Zamatv

Zamatv Enjoy The and share your with us. Love Yew Fans! Muhhhhaaawww! :* :D

1959 میں، بیلجیئم کے ہیلی کاپٹر پائلٹ کرنل ریمی وین لیئرڈ نے کانگو میں گشت کے دوران ایک حیرت انگیز تصویر لی، جس کے بارے ...
24/04/2025

1959 میں، بیلجیئم کے ہیلی کاپٹر پائلٹ کرنل ریمی وین لیئرڈ نے کانگو میں گشت کے دوران ایک حیرت انگیز تصویر لی، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں ایک دیوقامت سانپ دکھائی دیتا ہے۔

ان کے بیان کے مطابق، انہوں نے تقریباً 50 فٹ (15 میٹر) لمبے سانپ کو دیکھا جو گہرے بھورے یا سبز رنگ کا تھا، اور اس کا پیٹ سفید تھا۔ اس کے سر کی شکل مثلثی تھی اور اندازاً 3 از 2 فٹ کی جسامت کا تھا۔ جب وہ ہیلی کاپٹر کو نیچے لائے تاکہ قریب سے دیکھ سکیں، تو سانپ نے تقریباً 10 فٹ (3 میٹر) تک اوپر اٹھ کر حملے کی پوزیشن اختیار کی، جیسے ہیلی کاپٹر پر جھپٹنے والا ہو۔

وین لیئرڈ نے جو تصویر لی، وہ بعد میں کچھ افراد کے مطابق مستند مانی گئی، مگر اتنے بڑے سانپ کی شناخت اور موجودگی آج تک ثابت نہیں ہو سکی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شاید ایک بڑا ریٹی کیولیٹڈ پائتھون ہو سکتا ہے، جو دنیا کے طویل ترین سانپوں میں سے ایک ہے اور اوسطاً 20 فٹ (6 میٹر) تک لمبا ہوتا ہے۔

سائنسی لحاظ سے، اتنے بڑے جدید سانپ کی موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، مگر قدیم دور کے ریکارڈز میں ٹائٹانوبوا نامی دیوقامت سانپ کا ذکر ملتا ہے، جو اب تک دریافت ہونے والا سب سے لمبا اور وزنی سانپ تھا۔ 2009 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، ٹائٹانوبوا تقریباً 4 کروڑ سال پہلے ایوسین دور میں پایا جاتا تھا اور 45 سے 50 فٹ تک لمبا ہو سکتا تھا۔ اگرچہ وین لیئرڈ کی کہانی ایک معمہ بنی ہوئی ہے، لیکن یہ آج بھی دور دراز علاقوں میں چھپے رازوں کے بارے میں قیاس آرائیوں اور تجسس کو ہوا دیتی ہے۔

یہ تصویر 1972 میں آئرلینڈ میں میں لی گئی تھی جس میں ایک لڑکی اپنے منگیتر کی بندوق سے گولی چلا رہی ہے، جو برطانوی فوج کے ...
18/04/2025

یہ تصویر 1972 میں آئرلینڈ میں میں لی گئی تھی جس میں ایک لڑکی اپنے منگیتر کی بندوق سے گولی چلا رہی ہے، جو برطانوی فوج کے خلاف لڑائی میں زخمی ہو گیا تھا۔

اس کا زخمی منگیتر بچ گیا تھا کیوں کہ اسے کار کے ذریعے محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا تھا جبکہ اس کی منگیتر برطانوی فوجیوں سے برابر مقابلہ کرتی رہی یہاں تک کہ وہ ماری گئی۔ جب انگریز سپاہیوں کی بٹالین کے کمانڈر کو معلوم ہوا کہ وہ اب تک ایک عورت سے لڑ رہے تھے، تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی لاش کو ہاتھ نہ لگائیں اور ایک آئرش قوم سے تعلق رکھنے والے کو اسے دفن کرنے کی اجازت دے دی، اور کہا:
"ہم ایک ایسی شہزادی سے لڑ رہے تھے جو ہماری نفری اور جنگی سامان کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ .. اور یہ لڑکی اپنے منگیتر اور اپنی زمین آئرلینڈ کے دفاع میں ہمارے ساتھ لڑ رہی تھی-"

بعد میں اس تصویر کو آئرلینڈ میں یوم خواتین کے لیے چنا گیا اور اس پر انہوں نے چی گویرا کا ایک لافانی جملہ لکھا:
’’ایک مضبوط عورت کی صحبت میں رہنے سے کبھی مت ڈرو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے جب وہ تمہاری واحد فوج ہو گی۔‘‘
(کاپی)

دنیا کا سب سے قدیم بصری دھوکا Optical Illusion انڈیا  کے صوبے تامل ناڈو کے ایراوتیشورا مندر میں دنیا کے قدیم ترین بصری  ...
17/04/2025

دنیا کا سب سے قدیم بصری دھوکا Optical Illusion

انڈیا کے صوبے تامل ناڈو کے ایراوتیشورا مندر میں دنیا کے قدیم ترین بصری دھوکے کی چیز میں سے ایک پتھریلا نقش ہے۔ یہ نقش ، جو تامل چولا فنِ تعمیر کا قابل ذکر نمونہ بتاتیا جاتا ہے، دراصل 900 سال پرانا ہے۔ مذکورہ تصویر میں ایک بیل اور ایک ہاتھی کو ایک ہی سر بانٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

جب سیدھے ہاتھ کی جانب پر موجود جانور کے جسم اور ٹانگوں کو ہٹایا جائے تو الٹے ہاتھی کی طرف کی مخلوق، ہاتھی کی طرح دکھائی دیتی ہے، ہاتھی کی سونڈ ، بیل کی کمر پر رکھی ہوئی تھی، لیکن زمانہ کے گرد غبار کی وجہ سے یہ تھوڑی مٹ گئی تھی، لیکن ابھی بھی کچھ اسکی شبیہ باقی ہے۔ لیکن اگر ہاتھی کا جسم اور ٹانگیں چھپا دی جائیں تو بیل کا جسم اور اسکا سر باقی رہ جاتا ہے۔ یہ مجسمہ مبہم دماغی چھیڑ چھاڑ کی ایک سب سے قدیم مثال ہے۔


قدیم تامل ناڈو کے یہ راجہ، راجہ چولا دوم (راجیندر چولا) کی طرف سے تعمیر کردہ دارسوم مندر کا ایراوتیشورار (جہاں بہت سارے پتھروں کے مجسمے موجود ہوتے ہیں) 12ویں صدی کے چولا فن تعمیر کی ایک بہترین مثال ہے اور آج تک اچھی طرح سے محفوظ ہے۔ مندر کے سامنے والے کالموں میں کچھ منفرد چھوٹے مجسمے بھی ہیں۔ داراشورم ایک ریشم کی بنائی کا مرکز ہے، جہاں ریشمی ملبوسات کی خوبصورت بنائی و کپڑے تیار ہوتےتھے۔

بصری دھوکے صرف نظری چالیں نہیں ہوتی ہیں، بلکہ آج کے دور میں نیورلاجسٹ ان سے آپ کے ذہنی تصورات کا امتحان بھی لتیے ہیں۔ آپ جتنا زیادہ مشاہدہ کریں گے، اتنا ہی یہ بدل جائے گا،اور ہر دفعہ آپکو کچھ نئی امیج دکھائی دے گی۔ بالآخر یہ سب آپ کی توجہ کی مدت پر آتا ہے، کہ کتنی دیر آپ نے اس بصری دھوکے کو آبزرو کیا ہے۔

تحریر و تحقیق

آج سے بیس سال پہلے اس منڈی میں لی گئی تصویر کی کہانی۔ یہ چھوٹا بچہ میں ہوں اور ساتھ میں بیٹھا شخص میرا استاد جس سے منڈی ...
12/04/2025

آج سے بیس سال پہلے اس منڈی میں لی گئی تصویر کی کہانی۔ یہ چھوٹا بچہ میں ہوں اور ساتھ میں بیٹھا شخص میرا استاد جس سے منڈی کا بہت کچھ سیکھا۔

یہ کہانی ہے ایک ایسے لڑکے کی، جو خواب تو دیکھتا تھا آسمانوں کے، لیکن قدموں تلے کی زمین اکثر دلدل بن جاتی تھی۔
میرا نام عدنان مایار
میرا اور منڈی کا رشتہ کوئی عام سا قصہ نہیں، یہ ایک ایسا بندھن ہے جو زندگی کے کڑوے کسیلے تجربات سے باندھا گیا۔
سن 2005 تھا، جب میں پانچویں جماعت سے ہائی سکول میں داخل ہوا۔ دل میں خوشیوں کی بہار تھی، ماں کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک، اور والد صاحب کے چہرے پر فخر کی مسکراہٹ۔ مگر تقدیر کے فیصلے نرغہ ڈال چکے تھے۔

باپ کا سایہ اٹھا تو لگا جیسے وقت کا پہیہ اچانک بند ہو گیا ہو۔ ابھی تو میں اپنے خوابوں کی دیوار پر رنگ بھرنے ہی لگا تھا کہ قسمت نے ہاتھ سے برش چھین لیا۔ والد صاحب کے انتقال نے مجھے یوں جکڑ لیا جیسے طوفان کسی کمزور کشتی کو اپنے گھیرے میں لے لے۔
لیکن میں بکھرا نہیں۔ ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے ہمت باندھی اور منڈی کا رخ کرلیا۔
میری پہلی مزدوری: رات بھر ٹماٹر کی چھانٹی، صرف 30 روپے یومیہ۔ شاید رقم کم تھی، لیکن حوصلہ اس سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔

رات کی تاریکی میں جب دوسروں کے گھر کے چراغ بجھ جاتے، میں منڈی کی لالٹینوں کی روشنی میں اپنے خوابوں کی مشق کرتا۔
ٹماٹروں کی خوشبو، گاڑیوں کی چیخ پکار، اور مزدوروں کی آوازیں — سب کچھ میرے لیے ایک نئی دنیا کا آغاز تھا۔
گرمیوں کی تین مہینے کی چھٹیاں اتی تو میں منڈی میں حاضر ہوتا، سردیوں میں بھی جب چند دن کی چھٹیاں ملتی تھی، تو پھر منڈی کا رخ ہوتا۔ اور سکول کے دنوں میں گاؤں میں کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ یوں پڑھائی اور مزدوری کا سفر ساتھ ساتھ چلتا رہا۔

سکول میں میں ہمیشہ پوزیشن لیتا۔ چھٹی جماعت سے لے کر دسویں تک، میں نے پہلی پوزیشن کا پرچم تھامے رکھا۔ سکول کی دیواروں پر جب میرا نام چمکتا تھا، تو پسینے سے بھیگا میرا بدن اور تھکا چہرہ، ایک ان دیکھے سکون سے بھر جاتا۔
پھر مردان پوسٹ گریجویٹ کالج کا خواب، جو ہر نوجوان کی تمنا تھی، میرا بھی منزل بن گیا۔ اللہ کا شکر، میرا نام میڈیکل سٹوڈنٹس کی فہرست میں آ گیا۔

لیکن... زندگی ہمیشہ آسانی کا دوسرا رخ نہیں دکھاتی۔ ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا گیا، اور مجھے مردان چھوڑنا پڑا۔ اسلام آباد کے H-9 کالج میں بی کام میں داخلہ لیا۔ اکاؤنٹنگ میرے لیے اجنبی زبان تھی، مگر میں نے اس زبان کو بھی سیکھ لیا۔ یہاں تک کہ سالانہ امتحان میں، میں اپنے دوستوں کو پڑھانے لگا۔
میرا داخلہ ایچ ایٹ کامرس کالج میں ہو تھا مگر مارننگ شفٹ میں جانا مشکل ہوتا تھا کیونکہ پیٹ بھرنے کے لئے منڈی میں کام کرنا ضروری تھا

رات کا وقت منڈی کی خاک چھانتے گزرتا۔ ان دنوں پاک بھارت تجارتی راستے کھلے تھے، منڈیوں میں رونق عروج پر تھی۔ میں رات 8 بجے سے صبح 2 بجے تک آف لوڈنگ کرتا، پھر مختصر آرام کے بعد فجر کے وقت سے لے کر دن 10 بجے تک ٹماٹر بیچتا۔
اور پھر کالج کی راہ لیتا۔ اور یوں بی کام کا سفر کامیابی کے ساتھ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے مکمل ہوگیا۔ بی کام مکمل ہوتے ہی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ میں ایڈمیشن لیا اور ساتھ ہی فیڈرل اردو یونیورسٹی میں ماسٹر ان فنانس کا داخلہ مل گیا اور یوں یہ سفر بھی کامیابی کے ساتھ اپنے منزل تک پہنچ گیا۔ علم کی روشنی نے مزید علم کی بھوک بڑھادی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم ایڈ کا ایڈمیشن لیا اور کچھ مہینوں بعد رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایم فل فنانس کا داخلہ لیا اور یہ سفر بھی اللّٰہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے کامیاب رہا۔ اور اب الحمدللہ، پی ایچ ڈی فنانس کا سفر بھی نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے جاری ہے۔ میں نے کبھی تھکن کو راستے کی دیوار نہیں بننے دیا۔
منڈی کی مٹی میں پسینہ بہایا، ریڑھی کھینچی، ہوٹل پر کام کیا، لوڈنگ آف لوڈنگ کی، پیاز آلو مرچوں سے ہاتھ رنگے، مگر کبھی ہاتھ روکنے کا خیال نہیں آیا۔
میں نے ہمیشہ یقین رکھا کہ مزدوری میں عزت ہے، اور آج اس یقین کا پھل پا رہا ہوں۔

میری یہ کہانی ان نوجوانوں کے لیے ہے جو کاموں کو طبقوں میں بانٹ بیٹھے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ محنت کبھی چھوٹی نہیں ہوتی۔
بس شرط یہ ہے کہ منزل کے خواب سے نظر نہ ہٹے۔ راستے کٹھن ہوں گے، لیکن رب کریم راستے کھولتا جائے گا۔

اور سب سے بڑھ کر، اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ سب کا بے پناہ پیار دیا۔ یہی میری سب سے بڑی دولت ہے۔

اللّٰہ آپ سب کو سلامت رکھے، آپ کی دعاؤں کا طلبگار
Adnan Mayar

میں نے آج ایک تجربہ کیا ہےمیں نے دو اینڈریوڈ فون لئے، ایک میرا پرانا موبائل تھا اور ایک برینڈ نیو موبائلمیرے پرانے موبائ...
09/04/2025

میں نے آج ایک تجربہ کیا ہے

میں نے دو اینڈریوڈ فون لئے، ایک میرا پرانا موبائل تھا اور ایک برینڈ نیو موبائل

میرے پرانے موبائل میں تصاویر، ویڈیوز، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، کانٹیکٹس وغیرہ سب کچھ موجود تھا، نئے موبائل میں بلکل کوئی اپلیکشن نہیں تھی اور نہ ہی کسی کا نمبر سیوو تھا، نہ ہی میں نے نئے موبائل میں سم لگائی تھی

میں نے دونوں موبائلوں میں ایک قرض دینے والی اپلیکشن کو انسٹال کیا جس کا نام سمارٹ قرضہ تھا

اپلیکشن انسٹال ہونے کے بعد میں نے دونوں موبائلوں میں اپلیکشن کو کھولا

اپلیکشن میں لاگ اِن ہونے کے لئے دونوں نئے اور پرانے موبائل میں ایک جیسا طریقہ کار فالو کیا، دونوں میں اپلیکشن لاگ اِن ہوگئی، لاگ اِن ہونے کے بعد جب قرض لینے کی باری آئی تو جو ایپلیکیشن پرانے موبائل میں تھی اُس اپلیکشن سے قرض دیا جارہا تھا، لیکن نئے موبائل میں موجود اپلیکشن قرض نہیں دے رہی تھی

کیا آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہوا

ایسا اسلئے ہوا کیونکہ پرانے موبائل میں میری ذاتی تصاویر، ویڈیوز اور میرے رشتے داروں کے نمبرز موجود تھے، لیکن نیا موبائل بلکل خالی تھا

پرانے موبائل میں قرض اسی لئے دیا جارہا تھا کیونکہ قرض دینے کے بعد یہ اپلیکشن میری تصاویر، ویڈیوز اور موبائل میں موجود نمبروں تک ایکسس حاصل کرلیتی اور پھر مجھے سالوں تک بلیک میل کرکے مجھ سے پیسے لئے جاتے

نئے موبائل میں چونکہ نہ کوئی نمبر محفوظ تھا، نہ کوئی تصویر نہ کوئی ویڈیو تھی تو اگر نئے موبائل پر مجھے قرض دیا جاتا تو اُنکو وہی پیسے ملتے جو وہ مجھے قرض کی صورت میں دیتے، بلیک میل نہیں کرسکتے تھے لہٰذا ایک ہی اپلیکشن نے دو موبائلوں میں الگ الگ ردِ عمل دیا

اسی طرح میں نے اِن دو موبائلوں سے بیک وقت ایک ہی لوکیشن سے ایک ہی جگہ جانے کیلئے آن لائن اُبر ٹیکسی بُک کروائی

ایک موبائل کی بیٹری 87 فیصد اور دوسرے کی 3 فیصد تھی، 87 فیصد بیٹری والے موبائل میں اُبر نے کم کرایہ بتایا جبکہ 3 فیصد بیٹری والے موبائل میں زیادہ کرایہ بتایا گیا جبکہ میں نے جانا ایک ہی جگہ سے تھا اور جانا بھی ایک ہی جگہ تھا

یہ اس لئے ہوا کیونکہ اُبر کی اپلیکشن کو لگا کہ 3 فیصد بیٹری والے موبائل کا صارف ایمرجنسی میں ہے اور اسکے موبائل کی بیٹری ختم ہونے والی ہے تو یہ ہر حال میں ٹیکسی بک کروائے گا کیونکہ اس وقت یہ مجبور ہے، جبکہ 87 فیصد بیٹری والے موبائل میں اُبر اپلیکشن نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہوسکتا ہے یہ صارف زیادہ کرایہ دیکھ کر کسی اور اپلیکشن سے ٹیکسی بک کروا لے لہٰذا یہاں جائز کرایہ بتایا گیا

اصل میں یہ سب میں نے ایک ریسرچ پیپر میں پڑھا تھا تو آج سوچا کہ تجربہ کرلوں
ڈاکٹر حمنہ....

23/03/2025

مکان کے اُوپر والی سٹوری بنوا رها هوں _مزدوری کا تمام کام ٹهیکے پر دیا _ ٹهیکیدار صاحب آگے ٹهیکہ دے کر چھ سو روپیہ فی هزار چهت پر اینٹیں چڑهوا رها تها _
مزدور آیا _ فی پهیرا بیس اینٹیں اٹهاتا _ سیڑهی کے اُنیس سٹیپ چڑهتا اور اِس طرح اُس نے دو گهنٹے میں ایک هزار اینٹ چهت پر پہنچا دی _ تب تک بارش شروع هو گئ تو سلپ هونے کے خطرے سے مزدور نے کام روک دیا _
ٹهیکیدار سے چھ سو روپیہ لے کر جانے لگا تو میں نے کہا کہ کهانا کها کر جانا _ وه بولا کے سر جی , ساتھ هی چوک میں منگل بازار لگا هوا , گهر کے لیے سودا لے آؤں تو آ کر روٹی کهاتا هوں _
واپس آیا تو اُس کے هاتھ میں بهرا هوا ایک شاپر تها _ میں نے پوچها کہ کیا میں دیکھ سکتا هوں کے تم نے کیا شاپنگ کی , تو تهوڑا هچکچا کر بولا کہ جی ضرور دیکھ لیں _ !
میں بہت پیار کے ساتھ شاپر میں سے ایک ایک آئٹم نکال کر دیکهنے لگ گیا ___ شاپر میں کیا تها _ ؟
پاؤ والا گهی کا پیکٹ , اتنی هی چینی _ چهوٹا پیک چائے کی پتی _ آدها کلو مٹر , چار پانچ آلو , تین عدد پیاز , چهوٹا پیکٹ نمک , تهوڑی سی سرخ مرچیں , ایک ٹکیا دیسی صابن , سگریٹ کی ڈبی _ پلاسٹک کا ایک چهوٹا سا گهوڑا , زیرو سائز کی چھ عدد سرخ چوڑیاں , دو گولیاں پینا ڈول اور ایک پیکٹ نسوار _
پوچها کہ گهر میں هانڈی روٹی کرنے کیلئے جلاؤ گے کیا _ ؟ تو بولا کہ جاتے هوئے پانچ کلو لکڑی اور دو کلو آٹا لے کر جاؤں گا _ همسائے میں هی لکڑی کا ٹال اور آٹا چکی هے _
پهر پوچها کہ اب بارش میں گهر کیسے جاؤ گے اور تمہارا گهر یہاں سے کتنا دور هے _ تو بولا کہ آٹھ کلو میٹر دور گهر هے میرا _ پیدل جاؤنگا اور یا کسی بائک والے سے لفٹ لے لوں گا _
آخری سوال کیا کہ پلاسٹک کا گهوڑا اور چوڑیاں کتنے کی ملیں اور اِنکا کیا کرو گے _ ؟ تو بولا کہ دونوں چیزیں پانچ پانچ روپے کی ملیں _ گهوڑا میرے ڈیڑھ سالہ شہزادے کے لئے اور چوڑیاں میری ایک ماه کی شہزادی کیلئے _ شہزادی کو سرخ چوڑیاں بہت سجیں گی _
شاپر میں اُس محنت کش کی پوری دنیا تهی۔“

جب حضرت علیؓ کو لوگو نے دوسری شادی مشورہ دیا تو حضرت فاطمہؓ کو بہت برا لگا تھا۔ اور انہوں نے حضرت محمدؐ سے شکایت کر دی۔ ...
21/03/2025

جب حضرت علیؓ کو لوگو نے دوسری شادی مشورہ دیا تو حضرت فاطمہؓ کو بہت برا لگا تھا۔ اور انہوں نے حضرت محمدؐ سے شکایت کر دی۔ اور حضرت محمدؐ اپنی بیٹی کے دفاع میں آگئے اور انہواں نے مسجد میں اعلان کیا

"فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی۔"
(صحیح بخاری، حدیث 5230)

اس بیان کے بعد حضرت علیؓ نے اپنی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔

حضرت محمدؐ کی بیٹی کو برا لگ سکتا ہے تو یہ ایک عام عورت کو اچھا لگ سکتا ہے؟
اس عورت کے چہرے کے تاثرات بتا رہے ہیں۔
چار شادیو کا حکم مسلمانو کی کفار سے جنگوں کے بعد بہت سے مسلمان شہید ہو چکے تھے۔ تو اللّٰہ نے بیوہ عورتو کی کفالت میں آیتیں نازل کیں۔ تا کہ زنا سے بچا جا سکے۔۔

مولوی تو خود بھی ہر جگہ منہ مارتے ہیں اور سب کو منہ مرواتے ہیں

1991ء میں ایک کسان "ہو کھانہ" پر بارش کے دوران انوکھا انکشاف ہوا۔شدید بارش کے دوران وہ پناہ کی تلاش میں تھا جب وہ ایک غی...
09/03/2025

1991ء میں ایک کسان "ہو کھانہ" پر بارش کے دوران انوکھا انکشاف ہوا۔
شدید بارش کے دوران وہ پناہ کی تلاش میں تھا جب وہ ایک غیر معمولی جگہ پر پہنچا۔ یہ جگہ "ہان سان ڈونگ" کہلاتی ہے، جس کا مطلب ہے "پہاڑی دریا کا غار

ہان سان ڈونگ غار، جو دنیا کا سب سے بڑا قدرتی غار ہے، ویتنام کے فونگ نا-کی بانگ نیشنل پارک میں واقع ہے۔ یہ غار نہ صرف اپنی عظمت اور حجم کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اپنے اندر چھپے حیرت انگیز مناظر کی بدولت بھی دنیا بھر میں سیاحوں اور محققین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

غار کی اہم تفصیلات:

1. حجم اور ساخت:

لمبائی: 5 کلومیٹر سے زیادہ

چوڑائی: 91.44 میٹر

اونچائی: 243.84 میٹر

یہ غار اتنا بڑا ہے کہ اس میں 68 بوئنگ 777 طیارے سما سکتے ہیں۔ اس کی اونچائی ایک 40 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔

2. موسمیاتی نظام:
ہان سان ڈونگ غار میں ایک منفرد موسمی نظام موجود ہے۔

اندرونِ غار میں بادل بنتے ہیں۔

غار کے مختلف حصے اپنے مخصوص درجہ حرارت اور نمی کے ساتھ ایک منفرد ماحول پیدا کرتے ہیں۔

3. دریا اور جنگلات:

غار کے اندر ایک زیرِ زمین دریا بہتا ہے جو اسے مزید دلکش بناتا ہے۔

غار کے کچھ حصے میں قدرتی جنگلات موجود ہیں، جہاں درخت، پودے اور دیگر نباتات اگتے ہیں۔

4. حیاتیاتی تنوع:
غار میں کئی نایاب اور انوکھے حیاتیات پائے جاتے ہیں۔ یہاں پودے اور جاندار ایسے ہیں جو غار کے منفرد ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔

5. تاریخی پس منظر:

1991ء میں کسان ہو کھانہ نے یہ غار دریافت کیا۔

2009ء اور 2010ء میں ایک برطانوی ٹیم نے غار کا تفصیلی جائزہ لیا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

6. سیاحت:

ہان سان ڈونگ غار کو 2013ء میں عوام کے لیے کھولا گیا۔

یہ غار سیاحوں کے لیے ایک ایڈونچر کا مرکز ہے، لیکن اس کی حفاظت کے پیش نظر، روزانہ صرف محدود تعداد میں سیاحوں کو یہاں آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
"جنتِ عدن" کی خصوصیت:

ہان سان ڈونگ کو "جنتِ عدن" کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ یہاں کے مناظر ایسے لگتے ہیں جیسے وہ کسی دوسرے سیارے سے ہوں۔
سرسبز درخت،

چمکتے ہوئے پانی کے چشمے،

اور غار کی دیواروں پر قدرتی روشنی کے انعکاسات اسے ایک خیالی دنیا کا حصہ بناتے ہیں۔

اہمیت:

ہان سان ڈونگ غار نہ صرف ایک قدرتی عجوبہ ہے بلکہ یہ انسان کے لیے زمین کی پوشیدہ خوبصورتی کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ یہ غار جیولوجی، ماحولیاتی سائنس، اور سیاحت کے میدان میں اہم تحقیقاتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔

پشاور کی فلائیٹ تھی ۔جب جہاز نے کراچی سے ٹیک آف کیا۔ تو پندرہ منٹ کے بعد ساتھ والی نشست سے کچھ زنانہ چیخ وپُکار کی آوازی...
28/02/2025

پشاور کی فلائیٹ تھی ۔جب جہاز نے کراچی سے ٹیک آف کیا۔ تو پندرہ منٹ کے بعد ساتھ والی نشست سے کچھ زنانہ چیخ وپُکار کی آوازیں آنے لگیں۔ مڑ کر دیکھا تو ایک عورت اپنے شوہر پر چلا رہی تھی۔ اور شوھر بیچارہ ہاتھ جوڑ کر گھگھیائی ہوئی آواز میں اسے چپ کرائے جارہا تھا۔
عورت کہنے لگی۔ اگر تم مُجھے اپنانا چاہتے ہو، تو پہلی والی کو طلاق دو۔ ورنہ پھر مُجھے دے دو۔ شوھر پھر دبے لفظوں میں اُس سے التجائیں کرتا رہا۔ مگر وہ اور شیر ہوتی جارہی تھی۔ شور جب حد سے زیادہ بُلند ھوا۔ تو فضائی میزبان آگئی۔ اس نے بڑے پیشہ وارانہ لہجے میں دونوں میاں بیوی سے پوچھا۔ کہ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں؟ آگے سے خاتون نے چیخ کر اسے دفع ہونے کو کہا۔وہ بیچاری اپنا سا مُنہ لے کر چلی گئی۔ شوہر کی حالت دیدنی تھی...
جب اُس عورت کی چخ چخ حد سے بڑھ گئی۔تو میرا بلڈ پریشر ہائی ہونا شروع ہوگیا۔ مزید برداشت کا یارا خود میں نہ پاکر میں اپنی سیٹ سے اُٹھا۔ اور اُن کے قریب چلا گیا۔ اُس مرد سے پوچھا، کہ یہ موصوفہ آپ کی کیا لگتی ہے؟ کہنے لگا بیگم ہے۔ میں نے کہا کہ بڑے ہی بے غیرت قسم کے شوہر ہو۔ بیوی کو اتنا سر پر نہیں چڑھاتے۔ لگادو اس کے منہ پر ایک چماٹ، یا یہ کام بھی میں ہی کرلوں؟
عورت یہ سُن کر مجھ پر چیخنے کو ہی تھی۔کہ میں نے اسے چپ کروا دیا یہ کہہ کر۔ کہ بی بی تم جس خاندان سے ہو۔ وہ تو پتہ چل ہی گیا۔ لیکن میں تیرا شوہر نہیں ہوں۔ جو تیری بکواس سنوں گا۔ اب اگر ایک لفظ بھی منہ سے پھوٹا تو کان لال کردوں گا۔
پچیس ہزار کا ٹکٹ لیا ہے اپنی سہولت کے لیے نہ کہ تیری چخ چخ نُما وار کمنٹری سُننے کے لیے۔
میری دیکھا دیکھی دوسرے مسافر بھی میرے ہمنوا بن گئے۔ وہ عورت دبک کر بیٹھ گئی۔
میں فاخرانہ انداز میں اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا سیٹ پر آکر بیٹھا۔
اور …… پھر میری والی شروع ہوگئی ...

Justice delayed is justice deniedنیسلے کے ملازم نے انصاف میں تاخیر پر لاہور ہائیکورٹ    کے احاطے میں خود پر پٹرول چھڑک ک...
28/02/2025

Justice delayed is justice denied

نیسلے کے ملازم نے انصاف میں تاخیر پر لاہور ہائیکورٹ
کے احاطے میں خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی
----------------------------------------

آصف جاوید کبیر والا (ضلع خانیوال) میں نیسلے کمپنی کا ملازم تھا۔

کمپنی نے اسے 2016 میں نوکری سے نکال دیا۔

وہ کمپنی کے فیصلے کے خلاف لیبر کورٹ میں گیا۔

لیبر کورٹ نے اسے 2019 میں نوکری پر بحال کر دیا۔

کمپنی نے لیبر کورٹ کے فیصلے کو قومی صنعتی تعلقاتی کمیشن ( NIRC) میں چیلنج کر دیا۔

23 نومبر 2020 کو NIRC نے بھی لیبر کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ملازمت پر بحال رکھا۔

دسمبر 2020 میں کمپنی نے NIRC کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔

دسمبر 2020 سے کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا۔

گزشتہ روز 25 فروری بروز منگل لاہور ہائیکورٹ نے کیس ایک بار پھر 8 اپریل 2025 تک ملتوی کر دیا۔ جس پر اس نے عدالت کے احاطے میں خود کو آگ لگا لی۔ اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے جہاں وہ زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

ظاہر ہے روزے آرہے ہیں۔ پھر عید آئے گی۔ جج صاحبان "ثواب کمانے" میں مصروف ہوں گے۔ انہیں اس سے کیا کہ آصف جاوید کے ہاں تو 2016 سے مسلسل روزے (فاقے) ہی چل رہے ہیں۔ رہی عید تو حبیب جالب بہت پہلے آصف جاوید ایسے محنت کشوں کے بارے میں کہہ گیا ہے:

لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی

یوں بھی آصف جاوید "منصفین" کو کیا دے پاتا جبکہ نیسلے ایسی ملٹی نیشنل کمپنیاں تو حج عمرے افطاریاں عیدیں، عیدوں کی گرینڈ شاپنگز اور قربانیاں تک سب کچھ سپانسر کرتی ہیں۔

کیا کہا؟ ملک کے کسی بھی اخبار میں آصف جاوید کے خود کو آگ لگانے کی خبر میں نیسلے کمپنی کا نام تک شائع نہیں ہوا؟ ارے آزادئ صحافت کے چیمپیئن پاگل تھوڑی ہیں اپنی روزی روٹی پر لات ماریں گے؟
اور پھر انہوں نے بھی تو "ثواب" کمانا ہے ناں!

کیا کہا؟ یہ کل کی فرنٹ پیج پر سب سے بڑی خبر تھی؟ "آزادی صحافت کے علمبرداروں" کی نظروں میں ایک مزدور کی کیا اوقات؟؟؟
۔
۔
#
Copy kia gaya hai

ہیرو ہر جگہ ہیرو ہی ہوتا ہے۔7 فروری کی صبح کے پی کے سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانی طلبا سیاحت کے نیت سے شنگھائی سونگ جیا...
22/02/2025

ہیرو ہر جگہ ہیرو ہی ہوتا ہے۔

7 فروری کی صبح کے پی کے سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانی طلبا سیاحت کے نیت سے شنگھائی سونگ جیانگ ریلوے اسٹیشن پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک بزرگ شہری کو زمین پر گرے ہوئے دیکھا جس کے ارد گرد پولیس اہلکار کھڑے تھے۔
چین میں کسی بھی شخص کو بغیر اجازت ہاتھ لگانا غیر قانونی ہے چاہے یہ کام طبی امداد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
میڈیکل کے طلبا ہونے کی وجہ سے یوسف خان اور رفیع اللہ جواد پہلی نظر میں سمجھ گئے کہ بزرگ شہری کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پولیس سے اجازت بھی لی۔
زمین پر نیم بے ہوش پڑے شخص کی نبض معمول سے کم رفتار میں چل رہی تھی، دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی اور سانس بھی اکھڑ رہی تھی۔
میڈیکل کالج کے فائنل ایئر کے طلبا ہونے کی حیثیت سے وہ دونوں یہ جان چکے تھے کہ یہ علامات دل کے دورے کی ہیں۔
اس لیے انھوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر’کارڈیو پلمونری ری سسٹیکیشن‘ یعنی CPRکرنے کا فیصلہ کیا۔
یوسف نے اپنے دونوں ہاتھ متاثرہ شخص کی چھاتی پر رکھ کر سی پی آر کرنا شروع کیا جب کہ رفیق اللہ نے وقفے وقفے سے منھ کے ذریعے سانس دینی شروع کر دی۔
یہ عمل مسلسل دہرائے جانے کے چند ہی لمحوں میں متاثرہ شخص کی سانس بحال ہونا شروع ہو گئی اور یہ پورا واقعہ سی سی ٹی وی کمیروں میں محفوظ ہو گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیجز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ لوگوں نے پاکستانی طلبا کے جذبہ ہمدردی کو سراہا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں طلبا چین میں ہیرو بن گئے اور چینی میڈیا نے ان کا انٹرویو بھی کیا۔
پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے ’’ایکس‘‘ پر اپنی پوسٹ میں بھی پاکستانی طلبا یوسف خان اور رفیع اللہ کو سراہا ہے۔
منقول

اس فرانسیسی شخص نے آئیوری کوسٹ کا سفر کیا تاکہ اپنی 38 سال پہلے کی آیا (نینی) کو تلاش کرے، جس نے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔...
21/02/2025

اس فرانسیسی شخص نے آئیوری کوسٹ کا سفر کیا تاکہ اپنی 38 سال پہلے کی آیا (نینی) کو تلاش کرے، جس نے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔ اس نے نینی کو 10 ملین فرانکس دیے اور ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ اس کا ریٹائرڈ والد پہلے آئیوری کوسٹ میں کام کرتا تھا اور بعد میں فرانس منتقل ہو گیا۔

یہ واقعہ انسانیت اور شکر گزاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ شخص اپنے بچپن کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون کو یاد رکھتا رہا اور زندگی میں کامیاب ہونے کے بعد اس کی مدد کے لیے واپس آیا۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہمیں اپنی جڑوں اور ان لوگوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہو۔

امیتابھ بچن کے پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی کے ایک  ایپی سوڈ میں، نیرج سکسینہ نامی شخصیت نے حصہ لیاجنہوں نے تیز ترین فنگر...
20/02/2025

امیتابھ بچن کے پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی کے ایک ایپی سوڈ میں، نیرج سکسینہ نامی شخصیت نے حصہ لیاجنہوں نے تیز ترین فنگر راؤنڈ میں پہلا مقام حاصل کیا، اور ہاٹ سیٹ تک پہنچ گئے۔ عموماً لوگ امیتابھ کے سامنے بیٹھ کر بہت جذباتی ہو جاتے ہیں وہ ان کو چھونا چاہتے ہیں گلے لگانا چاہتے ہیں لیکن وہ وہاں سکون سے بیٹھے رہے — کوئی چیخ نہیں، کوئی رقص نہیں، آنسو نہیں، امیتابھ کو گلے نہیں لگایا۔ پھر جب تعارف ہوا تو معلوم ہوا وہ ایک سائنسدان ہیں، پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں، اور کولکتہ کی ایک یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں۔ انہیں ڈاکٹر اے پی جے عبدلکلام کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

نیرج نے سامعین کے پول کا استعمال کرتے ہوئے اعتماد کے ساتھ گیم کا آغاز کیا۔ اس نے ہر سوال کا آسانی سے جواب دیا، اور اس کی ذہانت حیران کن تھی۔ اس نے وقفے سے پہلے 3.2 لاکھ روپے اور مساوی بونس جیتا۔

وقفے کے بعد، امیتابھ نے اگلا سوال پیش کرنا شروع کیا: "ٹھیک ہے، ڈاکٹر، اب گیارہواں سوال آ رہا ہے… یہ ہے…" لیکن تب ہی، نیرج بولا، "سر، میں چھوڑنا چاہوں گا۔" امیتابھ حیران رہ گئے۔ ایک مدمقابل اتنا اچھا کھیل رہا ہے، جس میں ابھی تین لائف لائنیں باقی ہیں اور اپنی قابلیت سے وہ 1 کروڑ روپے آسانی سے جیت سکتے ہیں، وہ چھوڑنا چاہتا ہے؟

نیرج نے سکون سے جواب دیا، ’’یہاں دوسرے مقابلہ کرنے والے انتظار کر رہے ہیں، اور وہ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں۔ وہ بھی ایک موقع کے مستحق ہیں۔ اس کے علاوہ، میں پہلے ہی ایک اچھی رقم جیت چکا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاس جو ہے وہ کافی ہے۔ مجھے مزید ضرورت نہیں ہے۔"

امیتابھ تو ایک دم گنگ ہو گئے۔ پورا اسٹوڈیو ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔ پہلے تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا، اس نفسا نفسی کے دور میں کوئی ایسے بھی سوچ سکتا ہے اور پھر سب نے کھڑے ہو کر دیر تک تالیاں بجا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔ امیتابھ نے کہا، ’’آج آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ اتنے شائستہ شخص سے ملنا نایاب ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے۔"

سچ میں، اتنا بڑا موقع ہونے کے باوجود، نیرج کا پیچھے ہٹنے اور دوسروں کو کھیلنے کی اجازت دینے کا فیصلہ، جو اس کے پاس تھا اس پر مطمئن رہتے ہوئے، میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے سلام کیا۔

آج، لوگ اکثر پیسے، طاقت کا لامتناہی پیچھا کرتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی کما لیں، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ لالچ کبھی کم نہیں ہوتا۔ اس تعاقب میں لوگ اپنا خاندانی وقت، نیند، سکون، محبت اور دوستیاں کھو دیتے ہیں۔ لیکن ایسے وقتوں میں، ڈاکٹر نیرج سکسینہ جیسے لوگ ہمیں قیمتی سبق یاد دلاتے ہیں۔ اس دور میں کسی ایسے شخص سے ملنا جو کم پر مطمئن ہو، ایک نادر اور قیمتی نظارہ ہے۔

نیرج کے جانے کے بعد ایک نوجوان لڑکی ہاٹ سیٹ پر آئی۔ اس نے اپنی کہانی شیئر کی: "میرے والد نے ہمیں اس لیے نکال دیا کہ ہم تین بیٹیاں ہیں۔ اب ہم ایک آشرم میں رہتے ہیں…‘‘

مجھے احساس ہوا کہ اگر نیرج نہ چھوڑتا تو اس لڑکی کو کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کی قربانی نے اسے کچھ پیسہ کمانے کا موقع فراہم کیا۔ آج کی دنیا میں، لوگ اپنی وراثت سے ایک پیسہ بھی الگ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن یہ ایک غیر معمولی معاملہ تھا۔

جب آپ کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں، تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کب رکنا ہے اور دوسروں کو موقع دینا ہے۔ خود غرضی کو چھوڑنا اجتماعی خوشی کا باعث بنتا ہے۔

کاپیڈ

18/02/2025

‏زنا کا وبال

ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔

بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص‏اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔

بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر‏پہنچے، وہ زانی شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،‏دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللہ تعالیٰ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے‏تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کی جا چکی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانی چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ‏عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے عیاشی اور بار بار مواقع ملنا قدرت کا اسکو گمراہی میں ہی ڈالے رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں پر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی ہیں اور توبہ کے‏ دروازے بند کر دیے گئے ہیں تم پر۔۔

میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔

کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
ہمیں بــــار بــــار گـــــــناہوں کا موقع ملتا ہے اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔‏کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد و عورت اسے اپنی جیت کا نام دیتے ہیں ۔
اور اگلی بار ایک نیا شکار ہاتھ میں ہوتا ہے۔۔
پہلی بار گناہ ہر دل زور زور سے دھڑکے گا آپکا، دماغ غیر شعوری سگنل دے گا۔ ایک‏ ٹھیس اٹھے گی ذہن میں۔ جسم لاغر ہونے لگے گا ، کانپنے لگے گا

یہ وہ وقت ہوگا جـــــــب ایمـــــــان جھنجھوڑ رہا ہوتا ہے، چلا رہا ہوتا ہے کہ دور ہٹو، باز رہو۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم ســـــب کے گناہوں کو معاف فرمـــــائے اور سیدھے راستـــــے پر چلنـــــے کـــی توفیـــق عطاء فرمائے آمین ثم آمین

فیصل آباد،دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے تین فوجیوں کی پینشن آج بھی برطانیہ سے فیصل آباد آتی ہے۔یہ ارشاد بیگم ہیں۔ سا...
13/02/2025

فیصل آباد،دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے تین فوجیوں کی پینشن آج بھی برطانیہ سے فیصل آباد آتی ہے۔
یہ ارشاد بیگم ہیں۔ سامنے میز پر انکے خاوند حوالدار برکت علی کے پنشن کاغذات پڑے ہیں اور ساتھ انکے اکلوتے بیٹے شاہد فیصل بیٹھے ہیں۔
برکت علی 1936 میں برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور تب وہ 18 سال کے کڑیل جوان تھے۔ انہیں شاہی توپ خانے کا انچارج بنا دیا گیا۔ انہوں نے 1939 میں شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا۔
بیٹے شاہد فیصل نے بتایا کہ انکے والد بتاتے تھے کہ برطانوی فوجی حکام کی جانب سے انھیں حکم تھا سمندر میں جو لانچ، کشتی یا بحری قوت برطانوی جھنڈی کھڑی نہ کرے اسے گولے سے اڑا دیا جائے اور اسطرح وہ لڑتے لڑتے بہت آگے جا چکے تھے جہاں وہ جاپانی فوج کی قید میں آ گئے۔ قید کے دوران انھیں بہت سختیوں کا سامنا رہا۔ وہاں قیدیوں سے چیل کے درخت کٹوائے جاتے اور آرا مشین سے کٹوا کر بیرکیں بنوائی جاتی تھیں۔ چونکہ افسران انگریزی میں حکم دیتے تھے تو صحیح طرح سمجھ نہ آنے پر اگر کسی قیدی سے کام خراب ہوتا تو اسکا بازو کٹر میں ڈال کر کاٹ دیا جاتا۔ کھانے کیلیے روٹی میں کئی دفعہ شیشہ پیس کر دیتے۔ پڑھے لکھے ہونے کیوجہ سے وہ انگریزی زبان کو کچھ سمجھ سکتے تھے لہذا انھیں کم سزا ملتی۔
5 سال کی صعوبتوں بھری قید کے بعد انہیں رہائی ملی تو برٹش حکام نے سمندر پر انکا استقبال کیا۔ دیگر فوجیوں کیساتھ پیٹی نمبر 3622 حوالدار برکت علی نے گورا آفیسرز کو سلیوٹ کیا، جیسے وہ حاضر ہے۔ سمندر پر انکے کپڑے اتروا دیے گئے نئے کپڑے پہنائے گئے اور ویکسین کی گئی۔ آپ کے ساتھ یہ سب ہماری وجہ سے ہوا اس پر بہت دکھ ہے، ایک گورے آفیسر نے کہا۔
اور کہا کہ تم مسلمان بہت دلیری سے لڑے جو قابل تعریف ہے۔
بیٹے شاہد فیصل نے گفتگو کے دوران بتایا کہ والد بتاتے تھے رہائی کے وقت برطانوی افسران نے پیشکش کی کہ وہ برطانیہ چلیں۔ تب بہت سے فوجیوں نے برطانیہ میں شادیاں کر لیں اور وہیں آباد ہو گئے لیکن میں اپنے والدین اور دیگر 7 بھائیوں کیلیے قید میں روز جیتا اور مرتا تھا لہذا میرے لیے اپنے والدین کے پاس آنا سب سے اہم تھا۔ اور میں واپس اپنے گائوں 160 ر۔ب بانگے چک آ گیا جو آج کے فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ میں نہر رکھ برانچ کے قریب واقع ہے۔
حوالدار برکت علی 1946 میں ریٹائر ہوئے اور قید سے واپس آ کر 1951 میں انکی شادی ارشاد بیگم سے ہوئی۔ جہاں قدرت نے انہیں ایک بیٹا شاہد فیصل اور چار بیٹیاں عطا کیں۔
بعد میں بھی برطانیہ سے برکت علی کو خط موصول ہوتے رہتے جہاں انکی صحت اور معمولات زندگی کے بارے دریافت کیا جاتا اور وہ جوابی خط لکھ کر انہیں اپنے حالات سے آگاہ کرتے۔
برکت علی 2002 میں فوت ہو گئے جس پر پنشن انکی بیوہ ارشاد بیگم کے نام منتقل ہو گئی اور تاحال جاری ہے۔
گلاسگو برطانیہ سے اب بھی انہیں خط موصول ہوتے ہیں اور وہ پنشن جاری رکھنے کیلیے تصدیق کے طور پر ارشاد بیگم کا لائف سرٹیفکیٹ اور تصویر مانگتے ہیں۔
ارشاد بیگم اب ٹھیک طرح سے سن سکتی ہیں نہ دیکھ۔ وہ اب بڑھاپے میں ٹھیک طرح ہم سے بات نہیں کر پا رہی تھیں۔ ہٹکوروں سے صرف اتنا بتایا کہ اوہ فوجی سی تے فر قید ہو گیا سی۔(وہ فوج میں تھے اور پھر قید ہو گئے تھے)۔ انکے بیٹے نے مزید گفتگو کی کہ امی بتاتی ہوتی تھیں کہ تیرے تایا جی رحمت علی نے انہیں بتایا جب بھائی جاپان میں قید تھے تو ہم کئی دفعہ رات کو روتے ہوئے بھوکے سو جاتے۔ پیدل چل کر جھمرہ جاتے اور راستے میں نہری کھال میں دکھائی دینے والے ڈوبتے کیڑے تک کو نکالتے کہ بھائی بھی سمندر پار قید ہے شاید اسطرح وہ بھی واپس آ جائے۔
ارشاد بیگم اب ہر ماہ اپنے بیٹے شاہد فیصل کیساتھ جنرل پوسٹ آفس میں جا کر اپنے مرحوم خاوند حوالدار ریٹائرڈ برکت علی کی پنشن وصول کرتی ہیں۔ جو 11978روپے ہے۔ جبکہ انکے علاوہ ریٹائرڈ برطانوی فوجی نزیر احمد کی بیوہ ہدایت بی بی کو 12348روپے پینشن ملتی ہے جنکا تعلق جڑانوالہ سے ہے۔ فوجی ریٹائر محمد شفیع کی بیوہ صابراں بی بی کو بھی 12899 روپے پینشن ملتی ہے جو 123 ج۔ب سدھو پورہ غلام محمد آباد کی رہائشی ہیں۔
لواحقین کیمطابق انہیں نہیں معلوم کہ برطانیہ سے اتنی رقم ہی آتی ہے یا زیادہ لیکن انہیں اتنی ہیں ملتی ہے اور یہ انکے لیے باعث اعزاز ہے کہ آج 76 سال بعد بھی انہیں یاد رکھا گیا ہے۔ وہ اس پر برٹش حکومت کے مشکور ہیں۔
جنرل پوسٹ آفس میں تعینات چیف پوسٹ آفیسر شاہد اقبال ٹھیٹھیا نے بتایا کہ گلاسگو برطانیہ سے ہر ماہ پنشن کی رقم کنٹرولر ملٹری اکائونٹس میں آتی ہے جہاں سے وہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے تین ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن جنرل پوسٹ آفس بھیجتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ انکے لیے اعزاز کی بات ہے کہ تاریخ سے جڑے نام انکے ادارے میں تشریف لاتے ہیں۔
سینئیر پوسٹ ماسٹر رانا طارق نے بتایا کہ تینوں پینشنرز کا ریکارڈ انکے پاس ہانگ کانگ کیٹیگری میں محفوظ ہے۔ جہاں انہیں ہر ماہ باعزت طریقے سے پینشن کی رقم ادا کی جاتی ہے.
یہاں اہمیت ان گیارہ یا بارہ ہزار کی نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ ایک نظام مرتب ہوجائے تو کیسے چلتا رہتا ہے، 1939 سے لے کر 2025 تک 86 سال گزر گئے برطانیہ میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، گریٹ ڈپریشن آیا، طاون کی وبا آئی، ریسیشن آیا مگر نظام قائم رہا اور چلتا رہا۔ یہ بنیادی فرق ہے اقوام مغرب میں اور ہم جنوبی ایشیائی ریوڑ (قوم) میں۔
(منقول)

یہ پیغام ہر ایک کے لیے ہے، خاص طور پر اُن لڑکیوں کے لیے جو سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں بہت کچھ شیئر کرتی ہیں۔ سائیکو ارب...
08/02/2025

یہ پیغام ہر ایک کے لیے ہے، خاص طور پر اُن لڑکیوں کے لیے جو سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں بہت کچھ شیئر کرتی ہیں۔ سائیکو ارباب کی کہانی یاد رکھیں، جو ایک معروف ٹک ٹوکر تھیں۔ اُن کی ویڈیوز نے بہت سے لوگوں کو خوشی دی، لیکن پردے کے پیچھے وہ گہری ڈپریشن اور انگزائٹی سے لڑ رہی تھیں۔ اپنے سب سے اندھیروں لمحات میں، انہوں نے 20 نیند آور گولیاں کھا کر اپنی زندگی کھو دی۔

ان کی کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ آن لائن مقبولیت اور تعریف کے پیچھے حقیقی اندرونی تکلیف چھپی ہو سکتی ہے۔ لائکس، کمنٹس اور شیئرز آپ کی حقیقی قدر کو نہیں بتا سکتے، اور نہ ہی وہ اصلی خیال اور سمجھ بوجھ کا متبادل ہیں۔

براہ کرم اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھیں اور محتاط رہیں کہ کس پر بھروسہ کیا جائے۔ اگر آپ کبھی محسوس کریں کہ آپ پر بہت زیادہ دباؤ ہے یا آپ خود کو تنہا محسوس کر رہی ہیں، تو مدد تلاش کریں۔ اپنے دوستوں، خاندان یا پیشہ ور ماہرین سے رابطہ کریں جو آپ کی مدد کر سکیں۔ یاد رکھیں، آپ کی زندگی کسی بھی آن لائن توثیق سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔

🎉 Facebook recognised me as a top rising creator this week!
29/01/2025

🎉 Facebook recognised me as a top rising creator this week!

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zamatv posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zamatv:

Share