Bold Novel,stories and memes

Bold Novel,stories and memes Follow me for more funny moments

Yahan tak k is k pass b ha bus ma he akela hn😭🥺😱
29/04/2024

Yahan tak k is k pass b ha bus ma he akela hn😭🥺😱

Where is legend??
26/04/2024

Where is legend??

Only legend he smj skty ha 😂😜🥵
23/04/2024

Only legend he smj skty ha 😂😜🥵

Novel Bloody_LoveWriter Falak_KazmiEpisode 9 & 10"کیا مطلب شہلا ۔۔"شمعون نے اس کی کلائی تھام کر روک لیا اور سنجیدگی سے پ...
27/03/2024

Novel Bloody_Love
Writer Falak_Kazmi
Episode 9 & 10

"کیا مطلب شہلا ۔۔"

شمعون نے اس کی کلائی تھام کر روک لیا اور سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔۔
البتہ آنکھیں پہلی بار یوں چمک رہی تھیں ۔۔
شہلا سے کوئی جواب نہیں بن پایا تو وہ کھانا ٹھنڈا ہوجانے کا کہتی ہوئی جھنجلا کر اپنی کلائی چھڑوانے لگی ۔۔
ہاتھ میں پکڑی ٹرے کی وجہ سے وہ زیادہ مزاحمت نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
شمعون نے گہری نظروں سے اس کی گھبراہٹ ملاحظہ کی ۔۔
پھر جیسے ترس کھا کر اس کی کلائی چھوڑ دی ۔۔
شہلا ایک اچٹتی سی گھوری اس پر ڈال کر آگے بڑھ گئی تو وہ بھی مسکراہٹ دبائے اس کے ہمقدم ہوگیا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں جب طوبی کے کمرے کے باہر پہنچے تب شہلا کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ تھی ۔۔
جبکہ شمعون کا چہرہ بلکل سرد ہوگیا تھا ۔۔
اگر طوبی دماغی طور پر معذور نہ ہو چکی ہوتی تو اب تک وہ اس کا بھی صفایا کر چکا ہوتا ۔۔
جبڑے بھینچ کر شمعون نے کمرے کا لاک کھولا ۔۔
کمرے میں اندھیرا تھا ۔۔
تیمور نے گردن نکال کر اندر کا جائزہ لیا ۔۔
بیڈ پر دراز ہیولا دیکھ کر وہ کچھ مطمئین ہوگیا اور شہلا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔
شہلا نیم اندھیرے کمرے میں بمشکل میز تک پہنچی ۔۔
ٹرے میز پر رکھ کر اس نے آگے بڑھ کر دیوار گیر کھڑکی کے پردے ہٹائے ۔۔
پورا کمرہ سورج کی تیز روشنی میں نہا گیا ۔۔
شمعون نے ترچھی ناگوار نظروں سے "اوں ہوں" کر کے نیند سے بیدار ہوتی طوبی کو گھورا پھر صوفے پر ٹک گیا جبکہ شہلا لب کچلتی طوبی کو اٹھتا دیکھنے لگی ۔۔
"طوبی نقصان پہنچا دیگی ۔۔
طوبی یہ کر دیگی ۔۔
طوبی وہ کر دیگی ۔۔"
حویلی کے مکینوں نے باتیں ہی کچھ ایسی کی تھیں کہ وہ دل ہی دل میں سخت پریشان ہوگئی تھی ۔۔
لیکن اب شمعون کو وہیں بیٹھتا دیکھ کر کچھ مطمئین بھی ہوگئی تھی ۔۔

طوبی نے عجیب سی نظروں سے شہلا کو گھورا پھر گردن موڑ کر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
شمعون پاس پڑا کوئی میگزین اٹھا کر چہرے کے آگے کر چکا تھا ۔۔
وہ ہر بار یہی کرتا تھا ۔۔
اسے نہیں اندازہ تھا ۔۔
کہ طوبی اس کے چہرے سے واقف ہے یا نہیں ۔۔
لیکن احتیاط ضروری تھی ۔۔

"کیوں آئے ہو تم لوگ یہاں ۔۔
کون ہو تم لوگ ۔۔
تت تم لوگ وہی بلائیں ہو ناں ۔۔
تم لوگ ابھی بلیاں بن جائوگے ۔۔
بڑی بڑی بلیاں ۔۔
لال لال آنکھوں والی ۔۔
پھپ پھر ۔۔
پھر تم لوگ میری گردن سے گوشت نوچوگے ۔۔
ہے ناں ۔۔
میرا خون پی لو گے تم لوگ ۔۔
میری جان لے لوگے تم لوگ ۔۔
جیسے طبیب بھائی کی لی تھی ۔۔
طبیب بھائی کی طرح مجھے مار دو گے تم لوگ ۔۔
مار دوگے ہے ناں ۔۔
ہاں ۔۔
مار دوگے ۔۔
پھر میں اپنے ماماں پاپا اور بھائی کے پاس چلی جائوں گی ۔۔
اوپر آسمانوں میں ۔۔
جہاں اللہ میاں بھی ہوتے ہیں ۔۔
وہاں کوئی مجھے کچھ نہیں کر سکے گا ۔۔
تم لوگ بھی نہیں ۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔"

چیخ چیخ کر بولتے بولتے طوبی اب قہقے لگانے لگی تھی ۔۔
اس کے پیروں میں زنجیر تھی جو بیڈ کی پائنتی سے بندھی تھی ۔۔
طوبی تالیاں پیٹ پیٹ کر اب شمعون اور شہلا کو اپنے پاس آنے کی اور اپنا خون پینے کی آفر کر رہی تھی ۔۔

"آئو ناں ۔۔
ختم کردو مجھے ۔۔
مجھے آسمان پر جانا ہے ۔۔
اپنے بھائی اور ماماں پاپا سے ملنا ہے ۔۔
پلیز میرا خون پیو ناں ۔۔"

شمعون جو میگزین کے اوپر سے اپنی سیاہ سرد آنکھوں سے طوبی کا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔
اب اکتا کر شہلا کی طرف دیکھنے لگا ۔۔
اس کا خیال تھا شہلا خوفزدہ ہوگی ۔۔
لیکن شہلا کی چھوٹی چھوٹی غلافی آنکھوں صرف ترحم تھا ۔۔
اور بہت زیادہ تھا ۔۔
شمعون کو عجیب سے احساسات نے گھیر لیا جب ہی اس نے اٹھ کر شہلا کو چلنے کا کہا ۔۔

"یہ ابھی کھانے کے موڈ میں نہیں لگ رہی ۔۔
ایک وقت نہیں کھائے گی تو مر نہیں جائے گی ۔۔
تم چلو ۔۔"

شہلا نے حیرت اور افسوس سے شمعون کے کٹھور انداز کو ملاحظہ کیا پھر نفی میں سر ہلا کر اسے جانے کا اشارہ دیا اور خود طوبی کے قریب بڑھ گئی ۔۔
شمعون تیوریاں چڑھائے کھڑکی کی طرف رخ موڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
طوبی سے یہ ہمدردی کوئی بھی کر لیتا لیکن شہلا نہیں ۔۔
وہ اکتایا ہوا سا پشت سے شہلا اور طوبی کی باتوں کی آوازیں سننے لگا ۔۔

"آپ یہ کھانا کھالیں پلیز ۔۔"

شہلا کی آواز کانپ رہی تھی ۔۔
حویلی کا ہر فرد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ۔۔
لیکن سامنے بیٹھی یہ لڑکی ۔۔
جسے ایک حادثے نے ناکارہ بنا دیا تھا ۔۔
اس کے حسن کے آگے ساری حویلی والوں کا یکجا حسن بھی کچھ نہیں تھا ۔۔
ایک حسن سے مالامال وجود کو اس حال میں دیکھ کر شہلا کا افسوس اور بھی بڑھ گیا تھا ۔۔

طوبی کھانے کا کہنے پر بچوں کی طرح نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔

"پہلے تم مجھے کھائو پلیز ۔۔
مجھے مرنا ہے ۔۔
مجھے بھائی کے پاس جانا ہے ۔۔
مجھے ماماں پاپا چاہئیں ۔۔"

شمعون نے کوفت سے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے سرپر ماری ۔۔
اس کا دماغ سہی خراب ہو رہا تھا ۔۔

"طوبی آپ کھانا کھالیں ۔۔
ایسے رہیں گی تو آپ کے ماماں پاپا اور بھائی ۔۔
سب کو تکلیف ہوگی ۔۔"

"تم بلی ہو ۔۔
تم مجھے کھانا کیوں کھلانا چاہتی ہو ۔۔
اوہ آئی سی ۔۔
تم اس اسٹوری والی وچ کی طرح کروگی ۔۔
میں کھانا کھا کر موٹی ہوجائوں گی تب تم میرا ڈھیر سارا گوشت کھائوگی ۔۔
ہے ناں ۔۔"

"ہاں ہم ایسا ہی کریں گے ۔۔
تمہارا سارا گوشت کھاجائیں گے ۔۔
یہ ہڈیاں نہیں کھانی ہمیں گوشت کھانا ہے ۔۔
اور گوشت بنانے کے لیئے ضروری ہے کہ تم یہ سارا کھانا کھائو ڈیئر ۔۔"

شمعون اس سب سے بیزار ہو کر اچانک چیخ پڑا اور بیڈ پر طوبی کے دائیں بائیں دونوں ہاتھ ٹکا کر آہستہ سے چبا چبا کر بولا ۔۔
شمعون کی پتلیاں غصے سے چھوٹی ہوگئی تھیں ۔۔
چہرے کے خدو خال نارمل ہونے کے باوجود ان میں ایک خوفزدہ کرنے والا تاثر نظر آرہا تھا ۔۔
شہلا شمعون کو بیڈ کے نزدیک آتا دیکھ کر پہلے ہی پیچھے ہوگئی تھی ۔۔
جب ہی شمعون کا چہرہ دیکھنے سے رہ گئی تھی ۔۔
لیکن طوبی ۔۔
طوبی پر تو جیسے بجلیاں گری تھیں ۔۔
ان آنکھوں کو بھلا کیسے بھول سکتی تھی وہ ۔۔
یہ وہی آنکھیں تو تھیں ۔۔
اور اس کے اتنے نزدیک بھی ۔۔
پہلے پہل تو طوبی کو لگا اس کی آواز کھو گئی ہے ۔۔
پھر اس نے وہ شور اٹھایا کہ شہلا کی بھی خوف سے چیخیں نکل گئیں ۔۔
اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر شہلا وہیں بیٹھنے لگی تھی لیکن شمعون کمرے میں بھاگے آتے وجدان کو طوبی کو سنبھالنے کا کہہ کر شہلا کو ساتھ لیئے کمرے سے باہر نکل آیا ۔۔

"اے لو ایک کام دیا وہ تک ہوا نہیں ۔۔
اللہ ہی حافظ ہے بھئی ان کا تو ۔۔"

حمنہ بیگم بھی نیچے سے اوپر بھاگی آئی تھیں ۔۔
طوبی کے کمرے میں جاتے ہوئے شہلا کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے زبان کے نشتر چلانے ضروری سمجھے ۔۔
شمعون ان پر اچٹتی نظر ڈال کر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔۔
اس کے لبوں پر لمحہ بھر کو عجیب سی مسکراہٹ بکھری پھر معدوم ہوئی تھی ۔۔

"ہم باہر آگئے ہیں ۔۔
اب سب ٹھیک ہے ۔۔
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا چلتے ہیں ۔۔
مجھے اس کی طبیعت کا پتہ جو ہے ۔۔
ہر کسی پر ہمدردیاں نہیں نچھاور کردیتے شہلا ۔۔
ابھی میں نہ آتا تمہارے ساتھ ۔۔
کوئی نقصان پہنچا دیتی وہ تمہیں ۔۔
پھر ۔۔"

شہلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور غائب دماغی سے طوبی کے کمرے کے کمرے کے دروازے کو دیکھنے لگی جہاں سے طوبی کی آواز ہنوز آ رہی تھی ۔۔
"وہ آ چکا یے ۔۔
وہ پھر سے آچکا ہے ۔۔
وہ ہم سب کو مار دے گا جیسے بھائی کو مار دیا تھا ۔۔
بچائیں مجھے مامی ۔۔
بچائیں مجھے ۔۔"

"شہلا مت سنو اس کی باتیں ۔۔
جائو اپنے کمرے میں ۔۔"

شمعون نے جبڑے بھینچ کر بدقت نرمی سے کہا ۔۔

شہلا لب بھینچ کر مرے مرے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔
اور پیچھے تیمور نے گھور کر طوبی کے کمرے کی طرف دیکھا ۔۔

"ایک بار شہلا میری ہوجائے ۔۔
سب کو ٹھکانے لگادوں گا ۔۔"

شمعون اندر ہی اندر دہاڑتا ہوا بجتے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
فون اس کی کمپنی کی طرف سے تھا ۔۔
فون کان سے لگا کر وہ سائڈ ہوگیا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے
Novel bloody love
Writer falak kazmi
Episode 10

شام ڈھلے کا وقت تھا ۔۔
موسم ابر آلود تھا ۔۔
گیلری میں کھڑی وہ سرمئی بادلوں پر نظریں ٹکائے طوبی کے متعلق ہی سوچ رہی تھی جب امتل نے آ کر اسے تیمور صاحب کا بلاوا پہنچایا ۔۔
شہلا غائب دماغی سے سر ہلا کر اس کے پیچھے نکل گئی لیکن لائبریری کے دروازے پر پہنچ کر اچانک ذہن میں کچھ کلک ہوا ۔۔

"کہیں تیمور انکل ۔۔
شمعون کے بارے میں تو ۔۔
اففف ۔۔
کیسے جواب دوں ۔۔
تیمور انکل کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔
اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے ان کے خاندان میں ۔۔
اور میں ان کی حویلی میں رہ کر کیا کیا گل کھلاتی پھر رہی ہوں ۔۔"

اپنی سوچوں میں گم اسے احساس نہیں ہوا کہ شمعون اس کے بلکل قریب آ چکا ہے ۔۔
شہلا کے شانے کے اوپر سے اپنا چہرہ آگے کر کے شمعون کچھ دیر تک شہلا کے ترچھے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھتا رہا پھر اس کے کان کے قریب ہونٹ کر کے مدھم گمبھیر آواز میں التجائیا گویا ہوا ۔۔

"ہاں کہنا شہلا ۔۔
پلیز ۔۔"

کان پر گرم سانسوں کا احساس ۔۔
اور یہ التجا ۔۔

شہلا اچھل کر پیچھے ہوئی تو نظریں شمعون کی آنکھوں سے ٹکرائیں ۔۔
جو ہمیشہ کی طرح آج بے تاثر نہیں تھیں ۔۔
کچھ کہہ رہی تھیں ۔۔
کچھ پوچھ رہی تھیں ۔۔
اکسا رہی تھیں ۔۔
شہلا کو اپنے گال تمتاتے محسوس ہوئے تو خود سے ہی گھبراتی ہوئی وہ جلدی سے لائبریری میں گھس گئی ۔۔
پیچھے شمعون شاد سا مسکرا دیا ۔۔
وہ اب مطمئین تھا ۔۔
کیونکہ وہ اپنا کام کر چکا تھا ۔۔
اسے سو فیصد یقین تھا کہ شہلا اب ہاں ہی کرے گی ۔۔
وہ کچھ وقت کے لیئے اس کے ذہن کو اپنے سحر میں لے چکا تھا ۔۔
شہلا اگرچہ خود بھی "ہاں" کہنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔۔
لیکن شمعون جانتا تھا ۔۔
انسان اپنی باتوں پر کم ہی قائم رہتے ہیں ۔۔
پھر اس کا دل بھی ایک بے نام سے خوف کا شکار رہتا تھا ۔۔
شہلا کی طرف سے ایک دھڑکا لگا رہتا تھا ۔۔
سو اس نے اپنا سحر چلانا ضروری سمجھا تھا ۔۔
اوپر جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھ کر شمعون نے اپنی نظریں لائبریری کے بند دروازے پر جما دی تھیں ۔۔

سگرٹ کے کش لیتا حمزہ جب اپنے کمرے سے نکلا تو شمعون کے چہرے پر پھیلی گہری مسکان دیکھ کر حیران ہوا ۔۔
شمعون کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا ایسا ہی تھا جیسے رات کے وقت سورج دیکھنا ۔۔

"چاچو ۔۔"

حمزہ نے شمعون کے قریب جا کر پکارا ۔۔
شمعون کی مسکراہٹ معدوم ہوگئی اور اس نے سپاٹ نظروں سے حمزہ کو دیکھا ۔۔

"خوش لگ رہے ہیں ۔۔"

حمزہ نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔

"تو ۔۔؟
تکلیف ہو رہی ہے تمہیں ۔۔"

شمعون کی طرف سے طنزیہ جواب ملنے کی ہی امید تھی ۔۔
اور وہی ملا بھی ۔۔

حمزہ کوفت سے اسے دیکھتا ہوا پلٹنے لگا جب لائبریری کا دروازہ کھلا ۔۔
پہلے شہلا نکلی ۔۔
بڑی جلدی میں لگتی تھی ۔۔
سیڑھیوں پر شمعون کو دیکھا تو سٹپٹا کر لان میں بھاگ گئی ۔۔
شمعون بے ساختہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔
حمزہ چونک کر ٹکر ٹکر کبھی شمعون کو دیکھتا تو کبھی اس راہ کو جہاں سے شہلا گئی تھی ۔۔

ابھی وہ الجھا ہوا سا شہلا کے پیچھے جانے کا سوچ ہی رہا تھا جب اندر سے بڑبڑاتی ہوئی جویریہ بیگم بھی نکلیں ۔۔
ان کے ساتھ تیمور آفندی بھی تھے ۔۔

"تیمور آپ ایک بار ۔۔
شہلا کو شمعون کی حقیقت تو بتا دیتے ۔۔
ایسے ہی جلد بازی میں رشتہ جوڑ دیا ۔۔
کل کو وہ لڑکی گلا کرے کہ مجھے ایک حرام ۔۔"

جویریہ بیگم کی چلتی زبان شمعون کی چڑھی تیوری دیکھ کر رک گئی ۔۔
گڑبڑا کر وہ سر جھٹکتی ہوئی حویلی کی باقی خواتین کو اس نئے رشتے کے بارے میں بتانے بھاگ نکلیں ۔۔
جبکہ تیمور آفندی شمعون کی طرف بانہیں پھیلا کر بڑھ گئے ۔۔
شمعون مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے گلے لگ گیا ۔۔

پیچھے کھڑا حمزہ خود کو دنیا کا سب سے بیوقوف انسان محسوس کر رہا تھا ۔۔
بالآخر تیمور آفندی کو اس کا دھیان بھی آ ہی گیا اور وہ ایسے ہی بانہیں پھیلائے پھیلائے اس کی طرف بڑھے ۔۔
حمزہ خجل سا ہو کر ہنس پڑا ۔۔

"اب بتائیں ناں ۔۔
کیا ہو رہا ہے ۔۔
چاچی کیوں بگڑ رہی ہیں ۔۔"

"ارے تمہاری چاچی کب نہیں بگڑتیں ۔۔
اسے چھوڑو ۔۔
بات یہ ہے کہ ۔۔
شمعون اور شہلا کی شادی کا فیصلہ کیا ہے ہم نے ۔۔
سب اسی مہینے ہوگا سادگی سے ۔۔
کمپنی کے کام سے شمعون پھر کینیڈا چلا جائے گا ۔۔
بہت وقت لگ جائے گا اگر اس کی واپسی کا انتظار کیا ۔۔
اور یہ ہوا جا رہا ہے بے صبرا ۔۔"

آخر میں تیمور آفندی نے شرارت سے شمعون کو دیکھا تو وہ اس بار اپنی ہنسی روک نہیں سکا ۔۔

ان دونوں کے ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھتے ہوئے حمزہ کو اپنا آپ بلکل خالی خالی محسوس ہو رہا تھا ۔۔

ابھی تو اس کے دل میں محبت کی ننھی سی کونپل پھوٹی تھی ۔۔
زیادہ وقت تو نہیں گزرا تھا ۔۔

ایک یہی تو شغل تھا اس کا آج کل صرف ۔۔
چوری چوری شہلا کو دیکھنا ۔۔
ڈانٹ ڈپٹ کر اسے اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرنا ۔۔
(خواہ برا ہی سوچے ۔۔
لیکن سوچے تو سہی ۔۔)

محبت ہوگئی تھی ۔۔
لیکن پہلی پہلی نئی نئی تھی ۔۔
ابھی محبت نبھانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا ۔۔
پھر جو حالات چل رہے تھے حویلی میں ۔۔
کیا ایسے میں اس کا اظہار محبت اچھا لگتا ۔۔؟
بلکل نہیں ۔۔
لیکن اس بیچارے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔
کہ اس کا تکلف ۔۔
اس کی خاموشی ۔۔
اس کا اتنا بڑا نقصان کر دے گی ۔۔
اور وہ بیٹھا دیکھتا رہ جائے گا ۔۔

جیسے ہی یہ خبر حویلی میں پھیلی ۔۔
ایک شور سا مچ گیا تھا ۔۔
کوئی ناگواری کا اظہار کر رہا تھا تو کوئی حیرت کا ۔۔
کوئی کوئی خوش بھی لگ رہا تھا ۔۔
"چلو کوئی تو خوشی کی گھڑی نصیب ہوئی ۔۔"
جعفر صاحب کی بیوہ شمائلہ بیگم کی عدت بھی کچھ دن پہلے ہی ختم ہوئی تھی ۔۔
انہوں نے اپنا واویلا شروع کر رکھا تھا ۔۔
ایسے میں سیڑھیوں پر شاک کی کیفیت میں بیٹھے حمزہ پر توجہ کسے دینی تھی ۔۔

گم صم سا وہ سب کو دیکھتا رہا ۔۔
پھر پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Novel Bloody_LoveWriter Falak_KazmiEpisode 7 .8شہلا خالی خالی نظروں سے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے لان کو دیکھ رہی تھی ۔۔س...
26/03/2024

Novel Bloody_Love
Writer Falak_Kazmi
Episode 7 .8

شہلا خالی خالی نظروں سے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے لان کو دیکھ رہی تھی ۔۔
سونے سے پہلے اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنا لیا تھا ۔۔
لیکن ہوا کے زور پر اس کے جوڑے سے بالوں کی موٹی موٹی لٹیں نکل کر لہرانے لگی تھیں ۔۔
وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی ۔۔
دبتی ہوئی گندمی رنگت ۔۔
بھرا بھرا گول چہرہ ۔۔
چھوٹی چھوٹی غلافی آنکھیں تھیں ۔۔
جن کی پتلیاں کافی بڑی تھیں ۔۔
چپٹی سی ناک کو لونگ نے سجا دیا تھا ۔۔
ہونٹوں کا کٹائو بہت دلکش نہیں تھا ۔۔
لیکن قطار سے بنے موتیوں جیسے دانتوں کی وجہ سے مسکراہٹ بہت پیاری لگتی تھی ۔۔
لیکن وہ مسکراتی کب تھی ۔۔
اسے خود بھی یاد نہیں آیا وہ آخری دفعہ کب مسکرائی تھی ۔۔
جبراً لب پھیلا لینا مسکرانا تو نہیں ہوتا نا ۔۔
اڑتے بالوں کو سمیٹ کر شہلا نے جوڑے کو تھپتھپایا تو سیاہ ریشمی بالوں کا جوڑا کھلتا چلا گیا ۔۔
اس نے بھی پروہ نہیں کی ۔۔
ہوا کے دوش پر اڑتے گدگداتے بال مزہ دے رہے تھے ۔۔
آنکھیں بند کر کے اس نے رات کی رانی کی خوشبوں اپنی سانسوں میں کھینچی تھی ۔۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا درختوں کی ٹہنیوں سے دو سرخ آنکھیں کب سے اسے تک رہی تھیں ۔۔
اس کے بالوں میں کسی کا دل اٹکا تھا اس بات سے انجان وہ سوچ رہی تھی۔۔
"اتنے دراز بال سنبھالنے مشکل ہوتے ہیں ۔۔
کاٹ لوں گی کل ۔۔"

تھوڑی دیر اور خوشبودار ٹھنڈی ہوا سانوں میں اتارنے کے بعد وہ کمرے کے اندر چلی گئی تھی ۔۔
جبکہ وہ سیاہ بلا چھلانگ لگا کر اس کی گیلری میں کودا تھا جس سے اچھی خاصی آواز ہوئی تھی ۔۔
بلے نے گیلری کا دروازہ اپنے مضبوط وجود سے کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ اندر سے بند تھا ۔۔
وہ دروازے کو قہربار نظروں سے گھورنے لگا ۔۔
وہ اپنی انسانی شکل میں ہوتا یا بلے کا روپ دھارے ہوتا ۔۔
وہ یا اس کے قبیلے کے باقی لوگ ایسی کسی دیوار یا دروازے کے آر پار نہیں ہوسکتے تھے ۔۔
وہ بے بس سا اُدھر اُدھر چکرانے لگا ۔۔
وہ کچھ دیر اور شہلا کو دیکھنا چاہتا تھا ۔۔
یا شائد دیکھتے ہی رہنا چاہتا تھا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ نے سگرٹ کا دھواں فزائوں کے سپرد کر کے وجدان کی طرف دیکھا جو اس سے چار سال بڑا تھا ۔۔
چہرے پر بلا کی سنجہدگی تھی جو اس حادثے کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی ۔۔
حمزہ نے اپنی بہن کو کھویا تھا تو وجدان نے بھی اپنی ماں کو کھو دیا تھا ۔۔
وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا ۔۔
باپ تو شفقت لٹاتا ہی تھا لیکن اپنی ماں کی آنکھ کا تارا تھا وہ ۔۔
اتنا بڑا ہونے کے باوجود وہ اس کے کان کے پیچھے کالا ٹیکا لگایا کرتی تھیں ۔۔
سب کزنز اسے "ماں کا لاڈلا" کہہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے ۔۔
وہ بھی اپنی ماں کے لیئے اتنا ہی حساس تھا جتنا حمزہ ہانیہ کے لیئے ۔۔

سر جھٹک کر حمزہ نے آنکھ کے کنارے سے آنسو صاف کیا ۔۔
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے بہن کی یادوں سے پیچھا چھڑوایا تھا ۔۔

وہ دونوں شام ڈھلے آفس سے واپس لوٹ رہے تھے ۔۔
جو بھی تھا کبھی نہ کبھی صبر آنا ہی تھا ۔۔
حویلی والوں کو بھی رفتہ رفتہ آنے لگا تھا ۔۔
سب روٹین کی طرف لوٹ رہے تھے ۔۔
مرد حضرات تو چار و ناچار کام پر جاتے ہی تھے ۔۔
مگر آج تمام خواتین بھی کچن میں رات کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھیں ۔۔
کچن سے اشتہاانگیز کھانے کی خوشبوئیں آ رہی تھیں ۔۔
تینوں لڑکیاں تو بس کچھ بھی ہلکا پھلکا الٹا سیدھا بنا کر جان چھڑا لیتی تھیں ۔۔
اور ذائقہ اتنا خراب ہوتا تھا کہ اگر کسی کو بھوک لگ ہی جاتی تو ایک دو نوالے کھا کر ہی بھوک مر جاتی تھی ۔۔

حمزہ کی بھوک بہت عرصے بعد چمکی تھی ۔۔
وہ فریش ہو کر آیا تو ڈائننگ ٹیبل پر سب جمع تھے ۔۔
غیر ارادی طور پر نظروں نے کسی کو تلاشہ تو وہ اسی وقت کچن سے ایک ڈونگا اٹھائے آتی نظر آئی ۔۔
حمزہ کی نظریں ساکت رہ گئی تھیں ۔۔
صرف حمزہ کی ہی نہیں ۔۔
دو کالی آنکھوں میں بھی اچانک ناگواری اتر آئی تھی ۔۔
شہلا کے اونچی پونی میں جکڑے ریشمی سیاہ بال کندھوں سے ذرا ہی نیچے آ رہے تھے ۔۔
صبح ہی اس نے اپنے بالوں کو کاٹا تھا ۔۔
اب وہ گردن بہت ہلکی پھلکی محسوس کر رہی تھی ۔۔
اپنے لیئے کھانا نکالتے ہوئے اس نے بے پروائی سے سر اٹھایا تو نظریں حمزہ کی نظروں سے ٹکرائیں ۔۔
حمزہ نے اپنی نظریں فوراً نہیں ہٹائی تھیں بلکہ ایک عدد گھوری سے نواز کر نظروں کا رخ بدلا تھا ۔۔
شہلا کچھ سمجھے بغیر ہی خجل ہوگئی ۔۔
خجالت مٹانے کو اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اس بار نظریں شمعون کی سیاہ آنکھوں سے جا ٹکرائیں ۔۔
شمعون کوئی تاثر دیئے بغیر کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا لیکن اس کی کشادہ پیشانی پر ایک گہرا بل نمایاں تھا ۔۔

"کیا مسئلہ ہے ان چچا بھتیجا کے ساتھ ۔۔"

دل میں بڑبڑاتے ہوئے شہلا بھی کھانے کی پلیٹ پر جھک گئی ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امتل نازیہ اور فرح کے ساتھ لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے وہ ہانیہ کی غیر موجودگی کافی محسوس کر رہی تھی ۔۔
ہانیہ اپنے تمام کزنز میں سب سے چھوٹی تھی ۔۔
لیکن سب سے بردبار بھی وہی تھی ۔۔
ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے شہلا نے جویریہ بیگم کو اس طرف آتا دیکھا ۔۔

"امتل ۔۔"

"جی امی ۔۔"

امتل ان کے قریب ہوئی ۔۔

"یہ کھانا طوبی کو دے آئو ۔۔"

"امی مجھے نہ کہا کریں ۔۔
اس نے پچھلی بار بھی میرا سر دیوار سے مار دیا تھا ۔۔"

امتل نے پیشانی پر بکھرے چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال پیچھے کر کے انہیں وہ گمشدہ نشان دکھانے کی کوشش کی ۔۔

"چل جا نا میرا بچہ ۔۔
میرے سے سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں ۔۔
اور تو ڈر مت ۔۔
حمزہ جا رہا ہے ساتھ ۔۔"

انہوں نے اپنے پیچھے آتے حمزہ کی طرف اشارہ کیا ۔۔
امتل کی تیوری ہنوز چڑھی رہی ۔۔
فرح نیند کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ نازیہ کے فون پر کال آئی تو وہ سائڈ ہوگئی ۔۔
شہلا طوبی کے قصے کو جانتی تھی اور جویریہ بیگم کی تیوریاں بھی دیکھ چکی تھی سو ان سے کچھ فاصلے پر ہو کر ٹہلنے لگی ۔۔

"یہ لے شاباش لے جا ۔۔"

حمزہ جب پاس آیا تب انہوں نے زبردستی امتل کو ٹرے تھمائی اور مسکراتی نظروں سے امتل اور اس کے پہلو میں کھڑے حمزہ کو دیکھتی ہوئی وہاں سے چل دیں ۔۔
وہ اپنی لاابالی سی بیٹی کو کیسے اپنے خیالات سمجھاتیں ۔۔
براہ راست کچھ کہنے سے بھی ڈر رہی تھیں کہ کہیں امتل خواب سجانا نہ شروع کردے ۔۔
اور بعد میں اگر قسمت کو یہ منظور نہ ہو ۔۔
تو ان کی اکلوتی بیٹی کا ننھا سا دل ٹوٹ جائے ۔۔
سو وہ اپنی طرف سے ڈھکی چھپی کوشش کر رہی تھیں حمزہ اور امتل کی جوڑی بنانے کی ۔۔

کچھ دور کھڑی شہلا نے بڑی گہری نظروں سے ساری کاروائی ملاحظہ کی پھر دھیرے سے ہنس پڑی ۔۔
شائد ساری مائیں ایسی ہوتی ہیں ۔۔

"ارے واہ ۔۔"

ابھی وہ آگے بڑھ رہی تھی جب مسکراتی ہوئی مدھم آواز پر اچھل کر پلٹی ۔۔
شمعون ایک درخت کے تنے سے کمر ٹکائے نہ جانے کب سے وہاں کھڑا تھا ۔۔
شہلا اس کی موجودگی بلکل محسوس نہیں کر سکی تھی ۔۔
وہ خود پر حیران ہو رہی تھی جب شمعون آگے بڑھا اور اس کے پہلو میں آ کر کھڑا ہوگیا ۔۔

"اب سمجھ آیا آپ کم کم کیوں مسکراتی ہیں ۔۔"

شہلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔
کسی انجان مرد سے تنہائی میں بات کرنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا ۔۔
سو اس کے مساموں سے پسینہ پھوٹنے لگا ۔۔
شمعون نے گہری نظروں سے اس کی گھبراہٹ ملاحظہ کی پھر قدم آگے بڑھا دیئے ۔۔
ساتھ ہی شہلا کو بھی چلنے کا اشارہ دیا ۔۔
شہلا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے قدم گھسیٹنے لگی ۔۔

امتل کے ساتھ آگے بڑھتے حمزہ نے حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا ۔۔
دیکھا تو امتل نے بھی تھا ۔۔

"ہو نہ ہو ۔۔
یہ میڈم اتنی ساری مصیبتیں جھیل کر فلمی سچویشن میں ہماری حویلی میں ہماری چاچی بننے ہی آئی ہیں ۔۔
لکھوا لیں مجھ سے حمزہ بھائی ۔۔
قدرت کو یہی منظور یے ۔۔"

امتل نان اسٹاپ بول رہی تھی ۔۔
حمزہ نے ترچھی نظروں سے اسے گھورا ۔۔

"تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ چاچی بننے ہی آئی ہے ۔۔"

حمزہ نے منہ ایسا بنا لیا تھا جیسے منہ میں کڑوا بادام آیا ہو ۔۔

"اوہوووووو"

امتل کی آنکھیں پہلے باہر کو ابلیں پھر شرارت سے آنکھیں مٹکائیں اور چہک کر بولی ۔۔

"ممکن ہے بھابی بننے آئی ہو ۔۔
اب ٹھیک ہے ۔۔"

حمزہ اس کی بات پر ڈانٹنے کی کوشش کی لیکن منہ سے مدھم سی ہنسی نکل گئی ۔۔
امتل نے بھی پھر چھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
کچن سے نکلتی جویریہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا یہ منظر دیکھ کر ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہلا کو اب نیند آنے لگی تھی ۔۔
حویلی کی لائٹس اندر سے آف کر دی گئی تھیں لیکن شمعون اسے جانے ہی نہیں دے رہا تھا ۔۔
شہلا سوچ رہی تھی کاش وہ تھوڑی بے مروت ہوتی ۔۔
سو ٹکا سا کوئی جواب دے کر چلتی بنتی ۔۔
لیکن ہائے رے مروت نام کی یہ مصیبت ۔۔
ہاں مگر اتنا تھا کہ اب وہ جبراً ہونٹ مسکرانے کے انداز میں پھیلا کر جواب نہیں دے رہی تھی ۔۔
سنجیدہ سا چہرہ بنائے ہوں ہاں میں جواب دیتی اپنی کوفت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
اور شمعون سب محسوس کر کے بھی انجان بن رہا تھا ۔۔

"شہلا ۔۔"

نہ جانے شمعون کی اس گمبھیر پکار میں کیا تھا کہ شہلا کا چہرہ پسینے میں نہا گیا ۔۔
جیسے باتوں کی شروعات میں ہوا تھا ۔۔
شہلا نے لرزتی پلکیں بمشکل اٹھا کر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔

"ڈونٹ مائنڈ لیکن ایسا لگتا یے اس حویلی میں آپ کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا ۔۔
جیسے مجھے بھی کوئی پسند نہیں کرتا ۔۔
آئیں دونوں ایک دوسرے کو پسند کر لیں ۔۔"

شمعون نے اچانک اس کے سامنے ہو کر اپنا چوڑا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیا ۔۔
شمعون جانتا تھا یہ سب بہت عجلت میں ہوگیا تھا لیکن اب وہ مزید دیر نہیں چاہتا تھا ۔۔
ہرگز نہیں چاہتا تھا ۔۔

شہلا نے آنکھیں پھاڑ کر پہلے اپنے سامنے پھیلی ہتھیلی کو دیکھا پھر شمعون کے چہرے کو ۔۔
جہاں سنجیدگی کے علاوہ بھی کچھ تھا جس نے شہلا کو نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا ۔۔
شہلا کو بہت عجیب لگ رہا تھا ۔۔
مہینہ ہی ہوا تھا ابھی اس حادثے کو گزرے اور شمعون سسے پرپوز کر رہا تھا ۔۔
جھجھکتے ہوئے شہلا دو قدم پیچھے ہوئی اور پھر بھاگتی چلی گئی ۔۔
پیچھے اپنے خالی ہاتھ کو گھورتا شمعون اپنے اندر پکتے لاوے کو محسوس کر کے پہلی بار خوفزدہ ہوگیا ۔۔

"نہیں ابھی کچھ نہیں ۔۔
ہاں نہیں کیا تو ناں بھی نہیں کیا ۔۔
مجھے صبر کرنا چاہیے ۔۔
ڈائریکٹ جواب ملنے تک ۔۔
صبر شمعون صبر ۔۔
صبر ۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔
Novel Bloody_Love
Episode 8

تین مہینے ہونے کو آئے تھے ۔۔
حویلی میں سب کچھ معمول پر آچکا تھا ۔۔
اپنے اپنے دلوں کے زخم چھپائے سب اب مسکرانے لگے تھے ۔۔
سوائے شمعون کے ۔۔
جس کے چہرے پر ہمیشہ رہنے والی وہ مدھم سی مسکان اب بلکل غائب ہوچکی تھی ۔۔
شہلا بے اسے پرپوز پر جواب تو کیا دیا تھا ۔۔
الٹا اس سے کنی کترا کر گزرنے لگی تھی ۔۔
اتنی بڑی حویلی تھی ۔۔
جس طرف شمعون جاتا وہ وہاں سے فوراً بھاگ لیتی ۔۔
سوائے رات کو کچھ دیر گیلری کے وہ اسے ش*ذ و نادر ہی نظر آتی تھی ۔۔
اور اس کے اس گریز نے شمعون کو سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا ۔۔
وہ کوئی عام سا انسان تو تھا نہیں جو کسی لڑکی کے جذبات سمجھتا ۔۔
وہ کم ہی کسی کا احساس کرتا تھا ۔۔
اور اب اس کی بس ہو چکی تھی ۔۔
اسے جتنا وقت دینا تھا شہلا کو اس سے زیادہ ہی دے دیا تھا ۔۔
اس وقت وہ پیشانی پر ایک گہری لکیر لیئے آر یا پار کرنے جا رہا تھا ۔۔
شہلا اسے لان میں بینچ پر بیٹھی کسی اخبار کے مطالعہ میں مصروف نظر آئی ۔۔
توقع کے مطابق شمعون کو دیکھتے کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر بھاگنے کو ہو رہی تھی جب شمعون دیوار کی طرح اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔
شہلا کو اپنے فرار کی تمام راہیں مسدود نظر آئیں تو سر جھکا کر بے بس سی کھڑی ہوگئی اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔
اس کے بس میں یہی تھا ۔۔

"کوئی واضع جواب نہ دو ۔۔
اشارہ تو دو ۔۔"

شمعون اسے پکڑ کر جھنجوڑ دینا چاہتا تھا ۔۔
اور گرج کر پوچھنا چاہتا تھا ۔۔
لیکن وہ شہلا کے سامنے ایسا کچھ کر نہیں سکا ۔۔
اسے اپنی ہی آواز اجنبی لگی ۔۔

طویل سانس خارج کر کے شہلا نے خود کو کپوز کیا پھر ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کر شمعون کے بے بس سے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔
شہلا نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی اسے یوں پرپوز کرے گا ۔۔
بہت سادہ سی مشرقی لڑکی کی زندگی تھی اس کی ۔۔
اس نے کبھی غیر ضروری طور پر کسی مرد سے بات نہیں کی تھی ۔۔
وہ اس شہزادے جیسے شخص کو کیا جواب دیتی جس کے آگے نظریں بھی اٹھاتے ہوئے جھجک جاتی تھی ۔۔

"شہلا ۔۔
کسی کا اتنا صبر نہیں آزماتے ۔۔"

شمعون نے مٹھیاں بھینچ کر خود پر کنٹرول کرتے ہوئے نرمی سے کہا ۔۔

"مم مجھے ۔۔
ایکچلی مجھے ۔۔"

"شہلا بیٹا ۔۔"

پیچھے سے آتی تیمور آفندی کی آواز پر شہلا کی جان میں جان آئی اور وہ سرپٹ وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔
تیمور آفندی جو اسے حویلی کی باقی لڑکیوں کے ساتھ شاپنگ پر جانے کا کہنے آئے تھے (جس سے شہلا منع کر چکی تھی) حق دق کھڑے رہ گئے جبکہ شمعون کی آنکھوں کی پتلیوں کا سائز خود بہ خود سکڑنے لگا ۔۔
وہ تیمور آفندی سے نظریں بچا کر تیزی سے مڑگیا اور پیچھے تیمور آفندی کبھی اس راستے کو دیکھتے جہاں سے شہلا گزری تھی تو کبھی شمعون کی چوڑی پشت کو دیکھتے ۔۔
کچھ دیر دماغ کی پیچیں لڑانے کے بعد ان کے ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا ۔۔
بے ساختہ ان کے لب سیٹی کے انداز میں سکڑ گئے تھے ۔۔

"اوہ ۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیمور آفندی نے بالآخر اسے رات کو جا ہی لیا ۔۔
وہ لان میں سر جھکائے چہل قدمی کر رہا تھا ۔۔
رات کے پونے دو ہو رہے تھے ۔۔
ساری حویلی میں اندھیرا چھایا تھا ۔۔
لان کی لائٹس بھی بند تھیں ۔۔
تیمور آفندی کی یونہی گھبراہٹ میں آنکھ کھلی تو وہ کمرے کی کھڑکی میں چلے آئے ۔۔
جہاں اندھیرے لان میں انہیں ایک ہیولا ٹہلتا نظر آیا ۔۔
تیمور آفندی نے فوراً اندازہ لگا لیا وہ کون ہو سکتا تھا ۔۔
شمعون کی ہمیشہ سے عادت تھی ۔۔
جب کسی الجھن میں ہوتا یونہی اندھیرے لان میں تنہا ٹہلنے لگتا ۔۔
شمعون کے قریب جاتے ہوئے انہوں نے اس کی بار بار اٹھتی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جو شہلا کے کمرے کی گیلری ہر منڈلا رہی تھیں ۔۔
اپنے اندازے کے صحیح ثابت ہونے پر وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑے ہوئے اور ہمیشہ کی طرح "ہائو" کر کے اسے ڈرانے کی کوشش کی ۔۔
لیکن شمعون بھی ہمیشہ کی طرح ان کی آمد سے پہلے ہی واقف ہوگیا تھا ۔۔
جب ہی پل بھر کی مسکان لبوں پر سجا کر پلٹا پھر انہیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا ۔۔
وہ دونوں بھائی کچھ دیر تک خاموشی سے ٹہلتے رہے پھر تیمور آفندی نے ہی گلا کھنکھار کر بات کی شروعات کی ۔۔

"کیوں پریشان ہو ۔۔"

"آپ کو جب یہ پتہ چل چکا ہے کہ میں پریشان ہوں ۔۔
تو یہ کیسے ممکن ہے پریشانی کی وجہ سے ناواقف ہوں ۔۔"

دھیمی آواز میں پوچھتے ہوئے شمعون نے ان پر ایک مصنوعی گھوری ڈالی ۔۔
پھر دونوں ہنس دیئے ۔۔
شمعون کی ہنسی بہت مدھم اور مختصر تھی لیکن تیمور آفندی کی ہنسی زندگی سے بہت بھرپور تھی ۔۔

"اب سب کچھ بتائو مجھے شروع سے اب تک ۔۔
کیا چل رہا ہے درمیان ۔۔
اور کب سے چل رہا ہے ۔۔"

شمعون نے جواباً انہیں مختصر لفظوں میں اپنے مختصر ترین پرپوزل اور طویل ترین صبر کی داستان سنادی ۔۔
جسے سن کے تیمور آفندی نے ہنکار بھری ۔۔

"بیٹا جی وہ ایک پیور مشرقی لڑکی ہے ۔۔
اور ایسی سیدھی سادی اچھی لڑکیاں پرپوزل پر فوراً جواب نہیں دے دیتیں ۔۔
اور تمہیں چاہیے تھا تم پہلے ہی مجھ سے بات کرتے ۔۔
پھر میں اس سے بات کرتا تو معاملہ اب تک آر یا پار لگ چکا ہوتا ۔۔"

"تو پھر آپ کریں نا بات اس سے ۔۔"

شمعون فوراً بولا تھا ۔۔

"ہاں بھئی کرلیں گے ۔۔ اتاولے کیوں ہو رہے ہو صبر کرو ۔۔"

"تین مہینوں سے کر رہا ہوں ۔۔"

شمعون کے تیوری چڑھا کر کہنے پر وہ ہنس پڑے ۔۔

"صبح تک کا اور کرلو ۔۔"

شرارت سے کہہ کر تیمور آفندی نے خود سے تین فٹ زیادہ اونچے اپنے چھوٹے بھائی کی پیشانی چومی ۔۔
وہ خود بھی نہیں جانتے تھے شمعون انہیں اتنا عزیز کیوں تھا ۔۔
شائد اپنی بچپن کی تنہائی کی وجہ سے ۔۔
وجہ جو بھی تھی ۔۔
حقیقت یہی تھی کہ شمعون ان کے لیئے امتل سے کم بلکل نہیں تھا ۔۔
وہ جو بچپن سے گم صم تنہا تنہا رہتا آیا تھا ۔۔
اب تیمور آفندی اسے خوش دیکھنا چاہتے تھے ۔۔
وہ دل سے چاہتے تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی کی دلی مراد بر آئے ۔۔

ان کے پیار کرنے سے شمعون کی آنکھوں کی سردمہری غائب ہوگئی ۔۔
اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا ۔۔

"اچھا بھئی اب سونے چلو ۔۔
تمہاری بھابی کی آنکھ کھلی اور مجھے نہ پایا تو خوف سے چیخ چیخ کر مردوں کو بھی جگا دے گی ۔۔"

وہ کوئی گزرا وقت یاد کر کے ہنسے اور شمعون کی پشت تھپکتے اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگے ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سو بالآخر تھانے جانے سے پہلے تیمور آفندی نے شہلا سے بات کر ہی لی تھی ۔۔
اور سوال اٹھتا ہے ۔۔
کیا بات کی تھیں ۔۔
تو وہی باتیں تھیں جو ایسے موقعوں پر کی جاتی ہیں ۔۔
شہلا کو اندازہ نہیں تھا کہ شمعون اتنی "جلدی" مچا دیگا ۔۔
تین مہینے اس کے لیئے یقیناً جلدی تھے کیونکہ اس کے دل میں فلحال کچھ بھی نہیں تھا ۔۔
لیکن شمعون نے یہ تین ماہ تین صدیوں کی طرح گزارے تھے ۔۔

ساری لڑکیاں کالج یونیورسٹی گئی ہوئی تھیں ۔۔
صرف ایک فرح باجی تھیں جو ان سب جھمیلوں سے فارغ تھیں اور ہر وقت فون پر اپنے منکوح سہیل سے محو گفتگو رہتیں ۔۔
سہیل، تیمور آفندی کے سب سے بڑے مرحوم بھائی کے اکلوتے فرزند بھی ہیں جو جاب کے سلسلے میں سات سمندر پار آباد ہیں ۔۔
سو اس وقت شہلا لائونج میں تنہا بیٹھی اپنا جواب سوچ رہی تھی جو اسے آج شام دینا تھا ۔۔

حویلی کے مرد حضرات اپنے کام سے کام رکھتے تھے حمزہ کے علاوہ جو بلاوجہ اس سے چڑتا تھا ۔۔
اور ایک تھے تیمور آفندی ۔۔
جو اس پر امتل کی طرح ہی شفقت لٹاتے تھے ۔۔
بات کی جائے شمعون کی تو اس کی شمعون سے کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی تھی ۔۔
لیکن جب ہوئی تب ایسی ہوئی کہ وہ ہر وقت اس سے چھپتی رہتی تھی ۔۔
یعنی وہ شمعون کے متعلق زیادہ نہیں جانتی تھی ۔۔
لڑکیاں سب اس کے ساتھ بہت گرینڈلی تھیں ۔۔
جبکہ خواتین ۔۔
ہاں ۔۔
حویلی کی خواتین کی آنکھوں میں اس نے اپنے لیئے کافی بار ناگواری دیکھی تھی ۔۔
وہ سب خواتین پڑھی لکھی تھیں ۔۔
کچھ ایسا ویسا سخت سست کبھی نہیں کہا تھا ۔۔
لیکن نظریں بھی بولتی ہیں نا ۔۔

"کیا یہ خواتین مجھے اس گھر میں قبول کریں گی ۔۔"

شہلا کے دل نے کانپ کر سوچا ۔۔
وہ اس حویلی میں بغیر کسی رشتے کے کب تک رہ سکتی تھی ۔۔
وہ سنجیدگی سے سوچتی تو یہ سوال بہت بڑا لگتا ۔۔

"ہاں واقعی مجھے حویلی میں رہنے کے لیئے کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔۔
میں ہمدردی کے نام پر ہمیشہ یہاں نہیں پڑی رہ سکتی ۔۔
پھر شمعون تیمور انکل کے بھائی ہیں ۔۔
انکل کتنا پیار بھی کرتے ہیں ان سے ۔۔
اگر میرے اپنے حیات ہوتے ۔۔
تو شمعون صاحب کے رشتے پر خوشی خوشی راضی ہوجاتے ۔۔
ان میں بظاہر تو ایسی کوئی خرابی بھی نہیں ۔۔
انہیں حویلی کے باقی مرد حضرات کی طرح سگرٹ تک تو پیتے نہیں دیکھا ۔۔"
(شہلا بی بی وہ خون جو پیتے ہیں ۔۔)

شہلا جیسے اچانک ایک فیصلے پر پہنچ ک مطمئین ہوگئی ۔۔
اس کے دماغ میں تیمور آفندی کی آواز گونجنے لگی ۔۔

"شہلا یہ ہرگز مت سوچنا کہ تمہارے جواب کا تمہارے یہاں رہنے پر کوئی اثر پڑے گا ۔۔
تم میری بیٹی کی طرح ہو ۔۔
بیٹی بن کر یہاں آئی ہو ۔۔
اور بیٹیاں اگر "انکار" کردیں تو انہیں گھر سے نکال نہیں دیتے ۔۔
سو کھلے دل و دماغ سے فیصلہ کرنا ۔۔
جو بھی کرنا ۔۔"

اور شہلا نے واقعی کھلے دل س دماغ سے سوچا ۔۔
اور دونوں کی طرف سے ایک ہی جواب آیا تھا ۔۔
"کوئی حرج تو نہیں ۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اے لڑکی سنو ۔۔"

حمنہ بیگم کی ناگواری میں لپٹی پکار پر سیڑھیاں چڑھتی شہلا جبکہ باہر سے ابھی ابھی لوٹتا شمعون بھی اپنی جگہ رک گیا تھا ۔۔

"جی ۔۔"

"میں بہت تھک گئی ہوں ۔۔
تم یہ کھانا اوپر طوبی کو دے آئو ۔۔
سب سے آخر میں ہے اس کا کمرہ ۔۔"

انہوں نے کھانے کی ٹرے اس کی طرف بڑھائی جسے شہلا نے جھجک کر تھام لیا ۔۔
شمعون تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ناگواری سے بولا ۔۔

"بھابی وہ مہمان ہے ۔۔
اگر طوبی نے کوئی نقصان پہنچا دیا اسے تو ۔۔"

"تو ۔۔"

حمنہ بیگم نے سینہ تان کر پوچھا ۔۔

"اور میاں خوب سمجھ آ رہی ہیں تمہاری ہمدردیاں ۔۔
جو کبھی حویلی والوں کے لیئے تو نہیں جاگیں ۔۔"

"یہاں آپ نے "گھر والوں" کی جگہ "حویلی والوں" کہہ کر اچھی طرح سمجھا دیا ہے آپ لوگوں کو میری ہمدردی کی کتنی ضرورت ہے ۔۔"

شمعون کو اپنے خون میں ابال خوب محسوس ہو رہا تھا ۔۔

"ہنہہ ۔۔
مجھے تم سے بحث نہیں کرنی ۔۔
اور تم سنو لڑکی ۔۔
مہمان تین دن کا ہوتا ہے ۔۔
یہاں چار مہینے ہوگئے ہیں ۔۔
خود کو مہمان سمجھ کر ہم سے چاکریاں کروانا بند کرو اور ہاتھ بٹایا کرو ۔۔
اب یہ لے جائو ۔۔"

انہوں نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا اور شمعون کی سرد نگاہوں کو نظرانداز کرتی وہاں سے گزر گئیں ۔۔
شہلا بیچاری یہ بھی نہیں کہہ سکی کہ آپ لوگوں نے ہی ایک بار کہا تھا ۔۔
"مہمان بن کر رہو ۔۔
سگی بننے کی ضرورت نہیں ۔۔"

سر جھٹک کر شہلا سیڑھیاں چڑھنے لگی تو شمعون کے دل کا چور حواس باختہ ہوگیا ۔۔

"رکو شہلا ۔۔
امتل اور نازیہ ابھی کالج سے لوٹنے والی ہوں گی ۔۔
وہ ہی لے جائیں گی ۔۔
طوبی تم پر کوئی اٹیک کر سکتی ہے ۔۔"

شمعون نے اس سے ٹرے لینا چاہی لیکن وہ پیچھے کرگئی ۔۔

"اٹس اوکے ۔۔
کسی نہ کسی پر اٹیک ہونا ہی ہے تو مجھ پر سہی ۔۔
ویسے بھی اب ہمیشہ یہاں رہنا ہے ۔۔
نفع نقصان ہر چیز میں ساتھ دینا چاہیے ۔۔"

غیر ارادی طور پر شہلا اقرار کر بیٹھی تھی ۔۔
اور پھر شمعون کے ٹھٹک کر دیکھنے پر سٹپٹا کر آگے بڑھ گئی ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔

Novel Bloody_LoveWriter Falak_KazmiEpisode 5,6تین دن گزر چکے تھے اس اندوہ ناک سانحے کو ۔۔تیمور آفندی کے تین بڑے بھائی تھ...
24/03/2024

Novel Bloody_Love
Writer Falak_Kazmi
Episode 5,6

تین دن گزر چکے تھے اس اندوہ ناک سانحے کو ۔۔
تیمور آفندی کے تین بڑے بھائی تھے ۔۔
جن میں سے سب سے بڑے صابر آفندی کئی سال پہلے ہی رضائے الہیٰ سے انتقال کر گئے تھے ۔۔
دوسرے نمبر پر جعفر آفندی تھے جو اس رات ہانیہ کے علاوہ بلیوں کا شکار ہوئے تھے ۔۔
تیسرا شکار جعفر صاحب کے بعد والے سمیر صاحب کی اہلیہ رضیہ تھیں ۔۔
اور ایک تھی ہانیہ ۔۔
حمزہ کی اکلوتی پیاری بہن ۔۔
جس کی موت نے حمزہ کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔
ان کی ایک بیوہ پھپھو بھی تھیں جو فوت ہو چکی تھیں ۔۔
ان کا اکلوتا بیٹا ٹین ایج میں ہی کئی سال پہلے ایسے ہی بلیوں کا شکار ہوگیا تھا ۔۔
جبکہ دماغی طور پر معزور ہوجانے والی بیٹی طوبی کسی کمرے میں بند رہتی ۔۔
تیمور آفندی کو چھوڑ کر ان سارے بہن بھائیوں نے اپنے پیاروں پر بلیوں کی بلا کا عذاب سہا تھا ۔۔
اب سب کے لب ہنسنا کیا جیسے بولنا بھی بھول گئے تھے ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیمور آفندی نے آج شہلا سے اس شب کا احوال سنا اور خاموشی سے اس کا سر تھپک کر چلے گئے ۔۔
ان کا دل اتنا اداس تھا کہ وہ شہلا کو کوئی حوصلہ بھی نہ دے سکے ۔۔
تین لاشیں اٹھی تھیں اس گھر سے ۔۔
وہ بھی اس حالت میں کہ دیکھ کر روح کانپ اٹھے ۔۔
شہلا نے ان لاشوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ اپنے پیاروں کو اس حال میں دیکھ چکی تھی ۔۔
اسے اندازہ تھا لاشوں کا کیا حال ہوا ہوگا اور حویلی کے باقی افراد اس وقت کس کرب میں مبتلا ہوں گے ۔۔
حویلی میں ہر طرف ویرانی چھائی تھی ۔۔
نہ کسی کو کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا ۔۔
امتل نازیہ اور فرح مارے باندھے کچھ الٹا سیدھا پکا لیتیں اور سب زہر مار کر لیتے ۔۔
شہلا کو اس ماحول سے وحشت ہو رہی تھی ۔۔
لیکن یہ حویلی ہی اب اس کی آخری پناہ گاہ تھی ۔۔
اسے اس سب کو برداشت کرنا ہی تھا ۔۔
وہ سب سے اونچی سیڑھی پر کھڑی بڑے سے ہال نما لائونج کو گھور رہی تھی ۔۔
کتنے لوگ تھے اس حویلی میں لیکن ۔۔
ہر طرف ہو کا عالم تھا ۔۔
شہلا ہمت کر کے نیچے اترنے لگی ۔۔
ریلنگ پر ہاتھ رکھا تو ہاتھ مٹی سے بھر گیا ۔۔
کسی کو بھی صفائی ستھرائی کا ہوش نہیں تھا ۔۔
ہوش تو خیر خود کا بھی نہیں تھا ۔۔

شہلا نے جائزہ لیا ۔۔
ساری حویلی دھول مٹی سے اٹی تھی ۔۔
وہ واپس اپنے کمرے میں جانے کے خیال سے مڑی لیکن کمرے کے دروازے پر پہنچ کر وہ پھر کچھ سوچ کر پلٹی اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ نماز سے فارغ ہو کر دعا کے انداز میں ہاتھ پھیلائے خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھا تھا جب کچھ گرنے کی زوردار آواز پر اچھل کر بجلی کی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگا ۔۔
اس کے کمرے کے ہی باہر رکھا بڑا سا گملہ نیچے ٹوٹا گرا تھا اور شہلا پائنچے چڑھائے دوپٹہ سائڈ کر کے باندھے ہاتھ میں جھاڑو پکڑے افسوس کم خوف زیادہ سے دیکھ رہی تھی ۔۔
حمزہ کو دیکھ کر اس ک رنگ بلکل ہی اڑ گیا ۔۔
حمزہ نے بے تاثر نظروں سے دھلے دھلائے چمکتے ہوئے ہال کو دیکھا ۔۔
پھر ماسی بنی شہلا کو ۔۔

"یہ آپ کیا کر رہی ہیں اور کیوں ۔۔؟"

حمزہ کی آواز بھی اس کے چہرے کی طرح بے تاثر تھی ۔۔
شہلا اپنی جگہ سخت شرمندہ ہو رہی تھی ۔۔

"میں یہاں رہ رہی ہوں ۔۔
کک کچھ کر دیا تو کیا ہوگیا ۔۔
یہاں سب ۔۔"

"لسن مس شہلا ۔۔"

حمزہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔
اس بار اس کا لہجہ سخت تھا ۔۔

"آپ یہاں مہمان بن کر آئی ہیں ۔۔
مہمان بن کر رہیں ۔۔
نہ آپ حویلی کی ملازمہ ہیں نہ مستقل مکین ۔۔
سو پلیز ۔۔"

حمزہ نے مہذب لفظوں میں اسے اس کی اوقات میں رہنے کو کہا تھا ۔۔
شہلا کا چہرہ اہانت کے احساس سے دہکنے لگا لیکن وہ کچھ بولے بغیر دوپٹا ٹھیک کرنے لگی ۔۔
حمزہ نے ایک اچٹتی نظر شہلا کی بھری ہوئی آنکھوں پر ڈالی ۔۔
پھر بے پروائی سے سر جھٹک کر واپس کمرے میں گھس گیا ۔۔
پیچھے شہلا اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی ناراض بچے کے طرح سینے پر ہاتھ لپیٹ کر دیوار سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی ۔۔
ابھی وہ لب کچلتی جھاڑو اس کی اصل جگہ رکھنے کے لیئے سیدھی کھڑی ہوئی ہی تھی جب حویلی کا دیو قامت قیمتی لکڑی کا دروازہ کھلا ۔۔
شہلا نے دیکھا ہاتھ میں سفری بیگ پکڑے وہ شمعون تھا ۔۔
اندر داخل ہوتے شمعون کی نظر فوراً اس پر پڑی تھی ۔۔
وہ اپنی جگہ رک گیا ۔۔

"اسلام علیکم ۔۔"

شہلا اس سے بہت دور تھی ۔۔
سلام کی آواز بھی بہت دھیمی تھی ۔۔
شہلا کو اندازہ تھا شمعون نے اس کا سلام نہیں سنا ہوگا ۔۔
لیکن وہ نہیں جانتی تھی ۔۔
شمعون کی سماعت کتنی تیز تھی ۔۔
شمعون کے لب پل بھر کو پھیلے ۔۔
اس کی نظروں نے دور تک شہلا کا پیچھا کیا تھا بے اختیاری میں وہ شہلا کے پیچھے بڑھنے لگا جب تیمور آفندی اپنے کمرے سے نکلے اور ایک حیران نظر جگمگاتے لائونج پر ڈال کر شمعون کی طرف بڑھے ۔۔
شمعون نے لمحہ بھر میں اپنے سپاٹ چہرے پر مصنوعی رقت طاری کر لی ۔۔

"تیمور بھائی یہ کیا ہوگیا ۔۔
کیسے ہوا یہ سب آخر ۔۔
میرے کاغزات میں کچھ مسئلہ ہوگیا تھا سو میں فوراً کینڈا سے آ نہیں سکا تھا ۔۔
اتنا سب کچھ ہوگیا میرے پیٹھ پیچھے ۔۔
کیسے بھائی ۔۔"

کوشش کے باوجود شمعون اپنی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں لا سکا ۔۔
لیکن لہجے کو ہر ممکن حد تک بوجھل کر لیا ۔۔
تیمور آفندی سے کچھ نہیں کہا جا سکا ۔۔
وہ بس شمعون کے چوڑے شانوں میں منہ دیئے خود پر ضبط کرتے رہے ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی شمعون کی پیشانی کی رگ پھڑکنے لگی اور جبڑے کس گئے ۔۔
اس کی ماں وہاں پہلے سے موجود تھی اور صوفے پر بیٹھی اس کی منتظر تھی ۔۔

"اس رات کے بعد تم اچانک کہیں چھپ کیوں گئے تھے ۔۔"

اس کی ماں بہت سنجیدہ اور پہلے کی بنسبت صحت مند لگ رہی تھی ۔۔
وجہ یقیناً انسانی گوشت اور خون تھا ۔۔
وہ لوگ ہر طرح کا گوشت کھا سکتے تھے ۔۔
انسان کا ۔۔
جانور کا ۔۔
زندہ کا ۔۔
یا مردہ کا ۔۔
لیکن جب ان میں سے کوئی بیمار ہوتا تو انسانی خون اور گوشت ان پر دوائی جیسا اثر کرتا تھا ۔۔
اور سب سے لذیذ بھی وہی گوشت اور خون تھا ۔۔
لیکن کیونکہ ان کے قبیلے کی سرداری شمعون کے پاس تھی ۔۔
سو وہ بہت کم انہیں انسانی گوشت کی طرف بڑھنے دیتا تھا ۔۔
اور اس حویلی کے تمام افراد سے ہمیشہ دور رہنے کو کہتا تھا ۔۔
وجہ صرف یہ تھی کہ وہ تیمور آفندی سے بے حد محبت کرتا تھا ۔۔
اور تیمور آفندی حویلی کے باقی افراد سے بھی محبت کرتے تھے ۔۔
لیکن اب شمعون کا دل کسی اور کے لیئے بھی دھڑکنے لگا تھا ۔۔
اس کے اندر شرارے پھوٹ پڑے تھے شہلا کے ہمیشہ کے لیئے حویلی چھوڑ جانے پر ۔۔
وہ حویلی والوں کو سبق دینا چاہتا تھا ۔۔
"دیکھو جب دل سے قریب شخص دور ہوجائے تو کیسا لگتا ہے ۔۔"

شمعون نے حکم دیا تھا کہ تیمور آفندی اور ان فیملی کو چھوڑ کر حویلی میں جس پر چاہے حملہ کردو ۔۔
اس کے حکم کو مدنظر رکھ کر ان بلیوں نما بلائوں نے تینوں فیملیز میں سے کسی نہ کسی ایک فرد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔۔

"تم حویلی والوں پر کبھی حملہ نہیں کرنے دیتے ۔۔
پھر اس رات کیوں ۔۔
وہ بھی ایک ساتھ تین ۔۔"

اس کی ماں اپنی تیز نظروں سے شمعون کے سپاٹ چہرے کو گھور رہی تھی ۔۔
شمعون نے کچھ جواب نہیں دیا ۔۔

"میں کچھ پوچھ رہی ہوں شمعون ۔۔"

اس کی ماں چیخی ۔۔

"میں جواب نہیں دے رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جواب نہیں دینا چاہتا ۔۔
اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔
آئندہ میری اجازت کے بغیر یہاں نظر نہ آئیں ۔۔"

شمعون اسی سرد بے تاثر انداز میں بولا ۔۔
اس کی ماں آگ اگلتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو سکون سے سفری بیگ سے کپڑے نکال کر وارڈروب میں سیٹ کر رہا تھا ۔۔

"تم کچھ ایسا تو نہیں کر رہے جو قبیلے کے اصولوں کے خلاف ہو ۔۔
شمعون میں قبیلے سے الگ ہونے کی سزا جھیل چکی ہوں ۔۔
تم خود کا خیال رکھو شمعون میرے بیٹے ۔۔
ورنہ تم قبیلے کی سرداری سے ہی نہیں بلکہ قبیلے سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہو ۔۔
اپنی طاقتیں بھی گوا سکتے ہو ۔۔"

"یہ قبیلے کی بدقسمتی ہوگی کہ وہ مجھ سے ہاتھ دھوئے گا ۔۔
اب آپ جائیں ۔۔"

شمعون رکھائی سے کہہ کر ٹرائوزر اور شرٹ اٹھائے واشروم میں گھس گیا ۔۔
پیچھے اس کی ماں لب بھینچ کر اپنے اصل روپ میں لوٹتی کھڑکی سے کود گئی جب نظریں ہوا کے دوش پر اڑتے سیاہ بالوں پر اٹک گئیں ۔۔
بال اتنے خوبصورت اور دراز تھے کہ وہ خود کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے نہیں روک سکی ۔۔

"یہ کون ہے ۔۔
حویلی میں پہلے کبھی نظر نہیں آئی ۔۔"

وہ چمکیلی نظروں سے شہلا کو دیکھتی اس کی طرف بڑھنے لگی جب اچانک ایک پتھر اس کے سر پر پڑا ۔۔
وہ غرا کر پلٹی ۔۔
شہلا نے بھی چونک کر اسے دیکھا اور اچھل کر کئی فٹ دور ہوئی ۔۔
وہ گارڈن میں بینچ پر بیٹھی اپنے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی ۔۔
موسم اتنا خوبصورت تھا ۔۔
وہ باتھ لے کر بال سکھا کر بے اختیاری میں سر سبز لان میں چلی آئی تھی ۔۔

وہ سیاہ بلی حمزہ کو تیز نظروں سے گھورتی چحلانگ لگا کر درختوں کی ٹہنیوں میں گم ہوگئی ۔۔
حمزہ نے ہاتھ میں پکڑا دوسرا پتھر جھٹکے سے زمین پر پھینکا پھر گھور کر شہلا کو دیکھا جو سہمی نظروں سے درخت کی ٹہنیون کو دیکھ رہی تھی ۔۔

"آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں لیکن کیا ان کی نمائش کرنی ضروری ہے ۔۔
حویلی کے حالات سے آپ واقف ہیں ۔۔
بہتر ہے کمرے کے علاوہ کہیں تنہا بیٹھنے سے گریز کریں ۔۔
ہر کوئی آپ کی حفاظت پر نہیں لگا رہے گا ۔۔
سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں ۔۔"

حمزہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا جبکہ شہلا اتنی خوفزدہ تھی کہ آگے سے کچھ بھی کہہ نہیں سکی
Episode 6

شمعون آفندی ۔۔
جس نے جب آنکھ کھولی ۔۔
جب اسے ان باتوں کا مطلب بھی نہیں پتا تھا ۔۔
تب ہی اس کی چاروں تائیاں اور پھپھو بڑھ چڑھ کر اسے اس کی ذات کی حقیقت سے روشناس کراو چکی تھیں ۔۔
"ناجائز ہء تو ۔۔
گناہ ہے تو ۔۔"
اسے بچپن میں ہی بتا دیا گیا تھا ۔۔
اس کی سوتیلی ماں یعنی تیمور آفندی کی ماں جب تک زندہ رہیں اس کی ذات کو بلکل ان دیکھا کر دیا کرتی تھیں ۔۔
باپ کو تو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔
بس سنا تھا کہ وہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے ہی موت کو گلے لگا چکا ہے ۔۔
اس کے سوتیلے بھائیوں کے اپنے بھی بال بچے تھے ۔۔
اس پر جب نظر ڈالی جاتی حقارت بھری ہی ڈالی جاتی ۔۔
صرف ایک تیمور آفندی تھے جو اس پر جان چھڑکتے تھے ۔۔
ان کی گھر میں موجودگی تک کوئی اسے کچھ نہیں سکتا تھا ۔۔
وہ شمعون کو اپنی پہلی اولاد کی طرح چاہتے تھے ۔۔
اس لیئے شمعون کی بھی ان میں جان بسی رہتی تھی ۔۔
وہ کوئی دبو یا صابر شاکر سا بچہ نہیں تھا ۔۔
وہ بڑوں کا بدلہ ان کے بچوں کو مار پیٹ کر نکال لیتا تھا ۔۔
پھپھو کچھ کہتیں تو وہ ان کے اٹھارہ سالہ طبیب کی چمڑی ادھیڑ دیتا ۔۔
جمنہ بیگم نے کچھ کہا تو حمزہ کا سر غصہ میں پھاڑ دیا ۔۔
یوں حالات بد سے بد سے بدتر ہوتے گئے ۔۔
نہ حویلی والوں کے دلوں میں اس کے لیئے کبھی جگہ بنی نہ اس نے بنانی ضروری سمجھی ۔۔
اس کے پاس تیمور آفندی کی محبت اور سپورٹ تھی ۔۔
یہ کافی تھا ۔۔
شمعون تیرہ سال تک اپنے اصل سے ناواقف رہا جب ایک دن اچانک ایک بڑی سی سیاہ بلی درختوں کے جھنڈ سے نکل کر اس کے قریب چلی آئی ۔۔
وہ رات کی ویرانی میں بیٹھا باسکٹ بال کو انگلی پر گھما رہا تھا ۔۔
اتنی بڑی سیاہ بلی اپنے قریب دیکھ کر وہ عام بچوں کی طرح ڈرا نہیں تھا لیکن ناگواری محسوس کر کے اٹھنے لگا تھا ۔۔
جب اس کی سیاہ بے رونق آنکھوں نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا ۔۔
وہ بلی ایک لمبی سی خوبصورت عورت کا روپ دھار چکی تھی ۔۔
اس کی کشادہ پیشانی پر ننھے ننھے پسینے چمکنے لگے جب اِدھر اُدھر سے کئی اور بلیاں بھی آتی ہوئی نظر آئیں ۔۔
پھر آہستہ آہستہ سب ہی انسانوں کا روپ بدلنے لگیں ۔۔
لیکن ایک بات سب میں مشترکہ تھی ۔۔
سب کی آنکھیں بلکل سیاہ اور بے رونق تھیں ۔۔
بلکل شمعون کی اپنی آنکھوں جیسی ۔۔
اور اس شب شمعون کو اپنی حقیقت معلوم ہوئی ۔۔
شمعون کا خاندان اپنے قبیلے کا سردار خاندان تھا ۔۔
سب سے پہلے جو بھی لڑکا ان کے خاندان میں جنم لیتا ۔۔
اسے سرداری دے دی جاتی ۔۔
اور پھر اس کے مر جانے کے بعد سرداری نئے لڑکے کو سونپ دی جاتی ۔۔
اس کے نانا مر چکے تھے اور اس کی ماں "ایونا" اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ۔۔
سو سرداری کا تاج اس کے سر سجا تھا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی نانی کو کسی بڑی غلطی کے پاداش قبیلے والوں نے قبیلے سے دور کردیا تھا ۔۔
وہ انسانی دنیا میں بے آسرا تھی جب حویلی کے ایک بڑے بزرگ نے اس پر رحم کھا کر اسے اپنی حویلی میں پناہ دے دی تھی ۔۔
یہاں اس نے ملازمہ کے طور پر کام شروع کر دیا جب ایک دن بھوک اور کمزوری سے نڈھال ہو کر ایک شخص کا قتل کر کے اس کے خون اور گوشت سے اپنا پیٹ بھر لیا ۔۔
(وہ وہی شخص تھا جسے تیمور آفندی نے اپنے بچپن میں مرتے دیکھا تھا)
پھر ایک دن شمعون کی ماں ایونا اس دنیا میں آئی ۔۔
بلا کی خوبصورت ۔۔
اس پر تیمور آفندی کے رنگین مزاج باپ کی نظر پڑی تو اس نے اپنی طاقتوں سے ناواقف اس کی ماں کا جنسی استحصال کردیا ۔۔
(شمعون کی نانی نے مزید انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے ۔۔
ایونا کو اس کی حقیقت نہیں بتائی تھی ۔۔
کہیں وہ اس کی طرح جذباتی ہو کر انسانی خون نہ کر دے)
کیونکہ تیمور کی ماں انسانی دنیا میں رہی تھی اور اسے اس کی حقیقت کے متعلق کبھی بتایا نہیں گیا تھا سو وہ خود کو بچانے میں ناکام رہی ۔۔
پھر جب شمعون کی پیدائش کے دن قریب آنے لگے ۔۔
تب قبیلے والوں نے ایونا اور اس کی ماں کو قبیلے میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ۔۔
ایونا قبیلے کے ڈر سے شمعون کو حویلی میں ہی چھوڑ کر اپنی دنیا میں چلی گئی ۔۔
لیکن جب ان کے خاندان میں کوئی اور لڑکا سرداری کے لیئے نہیں پیدا ہوا ۔۔
تب ان سب کو شمعون کے بارے میں بتا دیا ۔۔
اور یوں شمعون اپنے اصل سے آگاہ ہوا ۔۔
اور قبیلے کا سردار بنا ۔۔
اپنی حقیقت سے واقف ہو کر وہ اور بھی ظالم ہوگیا تھا ۔۔
حویلی کے بچوں کی اس نے جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔
اس کی پھپھو جو بیوہ تھیں اور سب سے بڑے تایا ایک ایکسڈنٹ کا شکار ہو کر دنیا سے چلے گئے ۔۔
اور یوں اسے اپنے پھپھو زاد کزن طبیب (جو اسے سب سے زیادہ زہر لگتا تھا) کا شکار کرنے کا موقع مل گیا ۔۔
شمعون اس وقت سولہ سال کا تھا ۔۔
پوری حویلی دو اموات پر افسردگی کی چادر اوڑھے ہوئے تھی ۔۔
جب اس نے طیب کو بے دردی سے ختم کر کے اپنی بھوک اور پیاس مٹا لی تھی ۔۔
شمعون نہیں جانتا تھا بیڈ کے نیچے طبیب کی چھوٹی بہن طوبی کسی شرار کے لیئے چھپی ہوئی ہے ۔۔
اس نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن وہ کسی کو ٹھیک سے کچھ بتا نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کی دماغی حالت درست نہیں رہی تھی ۔۔
وہ سب ہی کو دیکھ کر چیخنے لگتی ۔۔
سو طوبی کو حویلی کے ایک کمرے میں بند رکھا جاتا تھا ۔۔
دوسری طرف شمعون حویلی کے باقی افراد کو بھی ایسے ہی موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا تھا لیکن طبیب کی موت کے دن اس نے اپنے جان سے عزیز تیمور بھائی کو جس طرح روتے دیکھا تھا ۔۔
وہ اندر ہی اندر نادم ہوگیا تھا ۔۔
اس دن اس نے عہد کیا تھا ۔۔
وہ حویلی کے کسی شخص پر کبھی حملہ نہیں کرے گا ۔۔
وہ جنگل بیابان میں یا قبرستان میں جا کر جانوروں اور مردوں کا گوشت اور خون کھاتا پیتا تھا ۔۔
اس شب بھی وہ ایک جنگل نما جگہ پر کوئی شکار تلاش کر رہا تھا جب اس کا سامنا ایک درخت کے نیچے بیٹھے کچھ پڑھتے سفید لباس اور داڑھی والے شخص سے ہوا ۔۔
شمعون کو اس شخص کے اندر سے پھوٹتی خوشبو سے وحشت ہونے لگی ۔۔
وہ وہاں سے جانا چاہتا تھا ۔۔
جب اس بزرگ شخص نے بھی جان لیا کہ بظاہر اس خوبرو شخص کے پیچھے ایک خوفناک بلا ہے ۔۔
وہ اس پر پڑھ کر کچھ پھونکتا رہا ۔۔
شمعون کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔۔
وہ خود کو بچانے کے لیئے بھاگتا رہا ۔۔
وہ جنگل سے باہر تو پہنچ گیا تھا لیکن ایک عجیب سا لکڑی کا ننھا ٹکڑا اس کے پیر میں پھنستا اس کی جان اندر ہی اندر نکالنے لگا ۔۔
وہ خود بہ خود بلے کا روپ دھار چکا تھا ۔۔
شمعون کو لگنے لگا وہ کچھ ہی دیر میں مر جائے گا ۔۔
جب اسے ایک انسانی آواز سنائی دی ۔۔

"چاچی دروازہ کھولیں ۔۔
چاچی پلیز ۔۔"

وہ خود اس لکڑی کے ٹکڑے کو نکال نہیں سکتا تھا اس لیئے اس نے شہلا سے مدد لینے کا سوچا ۔۔
اور شہلا نے شمعون کی بچی کھچی طاقتوں کے زیر اثر اس کی مدد کی بھی تھی ۔۔
لکڑی کا ٹکڑا نکل جانے کے بعد شمعون بہت کمزوری محسوس کر رہا تھا ۔۔
اب اسے دوا ۔۔
(یعنی کے انسانی گوشت) کی اشد ضرورت تھی ۔۔
اس نے شہلا پر حملہ کرنے کا سوچا ۔۔
ابھی وہ اس کے خون کو چاٹنے ہی لگا تھا جب ایک عورت (شہلا کی چاچی) کمرے میں چلی آئی ۔۔
اور اندر کا منظر دیکھ کر چیخنے لگی ۔۔
اور یوں اس نے شہلا کو چھوڑ باقی سب کے خون اور گوشت پر ہاتھ صاف کر لیا ۔۔
وہ شہلا کو بھی ختم کر دینا چاہتا تھا ۔۔
لیکن اس کے احسان کی وجہ سے اسے زندہ چھوڑ آیا ۔۔
اور اب شمعون کو اندازہ ہو رہا تھا ۔۔
اس نے شہلا کو کسی احسان کے بوجھ تلے زندہ نہیں چھوڑا تھا ۔۔
معاملہ کچھ اور تھا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔

Address

Hassan Abdal

Telephone

+923105416774

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bold Novel,stories and memes posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Bold Novel,stories and memes:

Videos

Share


Other Digital creator in Hassan Abdal

Show All