19/11/2020
ویلڈن آغا ارسلان درانی ایڈووکیٹ صاحب ویلڈن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بر ریمانڈ جوڈیشل ملزمان کے قتل کا معاملہ ۔ ناقص پولیس سیکیورٹی۔ یا ملی بھگت ۔۔۔؟
_________________________
آغا ارسلان خان درانی ایڈووکیٹ ھائیکورٹ
شنیدم آے دن جیل سے حوالاتی و قیدی اسیران زیر حراست پولیس قتل کئے جو تھے ھیں ۔
وجوہات پہلی بات ناقص پولیس سیکیورٹی غفلت لاپروائی یا ملی بھگت
دوسری بات حملہ آوروں کا زور آور ھونا
تیسری بات افسران بالا کی ناقص نگرانی
چوتھی بات سب کچھ دیکھتے ھوئے بھی آنکھیں بند رکھنا ۔
پانچویں بات ماتحتاں آدمی کی بلاوجہ سرزنش کرنا
چھٹی بات sop کی عدم موجودگی
ساتویں بات بار بار جوڈیشل حوالات بخشی خانہ پر سابقہ ملازمین کی تعیناتی
تفصیلات کے مطابق آج پھر نوشہرہ ورکاں کچہری میں ایک ایسا واقعہ سرزد ھوا ھے اس میں ھونا کیا ھے ملزم گرفتار مقدمہ درج بس ۔ چار دن سختی ملزمان کی ملاقاتیں روٹی بند ایک ھفتہ بعد پھر سے وھی روٹین ۔
افسران dsp/HQ. SSP/HQ اس بات کے ذمہ دار ھیں کہ ان کی نگرانی میں یقینی کمی رھی ھے جو یہ واقعات آے روز ھو گئے ھیں کوئی SOP مرتب نہ کیا گیا ھے کوئی نگرانی نہ ھے دوبارہ دوبارہ وھی ملازمین بخشی خانہ پر تعینات کیوں کئے جاتے ھیں مین گیٹس پر گاردات موجود مگر تلاشی نہیں لی جاتی کوئی بھی کالا کوٹ پہن کر موٹر سائیکل کے میٹر پر ADVOCATE لکھ کر داخل ھو سکتا ھے ۔ کاریں سیدھی اندر جاتی ھے چاھے بم لے کر چلے جائیں ۔ اس میں ھماری وکلاء برادری کا بھی عدم تعاون شامل ھے ۔ کوئی وکیل اپنی تلاشی دینا اپنی توہین سمجھتا ھے ۔ دوسری طرف ASI رینک کے افسر وکلاء کے آگے بولتے نہیں بھیگی بلی بن جاتے ھیں جہاں کم از کم DSP رینک کا افسر تعینات ھونا چاھئے جو وکلاء سے بات کر سکے ۔ سیشن جج صدر بار اور CPO کو میٹنگ کر کر وکلاء کی تلاشی لینے کا طریقہ کار بنانا چاھئے جس میں وکلا کی بھی عزت کا خیال رکھا جاے اور سیکیورٹی بھی فول پروف ھو ۔ گاردات سے تبادلہ کرتے وقت سابقہ تعینات اھکاران ھر گز نہ لگا ے جائیں کیونکہ ملزمان اور پولیس اہلکار دوست بن جاتے ھیں ۔ ۔ موبائیل فون سروس کو یقینی بند کریں 500/500 میں بخشی خانہ میں PCO چل رھے ھیں ۔ انچارج بخشی خانہ کم از کم انسپیکٹر رینک کا لگایا جاے ۔ کرپٹ کردار کے افسران نہ لگا ے جائیں ۔ جب ملزمان عادلتوں کے زیر سماعت ھیں پھر عوام خود فیصلہ کیوں کر ے ۔