Syeda Khanam Bukhari

Syeda Khanam Bukhari 🌸 اللهُمَّ صَلّ عَلَى םבםב ﷺ وَعَلَى آلِ םבםב ﷺ🌸
(4)

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕باب نمبر 52،،،عنوان: سو اونٹنیوں کا انعام نبی اکرم ﷺ کے ہجرت کر جانے کی خبر ایک صحابی ح...
27/01/2025

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕
باب نمبر 52،،،عنوان: سو اونٹنیوں کا انعام
نبی اکرم ﷺ کے ہجرت کر جانے کی خبر ایک صحابی حضرت حمزہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو ملی تو کہنے لگے:
"اب میرے مکہ میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں -"
پھر انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا - یہ گھرانہ مدینہ منورہ کے لیے نکل کھڑا ہوا - ابھی تنعیم کے مقام تک پہنچا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے - اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں یہ آیت نازل فرمائی:
"اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرے گا، پھر اسے موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہوگیا اور اللہ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں ، بڑے رحمت کرنے والے ہیں -" (آیت 100)
حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"حسان کیا تم نے ابوبکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟"
انہوں نے عرض کیا:
"جی ہاں -"
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا.
سناؤ، میں سننا چاہتا ہوں .
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت بڑے شاعر تھے، ان کو شاعر رسول کا خطاب بھی ملا ہے، حضور اکرم ﷺ کی فرمائش پر انہوں نے جو دو شعر سنائے، ان کا ترجمہ یہ ہے.
حضرت ابوبکر صدیق جو دو میں کے دوسرے تھے، اس بلند و بالا غار میں تھے اور جب وہ پہاڑ پر پہنچ گئے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگائے.
یہ آنحضرت ﷺ کے عاشق زار تھے جیسا کہ ایک دنیا جانتی ہے اور اس عشق رسول میں ان کا کوئی ثانی یا برابر نہیں تھا.
یہ شعر سن کر آنحضرت ﷺ مسکرانے لگے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک نظر آئے. پھر ارشاد فرمایا.
تم نے سچ کہا حسان، وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا، وہ غار والے کے نزدیک (یعنی میرے نزدیک) سب سے زیادہ پیارے ہیں ، کوئی دوسرا شخص ان کی برابری نہیں کر سکتا.
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم ﷺ نے مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے چلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا.
اے ابو درداء، یہ کیا، تم اس شخص سے آگے چلتے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے افضل ہے. قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، انبیاء و مرسلین کے بعد ابو بکر سے زیادہ افضل آدمی پر نہ کبھی سورج طلوع ہوا اور نہ غروب ہوا.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا.
میرے پاس جبريل آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالٰی آپ کو حکم دیتا ہے کہ ابو بکر سے مشورہ کیا کیجیے.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا.
میری امت پر ابو بکر کی محبت واجب ہے.
یہ چند احادیث حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں اس لیے نقل کر دی گئیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہجرت کے ساتھی تھے اور یہ عظیم اعزاز ہے.
غار سے نکل کر حضور اقدس ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹوں پر سوار ہوئے اور راہبر کے ساتھ سفر شروع کیا. حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسی اونٹ پر سوار تھے.
غرض یہ مختصر سا قافلہ روانہ ہوا، راہبر انہیں ساحل سمندر کے راستے سے لے کر جا رہا تھا. راستے میں کوئی ملتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھتا.
یہ تمہارے ساتھ کون ہیں .
تو آپ اس کے جواب میں فرماتے.
میرے ساتھ میرے راہبر ہیں .
یعنی میرے ساتھ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں . ان کا مطلب تھا کہ یہ دین کا راستہ دکھانے والے ہیں مگر پوچھنے والے اس گول مول جواب سے یوں سمجھتے کہ یہ کوئی راہبر (گائیڈ) ہیں جو ساتھ جا رہے ہیں .
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس طرح جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو میرے پاس سے ٹالتے رہنا، یعنی اگر کوئی میرے بارے میں پوچھے تو تم یہی ذو معنی (گول مول) جواب دینا. کیونکہ نبی کے لیے کسی صورت میں جھوٹ بولنا مناسب نہیں ... چاہے کسی بھی لحاظ سے ہو، چنانچہ جو شخص بھی آپ ﷺ کے بارے میں سوال کرتا رہا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یہی جواب دیتے. رہ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ.... وہ ان راستوں سے اکثر تجارت کے لیے جاتے رہتے تھے، انہیں اکثر لوگ جانتے تھے، ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کون ہیں .
ادھر قریش نے سو اونٹنیوں کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی سنا جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.
سراقہ رضی اللہ عنہ خود اپنی کہانی ان الفاظ میں سناتے ہیں .
میں نے یہ اعلان سنا ہی تھا کہ میرے پاس ساحلی بستی کا ایک آدمی آیا، اس نے کہا، کہ اے سراقہ. میں نے کچھ لوگوں کو ساحل کے قریب جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی ہیں .
مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ آنحضرت ﷺ اور ان کے ساتھی ہی ہو سکتے ہیں ، چنانچہ میں اٹھا، گھر گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ میری گھوڑی نکال کر چپکے سے وادی میں پہنچا دے، اور وہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ نکالا اور اپنے گھر کے پچھلی طرف نکل کر وادی میں پہنچا. اس رازداری میں مقصد یہ تھا کہ میں اکیلا ہی کام کر ڈالوں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کر لوں . میں نے اپنی زرہ بھی پہن لی تھی، پھر میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس طرف روانہ ہوا، میں نے اپنی گھوڑی کو بہت تیز دوڑایا. یہاں تک کہ آخر کار میں آنحضرت ﷺ سے کچھ فاصلے پر پہنچ گیا، لیکن اسی وقت میری گھوڑی کو ٹھوکر لگی، وہ منہ کے بل نیچے گری، میں بھی نیچے گرا، پھر گھوڑی اٹھ کر ہنہنانے لگی. میں اٹھا، میرے ترکش میں فال کے تیر تھے. یہ وہ تیر تھے جن سے عرب کے لوگ فال نکالتے تھے، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا تھا، کرو، اور کسی پر لکھا ہوتا تھا، نہ کرو، میں نے ان میں سے ایک تیر لیا، اور فال نکالی،... یعنی میں جاننا چاہتا تھا، یہ کام کروں یا نہ کروں ،... فال میں انکار نکلا، یعنی یہ کام نہ کرو، لیکن یہ بات میری مرضی کے خلاف تھی، میں سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کرنا چاہتا تھا، نہ والا تیر نکلنے کے باوجود میں گھوڑی پر سوار ہو کر آگے بڑھا. یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کے بہت قریب پہنچ گیا جو کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے تھے، البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مڑ کر بار بار دیکھ رہے تھے.
اسی وقت میری گھوڑی کی اگلی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں ، حالانکہ وہاں زمین سخت اور پتھریلی تھی. میں گھوڑی سے اترا... اسے ڈانٹا.... وہ کھڑی ہو گئی لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک زمین میں دھنسی ہوئی تھیں وہ زمین سے نہ نکلیں .
میں نے پھر فال نکالی. انکار والا تیر ہی نکلا. آخر میں پکار اٹھا.
میری طرف دیکھیے، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا اور نہ میری طرف سے آپ کو کوئی ناگوار بات پیش آئے گی.... میں سراقہ بن مالک ہوں ، آپ کا ہمدرد ہوں .... آپ کو نقصان پہنچانے والا نہیں ہوں .... مجھے معلوم نہیں کہ میری بستی کے لوگ بھی آپ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں یا نہیں .
یہ کہنے سے میرا مطلب تھا، اگر کچھ اور لوگ اس طرف آ رہے ہوں گے تو میں انہیں روک دوں گا. اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا.
اس سے پوچھو، یہ کیا چاہتا ہے.
اب میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا.... اپنے ارادے کے بارے میں بتا دیا اور بولا.
بس آپ دعا کر دیجئے کہ میری گھوڑی کی ٹانگیں زمین سے نکل آئیں .... میں وعدہ کرتا ہوں ، اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا.
جاری ہے....

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕باب نمبر 51،،،، عنوان: اللہ ہمارے ساتھ ہےاس طرح انہوں نے تمام سوراخ بند کردیے مگر ایک س...
27/01/2025

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕
باب نمبر 51،،،، عنوان: اللہ ہمارے ساتھ ہے
اس طرح انہوں نے تمام سوراخ بند کردیے مگر ایک سوراخ رہ گیا اور اسی میں سانپ تھا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی ۔اس کے بعد آنحضرت ﷺ غار میں داخل ہوئے ۔ادھر سانپ نے اپنے سوراخ پر ایڑی دیکھی تو اس پر ڈنک مارا ۔
تکلیف کی شدت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے لیکن انہوں نے اپنے منہ سے آواز نہ نکلنے دی، اس لیے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ ان کے زانو پر سر رکھ کر سورہےتھے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے سانپ کے ڈسنے کے باوجود اپنے جسم کو ذرا سی بھی حرکت نہ دی...نہ آواز نکالی کہ کہیں حضور ﷺ کی آنکھ نہ کھل جائے، تاہم آنکھ سے آنسو نکلنے کو وہ کسی طرح نہ روک سکے...وہ حضور ﷺ پر گرے ۔ان کے گرنے سے حضور ﷺ کی آنکھ کھل گئی ۔آپ ﷺ نےحضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا:
ابوبکر کیا ہوا؟
انہوں نے جواب دیا:
آپ پر میرے ماں باپ قربان ۔مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔
آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن سانپ کے کاٹے کی جگہ پر لگادیا۔اس سے تکلیف اور زہر کا اثر فوراﹰ دور ہوگیا ۔
صبح ہوئی، آنحضرت ﷺ کو حضرت ابوبکر رضی الله کے جسم پر چادر نظر نہ آئی ۔تو دریافت:
ابوبکر! چادر کہاں ہے؟
انہوں بتادیا:
اللّٰہ کے رسول! میں نے چادر پھاڑ پھاڑ کر کر اس غار کے سوراخ بند کیے ہیں ۔آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور اور فرمایا:
اے اللّٰہ ابوبکر کو جنت میں میرا ساتھی بنانا ۔
اسی وقت الله تعالٰی نے وحی کے ذریعے خبر دی کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی ہے ۔
ادھر قریش کے لوگ نبی اکرم ﷺ کی تلاش میں اس غار کے قریب آپہنچے ۔ان میں سے چند ایک جلدی سے آگے بڑھ کر غار میں جھانکنے لگے ۔غار کے دہانے پر انہیں مکڑی کا جالا نظر آیا ۔ساتھ ہی دو جنگلی کبوتر نظر آئے ۔اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اس غار میں کوئی نہیں ہے ۔ایک روایت میں یوں آیا ہے ان میں امیہ بن خلف بھی تھا، اس نے کہا: اس غار کے اندر جاکردیکھو:
کسی نے جواب دیا:
غار کے اندر جاکر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، غار کے منہ پر بہت جالے لگے ہوئے ہیں ..اگر وہ اندر جاتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے، نہ یہاں کبوتر کے انڈے ہوتے،
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ان لوگوں کو غار کے دہانے پر دیکھا تو آپ رو پڑے اور دبی آواز میں بولے:
اللّٰہ کی قسم! میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا میں تو اس لیے روتا ہوں کہ کہیں یہ لوگ آپ کو تکلیف نہ پہنچائیں -"
اس پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"ابوبکر! غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے -"
اسی وقت اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل کو سکون بخش دیا - ان حالات میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیاس محسوس ہوئی - انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا... تو آپ نے ارشاد فرمایا:
"اس غار کے درمیان میں جاؤ اور پانی پی لو -"
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اٹھ کر غار کے درمیان میں پہنچے - وہاں انہیں اتنا بہترین پانی ملا کہ شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبو والا تھا - انہوں نے اس میں سے پانی پیا، جب وہ واپس آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا:
"اللہ تعالی نے جنت کی نہروں کے نگراں فرشتے کو حکم فرمایا کہ اس غار کے درمیان میں جنت الفردوس سے ایک چشمہ جاری کردیں تاکہ تم اس میں سے پانی پی سکو -"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حیران ہوئے اور عرض کیا:
"کیا اللہ کے نزدیک میرا اتنا مقام ہے -"
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"ہاں ! بلکہ اے ابوبکر! اس سے بھی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے پیغام کے ساتھ نبی بناکر بھیجا ہے، وہ شخص جو تم سے بغض رکھے، جنت میں داخل نہیں ہوگا -"
غرض قریش مایوس ہوکر غار ثور سے ہٹ آئے اور ساحلی علاقوں کی طرف چلے گئے - ساتھ ہی انہوں نے اعلان کردیا:
"جو شخص محمد یا ابوبکر کو گرفتار کرے یا قتل کرے، اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے -"
آپ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس غار میں تین دن تک رہے - اس دوران ان کے پاس حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کے بیٹے عبداللہ رضی الله عنہہ بھی آتے جاتے رہے۔ یہ اس وقت کم عمر تھے مگر حالات کو سمجھتے تھے۔ اندھیرا پھیلنے کر بعد یہ غار میں آجاتے اور منہ اندھیرے فجر کے وقت وہاں سے واپس آجاتے، اس سے قریش یہ خیال کرتے کہ انہوں نے رات اپنے گھر میں گزاری ہے۔ اس طرح قریش کے درمیان دن بھر جو باتیں ہوتیں ، یہ ان کو سنتے اور شام کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر بتادیتے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے ایک غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی الله عنہہ تھے۔ یہ پہلے طفیل نامی ایک شخص کے غلام تھے۔ جب یہ اسلام لے آئے تو طفیل نے ان پر ظلم ڈھانا شروع کیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ نے اس سے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ یہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔
یہ بھی ان دنوں غار تک آتے جاتے رہے۔ شام کے وقت اپنی لکڑیاں لے کر وہاں پہنچ جاتے اور رات کو وہیں رہتے۔ صبح منہ اندھیرے حضرت عبداللہ رضی الله عنہ کے جانے کے بعد یہ بھی وہاں سے اپنی بکریاں اسی راستے سے واپس لاتے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں ۔ ان تین راتوں تک ان کا برابر یہی معمول رہا۔ یہ ایسا حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ کی ہدایت پر کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے ہی یہ حکم دیا تھا کہ وہ دن بھر قریش کی باتیں سنا کریں اور شام کو انہیں بتایا کریں ۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو بھی ہدایت تھی کہ دن بھر بکریاں چرایا کریں اور شام کو غار میں ان کا دودھ پہنچایا کریں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی اسماء رضی الله عنہا بھی شام کے وقت ان کے لیے کھاناپہنچاتی تھیں ۔
ان تین کے علاوہ اس غار کا پتہ کسی کو نہیں تھا۔ تین دن اور رات گزرنے پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی الله عنہا سے فرمایا:
" اب تم علی کے پاس جاؤ، انہیں غار کے بارے میں بتادو اور ان سے کہو، وہ کسی رہبر کا انتظام کردیں ۔ آج رات کا کچھ پہر گزرنے کے بعد وہ رہبر یہاں آجائے۔"
چنانچہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سیدھی حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس آئیں ۔ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیغام دیا۔حضرت علی رضی اللہ نے فوراً اجرت کا ایک راہبر کا انتظام کیا۔ اس کا نام اریقط بن عبداللہ لیثی تھا۔ یہ راہبر رات کے وقت وہاں پہنچا۔ نبی اکرم ﷺ نے جونہی اونٹ کی بلبلانے کی آواز سنی، آپ فوراً ابوبکرصدیق رضی الله عنہہ کے ساتھ غار سے نکل آئے۔ اور راہبر کو پہچان لیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اونٹوں پر سوار ہوگئے۔
اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی الله عنہ کے ذریعے اپنے گھر سے وہ رقم بھی منگوالی تھی جو وہاں موجود تھی... یہ رقم چار پانچ ہزار درہم تھی۔ جب صدیق اکبر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تھے تو ان کے پاس چالیس پچاس ہزار درہم موجود تھے۔ گویا یہ تمام دولت انہوں نے الله کے راستے میں خرچ کردی تھی۔ جاتے وقت بھی گھر میں جو کچھ تھا، منگوالیا... ان کے والد ابوقحانہ رضی الله عنہ اس وقت تک مسلمان نہيں ہوئے تھے۔ ان کی بینائی ختم ہوگئی تھی... وہ گھر آئے تو اپنی پوتی حضرت اسماء رضی الله عنہا سے کہنے لگے؛
" میرا خیال ہے، ابوبکر اپنی اور اپنے مال کی کی وجہ سے تمہیں مصیبت میں ڈال گئے ہیں (مطلب یہ تھا کہ جاتے ہوئے سارے پیسے لے گئے ہیں )۔"
یہ سن کر حضرت اسماء رضی الله عنہا نے کہا:
" نہیں بابا! وہ ہمارے لیے بڑی خیروبرکت چھوڑگئے ہیں ۔"
حضرت اسماء کہتی ہیں : " اس کے بعد میں نے کچھ کنکر ایک تھیلی میں ڈالے اور ان کو طاق میں رکھ دیا۔ اس میں میرے والد اپنے پیسے رکھتے تھے۔ پھر اس تھیلی پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ ان پر رکھتے ہوئے میں نے کہا:
"یہ دیکھیے! روپیے یہاں رکھے ہیں ۔"
ابوقحانہ رضی الله عنہ نے اپنا ہاتھ رکھ کر محسوس کیا اور بولے:
" اگر وہ یہ مال تمہارے لیے چھوڑ گئے ہیں تب فکر کی کوئی بات نہیں ، یہ تمہارے لیے کافی ہے۔"
حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ گئے تھے۔"
جاری ہے......

Subscribe my YouTube channel and get one free reading
27/01/2025

Subscribe my YouTube channel and get one free reading

Career Goals of all Zodiac in 2025 ...

Subscribe my YouTube channel and get one free reading
26/01/2025

Subscribe my YouTube channel and get one free reading

Weekly Horoscope ...

Subscribe my YouTube channel and get one free reading
26/01/2025

Subscribe my YouTube channel and get one free reading

Relationship Status of all Zodiac Signs in 2025 ...

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕باب نمبر 50،،، عنوان: مکہ کے غار ثور تکادھر حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے...
15/01/2025

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕
باب نمبر 50،،، عنوان: مکہ کے غار ثور تک
ادھر حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"تم میرے بستر پر سو جاؤ اور میری یمنی چادر اوڑھ لو۔"
پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
"تمہارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔"
مشرکوں کے جس گروہ نے آپ ﷺ کے گھر کو گھیر رکھا تھا، ان میں حکیم بن ابوالعاص، عقبہ بن ابی معیط، نصر بن حارث، اسید بن خلف، زمعہ ابن اسود اور ابوجہل بھی شامل تھے۔ ابوجہل اس وقت دبی آواز میں اپنے ساتھیوں سے رہا تھا:
"محمد (ﷺ) کہتا ہے، اگر تم اس کے دین کو قبول کرلو گے تو تمہیں عرب اور عجم کی بادشاہت مل جائے گی اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی اور وہاں تمہارے لیے ایسی جنتیں ہوں گی، ایسے باغات ہوں گے جیسے اردن کے باغات ہیں ، لیکن اگر تم میری پیروی نہیں کرو گے تو تم سب تباہ ہو جاؤ گے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تمہارے لئے وہاں جہنم کی آگ تیار ہوگی اس میں تمہیں جلایا جائے گا۔"
نبی اکرم ﷺ نے اس کے یہ الفاظ سُن لیے، آپ یہ کہتے ہوئے گھر سے نکلے:
"ہاں ! میں یقیناً یہ بات کہتا ہوں ۔"
اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: یٰسن۔ قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک آپ پیغمبروں کے گروہ میں سے ہیں ، سیدھے راستے پر ہیں ۔ یہ قرآن زبردست اللہ مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (پہلے تو) ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے سو اسی سے یہ بے خبر ہیں ، اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں ، پھر وہ ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں ، جس سے ان کے سر اوپر کو اٹھ گئے ہیں اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی ہے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی ہے جس سے ہم نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے سووا دیکھ نہیں سکتے۔"
یہ سورۃ یٰسین کی آیات 1 تا 9 کا ترجمہ ہے ۔ ان آیات کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کفار وقتی طور پر اندھا کردیا۔ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنے سامنے سے جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم نے جو مٹی پھینکی تھی وہ ان سب کے سروں پر گری، کوئی ایک بھی ایسا نہ بچا جس پر مٹی نہ گری ہو۔
جب قریش کو پتا چلا کہ حضور ﷺ ان کے سروں پر خاک ڈال کر جا چکے ہیں تو وہ سب گھر کے اندر داخل ہوئے۔ آپ صل اللہ و علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے:
"خدا کی قسم یہ تو اپنی چادر اوڑھے سو رہے ہیں لیکن جب چادر الٹی گی تو بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ مشرکین حیرت زدہ رہ گئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "تمارے صاحب کہاں ہیں ؟"
مگر اُنھوں نے کچھ نہ بتایا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مارتے ہوئے باہر لے آئے اور مسجد حرام تک لائے، کچھ دیر تک انہوں نے انہیں روکے رکھا، پھر چھوڑ دیا۔
اب حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کو ہجرت کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ انہوں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:
"میرے ساتھ دوسرا ہجرت کرنے والا کون ہوگا؟"
جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
"ابوبکر صدیق ہونگے۔"
حضور ﷺ اس وقت تک چادر اوڑھے ہوئے تھے اسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا اور حضور ﷺ کو دیکھ کر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آئے ہیں اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں ۔
یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اُٹھے:
" اللہ کی قسم! اس وقت آپ ﷺ یقیناً کسی خاص کام سے تشریف لائے ہیں ۔"
پھر انہوں نے آپ ﷺ کو اپنی چارپائی پر بٹھایا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"دوسرے لوگوں کو یہاں سے اٹھا دو۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! یہ تو سب میرے گھر والے ہیں ۔"
اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
"مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔"
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً بول اٹھے:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ کے ساتھ جاؤں گا؟"
جواب میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"ہاں ! تم میرے ساتھ جاؤ گے -"
یہ سنتے ہی مارے خوشی کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا تو حیران ہوئی... اس لیے کہ میں اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ انسان خوشی کی وجہ سے بھی رو سکتا ہے -
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ ان دونوں اونٹنیوں میں سے ایک لے لیں ، میں نے انہیں اسی سفر کے لیے تیار کیا ہے -"
اس پر حضور ﷺ نے فرمایا:
"میں یہ قیمت دے کر لے سکتا ہوں -"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! میں اور میرا سب مال تو آپ ہی کا ہے -"
حضور ﷺ نے ایک اونٹنی لے لی -
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے اونٹنی کی قیمت دی تھی - اس اونٹنی کا نام قصویٰ تھا - یہ آپ ﷺ کی وفات تک آپ کے پاس ہی رہی - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اس کی موت واقع ہوئی -
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں اونٹنیوں کو جلدی جلدی سفر کے لیے تیار کیا - چمڑے کی ایک تھیلی میں کھانے پینے کا سامان رکھ دیا - حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر پھاڑ کر اس کے ایک حصے سے ناشتے کی تھیلی باندھ دی - دوسرے حصے سے انہوں نے پانی کے برتن کا منہ بند کردیا - اس پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ تمہاری اس اوڑھنی کے بدلے جنت میں دو اوڑھنیاں دے گا۔"
اوڑھنی کو پھاڑ کر دو کرنے کے عمل کی بنیاد پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ذات النطاقین کا لقب ملا یعنی دو اوڑھنی والی۔یاد رہے کہ نطاق اس دوپٹے کو کہا جاتا ہے جسے عرب کی عورتیں کام کے دوران کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں ۔
پھر رات کے وقت حضور صلی اللہ ھو علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اور پہاڑ ثور کے پاس پہنچے۔ سفر کے دوران کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے انحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا:
"ابوبکر ایسا کیوں کر رہے ہو؟"
جواب میں انہوں نے عرض کیا:
"اللہ کےرسول! میں اس خیال سے پریشان ہوں کہ کہیں راستے میں کوئی آپ کی گھات میں نہ بیٹھا ہو۔" اس پہاڑ میں ایک غار تھا۔ دونوں گار کے دھانے تک پہنچے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:
"قسم اُس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا۔ آپ ذرا ٹھریے! پہلے غار میں داخل ہوں گا، اگر غار میں کوئی موذی کیڑا ہوا تو کہیں وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا دے…”
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے غار کو ہاتھوں سے ٹٹول کر دیکھنا شروع کیا۔ جہاں کوئی سوراخ ملتا اپنی چادر سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کو بند کر دیتے۔
جاری ھے...

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕باب نمبر 49،،،،عنوان: قتل کی سازشانہوں نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑی اور بولے: "اے ابوسلمہ...
15/01/2025

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕
باب نمبر 49،،،،عنوان: قتل کی سازش
انہوں نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑی اور بولے:
"اے ابوسلمہ! تم اپنے بارے میں اپنی مرضی کے مختار ہو مگر ام سلمہ ہماری بیٹی ہے،ہم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ۔"
یہ کہہ کر انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کے اونٹ کی لگام کھینچ لی۔اسی وقت ابوسلمہ کے خاندان کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور بولے:
" ابوسلمہ کا بیٹا ہمارے خاندان کا بچہ ہے۔جب تم نے اپنی بیٹی کو اس کے قبضے سے چھڑا لیا تو ہم بھی اپنے بچے کو اس کے ساتھ نہیں جانے دین گے۔"
یہ کہہ کر انہوں نے بچے کو چھین لیا۔اس طرح ان ظالموں نے حضرت ابوسلمہ رضی الله عنہ کو ان کی بیوی اور بچے سے جدا کردیا۔ابوسلمہ رضی الله عنہ تنہا مدینہ منوره پہونچے۔
ام سلمہ رضی الله عنہا شوہر اور بچے کی جدائی کے غم میں روزانہ صبح سویرے مکہ سے باہر مدینہ منورہ کی طرف جانے والے راستے میں جاکر بیٹھ جاتیں اور روتی رہتیں ۔ایک دن ان کا ایک رشتے دار ادھر سے گزرا۔ اس نے انہیں روتے دیکھا تو ترس آگیا۔وہ اپنی قوم کے لوگوں میں گیا اور ان سے بولا:
" تمہیں اس غریب پر رحم نہیں آتا...اسے اس کے شوہر اور بچے سے جدا کردیا، کچھ تو خیال کرو۔"
آخر ان کے دل پسیج گئے۔انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کو جانے کی اجازت دے دی۔یہ خبر سن کر ابوسلمہ رضی الله عنہ کے رشتہ داروں نے بچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ بچہ کو لے کر مدینہ چلی جائیں ۔اس طرح انہوں نے مدینہ کی طرف تنہا سفر شروع کیا۔راستے میں حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا ملے۔یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، کعبہ کے چابی برادر تھے۔یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔یہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کے اونٹ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں قبا میں پہنچا دیا۔پھر حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے: " تمہارے شوہر یہاں موجود ہیں ۔"
اس طرح ام سلمہ رضی الله عنہا مدینہ پہنچی۔آپ پہلی مہاجر خاتون ہیں جو شوہر کے بغیر مدینہ آئیں ۔حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا نے انہیں مدینہ پہنچا کر جو عظیم احسان کیاتھا،اس کی بنیاد پر کہا کرتی تھیں :
" میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ نیک اور شریف کسی کو نہیں پایا۔"
اس کے بعد مکہ سے مسلمانوں کی مدینہ آمد شروع ہوئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہم ایک کے بعد ایک آتے رہے۔انصاری مسلمان انہیں اپنے گھروں میں ٹھراتے۔ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔حضرت عمر رضی الله عنہ اور عیاش بن ابو ربیعہ رضی الله عنہ بیس آدمیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ پہنچے۔حضرت عمر رضی الله عنہ کی ہجرت خاص بات یہ ہے کہ مکہ سے چھپ کر نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ اعلان کرکے نکلے۔انہوں نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا،پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی،اس کے بعد مشرکین سے بولے:
" جو شخص اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے،اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے یا اپنی ماں کی گود ویران کرنا چاہتا ہے...وہ مجھے جانے سے روک کر دکھائے۔"
ان کا یہ اعلان سن کر سارے قریش کو سانپ سونگھ گیا۔کسی نے ان کا پیچھا کرنے کی جرات نہ کی۔وہ بڑے وقار سے ان سب کے سامنے روانہ ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بھی ہجرت کی تیاری کررہے تھے۔ ہجرت سے پہلے وہ آرزو کیا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں ۔ وہ روانگی کی تیاری کرچکے تھے ایک دن حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
" ابوبکر! جلدی نہ کرو، امید ہے، مجھے بھی اجازت ملنے والی ہے۔"
چنانچہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ رک گئے۔ لانہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں تیار کرت رکھی تھی۔انہوں نے ان دونوں کو آٹھ سو درہم میں خریدا تھا اور انہیں چار ماہ سے کھلا پلا رہے تھے۔
ادھر مشرکین نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان مدینہ ہجرت کرتے جارہے ہیں اور مدینہ کے رہنے والے بڑے جنگ جو ہے...وہاں مسلمان روز بروز طاقت پکڑتے چلے جائیں گے تو انہیں خوف محسوس ہوا کہ الله کے رسول بھی کہیں مدینہ نہ چلے جائے اور وہاں انصار کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کی تیاری نہ کرنے لگیں ...تو وہ سب جمع ہوئے...اور سوچنے لگے کہ کیا قدم اٹھائیں ۔
یہ قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے۔دارالندوہ ان کے مشورہ کرنے کی جگہ تھی۔یہ پہلا پختہ مکان تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا۔قریش کے اس مشورے میں شیطان بھی شریک ہوا۔وہ انسانی شکل میں آیا تھا اور ایک بوڑھے کے روپ میں تھا،سبز رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔وہ دروازے پر آکر ٹھر گیا۔اسے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا:
" آپ کون بزرگ ہیں ۔"
اس نے کہا:
" میں نجد کا سردار ہوں ۔آپ لوگ جس غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں ، میں بھی اسی کے بارے میں سن کر آیا ہوں تاکہ لوگوں کی باتیں سنوں اور ہوسکے تو کوئی مفید مشورہ بھی دوں ۔"
اس پر قریشیوں نے اسے اندر بلالیا۔اب انہوں نے مشورہ شروع کیا۔ان میں سے کوئی بولا:
" اس شخص( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم)کا معاملہ تم دیکھ ہی چکے ہو،الله کی قسم!اب ہر وقت اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ اپنے نئے اور اجنبی مددگاروں کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کرے گا،لہذا مشورہ کرکے اس کے بارے میں کوئی ایک بات طے کرلو۔"
وہاں موجود ایک شخص ابوالبختری بن ہشام نے کہا:
" اسے بیڑیاں پہنا کر ایک کوٹھری میں بند کردو اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک انتظار کرو،تاکہ اس کی بھی وہی حالت ہوجائے جو اس جیسے شاعروں کی ہوچکی ہے اور یہ بھی انہی کی طرح موت کا شکار ہوجائے۔"
اس پر شیطان نے کہا:
" ہرگز نہیں !یہ رائے بالکل غلط ہے۔یہ خبر اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گی،وہ تم پر حملہ کردیں گے اور اپنے ساتھی کو نکال کر لے جائیں گے...اس وقت تمہیں پچھتانا پڑے گا،لہذا کوئی اور ترکیب سوچو۔"
اب ان میں بحث شروع ہوگئ۔اسود بن ربیعہ نے کہا:
" ہم اسے یہاں سے نکال کر جلاوطن کردیتے ہے...پھر یہ ہماری طرف سے کہیں بھی چلا جائے۔"
اس پر نجدی یعنی شیطان نے کہا:
" یہ رائے بھی غلط ہے۔تم دیکھتے نہیں ،اس کی باتیں کس قدر خوب صورت ہیں ،کتنی میٹھی ہیں ۔وہ اپنا کلام سناکر لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔الله کی قسم! اگر تم نے اسے جلاوطن کردیا تو تمہیں امن نہیں ملےگا۔ یہ کہیں بھی جاکر لوگوں کے دلوں کو موہ لے گا۔ پھر تم پر حملہ آوار ہوگا...اور تمہاری یہ ساری سرداری چھین لے گا... لہذا کوئی اور بات سوچو۔"
اس پر ابوجہل نے کہا:
" میری ایک ہی رائے ہے اور اس سے بہتر رائے کوئی نہیں ہوسکتی۔"
سب نے کہا:
" اور وہ کیا ہے۔"
ابوجہل نے کہا:
" آپ لوگ ہر خاندان اور ہر قبیلےکا ایک ایک بہادر اور طاقتور نوجوان لیں ۔ہر ایک کو ایک ایک تلوار دیں ۔ان سب کو محمد پر حملہ کرنے کے لیے صبح سویرے بھیجیں ۔وہ سب ایک ساتھ اس پر اپنی تلواروں کا ایک بھرپور وار کریں ...اس طرح اسے قتل کردیں ۔اس سے ہوگا یہ کہ اس کے قتل میں سارے قبیلے شامل ہوجائیں گے،لہذا محمد کے خاندان والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ان سب سے جنگ کریں ...لہذا وہ خون بہا( یعنی فدیے کی رقم)لینے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ ہم انہیں دے دیں گے۔"
اس پر شیطان خوش ہوکر بولا:
" ہاں ! یہ ہے اعلیٰ رائے...میرے خیال میں اس سے اچھی رائے کوئی اور نہیں ہوسکتی۔"
چنانچہ اس رائے کو سب نے منظور کرلیا۔ الله تعالٰی نے فوراً جبرئیل علیہ السلام کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔انہوں نے عرض کیا:
" آپ روزانہ جس بستر پر سوتے ہیں ،آج اس پر نہ سوئیں ۔"
اس کے بعد انہوں نے مشرکین کی سازش کی خبر دی، چنانچہ سورۃ الاانفال کی آیت ۳۰ میں آتا ہے:
" ترجمہ: اور اس واقعے کا بھی ذکر کیجئے،جب کافر لوگ آپ کی نسبت بری بری تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آیا آپ کو قید کرلیں ،یا قتل کرڈالیں ، یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور الله اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے مضبوط تدبیر والا الله ہے۔"
غرض جب رات ایک تہائی گزر گئی تو مشرکین کا ٹولہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے گھر تک پہنچ کر چھپ گیا...وہ انتظار کرنے لگا کہ کب وہ سوئیں اور وہ سب یک دم ان پر حملہ کردیں ۔ان کفار کی تعداد ایک سو تھی

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕باب نمبر 48،،، عنوان: ہجرت کا آغازاگلے سال قبیلہ خزرج کے دس اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مک...
15/01/2025

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ💕
باب نمبر 48،،، عنوان: ہجرت کا آغاز
اگلے سال قبیلہ خزرج کے دس اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مکہ آئے۔ان میں سے پانچ وہ تھے جو پچھلے سال عقبہ میں آپ ﷺ سے مل کر گئے تھے۔ان لوگوں سے بھی آپ ﷺ نے بیعت لی۔آپ ﷺ نے ان کے سامنے سورۃ النساء کی آیات تلاوت فرمائیں ۔
بیعت کے بعد جب یہ لوگ واپس مدینہ منورہ جانے لگے تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم ؓ کو بھیجا۔ آپ ﷺ نے حضرت ابو مصعب ؓ بن عمیر کو بھی ان کےساتھ بھیجاتا کہ وہ نئے مسلمانوں کو دین سکھائیں ،قرآن کی تعلیم دیں ۔انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ یہ مسلمانوں میں سب سے پہلے آدمی ہیں جنہیں قاری کہا گیا۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز پڑھانا شروع کی۔ سب سے پہلا جمعہ بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔جمعہ کی نماز اگرچہ مکہ میں فرض ہو چکی تھی،لیکن وہاں مشرکین کی وجہ سے مسلمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کر سکے۔سب سے پہلا جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد چالیس تھی۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے مدینہ منورہ میں دین کی تبلیغ شروع کی تو حضرت سعد بن معاذ اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت اسید بن حضیر ؓ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ان کے اسلام لانے کے بعد مدینہ میں اسلام اور تیزی سے پھیلنے لگا۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر ؓ حج کے دنوں میں واپس مکہ پہنچے۔مدینہ منورہ میں اسلام کی کامیابیوں کی خبر سن کر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے۔ مدینہ منورہ میں جو لوگ اسلا م لا چکے تھے ان میں سے جو حج کے لئے آئے تھے انہوں نے فارغ ہونے کے بعد منی میں رات کے وقت آپ ﷺ سے ملاقات کی۔جگہ اور وقت پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ان لوگوں کے ساتھ چونکہ مدینہ سے مشرک لوگ بھی آئے ہوئے تھے اور ان سے اس ملاقات کو پوشیدہ رکھنا تھا،اس لئے یہ ملاقات رات کے وقت ہوئی۔یہ حضرات کل ۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تھیں ۔ملاقات کی جگہ عقبہ کی گھاٹی تھی۔وہاں ایک ایک دو دو کر کے جمع ہو گئے۔اس مجمع میں ۱۱ آدمی قبیلہ اوس کے تھے۔پھر آپ ﷺ تشریف لائے۔
آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلبؓ بھی ساتھ تھے۔ان کے علاوہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ حضرت عباس ؓ بھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس وقت آپ ﷺ گویا اپنے چچا کے ساتھ آئے تھے تا کہ اس معاملہ کو خود دیکھیں ۔ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ بھی ساتھ آئے تھے۔سب سے پہلے حضرت عباس ؓ نے ان کے سامنے تقریر کی۔انہوں نے کہا:
تم لوگ جو عہد و پیمان ان (رسول اللہ ﷺ) سے کرو،اس کو ہر حال میں پورا کرنا،اگر پورا نہ کر سکو تو بہتر ہے کہ کوئی عہد و پیمان نہ کرو ‘‘۔
اس پر ان حضرات نے وفا داری نبھانے کے وعدے کیے۔ تب نبی اکرم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا:
تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔۔۔اپنی ذات کی حد تک یہ کہتا ہوں کہ میری حمایت کرو اور میری حفاظت کرو۔‘‘
اس موقع پر ایک انصاری بولے:
اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اس کے بدلے تمہیں جنت ملے گی۔‘‘
اب وہ سب بول اٹھے:
یہ نفع کا سودا ہے ہم اسے ختم نہیں کریں گے۔
اب ان سب نے نبی ﷺ سے بیعت کی حضور ﷺ کی حفاطت کا وعدہ کیا۔حضرت براء بن معرور ؓ نے کہا:
ہم ہر حال میں آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے آپ ﷺ کی حفاطت کریں گے۔‘‘
حضرت براء بن معرور ؓیہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ ابو الہیثم بن التیہان ؓ بول اٹھے:
چاہے ہم پیسے پیسے کو محتاج ہو جائیں اور چاہے ہمیں قتل کر دیا جائے، ہم ہر قیمت پر آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے۔‘‘
اس وقت حضرت عباس ؓ بولے:
ذرا آہستہ آواز میں بات کرو۔۔۔کہیں مشرک آواز نہ سن لیں ‘‘۔
اس موقع پر ابو الہیثم ؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اب ہم ان کو توڑ رہے ہیں ،ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپ ﷺ ہمیں چھوڑ کر مکہ آجائیں ۔‘‘
یہ سن کر آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا:
نہیں ! بلکہ میرا خون اور تمہارا خون ایک ہے،جس سے تم جنگ کرو گے اس سے میں جنگ کروں گا ،جسے تم پناہ دو گے اسے میں پناہ دوں گا۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے ان سے بارہ آدمی الگ کیے یہ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے تھے-آپ نے ان سے فرمایا:
"تم میرے جاں نثار ہو...میرے نقیب ہو -"
ان بارہ حضرات میں یہ شامل تھے-
سعد بن عبادہ،اسعد بن رواحہ٬براء بن معرور ابوالہیثم ابن التیہان،اسید بن حضیر،عبداللہ بن عمرو بن حزام، عبادہ بن صامت اور رافع بن مالک رضی اللہ عنہم -ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کا نمائندہ تھا آپ ﷺ نے ان جاں نثاروں سے فرمایا:
"تم لوگ اپنی اپنی قوم کی طرف سے اس طرح میرے کفیل ہو جیسے عیسی علیہ السلام کے بارہ حواری ان کے کفیل تھے اور میں اپنی قوم یعنی مہاجروں کی طرف سے کفیل اور ذمے دار ہوں -"
اس بیعت کو بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے- یہ بہت اہم تھی- اس بیعت کے ہونے پر شیطان نے بہت واویلا کیا،چیخا اور چلایا کیوں کہ یہ اسلام کی ترقی کی بنیاد تھی-
جب یہ مسلمان مدینہ پہنچے تو انہوں نے کھل کر اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا-اعلانیہ نمازیں پڑھنے لگے-مدینہ منورہ میں حالات سازگار دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا کیونکہ قریش کو جب یہ پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک جنگجو قوم کے ساتھ ناطہ جوڑ لیا ہے اور ان کے ہاں ٹھکانہ بنالیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کا مکہ میں جینا اور مشکل کردیا،تکالیف دینے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ اب تک ایسا نہیں کیا تھا -روز بروز صحابہ کی پریشانیاں اور مصیبتیں بڑھتی چلی گئیں -کچھ صحابہ کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے آزمائے گئے،طرح طرح کے عذاب دیے گئے-آخر صحابہ نے اپنی مصیبتوں کی فریاد آپ ﷺ سے کی اور مکہ سے ہجرت کر جانے کی اجازت مانگی-حضور اکرم ﷺ چند دن خاموش رہے-آخر ایک دن فرمایا:
"مجھے تمہاری ہجرت گاہ کی خبر دی گئی ہے...وہ یثرب ہے (یعنی مدینہ)-"
اور اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے انہیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی-اس اجازت کے بعد صحابہ کرام ایک ایک دو دو کرکے چھپ چھپا کر جانے لگے- مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا-مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،اسی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد ابن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت علی رضی اللہ کو خود اپنا بھائی بنایا-
مسلمانوں میں سے جن صحابہ نے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی، وہ رسول اکرم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبد اللہ مخزومی رضی اللہ عنہ ہیں -انہوں نے سب سے پہلے تنہا جانے کا ارادہ فرمایا-جب یہ حبشہ سے واپس مکہ آئے تھے تو انہیں سخت تکالیف پہنچائی گئی تھیں -آخر انہوں نے واپس حبشہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر پھر انہیں مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ رک گئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ روانہ ہوئے-مکہ سے روانہ ہوتے وقت یہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے دودھ پیتے بچے کو بھی ساتھ سوار کرلیا - جب ان کے سسرال والوں کو پتا چلا تو وہ انہیں روکنے کے لیے دوڑے اور راستے میں جا پکڑا-ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے.
جاری ہے.....

Address

Jhang Sadar

Telephone

+923008414946

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Syeda Khanam Bukhari posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share