Educatious

Educatious Skills is the Good returns of the world.

02/06/2024

ساغر صدیقی کہ والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ھیں کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے غصہ میں اس لڑکی کہ گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی تھی جو کامیاب نہ ہوئی
لیکن ساغر اپنے گھر کی تمام آسائش و آرام
چھؤڑ چھاڑ کر داتا کی نگری رہنے لگا(داتا دربار لاہور)

جب اسکی محبوبہ کو پتا چلا ساغر داتا دربار ہے۔ تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کہ بعد آ خر تاش کھیلتے ھوئے ایک نشئیوں کہ جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا
اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ھاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دیدی ھے اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو
ساغر نے کہا
بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ھم وفاؤں کا صلہ مانگتے ھیں
غربت، ڈپریشن، ٹینشن کی وجہ سے ساغر صدیقی کے آخری چند سال نشے میں گزرے اور وہ بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے گلیوں میں فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے لیکن اس وقت بھی انھوں نے شاعری لکھنا نہ چھوڑی۔
میری غربت نے میرے فن کا اڑا رکھا ہے مزاق۔۔
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں۔
ساغر صدیقی ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ سٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے سٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی یقینا"8 کسی نے خون کے آنسووں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لئے خوشخبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے، جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دھنگ رہ گے اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاو اور کہنا کہ جنرل ایوب خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انہوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟؟ کون سا شاعر؟؟ ارے آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں، جب وہ جنرل ایوب خان صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو جنرل صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے جاو ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بشمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اسرار (ترلوں) کے باوجود وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے جنرل صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لئے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی اک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئ اور پھر انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا
کہ
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی،،،
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

افسوس دنیا بدل گئ نہ بدلی تو پاکستانی قوم 76 برس بیت گۓ کچھ نہ بدلہ نہ حالات بدلے نہ حکمران بدلے نہ سوچ بدلی نہ نیت بدلی...
07/02/2024

افسوس دنیا بدل گئ نہ بدلی تو پاکستانی قوم 76 برس بیت گۓ کچھ نہ بدلہ نہ حالات بدلے نہ حکمران بدلے نہ سوچ بدلی نہ نیت بدلی۔

فرانس کی قومی لائبریری میں سیسے کی کئی تہوں سے بنے ہوئے خصوصی ڈبوں میں سائنسی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات محفوظ رکھی گئی...
06/12/2023

فرانس کی قومی لائبریری میں سیسے کی کئی تہوں سے بنے ہوئے خصوصی ڈبوں میں سائنسی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات محفوظ رکھی گئی ہیں
اگر کوئی سائنسدان ان دستاویزات سے استفادہ کرنا چاہے تو وہ صرف خلابازوں کی طرح کے بھاری بھر کم حفاظتی سوٹ پہن کر ہی اُن کا مطالعہ کر سکتے ہیں
مگر اس مطالعے سے قبل اُنھیں ایک خصوصی دستاویز پر دستخط کرنے ہوتے ہیں کہ لائبریری اُن کے ساتھ پیش آئی کسی بھی صورتحال کی ذمہ دار نہیں ہو گی
دنیا کی قدیم ترین اور نایاب ترین کتابوں کی حامل اس لائبریری میں سب سے محفوظ طریقے سے رکھی گئی یہی دستاویزات ہیں

مگر جس وجہ سے اُنھیں مشکوک انداز میں اتنی حفاظت سے رکھا گیا ہے اس کی وجوہات درحقیقت ان دستاویزات کی سائنسی اہمیت سے زیادہ اہم ہے

وجہ یہ ہے کہ یہ کاغذات انتہائی تابکار مادے سے آلودہ ہیں
یہ میری کیوری کی نوٹ بکس ہیں
دو مرتبہ نوبیل انعام جیتنے والی واحد خاتون جنھوں نے اپنے شوہر پیغ کے ساتھ مل کر نہ صرف نئے کیمیائی عناصر دریافت کیے بلکہ اٹامک فزکس اور تابکاری کے قدرتی اُصولوں سے بھی پردہ اٹھایا
اور اس جوڑے کے قریب جو بھی چیزیں تھیں ان سب کی طرح یہ دستاویزات بھی انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں

میری کیوری اور ان کے شوہر نے نے ریڈیئم اور پولونیئم دریافت کیا تھا
یہ نام پولینڈ کے نام پر جہاں سات نومبر 1867 کو میری کی پیدائش ہوئی تھی رکھا گیا تھا
مگر سائنسدانوں کو اس وقت تک یہ بالکل بھی علم نہیں تھا کہ تابکاری کے انسانی جسم پر کیا منفی اثرات ہو سکتے ہیں

درحقیقت میری کیوری 1934 میں اے پلاسٹک اینیمیا نامی بیماری کے باعث ہلاک ہو گئیں تھیں جو ممکنہ طور پر ریڈیئم اور پولونیئم سے باقاعدگی سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اُنھیں لاحق ہوئی
میری کیوری اکثر اپنی جیبوں میں یہ مواد لیے گھومتی تھیں

چنانچہ ان سے منسلک ہر چیز جو اب بھی سلامت باقی رہ گئی ہے اسے انتہائی احتیاط سے سیسے کے ڈبوں میں رکھا جاتا ہے
یہاں تک کہ اُن کی اپنی لاش بھی جو پیرس کے مشہور افراد کے لیے مختص قبرستان پینتھیونز آف پیرس میں ہے
میری کیوری اس قبرستان میں دفن ہونے والی پہلی خاتون تھیں

جب اُن کی میت کو وہاں لے جایا گیا تو سیسے کا ایک انچ موٹا تابوت بنایا گیا تاکہ جدید فزکس کی ماں کے جسم سے نکلنے والی تابکاری کو ماحول آلودہ کرنے سے روکا جا سکے

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا اور نوٹ بکس بھی کم از کم اگلے 1500 سالوں تک غیر محفوظ رہیں گی کیونکہ میری کیوری کے دریافت کردہ اور دنیا کو بدل دینے والے عنصر ریڈیئم کے اثرات کو ختم ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے

پیرس کے جنوب میں واقع ایک رہائشی علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت ہے جس میں داخل ہونا منع ہے
خاردار تاروں سے بھری ہوئی ایک بلند حفاظتی دیوار اس گھر میں داخل ہونا ناممکن بناتی ہے
چاروں طرف کیمروں کے ذریعے مسلسل نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کوئی یہاں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے
جبکہ حکومت وقتاً فوقتاً عجیب و غریب آلات کے ذریعے ماحول کا جائزہ لیتی رہتی ہے
مگر یہ گھر خالی ہے
یہ وہ آخری تجربہ گاہ ہے جہاں میری کیوری نے 1934 تک کام کیا

میری کیوری کے یہاں کیے گئے سائنسی تجربات نے اس جگہ کو ایسی تابکاری سے آلودہ کر دیا ہے جو اگلی کئی صدیوں تک اسے زندگی کے لیے غیر محفوظ بنائے رکھے گی

جب میری کیوری کی وفات کے کئی برس بعد یہاں تابکاری کی بلند سطح پائی گئی تو اسے دریائے سایین کا چرنوبل قرار دیا گیا تھا

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر تابکاری پائے جانے سے قبل میری کیوری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر یہ جگہ انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر فزکس کے ہیڈکوارٹرز اور پیرس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سائنس کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی رہی

بعد میں پایا گیا کہ تابکاری اس گھر کی دیواروں، قالینوں، فرش، چھتوں اور وال پیپرز تک میں موجود ہے اور اس کی سطح انسانوں کے لیے غیر محفوظ حد تک بلند ہے

اور یہیں پر میری کیوری اپنی زندگی کے آخر تک کسی حفاظتی اقدام کے بغیر دنیا کے سب سے ضرر رساں مادوں مثلاً تھوریئم، یورینیئم اور پولونیئم وغیرہ پر کام کرتی رہیں

اُنھوں نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ اُنھیں رات کے وقت ان مادوں سے نکلتے ہوئے سبز و نیلے رنگ کے جھماکوں کو دیکھنے میں بہت مزہ آتا تھا

اور ان تابکار مادوں پر کام کرتے ہوئے وہ ان کے بارے میں اپنی نوٹ بکس میں لکھتیں اور خاکے بناتیں، اور یوں یہ سب چیزیں تابکار مادوں سے آلودہ ہو گئیں

اُن کی وفات کے کئی برس بعد امریکہ 1938 میں ان مادوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کرنے والا پہلا ملک بنا جس کے بعد دوسرے ممالک نے بھی امریکہ کی پیروی کی

اس سے کئی صنعتوں کو نقصان پہنچا کیونکہ میری کیوری کی دریافتوں اور اُنھیں ملنے والے ایوارڈز کے بعد تابکار مادے اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ اُنھیں چہرے کی کریمز، اُسترے اور یہاں تک کہ زیر جامہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا
خیال کیا جاتا کہ یہ مادے بال گرنا روک سکتے ہیں اور مردانہ بانجھ پن کا علاج کر سکتے ہیں

80 کی دہائی تک اُن کے لیبارٹری خالی نہیں کروائی گئی تھی مگر اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق پھر متعدد پڑوسیوں نے اپنے علاقے میں کینسر کے بڑھتے کیسز کی شکایت کی

ایک جائزے میں نہ صرف ریڈیئم بلکہ یورینیئم کے بھی ذرات پائے گئے جنھیں بکھر کر نصف ہونے میں ساڑھے چار ارب سال لگتے ہیں

اس کے بعد قومی ورثہ تصور کی جانے والی میری کیوری کی اشیا بشمول اُن کی نوٹ بکس کو قومی لائبریری منتقل کر دیا گیا

نوّے کی دہائی میں اُن کی لیبارٹری کی ایک مرتبہ پھر گہرائی سے صفائی کی گئی مگر اب بھی فرانسیسی حکام نے یہاں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے
اور وقتاً فوقتاً آس پاس کے علاقوں بشمول دریا میں تابکاری کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے

اندازہ ہے کہ فرانس اب تک اس جگہ کی صفائی پر ایک کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے اور جب آنے والے برسوں میں یہ جگہ منہدم ہو جائے گی تو اس پر مزید اخراجات متوقع ہیں

تاہم یہ نوٹ بکس اگلے ڈیڑھ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک سیسے کے صندوقوں میں بند رہیں گی
اس اُمید کہ ساتھ کہ مستقبل کے انسان بغیر کسی حفاظتی سوٹ کے انسانی تاریخ کی ذہین ترین خاتون کی نوٹ بکس اپنے ہاتھوں میں لے سکیں گے

Address

Hyderabad

Telephone

+923186699260

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Educatious posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Educatious:

Share