Urdu StOries

Urdu StOries This Page is for the Islamic and other interesting stories❤️
Page Admin:Mian Sufiyan Qayyum
(9)

29/06/2024

ایک نوجوان تھا جس کی والدہ اس کی شادی سے دو ماہ قبل بیماری کی وجہ سے وفات پا گئی۔ اس نے اپنی شادی کی تاریخ ایک سال کے لیے مؤخر کر دی۔ شادی کے بعد وہ اپنے والد کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر اپنی نئی زندگی گزارنے لگا کیونکہ اس کے والد کے علاوہ اس کا اور کوئی بہن بھائی نہیں تھا

پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی نئی زندگی میں مگن رہا۔ وہ کبھی کبھار اپنے والد سے ملنے جاتا اور کبھی اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ جاتی، لیکن کبھی وہ اپنے والد سے ملنے جاتا تو اس کی بیوی اپنے والدین کے گھر چلی جاتی۔ اس کی بیوی اسے مجبور کرتی کہ وہ اس کے والدین سے ملنے جائے، لیکن وہ اپنی بیوی کو مجبور نہیں کر پایا کہ وہ اس کے بیمار والد سے ملے۔

جب اس کا والد بیماری سے نڈھال ہو گیا تو بیٹے نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے اپنے گھر لے آئے تاکہ وہ اس کی مکمل دیکھ بھال کر سکے۔ والد نے اس خیال کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی کے سامنے وہ ایک ناپسندیدہ مہمان بنے۔ لیکن بیٹے کے اصرار پر والد نے اس کی بات مان لی اور اس کے گھر آ گیا۔

یہ بات اس کی بیوی کے دل پر بھاری تھی۔ وہ ایک ہی قسم کا کھانا پکاتی اور بیمار والد کے لیے کوئی الگ کھانا نہیں بناتی، اور اسے ان کے ساتھ ہی کھانے پر مجبور کرتی۔ وہ اس سے بدتمیزی سے پیش آتی اور اس کا شوہر اس بات پر الجھن میں پڑ جاتا کہ وہ اپنے والد کو راضی کرے یا اپنی بیوی کو۔

آخر کار، اس کی بیوی نے اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے والد کی شادی کروا دے تاکہ کوئی اور اس کی دیکھ بھال کر سکے۔ جب بیٹے نے اس خیال کو اس کے والد کی عمر اور بیماری کی وجہ سے مسترد کر دیا، تو بات یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنے والد کو ایک بزرگوں کے گھر لے جائیں گے تاکہ وہاں اس کی دیکھ بھال ہو سکے۔

بیٹا دل شکستہ ہو گیا جب اس نے اپنے والد کو بزرگوں کے گھر چھوڑا۔ ایک ہفتے بعد، اس نے اپنے والد سے ملنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہاں پہنچ کر اس نے پایا کہ اس کا والد شدید ذہنی افسردگی کی وجہ سے وفات پا چکا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے ایک خط چھوڑا تھا جس میں لکھا تھا:

"میرے پیارے بیٹے، میں نے تمہیں اپنے آپ سے زیادہ محبت کی ہے۔ میری زندگی کے سب سے خوشگوار لمحات وہ تھے جب میں اپنے کام سے واپس آتا اور تمہارے لیے وہ کھلونا ٹرین یا مٹھائیاں لاتا جو تمہیں پسند تھیں۔ میری سب سے خوشگوار لمحات وہ تھے جب میں نے تمہیں تیرنا سکھایا، جب میں تمہیں اپنے کام پر لے گیا اور تم میرے کاغذات پھاڑ دیتے اور میں تمہاری مسکراہٹ دیکھتا۔

میری زندگی کے سب سے خوشگوار لمحات وہ تھے جب میں تمہیں اپنی جیب میں موجود ساری رقم دیتا تاکہ تم اپنی پسند کے کپڑے خرید سکو، اور میں خود اپنے پھٹے ہوئے جوتے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا رہا۔

میں تمہیں ملامت نہیں کر رہا، بلکہ میں تمہیں لکھ رہا ہوں اور میرے آنسو خود پر افسوس میں بہہ رہے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری زندگی کا اختتام تمہاری گود میں نہ ہو، اور تم میری آخری رسومات ادا نہ کرو۔

میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں... تمہارا وفادار والد۔

اگر تمہاری شادی ایسی لڑکی سے ہو تو اس کے سامنے اپنے والدین کی قیمت پر کمزور نہ ہو۔ اور اگر تمہارا شوہر تمہیں اپنے خاندان سے دور کرتا ہے تو اس کے سامنے اپنے والدین کی قیمت پر کمزور نہ ہو۔

ہمیں قیمتی جواہرات کی قدر تب ہی آتی ہے جب ہم انہیں کھو دیتے ہیں۔ کتنا مشکل ہے جب آپ کسی کو پیغام دینا چاہتے ہیں اور وہ آپ کو سن نہیں سکتا، نہ کہ وہ آپ کو نظرانداز کر رہا ہو بلکہ اس لیے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔

ہمارے محنت کو ضائع نہ کریں، آپ کے ساتھ ہم ترقی کرتے ہیں، آپ کے ساتھ ہم بڑے ہوتے ہیں، اور آپ کے ساتھ ہماری خوشی مکمل ہوتی ہے۔ ان ذہین عقلوں کا شکریہ جو ہمارے ساتھ ہیں۔"

28/06/2024

ایک روز شوہر نے پرسکون ماحول میں اپنی بیوی سے کہا : بہت دن گزر گئے ہیں میں نے اپنے گھر والوں بہن بھائیوں اور ان کے بچوں سے ملاقات نہیں کی ہے۔ میں ان سب کو گھر پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہوں اس لیے براہ مہربانی تم کل دوپہر اچھا سا کھانا تیار کر لینا۔

بیوی نے گول مول انداز سے کہا : ان شاء اللہ خیر کا معاملہ ہو گا۔

شوہر بولا : تو پھر میں اپنے گھر والوں کو دعوت دے دوں گا۔

اگلی صبح شوہر اپنے کام پر چلا گیا اور دوپہر ایک بجے گهر واپس آیا۔ اس نے بیوی سے پوچھا :

کیا تم نے کھانا تیار کر لیا ؟ میرے گھر والے ایک گھنٹے بعد آ جائیں گے !

بیوی نے کہا : نہیں میں نے ابھی نہیں پکایا کیوں کہ تمہارے گھر والے کوئی انجان لوگ تو ہیں نہیں لہذا جو کچھ گھر میں موجود ہے وہ ہی کھا لیں گے۔

شوہر بولا : اللہ تم کو ہدایت دے ... تم نے مجھے کل ہی کیوں نہ بتایا کہ کھانا نہیں تیار کرو گی ، وہ لوگ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائیں گے پھر میں کیا کروں گا۔

بیوی نے کہا : ان کو فون کر کے معذرت کر لو ۔۔۔ اس میں ایسی کیا بات ہے وہ لوگ کوئی غیر تو نہیں آخر تمہارے گھر والے ہی تو ہیں۔

شوہر ناراض ہو کر غصے میں گھر سے نکل گیا۔

کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ بیوی نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے اپنے گھر والے ، بہن بھائی اور ان کے بچے گھر میں داخل ہو رہے ہیں !

بیوی کے باپ نے پوچھا : تمہار شوہر کہاں ہے ؟

وہ بولی : کچھ دیر پہلے ہی باہر نکلے ہیں۔

باپ نے بیٹی سے کہا : تمہارے شوہر نے گزشتہ روز فون پر ہمیں آج دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دعوت دے کر خود گھر سے چلا جائے !

یہ بات سُن کر بیوی پر تو گویا بجلی گر گئی۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ہاتھ ملنے شروع کر دیے کیوں کہ گھر میں موجود کھانا اس کے اپنے گھر والوں کے لیے کسی طور لائق نہ تھا البتہ یقینا اس کے شوہر کے گھر والوں کے لائق تھا۔

اس نے اپنے شوہر کو فون کیا اور پوچھا : تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ دوپہر کے کھانے پر میرے گھر والوں کو دعوت دی ہے۔

شوہر بولا : میرے گھر والے ہوں یا تمہارے گھر والے ۔۔۔ فرق کیا پڑتا ہے۔

بیوی نے کہا : میں منت کر رہی ہوں کہ باہر سے کھانے کے لیے کوئی تیار چیز لے کر آجاؤ ، گھر میں کچھ نہیں ہے۔

شوہر بولا : میں اس وقت گھر سے کافی دُور ہوں اور ویسے بھی یہ تمہارے گھر والے ہی تو ہیں کوئی غیر یا انجان تو نہیں۔ ان کو گھر میں موجود کھانا ہی کھلا دو جیسا کہ تم میرے گھر والوں کو کھلانا چاہتی تھیں.. "تا کہ یہ تمہارے لیے ایک سبق بن جائے جس کے ذریعے تم میرے گھر والوں کا احترام سیکھ لو" !.

لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تم خود ان کی طرف سے اپنے ساتھ معاملہ پسند کرتے ہو.......
_سب دوست ایک بار درودشریف پڑھ لیں_
_ایک بار درودشریف پڑھنے سے_
_ﷲ تعالیٰ دس مرتبہ رحمت فرماتے ہیں_

11/04/2024



ڈنر پہ جانے کے لئے نکل ہی رہے تھے کہ میری نظر اپنی گیارہ سالہ بیٹی کے کانوں میں پڑی سونے کی بالیوں پر پڑی۔ جو اس نے بڑے اہتمام سے تیار ہو کر آج خصوصی طور پر پہنی ہوئی تھیں

عام طور پر مجھے ایسی چیزوں کا پتہ نہیں چلتا لیکن وہ بالیاں تو میری یادوں کا اہم حصہ تھیں

بچپن سے ہمیشہ میں نے وہ اپنی امی کے کانوں میں دیکھی تھیں۔ ہمیں پڑھاتے، ہمارے لئے کھانا بناتے، ڈانٹتے، پیار کرتے، ہنستے ان کے کانوں میں ہولے ہولے ہلتی بالیوں کے وہ گولڈن موتی۔۔۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا
پوچھنے پر بیٹی نے کنفرم کر دیا کہ آج دادو کی بالیاں پہنی ہیں

امی بہت یاد آئیں۔ سات سال سے زیادہ ہو گئے۔۔۔ وہ صرف دعاؤں، یادوں اور خوابوں میں آتی ہیں

میرے گھر میں ان کا قرآن پاک جس میں ایک ٹشو تہہ کرکے شاید نشانی کے طور پر رکھا تھا، ان کے جائے نماز، ان کے جوتے جو آخری دفعہ پہن کے وہ ہسپتال گئی تھیں، اور ان کی بالیاں جو آپریشن کے لئے جاتے سمے انہوں نے ہمیں پکڑائیں۔۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہے

مجھے اپنے بہن بھائیوں کے گھر یاد آگئے جن میں امی کی ایسی کتنی ہی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ سب کچھ یہیں ہے۔۔۔۔ بس وہ نہیں ہیں

سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ چیزوں کی معیاد ہے۔ حفاظت کرو تو صدیوں سنبھال لو۔۔۔ انسانوں کی نہیں۔۔۔ زندگی کی نہیں

سب فانی ہے سوائے اللہ کے۔۔۔۔
سوائے ہمارے اعمال کے جو کسی فلم کی طرح محفوظ ہیں

چند لمحوں کو تھم جائیں اور سوچیں

ہم کیا کر رہے ہیں؟
کس طرف جا رہے ہیں؟

جائیدادیں، چیزیں، سونا، ہیرے، موتی، پیسہ۔۔۔۔۔۔
ان چیزوں کی فکر جو ہمیشہ سے یہیں ہیں اور یہیں رہنی ہیں۔۔۔ جن کی بس ملکیت بدلتی رہنی ہے۔۔۔۔
ان کے لئے اتنے پریشان ہیں کہ اللہ کو بھول بیٹھتے ہیں؟

وہ اللہ جو شدت سے ہمارے اپنی طرف پلٹ آنے کا منتظر ہے
وہ اللہ جو دائمی ہے
وہ اللہ جو اصل مالک ہے۔۔۔۔ زمین و آسمان میں موجود سب چیزوں کا۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا بھی

مالک نے ایک امتحان ہی تو دیا ہے۔۔۔۔ محنت کر لیں نا
اس امتحان بھی ادھر ادھر کی چمک کو پکڑنے کے چکر میں بھاگتے رہیں گے تو واپس کس منہ سے جائیں گے؟ ہمارا کیا بنے گا؟

آئیں اس رمضان میں اللہ سے جڑنے کی ایک ایسی روٹین پلان کریں جسے پھر پورا سال اپنائے رکھیں۔۔۔

اللہ تعالٰی ہماری مدد فرمائے

دعاؤں کا طالب

08/04/2024

ڈارک ویب پر
انسانی گوشت دستیاب ہے۔

ڈارک ویب میں کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں، جیسا کہ پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے،

" کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا ؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں، اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی ۔"

کینی بلزم ریسٹورنٹ کی ایڈ لگائی گئی اور آن لائن انسانی دماغ کو دنیا کی سب سے مہنگی اور لذیذ ڈش کہہ کر متعارف کروایا گیا اور وہ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ 100% انسانی ہے اسی طرح وہاں لسٹ بھی جاری کی گئی جس میں ان لائن بِٹ کوائین کرینسی کے عوض انسانی آنکھ کان سینے دل پھیپھڑے بازو ران ٹانگ کے ریٹ لگائے گئے. آپ آرڈر کریں سرپرائز بوکس آپ کے گھر بھیج دیا جائے گا .

امریکہ میں ایک سٹوڈنٹ مزاق میں آرڈر کر کے سو گیا، صبح اس کو میل آیا کہ باہر اپنا سرپرائز بوکس لے لو ، جب اس نے ڈبہ کھولا گیا تو دیکھ کے گھبرا گیا اک انسانی ہاتھ جو اس نے رات کو آرڈر کیا تھا وہ تازہ خون سے لتھڑا ڈبہ میں موجود تھا، اس نے پولیس کو اطلاع کی بعد ازاں اس سٹوڈنٹ کو مار دیا گیا.

ڈارک ویب میں اک ویڈیو میں دو لوگوں کو سرِ عام الٹا لٹکا کر چھری سے ذبح کر دیا گیا اور کھال اتار کر اعضاء کو فروخت کرنے کی بولی لگائی ۔ ایک ویب سائٹ جوتے پرس بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں اور یہ کھالیں برما کہ مسلمانوں کی لی گئی ہیں اور عورتوں کے پستان کا گوشت بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا رہا ہے. سوچنے کی بات ہے کہ ایسی سوسائٹی کہاں پنپ رہی ہیں. کیا امریکہ کے اندر ایسی جگہ ہیں جہاں عام لوگوں کا جانا منع ہے. اور وہاں انسانی گوشت دستیاب ہے ۔

جادو سی دلچسپی رکھنے والے جادوگر انسانی گوشت کھا کے اپنی شیطانی طاقتوں کو بڑھاتے ہیں۔ ان کی مطابق انسانوں کو قربان کرنے سے شیطان خوش ہوتا ہے اور ان کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے. ہیلوائن نائیٹس میں ہیومن سیکریفائز کیا جاتا ہے . اور یہ سب جادوگر ہی مناتے ہیں اور ان کے پیروکار صرف ایسا آظہار کرتے ہیں یعنی وہ انسان نما کیک بنا کر نوش کرتے ہیں اور اس طرح رسم پوری کرتے ہیں اور شیطانی طاقتوں کو خوش کرتے ہیں ۔

ڈارک ویب پر کینی بلزم کو فروغ دینے کے لئیے طرح طرح کی ڈرگز بھی بیچی جاتی ہیں جن میں سر فہرست بورا چیرو ہے یہ ڈرگز کے استعمال سے انسان Zombies (آدم خور) بن جاتا اور انسانی گوشت کو کھانے کی طلب تیز تر ہو جاتی ہے. بورا چیرو ڈرگز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے خود اس کو لیبارٹری میں تیار کیا ہے، یہ آئیس کے نام سے بیچی جا رہی ہے ۔

لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا ایک عجیب شیطانیت میں ڈوبی ہوتی ہے۔ جہاں تک آسانی سے نہیں پہنچا جا سکتا اور اگر پہنچنا چاہیں تو غیر قانونی ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے، یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں اُن کے سرورز بھی پرائیویٹ ہوتے ہیں، یہاں پر کسی بھی ریگولر براوزر سے رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی، ایک مخصوص براوزر ہے TOR کے ذریعے رسائی حاصل کر سکتے ہیں،

یہاں ادائیگی کے لیے بِٹ کوائن ایک ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائی گئی ہے ۔ اس کی لین دین کا کوئی حساب نہیں کہاں سے آئی کس نے بھیجی اور کون ریسیو کر رہا ہے۔ یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین ،سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتی ہیں ۔

یہاں پر، ڈرگز کا، ویپنز کا، کنٹریکٹ کلنگز کا، چائیلڈز پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو فائٹس کا، ملکوں کے راز چُرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضاء بیچنے اور خریدنے کا، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا کاروبار ہوتا ہے۔

بچوں کا قتل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے، 90ء سے پاکستان میں لگاتار بچوں کو اغوا کر کے جنسی تشدد کرکے مارا اور ناکارہ باڈیز کو پھینک دیا جاتا ہے ۔ ہیومین آرگنز کی اسمگلنگ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیوز اور بعد میں اُن کو قتل کرکے اُن کے جسمانی اعضاء بیچے گئے تھے اور جاوید اقبال مغل نامی سو بچوں کا قاتل کو خاموش کروا دیا گیا، خفیہ ہاتھوں کے لیے کئی ایسے جاوید اقبال کام کرتے ہیں۔

دو ہزار پندرہ کا ایک بڑا اسکینڈل جس میں دو ہزار چھ سے لیکر دو ہزار پندرہ تک تین سو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اُن کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اُس سارے معاملے میں پولیس اور ایم۔ پی۔اے ملک احمد سعید کو ملوث بتایا گیا۔ ہم جس طرح سے ہر کیس کو جہالت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو وجہ بنا کر چُپ ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے، یہ ایک ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے،
زینب فرشتہ. اور بہت سے بچے اور بچیاں کے نام آتے ہیں جو اسی جنسی تشدد کا شکار ہوتیں آئی ہیں اور بعد میں لاشیں کچرے میں ڈال دی جاتی رہی ہیں۔
پورے پاکستان میں ہی یہ ہو رہا مذہبی کمیونٹی لبرلز کے اور لبرلز اس کو مولویوں پر تھوپ رہے ہیں۔ بھائی لوگ یہ اتنا سادہ کام نہیں ہے یہ کسی محرومی کی وجہ سے یا نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا یہ کاروبار ہے۔ بہت بڑا کاروبار ہے ۔

یہ سب وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے ہیں کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔ پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہیں ۔

پاکستان میں حال ہی میں ہوم ڈیلیوری برگر میں انسانی انگلی پائی گئی ہے اور فرانزک رپورٹ کے بعد پتہ چلے گا کس کی انگلی ہے کس معصوم جان کا قتل کر کے انگلی کا ناخن سمیت حصہ کھانے میں دیا جا رہا ہے۔ بات جو بھی ہو اس بات کی طرف اشارہ ہے پاکستان میں بھی کینی بلزم کا فروغ ہو چکا ہے .😥😥😥😥

منقول

27/03/2024

*سرخ گائے اور ہیکل سلیمانی*

بچپن میں سنا تھا کہ صیہونی ایک سرخ گائے کے پیدا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ، تاکہ اسے یروشلم میں جبل الزیتون پر قربان کر کے جلایا جائے ، اسکے بعد مسجد اقصی اور سنہرا گنبد شہید کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہو گی ۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ وقت بہت دور ہے ۔ ہم تب تک کہاں زندہ ہوں گے ۔
سالوں سے اس گائے کی تلاش جاری تھی ۔ آپ نے اگر سورہ بقرہ میں گائے کا قصہ پڑھا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ جس گائے کے قربان کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا اسکی خصوصیات کیا تھیں ۔ اب بھی اسی خصوصیات کی گائے کی تلاش ہو رہی تھی ۔ امریکی ریاست ٹیکساس اپنی سرخ گائیوں کے لئیے مشہور ہے اور کئی سال کی تلاش کے بعد ستمبر 2022 میں ایسی پانچ بچھڑیاں تلاش کر لی گئیں ۔ انکو فلسطین پہنچایا گیا ۔ اور انکی لوکیشن خفیہ رکھی گئی ۔ انکے معائنے وغیرہ ہوتے رہے اور اب چار گائیں ایسی ہیں تیار ہیں جن کو قربانی کے لئیے موزوں قرار دیا گیا ہے ۔ جبل الزیتون پر 12 سال پہلے ایک پلاٹ خرید لیا گیا تھا ، جس پر قربان گاہ بھی تیار ہو چکی ہے ، جہاں گائے کو جلایا جائے گا اور اسکے ساتھ ہی ہیکل کی تعمیر کا پہلا اقدام پورا ہو جائے گا ۔ ضروری نہیں کہ اگلی ہی دن تعمیر شروع ہو جائے ، لیکن رسومات شروع ہو جائیں گی ۔۔
اور یہ قربانی بہت جلد ہو گی ۔ کیونکہ گائے کی عمر تین سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے ۔ اور اپریل میں ہی شائد یہودیوں کی عید پر یہ قربانی کر دی جائے ۔
وقت آ بھی گیا ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ وقت آ گیا ہے ۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہو ۔ لیکن پچھلے پانچ مہینوں میں فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو گیا ، اور 52 مسلمان ریاستیں سوائے مذمت اور سفارتکاری کے کچھ نہ کر سکیں،۔ جب مسلمانوں سے یہودی پروڈکٹس کا بائکاٹ تک نہ ہو سکا ، معمولی قربانیاں نہ دی جا سکیں ، جہاد تو بہت دور کی بات ہے ۔۔اسکے بعد کچھ بھی ممکن ہے ۔۔
انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں میں کتنا دم خم ہے ۔ اب اگر مسجد اقصی شہید بھی کر دی جائے تو زیادہ سے زیادہ شور مچے گا ۔ مذمت ہو گی ۔ جلوس نکلیں گے ۔ اور بس ۔۔ 😭
ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے ساتھ ہی قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہو جائیں گے ۔ اور پھر بہت تیزی سے ایک کے بعد ایک واقعات ہوں گے ۔۔
میرا دل ابھی بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اللہ کرے ایسا نہ ہو ۔۔😭😭

23/03/2024

ایک دن مولانا رومی رح اپنے گھر تشریف لے گئے اور دیکھا کہ انکا بیٹا اُداس بیٹھا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ بیٹا اُداس کیوں ہو تو بیٹے نے جواب دیا کہ کچھ نہیں۔
اس پر مولانا رومی رح باہر گئے اور ایک بھیڑیے کی کھال اوڑھ کر آئے اور ڈرانے کے لئے غرانے لگ گئے۔ اس پر ان کا بیٹا ہنسا تو انہوں نے فرمایا:
بیٹا بھیڑیا ایک جنگلی جانور ہے لیکن جب تم نے دیکھا کہ اس کے پیچھے تمہارا باپ تھا تو تم ڈرنے کی بجائے ہنسنے اور مسکرانے لگے، اسی طرح یہ جان لو تمام آزمائشوں اور سختیوں کے پیچھے تمہارا رب ہے۔
جو تمہیں 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، وہ تمہیں کسی مشکل سے گزارنا چاہتا ہے تو اس کی حکمت کو تم نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ بہتر جانتا ہے،
وہ تمہیں کچھ سکھانا چاہتا ہے، مضبوط بنانا چاہتا ہے آنے والے وقت کے لئے, اس سے زیادہ سخت آزمائشوں کے لئے, اور جان لو وہ اسی کو آزماتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

22/03/2024

اک_دفعہ_ضرور_پڑھیں__✌
ابھی میڈیکل کالج کے دوسرے سال کا شروع ہی تھا طبیعت میں عجیب قسم کی ہلچل اور بوجھل محسوس ہوتی تھی ۔ تھوڑا سا چلتا تو تھک جاتا اور سانس پھول جاتی ۔۔پڑھتے پڑھتے سر پھٹنے لگتا ۔۔۔ ابو اس بار چھٹی آئے تو آپی انایا نے ابو کو میری ساری صورتِ حال بتائی۔۔ ابو چیک اپ کیلئے لے گئے ۔۔
پتہ چلا کہ کینسر ھے اور وہ بھی آخری سٹیج پہ ۔۔میری ذات تو حیران تھی ۔۔ابو شاید فوجی تھے اس لئے برداشت کر گئے ہوں گے ۔۔
انایا وہی بزدل عورت ٹھہری ۔۔چپ سادھ لی اس نے۔۔کوئی بلاتا تو بولتی تک نہ تھی ۔۔ ہر وقت عجیب حال میں رہنے لگی ۔۔ آج ایک دم ابو سے لڑ پڑی تھی ۔۔
" بابا آپ خود تو ساری زندگی ہم سے دور رہے۔۔ آپ کیلئے وطن اہم تھا ،، ہماری عیدیں ۔۔ہماری خوشیاں ۔۔سب آپ کے بنا ہی گزرا ھے ۔۔۔ لیکن ہمارے پاس ایک رونق تھی ۔۔عبداللہ ۔۔۔ اسے بھی چھین رہے ہم سے ۔۔ بابا پلیز کہیں کہ یہ سب جھوٹ ھے ۔۔عبداللہ کو کچھ نہیں ھے ۔۔ بابا پلیز کہہ دیں نا !!!
آج پہلی دفعہ میں نے ابو کو بے بس روتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔
امی سارا سارا دن میرے سراہنے بیٹھی رہتیں ۔۔ نہ کچھ بولتی ۔۔ بس خاموشی سے میرے چہرے کو تکتی رہتیں ۔۔ اور عجیب طریقے سے چھت کو گھورتے رہتیں ۔۔۔
آج چوتھا دن تھا میں کالج نہیں گیا تھا ۔۔
امر نے کال کی تھی ۔ کیونکہ اس کے مسیج کے رپلائی نہیں کر پا رہا تھا ۔۔
عبداللہ آپ کالج کیوں نہیں آرہے ؟؟؟
بس امر طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔
کیا ہوا طبیعت کو ؟؟؟
بس!!!!!
عبداللہ آپ بول کیوں نہیں رہے ؟؟؟ اور یہ رو کیوں رہے ہیں ؟؟
کیا ہوا ہے مجھے بتائیں ؟؟؟
امر !!! اب میں کالج کبھی نہیں آپاؤں گا ۔۔۔
کیا مطلب عبداللہ ؟؟؟
سن کے بولا ۔۔ میں ابھی آپ کے پاس آتا ہوں ۔۔ ڈاکڑز کو غلطی فہمی ہوئی ھے ۔۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔ اور عصر کے وقت وہ آئے تھے ۔۔۔ اس کے آنے سے وہی ہوسٹل والا ماحول بن گیا تھا ۔۔ وہ میرے پاس ہی سو گیا ۔۔ شام کو جانے لگا تو آپی نے اسے روکنا چاہا لیکن کل فزیو کا ٹسٹ تھا نا۔۔۔ اس لئے وہ چلے گئے تھے ۔۔۔
شام کو امر نے کلاس گروپ میں میرا بتا دیا۔۔
تبھی تو عیشا کی اتنی کالز آرہی تھیں ۔۔ مجھ میں ہمت نہ تھی کیونکہ اس نے لڑ پڑنا ھے ۔۔ اس کے میسج کے رپلائی کیوں نہیں کئے ۔۔
عبداللہ یہ کیا ھے ؟؟ وہ آج لڑ نہیں رہی تھی ۔۔ وہ تو کبھی بھی مجھ سے نہ لڑی تھی ۔۔ لیکن آج ڈر تھا۔۔ وہ آج رو رہی تھی ۔۔ ایسے مذاق نہ کیا کریں ۔۔۔ میری جان نکل جاتی ھے ۔۔
عبداللہ مجھے سچ سچ بتائیں ہوا کیا ھے ؟؟
عیشا ۔۔ پتہ نہیں یہ کیا ہو گیا ؟؟ مجھے رونا آگیا ۔۔
عبداللہ آپ کو کچھ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔ میں نے ہر لمحمہ آپ کی سلامتی کی دعائیں مانگی ہیں ۔۔ جب بھی میرے ہاتھ اٹھے اس میں آپ کی خیروعافیت لازمی مانگی ۔۔
عبداللہ مجھے آپ کے پاس آنا ھے ۔۔ میرا دل بیٹھ رہا ھے۔۔
آپ ذرا ایک بھی پریشان نہ ہوں۔۔
اور دوسرےدن وہ آئی تھیں ۔۔
ناک سرخ ۔۔ آنکھیں سوجھی ہوئی ۔۔ اور میری پسند کی ساری چیزیں لائی تھیں ۔۔
عبداللہ یہ کیا حال بنا لیا ھے ؟؟ شاباش اٹھیں آپ ۔۔
مجھے سہارا دے کے بٹھایا تھا ۔۔
پھر وہی جگتیں ، ساری باتیں ۔۔ جوک ۔۔ وہی جن پہ ذبردستی ہنسنا پڑتا تھا۔۔ بیماری بھول گئی تھی ایک دفعہ ۔۔لیکن وہ چلی گئیں ۔۔ہوسٹل وارڈن کی کال آگئی تھی ۔۔
وہ کہہ کے گئی تھیں کہ وہ پھر آئیں گے ۔۔
اب لوگوں کے بھی مسیج آ رہے تھے ان لوگوں کے بھی جو مجھے بلانا تک گوارا نہ کرتے تھے
کوئی معافی مانگ رہا تھا تو کوئی نیک دعائیں ۔۔ وہی فارمل سی باتیں ۔۔
سب ایسے دعائیں دے رہے جیسے ایک مسافر لمبے سفر پہ نکل رہا ہو
سب لوگوںکا رویہ میرے سسے مہمان جیسا ہو گیا تھا اور میں واقعی خود کو سفر میں محسوس کرنے لگا جو ایک انجان منزل کی طرف گامزن تھا۔۔
سوچ رہا تھا کہ یہ بیماری بھی ایک نعت ہی ھے ۔۔ ساری دینا کو میرے لئے اچھا کر دیا ۔۔ میں خوشامدیں کر کر کے ، اپنی وفائیں لٹا لٹا کے ، عزتیں کر کر کے تھک گیا تھا ۔۔ لیکن لوگوں کی انائیں تھیں کہ ختم ہی نہ ہوتی تھیں ۔۔
شاید ان اناؤں کے ختم کرنے کیلئے میرا بیمار ہونا ضروری تھا ۔۔
سب کو یقین ہو گیا تھا ۔۔کہ اب بس !!! جانے والا ھے ۔۔ اس کو مقام دے ہی دو، اس نے جب رہنا ہی نہیں ھے ۔۔ لہذا اس کے ساتھ مقابلے چھوڑو ۔۔ دو پل اچھے سے گزار دو ۔۔ اینڈ اچھی کردو ۔۔ دئیے پچھلے سارے درد بھول جائے گا ۔۔
ہاں وہ عیشا جب میں کوئی اس کا کام کرتا تھا تو پیار نچھاور کرتی تھی ، لیکن اب تو لمحمہ لمحمہ میرے لئے میسر تھی ۔۔۔
سوچ رہا تھا کاش تمُ لوگ تندرستوں کے ساتھ اتنے پیار سے پیش آتے ۔۔نفرتوں کو ختم کرکے ، اناؤں کو مٹا کے رہتے تو شاید کوئی بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہی نہ ۔۔
اسی سوچ میں آج آنکھ لگ گئی آدھی رات کو کھلی ، سسکیوں کی آوازوں کو سنا ۔۔ انایا میرے بیڈ کے قریب مصلہ بچھائے رو کے دعاؤں میں مصروف تھی۔۔ وہ سمجھ رہی تھی شاید میں سویا ہوں ۔۔
کہہ رہی تھی
یااللہ جی اس کے بنا نہیں جی سکتے ہم
یااللہ اپنی رحمت فرما ئیں ۔۔ یا اللہ ان کے سارے درد مجھے دے دیں ۔۔ ان کی بیماری مجھے دے دیجیے ۔۔ وہ اتنے درر نہیں برداشت کر سکتا ۔۔ میری جاں کا صدقہ ھے ان کو ٹھیک کردیں ۔۔
دل پھٹ رہا تھا ۔۔ وہ رشتہ جسے میں نے کبھی اہمیت ہی نہ دی ۔۔ ہاں یہ سچ ھے جس اہمیت اور عزت کی وہ حق دار تھی۔۔وہ کبھی نہ دی ۔۔ میں نے تو کبھی صحیح منہ سے بلایا بھی کبھی نہ تھا۔۔
سوچ رہا تھا کچھ لوگ جان دینے کے دعوے کرتے ہیں اور اب سکون سے سو رہے ہوں گے ۔ اور کچھ لوگ پوری زندگی یوں خاموشی سے بنا کسی صلے کے محبت کرتے ہیں اور آج جان تک پیش کر رہے ہیں ۔۔
شام کو اچانک میری بے چینی بڑھ گئی ۔۔پورا جسم پسینے سے شرابور تھا ۔۔جیسے سفر کا اختتام ہونے والا ہو ۔۔ اماں بے چینی سے بھاگ رہی تھیں ۔۔پھر ایک دم سے خود کو اپنے وجود سے نکلتا ہوا محسوس کیا ، جیسے ہوا میں اڑ رہا ہوں ۔۔
میری روح میرے وجود سے آزاد ہوگی تھی۔۔ اور فضا میں معلق تھی۔۔اور اپنے بے حس وحرکت وجود کو دیکھ سکتی تھی۔۔
میرے وجود سے لپٹی انایا ۔۔ گم سم حیرت میں ڈوبی اماں ۔۔پتہ نہین رو کیوں نہیں رہی تھیں ۔۔ ابو تو سب کے سامنے رو رہے تھے۔۔
سب رشتے دار اکٹھے ۔۔میری روح حیراں تھی کہ وہ لوگ بھی آئےہیں جن کو کبھی اپنے در پہ نہ دیکھا تھا۔۔ روٹھے رشتے بھی ۔۔ مصروف سے مصروف تر لوگ بھی ۔۔جن کے پاس ایک منٹ نہ تھا کیسے آج میرے جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔
آج میری روح فضاؤں میں معلق تھی ۔۔ آج تو اسے لوگوں کی سوچوں تک رسائی دے دی گئی تھی ۔۔
امر کو جب میری موت کی خبر ملی وہ کرکٹ کھیل رہا تھا ۔۔ اس کی آنکھیں نم ہوگئ تھیں ۔ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ جاؤں یا نہ جاؤں ؟؟ عبداللہ تو اب رہا نہیں
نہیں امر !! میں ہوں نہ ہوں ۔۔ میرا وجود تو پڑھا ھے نا ۔۔ آپ کو جانا ہوگا ۔۔ مجھے آخری بار دیکھنے نہیں جاؤ گے ۔۔؟؟
امر آپ کا اور میرا تعلق تو دوسروں سے ہٹ کے تھا نا ۔۔
امر اٹھیں ۔۔میری روح اسے جھنجھوڑرہی تھی ۔۔میرے تین سال کے تعلق کا اتنا تو حق ھے کہ امر آپ جاؤ ۔۔ میرے جنازے میں ۔۔آپ ایسے کیسےکر سکتے ہیں آپ بھول نہیں سکتے وہ ہمارا شام کو کالج کی سڑکوں پہ پھرنا ۔۔وہ ہوسٹل کی شوخیاں ۔۔ لیکن امر نہ گیا ۔۔ہاں ایک بات اس نے میرے لئے میچ چھوڑدیا تھا۔۔
لیکن خیر ھے ۔۔ امر نہیں تو ۔۔ ایک اور ھے ۔۔ جس کیلئے میں لمحمہ لمحمہ میسر رہا تھا ۔۔ وہ عیشا تو ضرور آئے گئ ۔۔ میری روح جب بھٹکتی ہوئی اس کے پاس پہنچی ۔۔شاید عیشا کو میری موت کی خبر مل چکی تھی ۔۔ تبھی تو آنکھیں سوجھی تھیں ۔۔ ناک سرخ ۔۔ ہوسٹل کی چھت پہ آکے تنھا بیٹھی تھی ۔۔ آسمان کو گھورتے ہوئے روتے ہوئے کہہ رہی تھی " عبداللہ آپ نے اچھا ذرا بھی نہیں کیا ۔۔ آپ کو پتہ تھا کہ میرا اور کوئی نہ تھا ۔۔ پورے کالج میں آپ میرے اکلوتے تھے ۔۔
اب میرے پہ نماز کیلئے سختی کون کرے گا ؟؟
کون مجھے ڈانٹے گا جب ابایا کے بنا کالج آوں گی ؟؟
عبداللہ بتائیں مجھے ؟؟ میرے پریشان ہونے پہ مجھے جوک کون سناۓ گا ۔۔۔ کس کے سہارے مجھے چھوڑ کے چلے گئے ہیں ؟؟
رو رو کے جب تھک گئ عیشا تو روم جانے لگی۔۔
نہیں عیشا !! آپ تو جائیں گے ۔۔ میرا وجود اکیلاھے ۔۔ امی کو حوصلہ دینے تو چلی جائیں ۔ انایا کو تھامنے چلی جائیں ۔۔ وہ بچاری تو رونا بھول بیٹھی ھے
عیشا کیا ہمارا تعلق صرف سانسوں سے جڑا تھا ۔۔ آپ کا اور میراتعلق تو روح کی گہرائیوں تک موجود تھا ۔۔آخری بار میری سلامتی کی دعا کرنے آپ کو تو جانا ہو گا ۔۔لیکن عیشا بھی جاکےسو گئی۔۔بڑے بڑے دعوے دار آج آزمائے جا رہے تھے ۔۔
آج پانچواں دن تھا میری روح کو یوں بھٹکتے ۔۔ان پانج ہی دنوں میں مجھ پہ یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی ۔۔ دنیا کے وہ کام جن کو اپنے وجود کے بنا ناممکن سمجھتا ،سب ویسے کے ویسے ہو رہے تھے ۔۔
کچھ دن تو لوگ مجھے یاد کرتے رہے ۔۔امر تو دو دن کالج بھی نہ آیا تھا ۔۔ کافی پریشان رہا ۔ اس کی دعاؤں میں بھی اکثر میرا ذکر ہوتا تھا ۔۔لیکن اب تو وہ گھل مل رہا تھا سب لوگوں میں۔۔ پھر وہ وقت آیا وہ بھی مجھے کبھی کبھی یاد کرنے لگا ۔۔ خاص موقعوں پہ ۔۔ اس نے روم بھی تبدیل کر لیا تھا ۔۔ میری پینٹنگز بھی اتار کے اپنے نئے روم میں نہ لے کے گیا ۔۔وہ تو کہتا تھا آپ نہ ہوتے تو میرا کالج میں دل ہی نہیں لگنا تھا اب کیسے دل لگا لیا تھا اس نے ؟؟
اور وہ عیشا کچھ دن تو اداس رہی تھی ۔۔ تنھائی میں مجھے یاد کرکے روتی بھی تھی ۔۔ کچھ دن تو میری روح کی سلامتی کی بہت دعائیں مانگی انھوں نے ۔۔
لیکن آہستہ آہستہ میرا ذکر اس کی دعاؤں سے جا رہا تھا ۔۔
اور کچھ دنوں میں تو میری روح یہ محسوس کر رہی تھی ، کہ جیسے کوئی کمی بھی نہیں ہوئی ان کی دنیا میں میرے چلے جانے سے ۔۔۔
شروع شروع میں تو باقی کلاس فیلو میرا ذکر کرتے تھے ۔۔ ایک دن تو سب نے مل کے میرے روح کے آرام کیلئے سورۃ فاتحہ بھی پڑھی ۔۔۔لیکن پتہ نہیں اتنا جلدی پھر میں کیسے ماضی کا قصہ بن گیا
پھر کبھی کبھی مجھے یاد کیا جانے لگا ۔۔ ہاں کبھی کرکٹ میچ کے دوراں یاد کر لیتے تھے ۔۔ والی بال کھیلتے تو اکثر میرا ذکر ملتا تھا ۔۔ آج جب شہزاد تین میچ ہار گیا تو ثناءالرحمٰن سے کہہ رہا تھا " عبداللہ ہوتا تو کبھی نہ ہارتا ، اصل میں میرا کھلاڑی بے وفا نکلا ۔۔ چھوڑ کے چلا گیا ۔۔ اس کی آواز بھی بھرا گئی تھی ۔۔ میری روح کو سکوں ملا کہ چلو کسی کو تو یاد ہوں ۔۔ وقت گزرتا تھا ۔۔ محفلوں میں میرا ذکر نہ ہونے کے برابر رہ گیا ۔۔ وہ ساری محفلیں اب بھی ویسی ہی سجتی تھیں ۔۔ جن کا کبھی میں روحِ رواں ہوتا تھا ۔۔۔
ہاں کبھی کبھی مجھے یاد اب بھی کرتے تھے ۔۔ اس وقت جب پھر وہی کام پڑتا ان کو ، جو کبھی میں نے ان کا کیا تھا ۔۔ اب میرا وجود تو تھا نہیں ۔۔ ان کے مفادات اب اوروں سے پورے ہونے لگے تھے ۔۔ اب میں ان کو کیسے یاد آسکتا تھا ۔۔ یہاں رشتے مفادات سے جڑے ملیں گے آپ کو ۔۔ روح کے ساتھ تعلق بنانے کا رواج نہیں ھے یہاں۔۔
عیشا تو بالکل بھول گئ تھی جیسے ۔۔ وہ ہنسی جو مجھے لگتا تھا میرے دم سے ھے ان کے چہرے پہ ۔۔ اب بھی تھی ۔۔ کافی ماڈرن ہوگئ تھی ۔۔ فائینل ائر میں ابایا کے بنا کالج آنے لگی تھیں ۔۔ میرے سے کئے سارے وعدے بھلادئے تھے ۔۔ ۔آج تو میری روح تڑپ اٹھی ۔۔ جب عیشا کی رومیٹ نے کہا کہ عبداللہ ہوتا تو آپ کو یہ پروبلم کبھی پیش نہ آتا ۔۔
کونسا عبداللہ ؟؟
اچھا اچھا وہ عبداللہ ۔۔ بچارہ ۔۔
اور امر کو بھی کچھ یاد نہ رہا تھا ۔۔ نہ ہمارا مل کے وہ افطاری کرنا ۔۔اور نہ وہ منتیں جو سحری ٹائم ان کی کر کے اٹھاتا تھا ۔۔
پہلی بات تو مجھے پتہ تھا کہ جن محبتوں کا میں شیدائی ہوا پھرتا ہوں یہ سب وقتی ہیں ۔۔ اور مفادات سے جڑی ہیں ۔۔ اور تم لوگوں نے میرے وجود سے ہی تھک جانا تھا ۔۔
لیکن دیکھو ، میرے وجود کے فنا نے تمھاری یہ لاج رکھ لی ۔۔ لیکن میری روح کے ساتھ بھی تو تم رشتہ نہ نبھا سکے ۔۔ میرے وجود نے تمھاری لاج رکھی تھی ۔۔ کاش میری روح کی لاج تم سب رکھ لیتے ۔۔
ہاں اگر اس عرصے میں کسی کو فرق پڑا تھا تو وہ اماں تھیں ۔۔ جس نے چپ ہی سادھ لی تھی ۔۔ دنیا کی کسے چیز میں دلچسپی ہی نہ رہی ۔۔ جیسے ان کی دنیا ہی میں تھا ۔۔۔
ہاں فرق پڑا تھا تو وہ انایا تھی ۔۔ جو آج بھی اسی شدت سے میری منتظر تھی ۔۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ میری جدائی کا زخم گہرا ہو رہا تھا جیسے ۔۔۔ مجھے نہیں لگتا تھا وہ مجھے کبھی بھول پائے گی ۔۔۔ اور ابا ۔۔ چھوٹے بچوں کی طرح انایا کے گلے لگ کے رو پڑتے تھے ۔۔۔ وقت سے پہلے بوڑھے ہوگئے تھے
ان لوگوں نے تو کبھی دعوے نہیں کئے تھے ۔۔ پھر ان کی دنیا میرے بنا کیوں اجڑ گئی تھی ۔۔ لیکن میری ذات تو دعوؤں کی شوقین تھی نا ۔۔ جو انایا کے کے خاموش پیار کو نہ سمجھ سکی ۔۔ اماں کی دعاؤں کے اثر کو نہ سمجھ سکی ۔۔ بابا کی سختی میں چھپا پیار نہ تلاش کر سکی ۔۔ کاش میری روح میرے وجود میں لوٹ سکتی ۔۔ تو سارے کے سارے حق ادا کرتا ۔۔
آج ابو میرے کمرے میں گئے تو میری تصویر کو دیکھ کے کہہ رہے تھے ۔۔ عبداللہ آپ نے اچھا نہیں کیا ۔۔ پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑ گئے میرے لئے ۔۔
اب بس ہوگئی تھی ۔۔ میری روح سے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا ان کا یہ ہر وقت میرے لئے تڑپنا ۔۔ اور دوسری طرف ان لوگوں کی بے حسی جن کیلئے ہر لمحمہ میسر کیا خود کو ۔۔ ان کی یہ بے حسی میری روح کو گھائل کر رہی تھی ۔۔
اور اُن کا میرے لئے تڑپنا ، جن کیلئے میرے پاس وقت بھی نہ تھا ، ہر وقت میری روح کو پشیمانی کی موت مار رہا تھا ۔
بیماریاں وجود کو ختم کرتی ہیں ۔۔لیکن لوگوں کی بے حسی روح کو مار دیتی ھے ۔۔ میری روح گُھٹ گُھٹ کے مر رہی تھی ۔۔ اسے بھی اب لوٹنا تھا اپنے اصلی مقام کی طرف ۔۔ لوٹتے وقت بہت سے پچھتاوے تھے ، شرمندگیاں تھیں ۔۔ کہ کاش جس ذات نے سانسیں دی تھیں ، جس نے بن مانگے اتنا نوازا تھا ، کاش کچھ محبت اس سے بھی کی ہوتی۔۔ اس ذات کے بھی حق ادا کئے ہوتے ، اس کی رضا کیلئے زندگی گزاری ہوتی ، تو وہ ذات آج میری روح کو بھی پکارتی ،
"يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ
(اے اطمینان پانے والی روح!)
ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً
(اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی)
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي
(تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا)
وَادْخُلِي جَنَّتِي
(اور میری بہشت میں داخل ہو جا)
"اور میری روح اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتی اور سکون پا جاتی ، اطمینان پا جاتی
copied

22/03/2024

کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ سخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔

میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔

کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔ کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد اسے اپنی جیت اور عورت اپنی جیت کا نام دیتی ہے۔
اور اگلی بار ایک نیا شکار ہوتا ہے۔۔
پہلی بار گناہ ہر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک ٹیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا

یہ وہ وقت ہوگا جس ایمان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔
مگر دوسری بار یہ شدت کم ہو جائے گی۔ اور پھر ختم۔

پھر انسان مست رہتا ہے۔ اور خوش بھی۔ مگر افسوس کہ اوپر والا اس سے اپنا تعلق قطع کر لیتا ہے۔۔
گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا اور آسان بھی، مگر یاد رکھیے سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی مگر گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا۔۔
کسی زمین میں گندم خود بخود نہیں اگ آتی۔ آگائی جاتی ہے۔ محنت کی جاتی ہے، خیال کیا جاتا ہے، حفاظت کی جاتی ہے تب جا کے پھل ملتا ہے مگر کسی زمین میں جھاڑیاں، غیر ضروری گھاس پھوس ، کانٹے دار پودے خود ہی اگتے ہیں۔ ان پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، وہ خود ہی اگتی ہیں اور کچھ ہی دنوں میں پوری زمین کو لپیٹ میں لیکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔۔

اسی طرح بالکل آپکے دل کی زمین ہے جہاں گناہوں کا تصور از خود پیدا ہوگا۔ اور بڑھے گا۔ مگر نیکیوں کے لیے گناہوں سے بچنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔۔ دشواریوں سے گذرنا ہوگا۔۔

خدارا اس لعنت سے بچیں ۔ اس میں ملوث ہونا کوئی کمال نہیں،
بچنا کمال ہے۔۔ باز رہنا کمال ہے۔ سوچیے ، نکلیے اس گناہ سے
کیوں حیا کا اٹھ جانا۔ ایمان اٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا ہے۔

خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔
آمین۔

21/03/2024

سیرت النبی ﷺ
باب(قسط)34
عنوان: قتل کی سازش

انہوں نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑی اور بولے:
"اے ابوسلمہ! تم اپنے بارے میں اپنی مرضی کے مختار ہو مگر ام سلمہ ہماری بیٹی ہے،ہم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ۔"
یہ کہہ کر انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کے اونٹ کی لگام کھینچ لی۔اسی وقت ابوسلمہ کے خاندان کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور بولے:
" ابوسلمہ کا بیٹا ہمارے خاندان کا بچہ ہے۔جب تم نے اپنی بیٹی کو اس کے قبضے سے چھڑا لیا تو ہم بھی اپنے بچے کو اس کے ساتھ نہیں جانے دین گے۔"
یہ کہہ کر انہوں نے بچے کو چھین لیا۔اس طرح ان ظالموں نے حضرت ابوسلمہ رضی الله عنہ کو ان کی بیوی اور بچے سے جدا کردیا۔ابوسلمہ رضی الله عنہ تنہا مدینہ منوره پہونچے۔
ام سلمہ رضی الله عنہا شوہر اور بچے کی جدائی کے غم میں روزانہ صبح سویرے مکہ سے باہر مدینہ منورہ کی طرف جانے والے راستے میں جاکر بیٹھ جاتیں اور روتی رہتیں۔ایک دن ان کا ایک رشتے دار ادھر سے گزرا۔ اس نے انہیں روتے دیکھا تو ترس آگیا۔وہ اپنی قوم کے لوگوں میں گیا اور ان سے بولا:
" تمہیں اس غریب پر رحم نہیں آتا...اسے اس کے شوہر اور بچے سے جدا کردیا، کچھ تو خیال کرو۔"
آخر ان کے دل پسیج گئے۔انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا کو جانے کی اجازت دے دی۔یہ خبر سن کر ابوسلمہ رضی الله عنہ کے رشتہ داروں نے بچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ بچہ کو لے کر مدینہ چلی جائیں۔اس طرح انہوں نے مدینہ کی طرف تنہا سفر شروع کیا۔راستے میں حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا ملے۔یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، کعبہ کے چابی برادر تھے۔یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔یہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کے اونٹ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں قبا میں پہنچا دیا۔پھر حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے: " تمہارے شوہر یہاں موجود ہیں۔"
اس طرح ام سلمہ رضی الله عنہا مدینہ پہنچی۔آپ پہلی مہاجر خاتون ہیں جو شوہر کے بغیر مدینہ آئیں۔حضرت عثمان بن طلحہ رضی الله عنہا نے انہیں مدینہ پہنچا کر جو عظیم احسان کیا تھا،اس کی بنیاد پر کہا کرتی تھیں:
" میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ نیک اور شریف کسی کو نہیں پایا۔"
اس کے بعد مکہ سے مسلمانوں کی مدینہ آمد شروع ہوئی۔صحابہ کرام رضی الله عنہم ایک کے بعد ایک آتے رہے۔انصاری مسلمان انہیں اپنے گھروں میں ٹھراتے۔ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔حضرت عمر رضی الله عنہ اور عیاش بن ابو ربیعہ رضی الله عنہ بیس آدمیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ پہنچے۔حضرت عمر رضی الله عنہ کی ہجرت خاص بات یہ ہے کہ مکہ سے چھپ کر نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ اعلان کرکے نکلے۔انہوں نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا،پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی،اس کے بعد مشرکین سے بولے:
" جو شخص اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے،اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے یا اپنی ماں کی گود ویران کرنا چاہتا ہے...وہ مجھے جانے سے روک کر دکھائے۔"
ان کا یہ اعلان سن کر سارے قریش کو سانپ سونگھ گیا۔کسی نے ان کا پیچھا کرنے کی جرات نہ کی۔وہ بڑے وقار سے ان سب کے سامنے روانہ ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بھی ہجرت کی تیاری کررہے تھے۔ ہجرت سے پہلے وہ آرزو کیا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ وہ روانگی کی تیاری کرچکے تھے ایک دن حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا:
" ابوبکر! جلدی نہ کرو، امید ہے، مجھے بھی اجازت ملنے والی ہے۔"
چنانچہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ رک گئے۔ انہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں تیار کر رکھی تھی۔انہوں نے ان دونوں کو آٹھ سو درہم میں خریدا تھا اور انہیں چار ماہ سے کھلا پلا رہے تھے۔
ادھر مشرکین نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان مدینہ ہجرت کرتے جارہے ہیں اور مدینہ کے رہنے والے بڑے جنگ جو ہے...وہاں مسلمان روز بروز طاقت پکڑتے چلے جائیں گے تو انہیں خوف محسوس ہوا کہ الله کے رسول بھی کہیں مدینہ نہ چلے جائے اور وہاں انصار کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کی تیاری نہ کرنے لگیں...تو وہ سب جمع ہوئے...اور سوچنے لگے کہ کیا قدم اٹھائیں۔
یہ قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے۔دارالندوہ ان کے مشورہ کرنے کی جگہ تھی۔یہ پہلا پختہ مکان تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا۔قریش کے اس مشورے میں شیطان بھی شریک ہوا۔وہ انسانی شکل میں آیا تھا اور ایک بوڑھے کے روپ میں تھا، سبز رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔وہ دروازے پر آکر ٹھر گیا۔اسے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا:
" آپ کون بزرگ ہیں۔"
اس نے کہا:
" میں نجد کا سردار ہوں۔آپ لوگ جس غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں، میں بھی اسی کے بارے میں سن کر آیا ہوں تاکہ لوگوں کی باتیں سنوں اور ہوسکے تو کوئی مفید مشورہ بھی دوں۔"
اس پر قریشیوں نے اسے اندر بلالیا۔اب انہوں نے مشورہ شروع کیا۔ان میں سے کوئی بولا:
" اس شخص( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم)کا معاملہ تم دیکھ ہی چکے ہو،الله کی قسم!اب ہر وقت اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ اپنے نئے اور اجنبی مددگاروں کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کرے گا،لہذا مشورہ کرکے اس کے بارے میں کوئی ایک بات طے کرلو۔"
وہاں موجود ایک شخص ابوالبختری بن ہشام نے کہا:
" اسے بیڑیاں پہنا کر ایک کوٹھری میں بند کردو اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک انتظار کرو،تاکہ اس کی بھی وہی حالت ہوجائے جو اس جیسے شاعروں کی ہوچکی ہے اور یہ بھی انہی کی طرح موت کا شکار ہوجائے۔"
اس پر شیطان نے کہا:
" ہرگز نہیں!یہ رائے بالکل غلط ہے۔یہ خبر اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گی،وہ تم پر حملہ کردیں گے اور اپنے ساتھی کو نکال کر لے جائیں گے...اس وقت تمہیں پچھتانا پڑے گا،لہذا کوئی اور ترکیب سوچو۔"
اب ان میں بحث شروع ہوگئ۔اسود بن ربیعہ نے کہا:
" ہم اسے یہاں سے نکال کر جلاوطن کردیتے ہے...پھر یہ ہماری طرف سے کہیں بھی چلا جائے۔"
اس پر نجدی یعنی شیطان نے کہا:
" یہ رائے بھی غلط ہے۔تم دیکھتے نہیں،اس کی باتیں کس قدر خوب صورت ہیں،کتنی میٹھی ہیں۔وہ اپنا کلام سناکر لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔الله کی قسم! اگر تم نے اسے جلاوطن کردیا تو تمہیں امن نہیں ملے گا۔ یہ کہیں بھی جاکر لوگوں کے دلوں کو موہ لے گا۔ پھر تم پر حملہ آوار ہوگا...اور تمہاری یہ ساری سرداری چھین لے گا... لہذا کوئی اور بات سوچو۔"
اس پر ابوجہل نے کہا:
" میری ایک ہی رائے ہے اور اس سے بہتر رائے کوئی نہیں ہوسکتی۔"
سب نے کہا:
" اور وہ کیا ہے۔"
ابوجہل نے کہا:
" آپ لوگ ہر خاندان اور ہر قبیلےکا ایک ایک بہادر اور طاقتور نوجوان لیں۔ہر ایک کو ایک ایک تلوار دیں۔ان سب کو محمد پر حملہ کرنے کے لیے صبح سویرے بھیجیں۔وہ سب ایک ساتھ اس پر اپنی تلواروں کا ایک بھرپور وار کریں...اس طرح اسے قتل کردیں۔اس سے ہوگا یہ کہ اس کے قتل میں سارے قبیلے شامل ہوجائیں گے،لہذا محمد کے خاندان والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ان سب سے جنگ کریں...لہذا وہ خون بہا( یعنی فدیے کی رقم)لینے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ ہم انہیں دے دیں گے۔"
اس پر شیطان خوش ہوکر بولا:
" ہاں! یہ ہے اعلیٰ رائے...میرے خیال میں اس سے اچھی رائے کوئی اور نہیں ہوسکتی۔"
چنانچہ اس رائے کو سب نے منظور کرلیا۔ الله تعالٰی نے فوراً جبرئیل علیہ السلام کو حضور اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔انہوں نے عرض کیا:
" آپ روزانہ جس بستر پر سوتے ہیں،آج اس پر نہ سوئیں۔"
اس کے بعد انہوں نے مشرکین کی سازش کی خبر دی، چنانچہ سورۃ الاانفال کی آیت ۳۰ میں آتا ہے:
" ترجمہ: اور اس واقعے کا بھی ذکر کیجئے،جب کافر لوگ آپ کی نسبت بری بری تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آیا آپ کو قید کرلیں،یا قتل کرڈالیں، یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور الله اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے مضبوط تدبیر والا الله ہے۔"
غرض جب رات ایک تہائی گزر گئی تو مشرکین کا ٹولہ حضور اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے گھر تک پہنچ کر چھپ گیا...وہ انتظار کرنے لگا کہ کب وہ سوئیں اور وہ سب یک دم ان پر حملہ کردیں۔ان کفار کی تعداد ایک سو تھی۔
ادھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"تم میرے بستر پر سو جاؤ اور میری یمنی چادر اوڑھ لو۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
"تمہارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔"
مشرکوں کے جس گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کو گھیر رکھا تھا، ان میں حکیم بن ابوالعاص، عقبہ بن ابی معیط، نصر بن حارث، اسید بن خلف، زمعہ ابن اسود اور ابوجہل بھی شامل تھے۔ ابوجہل اس وقت دبی آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:
"محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے، اگر تم اس کے دین کو قبول کرلو گے تو تمہیں عرب اور عجم کی بادشاہت مل جائے گی اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی اور وہاں تمہارے لیے ایسی جنتیں ہوں گی، ایسے باغات ہوں گے جیسے اردن کے باغات ہیں، لیکن اگر تم میری پیروی نہیں کرو گے تو تم سب تباہ ہو جاؤ گے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تمہارے لئے وہاں جہنم کی آگ تیار ہوگی اس میں تمہیں جلایا جائے گا۔"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے یہ الفاظ سُن لیے، آپ یہ کہتے ہوئے گھر سے نکلے:
"ہاں! میں یقیناً یہ بات کہتا ہوں۔"
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: یٰسن۔ قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک آپ پیغمبروں کے گروہ میں سے ہیں، سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن زبردست اللہ مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (پہلے تو) ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے سو اسی سے یہ بے خبر ہیں، اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں، پھر وہ ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں، جس سے ان کے سر اوپر کو اٹھ گئے ہیں اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی ہے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی ہے جس سے ہم نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے سووہ دیکھ نہیں سکتے۔"
یہ سورۃ یٰسین کی آیات 1 تا 9 کا ترجمہ ہے ۔ ان آیات کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کفار وقتی طور پر اندھا کردیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سامنے سے جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو مٹی پھینکی تھی وہ ان سب کے سروں پر گری، کوئی ایک بھی ایسا نہ بچا جس پر مٹی نہ گری ہو۔
جب قریش کو پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سروں پر خاک ڈال کر جا چکے ہیں تو وہ سب گھر کے اندر داخل ہوئے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے:
"خدا کی قسم یہ تو اپنی چادر اوڑھے سو رہے ہیں لیکن جب چادر الٹی گی تو بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ مشرکین حیرت زدہ رہ گئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "تمارے صاحب کہاں ہیں؟"
مگر اُنھوں نے کچھ نہ بتایا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مارتے ہوئے باہر لے آئے اور مسجد حرام تک لائے، کچھ دیر تک انہوں نے انہیں روکے رکھا، پھر چھوڑ دیا۔
اب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ انہوں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:
"میرے ساتھ دوسرا ہجرت کرنے والا کون ہوگا؟"
جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
"ابوبکر صدیق ہونگے۔"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک چادر اوڑھے ہوئے تھے اسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے ہیں اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اُٹھے:
" اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقیناً کسی خاص کام سے تشریف لائے ہیں۔"
پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی چارپائی پر بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"دوسرے لوگوں کو یہاں سے اٹھا دو۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! یہ تو سب میرے گھر والے ہیں۔"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔"
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً بول اٹھے:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ کے ساتھ جاؤں گا؟"
جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ہاں! تم میرے ساتھ جاؤ گے -"
یہ سنتے ہی مارے خوشی کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا تو حیران ہوئی... اس لیے کہ میں اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ انسان خوشی کی وجہ سے بھی رو سکتا ہے -
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ ان دونوں اونٹنیوں میں سے ایک لے لیں، میں نے انہیں اسی سفر کے لیے تیار کیا ہے -"
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں یہ قیمت دے کر لے سکتا ہوں -"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! میں اور میرا سب مال تو آپ ہی کا ہے -"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اونٹنی لے لی -
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی کی قیمت دی تھی - اس اونٹنی کا نام قصویٰ تھا - یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک آپ کے پاس ہی رہی - حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اس کی موت واقع ہوئی -
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں اونٹنیوں کو جلدی جلدی سفر کے لیے تیار کیا - چمڑے کی ایک تھیلی میں کھانے پینے کا سامان رکھ دیا - حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر پھاڑ کر اس کے ایک حصے سے ناشتے کی تھیلی باندھ دی - دوسرے حصے سے انہوں نے پانی کے برتن کا منہ بند کردیا - اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ تمہاری اس اوڑھنی کے بدلے جنت میں دو اوڑھنیاں دے گا۔"
اوڑھنی کو پھاڑ کر دو کرنے کے عمل کی بنیاد پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ذات النطاقین کا لقب ملا یعنی دو اوڑھنی والی۔یاد رہے کہ نطاق اس دوپٹے کو کہا جاتا ہے جسے عرب کی عورتیں کام کے دوران کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں۔
پھر رات کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اور پہاڑ ثور کے پاس پہنچے۔ سفر کے دوران کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"ابوبکر ایسا کیوں کر رہے ہو؟"
جواب میں انہوں نے عرض کیا:
"اللہ کےرسول! میں اس خیال سے پریشان ہوں کہ کہیں راستے میں کوئی آپ کی گھات میں نہ بیٹھا ہو۔" اس پہاڑ میں ایک غار تھا۔ دونوں غار کے دھانے تک پہنچے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:
"قسم اُس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا۔ آپ ذرا ٹھریے!میں پہلے غار میں داخل ہوں گا، اگر غار میں کوئی موذی کیڑا ہوا تو کہیں وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا دے…”
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے غار کو ہاتھوں سے ٹٹول کر دیکھنا شروع کیا۔ جہاں کوئی سوراخ ملتا اپنی چادر سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کو بند کر دیتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تالیف: عبداللہ فارانی

Address

Abu Dhabi

Telephone

+923060419617

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu StOries posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu StOries:

Videos

Share