DAY NAGHT TV

DAY NAGHT TV ڈے نانئٹ آفیشل میڈیا کا اسپیشل #پیج ہے. مزید اچھی اچھی و?

انا للہ وانا الیہ راجعون. وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے راھنما حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب کی وفات پر دلی صدمہ پہن...
28/08/2024

انا للہ وانا الیہ راجعون. وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے راھنما حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب کی وفات پر دلی صدمہ پہنچا ہے ، قاضی عبدالرشید مرحوم کا شمار ملک کے نامور علماء و خطباء اور مذھبی اسکالرز میں ہوتا ہے آپ کی دینی خدمات اظہر من الشمس ہیں، آپ ہماری جماعت کے ذمہ داران سے نہایت شفقت فرماتے تھے، ہماری جماعت کے جنرل سیکرٹری علامہ عبدالخالق رحمانی صاحب ،قائد کشمیر علامہ تصدق حسین کشمیری صاحب اور میں صوبہ بلوچستان کے تنظیمی سفر پہ ھیں دوران سفر آج جب فجر کی نماز کے بعد نیٹ پہ آن لائن ہوا تو انکی وفات کی اطلاع نے ھمیں بہت مغموم کیا ہے، اللہ تعالیٰ قاضی صاحب مرحوم کو کروٹ کروٹ اپنے جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے اور جملہ رفقاء ،شاگردوں و متعلقین و لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین ثم آمین،

12/08/2023







میدان میں ڈٹ جانے والے ہی تاریخ میں سرخرو ہوتے ہیںWestandwithimrankhan
05/08/2023

میدان میں ڈٹ جانے والے ہی تاریخ میں سرخرو ہوتے ہیں
Westandwithimrankhan

04/08/2023

میں خاک عمرؓ دے قدماں دی
میں نوکر علیؓ دے بچیاں دا🖤❤️



27/07/2023

السّلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائیوں بہنوں!!!
ہمیں دونون ہی سے بے حد محبت ہے کیوں کہ دونوں کو شہید کردیا گیا اور سب سے بڑی بات کہ دونوں ہی نبی کریم ﷺ کی مشابہت رکھتے اور آپ ﷺ کی محبت دونوں سے اپنی مثال آپ تھی ہمیں بھی دونوں ہی سے محبت ہے دونوں نبی ﷺ کے نواسے جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں نبی کریم ﷺ کی محبت آئیں حدیث کی روشنی میں پڑھتے ہیں ⬇️

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ⬇️
حضور اکرم ﷺنےحضرت حسن اور حسین رضی الله عنہما کو دیکھا تو فرمایا،

«اللهم إني أحبهما فأحبهما»* ”
ترجمہ!!!
اے اللہ، میں ان دونوں سے محبت کرتا ھوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما “
(ترمذی,3782) ۔ ۔ ۔!!!*

26/07/2023

سارا مدینہ ان کے خریدے گئے کنویں سے پانی پیتا تھا مگر وہ خود چالیس دن پیاسے رہ کر جام شہادت نوش فرما گئے
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پہ لاکھوں سلام❤️
🥀🍃💕🤍💕🌿✨️



25/07/2023

بوڑھے آدمی نے اطمینان سے بسم اللّٰہ پڑھی اور حجام کی کرسی پر بال کٹوانے کے لئے بیٹھ گیا۔ بوڑھے کے چہرے پر موجود نرم مسکراہٹ سے حجام کو بات چیت کا حوصلہ ہوا۔۔۔

حجام نے کہا: "دنیا میں بہت سے مذاہب خدا کو مانتے ہیں، لیکن میں خدا کے وجود کو نہیں مانتا۔"

مسلمان بوڑھے نے پوچھا: "کیوں نہیں مانتے؟"

حجام نے کہا: "دنیا میں بہت پریشانیاں، مصیبتیں بدحالی اور افراتفری ہے۔ اگر خدا کا وجود ہوتا تو یہ سب مصیبتیں اور پریشانیاں بھی موجود نہ ہوتیں۔"

بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا: "میں بھی اس دنیا میں حجام کے وجود کو نہیں مانتا۔"

حجام نے پریشان ہو کر پوچھا: "کیا مطلب؟ میں آپ کی بات نہیں سمجھا."

بوڑھے نے حجام کی دکان سے باہر گزرتے ایک گندے اور لمبے بالوں والے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا: "کیا تم اس شخص کے لمبے اور گندے بال دیکھ رہے ہو؟

حجام نے کہا: "جی ہاں۔ لیکن اسکا میری بات سے کیا تعلق؟"

بوڑھے نے نرم لہجے میں کہا: "اگر حجام ہوتے تو لمبے اور گندے بالوں والے لوگ بھی نہ ہوتے۔"

حجام نے کہا: "ہم موجود ہیں، لیکن ایسے لوگ ہمارے پاس نہیں آتے!"

بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا: "بالکل۔ خدا بھی موجود ہے لیکن لوگ ہدایت کے لئے خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے۔
😢😢😢😢

25/07/2023

مملکتِ اسلامیہ کے دارالحکومت دمشق میں ایک پُرسکون رات میں ہر طرف سنا ٹا طاری تھا۔ بادشاہ وقت نماز عشاء سے فارغ ہو کر ذکر اذکار اور حضرت نبی اکرمؐ پر درود پڑھنے میں مشغول تھا۔ بعد میں بستر پر گیا، نیند نے آلیا۔ تہجد کے وقت حسبِ معمول آنکھ کھل گئی۔ نماز تہجد ادا کی، پھر سو گیا ۔ چند ہی لمحے گزرے تھے کہ بادشاہ اچانک گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ چہرے پر اضطراب کی کیفیت نمایاں تھی۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ استغفار پڑھنے کے بعد کہنے لگا ’’میرے جیتے جی کوئی ستائے یہ ہو نہیں سکتا‘‘۔ خواب کا خوفناک منظر بادشاہ کے قلب و ذہن سے محو نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی اکرمؐ اس کے سامنے جلوہ افزوز ہیں اور آپؐ دو افراد کی طرف اشارہ کرکے فرما رہے ہیں ’’ یہ دو آدمی مجھے ستا رہے ہیں، ان کے اس شر کا خاتمہ کر دو‘‘۔بادشاہ نے فوراً نرم نرم بستر کو خیر باد کہا اور اپنے دانشمند وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا اور اس کے سامنے خواب میں جو کچھ منظر دیکھا، وزیر کو بیان کر دیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ’’اب ہم یہاں ایک پل بھی نہیں ٹھہریں گے بلکہ ابھی مدینہ کی طرف جائیں گے، مدینہ جانے کی تیاری کی جائے۔‘‘بادشاہ اپنے وزیر اور بیس آدمیوںکو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ بادشاہ کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ اس کے ساتھی ہی نہیں بلکہ شہرِ دمشق کے رہنے والے بھی حیران تھے کہ اچانک سفر کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ 557ھ (1162ئ) کا ذکر ہے۔ اس زمانے میں عمومی طور پر دمشق سے مدینہ کا فاصلہ بیس (20) سے پچیس(25) دنوں میں طے ہوتا تھا لیکن بادشاہ نے تمام راستہ میں اپنے ساتھیوں کو کہیں آرام کرنے نہ دیا۔ بادشاہ نے یہی فاصلہ 16 دنوں میں طے کر لیا۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل بادشاہ نے غسل کیا۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد شہر کے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ سیدھا مسجدِ نبویؐ پہنچا۔ ریاض الجنہ میں نفل ادا کیے اور روضہ رسولؐ پر ھدیۂ درود وسلام کے بعد بادشاہ شہر کے حکام سے مخاطب ہوا کہ کل شہر کے تمام باشندوں کی ہماری طرف سے دعوتِ عام ہے۔ مقررہ اوقات میں مدینہ شہر کے سب لوگ دعوت میں شریک ہوئے۔ بادشاہ ہر شخص کو بڑے غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو اشخاص نظر نہ آئے جن کی طرف خواب میں آنحضورؐ نے اشارہ کیا تھا۔ بادشاہ کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ بادشاہ نے حکامِ شہر سے استفسار کیا کہ ’’ کیا سب لوگ دعوت میں آئے؟‘‘ حاکمِ شہر نے واضح کیا کہ صرف دو اشخاص جو مغربی زائرین ہیں اور ایک عرصہ سے یہاں رہائش پذیر ہیں، وہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور باقی سارا دن جنت البقیع میں زائرین کو پانی پلاتے رہتے ہیں، ان کی لمبی لمبی داڑھیاں ہیں ۔ بس یہی دو اشخاص ہیں جو دعوت میں نہیں آئے۔بادشاہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ حکم دیا کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کیا جائے، جب ان افراد کو بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو ان شیطان خصلت انسانوں کو دیکھتے ہی بادشاہ کے دل نے گواہی دی کہ یہ تو وہی دو آدمی ہیں جن کے متعلق نبی اکرمؐ نے خواب میں اشارہ فرمایا تھا۔ بادشاہ نے دونوں افراد سے پوچھا ’’ تم کہاں کے رہنے والے ہو‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ ہم مغرب سے ہیں۔ مکہ میں حج کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ حج کے بعد روضۂ رسولؐ پر حاضری دی اور اب یہاں سے واپس جانے کو دل نہیںچاہ رہا۔‘‘ بادشاہ نے پھر پوچھا ’’تمہارا قیام کہاں ہے؟‘‘ انہوںنے جواب دیا کہ ’’حجرہ نبویؐ کے قریب ہی ایک کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔‘‘فرمانروائے سلطنت نے ان دونوں اشخاص کو اپنے ماتحتوں کے پاس چھوڑا اور ان کے بتائے ہوئے پتہ پر اس مکان میں چلا گیا ۔ دیکھنے میں بظاہر کوئی چیز ایسی نہ تھی جس پر اعتراض کیا جاسکے۔ مختصر سا مسافرانہ سامان، سونے کے لیے ایک چٹائی اور دو چار کھانے پینے کے برتن پڑے ہوئے تھے! بادشاہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ چلتے پھرتے ایک جگہ اس نے چٹائی کے نیچے فرش کچھ لرزتا ہوا محسوس کیا۔ چٹائی ہٹائی تو نیچے ایک چوڑی سل نظر آئی۔ ہدایت پر سل کو سرکایا گیا تو بادشاہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سل کے نیچے ایک سرنگ کھدی ہوئی تھی۔ یہ سرنگ حضرت نبی اکرمؐ کے روضۂ اطہر کی طرف جا رہی تھی۔ حکمران کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ بادشاہ تیز تیز قدموں سے لوٹا اور حکم دیا کہ ان دونوں شیطان صفت آدمیوں کو پابہ زنجیر میرے سامنے پیش کیا جائے۔ بادشاہ نے ڈانٹ کر پوچھا کہ ’’سچ سچ بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘بادشاہ کی گرجدار آواز سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ دونوں بہروپئے اپنے اصل روپ میں پہچانے جا چکے تھے۔ دونوں نے جواب دیا کہ ’’ہم مغرب سے آئے ہیں۔ ہمیں اپنی قوم کی طرف سے آپ کے پیغمبرؐ کی آخری آرام گاہ (نعوذ باللہ) چرانے پر مامور کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس جب ہمارا تھوڑا سا کام باقی رہ گیا تھا، ہمیں گرفتار کر لیا گیا۔‘‘ فرمانروا نے دونوں مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دیں۔ حکمران کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ اٹھا، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بادشاہ نے سسکیوں کے درمیان کہا کہ ’’یہ میرے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضور پاکﷺ نے اس غلام کو منتخب فرمایا‘‘۔ناپاک سازش کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ حکمران نے معمار بلائے اور ہدایت کی کہ روضۂ رسول کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھو دی جائے کہ پانی نکل آئے اور پھر اس خندق کو پگھلائے ہوئے سیسہ سے بھر دیا جائے۔ اس پر عمل ہوا، یہ خندق روضۂ رسول ؐ کے گرد آج بھی موجود ہے۔ یہ سعادت جس عظیم مسلمان فرمانروا کو نصیب ہوئی، دنیا اسے سلطان نور الدین زنگیؒ، کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے اپنے اٹھائیس سالہ دورِ حکومت میں (1146ء تا 1174ئ) مغرب کی صلیبی طاقتوں کو پے در پے شکستوں سے دو چار کرکے ان کا سکون تہ و بالا کر دیا اور ان کے غاصبانہ قبضہ سے بیت المقدس کی با زیابی کی راہ ہموار کی۔ ان کا عہد بلاشبہ اسلامی تاریخ کا ایک عہد زریں تھا۔ ٭…٭…٭

25/07/2023

السلام علیکم۔۔۔
یونیورسٹی والے معاملہ پر میں نے دو تین دفعہ لکھنے کا ارادہ کیا مگر پھر لکھنا چھوڑ دیا
وجہ یہ ہے کہ قوم میں تسلیم کی عادت نہیں ہے ، تاویل کا مزاج ہے۔۔۔
ہمارے مدارس میں ہمارے بچے محفوظ ہیں؟؟
نہیں ہیں ہرگز نہیں۔۔۔

پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ۔۔۔

ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہماری بچیاں محفوظ نہیں ہیں۔

یہ واقعہ ہے کہ

میٹرک اور ایف ایس سی لیول کی بچیاں بھی اُستاد کی درندگی سے محفوظ نہیں ہیں تعجب ہے استاد جس سے والدین کا درجہ دیا گیا ہے۔۔۔

ایک پرائیویٹ ادارے میں جہاں
ٹیچرز کے کامن روم میں بیٹھے تمام افراد ہر وقت کی فضول گفتگو کرتے ہوئے اپنی شیطانیت اور اپنی حیوانیت ایک دوسرے سے بڑے ایزی ہوکر بیان کرتے ہیں دوسروں کی بچیوں پر بات کرتے ہوئے ان کو نا صرف شرم محسوس ہونی چاہئیے بلکہ افسوس بھی ہونا چاہئیے الٹا یہ مزے سے بات کو بڑھاتے رہتے ہیں۔۔۔
جیسے
فلاں لڑکی 9ویں جماعت کی طالبہ وہ بچی بڑھتی عمر میں اچھی لگتی جا رہی ہے ایسی ہے ویسی ہے یہ جملے تو عام ہیں ان سے زیادہ بکواس جو لکھنے میں بھی غیر اخلاقی کہلائے گے وہ جملے ایسے استاد آج کل عام ایزی ہوکر ادا کر جاتے دوسروں کی بچیوں کیلئے خاص کرکہ وہاں جہاں بچیاں بچے اکٹھا تعلیم حاصل کر رہے ہو اور ٹیچرز بھی میل ہو۔۔
ہم اب ٹیچر کو تو اخلاقی تربیت نہیں دے سکتے ایک دو شکایات کوئی کر بھی دے تو ان کو یہی جملے سننے کو ملتے ہیں ۔
والدین مجبور ہوکر چھوڑ دیتے بات کو بڑھاتے ہی نہیں جو برائ کو عام کرنے کی ابتداء یہی سے کرتے ہیں کے بات کو چھوڑ دیتے ہیں۔۔
اُستاد طبقہ اس وقت معاشرے کا اخلاقی لحاظ سے سب سے ذلیل طبقہ بن چکا ہے چند بے غیرت اور لعنتی لوگوں کی وجہ سے سارا طبقہ بدنام ہوگیا ہے۔۔۔

یہ پہلا پہلو تھا جس پر ہم نے بات کی اب
دوسرا پہلو یہ ہے کہ

" اُستاد یونیورسٹی لیول کی لڑکیوں کو کس طرح اس حد تک لے آتا ہے کہ وہ اسے گندی اور بیہودہ تصویریں اور ویڈیوز بھیجنا شروع کر دیتی ہیں یہاں الفاظ کو سختی سے لکھنے کو دل کرتا ہے مگر لکھنا نہیں چاہتی۔۔۔

پھر تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ

ہم نے اپنی بچیوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی ۔ انہیں اچھائی اور برائی میں فرق نہیں سمجھا سکے۔

یہ بھی تسلیم کیجئے کہ
ہم نے بچیوں کو اتنی اسپیس نہیں دی کہ وہ ہم سے اپنے ایشوز ڈسکس کرسکیں۔۔

میں سمجھتی ہوں کہ یونیورسٹی والا معاملہ مدارس کے معاملے سے زیادہ سنگین ہے ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان اداروں میں شرفاء اور انتہائی تعلیم یافتہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ حالات بہت مختلف ہیں۔
وہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ برائ سے بھرپور گندے شیطانوں کی اولادیں ہیں جن سے ہماری نسلوں کو سخت خطرہ ہے انہیں ان کے کئے کی سزا ضرور ہونی چاہئیے یہی مطالبہ ہونا چاہئیے عوام کا کہ ان جیسے تمام لوگوں کیلئے سزائیں مقرر کی جائیں ۔۔
پوسٹ کو اس ہیش ٹیگ کے ساتھ لازمی شئیر کریں ہر جگہ پر۔۔
ہم آج کی عوام سوشل میڈیا کی طاقت سے بہت کچھ منوا سکتے ہیں اور اس وقت اس برائ کے خلاف اسے روکنے کیلئے بھی ہمیں آواز اٹھانا ہوگی۔۔

✍️✍️
-by-Naseem

24/07/2023

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ابو جہل نے ایک دم آگے بڑھ کر آپ ﷺ کے کپڑے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک گھونسہ اس کے سینے پر مارا۔ اس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ دوسری طرف سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا،تیسری طرف خود حضور نبی کریم ﷺ نے عتبہ بن ابی معیط کو دھکیلا۔ آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا:
"اللہ کی قسم! تم لوگ اس وقت تک نہیں مرو گے، جب تک اللہ کی طرف سے اس کی سزا نہیں بھگت لوگے۔"
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"یہ الفاظ سن کر ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خوف کی وجہ سے کانپنے نہ لگا ہو۔"
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
"تم لوگ اپنے نبی کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے۔"
یہ فرمانے کے بعد آپ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔
جب آپ اپنے دروازے پر پہنچے تو اچانک ہماری طرف مڑے اور فرمایا:
"تم لوگ غم نہ کرو، اللہ تعالٰی خود اپنے دین کو پھیلانے والا، اپنے کلمے کو پورا کرنے والا اور اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ بہت جلد تمہارے ہاتھوں ذبح کروائے گا۔"
اس کے بعد ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور پھر اللہ کی قسم غزوۂ بدر کے دن اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں ذبح کرایا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، ایسے میں عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا، اس نے اپنی چادر اتار کر آپ کی گردن میں ڈالی اور اس کو بل دینے لگا۔ اس طرح آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا:
"کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے...اور جو تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے۔"
بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
"مجھے بتائیے! مشرکین کی طرف سے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ بدترین اور سخت ترین سلوک کس نے کیا تھا؟"
جواب میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ کعبہ میں نماز ادا فرمارہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس سے پوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دھکیل کر ہٹایا۔"
یہ قول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ہے، انہوں نے یہی سب سے سخت برتاؤ دیکھا ہوگا، ورنہ آپ ﷺ کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔
پھر جب مسلمانوں کی تعداد 38 ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! مسجد الحرام میں تشریف لے چلئے تاکہ ہم وہاں نماز ادا کر سکیں ۔"
اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی ہے۔"
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آخر حضور نبی کریم ﷺ اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ لوگوں کو کلمہ پڑھ لینے کی دعوت دی۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اس طرح تبلیغ فرمائی۔
اس خطبے کے جواب میں مشرکین مکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے سب سے زیادہ مارا پیٹا، مارپیٹ کی انتہا کردی گئی۔ عقبہ نے تو انہیں اپنے جوتوں سے ماررہا تھا۔ اس میں دوہرا تلا لگا ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ان جوتوں سے اتنی ضربیں لگائیں کہ چہرہ لہو لہان ہوگیا۔ ایسے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی مشرکین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے پر لٹایا اور بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آئے۔ ان سب کو یقین ہوچکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آج زندہ نہیں بچیں گے۔ اس کے بعد بنو تمیم کے لوگ واپس حرم آئے۔ انہوں نے کہا :
"اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مرگئے تو ہم عقبہ کو قتل کر دیں گے۔"
یہ لوگ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد نے ان سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ بالکل بے ہوش تھے۔ آخر شام کے وقت کہیں جاکر آپ کو ہوش آیا اور بولنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا:
"آنحضرت ﷺ کا کیا حال ہے؟"
گھر میں موجود افراد نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار اپنا سوال دہرا رہے تھے۔ آخر ان کی والدہ نے کہا:
"اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے دوست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اچھا تو پھر ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں ، ان سے آنحضرت ﷺ کا حال دریافت کرکے مجھے بتائیں ۔"
ام جمیل رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ، اسلام قبول کرچکی تھیں ،لیکن ابھی تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ ان کے پاس پہنچیں ، انہوں نے ام جمیل رضی اللہ عنہا سے کہا:
"ابو بکر محمد بن عبد اللہ کی خیریت پوچھتے ہیں ۔"
ام جمیل رضی اللہ عنہا چونکہ اپنے بھائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرتی تھی، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے انہوں نے کہا:
"میں نہیں جانتی۔"
ساتھ ہی وہ بولیں :
"کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں ؟"
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ نے فوراً کہا:
"ہاں !"
اب یہ دونوں وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں ۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زخموں سے چور دیکھا تو چیخ پڑیں :
جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ یقیناً فاسق اور بد ترین لوگ ہیں ، مجھے یقین ہے، اللہ تعالٰی ان سے آپ کا بدلہ لے گا۔"
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
"رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟"
ام جمیل رضی اللہ عنہا ایسے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، چنانچہ بولیں :
یہاں آپ کی والدہ موجود ہیں ۔"
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
"ان کی طرف سے بے فکر رہیں ،یہ آپ کا راز ظاہر نہیں کریں گی۔"
اب ام جمیل رضی اللہ عنہا نے کہا:
"رسول اللہ ﷺ خیریت سے ہیں ۔"
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
حضور ﷺ اس وقت کہاں ہیں ۔"
"ام جمیل نے فرمایا:
"دار ارقم میں ہیں ۔"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے:
"اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے مل نہ لوں ۔"
ان دونوں نے کچھ دیر انتظار کیا...تاکہ باہر سکون ہو جائیں ...آخر یہ دونوں انہیں سہارا دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ ہوگئیں ، جونہی نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو بےحد صدمہ ہوا۔ آپ نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں بوسہ دیا۔ باقی مسلمانوں نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا:
"آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ تو نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے چہرے پر چوٹیں آئی ہیں ۔ یہ میری والدہ میرے ساتھ آئی ہیں ، ممکن ہے اللہ تعالٰی آپ کے طفیل انہیں جہنم کی آگ سے بچالے۔"
نبی کریم ﷺ نے ان کی والدہ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسی وقت ایمان لے آئیں ، جس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کو بےحد خوشی ہوئی۔
ایک روز صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے گرد جمع تھے۔ ایسے میں کسی نے کہا:
"اللہ کی قسم! قریش نے آج تک نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی اور کی زبان سے بلند آواز میں قرآن نہیں سنا۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ان کے سامنے بلند آواز میں قرآن پڑھے۔"
یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
"میں ان کے سامنے بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا۔"

  to all friends
28/06/2023

to all friends


10/06/2023

اللّه کے خزانے میں بہت کوچھ ہے اور بہت زیادہ ہے مگر مانگنے والے بہت کم ہیں اس لئے ہر واخت اپنے اللّه سے مانگا کرو

09/06/2023
28/05/2023

صدا بادشاہی میرے اللّه کی ہے

25/05/2023

تم وہ مانگتے ہو
جو تمہیں اچھا نظر آتا ہے
اللہ وہ دیتا ہے جو تمہارے لئے اچھا ہوتا ہے


Send a message to learn more

انتہائی افسوس ناک خبر  مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی اس دنیا سے رخصت فرما ...
18/11/2022

انتہائی افسوس ناک خبر مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی اس دنیا سے رخصت فرما گئے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت قدس اللہ سرہ کی کامل مغفرت فرمائیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں جملہ پسماندگان شاگردوں اور متوسلین کو صبر جمیل عطاء فرمائیں آمین ثم آمین


Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when DAY NAGHT TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to DAY NAGHT TV:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share