25/02/2022
نذیر احمد غازی اور تحفظ ختم نبوت کے گمنام مجاھدین
مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ مولانا زاہدالراشدی کے روزنامہ اوصاف اسلام آباد،19اگست1999ءمیں شائع ہونیوالےمضمون میں سے ایک اقتباس۔
برمنگھم کی مرکزی جامع مسجد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس حاضری کے اعتبار سے سب سے بڑی کانفرنس ہوتی ہے اور مختلف ممالک سے علماء کرام کی نمائندگی کے حوالہ سے بھی بھرپور ہوتی ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے کہ اس کانفرنس میں راقم الحروف نے اپنے خطاب میں انسانی حقوق کے عنوان سے قادیانیوں کی تگ و دو کا پس منظر اور اس کی کچھ تفصیلات بیان کیں اور پنجاب کے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نذیر احمد غازی نے انگلش میں قادیانیت کے تاریخی پس منظر اور اس سے متعلقہ کچھ امور پر گفتگو کی تو کانفرنس کے بعد جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے ایک نوجوان نے مجھے روک لیا اور کہا کہ راشدی صاحب! ہم صبح دس بجے سے شام سات بجے تک خطبات سنتے رہے ہیں مگر ان میں صرف آپ کی بات کچھ سمجھ میں آئی ہے یا نذیر غازی صاحب کی گفتگو ہم سمجھ پائے ہیں۔
ورنہ سارا دن صرف ثواب کی خاطر بیٹھے رہے ہیں ہمارے پلے کچھ نہیں پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح مارچ 1989ء،قادیانیوں کے جشن صدسالہ پر پابندی کے ضمن میں مرزائیوں کے جواب الجواب کا جب مرحلہ آیا تو قدرت نے جناب نذیر احمد غازی صاحب اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو توفیق دی۔ ان کے رفقاء و متوسلین جناب پروفیسر سید قمر علی زیدی‘ جناب پروفیسر ملک خالق داد‘ جناب مسعود ایڈووکیٹ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ محترم مولانا اللہ وسایا اور محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب نے پوری رات جاگ کر جواب الجواب تیار کیا۔ غازی نذیر احمد عدالت میں پیش ہوئے اور گھنٹوں دلائل و براہین کے ساتھ نپے تلے انداز میں مرزائیوں کا جواب الجواب دیا تو عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ مرزائیت پر اوس پڑ گئی۔ ان کے چہرے ان کے دلوں کی طرح سیاہ ہو گئے اور مورخہ 22 مئی 1991ء کو سماعت مکمل ہو گئی۔ عالی جناب عزت مآب جسٹس خلیل الرحمن صاحب نے مورخہ 17 ستمبر 1991ء کو قادیانیوں کی رٹ خارج کری۔فیصلہ سنتے ہی جھوٹی نبوت کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔*