Educatious

Educatious Skills is the Good returns of the world.

02/06/2024

ساغر صدیقی کہ والد نے ساغر کی پسند کو یہ کہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ہم خاندانی لوگ ھیں کسی تندور والے کی بیٹی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے غصہ میں اس لڑکی کہ گھر والوں نے لڑکی کی شادی پنجاب کہ ایک ضلع حافظ آباد میں کردی تھی جو کامیاب نہ ہوئی
لیکن ساغر اپنے گھر کی تمام آسائش و آرام
چھؤڑ چھاڑ کر داتا کی نگری رہنے لگا(داتا دربار لاہور)

جب اسکی محبوبہ کو پتا چلا ساغر داتا دربار ہے۔ تو وہ داتا صاحب آ گئی کافی تلاش کہ بعد آ خر تاش کھیلتے ھوئے ایک نشئیوں کہ جھڑمٹ میں ساغر مل ہی گیا
اس نے ساغر کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ مجھے میرے خاونذ نے ھاتھ تک نہیں لگایا اور ہماری داستان محبت سن کر مجھے طلاق دیدی ھے اب اگر تم چاہو تو مجھے اپنا لو
ساغر نے کہا
بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ھم وفاؤں کا صلہ مانگتے ھیں
غربت، ڈپریشن، ٹینشن کی وجہ سے ساغر صدیقی کے آخری چند سال نشے میں گزرے اور وہ بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتے تھے گلیوں میں فٹ پاتھ پر سویا کرتے تھے لیکن اس وقت بھی انھوں نے شاعری لکھنا نہ چھوڑی۔
میری غربت نے میرے فن کا اڑا رکھا ہے مزاق۔۔
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں۔
ساغر صدیقی ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں کہ جب جنرل ایوب خان صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ایوب خان صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ سٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے سٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی یقینا"8 کسی نے خون کے آنسووں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لئے خوشخبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے، جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دھنگ رہ گے اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاو اور کہنا کہ جنرل ایوب خان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انہوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟؟ کون سا شاعر؟؟ ارے آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں، جب وہ جنرل ایوب خان صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو جنرل صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے جاو ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بشمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اسرار (ترلوں) کے باوجود وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے جنرل صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لئے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی اک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئ اور پھر انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا
کہ
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی،،،
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

افسوس دنیا بدل گئ نہ بدلی تو پاکستانی قوم 76 برس بیت گۓ کچھ نہ بدلہ نہ حالات بدلے نہ حکمران بدلے نہ سوچ بدلی نہ نیت بدلی...
07/02/2024

افسوس دنیا بدل گئ نہ بدلی تو پاکستانی قوم 76 برس بیت گۓ کچھ نہ بدلہ نہ حالات بدلے نہ حکمران بدلے نہ سوچ بدلی نہ نیت بدلی۔

فرانس کی قومی لائبریری میں سیسے کی کئی تہوں سے بنے ہوئے خصوصی ڈبوں میں سائنسی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات محفوظ رکھی گئی...
06/12/2023

فرانس کی قومی لائبریری میں سیسے کی کئی تہوں سے بنے ہوئے خصوصی ڈبوں میں سائنسی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات محفوظ رکھی گئی ہیں
اگر کوئی سائنسدان ان دستاویزات سے استفادہ کرنا چاہے تو وہ صرف خلابازوں کی طرح کے بھاری بھر کم حفاظتی سوٹ پہن کر ہی اُن کا مطالعہ کر سکتے ہیں
مگر اس مطالعے سے قبل اُنھیں ایک خصوصی دستاویز پر دستخط کرنے ہوتے ہیں کہ لائبریری اُن کے ساتھ پیش آئی کسی بھی صورتحال کی ذمہ دار نہیں ہو گی
دنیا کی قدیم ترین اور نایاب ترین کتابوں کی حامل اس لائبریری میں سب سے محفوظ طریقے سے رکھی گئی یہی دستاویزات ہیں

مگر جس وجہ سے اُنھیں مشکوک انداز میں اتنی حفاظت سے رکھا گیا ہے اس کی وجوہات درحقیقت ان دستاویزات کی سائنسی اہمیت سے زیادہ اہم ہے

وجہ یہ ہے کہ یہ کاغذات انتہائی تابکار مادے سے آلودہ ہیں
یہ میری کیوری کی نوٹ بکس ہیں
دو مرتبہ نوبیل انعام جیتنے والی واحد خاتون جنھوں نے اپنے شوہر پیغ کے ساتھ مل کر نہ صرف نئے کیمیائی عناصر دریافت کیے بلکہ اٹامک فزکس اور تابکاری کے قدرتی اُصولوں سے بھی پردہ اٹھایا
اور اس جوڑے کے قریب جو بھی چیزیں تھیں ان سب کی طرح یہ دستاویزات بھی انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں

میری کیوری اور ان کے شوہر نے نے ریڈیئم اور پولونیئم دریافت کیا تھا
یہ نام پولینڈ کے نام پر جہاں سات نومبر 1867 کو میری کی پیدائش ہوئی تھی رکھا گیا تھا
مگر سائنسدانوں کو اس وقت تک یہ بالکل بھی علم نہیں تھا کہ تابکاری کے انسانی جسم پر کیا منفی اثرات ہو سکتے ہیں

درحقیقت میری کیوری 1934 میں اے پلاسٹک اینیمیا نامی بیماری کے باعث ہلاک ہو گئیں تھیں جو ممکنہ طور پر ریڈیئم اور پولونیئم سے باقاعدگی سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اُنھیں لاحق ہوئی
میری کیوری اکثر اپنی جیبوں میں یہ مواد لیے گھومتی تھیں

چنانچہ ان سے منسلک ہر چیز جو اب بھی سلامت باقی رہ گئی ہے اسے انتہائی احتیاط سے سیسے کے ڈبوں میں رکھا جاتا ہے
یہاں تک کہ اُن کی اپنی لاش بھی جو پیرس کے مشہور افراد کے لیے مختص قبرستان پینتھیونز آف پیرس میں ہے
میری کیوری اس قبرستان میں دفن ہونے والی پہلی خاتون تھیں

جب اُن کی میت کو وہاں لے جایا گیا تو سیسے کا ایک انچ موٹا تابوت بنایا گیا تاکہ جدید فزکس کی ماں کے جسم سے نکلنے والی تابکاری کو ماحول آلودہ کرنے سے روکا جا سکے

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا اور نوٹ بکس بھی کم از کم اگلے 1500 سالوں تک غیر محفوظ رہیں گی کیونکہ میری کیوری کے دریافت کردہ اور دنیا کو بدل دینے والے عنصر ریڈیئم کے اثرات کو ختم ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے

پیرس کے جنوب میں واقع ایک رہائشی علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت ہے جس میں داخل ہونا منع ہے
خاردار تاروں سے بھری ہوئی ایک بلند حفاظتی دیوار اس گھر میں داخل ہونا ناممکن بناتی ہے
چاروں طرف کیمروں کے ذریعے مسلسل نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کوئی یہاں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے
جبکہ حکومت وقتاً فوقتاً عجیب و غریب آلات کے ذریعے ماحول کا جائزہ لیتی رہتی ہے
مگر یہ گھر خالی ہے
یہ وہ آخری تجربہ گاہ ہے جہاں میری کیوری نے 1934 تک کام کیا

میری کیوری کے یہاں کیے گئے سائنسی تجربات نے اس جگہ کو ایسی تابکاری سے آلودہ کر دیا ہے جو اگلی کئی صدیوں تک اسے زندگی کے لیے غیر محفوظ بنائے رکھے گی

جب میری کیوری کی وفات کے کئی برس بعد یہاں تابکاری کی بلند سطح پائی گئی تو اسے دریائے سایین کا چرنوبل قرار دیا گیا تھا

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر تابکاری پائے جانے سے قبل میری کیوری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر یہ جگہ انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر فزکس کے ہیڈکوارٹرز اور پیرس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سائنس کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی رہی

بعد میں پایا گیا کہ تابکاری اس گھر کی دیواروں، قالینوں، فرش، چھتوں اور وال پیپرز تک میں موجود ہے اور اس کی سطح انسانوں کے لیے غیر محفوظ حد تک بلند ہے

اور یہیں پر میری کیوری اپنی زندگی کے آخر تک کسی حفاظتی اقدام کے بغیر دنیا کے سب سے ضرر رساں مادوں مثلاً تھوریئم، یورینیئم اور پولونیئم وغیرہ پر کام کرتی رہیں

اُنھوں نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ اُنھیں رات کے وقت ان مادوں سے نکلتے ہوئے سبز و نیلے رنگ کے جھماکوں کو دیکھنے میں بہت مزہ آتا تھا

اور ان تابکار مادوں پر کام کرتے ہوئے وہ ان کے بارے میں اپنی نوٹ بکس میں لکھتیں اور خاکے بناتیں، اور یوں یہ سب چیزیں تابکار مادوں سے آلودہ ہو گئیں

اُن کی وفات کے کئی برس بعد امریکہ 1938 میں ان مادوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کرنے والا پہلا ملک بنا جس کے بعد دوسرے ممالک نے بھی امریکہ کی پیروی کی

اس سے کئی صنعتوں کو نقصان پہنچا کیونکہ میری کیوری کی دریافتوں اور اُنھیں ملنے والے ایوارڈز کے بعد تابکار مادے اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ اُنھیں چہرے کی کریمز، اُسترے اور یہاں تک کہ زیر جامہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا
خیال کیا جاتا کہ یہ مادے بال گرنا روک سکتے ہیں اور مردانہ بانجھ پن کا علاج کر سکتے ہیں

80 کی دہائی تک اُن کے لیبارٹری خالی نہیں کروائی گئی تھی مگر اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق پھر متعدد پڑوسیوں نے اپنے علاقے میں کینسر کے بڑھتے کیسز کی شکایت کی

ایک جائزے میں نہ صرف ریڈیئم بلکہ یورینیئم کے بھی ذرات پائے گئے جنھیں بکھر کر نصف ہونے میں ساڑھے چار ارب سال لگتے ہیں

اس کے بعد قومی ورثہ تصور کی جانے والی میری کیوری کی اشیا بشمول اُن کی نوٹ بکس کو قومی لائبریری منتقل کر دیا گیا

نوّے کی دہائی میں اُن کی لیبارٹری کی ایک مرتبہ پھر گہرائی سے صفائی کی گئی مگر اب بھی فرانسیسی حکام نے یہاں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے
اور وقتاً فوقتاً آس پاس کے علاقوں بشمول دریا میں تابکاری کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے

اندازہ ہے کہ فرانس اب تک اس جگہ کی صفائی پر ایک کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے اور جب آنے والے برسوں میں یہ جگہ منہدم ہو جائے گی تو اس پر مزید اخراجات متوقع ہیں

تاہم یہ نوٹ بکس اگلے ڈیڑھ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک سیسے کے صندوقوں میں بند رہیں گی
اس اُمید کہ ساتھ کہ مستقبل کے انسان بغیر کسی حفاظتی سوٹ کے انسانی تاریخ کی ذہین ترین خاتون کی نوٹ بکس اپنے ہاتھوں میں لے سکیں گے

Kisi ko solution bta hu tu btao??
20/08/2023

Kisi ko solution bta hu tu btao??

08/03/2023

ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں سرکاری سکول کے استادِ گرامی ، صبح کو ڈیوٹی پر جاتے ہوئے اپنے
بچوں کو پرائیویٹ اسکول کے سامنے اتارتے ہیں ۔۔۔

08/03/2023

میلسی
پنجاب میں واقع ضلع وہاڑی کی ایک زرخیز اور خوبصورت تحصیل جس کا تقریباً 70 فیصد حصہ زرعات پہ مشتمل ہے کہتے ہیں اس شہر کا نام پہلے ملہی یا ملہے ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ میلسی میں تدبیل ہو گیا مہلے قوم جو ملتان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوٸی یہ وہ وقت تھا جب سکندر یونانی ملتان پہ حملہ آور ہوا یہ 320 سے 326 قبل مسیح بنتا ہے اس ہوۓ حملے کی وجہ سے مہلی قوم ملتان سے ہجرت کر کے یہأں آباد ہوٸی جہاں آج میلسی ہے اگر جاٸزہ لیا جاۓ تو یہ شہر بہت پرانی تاریخ رکھتا ہے
اس کے بعد جب 712سن میں اسلامی سپہ سالار محمد بن قاسم کے ملتان اور اردگرد حملہ کیا تو میلسی موجود تھا۔
پھر جب 1292 میں شہاب الدین غوری نے اپنی حکومت قاٸم کی تو میلسی اور ارد گرد پرتھوی راج کی حکومت تھی جسے شہاب الدین نے شکست فاش دی۔
پھر اسلامی دور اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں بننے جلہ جیم کی بادشاہی مسجد اور مسجد ملک واہن اور مزار خواجہ ابو بکر وراق جو آج بھی موجود ہیں ابوبکر وارق جن کا روحانی فیض جاری ہے میلسی کی سب سے اہم روحانی شخصیت تھے جن کا دربار اب بھی ان کے چاہنے والے عقیدت مندوں سے بھرا رہتا ہے اورعقیدت مند یہاں روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے میلسی کی آبادی تقریباً 20 ہزار افراد پر مشتمل تھی جس میں 50 فیصد مسلمان، 30 فیصد ہندو اور 20 فیصد سکھ اور مسیحی آباد تھے۔جس میں اب بے پناہ اضافہ ہوا ہے
پہلی دفعہ میلسی کو تحصیل کا درجہ 1848ء میں ملا تب یہ ضلع ملتان کا حصہ تھی۔ اس سے قبل میلسی کا علاقہ ریاست بہاولپور کا حصہ تھا . 1935ء میں میلسی کو سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا لیکن سات سال بعد 1942ء میں درجہ کم کر کے دوبارہ تحصیل بنا دیا گیا۔
قیام پاکستان 1947ء کے بعد بدستور ملتان کی ہی ایک تحصیل کا درجہ حاصل رہا۔
1976ء میں جب وہاڑی کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو میلسی کو وہاڑی کی تحصیل بنا دیا گیا۔میلسی کے دیہی علاقہ کو 38 یونین کونسلز اور شہری حلقہ کو میونسپل کمیٹی کے 12 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
میلسی ملتان سے 90 کلومیٹر مشرق اور وہاڑی سے 42 کلومیٹر جانب جنوب اور بہاولپور سے 84 کلومیٹر جانب جنوب مشرق واقع ہے۔
میلسی کے جنوب میں کہروڑ پکا 33 کلومیٹر ھے ، مشرق میں حاصل پور، مغرب میں خانیوال، ملتان اور شمال میں وہاڑی شہر آباد ہے۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق تحصیل میلسی کی کل آبادی سات لاکھ سے زائد تھی جو اب ایک بڑے اضافے کے ساتھ 15 لاکھ سے تجاوز کر گٸ ہے
میلسی میں 30 فیصد آبادی شہری علاقوں میں اور 70 فیصد آبادی دیہاتی علاقوں میں مقیم ہے۔
کیونکہ یہ علاقہ انتہاٸی زرخیز ہے اس لیے یہاں بہت سی فصلیں سبزیاں او پھل ہوتے ہیں یہاں دیگر شہروں کی طرح تعلیم و صحت کی بہتر سہولیات میسر ہیں انگریز دور کا بنا ریلوے اسٹیشن بھی بہت دلفریب نظارہ ہے ہیڈ ساٸفن جس کی پوسٹ پہلے ہوچکی ہے میلسی میں واقع تفریحی اور تاریخی منفرد مقام کی حیثیت رکھتا ہے

25/02/2023

عجیب_خودکشی !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رونالڈ أوبوس نام کے ایک شخص نے خودکشی کرنی چاہی تو اس نے اس کے لیے سب سے آسان طریقہ استعمال کیا اور وہ یہ کہ اس عمارت سے چھلانگ لگا دے جس میں وہ رہتا تھا۔ اس نے عمارت کی دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی اور اپنوں کے لیے ایک خط چھوڑا جس میں اس نے خودکشی کی وجہ یہ بتائی کہ وہ زندگی سے مایوس ہو گیا تھا۔

لیکن 23 مارچ 1994 کو جب اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو موت کی وجہ یہ پتہ چلی کہ رونالڈ کی موت چھت پر گرنے سے نہیں بلکہ سر پر گولی لگنے سے ہوئی ہے۔

جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ رونالڈ کو گولی اسی عمارت سے لگی ہے جس میں وہ رہتا تھا اور وہ گولی نویں منزل سے چلائی گئی تھی اور اس نویں منزل میں دو بوڑھے میاں بیوی کئی سالوں سے رہ رہے تھے۔

ہمسایوں سے معلوم ہوا کہ دونوں میاں بیوی آپس میں ہر وقت لڑتے جھگڑتے تھے اور عجیب بات یہ تھی کہ جب رونالڈ نے چھت پر سے اپنے آپ کو پھینکا عین اسی وقت بوڑھا شوہر پستول تھامے اپنی بیوی کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

شدید غصے و ہیجان کی حالت میں شوہر نے غیر ارادی طور پر اپنی بیوی پر گولی چلائی لیکن چونکہ بیوی نشانے سے دور تھی اس لئے گولی اس وقت کھڑکی سے نکلی عین اس وقت جب رونالڈ نے خودکشی کے لیے چھلانگ لگائی جس سے وہ گولی اس کے سر میں لگی ، جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔

(کہانی میں ٹوئسٹ ابھی باقی ہے)

عدالت میں بوڑھے شوہر پر غیر ارادی طور پر قتل کا مقدمہ چلا لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ وہ میاں بیوی ہر وقت لڑتے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے لیکن پستول ہر وقت فارغ ہی رہتا ہے اس میں گولیاں نہیں ہوتیں۔

مزید تحقیقات کرنے پر ایک عجیب بات یہ معلوم ہوئی کہ بوڑھے جوڑے کے رشتہ داروں میں سے کسی نے ایک ہفتہ قبل ان میاں بیوی کے بیٹے کو پستول میں گولیاں ڈالتے دیکھا تھا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ماں نے بیٹے کو مالی امداد دینے سے منع کر دیا تھا۔ تو بیٹے نے بوڑھے ماں باپ سے جان چھڑانے کی سوجھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین ہر وقت لڑتے رہتے ہیں اور لڑتے ہوئے وہ خالی پستول ماں پر تان لیتا ہے اس لئے اس نے پستول میں گولی لوڈ کی تاکہ وہ ایک تیر سے دو شکار کرے۔

لیکن گولی اس کی ماں کو نہ لگی اور وہ رونالڈ کے سر میں اس وقت لگی جب وہ خودکشی کر رہا تھا۔ اور اس طرح قتل کی تہمت کا مقدمہ باپ سے ہٹ کر بیٹے پر جا لگا۔

اس سارے واقعے میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ رونالڈ بذات خود ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کا بیٹا تھا اور اس نے ہی اس پستول میں گولی ڈالی تھی تاکہ وہ اپنے ماں باپ سے خلاصی پا سکے۔

لیکن مالی حالات خراب ہونے اور باپ کا اس کی ماں کو مارنے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے اس نے خود کشی کا فیصلہ کیا اور اوپری منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے وہی گولی اس کو لگی جو اس نے خود پستول میں ڈالی تھی اس طرح وہ بذات خود قاتل بھی ہوا اور مقتول بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منقول

24/02/2023

➖▪️•••••➖➖•••••▪️➖
*ببر شیر کـو قـتل کرنے والےصحـابـیؓ*

مسلمان فوج اور ایران کی فوج جنگ کے میدان میں جب آمنے سامنے آئے تو

مسلمان حیران ہوگئے کہ ایرانی اپنے ساتھ لڑنے کے لیئے تربیت یافتہ شیر لائے ہیں!!!

ان کے اشارے کے ساتھ شیر بھاگتا ہے گرجتا ھے

مسلمانوں کی فوج میں سے ایک دل والا بہادر آدمی نکلا!

وہ نڈر بہادر مسلمان ایک خوفناک اور ناقابل یقین اعتبار سے شیرکی طرف بھاگا

اور میرا خیال ہے تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک آدمی, شکاری شیر کا شکار کرنے بھاگا ہو!

دونوں فوجیں حیرت سے دیکھنے لگیں

آدمی چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو
شیر کا سامنا کیسے کر سکتا ہے!!!

وہ بہادر, ہوا کی طرح شیر کی طرف اڑ کر گیا!

اس بہادر کے سینے میں کامل مسلمان کا ایمان اور ہمت تھی!

جو خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کا عقیدہ تھا کہ شیر ہی اس سے ڈرے گا!

پھر اس نے اپنے شکار پر شیر کی طرح چھلانگ لگائی اور اس پر کئی وار کیے یہاں تک کہ اس نے اسے مار ڈالا!!

ایرانیوں کے دلوں میں خوف طاری ہوگیا!
وہ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جو شیروں سے نہیں ڈرتے تھے

چنانچہ مسلمانوں نے انہیں جنگ کے شروع میں ہی بھگا دیا

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس نوجوان کے پاس گئے اور ان کا سر چوما!!!
تو اس جوان نے عاجزی کے ساتھ سعد رضی اللہ عنہ کے قدموں کو بوسہ دیا
اور کہا
آپ کی شان نہیں ہے کہ میرا ماتھا چومیں بلکہ میں چومتا ہوں (تاریخ طبری)

کیا آپ جانتے ہیں کہ شیر بہادر کون تھا؟

ہاشم بن عتبہ ابن ابی وقاص تھے یہ خود بھی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے تھے!
انکا لقب مرقال تھا یعنی بہت تیز دوڑنے والے!
اتنے تیز کہ شیر کو بھی شکست دے ڈالی

یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے اصل ہیرو تھے نہ کہ فلمی ایکٹر اور جعلی مقابلے کرتے ہوئے ریسلر!
ھماری اپنی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں حقیقی بہادر موجود ہیں
لیکن ان کارناموں کو پڑھنے والے کوئی نہیں ہے!
اقبال نے کہا
ٹل نہ سکتے تھے میدان سے جو اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے!

07/11/2022
World education now a day specially Pakistan.
18/10/2022

World education now a day specially Pakistan.

Bright skills
24/09/2022

Bright skills

Education is the most important part of life.
24/09/2022

Education is the most important part of life.

INTRODUCTION OF VIRUS AND VIROLOGY
08/03/2022

INTRODUCTION OF VIRUS AND VIROLOGY

Address

Hyderabad

Telephone

+923186699260

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Educatious posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Educatious:

Videos

Share