30/06/2024
عام طور پر اپنے کیس نہیں سناتا لیکن کل ایک کیس لڑا جسکا تعلق ایک اہم سوشل ایشو سے ہے۔
بہت سے ایسے پرائیویٹ ادارے بن چکے ہیں جس میں منشیات کے علاج کے نام پر لوگوں کو قید رکھا جاتا ہے۔۔تشدد کیا جاتا ہے
ایک بندہ ایس طرح چھ مہنیے سے زیادہ وزیرآباد میں مشیات کے علاج کے نام پر قید تھا جسکو اسکے اپنے بھائی جو کہ بیرون ملک مقیم ہے نے وزیرآباد ایک پرئیویٹ ادارے میں بند کروایا ہوا تھا۔
اڈکے دوست اسکو کہیں سے تلاش کرتے وہاں پہنچ گئے ۔پہلے تو وہ ملنے نہیں دیتے تھے ۔پھر جب انہوں نے کہا کہ ہم نے اسے ملے بغیر نہیں جانا تو اس سے انہوں نے چند منٹ ملنے کی اجازت دی معلوم پڑا کہ اصل ایشو ایک قیمتی پراپرٹی کا ہے۔ جس میں ساری فیملی ایک طرف اور یہ بھائی ایک طرف ہے۔ جسکی وجہ باقی تمام فیملی کا بڑے بھائی پر dependent ہونا ہے۔۔۔وہ بندہ دوستوں کے سامنے روپڑا اور کہا کہ پہلے مجھے لاہور سے اغوا کیا گیا ۔تین ماہ وہاں قید رکھا ور اسکے بعد یہاں لے آئے۔۔یہاں چھ مہینے سے قید ہوں۔۔بیمار پڑ چکا ہوں۔۔یہاں یہ لوگ تششدد کرتے ہیں۔۔مجھ سے واش روم صاف کرواتے ہیں۔۔میں نشہ نہیں کرتا۔۔اسکے دوستوں نے انسانی ہمدردی اور دوستی کے جذبے کی خاطر اسکے بھائی سے بات کی ۔جو کہ کچھ دیر ٹالتا رہا ور بعد میں دھمکیوں پر اتر آیا کہ آپ ہمارے گھر کے معاملے میں دخل نہ دیں۔ جس پر انہوں نے مجبور ہو کر مجھ سے رابطہ کیا۔۔میں نے اس کی 491 ضابطہ فوجداری کی پٹیشن سیشن کورٹ وزیرآباد میں دائر کی۔۔دوسری طرف سے وکیل صاحب اسکی والدہ کو لے کر آگئے۔اور ساتھ کچھ غنڈوں کو باہر کھڑا کردیا۔۔وکیل صاحب نے ایموشنل بلیک میلنگ کی کوشش کی کہ یہ لوگ یعنی ہم اسکی ماں سے زیادہ ہمدرد کیسے ہو سکتے ہیں۔۔لہزا یہ غیر متعلقہ لوگ ہیں انکی پٹیشن کو خارج کیا جائے۔۔ میں نے جج صاحب سے عرض کیا کہ حبس بے جا کی پٹیشن تو کوئی بھی کر سکتا ہے اور یہ دوست تو زیادہ تعریف کے مستحق ہیں جنہوں نے اہنے دوست کی خاطر تمام خطرات کو مول لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے ہر حال میں اپنے دوست کی مدد کرنی ہے۔ دوسرا liberty of person ایک بنیادی حق ہے جو آئین پاکستان میں دیا گیا ہے۔۔اگر یہ شخص منشیات کا عادی بھی ہو تب بھی اسکی مرضی کے بغیر اسے ایک منٹ کہیں نہیں رکھا جا سکتا۔۔یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔۔جج صاحب نے اسکا فوری پروڈکشن آرڈر فرمایا اور اس کا تفصیلی انٹٹرویو لینے کے بعد موقع پر رہائی کا آرڈر جاری کیا۔۔ لیکن رہائی ملنے کے فورا بعد اسکے بھائی نے اپروچ کر کے کل ہی اس پر شراب کا ایک جھوٹا کیس ڈلوا کر اسے اندر کروا دیا۔۔اب ہم اگلی لڑائی کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ مقصد ایک اہم نقطے پر توجہ مبذول کروانا تھا بلکہ اس پر مجھے وقت ملا تو ہائی کورٹ بھی ایک پٹیشن دائر کروں گا کہ یہ ادارے کس اتھارٹی سے لوگوں کو محبوس کرتے اور ان سے بیگار لیتے ہیں۔۔دوسرا ایک عام تاثر کہ یہاں کوئی انصاف نہیں یہ بھی مکمل درست بات نہیں ہے۔۔ ایک بااثر اور طاقتور پارٹی کے مقابلے میں جج صاحب نے صرف دو دن میں ہمیں انصاف مہیا کیا۔۔اگرچہ خرابیاں بھی بہت ہیں لیکن انکو ہم سب ںے مل کر ہی درست کرنا ہے۔
Weldone syed wasiq ali advocate