اردو حکایت

اردو حکایت Islam, The religion of peace and harmony.
(1)

05/04/2024

🔘 مورخ تو سب لکھ رہا ہے۔

🔘 کئی سال بعد تاریخ پڑھنے والے شاید پڑھیں گے کہ ایک قوم تھی جس میں قوم عاد۔۔۔ قوم ثمود۔۔۔اور قوم لوط کے مجموعی اعمال پائے جاتے تھے۔

🔘 یہ ایک ایسی قوم تھی جو نام تو اللہ کا لیتی تھی مگر مانتی اپنے اپنے اپنے ذاتی خداؤں اور آلہ کاروں کو تھی۔
قرآن کو اپنی کتاب مانتی تھی پر عمل کے لئے انسانی ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابوں پر یقین تھا۔

🔘 ایک ایسی قوم تھی جس کو تعلیم صرف جاہل بنانے کے لئے دی جاتی تھی۔

🔘 ان کے حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے تھے مگر اس قوم کے نچلے طبقے کے پاس ایک وقت کھانے کو روٹی نہیں تھی۔

🔘 مورخ لکھے گا ۔
اس قوم کا انصاف بکتا تھا۔ طاقتور کے لئے علیحدہ قانون اور غرباء کے لئے الگ قانون تھا۔
اس قوم کے قاضی انہی کی طرح کرپٹ اور انصاف سے عاری تھے۔

🔘 لکھا جائے گا ۔
اس قوم کے سیاستدان خود غرض نا اہل اور بےحس تھے مگر یہ قوم ایسے سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتی تھی اور ان کے لئے ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کو بھی تیار رہتی تھی ۔

🔘 مورخ لکھے گا ۔
اس قوم کے اکثر لوگ دوسرے ملکوں میں بسنے کو ترجیح دیتے تھے مگر اپنی قومی ذہینت ساتھ لے کر جاتے تھے اور تہذیب یافتہ ممالک بھی انھیں تہذیب سکھانے سے قاصر تھے
یہ اندازہ اس لئے لگایا جائے گا کہ تہذیب یافتہ کھوپڑیوں میں سے جاہل کھوپڑیاں بھی ملیں گی۔

🔘 ایک ایسی قوم تھی جو لمبی لمبی دعائیں اور بدعائیں کرتی تھی مگر اس کا عملی کردار انتہائی ناگفتہ بیہ اور بیہودہ تھا۔
دشمنوں کا مقابلہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں کرنے کی بجاۓ ابابیلوں کی منتظر رہتی تھی اگرچہ کعبہ ان کے ملک میں نہیں تھا -

🔘 ایک ایسی قوم تھی جس میں حرام خور عزت دار کہلاتے تھے اور محنت کر کے کھانے والے کمی کمین۔۔۔

آنے والے وقت میں یہ قوم شاید

"المجرمین پاکستان"

کے موضوع سے عبرت کے طور پر پڑھائی جائے گی۔۔۔
تاریخی معلوماتی پوسٹ کی وال سے

28/03/2024

۔ *اَلسَّـلاَمُ عَلَيكُـم وَرَحمَةُاللهِ وَبَرَكـَاتُهُ🌹*
۔ *︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗*
۔ *📚📜 خوبصورت بات 📜📚*
۔ *︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘*

✍امام قرطبیؒ نقل کرتے ہیں
*‫إنما سُمِّيَ رمضان لأنه يَرْمض الذنوب أي يَحرِقُها بالأعمال الصالحة*
*رمضان کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ یہ گناہوں کو "رمض" کر دیتا ہے یعنی نیک اعمال کے ذریعے جلا ڈالتا ہے*
✍🏻 *(الجامع لأحكام القرآن : ۲٧١/۲) ۔!!!🌴*

*☚ خــوش رہیں، خــوشیاں بانٹیں ۔🌱*

۔ ➖➖➖➖➖➖➖➖

21/03/2024

👈 *رمضان کا ادب و احترام __!!*

نزھة المجالس میں ایک واقعہ لکها هے_
یہ وہ وقت تها جب مسلمان غالب تهے اور کفار ان کے درمیان رهتے تهے"کہ ایک مرتبہ ایک مجوسی کے بیٹے نے رمضان المبارک کےدنوں میں کهلے عام کهانا کهایا تو اس مجوسی کو بہت غصہ آیا، اس نے اپنے بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ کی کہ تجهے شرم نہیں آتی کہ یہ مسلمانوں کا مقدس مہینہ هے، وہ دن میں روزہ رکهتے هیں اور تو دن میں اس طرح کهلے عام کها رها هے، خیر بات آئی گئی هوگئی ۔
اس مجوسی کے پڑوس میں ایک بزرگ رهتے تهے جب اس مجوسی کا انتقال هوگیا تو ان بزرگ نےاس کو خواب میں دیکها کہ وہ مجوسی جنت کی بہاروں میں هے، بزرگ بڑے حیران ہوئے، پوچهنے لگے کہ آپ تو مجوسی تهے اور میں آپ کو جنت میں دیکھ رہا ہوں، وہ جواب میں کہنے لگا کہ ایک مرتبہ میرے بیٹے نے رمضان المبارک میں کهلے عام کهانا کهایا تها اور میں نے رمضان کے ادب کی وجہ سے اس کو ڈانٹا تها، اللہ تعالی کو میرا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ موت کے وقت مجهے کلمہ پڑهنے کی توفیق نصیب فرمائی ،

نوٹ : صرف ادب کا یہ حال هےکہ ایک کافر کو ایمان کی دولت ملی ۔ تو جو صحیح معنی میں روزہ رکهے گا اس کا کیا عالم هوگا، اندازہ کرلیں، اسی طرح جو آدمی رمضان کی بےاحترامی کرے یا لوگوں کو نیک اعمال میں کیڑے نکال کر برگشتہ کرے، یا تراویح کو بغیر دلیل کے مستحب گردان کر استخفاف کرے وغیرہ وغیرہ تو اس کی کیا سزا هوگی اس کا بهی اندازہ کرلیں۔

16/03/2024

شیطان کا راستہ روکنے والی روزه دارکی سانس ایک بزرگ مسجد کی طرف گئے تو آپ نے مسجد کے دروازے پر شیطان کو حیران پریشان کھڑے

ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے شیطان سے پوچھا کیا بات ہے؟

تو شیطان نے کہا اندر دیکھئے ۔“

انہوں نے اندر دیکھا تو مسجد کے اندر ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اور ایک آدمی مسجد کے دروازے کے قریب سو رہا تھا۔ شیطان نے بتایا کہ وہ جو اندر نماز پڑھ رہا ہے اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کے لئے میں اندر جانا چاہتا ہوں۔ لیکن وہ جو دروازے کے قریب سو رہا ہے، یہ روزہ دار ہے، یہ سویا ہوا روزہ دار سانس لیتے ہوئے جب سانس باہر نکالتا ہے تو اس کی سانس میرے لئے شعلہ بن کر مجھے اندر جانے

سے روک دیتی ہے۔ میں اس پریشانی میں کھڑا ہوں۔ روض الفائق مصری صفحہ ۲۶)

15/03/2024

حضرت حبیب بن زید کا تڑپا دینے والا واقعہ

مسیلمہ کزاب نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا:-
" میرے ساتھ ایک معاہدہ کر لیں ، جب تک آپ حیات ظاہری میں ہیں ، آپ نبی ہیں - جب اپکا وصال ہوجاٸے تو میں نبی"
یا یہ معاہدہ کر لیں کہ آدھے عرب کے آپ نبی - - - آدھے عرب کا میں نبی" - - - معاذاللہ
اسکے خط پر نبی ﷺ نے جواب میں لکھا :-
"میں تو اللہ کا رسول ہوں جب کہ تو کذاب ہے - - جھوٹا ہے"-
جب نبی پاک نے خط میں کذاب لکھا تو فرمانے لگے :-
" کون لے کے جاٸے گا یہ خط اس کزاب کے دربار میں" ۔۔
اب اسکے دربار میں جانا ہے حالات بڑے خطرناک ہیں - - - اس کے آگے بھی بندے اور پیچھے بھی بندے ہیں جان کا خطرہ بھی ہے - - ایک صحابی تھے چابڑی فروش، سر پر ٹوکرا رکھ کے مدینے کی گلیوں میں کجھوریں بیچتے تھے - - - گیارہ بارہ بچوں کے باپ تھے جسمانی طور پر بھی کمزور تھے، کجھور کھا رہے تھے فٹافٹ اٹھے ہاتھ کھڑا کر کے کہا :-
" حضور کسی اور کی ڈیوٹی نا لگائیے گا میں جاونگا" - -
جب یہ الفاظ جلد بازی میں کہے تو ان کے منہ سے کجھور کے ٹکڑے مجلس میں بیٹھے صحابہ کے چہروں پر گرے ، ایک صحابی کہنے لگے:-
" اللہ کے بندے پہلے کھجور تو کھا لے" - - - بڑی جلدی ہے تجھے بولنے کی " - - -
مسکرا کے کہنے لگے :-
"اگر کھاتے کھاتے ڈیوٹی کسی اور کی لگ گٸی تو کیا کرونگا مجھے جلدی ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اللہ اکبر)
حضورﷺ نے اپنا نیزہ دیا, گھوڑا دیا ,اور فرمایا:-
" ذرا ڈٹ کے جانا اس کذاب کے گھر" - -
وہ صحابی عقیدت سے نظریں جھکا کرکہنے لگے:-
" محبوب خدا ! آپ فکر ہی نا کریں" - - -
صحابہ کہتے ہے وہ اس طرح نکلا جیسے کوٸی جرنیل نکلتا ہے,اسکا انداز ہی بدل گیا اس کے طور طریقے بدل گٸے وہ یوں نکلے جیسے کوٸی بڑا دلیر آدمی جاتا ہے - - وہ صحابی مسیلمہ کذاب کے دربار میں گٸے، وہاں ایک شحض جو بعد میں مسلمان ہوا وہ بتلاتا ہے:-
" وہ صحابی جن کا نام" حضرت حبیب بن زید " تھا جب وہاں دربار میں پہنچے تو اپنا نیزہ زور سے دربار میں گاڑ دیا
مسلمہ ٹھٹک کے کہتا ہے:-
" کون ہو "؟ - - -
آپ نے غراتے ہوئے فرمانے لگے:_
" تجھے چہرہ دیکھ کے پتہ نہیں چلا کہ میں رسول اللہﷺ کا نوکر ہو، ہمارے تو چہرے بتاتے ہے کہ نبیﷺ والے ہے ، تجھے پتہ نہیں چلا میں کون ہوں" ۔
مسلمہ کہنے لگا:-
" کیسے آٸے ہو" ؟ - - -
بے نیازی سے فرمایا :-
" یہ تیرے خط کا جواب لے کے آیا ہوں" ۔
بادشاہوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خط خود نہیں پڑھتے تھے، ساتھ ایک بندہ کھڑا ہوتا تھا وہ خط پڑھتا تھا تو مسیلمہ نے خط اس کو دیا کہ - -" پڑھو " - - جب اس نے خط پڑھا تو اسمیں یہ بھی لکھا تھا :- " تو کذاب ہے" - - -
یہ جملہ وہاں موجود سب نے سن لیا اکیلے میں ہوتا تو بات اور تھی - - وہ آگ بگولہ ہوگیا انکھیں سرخ ہوگٸیں سامنے حضرت حبیبؓ بن زید تنے کھڑے تھے، غصے سے تلوار لے کے اٹھا اور کہنے لگا:-
" تیرے نبی نےمجھے" کذاب " کہا ہے تیرا کیا خیال ہے" ۔؟؟
حبیب بن زید مسکرا کے فرمانے لگے:-
" خیال والی بات ہی کوٸی نہیں، جسے میرا نبی کذاب کہے وہ ہوتا ہی کذاب ہے - - - تو سات سمندروں کا پانی بھی بہا دے تو بھی تیرا جھوٹ نہیں دھل سکتا" - - -
مسلمہ غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے کہنے لگا :-
" تو پیچھے پلٹ کے دیکھ ، سارے میرے سپاہی میرےپہرےدار، تلواریں , نیزے , خنجر , تیر سب تیرے پیچھے کھڑے میرے ماننے والے ہیں" ۔۔
حضرت حبیب بن زید رض فرمانے لگے:-
" میرے بارہ بچے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہے جو دودھ پیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی چلنا نہیں سیکھا - - - میں جب رسول اللہﷺ کا پیغام لے کے نکلا تھا تو میں نے پلٹ کے بچے نہیں دیکھے تو تیرے پہرہ دار کیسے دیکھ لوں ,جو جی میں آتا ہے کر غلام محمدﷺ جان دینے سے نہیں ڈرتے " - -
مسیلمہ نے زور سے تلوار ماری بازو کٹ کے گر گیا کہنے لگا :-
" اب بول اب تیرا کیا خیال ہے"؟؟؟
آپ فرمانے لگے:-
" تو بڑا بیوقوف ہے ہمیں آزماتا ہے، ہمیں تو بدر سے لے کر احد تک سب آزما چکے ہیں ، تو ابھی بھی خیال پوچھتا ہے، میرا خیال وہی ہے جو میرے نبی نے فرمایا" - - -
مسلمہ نےپھر تلوار ماری دوسرا ہاتھ کٹ گیاکہنے لگا:-
" میں تجھے قتل کر دونگا باز آجا
آپ فرمانے لگے:-
" تو بڑا نادان ہے ، ان کو ڈراتا ہےجو فجر کی نماز پڑھ کے پہلی دعا ہی شہادت کی مانگتے ہیں ، جو کرنا ہے کر لے" - -
مسلمہ کزاب نے تلوار گردن پر رکھی کہنے لگا:-
" میں تیری گردن کاٹ دونگا " - -
حبیب بن زید فرمانے لگے:-
" کاٹتا کیوں نہیں" - - -
روایت کرنے والا فرماتا ہے مسیلمہ کے ہاتھ کانپے تھے - تلوار چلاٸی گردن کٹ گٸی ، ادھر مدینے میں حضورﷺ کی انکھوں میں آنسو آٸے ، صحابہ کرام رض نے پوچھا :-
" یا رسول اللہ کیا ہوا " - - -
فرمایا :-
"میرا حبیب شہید ہو گیا ہے - - - اور رب کریم نے اس کے لٸے جنت کے سارے دروازے کھول دٸے ہیں" - - -
(أسد الغابہ ابن الاثیر)

13/03/2024

🥀 _*ماہِ رمضان کی برکات*_ 🥀

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا
جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازه کھلا نہیں رہتا جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اسکا کوئی دروازا بند نہیں رہتا اور منادی کرنے والا پکارتا ہے
اے بھلائی کے چاہنے والے بھلائی میں آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے برائی سے باز آ اور کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کر دیتا ہے اور ایسا ہر رات کو ہوتا ہے
(سنن ابن ماجه : ١٦٤٢، صحيح)

12/03/2024
12/03/2024

*🌹Reminder🌹*
🪷افطاری بنانے سے جلدی فارغ ہونے کی کوشش کیجیے تاکہ آپ کے پاس دعا کرنے کا وقت ہو۔۔۔۔

🪷افطار کے وقت دعا کرنا ایسے ہی ہے جیسے مزدوری کے بعد اجرت لینا
👈 *یاد رکھیے* جو روزہ افطار کرنے سے پہلے دعا مانگنا بھول گیا گویا وہ اپنی اجرت لینا بھول گیا۔۔۔۔
🕰️ *افطار کا وقت دعا کا وقت ہے. اپنی ساری التجائیں اپنے رب کے سامنے رکھنے کا وقت ہے... اس وقت کو ضائع نہ کیجئے گا*

12/03/2024

‏ *حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:*

’’اگر رمضان میں کسی آدمی کو اعمالِ صالحہ کی توفیق مل جائے تو پورے سال یہ توفیق اس کے شامل حال رہے گی اور اگر یہ مہینہ بے دلی، بے فکری اور انتشار کے عالم میں گزرے تو پورا سال اسی حال میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔‘‘

📓(مکتوباتِ مجدد الفِ ثانی، دفتر اول ، مکتوب نمبر 162)

08/03/2024

مشہور واقعہ ہے کہ ﷲ نے حضرت موسی علیہ السلام سے
کہا،
اے موسی قحط آنے والی ہے اپنی قوم سے کہو تیار رہے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ پیغام پہنچادیا، تو
انکی قوم نے اپنے گھروں کی دیواروں میں سوراخ بنا دئے تا کہ ‏قحط اور سختی کی صورت میں ساتھ والے گھر کی مدد کرسکیں اور اس طرح یہ سخت دن گزر جائیں۔ کچھ وقت گزرا لیکن قحط نہیں پڑا، حضرت موسی علیہ السلام نے ﷲ تعالی سے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ تمہاری قوم نے آپس میں ایک دوسرے پر رحم کیا تو میں کیوں نہ ان پر رحم کروں اس لئے قحط نازل نہیں کیا ‏____موجودہ مہنگائی کے دور میں ایک دوسرے پر رحم کریں تا کہ خدا بھی ہم پر رحم کرے ،
تحریر۔جاوید ملنگ

 #جمعہ
08/03/2024

#جمعہ

ﺍﯾﮏ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﯾﻦ ﺑﮍﺍ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺟﻮﺗﺎ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﻮﭼﯽ...
08/03/2024

ﺍﯾﮏ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﯾﻦ ﺑﮍﺍ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺟﻮﺗﺎ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﻮﭼﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ : ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮧ ﻣﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔
ﻣﻮﭼﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺭﮐﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﮮ۔
ﻃﺎﻟﺐِ ﻋﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﯿﺴﮯ ﺗﻮﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﻮﭼﯽ ﮐﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﮯ ﺟﻮﺗﺎ ﻣﺮﻣﺖ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ۔ﻃﺎﻟﺐِ ﻋﻠﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳُﻨﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ :
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺗﮭﮯ : ﻃﺎﻟﺐِ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ : ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﺗﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﺳﺒﺰﯼ ﻣﻨﮉﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻭ۔
ﻭﮦ ﻃﺎﻟﺐِ ﻋﻠﻢ ﻣﻮﺗﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺳﺒﺰﯼ ﻣﻨﮉﯼ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺳﺒﺰﯼ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺍﺱ ﻣﻮﺗﯽ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻟﮕﺎﺅ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﻟﯿﻤﻮﮞ ﺍُﭨﮭﺎ ﻟﻮ۔ﺍﺱ ﻣﻮﺗﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﮭﯿﻠﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﭽﮧ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ : ﺍﺱ ﻣﻮﺗﯽ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺩﻭ ﯾﺎ ﺗﯿﻦ ﻟﯿﻤﻮﮞ ﮨﮯ۔
ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺍﭼﮭﺎ ﺍﺏ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺳُﻨﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻭ۔ﻭﮦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﯽ ﮨﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻮﺗﯽ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﮐﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﮐﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﻟﻮ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻮﺗﯽ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻃﺎﻟﺐِ ﻋﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮐﺮ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﺳُﻨﺎﯾﺎ۔ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺑﭽﮯ ! ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻗﯿﻤﺖ ﮐﻮ ﺍﮨﻞِ ﻋﻠﻢ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺎﮨﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ..

08/03/2024

۔اقوالِ حکمت۔
دوسروں کو بے عزت سمجھنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کی آدمی اپنے آپ کو خُدا کی نظر میں بے عزت کرلے۔

07/03/2024

قیمتی ہیرا

06/03/2024

شہزادے نے اللہ کی مدد کو کیسے پایا ؟ نصیحت آموز واقعہ

ایک بادشاہ فوت ہو گیا اُس کی وفات کے بعد اُس کا بڑا بیٹا فورا ً تخت پر قابض ہو گیا ۔ بادشاہ کا دوسرا بیٹا بڑے بھائی سے خوف زدہ تھا اُس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ بادشاہ کا بیٹا اپنے تین دوستوں کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہو گیا ۔ ان دوستوں میں سے ایک تاجر کا بیٹا دوسرا کسان کا بیٹا تیسرا ایک بہت خوبصورت نو جوان تھا راستے میں بہتر مستقبل کے بارے میں سب دوست اپنی اپنی رائے پیش کرنے لگے ۔ سب سے پہلے کسان کا بیٹا کہنے لگا ۔ محنت سے انسان سب کچھ بنتا ہے ۔ باقی سب باتیں بیکار ہیں ۔ تاجر کے بیٹے نے ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا عقل اور حسن تدبیر سب سے بڑا ہتھیار ہے یہ نہ ہو تو انسان نا کام ہے ۔ اب نو جوان کی باری تھی نو جوان گویا ہوا ۔ ’’حسن و جمال سب سے بڑی نعمت ہے ‘‘ بادشاہ کا بیٹا اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا نہایت تدبر تفکر والا انسان تھا ۔ سب کی باتیں غور سے سننے کے بعد کہنے لگا ۔ سب اپنی جگہ درست ہے مگر سب سے بڑی چیز اللہ کی رضا اور قدر ہے اس کی ذات کا فیصلہ ہی ہر چیز پر غالب ہے ۔ جب تک ہمارا عقیدہ تقدیر پر مکمل نہ ہو اُس وقت تک راحت سکون حاصل نہیں ہو سکتا ۔کسان کا بیٹا کہنے لگا ’’ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ‘‘ اب پتہ چلے گا کس کی بات ٹھیک ہے ۔ سب اپنی رائے آزماتے ہیں یہ لوگ چلتے چلتے دوسرے ملک میں داخل ہوئے یہ لوگ اسی شہر میں اجنبی تھے ۔ انہوں نے ایک صحرا میں پڑائو ڈالا پہلے دن انہوں نے کسان کے بیٹے کو کہا آج ہم دیکھیں گے محنت کے کیا فائدے ہیں ۔ جائو اپنی محنت سے آج کے کھانے کا انتظام کرو ۔ کسان کا بیٹا اٹھا اور جنگل کا رخ کیا ۔ لکڑیاں توڑیں اور شہر میں آ کر دو درہم کی بیچ دیں ۔ ایک درہم کا کھانا لیا دوسرا درہم اپنے پاس محفوظ کر لیا ۔ ساتھیوں کے پاس آ کر انہیں بھی کھلایا سب نے اس کو شاباش دی ۔ اگلے دن تاجر کے بیٹے کا نمبر تھا کہ وہ عقل اور حسن تدبیر کا مظاہرہ کرے ۔ وہ اٹھا اور ساحل سمندر پر آیا سمندر میں سامان سے لدی کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی ۔ تاجر کا بیٹا کشتی میں بیٹھ گیا ۔ دوسرے راستے سے چیکے سے لدی کشتی کے مالک کے پاس پہنچا اس سے سامان کا بھائو تائو کیا ادھار پر سارا سامان سو درہم میں خرید لیا ۔ جب کشتی ساحل پر پہنچی تو مقامی تاجر انتظار میں تھے ۔ تاجر کا بیٹا ان کے پاس آیا سارا سامان 1100 درہم کے عوض بیچ دیا اور 100 درہم سامان کے مالک کو دیئے اور باقی جیب میں ڈالے ۔ دوستوں کے لیےبہترین کھانا لیا ان کو خوب سیر کرائی سب نے اس کے حسن تدبیر کی تعریف کی ۔اگلے دن خوبصورت نو جوان کا نمبر تھا جس کا کہنا تھا انسان خوبصورتی کے بل بوتے انسان کامیابی حاصل کرتا ہے‘ دوستوں نے کہا آج ہم دیکھیں گے کہ آپ کا حسن ہم کو کیسے کھانا کھلائے گا وہ اٹھا میک اپ کیا اور شہر کی طرف روانہ ہوا اور ایک گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ گیا اوپر سے ایک خاتون نے کھڑکی سے جھانکا ایک خوبصورت نو جوان پریشان بیٹھا ہے اور سوچ رہا ہے اس نے بلا کر وجہ پوچھی کھانا کھلایا کہ مسافر ہے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے دوستوں کا قصہ سنایا ۔ خاتون نے نو جوان کو کچھ رقم تھما دی وہ نو جوان سب کے لئے کھانا لے آیا ۔ سب نے اس کو بھی سراہا ۔اب بادشاہ کے بیٹے کی باری تھی ۔ سب سوچنے لگے کہ کسان کے بیٹے نے بھی محنت کی ا ور تاجر نے بھی کچھ کیا ‘ نو جوان نے بھی کچھ کر ہی لیا مگر اب بادشاہ کا بیٹا جو کہتا ہے کہ اللہ کا فیصلہ رضا اور تقدیر ہر چیز پر غالب ہے یہ کیا کر کے دکھائے گا ۔اب شہزادہ اللہ کا نام لیتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور راستے کے کنارے جا بیٹھا وہاں سے اسی ملک کے بادشاہ کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا وزرا ء فوج پولیس جنازہ کو کندھا دیئے جا رہے تھے ۔ شہزادہ کو راستے میں بیٹھا دیکھ کر پولیس آفیسر نے اس کو ڈانٹا ۔ شرم نہیں آتی بادشاہ کا جنازہ جا رہا ہے اور تم اس طرح بیٹھے ہو ۔بادشاہ کو دفنانے کے بعد جب پولیس افسر واپس آئے تو دیکھا شہزادہ اب بھی وہیں بیٹھا ہے تو فورا ً اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ۔اب دوست انتظار کر رہے واپس نہ آنے کی وجہ سے قیاس آرایاں کرنے لگے وہ شہزادے کو ڈھونڈنے شہر کی طرف چل پڑے لیکن شہزادہ جیل میں بند تھا ۔ وہ تلاش نہ کر سکے تو اگلے دن پر موخر کر دیا ۔ادھر کابینہ کے وزرا ء مشیر جمع تھے کہ نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے غور و فکر کر رہے تھے کہ نیا بادشاہ بادشاہوں کے خاندان سے منتخب کیا جائے ۔ عام آدمی منتخب نہ کیا جائے مگر بادشاہ کا کوئی وارث نہیں تھا ۔سینئر وزیر نے اعلان کروایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ ہاتھ کھڑا کر دیں مگر کابینہ میں کوئی ایسا بندہ نہ تھا مگر پولیس افسر کہنے لگا کہ ایک بندہ ہے جس کو میں نے قید کیا ہے وہ شہزادہ معلوم ہوتا ہے ۔اس کو حاضر کرنے کا حکم ہوا شہزادے کو کابینہ کے سامنے لایا گیا اور پوچھا آپ کون ہو ؟ اور یہاں کس غرض سے آئے ہو ۔ شہزادہ بولا میں فلاں ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہوں باپ مر گیا اور بڑا بھائی بادشاہ بن گیا میں اس سے خوف زدہ تھا جان کے خوف سے ملک چھوڑ دیا ۔ تمام کابینہ نے اس کی بات کو قبول کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اسے اپنا بادشاہ منتخب کر لیا ۔ شہزادے کے منہ سے بے ساختہ نکلا یقینا ً اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں پر غالب ہے ۔اب وزرا ء نے بادشاہ کو ملک کی سیر کرانے کے لیےباہر نکالا ۔ بادشاہ شہر میں گشت کر رہا تھا لوگ بادشاہ کے پیچھے بادشاہ زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے بادشاہ کے پیچھے جا رہے تھے ۔ ادھر شہزادے کے دوست شہر میں اس کی تلاش میں نکلے تھے جو انہوں نے شہزادے کو اس حالت میں دیکھا تو سمجھ گئے بے ساختہ بول اٹھے ’’واقعی اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں سے بڑھ کر ہے ۔ وہ بھی بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے بادشاہ کے ساتھ محل میں داخل ہو گئے ‘‘ بادشاہ تخت پر بیٹھا یہ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ بادشاہ نے ان کے سامنے کل کا جملہ دہراتے ہوئے کہا اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تا کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فیصلہ رضا طاقت ہر چیز پر غالب ہے۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جو جیسا گمان کرتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے ۔ و اللہ غالب علٰی امرہ۔بادشاہ نے تاجر کے بیٹے کو مشیر مقرر کر لیا۔ کسان کے بیٹے کو وزیر زراعت کے عہدے پر مقرر کیا ا ور جو خوبصورت نو جوان تھا اسے کہا ۔ یہ عارضی حسن کسی فائدے کا نہیں اس کو کچھ مال تحفے میں دے کر رخصت کر دیا‘جس نے خدا کی ذات پر بھروسہ کیا اللہ نے اس کو ہی ہمیشہ کامیاب کیا ہے ۔ آپ نے بھی ہمیشہ بار ہا تجربہ مشاہدہ کیا ہوا کہ جو مال‘ عقل‘ حسن کمال پر اعتماد کرتا ہے وہ اس کے باوجود نا کام ہو جاتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے ’’تقدیر تدبیر پر ہنستی ہے‘‘ اپنا کام اخلاص اور نیک نیتی سے کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کیجئے اللہ سب کا حامی ناصر ہو۔ آمین! ۔

05/03/2024

🌹🌹 فرید کی زبان 💕💕

ایک غریب عورت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمته الله علیه کے پاس آئی اور اپنی مفلسی کی شکایت کی ، اس کی بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئی تھیں لیکن اس کے پاس کوئی مال اسباب نه تھا۔ بابا جی نے اسکی بات سنی اور اس کیلئے دعا فرمائی۔ لیکن وه عورت بابا جی سے کچھ لینے پر بضد رهی۔ بابا جی نے فرمایا ، بی بی! سب خزانے تو الله کے هیں اس سے مانگو، میں تو خود اس کا ایک ادنیٰ سا غلام هوں۔ لیکن وه عورت بولی، آپ الله کے نیک بندے هیں میں آپ کے در سے خالی نہیں جاؤں گی۔
آخر جب اس عورت کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو بابا جی نے فرمایا، اچھا جاؤ اور کوئی مٹی کا ڈھیلا تلاش کر کے لاؤ، وه عورت مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا لائی، بابا فرید رحمته الله علیه نے تین مرتبہ سوره اخلاص ( قل هو الله احد ) پڑھ کر مٹی پر دم کیا تو الله کی قدرت سے وه مٹی سونا بن گئی۔ آپ رحمته الله علیه نے وه سونا اس عورت کے حوالے کرتے هوئے فرمایا،
لو بی بی! اس سے اپنی بچیوں کی شادی کا بندوبست کرو۔ وه عورت شکریہ ادا کرتی هوئی چلی گئی لیکن سونا بنانے کا نسخہ اس کے دماغ میں بیٹھ گیا۔
گھر جا کر اس نے مٹی کے کئی ڈھیلے اکٹھے کئے، سارے گھر کو پاک صاف کیا اور خوشبو سے مہکا دیا، غسل کر کے پاک صاف لباس پہنا اور اپنے عمل میں شدت پیدا کرنے کیلئے اس نے تین کی بجائے تین سو بار سوره اخلاص پڑھی اور مٹی پر دم کیا، اس عورت کا خیال تھا کہ آن کی آن میں مٹی، سونے میں بدل جائے گی لیکن ایسا کچھ نه هوا۔
اس عورت پر جنون کی سی کیفیت سوار هو گئی وه بار بار سوره اخلاص پڑھتی اور مٹی پر دم کرتی لیکن مٹی، مٹی هی رهتی۔ وه تین دن تک سوره اخلاص پڑھتی رهی لیکن سب بے سود رها، آخر وه مٹی اٹھا کر بابا فرید رحمته الله علیه کی خدمت میں حاضر هوئی اور شکوه کرنے کے انداز میں بولی،
آپ نے نه وضو کیا ، نه غسل، نه هی خوشبو کا اہتمام کیا بس تین بار سوره اخلاص پڑھی اور مٹی سونا بن گئی۔ میں نے غسل کیا، خوشبو لگائی، گھر کو پاک صاف کیا، اور تین دن سے سوره اخلاص پڑھ رهی هوں لیکن مٹی سونا نہیں بنتی، بتائیں میرے عمل میں کیا کمی هے ؟ بابا فرید رحمته الله علیه کی آنکھیں نم هو گئیں۔
آپ رحمته الله علیه نے سر جھکا لیا اور بھیگے هوئے لہجے میں فرمایا، تیرے عمل میں کوئی کمی نہیں تھی، بس تیرے منه میں فرید کی زبان نہیں تھی۔
( بحواله: "الله کے سفیر" از خان آصف)

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں فتنہ دجال اور اس سے پہلے تمام چھوٹے بڑے فتنوں سے پناہ عطاء فرمائے ۔آمین
18/02/2024

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں فتنہ دجال اور اس سے پہلے تمام چھوٹے بڑے فتنوں سے پناہ عطاء فرمائے ۔
آمین

18/02/2024

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا زمانہ تھا. ایک مرتبہ ایک شخص کے گھر میں چوری ہوگئی چور اسی محلے کے تھے چور نے اس شخص کو پکڑا اور زبردستی حلف لیا کہ اگر تو کسی کو ہمارا پتا بتلائے گا تو تیری بیوی پر طلاق اس بیچارے نے مجبوراً طلاق کا حلف لے لیا اور چور اس کا سارا مال لے کر چلا گیا اب وہ بہت پریشان ہوا کہ اگر میں چور کا پتا بتلاتا ہوں تو مال تو مل جائے گا بیوی ہاتھ سے نکل جائے گی اور اگر پتہ نہیں بتلاتا ہوں تو بیوی تو رہے گی مگر سارا گھر خالی ہو جاتا ہے چنانچہ مال اور بیوی میں تقابل پڑ گیا کہ یا تو مال رکھے یا بیوی رکھے بڑی الجھن کا شکار تھا کسی سے کہے بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اتنا چور نے اس سے عہد لے رکھا تھا چنانچہ وہ شخص حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا وہ بہت غمگین اور اداس و پریشان تھا امام صاحب نے فرمایا کہ آج تم بہت اداس ہو کیا بات ہے اس نے کہا حضرت میں کہہ بھی نہیں سکتا امام صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ کچھ تو کہو اس نے کہا کہ حضرت اگر میں نے کچھ کہا تو نہ جانے کیا ہو جائے گا انہوں نے کہا کہ اجمالا کہو تو اس نے کہا کہ حضرت چوری ہو گئی ہے اور میں نے یہ عہد کر لیا ہے کہ اگر میں نے ان چوروں کا پتہ کسی کو بتلایا تو بیوی پر طلاق ہو جائے گی مجھے معلوم ہے کہ چور کون ہے وہ تو محلے کے ہیں
امام صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ تم مطمئن رہو بیوی بھی نہیں جائے گی اور مال بھی مل جائے گا اور تم ہی چوروں کا پتہ بھی بتاؤ گے کوفہ میں شور ہو گیا کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ یہ کیا کر رہے ہیں یہ تو ایک عہد ہے جب وہ پورا نہ کرے گا اور اگر عہد کے خلاف اس نے چوروں کے نام بتا دیے تو بیوی کو طلاق ہو جائے گی یہ امام صاحب نے کیسے کہہ دیا کہ نہ بیوی جائے گی اور نہ مل جائے گا غرض علماء فقہاء پریشان ہو گئے
امام صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ کل ظہر کی نماز میں تمہارے محلے کی مسجد میں ا کر پڑھوں گا چنانچہ امام صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ تشریف لے گئے وہاں نماز پڑھی اور اس کے بعد اعلان کر دیا کہ مسجد کے دروازے بند کر دیے جائیں کوئی باہر نہ جائے اس میں چور بھی تھے اس مسجد کا ایک دروازہ کھول دیا ایک طرف خود بیٹھ گئے اور ایک طرف اس شخص کو بٹھا دیا اور فرمایا کہ ایک ایک ادمی نکلے گا جو چور نہ ہو اس کے متعلق کہتے جانا یہ چور نہیں ہے اور جب چور نکلنے لگے تو چپ ہو کر بیٹھ جانا
چنانچہ جو چور نہیں ہوتے تھے ان کے متعلق وہ کہتا جاتا تھا یہ چور نہیں ہے یہ بھی نہیں اور جب چور نکلتا تو خاموش ہو کر بیٹھ جاتا اس طرح گو اس نے بتلایا بھی نہیں مگر بنا بتائے سارے چور معلوم ہو گئے چنانچہ وہ پکڑے بھی گئے مال بھی مل گیا اور بیوی بھی ہاتھ سے نہیں گئی
حوالہ بکھرے موتی جلد ہفتم

16/02/2024

شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے بارہا سنا ہوگا جس میں انہوں نے محمود و ایاز کے ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کو اسلام کے ایک باکمال وصف مساوات سے تعبیر کیا ہے، ایاز ایک امیر تاجر کا غلام تھا، وہ تاجر کسی قرض کے بھار تلے آگیا اور قرض اتارتے اتارے اُس بیچارے کا سب کچھ بک گیا لیکن پھر بھی قرض ادا نہ ہوا اُس کے غلام ایاز نے اُسے مشورہ دیا کہ آپ مجھے بازار لے جائیں اور وہاں 10لاکھ درہم میں فروخت کردیں تاکہ آپکا قرض ادا ہو سکے اُسکا مالک مسکرانے لگا اور اپنے غلام سے پوچھا کہ آخر اُس میں ایسی کیا خوبی ہے جو باقی غلاموں میں نہیں ہے ایاز نے جواب دیا کہ آپ سرِبازار یہ ا علان کریں کہ ایاز جانتا ہے کہ غلامی کیا ہوتی ہے ا یاز وہ سب جانتا ہے جو باقی غلام نہیں جانتے۔ بہر حال وہ تاجر ایاز کے اصرار پر اُسے بیچنے کے لئے بازار لے آیا جب اُس نے اپنے غلام ایاز کے 10لاکھ درہم طلب کئے تو ہر طرف سے زور دار قہقہے بلند ہوئے جوکہ ایک فطر ی عمل تھا کیونکہ اُن دنوں غلام بکتا تھا 200سے 300درہم میں اور وہ طلب کررہا تھا 10لاکھ درہم لیکن اس قدر غیر فطری مطالبے کے باوجود وہ تاجر اپنی بات پر قائم رہا، با ت پہنچی بادشاہ کے دربار تک۔بادشاہ کون تھا؟غزنوی سلطنت کا فرمانروا جسے تاریخ محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے جب اُس نے سُنا کہ ایاز غلامی کے تقاضے جانتا ہے تو اُس نے ایاز کو 10لاکھ درہم میں خرید لیا۔وقت گزرتا گیا اور ایاز محمود کے ہر امتحان پر پورا اترتا گیا محمود غزنوی کے دل میں ایاز نے گھر کرلیا۔ محمود غزنوی،ایاز کی ذہانت،دیانت اور وفا سے اتنا خوش ہوا کہ اُس نے اُسے لاہور کا پہلا مسلمان گورنر لگایا اور یہاں تک کے اُسے وزیر ِ اعظم کے عہدے پر تعینات کیا۔ دستورِ زمانہ ہے کہ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے ایاز کی کامیابیوں سے کچھ ساتھی وزیر جل اٹھے انہوں نے ایاز کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنا شروع کردئیے۔ انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ عالم پناہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایاز اپنے پاس کوئی خزانہ جمع کررہا ہے اور جب اسکے پاس وہ مطلوبہ مقدار جمع ہوجائیگی تو وہ آپکے خلاف بغاوت کا اعلان کردے گا، ثبوت کے طور پر انہوں نے بادشاہ سے یہ بھی کہا کہ ایازاس خزانے کو روزانہ ایک تہہ خانے میں دیکھنے کے لئے جاتا ہے۔آپ بے شک خود اس بات کی تصدیق کر لیں۔ شک کا بیج زمیں میں کاشت نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ذہن میں بویا جاتا ہے اور یہ ہفتوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ لمحوں میں تناور درخت بن جاتا ہے،اس بری بلا نے محمود اور ایاز کے اعتماد کی مضبوط دیوار میں بھی دراڑ ڈال دی۔محمود نے ایاز کو بلایا، اپنے سامنے بٹھایا اور دریافت کیا کہ یہ خزانہ اور تہہ خانہ کا کیا معاملہ ہے؟ ایاز نے لاکھ یقین دلانے کی کوشش کی لیکن محمود کو تسلی نہ ہوئی۔ ایاز سے کہنے لگا چلو میرے ساتھ اس تہہ خانے۔ آخرایک شام محمود غزنوی اور ایاز ہاتھ میں چراغ لیکر اس تہہ خانے میں اترے جہاں ایاز پر خزانہ جمع کرنے کا الزام تھا۔ محمود غزنوی نے دیکھا کہ تہہ خانے میں ایک بہت بڑا پتھر پڑا ہے جس پر ایک صندوق رکھا ہے۔پہلی نظر میں اُسکا شک یقین میں بدلنا شروع ہوگیا۔ایاز نے صندوق کو تالا لگا رکھا تھا لیکن جب محمود کے کہنے پر ایاز نے صندوق کھولا تو محمود غزنوی دھاڑیں مار کر رونے لگا۔اُس صندوق میں کیا تھا فقط ایک پھٹا پرا ناکرتہ، ٹوٹے ہوئے چپل اور ایک چھڑی۔ ایاز نے محمود سے کہا بادشاہ سلامت تسلی سے دیکھ لیں یہی ایاز کا خزانہ ہے محمود نے پوچھا کہ ایاز تو نے اسے بہت حفاظت سے رکھا ہوا تھا اور تُو اسی خزانے کو دیکھنے آتا تھا؟ ایاز نے کہا عالم پناہ آج میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں لیکن مجھے آج بھی نہیں بھولا کہ کبھی میں گڈریا تھا اِسی چھڑی سے بکریاں ہانکا کرتا تھا،یہی چپل پہنتا اور یہی پھٹا پرانا کرتازیبِ تن کرتا۔ اب روزانہ اپنے اس خزانے کو اس لئے دیکھنے آتا ہوں کہ کہیں اپنی اوقات نہ بھول بیٹھوں کہیں انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر اپنے پیروں تلے روندناشروع نہ کردوں کہیں کوئی غریب میرے غرور کی بھینٹ نہ چڑھ جائے، کہیں تکبر اور رعونت کے نشے میں کسی بے کس کی جھونپڑی نہ جلادوں، کہیں اپنے جاہ و جلال کا چراغ روشن رکھنے کے لیے مظلوموں کی زندگی کا دیا نہ بُجھادوں۔ پس میں روزانہ اپنے ضمیر کی زنجیر ہلاتاہوں تاکہ مجھے اپنی اوقات یاد رہے۔جنابِ عالی! ہمیں کوئی اخلاقیات، کوئی مذہب،کوئی دین، اور کوئی آئین ترقی کرنے سے نہیں روکتا۔ ہمارا حق ہے کہ ہم ہواؤں میں اڑیں لیکن ہمارے پیر زمین پر رہنے چاہیئں یا درکھئے جب کوئی ہمیں چھوٹا نظر آتا ہے تو یقیناً ہم اُسے دور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں یا غرور سے مجھے اکبر الہٰ آبادی کا خوبصورت کلام یا د آرہا ہے۔ جو وہ کالج کے طلبہ سے خطاب کررہے تھے انہوں نے طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ: تم شوق سے کالج میں پھلو،پارک میں پھولو جائز ہے غُباروں میں اڑو،چرخ پہ جھولو بس ایک سُخن بندعاجز کا رہے یاد اللہ کو اور اپنی حقیقت کونہ بھولو۔

16/02/2024

‏روم کے بادشاہ ہرقل (یا ہرکولیس) کو نبی کریمﷺ نے خط بھیجا جس میں دین کی دعوت دی گئی۔ رومن امپائر اس وقت دنیا کی طاقتور ترین حکومت ہوا کرتی تھی اور اس کا بادشاہ جاہ و جلال کا پیکر ہوا کرتا تھا۔

ہرقل کو جب یہ خط ملا تو اس نے حکم دیا کہ اگر کوئی عرب کا باشندہ ملک میں ہے تو اسے لایا جائے۔ اس وقت اتفاق سے ابوسفیان اپنے لوگوں کے ہمراہ تجارتی دورے پر وہاں موجود تھے، چنانچہ انہیں بادشاہ کے دربار میں بلا لیا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب ابوسفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور غالباً حال ہی میں نبی ﷺ کے ساتھ قریش مکہ کا معاہدہ بھی ہوچکا تھا۔

جب وہ سب دربار میں پہنچے تو ہرقل نے سوال کیا:

تم میں سے کون شخص محمد (ﷺ) کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟
ابوسفیان: میں اس (ﷺ) کا سب سے قریبی عزیز ہوں۔

ہرقل: اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟
ابوسفیان: وہ اونچے عالی نسبت والے ہیں۔

ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے ایسی بات (یعنی نبوت کا دعوی) کیا تھا؟
ابوسفیان: نہیں

ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
ابوسفیان: نہیں

ہرقل: اس کی پیروی کرنے والے طاقتور ہیں یا کمزور؟
ابوسفیان: کمزور

ہرقل: اس کے ماننے والوں میں سے کوئی واپس پلٹا ہے؟
ابوسفیان: نہیں، سب کے سب قائم ہیں

ہرقل: دعوی نبوت سے قبل اس نے کبھی جھوٹ بولا تھا؟
ابوسفیان: ہرگز نہیں۔ اب ہمارا معاہدہ ہوا ہے، معلوم نہیں اس کا کیا کرے گا۔

ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی، اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
ابوسفیان: کبھی ہم جیت جاتے ہیں اور کبھی وہ۔

ہرقل: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟
ابوسفیان: وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اپنے باپ دادا کی شرک کی باتیں چھوڑ دو، نماز پڑھو، سچ بولو، پرہیزگاری اختیار کرو اور صلہ رحمی کرو۔

ہرقل نے کہا:
میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا، تم نے کہا ہم میں عالی نسب ہے، پیغمبر ہمیشہ عالی نسب ہی بھیجے جاتے ہیں۔

تم نے کہا کہ اس کے خاندان میں اس سے پہلے کسی اور نے نبوت کا دعوی نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ وہ ان کی تقلید کررہا ہے۔

تم نے کہا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا۔ اگر گزرا ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ وہ اپنی بادشاہت حاصل کرنے کیلئے یہ دعوی کررہا ہے۔

تم نے کہا کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ جو شخص آدمیوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولتا، وہ اللہ کے بارے جھوٹی بات کیسے گھڑ سکتا ہے۔

تم نے کہا کہ اس کے ساتھ زیادہ تر کمزور لوگ ہیں۔ یہی لوگ تو پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔

تم نے کہا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں، ایمان کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔

تم نے کہا کہ اس کا ماننے والا کوئی بھی مرتد نہیں ہوا۔ ایمان والوں کی یہی خاصیت ہوتی ہے۔

تم نے کہا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہے، سچ اور پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہے۔

لہذا اگر یہ باتیں سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہوگا۔ میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے، مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ تم سے ہوگا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو خود اس کے پاؤں دھوتا۔

یہ ہے ہمارے نبی ﷺ کی شخصیت کی خوبصورتی کہ آپ ﷺ کی خصوصیات سن کر ایک طاقتور ترین بادشاہ بھی آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی دینے پر مجبور ہوگیا۔

25/01/2024

لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو

کہ وہ محرومیوں کو قسمت

سمجھیں' ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کر لیں، حق کے لئے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں، غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ

کر چپ رہیں.
سعادت حسن منٹو

22/01/2024

مرغی کے انڈے کے چپٹے سرے میں اللہ تعالیٰ نے آکسیجن کا ایک بلبلہ رکھا ہے۔ انڈوں پر بیٹھی ہوئی مرغی بغور دیکھ دیکھ کر اس سرے کو اوپر کرتی رہتی ھے۔ آپ نے اکثر اُسے چونچ سے انڈوں کو کریدتے ہوئے دیکھا ہوگا، اُس وقت وہ اصل
میں یہی کام کر رہی ہوتی ہے۔

میرے اللہ نے مرغی کو بھی سائنسدان بنایا ہے۔ بچے کا منہ اوپر کی جانب بنتا ہے، اگر تو انڈے کا چپٹا رُخ اوپر رہے تو چوزہ تخلیق کے مراحل کی تکمیل ہوتے ہی اُس بُلبلے سے سانس لیتا ہے، لیکن اس کے پاس مہلت محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ آکسیجن کے اس بُلبلے کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے خ*ل کو توڑ کر باہر نکلے، باہر آکسیجن کا سمندر اس کے انتظار میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ اُس بُلبلے کو ہی زندگی سمجھ کر استعمال کرے اور خ*ل کو توڑنے کی کوشش نہ کرتے تو پھر کچھ ہی لمحوں بعد وہ اندر ہی مر جاتا ہے۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب چوزہ خ*ل کو اندر سے توڑ نہیں پاتا تو وہ بولتا اور فریاد کرتا ہے تو ماں باہر سے چونچ مار کر اُس خ*ل کو توڑ دیتی ہے، اور یوں وہ آزاد دنیا میں آ جاتا ہے، مگر یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ چوزے کی آزادی کیلئے اُسکی پکار اور فریاد ضروری ھے۔

لہٰذا جو لوگ اِس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے گناہ اور نفس کے خ*ل کی گرفت سے آزاد ہو جائیں گے پھر انہیں آخرت میں دائمی زندگی مل جائے گی۔ یہاں ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ اللہ اپنے گناہ گار لوگوں سے بہت پیار کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے حضور گڑگڑا کے دُعا کریں تاکہ وہ انہیں اُن کے گناہوں کے خ*لوں سے نکال کر ایمان افروز زندگی میں لے آئے، لیکن بات وہی ہے کہ گناہوں کے بخشش کیلئے اللہ کو پکارنا اور دُعا کرنا ضروری ہے۔

یقیناً جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہیں، پھر اللہ بھی انہیں صراطِ مستقیم پر لانے اور اُن کی آخرت
سنوارنے کیلئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔۔

18/01/2024

جنگ احد میں حضرت ام عمارہ اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور اپنے دو بیٹوں حضرت عمار اور حضرت عبداللہ کے ہمراہ شریک ہوئیں۔ جب کفار نے نبی اکرمۖ پر ہلہ بول دیا تو یہ آپۖ کے قریب آکر حملہ روکنے والے صحابہ کرام میں شامل ہوگئیں۔ ابن قمیہ ملعون نے نبی اکرمۖ پر تلوار کا وار کرنا چاہا تو حضرت ام عمارہ نے اپنے کندھے پر روکا جس سے بہت گہرا زخم آیا۔ان کے بیٹے حضرت عبداللہ کو ایک ایسا زخم لگا کہ خون بند نہیں ہورہا تھا۔ حضرت ام عمارہ نے اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کو باندھا اور کہا: بیٹا اٹھو اور اپنے نبیۖ کی حفاظت کرو۔ اتنے میں وہ کافر جس نے ان کو زخم لگایا تھا پھر قریب آیا۔ نبی اکرمۖ نے فرمایا: اے ام عمارہ! تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا کافر یہی ہے۔ ام عمارہ نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ گر پڑا اور وہ چل نہ سکا اور سر کے بل گھسیٹتے ہوئے بھاگا۔ نبی علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو مسکرا کر فرمایا: ام عمارہ تو خدا کا شکر ادا کر جس نے تجھے جہاد کرنے کی ہمت بخشی۔ حضرت ام عمارہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے دل کی حسرت ظاہر کی کہ حضور! آپۖ دعا فرمائیں کہ ہم لوگوں کو جنت میں بھی آپۖ کی خدمت کا موقع مل جائے۔ آپۖ نے اس وقت ان کیلئے ان کے شوہر کیلئے اور دونوں بیٹوں کیلئے دعا کی: خدایا! ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ 🎋🌴اسلامی سبق آموز واقعات🎋🌴 (مدارج النبوة )

Address

Hangu

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when اردو حکایت posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Magazines in Hangu

Show All