سانگ بند کردیا۔"اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو کسی ڈاکٹر کے پاس چل لیتے ہیں"وہ پریشانی ظاہر کرتے ہوئے بولا تھا۔
"آپ کی انفارمیشن کے لیے بتاتی چلوں،کہ میں خود بھی ایک ڈاکٹر ہوں۔ایک ٹیبلیٹ لوں گی،ٹھیک ہوجائے گا۔آپ پلیز جلدی مجھے گھر ڈراپ کردیں۔"وہ آنکھیں موندے ہوئے بولی تھی
صبغہ کا بدلتا رویہ احسن کی سمجھ سے باہر تھا۔اس نے کار صبغہ کے گھر کے قریب روک دی
"اوکے۔بائے۔۔اپنا خیال رکھنا"رٹے ہوئے کلمات ادا کرتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں جھجھک تھی۔جبکہ صبغہ صرف"خداحافظ"کہہ کے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔اس نے کار کا رخ اپنے گھر کی جانب موڑ لیا۔
"آگئی تو!۔۔اتنی دیر کاہے کو لگا دی ۔۔ہیں۔؟؟ہم تمہارے نوکر لگے ہوئے ہیں جو یہاں گدھوں کی طرح تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔؟اسما اس کے سامنے ابرو اچکائے دونوں ہاتھ کمر پہ باندھے،غصہ سے اس سے سوال کر رہی تھی۔
"امی۔۔!آپ سے پوچھ کے ہی توگئی تھی۔۔اور کوئی مشکل سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد آئی ہوں۔"صبغہ بوکھلاہٹ میں،ہاتھ میں پہنی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صفائیاں دے رہی تھی۔
"اچھا بس بس!پتہ ہے مجھے!بڑا پوچھ کے گئی تھی۔جب اپنا بس نہیں چلا تو احسن کو مہرا بنا کے سامنے لے آئی۔"وہ ابھی بھی غصہ میں کہے جارہی تھیں۔
"امی!۔۔۔امی،میں نے۔۔
۔؟(جیسے شاکڈ ہو۔) وہ خود مجھے باہر لے جانے پہ بضد تھے۔میں نے ۔۔میں نے تو کچھ نہیں کہا انہیں۔"وہ حیران پریشان سی کھڑی جواب دے رہی تھی۔
"بس بس!زیادہ میسنی بننے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے ہم جانتے ہی نہیں،چار سال پہلے تو نے کیا گل کھلائے تھے۔!"
"امی۔۔!بس کر دیں،اب تو میری منگنی بھی۔۔"وہ آگے کچھ کہنے لگی تھی،لیکن الفاظ حلق میں ہی دم توڑ گئے اور وہ منہ پہ ہاتھ رکھتی تیزی سے اپنے کمرے کے طرف دوڑ گئی۔

🌸🌸🌸🌸
جاری ہے!

وہ مجھ کو کھو کہ کہتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
20/08/2023

وہ مجھ کو کھو کہ کہتا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

18/08/2023

اسلام و علیکم آپ سب لوگ کیسے ہیں

16/08/2023

Love is life

13/08/2023
09/08/2023

Memory

واپڈا آفس کے سامنے ایک شخص کیلے بیچ رہا تھاواپڈا کے ایک بڑے افسر نے پوچھا کیلے کیسے دیتے ہو؟ *کیلے کس کے لئے خرید رہے ہو...
20/07/2023

واپڈا آفس کے سامنے ایک شخص کیلے بیچ رہا تھا
واپڈا کے ایک بڑے افسر نے پوچھا کیلے کیسے دیتے ہو؟
*کیلے کس کے لئے خرید رہے ہو صاحب؟*

افسر۔ کیا مطلب ؟

*کیلے والا :*
مطلب یہ کہ
یتیم خانے کے لئے لے رہے ہو تو *40 روپیہ درجن*
اولڈ ہوم کے لئے لے رہے ہو تو *50 روپیہ درجن*
بچوں کے ٹفن کے لئے *60 روپیہ درجن*
گھر کھانے کے لئے لے رہے ہو تو *70 روپیہ درجن*
اگر پکنک کے لئے خریدنے ہوں تو *80 روپیہ درجن*

*افسر یہ کیا بیوقوفی ہے؟*
ارے بھائی جب سب کیلے ایک جیسے ہیں تو ریٹ الگ الگ کیوں؟
*کیلے والا:*
پیسے کی وصولی کا اسٹائل تو آپ لوگوں والا ہی ہے
جیسے
*1 سے 100 یونٹ کا الگ ریٹ*
*100 سے 200 کا الگ*
*200 سے 300 کا الگ*
*300 سے 400 کا الگ*

*بجلی تو آپ ایک ہی کھمبے سے دیتے ہو ؟*
تو پھر گھر کے لئے الگ ریٹ
دکان کے لئے الگ ریٹ
کارخانے کا الگ ریٹ

*اور ایک بات۔۔*
میٹر کی قیمت ہم سے لیکر پھر میٹر کا کرایہ الگ لیتے ہو۔۔۔
انکم واپڈا کو ہوتی ہے اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہم سے الگ لیتے ہو
سرچارج اور ایکسٹرا سرچارج کیا بلا ہے جو ہم سے لیتے ہو؟

میٹر کیا امریکہ سے امپورٹ کیا ہے 25 سال سے میٹر خرید کر بھی اس کا کرایہ بھر رہا ہوں ۔۔۔
آخر میٹر کی قیمت کتنی ہے؟ آپ بتا دو مجھے ایک ہی بار
*کڑوا سچ*

12/07/2023

Like and comment and share

09/07/2023

Mallah eleven 462

27/06/2023

🤣🤣🤣🤣🤣
پیڑ سے آم گرتا ہیں تو آدمی دوڑ لگاتے ہے 🏃🏻‍♂️🏃🏻‍♂️🏃🏻‍♂️
اسلیے آم کو انگریزی میں MAN +GO کہتے ہیں 😀😄😅🤣🤣🤣

26/06/2023

Use kinemaster

Address

Jhang Sadar
35200

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rakarssmallahedit posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share